Tag: research

  • رات بھر نیند نہ آنا کس بیماری کی علامت ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    رات بھر نیند نہ آنا کس بیماری کی علامت ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    نیند کے مسائل یا بے خوابی ایک عام سی بیماری ہے، اس کی وجہ سے اگلے دن کے معمولات متاثر ہوتے اور کام کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور کاموں میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ عام طور پر ایک شخص کی صحت کے لیے روزانہ 7سے8 گھنٹے نیند کرنا کافی ہے، بہت سے افراد میں اچانک، شدید یا قلیل المدتی بےخوابی ہوتی ہے جو کئی دن یا ہفتوں تک رہتی ہے۔

    امریکی محقق کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کھانے کے مسائل میں مبتلا افراد عموماً بے خوابی کا شکار ہوتے ہیں اور وہ صبح جلدی نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں۔

    Anorexia

    میساچوسیٹس جنرل ہاسپٹل سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے سینئر مصنف حسن دشتی کے مطابق تحقیق کے نتائج اینوریکسیا نرووسا (کھانے کے مسائل) کو صبح کی بیماری کے طور پر بتاتے ہیں اور ماضی میں کیے جانے والے مطالعوں میں اس مسئلے اور بے خوابی کے درمیان پائے جانے والے تعلق کی تصدیق کرتے ہیں۔

    ماضی کی تحقیق میں کھانے کے مسائل اور جسم کی اندرونی گھڑی (سرکاڈین کلاک) کے درمیان ممکنہ تعلق کے حوالے سے بتایا گیا تھا، یہ گھڑی وسیع پیمانے پر حیاتیاتی افعال (جیسے کہ نیند) پر قابو رکھتی ہے اور تقریباً جسم کے ہر عضو کو متاثر کرتی ہے۔

    Sleep

    اس نئی تحقیق میں محققین نے اینویکسیا سے تعلق رکھنے والے جینز، جسم کی اندرونی گھڑی اور بے خوابی جیسے نیند کے رویوں کا مطالعہ کیا۔ جس میں جینز کا اینوریکسیا اور مارننگ کرونوٹائپ (صبح جلدی اٹھنے اور رات کو جلدی سونے کے عمل ) کے ساتھ دو طرفہ تعلق دیکھا گیا۔

    نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ صبح جلدی اٹھنا اینوریکسیا کے خطرات میں اضافہ کرسکتا ہے اور اینوریکسیا میں مبتلا ہونا صبح جلدی اٹھنے کا سبب ہوسکتا ہے۔ تاہم تحقیق میں صبح جلدی اٹھنے والوں کے وقت کا تعین نہیں کیا گیا بلکہ بتایا گیا کہ وہ عام لوگوں کی مقابلے میں قدرتی طور پر جلدی اٹھنے والے ہوسکتے ہیں۔

  • سورج کی روشنی کا بینائی سے کیا تعلق ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    سورج کی روشنی کا بینائی سے کیا تعلق ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    انسان کی صحت کیلئے وٹامنز بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اگر جسم کو مطلوبہ مقدار میں وٹامنز میسر نہ ہوں تو صحت کے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔

    ان وٹامنز میں ایک وٹامن ڈی بھی ہے جو زیادہ تر ہمیں سورج کی روشنی سے حاصل ہوتا ہے اور جسم میں اس کی کمی صحت کے متعدد مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔ ،

    تاہم ایک نئی تحقیق میں اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی ہماری بینائی کے لیے بھی خطرات پیدا کرسکتی ہے۔

    طیی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہےکہ وٹامن ڈی کی کمی سے جہاں دیگر مسائل ہوسکتے ہیں، وہیں آنکھوں کی بیماری میکولر ڈجنریشن (macular degeneration)بھی ہوسکتی ہے۔

    مذکورہ بیماری اگرچہ زائد العمری میں عام ہوتی ہے، تاہم اس سے وٹامن ڈی کی وجہ سے ادھیڑ عمر اور یہاں تک کے نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس مسئلے کے دوران متاثرہ شخص کا وژن یا ںظر بلر ہوجاتی ہے، اسے تمام چیزیں غیر واضح یا دھندلی دکھائی دیتی ہیں اور مذکورہ مسئلہ مسلسل رہنے سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    اگرچہ میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس کا کوئی مستند علاج بھی دستیاب نہیں، تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہے اور متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وٹامن ڈی کی اچھی مقدار اس بیماری سے بچا سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار سے میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) بیماری کو ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری ہوسکتی ہے۔

    علاوہ ازیں میکولر ڈجنریشن (macular degeneration) دیگر وٹامنز جن میں وٹامن ای، وٹامن اے، زنک، وٹامن سی، کوپر اور لیوٹین کی کمی سے بھی ہوسکتی ہے، تاہم وٹامن ڈی کی کمی سے اس کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

    عام طور پر وٹامن ڈی کو انسانی جسم سورج کے درجہ حرارت سے حاصل کرتا ہے لیکن اس باوجود جسم کو وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، اس لیے ماہرین صحت وٹامن ڈی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانے سمیت وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی سے بھرپور سپلیمنٹس میں ایکٹو وٹامن ڈی ہوتی ہے جو کہ اس کی کمی کو فوری طور پر مکمل کرنے میں مددگا ثابت ہوتی ہیں۔

  • چکنائی صحت کیلئے کتنی مفید ہے؟

    چکنائی صحت کیلئے کتنی مفید ہے؟

    کسی بھی بیماری سے لڑنے اور بچنے کا بہترین طریقہ اپنے طرز زندگی کو بہتر بنانا ہے، اس کیلئے اچھی غذا کا انتخاب بھی بہت اہمیت رکھتا ہے جس میں چکنائی بھی شامل ہیں۔

    اب تک یہ خیال کیا جاتا رہا کہ چکنائی یا چربی صحت کے لیے مضر ہوسکتی ہے تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں اس حوالے سے مختلف نتائج سامنے آئے ہیں۔

    جی ہاں !! چکنائی ہماری صحت کیلئے اہم ہے لیکن اس کو مقدار اور تناسب کا خیال رکھتے ہوئے اپنے روز مرہ کے کھانوں میں استعمال کرنا چاہیے۔

    امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے سائنٹیفک سیشنز 2021 میں پیش کیے گئے ایک تحقیق کے نتائج میں کہا گیا کہ چکنائی دو ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے پہلا جانوروں کا گوشت اور دوسرا پودوں سے حاصل ہونے والی چکنائی۔

    نباتاتی ذرائع سے حاصل کی گئی چکنائی جیسے زیتون، کینولا، سورج مکھی کا تیل، گریاں اور بیج فالج جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سرخ گوشت یا حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی سے فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مختلف غذائی ذرائع سے حاصل چکنائی کی اقسام دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول فالج کی روک تھام کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چکنائی کی 2 بنیادی اقسام ہے ایک حیوانی ذرائع اور دوسری پودوں سے حاصل ہونے والی چکنائی، دونوں کے درمیان مالیکیولر لیول کا فرق بڑا فرق پیدا کرتا ہے، حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی میں ان کاربن ایٹمز کے درمیان تعلق کی کمی ہوتی ہے جو فیٹی ایسڈز کو جوڑتے ہیں اس تحقیق میں ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    یہ تمام افراد تحقیق کے آغاز پر امراض قلب سے محفوظ تھے، ان افراد سے ہر 4 سال بعد غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھروائے گئے۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 16 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح جو لوگ ویجیٹیبل چکنائی کازیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ 12 فیصد تک کم ہوجاتا ہے، دودھ سے بنی مصنوعات جیسے پنیر، مکھن، دودھ، آئسکریم اور کریم فالج کا خطرہ بڑھانے سے منسلک نہیں۔

    سرخ گوشت زیادہ کھانے والے افراد میں فالج کا خطرہ 8 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جبکہ جو لوگ پراسیس سرخ گوشت کھاتے ہیں ان میں یہ خطرہ 12 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول فالج اور موٹاپا سرخ گوشت زیادہ کھانے سے جڑے ہوتے ہیں، جس کی وجہ اس میں چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہے، جو کولیسٹرول کی سطح بڑھانے اور شریانوں کے بلاک ہونے کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نباتاتی ذرائع سے حاصل چکنائی دل کی صحت کے لیے بہترین ہے، کیونکہ اس میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں جو جسم خود نہیں بناسکتا، یہ چکنائی ورم اور کولیسٹرول کو کم کرتی ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • کام کے دوران پانچ منٹ کا وقفہ لینا کتنا ضروری ہے؟

    کام کے دوران پانچ منٹ کا وقفہ لینا کتنا ضروری ہے؟

    سڈنی : آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دوران ملازمت کام کرتے ہوئے دماغ کو پانچ منٹ کا وقفہ دینا ضروری ہے کیونکہ اس عمل سے کارکردگی نمایاں بہتری سامنے آتی ہے۔

    یونیورسٹی آف سِڈنی میں کیے جانے والے تجربے میں 72 طلباء و طالبات نے خود سے ایک سبق پڑھا اور دو ذہنی طور پر انتہائی تھکا دینے والے ٹیسٹ دیے۔

    تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ کام کے درمیان دماغ کو پانچ منٹ کا وقفہ دینے سے کارکردگی اور بارآوری میں 50 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

    وہ طلبا جن کو ان آزمائشوں کے درمیان پانچ منٹ کا وقفہ لینے کی اجازت تھی انہوں نے دوسرے ٹیسٹ میں ان طلبا سے جنہوں نے کوئی وقفہ نہیں لیا تھا،ان سے اوسطاً 57 نمبر زیادہ حاصل کیے۔

    وقفہ لینے والے کچھ طلباء نے وقفے کے دوران کچھ نہیں کیا جبکہ دیگرکو قدرتی مناظر کی پُرسکون ویڈیو دِکھائی گئی لیکن دونوں گروہوں نے دوسرے ٹیسٹ میں اپنے ان ساتھیوں سے بہتر کارکردگی دِکھائی جن کو وقفہ نہیں ملا تھا۔

  • دوپہر میں سونے والے خبردار

    دوپہر میں سونے والے خبردار

    اکثر افراد کو دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولے یعنی سونے کی عادت ہوتی ہے اور اب تک اسے دماغی صحت کے لیے بہترین قرار دیا جارہا تھا، تاہم اب حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے دوپہر میں سونے والوں کو خبردار کیا ہے۔

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ روزانہ 30 منٹ یا اس سے زیادہ وقت تک قیلولہ کرنے سے دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کے عارضے سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    تحقیق میں 20 ہزار سے زائد ایسے افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا جو مکمل صحت مند تھے۔

    ان افراد سے ہر 2 سال میں ایک بار سوالنامہ بھروایا گیا اور دوپہر کی نیند کے دورانیے کو پیش نظر رکھتے ہوئے 3 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جو دوپہر کو سوتے نہیں تھے، دوسرا 30 منٹ سے کم جبکہ تیسرا 30 منٹ سے زیادہ سونے والے افراد کا تھا۔

    تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ دوپہر کو 30 منٹ یا اس سے زائد وقت تک سونے والے افراد میں دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے، البتہ دوپہر میں چند منٹ کا قیلولہ کرنے والوں میں یہ خطرہ کم ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دوپہر کی نیند کا بہترین وقت 15 سے 30 منٹ کے درمیان ہوتا ہے، 30 منٹ سے کم وقت تک دوپہر کو سونے والے افراد میں دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کا خطرہ 56 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

  • مستقبل میں زیر زمین پانی کی دستیابی: اوکاڑہ میں سائنسی تحقیق کا آغاز

    لاہور: صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں زیر زمین پانی کے استعمال اور مستقبل میں اس کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے سائنسی تحقیق کا آغاز کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ پاکستان نے ضلع اوکاڑہ میں ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا جس کا مقصد پانی کے موجودہ استعمال اور مستقبل میں اس کی یقینی دستیابی کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔

    ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ماہر ماحولیات ڈاکٹر محسن حفیظ کا کہنا تھا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کی مالی معاونت سے ہمارا ادارہ آبی قوانین اور پالیسیوں کے بہتر عمل درآمد کو یقینی بنا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فی الحال ضلع اوکاڑہ مں زیر زمین آبی ذخائر اور مستقبل میں اس کی یقینی دستیابی کے لیے مختلف سائنسی تحقیقات اور تجربات کا آغاز کیا گیا ہے، ان تجربات کی روشنی میں پورے پنجاب میں آبی پالیسیوں کے بہتر درآمد میں مدد ملے گی۔

    ماحول اور جینڈر اسپیشلسٹ کنول وقار کا کہنا تھا کہ آبی معامات میں خواتین، نوجوانوں اور معاشرے کے محروم طبقات کی شمولیت بے ضروری ہے۔

    ورکشاپ میں مختلف آبی چیلنجز اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملیوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

  • کورونا سے محفوظ رہنے والے لوگوں میں کیا خصوصیات ہیں؟

    کورونا سے محفوظ رہنے والے لوگوں میں کیا خصوصیات ہیں؟

    دنیا میں کورونا وبا کو آئے ہوئے تقریباً تین سال ہوچکے ہیں جس نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو اس وبا سے مکمل طور محفوظ رہی۔

    دنیا بھر کے ماہرین ایک ایسی منفرد تحقیق میں مصروف ہیں جس کے ذریعے وہ یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ بعض لوگ تاحال کورونا کا شکار نہیں بنے؟

    امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نیویارک اور واشنگٹن کی امریکی یونیورسٹی کے ماہرین متعدد ممالک کے ماہرین کے ہمراہ ایک ایسی عالمی تحقیق کر رہے ہیں، جس کے ذریعے وہ انسانوں میں ایک خصوصی طرح کی جین دریافت کرنا چاہتے ہیں۔

    ماہرین اس بات کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے تاحال دنیا بھر کے بعض لوگ کورونا جیسی وبا سے محفوظ ہیں؟

    مذکورہ تحقیق کے لیے دنیا بھر سے 700 افراد نے خود کو رجسٹر کروالیا ہے جب کہ ماہرین مزید 5 ہزار افراد کی اسکریننگ اور تفتیش کرنے میں مصروف ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اب تک سامنے آنے والی معلومات سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر کورونا سے تاحال محفوظ رہنے والے خوش قسمت لوگ احتیاط کرنے سمیت بر وقت حفاظتی اقدامات کرتے ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جنہوں نے کورونا کے آغاز سے اب تک فیس ماسک کا استعمال کیا اور انہوں نے بھیڑ میں جانے سے گریز کرنے سمیت خود کو محدود رکھا اور ساتھ ہی انہوں نے کورونا ویکسینز اور بوسٹر ڈوز لگوائے وہ تاحال کورونا سے بچے ہوئے ہیں۔

    ساتھ ہی ماہرین نے بتایا کہ تاہم بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مکمل اہتمام کے ساتھ فیس ماسک بھی استعمال نہیں کیا لیکن اس باوجود وہ کورونا سے محفوظ رہے۔

    ماہرین کے مطابق اب تک کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ گزشتہ دو سال سے کورونا سے بچے ہوئے ہیں، ان کا مدافعتی نظام بھی مضبوط ہوگا اور ان میں اینٹی باڈیز کی سطح پرعام افراد کے مقابلے زیادہ ہوگی۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ تاحال کورونا سے محفوظ رہنے والے خوش قسمت افراد کی ناک، پھیپھڑوں اور گلے میں وہ خلیات انتہائی کم ہوں گے جو کسی بھی وائرس یا انفیکشن سے متاثر ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ طور پر اب تک کورونا سے محفوظ رہنے والے افراد میں خصوصی طرح کی جین ہوگی جو انہیں وائرس اور انفیکشنز سے محفوظ رکھتی ہوگی اور اس بات کا علم لگانا سب سے اہم ہے کیوں کہ اس سے مستقبل میں بیماریوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔

    ماہرین نے خصوصی طور پر امریکا میں تاحال کورونا کا شکار نہ ہونے والے افراد پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو خوش قسمت قرار دیا کیوں کہ متعدد تحقیقات کے مطابق وہاں کی 60 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہوچکی ہے۔

  • کافی پیجیئے !! دل کو توانا رکھیے

    کافی پیجیئے !! دل کو توانا رکھیے

    سڈنی : آسٹریلیا میں ہونے والی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کافی پینے کی عادت دل کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے مفید ہے۔

    اس حوالے سے میلبورن یونیورسٹی اور موناش یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ روزانہ 2 سے 3 کپ کافی پینے سے امراض قلب، ہارٹ فیلیئر یا دل کے ردھم کے مسائل سمیت کسی بھی وجہ سے قبل از وقت موت کا خطرہ 15 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    یہ بنیادی طور پر 3 تحقیقی رپورٹس کے نتائج ہیں جس کے لیے محققین نے یوکے بائیو بینک کے ڈیٹا کو استعمال کیا۔

    اس ڈیٹا میں 5 لاکھ سے زیادہ افراد کی صحت کا جائزہ کم از کم 10 سال تک لیا گیا تھا، ان افراد نے جب تحقیق میں شمولیت اختیار کی تھی تو ان کے کافی پینے کی مقدار کو بھی جانا گیا تھا۔

    اب نئی تحقیق میں کافی پینے کی عادت اور دل کے مختلف امراض کے خطرے میں اضافے یا کمی کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

    پہلی تحقیق میں3 لاکھ 82 ہزار سے زیادہ افراد پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جو امراض قلب کا شکار نہیں تھے اور ان کی اوسط عمر57 سال تھی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جو افراد روزانہ 2 سے 3 کپ کافی پینے کے عادی ہوتے ہیں ان میں بعد کی زندگی میں امراض قلب میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق جو افراد دن بھر میں صرف ایک کپ کافی بھی پی لیتے ہیں ان میں بھی فالج یا دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    دوسری تحقیق میں مختلف اقسام کی کافی سے صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کسی بھی قسم کی کافی کے روزانہ 2 سے 3 کپ پینے سے امراض قلب کا امکان کم ہوتا ہے۔

    تیسری تحقیق میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو پہلے ہی دھڑکن کی بے ترتیبی یا کسی اور دل کی بیماری سے متاثر تھے۔

    اس تحقیق کے نتائج میں دریافت کیا گیا کہ کافی کے استعمال سے دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی کا خطرہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ ایسے مریضوں کا روزانہ ایک کپ کافی پینا قبل از وقت کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    تینوں تحقیقی رپورٹس کے نتائج اپریل کے آغاز میں امریکن کالج آف کارڈیالوجی کے71 ویں سائنٹیفک سیشن کے دوران پیش کیے جائیں گے۔

  • کورونا وائرس کن چیزوں پر زیادہ عرصے زندہ رہ سکتا ہے، تحقیق

    کورونا وائرس کن چیزوں پر زیادہ عرصے زندہ رہ سکتا ہے، تحقیق

    کورونا وائرس کی تیسری قسم اومیکرون قسم مختلف اشیاء کی سطح جیسے پلاسٹک، کاغذ اور جلد پر کورونا وائرس کی اولین قسم (جو سب سے پہلے ووہان میں سامنے آئی تھی) کے مقابلے میں دگنا زیادہ زندہ رہ سکتا ہے۔

    یہ بات دو طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آئی جس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ اومیکرون قسم اتنی زیادہ متعدی کیوں ہے۔

    مگر ماہرین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زیادہ فکرمند مت ہوں، ہوسکتا ہے کہ اومیکرون سطح پر زیادہ عرصے زندہ رہتا ہے مگر متاثرہ فرد کے منہ سے خارج ہونے والے ذرات سے بیمار ہونے کا خطرہ سطح کی آلودگی سے زیادہ ہوتا ہے۔

    پہلی تحقیق جاپان کے ماہرین کی تھی جس میں کورونا وائرس کی تمام اہم اقسام کو لے کر لیبارٹری میں تجربات کیے گئے۔

    انہوں نے ان اقسام کو پلاسٹک اور مردہ انسانوں کی جلد پر پھیلایا اور پھر ان نمونوں کو گرم ہوا میں رکھا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ پلاسٹک پر وائرس کی اوریجنل قسم 56 گھنٹے تک زندہ رہی، جبکہ ایلفا، بیٹا، ڈیلٹا اور اومیکرون کا دورانیہ اوریجنل کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ تھا مگر اومیکرون قسم 8 دن یا 193 گھنٹوں تک پلاسٹک پر زندہ رہی۔

    اس کے مقابلے میں جلد پر وائرس کی اوریجنل قسم کو 8 گھنٹوں تک دریافت کای گیا جبکہ دیگر اقسام کم از کم دگنا زیادہ وقت تک زندہ رہیں۔ اومیکرون قسم کو 21 گھنٹوں کے بعد بھی جلد پر دریافت کیا گیا۔

    دوسری تحقیق ہانگ کانگ کے محققین کی تھی جس میں وائرس کی اصل قسم اور اومیکرون کے نمونوں کو اسٹیل، پلاسٹک، گلاس اور کاغذ پر پھیلایا گیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ وائرس کی اوریجنل قسم اسٹیل اور پلاسٹک میں 2 دن، جبکہ گلاس پر 4 دن تک زندہ رہی۔

    مگر اومیکرون قسم کو ان اشیا کی سطح پر 7 دن بعد بھی دریافت کیا گیا جبکہ ٹشو اور پرنٹر پیپر پر بھی یہ طویل عرصے تک زندہ رہی۔

    محققین نے بتایا کہ اومیکرون کے پھیلاؤ کا بنیادی ذریعہ متاثرہ افراد کے زیادہ قریب رہنا اور ہوا میں موجود ذرات ہوتے ہیں، ہم نے یہ تحقیق بس اس مقصد کے لیے کی تاکہ لوگ ہاتھوں اور اشیا کی صفائی پر بھی توجہ مرکوز کرین۔

    انہوں نے کہا کہ اشیا جیسے دروازے کے ہینڈل، ہینڈ ریل، لفٹ کے بٹن وغیرہ کو متعدد افراد چھوتے ہیں اور اسی لیے ان کی صفائی کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی جانی چاہیے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اومیکرون کی بی اے 1 قسم پر کام کیا تھا اور ان نتائج کا اطلاق ضروری نہیں اس کی نئی قسم بی اے 2 پر بھی ہو۔

    یہ تحقیقی رپورٹس ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئیں بلکہ انہیں پری پرنٹ سرور پر جاری کیا گیا۔

  • چینی ویکسین "سائنو ویک” لگوانے والوں کیلئے بڑی خبر

    چینی ویکسین "سائنو ویک” لگوانے والوں کیلئے بڑی خبر

    چلی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چینی کمپنی کی تیار کردہ سائنوویک ویکسین 3سے 5 سال تک کے بچوں کو کوویڈ کے سنگین اثرات سے بچانے کیلئے مؤثر ہے۔

    تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا کہ چلی میں اومیکرون کی لہر کے دوران اس ویکسین کے استعمال سے 3 سے 5 سال کی عمر کے بچوں کو کووڈ سے متاثر ہونے، بیماری سے متاثر ہونے پر ہسپتال اور آئی سی یو میں داخلے کے خطرے سے نمایاں تحفظ ملا۔

    تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ 3 سے 5 سال کے بچوں کو سائنو ویک ویکسین سے کوویڈ کے شکار ہونے سے 38.2 فیصد، ہسپتال میں داخلے کے خطرے سے 64.6 فیصد اور آئی سی یو میں داخلے سے بچاؤ میں 69 فیصد تحفظ ملا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ بیماری کے شکار ہونے سے ملنے والا تحفظ بہت زیادہ نہیں تھا مگر شدید بیماری سے بچاؤ کے خلاف ملنے والا تحفظ بہت زیادہ تھا۔

    سائنو ویک نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ یہ دنیا میں 3 سے 5 سال کی عمر کے بچوں میں نئی ان ایکٹیو ویکسین کے اثرات کا پہلا شائع ہونے والا ڈیٹا ہے۔

    چلی کی وزارت صحت کے زیرتحت ہونے والی تحقیق میں 6 دسمبر 2021 سے 26 فروری تک کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی اور وہاں پھیلنے والی اومیکرون پر توجہ مرکوز کی گئی۔

    محققین نے کہا کہ وہ ویکسین کی موت سے بچانے کے لیے افادیت کا تخمینہ اس لیے نہیں لگاسکے کیونکہ ویکسینیشن نہ کرانے والے گروپ میں اس عرصے کے دوران صرف 2 اموات ہوئیں۔

    چلی میں 6 دسمبر 2021 کو 3 سے 5 سال کی عمر کے بچوں کی ویکسینیشن شروع ہوئی تھی۔ اومیکرون کی لہر کے دوران چلی میں کووڈ کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا جبکہ بچوں کے ہسپتالوں میں داخلے کی شرح بھی بڑھ گئی۔

    اس تحقیق میں 4 لاکھ 90 ہزار سے زیادہ بچوں میں ویکسین کی 2 خوراکوں کی افادیت کو دیکھا گیا تھا۔

    اس سے قبل چلی میں 6 سے 16 سال کی عمر کے بچوں پر ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ سائنو ویک ویکسین سے بیماری سے بچنے میں 74.5 فیصد، ہسپتال میں داخلے سے 91 فیصد جبکہ آئی سی یو میں داخلے سے 93.8 فیصد تک تحفظ ملا۔

    سائنو ویک کے مطابق چلی کے نتائج اور عالمی سطح پر 3 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں میں اس ویکسین کی 26 کروڑ خوراکوں کے استعمال سے اس کے محفوظ ہونے اور افادیت کی تصدیق ہوتی ہے۔

    کمپنی کے مطابق بالخصوص یہ بہت زیادہ بیمار ہونے اور ہسپتال میں داخلے کے خطرے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے۔