Tag: research

  • کووڈ ویکسین کی تیسری ڈوز کی ایک اور افادیت سامنے آگئی

    کووڈ ویکسین کی تیسری ڈوز کی ایک اور افادیت سامنے آگئی

    کووڈ 19 ویکسین کی بوسٹر ڈوز کو اس مرض سے بچاؤ کے لیے اہم خیال کیا جارہا ہے اور اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 ویکسینز کی بوسٹر ڈوز ابتدائی 2 خوراکوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھوس اور طویل المعیاد تحفظ کو متحرک کرتی ہے۔

    نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسی نیشن مکمل کروانے والے ایسے افراد میں بوسٹر ڈوز کا ردعمل زیادہ بہترین ہوتا ہے جو ماضی میں کووڈ کو شکست دے چکے ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ چونکہ اینٹی باڈی لیول بہت زیادہ ہوتا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ بوسٹر ڈوز سے ہمیں ویکسین کی ابتدائی 2 خوراکوں کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے تک تحفظ ملتا ہے۔

    اس تحقیق میں 33 صحت مند ایسے جوان افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی تھی۔ ان افراد کی اوسط عمر 43 سال تھی یعنی نصف درمیانی عمر جبکہ باقی جوان تھے۔

    تحقیق کے لیے ان افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر یا موڈرنا ویکسینز کی 2 خوراکوں کے استعمال کے 9 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں 10 گنا کمی آچکی تھی۔

    مگر بوسٹر ڈوز کے استعمال کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح میں 25 گنا اضافہ ہوا اور یہ تعداد ابتدائی 2 خوراکوں کے بعد بننے والی اینٹی باڈیز سے 5 گنا سے زیادہ تھی۔

    مگر تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد ویکسی نیشن کرانے والے افراد میں بوسٹر ڈوز کے بعد اینٹی باڈیز کی سطح میں 50 گنا اضافہ ہوا۔

    اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے تو انہیں ابتدائی نتائج تصور کیا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ بوسٹر ڈوز سے ڈیلٹا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں بھی بڑھ گئی، مگر یہ ردعمل وائرس کی اوریجنل قسم کے خلاف اس سے بھی زیادہ تھوس ہوتا ہے، کیونکہ وہ ویکسینز کا بنیادی ہدف ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج ان افراد کے لیے اہم ہیں جو بوسٹر شاٹ کے استعمال پر غور کررہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایم آر این اے ویکسینز سے کووڈ 19 کے سنگین کیسز کے خلاف زیادہ تحفظ ملتا ہے، مگر یہ اثر وقت کے ساتھ کم ہونے لگتا ہے بالخصوص ان اینٹی باڈیز کی سطح میں جو بیماری کی روک تھام کرتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم ویکسی نیشن کے بعد بیماری کے کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھ رہے ہیں بالخصوص اس وقت جب زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کے پھیل رہی ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ تحقیق میں شامل لوگوں کی تعداد کم تھی مگر زیادہ امکان یہی ہے کہ بڑی آبادی میں بھی یہی اثرات دیکھنے میں آئیں گے۔

  • بچوں کے دودھ کے دانت مستقبل کا پتہ دے سکتے ہیں

    بچوں کے دودھ کے دانت مستقبل کا پتہ دے سکتے ہیں

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے دریافت کیا کہ بچوں کے دودھ کے دانتوں پر نشانات سے مستقبل میں ان میں مختلف دماغی امراض کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

    میساچیوسٹس جنرل ہسپتال (ایم جی ایچ) میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بچوں کے دودھ کے دانتوں پر نشانات اور موٹائی کو دیکھ کر مستقبل میں ان میں ڈپریشن اور دماغی امراض کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔

    ایم جی ایچ کی ماہر ایرن سی ڈن نے اپنی حیرت انگیز تحقیق میں کہا کہ ابتدائی کم عمری میں بچوں کی مشکلات آگے چل کر ان کی شخصیت اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    بچوں کے ابتدائی ماہ و سال بہت حساس ہوتے ہیں اور کوئی بھی ناخوشگواری ایک تہائی دماغی عارضوں کی وجہ بن سکتی ہے جس کے واضح اثرات جوانی اور بلوغت میں سامنے آتے ہیں۔

    تحقیق کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ڈپریشن اور دیگر امراض میں مبتلا افراد سے ان کے بچپن کے واقعات اور مسائل کے بارے میں پوچھا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہرفرد کو اپنے بچپن کی باتیں یاد نہیں رہتیں، اس لحاظ سے یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہمارے ساتھ بچپن میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے نقوش دانتوں پر آجاتے ہیں۔ یوں انہیں، زندگی کے اتار چڑھاؤ کا ایک ریکارڈ کہا جاسکتا ہے۔ بیماری ہو، ذہنی تناؤ ہو یا پھر غذائی قلت ان کا اثر دانتوں پر آتا ہے۔ درختوں کے تنوں میں دائروں کی طرح کی دھاریاں دانتوں میں بنتی ہیں جنہیں اسٹریس لائن کہا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں ایم جی ایچ کےماہرین نے 70 بچوں کا جائزہ لیا جس میں ایوون لونگٹیوڈینل اسٹڈی آف پیرنٹس اینڈ چلڈرن کے تحت برطانوی بچوں کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے والدین میں حمل کی سختیوں، والدہ کی نفسیاتی مسائل کی تاریخ، پڑوس کا ماحول، غربت اور رویہ اور معاشرتی سپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔

    ماہرین نے دیکھا کہ جن ماؤں نے تناؤ بھرا ماحول گزارا تھا اور بے چینی سے گزری تھیں ان کے بچوں پر اس کے اثرات دیکھے گئے اور ان کے دانتوں پر بھی اس کے اثرات دیکھے گئے تھے۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے بعد زور دیا ہے کہ بچوں میں دودھ کے دانتوں کے معائنے سے انہیں مستقبل میں کئی امراض سے بچایا جاسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام زیادہ متعدی کیوں ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی اقسام زیادہ متعدی کیوں ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی اقسام ڈیلٹا اور ایلفا اصل قسم سے زیادہ متعدی تصور کی جاتی ہیں، اور اب ماہرین نے اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں ایسی میوٹیشن کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کی ایلفا قسم دیگر اقسام سے بہت زیادہ متعدی کیوں ہے۔

    کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق میں دریافت کیا کہ ایک غیر واضح میوٹیشن نے وائرس کے ساختی جسم کو اس طرح تبدیل کیا جس کے نتیجے میں وہ زیادہ متعدی ہوگئی۔

    آر 20 ایم نامی میوٹیشن ڈیلٹا کو منفرد بناتی ہے جس کے نتیجے میں وائرس اپنے میزبان خلیات میں اپنے جینیاتی کوڈ کو وائرس کی پرانی اقسام کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ انجیکٹ کرتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے اوریجنل وائرس کا ایک فرضی ورژن تیار کیا جس میں آر 203 ایم میوٹیشن کا اضافہ کیا گیا، اس کے بعد مشاہدہ کیا گیا کہ کس طرح تدوین شدہ قسم لیبارٹری میں پھیپھڑوں کے خلیات پر اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کا موازنہ اوریجنل وائرس سے کیا گیا۔

    تحقیقی ٹیم یہ دریافت کرکے حیران رہ گئی کہ آر 203 ایم پرانی اقسام کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ایم آر این اے خلیات میں پھیلا دیتی ہے۔

    اس دریافت کی تصدیق کے لیے انہوں نے حقیقی کرونا وائرس میں آر 203 ایم کا اضافہ کیا جس کے نتیجے میں وہ اوریجنل وائرس سے 51 گنا زیادہ متعدی ہوگیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ان شبہات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کرونا کی قسم ڈیلٹا میں اسپائیک پروٹینز سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے۔ آر 203 ایم سے کووڈ کی وہ پروٹین کوٹنگ بدل گئی جو اس کے جینوم کے ارگرد ہوتی ہے، اس کو این پروٹین بھی کہا جاتا ہے۔

    یہ پروٹین جسم میں داخل ہونے کے بعد وائرس کے استحکام اور اخراج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں کرونا کی دیگر اقسام میں بھی این پروٹینز کی تبدیلیوں کو دیکھا گیا اور دریافت ہوا کہ وہ بھی خلیات کو متاثر کرنے میں اوریجنل وائرس سے زیادہ بہتر کام کرتی ہیں۔

  • کورونا وائرس کے پھیلنے کا کیا سبب ہے؟ ماہرین نے راز جان لیا

    کورونا وائرس کے پھیلنے کا کیا سبب ہے؟ ماہرین نے راز جان لیا

    ماہرین نے اس طریقہ کار کو دریافت کرلیا ہے جو کورونا وائرس کے متعدی ہونے پر اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

    امریکا کے ادارے این آئی ایچ کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ڈینٹل اینڈ کرانیوفیشل ریسرچ کی اس تحقیق میں خلیات میں اس عمل کو دریافت کیا جس کے ذریعے ممکنہ طور پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ محدود کی جاسکتی ہے جبکہ ایلفا اور ڈیلٹا اقسام میں موجود میوٹیشنز نے کس طرح اس اثر قابو پاکر خود کو زیادہ متعدی بنالیا۔

    کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے بعد سے سارس کوو 2 کی زیادہ متعدی اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔ وائرس کی اصل قسم کے بعد پہلے ایلفا اور پھر ڈیلٹا کو سب سے زیادہ متعدی قرار دیا گیا۔

    ان اقسام میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو ان کو زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیمار کرنے اور آگے پھیلنے پر مدد فراہم کرتی ہے۔ زیادہ تر میوٹیشنز اسپائیک پروٹینز میں ہوئیں جن کو یہ وائرس خلیات میں داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ وبا کے دوران ہمار ے ماہرین نے منہ کی صحت کی سائنس کو استعمال کرکے کوویڈ 19 سے متعلق متعدد سوالات کے جواب دیئے ہیں۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس تحقیق سے ایلفا اور ڈیلٹا اقسام کے زیادہ متعدی ہونے کے حوالے سے نئی تفصیلات دی گئی ہیں جبک مستقبل کے طریقہ علاج کے لیے فریم ورک فراہم کیا گیا ہے۔

    کورونا وائرس کی بیرونی سطح اسپائیک پروٹینز سے سجی ہوئی ہے جن کو یہ وائرس خلیات سے جڑنے اور داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مختلف تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا کہ کچھ کیسز میں پروٹین میں متعدد شوگر مالیکیولز کا اضافہ ہوا، یہ عمل انزائمے گلینٹس کے نتیجے میں ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماہرین نے فروٹ فلائی اور ممالیہ خلیات میں وائرس کے اسپائیک پروٹین میں گلینٹس سرگرمیوں کے اثرات کی جانچ پڑتال کی۔ گلینٹ ون وائرس کی اصل قسم مالیکیولز کا اضافہ کرکے اسپائیک پروٹین ک یسرگرمیوں کو محدود کرتا ہے۔

    اس کے برعکس ایلفا اور ڈیلٹا جیسی اقسام کے اسپائیک پروٹینز میں ہونے والی میوٹیشنز کے نتیجے میں گلینٹ ون سرگرمیاں گھٹ گئی جبکہ دوسرے کی بڑھ گئیں۔

    اس سے عندیہ ملتا ہے کہ دوسری سرگرمی نے گلینٹ ون کو جزوی طور پر دبا لیا اور اس کے نتیجے میں وہ اقسام زیادہ متعدی ہوگئیں۔ لیبارٹری میں مزید تجربات سے بھی اس خیال کو تقویت ملی اور انہوں نے مشاہدہ کیا کہ میوٹیشن والے اسپائیک پروٹین سے متاثرہ خلیات اپنے پڑوسی خلیات سے زیادہ رابطے میں رہنے لگے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ایلفا اور ڈیلٹا میوٹیشنز نےگلینٹ ون کے اثر کو گھٹا کر خلیات میں داخل ہونے کی اپنی صلاحیت کو بڑھا لیا۔

    ماہرین نے یہ بھی جانچ پڑتال کی کہ یہ اثر لوگوں میں بھی دیکھنے میں آتا ہے یا نہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے صحت مند رضاکاروں کے خلیات میں آر این اے ایکسپریشنز کا تجزیہ کیا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ نظام تنفس کے اوپری اور زیریں خلیات میں گلینٹ ون کا اثر زیادہ ہوتا ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ انزائمے انسانوں میں بھی اثرات مرتب کرتے ہیں، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔

  • گنج پن کی حیران کن وجہ سامنے آگئی

    گنج پن کی حیران کن وجہ سامنے آگئی

    ایک عمومی خیال ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بال کم ہونے لگتے ہیں اور بالآخر ختم ہوجاتے ہیں جس کے بعد گنج پن کا سامنا ہوتا ہے تاہم ماہرین نے اس حوالے سے ایک حیرن کن تحقیق کی ہے۔

    طبی ماہرین کا خیال تھا کہ ٹشوز اور اعضا بشمول بالوں کو معمول پر رکھنے والے اسٹیم سیلز عمر بڑھنے کے ساتھ بتدریج مرنے لگتے ہیں، جسے بڑھاپے کی جانب سفر کا ایک ناگزیر عمل بھی قرار دیا جاتا ہے۔

    مگر نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں ایک حیران کن دریافت سامنے آئی جس کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں کو برقرار رکھنے والے اسٹیم سیلز اس اسٹرکچر سے فرار ہوجاتے ہیں جہاں وہ مقیم ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق میں ایسے 2 جینز کو شناخت کیا گیا جو عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں پر اثرات مرتب کرتے ہیں جس سے اسٹیم سیلز کو اپنی جگہ سے منتقل ہونے کی روک تھام سے بالوں کو گرنے سے روکنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    اسٹیم سیلز چوہوں اور انسانوں میں بالوں کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔

    محققین کا خیال تھا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ اسٹیم سیلز کے مرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں بال پہلے سفید اور پھر بتدریج گنج پن کا سامنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے انسانی بالوں کے غدود کو چوہوں کے کانوں میں نصب کیا اور پھر اس کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس جانچ پڑتال میں یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ جب چوہے کے بال سفید اور گرنے لگے تو اسٹیم سیلز اپنی مخصوص جگہوں سے فرار ہونے لگے۔

    ان خلیات نے اپنی ساخت تبدیل کرکے ان غدود سے فرار کو ممکن بنایا اور باہر نکل کر اپنی معمول کی ساخت پر آئے اور کہیں اور چلے گئے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے خود یہ مشاہدہ نہیں کیا ہوتا تو کبھی بھی اس پر یقین نہیں کرتے، اس عمل نے تو ہمارے ذہنوں کو گھما کر رکھ دیا تھا۔ یہ اسٹیم اپنی جگہ سے نکلنے کے بعد سیلز مدافعتی نظام میں کہیں گم ہوجاتے ہیں۔

    اس دریافت کے بعد ماہرین نے یہ شناخت کیا کہ کونسے جینز اس عمل کو کنٹرول کرتے ہیں اور انہوں نے 2 جینز کو دریافت کیا جو بالوں کے غدود کے معمر خلیات میں کم متحرک ہوجاتے ہیں۔

    اسٹیم سیلز کو اپنی جگہ مقید رکھنے کے لیے ان کا کردار گھٹنے لگتا ہے۔

  • ڈائٹ مشروبات موٹاپے میں اضافے کا سبب

    ڈائٹ مشروبات موٹاپے میں اضافے کا سبب

    عام طور پر ڈائٹ سافٹ ڈرنکس کے حوالے سے سمجھا جاتا ہے کہ ان میں چینی کم ہوتی ہے اور یہ وزن میں اضافہ نہیں کرتیں تاہم حال ہی میں ایک نئی تحقیق میں اس کی نفی ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ مصنوعی مٹھاس والے مشروبات یا ڈائٹ سافٹ ڈرنکس موٹاپے سے بچاؤ میں مددگار ثابت نہیں ہوتیں بلکہ جسمانی وزن میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

    سدرن کیلی فورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مصنوعی مٹھاس سے بننے والے یہ مشروبات ممکنہ طور پر جسمانی وزن میں کمی کے لیے فائدہ مند نہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ چینی کی جگہ استعمال ہونے والا ایک کیمیکل لوگوں میں کھانے کی اشتہا بڑھانے کا باعث بنتا ہے، بالخصوص خواتین اور موٹاپے کے شکار افراد میں۔

    تحقیق کے لیے 18 سے 35 سال کی عمر کے 74 صحت مند افراد کی خدمات حاصل کی گئی جن میں سے 58 فیصد خواتین تھیں، کسی بھی رضا کار میں ذیابیطس، منشیات کے استعمال یا کھانے سے جڑے امراض کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔

    ہر رضاکار کو 3 سیشنز کا حصہ بنایا گیا جس سے ایک رات قبل انہیں کچھ بھی کھانے پینے سے منع کیا گیا۔ ہر سیشن میں لوگوں کو 300 ملی لیٹر ڈائٹ مشروب، ایک چینی سے بنا مشروب یا پانی (کنٹرول گروپ) کا استعمال کروایا گیا۔

    مشروب پینے کے بعد ہر فرد کے سامنے زیادہ کیلوریز والی غذاؤں کی تصاویر رکھی گئیں اور ایف ایم آر آئی اسکین سے دماغ کے ان حصوں کی سرگرمیوں کو ریکارڈ کیا گیا جو کھانے کی خواہش اور اشتہا سے منسلک ہیں۔

    محققین نے بلڈ شوگر، انسولین اور میٹابولک ہارمون لیولز کی بھی مانیٹرنگ کی گئی جبکہ ہر سیشن کے اختتام پر رضا کاروں کی دعوت بھی کی گئی اور دیکھا کہ ہر فرد نے کتنی مقدار میں کھانا کھایا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ڈائٹ مشروبات زیادہ کھانے سے روکنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتے بالخصوص موٹاپے کے شکار افراد اور خواتین ہر سیشن کے بعد زیادہ کھانے پر مجبور ہوئے۔

  • کورونا سے صحتیاب مریضوں کا امراض قلب میں مبتلا ہونے انکشاف

    کورونا سے صحتیاب مریضوں کا امراض قلب میں مبتلا ہونے انکشاف

    نیو یارک : محققین نے دریافت کیا ہے کہ کوویڈ19 سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کو کئی ماہ بعد بھی دل کے مراض لاحق ہو سکتے ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت اور کھانسی جیسی علامات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

    کورونا وائرس سے جسمانی صحت پر طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے محققین کی جانب سے کئی ماہ سے خدشات سامنے آرہے ہیں، یہاں تک معتدل حد تک بیمار افراد کی جانب سے کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک علامات کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ 19 کے مریضوں کے دل کو پہنچنے والا نقصان بیماری کے ابتدائی مراحل تک ہی محدود نہیں ہوتا۔

    محققین کے مطابق کورونا کو شکست دینے کے ایک سال بعد بھی ہارٹ فیلیئر اور جان لیوا بلڈ کلاٹس (خون جمنے یا لوتھڑے بننے) کا خطرہ ہوتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کوویڈ 19 کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد (ایسے مریض جن کو ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی) میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے۔

    امراض قلب اور فالج پہلے ہی دنیا بھر میں اموات کی بڑی وجوہات بننے والے امراض ہیں اور کوویڈ 19 کے مریضوں میں دل کی جان لیوا پیچیدگیوں کا خطرہ ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ کرسکتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ کوویڈ 19 کے مابعد اثرات واضح اور ٹھوس ہیں، حکومتوں اور طبی نظام کو لانگ کوویڈ کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے جاگنا ہوگا جس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ کوویڈ کو شکست دینے کے بعد 12 ماہ کے دوران ہارٹ اٹیک، فالج یا دل کی شریانوں سے جڑے دیگر بڑے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس تحقیق میں کووڈ سے متاثر ہونے والے ایک لاکھ 51 ہزار 195 سابق فوجیوں میں دل کی پیچیدگیوں کے ڈیٹا کا موازنہ 36 لاکھ ایسے افراد سے کیا گیا جو اس وبائی مرض کا شکار نہیں ہوئے تھے۔

    ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے بعد دریافت کیا گیا کہ اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کوویڈ 19 کے ایسے مریض جو ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے تھے ان میں بیماری کو شکست دینے کے ایک سال بعد ہارٹ فیلیئر کا خطرہ 39 فیصد اور جان لیوا بلڈ کلاٹ کا امکان دگنا بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کوویڈ کے ہر ایک ہزار مریضوں میں سے 5.8 کو ہارٹ فیلیئر اور 2.8 کو جان لیوا بلڈ کلاٹس کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ وہ مریض ہیں جن میں بیماری کی شدت اتنی کم تھی کہ ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔

    اس کے مقابلے میں کووڈ 19 کے باعث ہسپتال میں داخل رہنے والے مریضوں میں کارڈک اریسٹ (اچانک حرکت قلب تھم جانے) کا خطرہ 5.8 گنا جبکہ دل کی پٹھوں کے ورم کا امکان لگ بھگ 14 گنا تک بڑھ جاتا ہے۔

    کووڈ 19 کے ایسے مریض جو آئی سی یو میں زیرعلاج رہے ان میں سے لگ بھگ ہر 7 میں سے ایک کو بیماری کے بعد ایک سال کے اندر دل کی خطرناک پیچیدگیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    محققین ابھی تک کووڈ کے مریضوں کے دل کو پہنچنے والے نقصان کی وجوہات مکمل طور پر جان نہیں سکے مگر ان کے خیال میں اس کی ممکنہ وجوہات میں وائرس کا براہ راست دل کے پٹھوں کے خلیات، خون کی شریانوں کے خلیات، بلڈ کلاٹس اور مسلسل ورم ہوسکتے ہیں۔

    محققین نے مزید بتایا کہ کووڈ 19 کے بلا واسطہ اثرات بشمول سماجی طور پر الگ تھلگ ہونا، مالی مشکلات، غذائی عادات اور جسمانی سرگرمیوں میں تبدیلیاں بھی دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے کا باعث ہیں۔

    انہوں نے تسلیم کیا کہ تحقیق میں شامل افراد زیادہ تر مرد اور سفید فام تھے جس کے باعث نتائج کا اطلاق تمام گروپس پر فی الحال نہیں کیا جاسکتا، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔

  • ویکسی نیشن کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    ویکسی نیشن کے حوالے سے ایک اور تحقیق

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے بعد کووڈ 19 کی سنگین شدت کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، یہ تحقیق اسکاٹ لینڈ میں کی گئی تھی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کے بعد بیمار ہونے پر سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر خواتین کے مقابلے میں مردوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    اسکاٹ لینڈ میں ویکسی نیشن کے بعد کووڈ 19 کے خطرے کے حوالے سے قومی سطح پر پہلی تحقیق کی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جزوی ویکسی نیشن کرانے والے 0.07 فیصد جبکہ مکمل ویکسی نیشن کرانے والے 0.006 فیصد افراد بریک تھرو انفیکشن (ویکسی نیشن کے بعد بیماری کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) کی تشخیص ہوئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دسمبر 2020 سے اپریل 2021 کے دوران جزوی ویکسی نیشن کرانے والے ہر 2 ہزار میں سے ایک جبکہ مکمل ویکسی نیشن کرانے والے ہر 10 ہزار میں سے ایک فرد کو بریک تھرو انفیکشن کے بعد بیماری کی سنگین شدت (اسپتال میں داخلے یا موت) کا سامنا ہوا۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں بریک تھرو انفیکشن کے بعد بیماری کی شدت بڑھنے کا خطرہ 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے، بالخصوص 80 سال سے زائد عمر کے مردوں میں یہ خطرہ 18 سے 64 سال کے مردوں کے مقابلے میں 5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ایسے افراد جو پہلے سے مختلف بیماریوں کے شکار ہوں، کووڈ سے متاثر ہونے سے 4 ہفتوں سے قبل اسپتال میں داخل ہوچکے ہوں، زیادہ خطرے والا پیشہ، کیئر ہوم یا غریب علاقوں کے رہائشیوں میں بھی یہ خطرہ ویکسی نیشن کے بعد بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں زیادہ شدت والے کیسز کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال ہوئی جو کووڈ 19 ٹیسٹ مثبت آنے کے 28 دنوں کے اندر اسپتال میں داخل ہوئے یا ہلاک ہوگئے یا اسپتال میں داخلے کی وجہ کووڈ 19 قرار دی گئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین کی ایک خوراک سے بھی اسکاٹ لینڈ میں کرونا وائرس کی ایلفا قسم کے پھیلاؤ کے دوران کووڈ سے اسپتال میں داخلے یا موت کا خطرہ بہت کم ہوگیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن کے بعد سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ ان افراد میں ہی زیادہ ہوتا ہے جن میں کووڈ کی شدت زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے یعنی معمر افراد یا پہلے سے مختلف طبی امراض کے شکار افراد۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ لوگ خطرے سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور ویکسین کی دوسری خوراک کا استعمال کریں۔

  • ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق

    ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق

    دنیا بھر میں کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ایسٹرا زینیکا ویکسین استعمال کروائی جارہی ہے اور اب حال ہی میں اس کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین کووڈ 19 کی علامات والی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے 74 فیصد تک مؤثر ہے۔

    ایسٹرا زینیکا کی جانب سے جاری نتائج میں بتایا گیا کہ بیماری سے بچاؤ کی مجموعی افادیت 74 فیصد تھی مگر 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں یہ ویکسین تحفظ کے لیے 83.5 فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی۔

    اس سے قبل مارچ 2021 میں کمپنی کی جانب سے ٹرائل کے عبوری نتائج میں ویکسین کی افادیت 79 فیصد بتائی گئی تھی مگر کمپنی نے چند دن بعد گھٹا کر 76 فیصد کر دی تھی۔

    اس ٹرائل میں امریکا، چلی اور پیرو کے 26 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جن میں سے 17 ہزار 600 کو ویکسین کی 2 خوراکیں ایک ماہ کے وقفے سے استعمال کروائی گئیں جبکہ 8500 کو پلیسبو استعمال کرایا گیا۔

    ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں سے کسی میں بھی کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جبکہ پلیسبو گروپ میں ایسے 8 کیسز دریافت ہوئے۔

    پلیسبو گروپ کے 2 افراد بیماری کے باعث ہلاک ہوئے جبکہ ویکسین گروپ میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

    تحقیق میں شامل جونز ہوپکنز یونیورسٹی کی ڈاکٹر اینا ڈیوربن نے بتایا کہ یہ ویکسین بیماری کی سنگین شدت اور اسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    ٹرائل میں شامل کسی رضا کار میں بلڈ کلاٹنگ کا مضر اثر سامنے نہیں آیا جو اکثر اس ویکسین سے منسلک کیا جاتا ہے۔

    جولائی 2021 میں ایسٹرا زینیکا نے کہا تھا کہ وہ یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے ویکسین کی ہنگامی استعمال کی منظوری کی بجائے مکمل منظوری کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

    کمپنی کی جانب سے ویکسین کے بوسٹر ڈوز کے اثرات کی جانچ پڑتال بھی ایسے افراد میں کی جارہی ہے جن کو ایسٹرا زینیکا ویکسین یا فائزر یا موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کروائی جاچکی ہیں۔

  • کورونا ویکسین کی کتنی خوارکیں ضروری ہیں؟

    کورونا ویکسین کی کتنی خوارکیں ضروری ہیں؟

    لندن : عالمی سطح پر پھیلنے والے وبا کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے دنیا بھر میں مختلف ممالک میں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے۔

    برطانوی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی شدت پر قابو پانے کے لیے ویکسین لگوانا کافی ہے جبکہ بوسٹر خوراک کی فی الحال ضرورت نہیں۔

    خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی سائنسی جریدے "دا لینسٹ” میں پیر کو شائع ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ عام عوام کو ویکسین کی بوسٹر خوراک لگوانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ چند ممالک نے ڈیلٹا ویریئنٹ کے خدشے کے باعث ویکسین کی اضافی خوراکیں بھی لگانا شروع کردی ہیں۔

    نئی سامنے آنے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے کہا ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے خدشے کے باوجود وبا کی اس اسٹیج پر عام عوام کے لیے بوسٹر خوراک مناسب نہیں ہے۔ اس تحقیق کے محققین میں عالمی ادارہ صحت کے سائنس دان بھی شامل ہیں۔

    تحقیق کے محققین نے دیگر سٹڈیز اور کلینکل ٹرائلز کا بھی جائزہ لیا ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ ڈیلٹا ویریئنٹ سمیت کورونا کی ہر قسم کی شدید علامات کے خلاف بھی ویکسین انتہائی مؤثر رہتی ہے۔

    تحقیق کی مرکزی مصنف اور عالمی ادارہ صحت کی سائنسدان اینا ماریو کا کہنا ہے کہ موجودہ سٹدیز معتبر ثبوت پیش نہیں کرتیں کہ کسی بھی شدید بیماری کے خلاف تحفظ میں ویکسین کی افادیت کم ہو جاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سب سے پہلی ترجیح ان افراد کے لیے ویکسین فراہم کرنے کی ہونی چاہیے جنہیں ابھی تک نہیں لگ سکی۔ تحقیق کی مرکزی مصنف اینا ماریو نے مزید کہا کہ ویکسین جلد ہی کورونا کے مزید ویریئنٹس پیدا ہونے میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔

    فرانس میں عمر رسیدہ افراد اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو ویکسین کی تیسری خوراک لگانا شروع کر دی ہے جبکہ اسرائیل میں بارہ اور زیادہ عمر کے بچوں کو دوسری خوراک لگانے کے پانچ ماہ بعد تیسری خوراک لگائی جا رہی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم نے تمام ممالک سے کہا ہے کہ سال کے آخر تک ویکسین کی اضافی خوراک دینے سے گریز کریں۔ اقوام متحدہ نے تمام ممالک کو ہدایت کی ہے کہ وہ رواں ماہ کے آخر تک اپنی 10 فیصد آبادی کو ویکسین لگا لیں جبکہ 40 فیصد کو سال کے آخر تک۔

    برطانوی تحقیق کے مطابق کورونا کے موجودہ ویریئنٹس کی اس حد تک نشونما نہیں ہوئی کہ ویکسین ان کے خلاف مؤثر نہ ہو۔

    تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ وائرس کی نئی اقسام پیدا ہونے کی صورت میں موجودہ ویکسین کی تیسری خوراک لگانے سے بہتر ہے کہ نئے ویریئنٹ کے مطابق ویکسین بوسٹرز تیار کیے جائیں جو پھر لوگوں کو لگائے جائیں۔

    لندن کے ایمپیریل کالج میں متعدی بیماریوں کے ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ عذرا غنی کا کہنا ہے کہ بوسٹر ویکسین کے معاملے پر کوئی ایک نقطہ نظر نہیں اپنایا جاسکتا۔