Tag: research

  • کرونا وائرس کی ایک اور قسم زیادہ خطرناک قرار

    کرونا وائرس کی ایک اور قسم زیادہ خطرناک قرار

    کرونا وائرس کی ایک قسم ایم یو پر کی جانے والی ایک تحقیق میں علم ہوا کہ یہ قسم اینٹی باڈیز کے خلاف بہت زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ویرینٹس آف انٹرسٹ میں شامل کی جانے والی کرونا وائرس کی ایک قسم کے حوالے سے نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ مو یعنی ایم یو قسم وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خلاف بہت زیادہ مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہے، یہ تحقیق جاپان میں کی گئی۔

    ٹوکیو یونیورسٹی اور دیگر جاپانی اداروں کی اس تحقیق میں کورونا کی اس نئی قسم کے خلاف انسانی دفاع (ویکسینیشن یا قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی مدافعت) کا موازنہ دیگر اقسام سے کیا گیا۔

    اس مقصد کے لیے محققین نے کووڈ کی مختلف اقسام کی نقول تیار کیں اور ان کے اثرات کا موازنہ ایسے 18 افراد کی اینٹی باڈیز سے کیا گیا، جن کی ویکسی نیشن ہوچکی تھی یا وہ کووڈ 19 کا شکار رہ چکے تھے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ کرونا کی قسم مو سیرم اینٹی باڈیز کے خلاف دیگر تمام اقسام بشمول بیٹا سے زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔ بیٹا کرونا کی وہ قسم ہے جسے اب تک کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والی قسم قرار دیا جاتا ہے۔

    مگر اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے یا ماہرین کی جانچ پڑتال سے نہیں گزرے اور اس طرح کے نتائج کو حتمی نہیں سمجھا جاتا۔

    دوسری جانب تحقیق کا دائرہ محدود تھا کیونکہ اس میں صرف 18 افراد کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    مگر ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے مو قسم سے ویکسی نیشن کروانے والوں یا اس بیماری کا سامنا کرنے والوں میں بیماری کے خطرے کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد مل سکے گی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مو قسم قدرتی بیماری سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف دیگر اقسام کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

    اسی طرح کورونا کی یہ قسم ویکسی نیشن سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کے خلاف 7.6 گنا زیادہ مزاحمت کرسکتی ہے۔

  • کورونا ویکسین کا دوسرا بڑا فائدہ، سائنسدانوں نے خوشخبری سنادی

    کورونا ویکسین کا دوسرا بڑا فائدہ، سائنسدانوں نے خوشخبری سنادی

    کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکیسین انسان کو صرف کوویڈ سے ہی نہیں بچاتی بلکہ اس کا ایک اور بڑا فائدہ سامنے آیا ہے جسے محققین نے خوش آئند قرار دیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں محققین نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کورونا ویکسینیشن سے نہ صرف کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 سے تحفظ ملتا ہے بلکہ اس سے ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے۔

    سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں ایسے شواہد کو دریافت کیا گیا جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کوویڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے کے بعد لوگوں کو تناؤ کا کم سامنا ہوتا ہے اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔

    یہ تحقیق بنیادی طور پر سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایل طویل المعیاد پراجیکٹ کا حصہ ہے جس کا مقصدکورونا کی وبا سے امریکی عوام کی ذہنی صحت پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔

    اس پراجیکٹ کے لیے امریکا بھر میں 8 ہزار سے زیادہ افراد کو سروے فارم بھیجے گئے تھے تاکہ وبا سے ذہنی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔ سرویز کے ڈیٹا سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی اکثریت کو وبا کے باعث کسی حد تک ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کا سامنا ہوا۔

    ابتدائی نتائج کے بعد محققین کی جانب سے ہر 2 ہفتے بعد ان افراد کو سروے فارم بھیج کر ذہنی صحت میں آنے والی تبدیلیوں کو دیکھا گیا۔ تازہ ترین سروے میں ان افراد سے کوویڈ 19 ویکسینز کے استعمال کے بعد ذہنی صحت پر مرتب اثرات کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ پہلے بہت زیادہ ڈپریس تھے ویکسینیشن کے بعد اس کی شرح میں 15 فیصد جبکہ معمولی ڈپریشن کی شرح میں 4 فیصد تک کمی آئی۔

    محققین نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر یہ تخمینہ بھی لگایا کہ ممکنہ طور پر ویکسینیشن کے بعد 10 لاکھ افراد کی ذہنی پریشانی میں کمی آئی۔

    محققین کے مطابق ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانا محض لوگوں کو بیماری سے ہی تحفظ فراہم نہیں کرتا بلکہ ایسا کرنا بیماری کے شکار ہونے کے ذہنی ڈر اور بے چینی کو بھی نمایاں حد تک کم کرتا ہے۔

    محققین کے مطابق اس پراجیکٹ پر کام ابھی جاری ہے اور مزید عوامی آراء کے ذریعے تعین کیا جائے گا کہ کورونا کی نئی اقسام اور بوسٹر ڈوز کے حوالے سے ان کی رائے کیا ہے۔

    واضح رہے کہ تحقیق میں فی الحال یہ جائزہ نہیں لیا گیا کہ ویکسینیشن سے لوگوں کی ذہنی صحت میں کس حد تک بہتری آتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پلوس ون میں شائع ہوئے۔

  • کورونا مریضوں میں مختلف علامات کیوں ہوتی ہیں؟ جانیے

    کورونا مریضوں میں مختلف علامات کیوں ہوتی ہیں؟ جانیے

    اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا ہے اس کے باوجود وہ بیمار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں علامات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ کچھ مریضوں میں معمولی علامات نظر آتی ہیں۔

    ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس صورتحال کی وجہ جاننے کیلئے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے اور تحقیق کے بعد اس کا نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ کورونا وائرس کی وبا کو اب پونے دو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر  اس کے حوالے سے بہت کچھ ایسا ہے جس کا علم اب تک نہیں ہوسکا۔

    اس وبائی بیماری کا ایک معمہ یہ بھی ہے کہ کچھ افراد اس سے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں اور کچھ میں علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔

    یعنی مریضوں میں مدافعتی ردعمل مختلف ہوتا ہے جس کا نتیجہ بھی مختلف شکلوں میں نکلتا ہے جیسے کچھ میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں جبکہ متعدد ہلاک ہوجاتے ہیں مگر اب طبی ماہرین نے اس کا ممکنہ جواب دیا ہے۔

    امریکا کے انسٹیٹوٹ فار سسٹمز بائیولوجی کی تحقیق میں بیماری کے ردعمل میں مدافعتی خلیات کو ریگولیٹ کرنے والی میٹابولک تبدیلیوں کو دریافت کیا گیا۔ محققین نے بتایا کہ ہمیں کووڈ 19 کے حوالے سے متعدد اقسام کے مدافعتی ردعمل کا عم تھا مگر اس حیاتیاتی عمل کو اب تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جاسکا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم نے متعدد میٹابولک راستے کے ان ہزاروں حیاتیاتی مارکرز کا تجزیہ کیا جو مدافعتی نظام  پر اثر انداز ہوتے ہیں اور مدافعتی۔ میٹابولک تبدیلیوں کے کچھ سراغ دریافت کیے جو ممکنہ طور پر بیماری کی سنگین شدت کا باعث بنتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ مدافعتی افعال کے ان مشاہدات سے کووڈ 19 کے خلاف جسم کے دیگر ردعمل کو جاننے میں ملے گی۔ محققین نے بتایا کہ اس بارے میں سمجھنے سے ممکنہ طور پر بہتر علاج کی دریافت کا راستہ مل سکے گا جو مسائل کا باعث بننے والی مدافعتی یا میٹابولک تبدیلیوں کو ہدف بناسکے گا۔

    اس تحقیق میں خون کے 374 نمونوں کا تجزیہ کیا گیا جو مریضوں میں کووڈ کی تشخیص کے پہلے کے دوران اکٹھے کیے گئے تھے۔ پھر ان نمونوں میں پلازما اور سنگل مدافعتی خلیات کا تجزیہ کیا گیا، اس تجزیے میں 1387 جینز میٹابولک کے راستے اور 1050 پازما میٹابولائٹس سے منسلک تھے۔

    پلازما کے نمونوں میں ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ کی شدت میں اضافہ میٹابولک تبدیلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے سنگل خلیے کے سیکونسنگ کے ذریعے یہ بھی دریافت کیا کہ مدافعتی خیات کی ہر اہم قسم کا اپنا مخصوص میٹابولک انداز ہوتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ میٹابولک ری پروگرامنگ مدافعتی خلیات کی اقسام سے مخصوص ہوتی ہے اور مدافعتی نظام کی پیچیدہ میٹابولک ری پروگرامنگ پلازما میٹابولوم سے منسلک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ہر مریض میں بیمای کی شدت اور موت کی پیشگوئی کی جاسکتی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ تحقیقی کام سے کووڈ کے خلاف زیادہ مؤثر علاج تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی، مریضوں سے حاصل کیے گئے متعدد ڈیٹا سیٹس سے بیماری کے متعدد مختلف پہلوؤں کا عندیہ ملتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچ بائیو ٹیکنالوجی میں شائع ہوئے۔

  • ڈیلٹا وائرس تیزی سے کیوں پھیلتا ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف

    ڈیلٹا وائرس تیزی سے کیوں پھیلتا ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف

    نئی دہلی : پہلی بار بھارت میں سامنے آنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم اور تباہ کن قسم ڈیلٹا کے تیزی سے پھیلاؤ پر ماہرین بھی فکر میں مبتلا ہیں۔

    طبی ماہرین بھی پریشان ہیں کہ کورونا وائرس کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا بیشتر ممالک میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے مگر اس کی وجہ کیا ہے؟

    برطانیہ اور بھارت کے طبی ماہرین کی مشترکہ نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیا وائرس اپنی نقول بنانے اور اس کے تیزی سے پھیلاؤ کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔

    طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا کا پھیلاؤ ممکنہ طور پر وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز پر حملے کی صلاحیت اور زیادہ متعدی ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں لیبارٹری میں تجربات اور ویکسین کے بعد لوگوں کے بیمار ہونے یا بریک تھرو انفیکشنز کا تجزیہ کیا گیا۔ محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوا کہ ڈیلٹا اپنی نقول بنانے اور وائرس کی دیگر اقسام کے مقابلے میں پھیلاؤ کی بہتر صلاحیت رکھتا ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ایسے بھی شواہد موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرتی بیماری یا ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی افادیت ڈیلٹا قسم کے خلاف گھٹ جاتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر ممکنہ طور پر 2021 کی پہلی سہ ماہی کے دوران بھارت میں کورونا کی تباہ کن لہر کا باعث بنے۔ یہ جاننے کے لیے ڈیلٹا قسم کس حد تک مدافعتی ردعمل پر حملہ آور ہوسکتی ہے، تحقیقی ٹیم نے خون کے نمونوں سے نکالے گئے سیرم کے نمونے حاصل کیے۔

    یہ نمونے ان افراد کے تھے جو پہلے کوویڈ کا شکار ہوچکے تھے یا ان کی ایسٹرازینیکا یا فائزر ویکسینز سے ویکسی نیشن ہوچکی تھی۔

    سیرم قدرتی بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز پر مشتمل تھے اور تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا کہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں قدرتی بیماری سے پیدا ہونے وای اینٹی باڈیز کی حساسیت یا افادیت 5.7 گنا کم ہوگئی۔

    ویکسین سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی افادیت ڈیلٹا کے خلاف ایلفا کے مقابلے میں 8 گنا کمی دریافت ہوئی۔

    اسی حوالے سے دہلی کے 3 ہسپتالوں میں کام کرنے والے 100 طبی ورکرز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن کی ویکسینیشن ہوچکی تھی اور ان میں ڈیلٹا کی تصدیق ہوئی تھی۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ متاثرہ افراد میں ڈیلٹا کی منتقلی کا امکان ایلفا قسم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ تحقیقی ٹیم نے لیبارٹری تجربات کے لیے ڈیلٹا والی میوٹیشنز پر مبنی وائرس تیار کرکے اسے لیب میڈ تھری ڈی اعضا کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کیا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا خلیات میں داخل ہونے کے لیے دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتی ہے کیونکہ اس کی سطح پر اسپائیک پروٹین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

    ایک بار خلیات میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی نقول بنانے کے حوالے سے بھی دیگر اقسام سے بہت زیادہ بہتر ہے۔ یہ دونوں عناصر وائرس کی اس قسم کو دیگر اقسام کے مقابلے میں سبقت حاصل ہوئی ہے اور یہ وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں یہ دنیا کے مختلف ممالک میں بالادست قسم بن چکی ہے۔

    محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا کی قسم تیزی سے پھیلاؤ اور لوگوں کو بیمار کرنے کی بہتر صلاحیت کی وجہ سے دنیا بھر میں بالادست قسم بن گئی، یہ قدرتی بیماری یا ویکسینیشن سے پیدا ہونے وای مدافعت کے خلاف مزاحمت کی بھی بہتر صلاحیت رکھتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ویکسینیشن سے پیدا ہونے والی مدافعت کے نتیجے میں ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر عموماً بیماری کی شدت معمولی ہوتی ہے مگر اس سے ان افراد کو زیادہ خطرہ ہوسکتا ہے جو پہلے سے مختلف امراض کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہنگامی بنیادوں پر وائرس کی اقسام کے خلاف ویکسین کے ردعمل کو بہتر بنانے کے ذرائع پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ بیماری کی روک تھام کے اقدامات کی ضرورت ویکسین کے بعد بھی ہوگی۔

    اس تحقیق میں برطانیہ کی میڈیکل ریسرچ کونسل اور نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ ریسرچ جبکہ بھارت کی وزارت صحت، کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ اور ڈیپارٹمنٹ آف بائیوٹیکنالوجی کے ماہرین نے مل کر کام کیا تھا۔

  • کورونا وائرس ایک سال بعد بھی جان نہیں چھوڑتا، تحقیق میں بڑا انکشاف

    کورونا وائرس ایک سال بعد بھی جان نہیں چھوڑتا، تحقیق میں بڑا انکشاف

    کورونا وائرس صحت یاب ہونے والے افراد کی جان نہیں چھوڑتا بلکہ ایک سال بعد بھی دوبارہ حملہ آور ہوسکتا ہے اس بات کا انکشاف تحقیق کے بعد ہوا۔

    اس حوالے سے چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد مریضوں کو ایک سال بعد بھی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ کوویڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    کورونا وائرس کی وبا سب سے پہلے چین کے شہر ووہان میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور اس نئی تحقیق میں وہاں اس بیماری کا سامنا کرنے والے افراد کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 12 سو میں سے لگ بھگ 50 فیصد کو بیماری کے ایک سال بعد بھی مختلف علامات کا سامنا تھا۔

    بیجنگ اور ووہان کے ہسپتالوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے چین کے صوبے ہوبئی کے مریضوں پر توجہ مرکوز کی تھی جس کے شہر ووہان میں 2019 کے آخر میں کووڈ کے اولین کیسز سامنے آئے تھے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے 20 فیصد مریض 12 ماہ بعد بھی مختلف علامات جیسے تھکاوٹ یا مسلز کی کمزوری کا سامنا کر رہے تھے۔

    اسی طرح 17 فیصد کو نیند کے مسائل کا سامنا تھا جبکہ 11 فیصد کو بالوں سے محرومی کی علامت نے پریشان کیا۔

    محققین نے بتایا کہ اگرچہ متعدد مریض صحتیاب ہوگئے ہیں مگر کچھ کی علامات کا تسلسل برقرار رہا بالخصوص ان افراد کو جو کوود سے بہت زیادہ بیمار ہوئے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے کچھ مریض ایک سال سے زائد عرصے بعد بھی مکمل صحتیاب نہیں ہوپاتے اور ایسے افراد کے لیے طویل المعیاد طبی نگہداشت کی سہولیات کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ کووڈ سے صحتیاب ہونے والے ایسے مریضوں پر اب تک سب سے بڑے سروے تھا جو ہسپتالوں میں زیرعلاج رہے تھے۔

    تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 1276 افراد کو شامل کیا گیا تھا جو جنوری سے مئی 2020 کے دوران  ووہان کے ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے۔

    تحقیق میں شامل مریضوں کی اوسط عمر 59 سال تھی اور ان کی صحتیابی کے 6 ماہ اور 12 ماہ مکمل ہونے پر طبی معائنے، لیبارٹری ٹیسٹ اور 6 منٹ کی چہل قدمی کے ٹیسٹ ک ذریعے صھت کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    ایک سال مکمل ہونے پر 6 ماہ کے مقابلے میں بہت کم افراد نے علامات کے تسلسل کو رپورٹ کیا، جبکہ 88 فیصد بیماری سے قبل کی ملازمتوں پر واپس لوٹ گئے۔

    تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر یہ مریض ووہان کے ان افراد کے مقابلے میں کم صحت مند ثابت ہوئے جن کو کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ ہر 10 میں سے 3 افرد کو ایک سال بعد بھی سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ ان کو کسی حد تک ذہنی بے چینی یا ڈپریشن کا بھی سامنا تھا۔4 فیصد مریضوں کو سونگھنے کے مسائل کا سامنا ریکوری کے ایک سال بعد بھی تھا۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ ایک سال بعد بیماری کی متعدل شدت کا سامنا کرنے والے 20 سے 30 فیصد مریضوں کو خون میں آکسیجن گزرنے کے مسئلے کا بھی سامنا تھا جبکہ وینٹی لیٹر سپورٹ پر رہنے والے 54 فیصد مریضوں کو اس مسئلے کا سامنا تھا۔

    محققین نے کہا کہ کووڈ کے طویل المعیاد نتائج کو سمجھنے کے لیے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک مکمل طور پر نفسیاتی علامات جیسے ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے جن کی شرح 6 ماہ کے مقابلے میں ایک سال بعد کچھ زیادہ تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ وائرس سے ہونے والی بیماری کے حیاتیاتی عمعل کا حصہ بھی ہوسکتا ہے یا جسمانی مدافعتی ردعمل اس کے پیچھے ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ہوئے۔

  • موڈرنا اور فائزر ویکسینز سے ڈیلٹا وائرس کا سدباب کس حد تک ممکن ہے؟؟

    موڈرنا اور فائزر ویکسینز سے ڈیلٹا وائرس کا سدباب کس حد تک ممکن ہے؟؟

    موڈرنا اور فائزر کی کورونا ویکسین کے مؤثر ہونے کے حوالے سے کمی سامنے آرہی ہے، اس بات کا انکشاف تحقیق میں کیا گیا۔

    اس حوالے سے امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی جانب سے جاری ایک نئی تحقیق میں  بڑا انکشاف ہونے کے بعد  ماہرین بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موڈرنا اور فائزر/ بائیو این ٹیک کی تیار کردہ ایم آر این اے کووڈ ویکسینز ابتدائی طور پر بیماری سے روک تھام کے لیے 91 فیصد تک مؤثر تھی مگر کورونا کی قسم ڈیلٹا کے سامنے ان کی افادیت گھٹ کر 66 فیصد رہ گئی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ امریکا میں جب کورونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کا غلبہ ہوگیا تو ویکسینز کی افادیت میں کمی آئی۔

    تحقیق کے مطابق ویکسینز کی افادیت میں کمی سے کورونا کی اس قسم کے بہت زیادہ متعدی ہونے کا عندیہ ملتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسینیشن بیماری کی سنگین شدت، ہسپتال میں داخلے اور موت سے بچانے کے لیے کتنی اہم ہے۔

    محققین نے بتایا کہ اگرچہ ہم نے کورونا کی قسم ڈیلٹا کے خلاف ویکسینز کی افادیت میں کمی کو دیکھا ہے مگر پھر بھی ان کے نتیجے میں بیماری سے متاثر ہونے کا خطرہ دوتہائی حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    اس تحقیق میں طبی عملے کے افراد اور دیگر اہم اداروں کے مجموعی طور پر 4217 ورکرز کو شامل کیا گیا تھا اور ہر ہفتے ان کے ٹیسٹ کیے گئے۔

    ان میں سے 83 فیصد یا 3483 کی ویکسینیشن ہوچکی تھی، 65 فیصد کو فائزر، 33 فیصد کو موڈرنا اور دو فیصد کو جانسن اینڈ جانسن ویکسین استعمال کرائی گئی تھی۔

    تحقیق کے مطابق دسمبر 2020 سے اپریل 2021 تک بیماری کی روک تھام کے خلاف ویکسینز کی افادیت 90 فیصد تھی۔ اپریل اور اگست کے دوران کورونا کی قسم ڈیلٹا امریکا میں زیادہ پھیلی اور ویکسینز کی افادیت میں کمی آنا شروع ہوگئی۔

    تحقیق کے دوران ویکسینیشن مکمل کرانے والے 2353 میں سے 24 میں کووڈ کی تشخیص ہوئی اور 75 فیصد کو علامات کا سامنا ہوا مگر تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ علامات کیا تھیں یا ان کی شدت کتنی تھی۔

    محققین کے مطابق ویکسینز اب بھی بہت طاقتور ہیں مگر ہمیں فیس ماسک کا استعمال مزید کچھ عرصے جاری رکھنا چاہیے۔

    ماہرین کی جانب سے تحقیق کو مزید جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اب مختلف ویکسینز کا موازنہ کرنے کے ساتھ یہ دیکھا جائے گا کہ ویکسین استعمال کرنے والے اور استعمال نہ کرنے والے افراد میں کس قسم کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔

    یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب امریکا میں ویکسینیشن کرانے والے افراد کو ستمبر سے اضافی خوراک دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد وقت کے ساتھ ویکسینز کی افادیت میں کمی سے بیماری کے خطرے کو بڑھنے سے بچانا ہے۔

  • معمر افراد میں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار کون ہے، تحقیق میں انکشاف

    معمر افراد میں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار کون ہے، تحقیق میں انکشاف

    ٹورنٹو : ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ نوجوان افراد خود کو کورونا وائرس سے محفوظ نہ سمجھیں، معمر افراد میں کورونا کے پھیلاؤ کے ذمہ دار نوجوان ہی ہیں۔

    کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نوجوانوں میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ کا خطرہ توقعات سے زیادہ ہوتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نوجوانوں میں کورونا وائرس کی شرح پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور جوان مرد معمر افراد میں اس بیماری کو منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    معمر افراد میں کوویڈ میں مبتلا ہونے اور سنگین نتائج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ویکسینیشن کی مہمات میں ابتدا میں ان پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی۔

    ٹورنٹو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ معمر افراد میں بیماری کی زیادہ شرح رپورٹ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عمر کے گروپ کے ٹیسٹ زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ ان میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہونا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ جب لوگ وبا میں کیسز کے اعدادوشمار دیکھتے ہیں تو اکثر ہم یہ فراموش کردیتے ہیں کہ جتنے کیسز ہم دیکھ رہے ہیں ان کا انحصار ٹیسٹنگ کی تعداد پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر عمر کے گروپ میں ٹیسٹنگ کی شرح مختلف ہے۔

    تحقیق میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں مارچ سے دسمبر 2020 کے دوران تمام پی سی آر ٹیسٹوں اور کیسز کی تعداد کے ریکارڈ کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیقی ٹیم نے اس مقصد کے لیے مختلف ماڈلز تیار کیے تاکہ ہر عمر کے گروپ میں بیماری کی شرح کے فرق پر ٹیسٹنگ کی شرح کے اثرات کا علم ہوسکے۔

    تمام تر عناصر کو مدنظر رکھنے پر دریافت کیا گیا کہ 10 سے سال کم عمر بچوں اور 80 سال سے زائد عمر کے افراد میں بیماری کا خطرہ سب سے کم ہوتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں لڑکپن کی عمر میں پہنچ جانے والے بچوں، 20 سے 49 سال کے افراد میں بیماری کی شرح سب سے زیادہ ہوتی ہے بالخصوص جوان مردوں میں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے جو دیکھا وہ تو بس آغاز ہے اور نوجوان افراد میں اس بیماری کا خطرہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا صرف کینیڈین صوبے کا تھا اور زیادہ بڑی آبادی پر مزید تحقیق سے نتائج کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے اینالز آف انٹرنل میڈیسین میں شائع ہوئے ہیں۔

  • لانگ کوویڈ کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ نئی تحقیق

    لانگ کوویڈ کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ نئی تحقیق

    کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے کئی ہفتوں یا مہینوں بعد بھی مختلف علامات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے لانگ کوویڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اس حوالے سے کئی ماہ سے مسلسل تحقیقی کام جاری ہے۔

    دی لانسیٹ چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بچوں میں کورونا کی طویل المیعاد علامات نظر آنے کے امکان کم ہوتے ہیں۔ وہیں دیگر مطالعہ کے مطابق بالغوں میں کووڈ 19 کے مضر اثرات طویل عرصے تک نظر آتے ہیں۔

    زیادہ تر ماہرین اور ڈاکٹروں نے تصدیق کی ہے کہ بالغوں کے مقابلے میں بچے کورونا وائرس کے انفیکشن کا کم شکار ہوتے ہیں اور اگر وہ اس بیماری کا شکار ہو بھی جاتے ہیں تو عام طور پر ان میں ہلکے انفیکشن نظر آتے ہیں اور وہ جلد صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں۔ چائلڈ اینڈ ایڈولیسنٹ ہیلتھ جرنل میں شائع ہونے والی کنگز کالج لندن کی ایک حالیہ تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔

    بالغوں میں لانگ کووڈ( کووڈ کی طویل المیعاد علامات کا سامنا کرنا) کے حوالے سے متعدد طبی مطالعے کیے گئے ہیں لیکن حالیہ طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچوں میں لانگ کووڈ انفیکشن ہونے کے امکانات بالغوں کے مقابلے کم ہیں۔

    کووڈ سے متاثر بیشتر بچوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ان میں 6 دن کے بعد کووڈ کی علامات ختم ہوجاتی ہیں۔ اس مطالعے کا ڈیٹا کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کے والدین اور ان کی دیکھ بھال کرنے والی دائی ماؤں کے ذریعہ ایپ پر شیئر کردہ اعداد وشمار کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔

    کنگز کالج لندن کے محققین کی جانب سے کی گئی اس تحقیق کے مطابق طویل عرصے تک کورونا وائرس کی علامات یا مضر اثرات کا سامنا کرنے والے بچوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔

    Long COVID symptoms in children - YouTube

    دوسری جانب اگر ہم اسی حوالے سے کیے گئے دوسرے مطالبات کے بارے میں بات کرتے ہیں تو بالغوں میں کووڈ 19 کے مضر اثرات طویل عرصے تک نظر آتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 5 سے 17 سال کی عمر کے ڈھائی لاکھ برطانوی بچوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں ستمبر 2020 سے فروری 2021 کے دوران کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔ اسی عرصے میں متاثر ہونے والے 1 ہزار734 بچوں میں آہستہ آہستہ اس بیماری کی علامات نظر آنے لگی۔ ان بچوں کے صحت یاب ہونے تک ان کی صحت کی مسلسل نگرانی کی جاتی رہی۔

    تحقیق کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ ان متاثرہ بچوں میں کووڈ 19 کی علامات محض 6 دن میں کم ہونا شروع ہوگئیں اور وہ جلد ہی صحت یاب بھی ہوگئے۔

    تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ زیادہ تر بچے 4 ہفتوں یعنی ایک ماہ کے اندر مکمل طور پر صحت یاب ہوگئے، لیکن کچھ بچوں میں اس کے بعد بھی انفیکشن کی علامات نظر آئیں۔ تاہم ان علامات کے اثرات بالغوں کے مقابلے میں بہت کم تھے۔

    اس مطالعے میں ایک اور بات پتہ چلی کہ وہ بچے جو کم وقت میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہوئے ہیں، ان میں انفیکشن کے مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے ہیں لیکن جن بچوں میں انفیکشن ایک ماہ سے زائد عرصے تک نظر آئے ہیں وہ تھکاوٹ اور جسمانی کمزوری کا شکار ہوئے ہیں۔

  • کورونا سے متاثرہ بچوں میں کیا علامات ہوتی ہیں ؟ نئی تحقیق

    کورونا سے متاثرہ بچوں میں کیا علامات ہوتی ہیں ؟ نئی تحقیق

    عالمی وبا کورونا وائرس سے دنیا بھر میں بڑوں کے ساتھ بچوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے اور ان میں سے کچھ کو پیچیدگیوں کی وجہ سے اسپتال میں داخل بھی ہونا پڑا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے بچوں میں اکثر بیماری کی کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں جبکہ ایک تخمینے کے مطابق کوویڈ 19 کے شکار ایک تہائی افراد میں بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

    یالے اسکول آف میڈیکل ہیلتھ کی اس تحقیق میں اپریل2021 تک شائع ہونے والی 350 سے زیادہ تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کا منظم تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ معمر افراد یا پہلے سے کسی بیماری سے متاثر لوگوں کے مقابلے میں بچوں میں کوویڈ کی بغیر علامات والی بیماری زیادہ عام ہوتی ہے۔

    تحقیقی ٹیم کے تخمینے کے مطابق 46.7 فیصد مریض بچوں میں کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ محققین نے بتایا کہ یہ نتائج اس لیے بھی زیادہ تشویشناک ہیں کیونکہ بچے کسی محدود جگہ پر اپنی عمر کے بہت زیادہ بچوں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں قریب رہتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اسکولوں کی انتظامیہ اگر علامات کی مانیٹرنگ تک محدود رہتی ہے تو بغیر علامات والے مریض بچوں سے کوویڈ 19 کے سپر اسپریڈر ایونٹس کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بغیر علامات والے مریض بھی وائرس کو دیگر تک منتقل کرسکتے ہیں جس کے باعث فیس ماسک کا استعمال بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے، بالخصوص تعلیمی اداروں کے کھلنے پر۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پی اے این ایس میں شائع ہوئے، مذکورہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب اگست 2021 کے آغاز میں ایک امریکی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کوویڈ سے متاثر بچے اس وائرس کو اپنے گھر میں دیگر افراد میں منتقل کرسکتے ہیں۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں گزشتہ سال موسم گرما میں امریکی ریاست جارجیا میں ایک سلیپ اوے کیمپ میں شریک کرنے والے بچوں سے ان کے گھروں میں کورونا کے پھیلاؤ کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کیمپ میں شریک بچوں نے گھر واپسی پر کووڈ کو گھر والوں تک منتقل کردیا۔ محققین نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اسکول جانے کی عمر کے بچوں سے گھر کے افراد میں کورونا بہت آسانی سے پھیل سکتا ہے اور بالغ افراد کو بیماری کے باعث ہسپتال میں بھی داخل ہونا پڑ سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جن گھروں میں بچوں سے لوگوں تک بیماری منتقل ہوئی وہاں گھر کے آدھے افراد اس بیماری کے شکار ہوئے۔ محققین نے کہا کہ بچوں سے وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کو سماجی دوری اور فیس ماسک کے استعمال سےکم کیا جاسکتا ہے۔

  • بات کرنے اور سانس لینے سے کورونا پھیل سکتا ہے، تحقیق میں خطرناک انکشاف

    بات کرنے اور سانس لینے سے کورونا پھیل سکتا ہے، تحقیق میں خطرناک انکشاف

    کوویڈ19 تقریبا 170 ممالک کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے اور اس کے باعث اب تک لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن اس سے بھی ذیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے بارے میں غلط حقائق بھی عوام الناس میں اسی رفتار سے پھیل رہے ہیں۔

    سنگا پور میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سانس لینے، گانا گانے، بات کرنے اور منہ سے خارج ہونے والے ننھے ایروسول ذرات کوویڈ کے پھیلاؤ میں ممکنہ طور پر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ اس کے پھیلنے کی بڑی وجہ کسی متاثرہ فرد کی کھانسی یا چھینکیں ہوتی ہیں، مگر اس کے پھیلاؤ کے حوالے سے سانس لینے، بات کرنے اور گانے جیسی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ معلوم نہیں۔

    اب سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ متاثرہ فرد کے بات کرنے اور گانے کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ننھے وائرل ذرات سے بھی یہ بیماری آگے پھیل سکتی ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بولنے یا گانے سے بننے والے ننھے ایرول سول ذرات (5 مائیکرو میٹر سے چھوٹے) میں بڑے ایروسولز کے مقابلے میں زیادہ وائرل ذرات ہوتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ ننھے ذرات ممکنہ طور پر کووڈ کے پھیلاؤ میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں بالخصوص کسی چار دیواری کے اندر۔

    محققین نے بتایا کہ اگرچہ سابقہ حقیقی رپورٹس میں بات کرنے اور گانے سے خارج ہونے والے ایروسول ذرات کی مقدار پر روشنی ڈالی گئی، مگر یہ جانچ پڑتال نہیں کی گئی اس سے کتنی مقدار میں کورونا وائرس والے ذرات بنتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق یہ پہلی تحقیق ہے جس میں سانس لینے، بات کرنے اور گانے کے دوران بننے والے ایروسولز میں کووڈ ذرات کی تعداد کا موازنہ کیا گیا۔

    اس تحقیق میں کووڈ کے 22 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو سنگاپور کے نیشنل سینٹر فار انفیکشیز ڈیزیز (این سی آئی ڈی) میں فروری سے اپریل 2021 کے دوران زیرعلاج رہے تھے۔ ان سب افراد کو 3 مختلف سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا۔

    ان افراد کو 30 منٹ تک سانس لینے، 15 منٹ تک بچوں کی ایک کتاب کی تحریر کو بلند آواز میں پڑھنے اور 15 منٹ تک گانے جیسی سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا تھا۔

    ان سرگرمیوں کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ذرات کی جانچ پڑتال کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ آلات کا استعمال کیا گیا۔

    یہ آلات رضاکاروں کے سروں پر نصب کیے گئے جو وینٹی لیشن ہڈ کا کام کرتے یعنی ہوا رضاکاروں کے سروں کے ارگرد سے باہر نکلتی، جس سے نظام تنفس کے ذرات کو ذخیرہ کرنا ممکن ہوجاتا۔

    ایروسولز 2 مختلف حجم کے ہوتے ہیں ایک قسم کا حجم 5 مائیکرو میٹر سے زیادہ بڑے اور دوسرے کا حجم 5 مائیکرو میٹر سے چھوٹا ہوتا ہے۔

    محققین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کے مریض بیماری کے آغاز میں ایروسولز سے بڑی تعداد میں وائرل ذرات کو خارج کرتے ہیں، تاہم لوگوں میں اس کی شرح مختلف ہوسکتی ہے۔

    کچھ مریضوں کی جانب سے حیران کن طور پر گانے کے مقابلے میں بات کرنے کے دوران زیادہ وائرل ذرات کو خارج کیا گیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ نظام تنفس کے ذرات کے ساتھ ساتھ بات کرنے، سانس لینے یا گانے کے دوران خارج ہونے والے ننھے ذرات بھی کووڈ کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ چار دیواری کے اندر اس حوالے سے لوگوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری اور ہوا کی نکاسی کا بہتر نظام زیادہ مؤثر احتیاطی تدابیر ہیں۔

    کورونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کے پھیلاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے محققین کی جانب اس طریقہ کار سے وائرس کی نئی اقسام بالخصوص ڈیلٹا پر جانچ پڑتال کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل کلینکل انفیکشیز ڈیزیز کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہوئے۔

    یاد رہے کہ جب بھی کوئی کورونا متاثرہ شخص کھانستا یا چھینکتا ہے یا سانس لیتا ہے تو یہ وائرس ہوا میں اور اردگرد کی چیزوں پر معلق ہو جاتا ہے اور اگر کوئی بھی اس وائرس آلود ہوا یا سطح کے پاس آئے یا ہاتھ لگائے تو وہ اس بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

    کوویڈ19 ہوا میں 9۔3 گھنٹے تک معلق رہتا ہے اور مختلف سطوحات پر ٹمپریچر کے مطابق 12۔9 دن تک موجود رہتا ہے تاہم ذیادہ تر سطوحات پر کورونا وائرس 1 سے 4 دن تک موجود رہتا ہے۔