Tag: research

  • روزانہ کتنے قدم چلنا خطرناک بیماریوں سے بچا سکتا ہے؟

    روزانہ کتنے قدم چلنا خطرناک بیماریوں سے بچا سکتا ہے؟

    پیدل چلنا صحت مند رہنے اور موت کا سبب بننے والی بے شمار بیماریوں سے بچانے کے لیے فائدہ مند ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے قدموں کی تعداد کا بھی اندازہ لگایا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت مند رہنے کے لیے 6 ہزار قدم چلنا کافی ہے۔

    امریکی ماہرین کے مطابق روزانہ 6 ہزار سے 8 ہزار قدم چلنا 60 سال کی عمر سے زیادہ کے لوگوں میں جلدی موت کے امکانات کو 54 فیصد تک کم کردیتا ہے، ہر روز 8 ہزار سے زائد قدم چلنے کے کوئی اضافی فوائد نہیں ہیں۔

    یونیورسٹی آف میسا چوسٹس کی ٹیم نے 15 مطالعوں کے نتائج پر نظر ثانی کی، جن میں روزمرہ کے چلے جانے والے قدم کے موت پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کیا گیا۔ ماہرین نے یہ تحقیق 4 برِاعظموں کے 50 ہزار افراد پر کی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پیدل چلنا موت کے خطرات میں کمی کے لیے اہم تھا اور چلنے کی رفتار کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

    تحقیق کی رہنما مصنف ڈاکٹر امانڈا پیلوچ کا کہنا ہے کہ تحقیق میں دیکھا گیا کہ جیسے جیسے قدموں کی تعداد بڑھی، خطرات میں کمی میں اضافہ ہوا، دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق میں ہر روز قدموں کی تعداد کے علاوہ چلنے کی رفتار کے ساتھ کوئی واضح تعلق نہیں پایا گیا۔

    تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ 60 سال سے کم عمر لوگوں کو روزانہ 8 ہزار قدم چلنے چاہیئں تاکہ قبل از وقت موت کے خطرے سے بچ سکیں۔

  • ویکسی نیشن کے بعد ورزش نہ کی تو کیا نقصان ہوگا ؟ جانیے

    ویکسی نیشن کے بعد ورزش نہ کی تو کیا نقصان ہوگا ؟ جانیے

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ورزش نہ صرف ہمیں جسمانی طور پر فٹ رکھتی ہے بلکہ کووڈ ویکسینز لگوانے کے بعد اس کی افادیت کو بھی زیادہ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

    آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ورزش کرنے کی عادت فلو اور کووڈ 19 ویکسینز کے استعمال کے بعد ان کے اینٹی باڈی ردعمل کو بڑھاتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ویکسینیشن کے بعد ورزش کرنے سے مضر اثرات کی شدت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ تحقیق میں ویکسینشن کرانے کے فوری بعد 90 منٹ تک ورزش کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ورزش کے نتیجے میں ویکسینشن کے 4 ہفتوں بعد سیرم اینتی باڈی کا تسلسل بڑھ گیا۔ اسی طرح جو بالغ افراد ورزش کو معمول کے مطابق جاری رکھتے ہیں ان میں فلو یا کووڈ ویکسین کا اینٹی باڈی ردعمل بھی بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل لگ بھگ 50 فیصد افراد موٹاپے یا زیادہ جسمانی وزن کے حامل تھے مگر ورزش کے دوران انہوں نے دھڑکن کی رفتار صحت مند سطح پر برقرار رکھی۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہوئے۔

    درحقیقت ورزش کرنے کی عادت صرف ویکسینز کی افادیت میں ہی اضافہ نہیں کرتی بلکہ ویکسینیشن نہ کرانے پر بھی کوویڈ سے کسی حد تک تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    گزشتہ سال مئی2021 میں کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو ڈیلا لانا اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کارڈیو ریسیپٹری (دل اور تنفس کے نظام) فٹنس کوویڈ19 سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ تحقیق میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ جسمانی طور پر فٹ افراد میں کوویڈ19 سے موت کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج میں ایک اور زبردست بات یہ سامنے آئی کہ ایسے تمام افراد جو جسمانی طور پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں انہیں کوویڈ سے زیادہ بہتر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل پلوس ون میں شائع تحقیق کے دوران یوکے بائیو بینک اسٹڈی کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جس میں 2690 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں ساری توجہ اس بات پر دی گئی ہے کہ کووڈ سے متاثر ہونے اور موت کا خطرہ جسمانی فٹنس سے کس حد تک کم ہوسکتا ہے۔

    محققین نے جسمانی فٹنس اور کووڈ سے متاثر ہونے کے خطرے کے درمیان تو کوئی نمایاں تعلق دریافت نہیں کیا، تاہم موت کے خطرے میں کمی واضح تھی۔

    تحقیق میں شامل افراد کی عمریں 49 سے 80 سال کے درمیان تھیں اور ڈیٹا میں ان افراد کی فٹنس کی درجہ بندی بھی کی گئی تھی۔ محققین نے دریافت کیا کہ معتدل ورزش سے بھی کووڈ سے موت کے خطرے میں کمی آجاتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عمر کے ساتھ جسمانی سرگرمیاں کم ہوجاتی ہیں، تاہم اگر اپنی عمر کے گروپ کے مطابق فٹ ہیں تو آپ کو اس وبائی بیماری کے خلاف فائدہ ہوسکتا ہے۔

  • بجلی سے جوڑوں کے درد کا علاج کس طرح ممکن ہے؟

    بجلی سے جوڑوں کے درد کا علاج کس طرح ممکن ہے؟

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ بجلی خارج کرنے والے ایک نظام سے اس نرم ہڈی کی افزائش بڑھائی جاسکتی ہے جو ہڈیوں اور جوڑوں کے درمیان موجود ہوتی ہے اور جوڑوں کے درد میں ٹوٹ پھوٹ اور گھساؤ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    تجربے میں اس ہڈی کا پیوند یا امپلانٹ ایسے چوہوں پر آزمایا گیا جو حرکت کرتے تھے اور اس حرکت سے ہلکی بجلی بنتی تھی جو ٹوٹی ہوئی نرم ہڈیوں تک پہنچتی تھی۔

    اس طرح ان کی ہڈیوں کی درمیان ربڑ جیسی چکنی تہہ کی افزائش ازخود شروع ہوگئی، تاہم بعض خرگوشوں میں فرضی آلہ(بلے سیبو) لگایا گیا تھا جس کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا۔

    ماہرین نے جسم کے اندر بیٹری لگانے کے بجائے ایسا مادہ لگایا جو جسمانی حرکت اور دباؤ سے بجلی بناتا ہے اور جوڑوں تک پہنچاتا رہتا ہے۔ یوں نرم ہڈی کے خلیات بڑھے اور ان میں حرکت پیدا ہوئی یوں دھیرے دھیرے ان کی تکلیف کم ہوتی گئی۔

    ماہرین نے بجلی خارج کرنے والا نرم پیوند خرگوشوں کی ان نرم ہڈیوں کے سوراخوں میں پھنسایا تھا جو گھس کر ختم ہورہی تھیں، خورد بین سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ دھیرے دھیرے اصل ہڈی کے خلیات اس جگہ کو بھرنے لگے اور یہ سب ہلکی بجلی کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

  • کورونا سے صحتیاب مریضوں کو نئی مشکل کا سامنا، تحقیق میں انکشاف

    کورونا سے صحتیاب مریضوں کو نئی مشکل کا سامنا، تحقیق میں انکشاف

    نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 نظام تنفس کو متاثر کرتی ہے جس کے دوران اکثر مریضوں کو خشک کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کے ساتھ بخار کا سامنا ہوتا ہے۔

    اسپتال میں علاج یا قرنطینہ میں رہنے کے دوران ہونے والے علاج کے بعد بھی متاثرہ مریض کو آنے والے وقت میں مزید پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    اس حوالے سے بیلجیئم میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کوویڈ کی طویل المعیاد علامات یا لانگ کوویڈ سے متاثر افراد کے دل کو نقصان پہنچنے کا خطرہ اس صورت میں بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ی ہخطرہ اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب جسمانی سرگرمیوں کے باعث ان کو سانس لینے میں مشکلات کا سامنا بیماری کے ایک سال بعد بھی ہوتا ہو۔

    یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

    یونیورسٹی ہاسپٹل برسلز کی تحقیق میں میڈیکل اسکینز سے دریافت ہوا کہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے ایک سال بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے کووڈ مریضوں میں دل کی شریانوں سے جڑے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، چاہے ان میں اس کی کوئی تاریخ نہ بھی ہو۔

    تحقیق میںاس بات کی تصدیق کی گئی ہےکہ لانگ کوویڈ کا سامنا کرنے والے اور صحت یاب ہونے والے  افراد کے دل کو نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج سے یہ وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ لانگ کووڈ کے کچھ مریضوں کو ایک سال بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کیوں ہوتا ہے اور کیوں دل کی کارکردگی یا افعال میں کمی آتی ہے۔

    اس تحقیق میں محققین نے کووڈ کے 66 ایسے مریضوں کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی جن میں دل یا پھیپھڑوں کے امراض کی تاریخ نہیں ہوئی تھی، یہ سب مریض مارچ اور اپریل 2020 میں کووڈ کے باعث اسپتال میں زیرعلاج رہے تھے۔

    ان مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال اور طویل المعیاد علامات کا جائزہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے ایک سال بعد ایک خصوصی ایکسرے آلے کے ذریعے لیا گیا۔

    ان مریضوں کی دل کی صحت کی جانچ پڑتال کے لیے الٹرا ساؤنڈز اور ایک زیادہ جدید امیجنگ تیکنیک کی مدد لی گئی، ایسے مریض جن کو بیماری کے ایک سال بعد بھی سانس کے مسائل کا سامنا تھا، ان کے اسکینز میں دل کو پہنچنے والے نقصان کا علم ہوا۔

    محققین نے بتایا ہے کہ مذکورہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کوویڈ کے ایک تہائی سے زیادہ ایسے مریض جن میں دل یا پھیپھڑوں کے امراض کی تاریخ نہیں تھی، ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے ایک سال بعد بھی سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کررہے تھے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کارڈک الٹرا ساؤنڈ میں ان افراد کے دل کے افعال گہرائی میں جاکر جائزہ لینے پر ہم نے نمایاں نقصان کا مشاہدہ کیا، جس سے سانس کے مسائل کے تسلسل کی ممکنہ وضاحت ہوتی ہے۔

    ایک تخمینے کے مطابق کووڈ کو شکست دینے والے 10 سے 30 فیصد مریضوں کو بیماری کے 6 ماہ بعد بھی لانگ کووڈ کی کم از کم ایک علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق نئی امیجنگ تیکنیکس سے لانگ کووڈ کے مریضوں میں دل کے افعال میں خرابیوں کی جلد شناخت کرنے مین مدد مل سکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کووڈ کی مختلف اقسام اور ویکسینیشن کے اثرات پر مزید تحقیق سے ہمارے نتائج کو جانچنے کی ضرورت ہے تاکہ مریضوں کو زیادہ بہتر علاج فراہم کیا جاسکے۔ اس تحقیق کے نتائج یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی کے یورو ایکو 2021 اجلاس میں پیش کیے گئے۔

  • اومیکرون زدہ مریض کو اسپتال داخل کرانا کتنا ضروری ہے؟

    اومیکرون زدہ مریض کو اسپتال داخل کرانا کتنا ضروری ہے؟

    لندن : پاکستان کی طرح دنیا بھر میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے پھیلاؤ کے سدباب کے لیے سخت نوعیت کے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ19 سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کرانے والے افراد میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون سے بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ڈیلٹا کے مقابلے میں دوتہائی حد تک کم ہوتا ہے۔

    یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کے مطابق اومیکرون سے متاثر بالغ افراد کا ویکسینیشن کے بعد ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں ایک تہائی ہوتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون سے بیمار افراد کے لیے ہنگامی طبی امداد یا ہسپتال میں داخلے کا امکان 50 فیصد تک کم ہوتا ہے۔

    برطانیہ میں 3 جنوری کو 14 ہزار 210 کووڈ مریض ہسپتال میں داخل ہوئے جو فروری 2021 کے بعد سب سے زیادہ ہے مگر جنوری 2021 میں 34 ہزار سے زیادہ مریضوں سے کم ہے۔

    اس نئے ڈیٹا میں تصدیق کی گئی کہ تمام کوویڈ ویکسینز ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون قسم سے ہونے والی علامات والی بیماری سے بچانے کے لیے کم مؤثر ہیں۔

    جن افراد نے فائزر یا موڈرنا ویکسینز کی دو خوراکیں استعمال کی ہوتی ہیں، ان میں ویکسینز کی افادیت دوسری خوراک کے استعمال کے 20 ہفتوں بعد 65 سے 70 فیصد تک گھٹ جاتی ہے۔

    مگر بوسٹر ڈوز کے استعمال کے دو سے چار ہفتوں بعد ویکسینز کی افادیت 65 سے 75 فیصد تک پہنچ جاتی ہے مگر 9 ہفتوں بعد گھٹ کر 55 سے 70 فیصد اور 10 ہفٹوں یا اس کے بعد 40 سے 50 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

    یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی نے کیمرج یونیورسٹی ایم آر سی بائیو اسٹیٹکس یونٹ کے ساتھ مل کر اومیکرون کے 5 لاکھ 28 ہزار 176 اور ڈیلٹا کے 5 لاکھ 73 ہزار 12 کیسز کا تجزیہ کیا۔

    ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین کی تین خوراکیں اومیکرون سے بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا خطرہ 68 فیصد تک کم کردیتی ہیں۔

    کسی بھی ویکسین کی ایک خوراک اومیکرون قسم سے علامات والی بیماری ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا خطرہ 35فیصد تک کم کردیتی ہے۔

    کسی بھی ویکسین کا استعمال نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں ویکسینز کی دو خوراکوں سے 24 ہفتوں تک یہ خطرہ67 فیصد تک کم رہتا ہے جبکہ دوسری خوراک کے 25 یا اس سے زیادہ ہفتوں بعد یہ شرح گھٹ کر51 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔

  • کورونا وائرس کے گردوں پر اثرات ، نئی تحقیق میں ہوشربا انکشاف

    کورونا وائرس کے گردوں پر اثرات ، نئی تحقیق میں ہوشربا انکشاف

    محققین نے کورونا وائرس کے انسانی گردوں پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ان کا لیب میں تجزیہ کیا ، ان کا کہنا ہے کہ وائرس گردوں کے اندر خلیاتی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔

    یہ بات تو پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ کورونا وائرس مریض کے گردوں کو متاثر کرسکتا ہے مگر جسم کے اس عضو پر کیا اثرات ہوتے ہیں یہ اب تک واضح نہیں تھا۔

    ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات دریافت کی گئی ہے کہ درحقیقت کوویڈ 19 کا مرض براہ راست گردوں کے اندر خلیاتی تباہی کا باعث بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں گردوں میں زخم ہوسکتے ہیں۔

    جرمنی کے آر ڈبلیو ٹی ایچ یونیکلنک ایشکن اور نیدرلینڈز کی راڈبوڈ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی مشترکہ تحقیق کووڈ 19 کے نتیجے میں آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں کے گردوں کے ٹشوز کا موازنہ کووڈ سے محفوظ مگر پھیپھڑوں کی کسی بیماری کے باعث ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں اور صحت مندافراد سے کیا گیا۔

    نتائج سے ثابت ہوا کہ کوویڈ19 کے مریضوں کے گردوں کے ٹشوز کو پہنچنے والا نقصان دیگر گروپس سے زیادہ تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں یہ واضح ہوگیا تھا کہ کوویڈ19 سے گردوں کو نقصان پہنچتا ہے، جس کے بعد محققین نے یہ تعین کرنے کا فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس یہ کام کیسے کرتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے محققین نے چھوٹے مصنوعی گردے تیار کیے اور لیبارٹری میں ان میں گردوں کے مختلف خلیات کا اضافہ کیا گیا مگر مدافعتی خلیات ان میں شامل نہیں تھے۔

    اس کے بعد ہر مصنوعی گردے کو کووڈ سے متاثر کیا گیا تاکہ تحقیقی ٹیم مشاہدہ کرسکے کہ کورونا وائرس گردوں کے خلیات پر براہ راست کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔

    ایک بار پھر محققین نے گردوں میں زخم اور ان سنگنلز کو دریافت کیا گیا جو اس عمل میں کردار ادا کرتے ہیں۔نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ بیماری کے بعد بہت زیادہ ورم یا کوئی اور اثر نہیں بلکہ کورونا وائرس براہ راست کووڈ 19 کے مریضوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ تحقیق کے دوران ہم نے کورونا وائرس سے گردوں کو نقصان پہنچتے دیکھا، متاثرہ مصنوعی گردوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس براہ راست خلیات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس کام کے ساتھ ہم نے معمے کا وہ ٹکڑا تلاش کرلیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے تباہ کن اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ گردوں میں زخم کے طویل المعیاد بنیادوں پر سنگین اثرات مرتب وہسکتے ہیں جس کا سامنا گردوں کو ہونے والی ہر انجری سے ہوسکتا ہے جبکہ گردوں کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ کے مریضوں کو بھی اس مسئلے کا سامنا ہوسکتاہے اور اس سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ کے مریضوں کے گردوں کے افعال متاثر کیوں ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سیل اسٹیم سیل میں شائع ہوئے جس میں کہا گیا ہے کہ طویل المعیاد فالو اپ تحقیق سے اس حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جاسکیں گی۔

  • اومیکرون سے بچاؤ کیلئے محققین نے نیا راز ڈھونڈ لیا

    اومیکرون سے بچاؤ کیلئے محققین نے نیا راز ڈھونڈ لیا

    لندن : کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا بھر میں غیرمعمولی رفتار سے پھیل رہی ہے اور اس کے سد باب کیلئے محققین اپنی تمام تر کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

    اس حوالے سے برطانیہ کے بعد امریکی طبی ماہرین نے بھی کہا ہے کہ تحقیقی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ فائزر، جانسن اینڈ جانسن یا موڈرنا ویکسینز کی دو خوراکیں "اومیکرون” سے تحفظ فراہم نہیں کرتیں۔

    تین امریکی ہسپتالوں اور طبی تحقیقی اداروں کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا ہےکہ ویکسین کی تین خوراکیں "اومیکرون” کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    خبر رساں ادارے "رائٹرز” کے مطابق میساچوٹس جنرل ہسپتال، ہاورڈ یونیورسٹی اور میساچوٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے ویکسینیشن کروانے والے افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، جس سے معلوم ہوا کہ ویکسین کی دو خوراکیں لینے والے افراد میں اتنی طاقتور اینٹی باڈیز نہیں بن پا رہیں جو ’اومیکرون‘ کی شدت سے محفوظ رکھیں۔

    ماہرین کے مطابق امریکی حکومت کی جانب سے منظور کی گئی تینوں ویکسینز یعنی فائزر، موڈرینا اور جانسن اینڈ جانسن کی کم از کم تین خوراکیں لینے والے شخص میں ’اومیکرون‘ کی شدت کم ہو سکتی ہے۔

    بوسٹر شاٹس ہی اومیکرون کی شدت کم کر سکتے ہیں، رپورٹ—فوٹو: رائٹرز

    ماہرین نے تحقیق کے دوران ویکسین کی دو خوراکیں لینے والے افراد کے ڈیٹا جائزہ لیا جب کہ جانسن اینڈ جانسن کی ایک ہی خوراک لینے والے افراد کے ڈیٹا کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا گیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ’اومیکرون‘ جیسے متعدی پھیلنے والی کورونا کی قسم سے بچنے کے لیے ویکسین کا بوسٹر ڈوز لگوایا جائے تو نتائج بہتر آ سکتے ہیں۔

    امریکی ماہرین نے اپنی تحقیق میں برطانوی ماہرین کی گزشتہ ہفتے کی گئی تحقیق کا حوالہ بھی دیا جس میں ماہرین نے بتایا تھا کہ فائزر سمیت آسترزینیکا کی تین خوراکیں سے "اومیکرون” کی شدت کم ہو سکتی ہے۔

    برطانوی ماہرین کی تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا تھا کہ ویکسین کی تین خوراکیں لینے والے افراد "اومیکرون” کی شدت سے محفوظ رہتے ہیں اور ایسے افراد میں 75 فیصد علامات ظاہر ہی نہیں ہو پاتیں۔

    دنیا بھر کے ماہرین نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ "اومیکرون” کورونا کی اب تک کی سب سے متعدی قسم ہو سکتی ہے اور اگلے تین ماہ تک دنیا کے نصف کورونا کے مریض مذکورہ وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔

    تاہم اب تک کے آنے والے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ فوری طور پر تین ہفتے گزر جانے کے باوجود ” اومیکرون” کے پھیلاؤ میں تیزی نہیں آ رہی۔

    ’اومیکرون‘ کی تشخیص گزشتہ ماہ 25 یا 26 نومبر کو پہلی بار جنوبی افریقہ میں ہوئی تھی اور اب تک مذکورہ قسم دنیا کے 5 دجن سے زائد ممالک تک پھیل چکی ہے، تاہم اس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد اندازوں سےکم ہے جب کہ اس سے ہونے والی اموات بھی کم ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے آئی؟

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کیسے سامنے آئی؟

    10کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں ابھی بہت سی معلومات ہونا باقی ہیں تاہم حال ہی میں اس کے ارتقا کے بارے میں ایک تحقیق کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کا ارتقا عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا۔

    امریکی بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے عندیہ ملا ہے کہ کرونا کی یہ نئی قسم ممکنہ طور پر اسی وجہ سے سابقہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔

    تحقیق میں موجود ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک اور انسانی کرونا وائرس ایچ کوو 229 ای سے مماثلت رکھتا ہے۔

    ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اومیکرون کا ارتقا کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے ساتھ ساتھ ایچ کوو 229 ای سے بیک وقت متاثر تھا۔

    انہوں نے کہا کہ اومیکرون کا جینیاتی سیکونس کرونا وائرس کی سابقہ اقسام میں نظر نہیں آتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔ اس جینیات کے مواد کے باعث اومیکرون خود کو زیادہ انسانی دکھانے والی قسم بن گئی جس کے باعث اس کے لیے انسانی مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا آسان ہوا۔

    تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ممکنہ طور پر اس سے وائرس کو زیادہ آسانی سے پھیلنے میں مدد ملی، مگر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے یا سنگین بیماری کا باعث بن سکتی ہے یا نہیں۔

    ماہرین نے کہا کہ ان سوالات کے جواب جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

    اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ کے خلیات میں سارس کوو 2 اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز بیک وقت رہ سکتے ہیں۔

    ایک ہی میزبان خلیے میں 2 مختلف وائرسز میں اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی میوٹیشن کسی ایسے فرد میں ہوئی ہوگی جو دونوں وائرسز سے متاثر ہوگا اور اس دوران کوو 2 نے دوسرے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو اٹھا لیا ہوگا۔

    اس طرح کے جینیاتی سیکونسز انسانوں میں نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک کورونا وائرس ایچ کوو 229 ایس میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

  • زیبرا کے جسم پر کالی سفید پٹیاں کیوں ہوتی ہیں، دلچسپ تحقیق

    زیبرا کے جسم پر کالی سفید پٹیاں کیوں ہوتی ہیں، دلچسپ تحقیق

    زیبرا کے جسم پر سیاہ و سفید دھاریوں کا سیکڑوں سالہ پرانا معمہ حل ہوگیا، ویسے تو یہ فلسفیانہ سوال لگتا ہے مگر سائنس نے اس کا بہت دلچسپ جواب دیا ہے۔

    کیا آپ نے کبھی سوچا کہ زیبرا کی کھال کی رنگت سفید ہے اور پٹیوں کی سیاہ یا کھال سیاہ ہے اور پٹیاں سفید؟ آخر اس کی حقیقت کیا ہے؟

    ارتقائی حیاتیات کے سب سے پرانے اِس سوال نے سائنس دانوں کو تب سے پریشان کیا ہوا ہے جب سے چارلس ڈاروِن اور الفریڈ رسل نے پہلی بار اِس پر اختلاف ظاہر کیا تھا لیکن بعد میں کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ دھاریاں ایسے کیموفلاج کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے بھاگتے ہوئے یہ دشمنوں سے محفوظ رہ سکیں۔

    زیبرا کے جسم پر لکیروں کا مقصد سائنس نے بتا دیا

    اس کے علاوہ اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ زیبرا کی کھال کے نیچے جلد سیاہ ہوتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پٹیوں کی سیاہ یا سفید رنگت کا اس سے کچھ لینا دینا ہے۔

    زیبرا کے زیادہ تر بال سفید ہوتے ہیں بشمول پیٹ اور ٹانگ کے اندرونی حصے میں، جہاں پٹیوں کا اختتام ہوتا نظر آتا ہے۔ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کھال کی رنگت سفید ہے جبکہ پٹیاں سیاہ، مگر لائیو سائنس کے مطابق یہ اس سوال کو دیکھنے کا غلط نظریہ ہے۔ اصل جواب میلانوسائٹس نامی خلیات میں چھپا ہوا ہے۔

    زیبرا پر سیاہ و سفید دھاریوں کا برسوں پرانا معمہ حل - ایکسپریس اردو

    یہ خلیات رنگت بنانے والے ہارمون میلانین کو بناتا ہے جو زیبرا اور تمام جانداروں کے بالوں اور جلد کی رنگت کا تعین کرتا ہے۔ جب زیبرا کی کھال اگتی ہے تو میلانوسائٹس جڑوں کو حکم دیتا ہے کہ بالوں کی رنگت ہلکی ہونی چاہیے یا گہری، یہ تعین جسم کے حصوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔

    یہ خلیات زیادہ میلانین والی سیاہ کھال کو تشکیل دیتا ہے جس سے زیبرا کا مخصوص پیٹرن ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ زیبرا کے سفید بالوں میں میلانین نہیں ہوتا اور میلانوسائٹس سے بنتے ہیں جو ٹرن آف ہوجاتا ہے۔

    دنیا کے پانچ چالاک ترین جانور کون سے ہیں؟ - BBC News اردو

    آسان الفاظ میں زیبرا کے اگنے والے بال قدرتی طور پر سیاہ ہوتے ہیں جو اس جانور کو سیاہ جلد کے ساتھ سفید پٹیاں فراہم کرتے ہیں۔ یہ تو زیبرا کی پٹیوں کے معمے کا ایک جواب ہے، سائنسدان اب تک نہیں جان سکے کہ یہ پٹیاں ہوتی کس لیےہیں۔

    ایک عام خیال تو یہ ہے کہ اس سے زیبرا کو شکاریوں کو الجھن میں ڈالنے میں مدد ملتی ہے۔ ایک تحقیق میں بھی اس خیال کو سپورٹ کیا گیا تھا کہ یہ پٹیاں حشرات الارض کو دور رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں جبکہ اسٹائلش انداز اضافی بونس ہے۔

  • ویکسی نیشن کے باوجود فیس ماسک کی اہمیت مسلمہ، نئی تحقیق نے ثابت کردیا

    ویکسی نیشن کے باوجود فیس ماسک کی اہمیت مسلمہ، نئی تحقیق نے ثابت کردیا

    سماجی دوری کے لیے 2 میٹر کی دوری کا اصول کورونا وائرس کی وبا کے آغاز پر بنایا گیا تھا مگر بیماری سے تحفظ کے لیے اس کی افادیت پر اکثر ملے جلتے تحقیقی نتائج سامنے آتے ہیں۔

    حالیہ تحقیق نے بھی ثابت کردیا ہے کہ فیس ماسک کے بغیر 2 میٹر کی سماجی دوری کے اصول پر عمل کرنا کووڈ نائنٹین سے بچانے کے لیے بے سود ثابت ہوتا ہے، یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

    کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے مریض اگر فیس ماسک کا استعمال نہ کریں تو وہ 2 میٹر سے زیادہ دور موجود افراد (فیس ماسک کے بغیر) کو بھی اس بیماری کا شکار بناسکتے ہیں چاہے وہ کھلی فضا میں ہی کیوں نہ ہو۔

    اس نئی تحقیق میں کمپیوٹر ماڈلنگ کے ذریعے جانچ پڑتال کی گئی کہ کووڈ کا مریض کھانسی کے ذریعے وائرل ذرات کو کتنی دور تک پہنچا سکتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ نتائج سے موسم سرما کی آمد کے ساتھ ویکسینیشن، چار دیواری کے اندر ہوا کی نکاسی کے اچھے نظام اور فیس ماسک کے استعمال کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لوگوں کی کھانسی سے خارج ہونے والے ذرات کے پھیلاؤ کا دائرہ مختلف ہوتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: چین کی تیار کردہ 2 مزید کرونا ادویات کی انسانوں پر آزمائش شروع

    درحقیقت فیس ماسک استعمال نہ کرنے والے افراد کی کھانسی سے خارج ہونے والے بڑے ذرات قریبی سطح پر گرجاتے ہیں جبکہ چھوٹے ذرات ہوا میں معطل بھی رہ سکتے ہیں یا 2 میٹر سے زیادہ دور بھی تیزی سے جاسکتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ تحقیق میں ثابت ہوا کہ انفرادی طور پر ذرات کے پھیلاؤ کی شرح مختلف ہوسکتی ہے۔

    محققین نے لوگوں پر زور دیا کہ گھر سے باہر کسی بھی عمارت کے اندر وہ فیس ماسک کا استعمال لازمی کریں، ان کا کہنا تھا کہ ہم سب ہی معمول کی زندگی پر لوٹنے کے لیے بے قرار ہیں مگر ہم لوگوں کو مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ چار دیواری جیسے دفاتر، کلاس رومز اور دکانوں میں فیس ماسکس کا استعمال کریں۔