Tag: research

  • کورونا ویکسینیشن کی کیا اہمیت ہے؟ یہ کتنی فائدہ مند ہے؟ جانیے

    کورونا ویکسینیشن کی کیا اہمیت ہے؟ یہ کتنی فائدہ مند ہے؟ جانیے

    لندن : برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کرانے والے افراد میں دیگر کے مقابلے میں کوویڈ سے متاثر ہونے یا تشخیص کا امکان3گنا کم ہوتا ہے۔

    امپرئیل کالج کے زیرتحت ہونے والی ری ایکٹ 1 تحقیق کے نتائج 24 جون سے 12 جولائی کے درمیان انگلینڈ میں لگ بھگ ایک لاکھ افراد کے سواب ٹیسٹوں پر مبنی تھے۔ اس عرصے کے دوران 0.63 فیصد افراد کووڈ سے متاثر ہوئے یعنی ہر 158 میں سے ایک فرد اس کا شکار ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اگرچہ ویکسینیشن مکمل کرانے والے چند افراد کووڈ 19 سے متاثر ہوسکتے ہیں مگر نتائج سے سابقہ ڈیٹا کی تصدیق ہوتی ہے جن کے مطابق ویکسین سے بیماری کے خلاف مضبوط تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ویکسینیشن کے بعد جن افراد میں کووڈ کی تصدیق ہوئی، ان میں سے اکثر ڈیلٹا قسم کا شکار ہوئے تھے۔

    ڈیٹا کو دیکھتے ہوئے محققین کا تخمینہ ہے کہ مکمل ویکسینیشن کے بعد لوگوں میں ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں کووڈ کی تشخیص کا خطرہ 50 سے 60 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ویکسینیشن کے بعد اگر کوئی کووڈ سے متاثر ہوتا ہے تو اس سے وائرس کا دیگر تک پھیلاؤ کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ کوئی ویکسین 100 فیصد مؤثر نہیں اور بیماری کا خطرہ برقرار رہتا ہے تو ویکسینیشن کے بعد بھی لوگوں کو احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

    اس سے قبل سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ویکسینیشن مکمل کرانے والے افراد اگر کووڈ کی قسم ڈیلٹا سے متاثر ہو جائیں تو بھی ان میں بیماری کی معتدل یا سنگین شدت کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسینیشن سے بریک تھرو انفیکشنز (ویکسینیشن کے بعد کووڈ سے متاثر ہونے والے مریضوں کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح) کی صورت میں کووڈ سے منسلک ورم کا خطرہ کم ہوتا ہے، علامات کم نظر آتی ہیں بلکہ بغیر علامات والی بیماری کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور کلینکل نتائج بہتر رہتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 18 سال یا اس سے زائد عمر کے 218 افراد کا تجزیہ کیا گیا تھا جو ڈیلٹا قسم سے بیمار ہوئے تھے اور انہیں 5 ہسپتالوں یا طبی مراکز میں داخل کرایا گیا۔

    ان میں سے 84 افراد کو کووڈ سے بچاؤ کے لیے ایم آر این اے ویکسینز استعمال کرائی گئی تھی اور 71 کی ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی۔

    130مریضوں کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی جبکہ باقی 4 کو دیگر ویکسینز استعمال کرائی گئی تھیں۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسین استعمال نہ کرنے والے اور ویکسینیشن کے مرحلے سے گزرنے والے ڈیلٹا کے مریضوں میں ابتدا میں وائرل لوڈ کی شرح ملتی جلتی تھی۔

    تاہم سنگاپور کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسنیشن والے مریضوں میں وائرل لوڈ بہت تیزی سے کلیئر ہوتا ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ ویکسنیشن سے مریضوں سے دیگر افراد میں وائرس کی منتقلی کا امکان کم ہوتا ہے، تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی قسم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کرونا وائرس کی نئی قسم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہونے کے بعد ایک اور نئی قسم لمباڈا بھی سامنے آئی ہے اور ماہرین نے اس کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ کرونا کی نئی قسم لمباڈا سب سے خطرناک ہوسکتی ہے۔ کرونا وائرس کی قسم لمباڈا سب سے پہلے جنوبی امریکی ممالک چلی، پیرو، ارجنٹائن اور ایکواڈور میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور اب تک 26 ممالک تک پہنچ چکی ہے۔

    مذکورہ تحقیق میں متعدد مالیکیولر پولی جینیٹک کو استعمال کرکے لمباڈا قسم کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس تحقیق میں شامل ماہرین نے بتایا کہ لمباڈا کے اسپائیک پروٹین پر ہونے والی میوٹیشن اس کو زیادہ متعدی بناتی ہے، اس میوٹیشن کے باعث لمباڈا جنوبی امریکا کے ممالک میں بہت تیزی سے پھیلی۔

    تحقیق میں اس قسم کی 2 اہم ترین وائرلوجیکل فیچرز کے بارے میں بتایا گیا کہ جو مدافعتی نظام کے ردعمل میں مزاحمت کا باعث بنتی ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس قسم میں ہونے والی میوٹیشنز ممکنہ طور پر اسے ویکسین سے بننے والے مدافعتی ردعمل سے بچنے میں بھی مدد فراہم کرسکتی ہیں لیکن اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ دیگر اقسام کے مقابلے میں لمباڈا قسم زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔

  • کورونا ویکسین کتنے ماہ کیلئے کارآمد ہے ؟ ماہرین نے بتا دیا

    کورونا ویکسین کتنے ماہ کیلئے کارآمد ہے ؟ ماہرین نے بتا دیا

    جیسے جیسے کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لوگوں کے ذہن میں اس وائرس سے بچاؤ کیلئے لگائی جانے والی ویکسین کے بارے میں نت نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

    امپیریل کالج لندن میں متعدی امراض کی چيئر پرسن پروفیسر عذرا غنی کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کے لیے بنائی جانے والی ویکسینوں کا بنیادی مقصد جان بچانا ہے اور اس کا حصول ویکسینیشن کے ذریعے بیماری سے مدافعت پیدا کرنے اور وائرس کی منتقلی کو روکنے سے ہوتا ہے۔

    فائزر/ بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کوویڈ 19 ویکسین کو اس وبائی مرض کے خلاف دنیا کی چند مؤثر ترین ویکسینز میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے تاہم یہ ویکسین کووڈ 19 سے کتنے عرصے تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا ممکن نہیں، کیونکہ اسے تیار ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔

    مگر اب فائزر اور بائیو این ٹیک نے ویکسین کی افادیت کے دورانیے کے حوالے سے نیا ڈیٹا جاری کیا ہے جس کے مطابق ویکسین کے استعمال کے 6 ماہ بعد بیماری کی سنگین شدت اور اسپتال میں داخلے کے خلاف تو ٹھوس تحفظ برقرار رہتا ہے مگر مجموعی طور پر وائرس کے خلاف ویکسین کی افادیت گھٹ جاتی ہے۔

    کمپنیوں کی جانب سے یہ ڈیٹا پری پرنٹ سرور پر جاری کیا گیا ہے، جس سے ویکسین کی افادیت میں بتدریج کمی کا عندیہ ملتا ہے۔ اس تحقیق کے لیے دنیا بھر سے فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے 45 ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی 2 خوراکوں کے استعمال کے بعد ابتدائی 2 ماہ تک لوگوں کو کووڈ کے خلاف 96 فیصد تک تحفظ ملا مگر اس کے بعد ہر 2 ماہ میں ویکسین کی افادیت کی شرح میں 6 فیصد کمی آئی اور 6 ماہ بعد وہ گھٹ کر 84 فیصد تک پہنچ گئی۔

    یعنی اگر ویکسین کی مجموعی افادیت میں ہر 2 ماہ بعد 6 فیصد کمی آتی ہے تو ویکسینیشن کے 18 ماہ بعد وہ 50 فیصد سے نیچے جاسکتی ہے تاہم ویکسینیشن کے 6 ماہ بعد سنگین علامات جیسے خون میں آکسیجن کی کمی یا ہسپتال میں داخلے کے خلاف ویکسین کی افادیت 97 فیصد رہی۔

    ویکسین استعمال کرنے والے ان افراد پر کمپنی کی جانب سے تحقیق کو مزید جاری رکھا جائے گا تاکہ آنے والے عرصے میں ویکسین کی افادیت کی شرح کی زیادہ وضاحت کی جاسکے۔

    دوسری جانب فائزر کی جانب سے ویکسین کی تیسری خوراک کے اثرات سے متعلق بھی ایک تحقیق کے نتائج جاری کئے گئے ہیں۔ تحقیق میں بوسٹر شاٹ سے کورونا کی نئی قسم ڈیلٹا کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح میں اضافے کا جائزہ لیا گیا۔

    نتائج سے دریافت ہوا کہ تیسری خوراک سے ڈیلٹا کے خلاف 18 سے 55 سال کی عمر کے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح میں 5 گنا سے زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اس کے علاوہ65سے 85 سال کی عمر کے افراد میں بھی بوسٹر شاٹ کے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو پہلے سے زیادہ ٹھوس اور دوسری خوراک کے مقابلے میں 11 گنا زیادہ بہتر قرار پایا۔

    کمپنی نے کہا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ تیسری خوراک کے بعد ڈیلٹا سے تحفظ کی شرح میں 2 خوراکوں کے مقابلے میں 100 گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔

    مذکورہ تحقیق کے نتائج کمپنی کی سہ ماہی آمدنی رپورٹ کے ساتھ جاری کیے گئے تھے اور ڈیٹا کو جلد کسی طبی جریدے میں اشاعت کے لیے جمع کرایا جائے گا۔ تحقیق میں 18 سے 55 سال کی عمر کے 11 جبکہ 65 سے 85 سال کی عمر کے 12 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

  • کورونا وائرس سے دماغی صحت کس حد تک متاثر ہوتی ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    کورونا وائرس سے دماغی صحت کس حد تک متاثر ہوتی ہے؟ تحقیق میں انکشاف

    کورونا وائرس جسمانی صحت کے علاوہ دماغی توازن پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اس کا انکشاف محققین نے اپنی تحقیق میں کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کے افراد پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے۔

    تحقیقی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 یادداشت کی کمزوری اور دماغی تنزلی کا باعث بن سکتی ہے اور ممکنہ طور پر الزائمر امراض کی جانب سفر تیز ہوسکتا ہے۔

    الزائمر ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیے گئے ان نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس سے دماغی افعال پر دیرپا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں بالخصوص بزرگ افراد میں۔

    تاہم الزائمر ایسوسی ایشن کی نائب صدر ہیتھر ایم سنائیڈر کا کہنا تھا کہ اگرچہ تحقیقی نتائج دماغ پر کووڈ کے اثرات کو سمجھنے کی جانب پیش رفت ہے، مگر اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر آپ کووڈ سے متاثر ہوتے ہیں تو ضروری نہیں کہ ڈیمینشیا یا الزائمر کا خطرہ بڑھ جائے، ہم ابھی بھی کووڈ اور دماغی امراض کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    ایک تحقیق کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تھی جس میں 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 400 سے زیادہ ارجنٹائنی افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ سے متاثر ہوئے تھے۔

    تحقیقی ٹیم نے ان افراد کا معائنہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے 3 سے 6 ماہ بعد کیا تھا اور دماغی صلاحیتوں، جذباتی ردعمل اور دیگر کی جانچ پڑتال کی۔

    محققین نے دریافت کیا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا ہوا، 60 فیصد کے دماغی افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ ہر 3 میں سے ایک میں علامات کی شدت سنگین تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی شدت سے دماغی مسائل کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی، بلکہ مرض سے ہی ان مسائل کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، چاہے آپ جتنے زیادہ یا کم بیمار ہوں۔

    محققین کے مطابق اگر بیماری کی شدت معمولی ہی کیوں نہ ہو، تاہم کووڈ کے شکار ہیں اور معمر ہیں تو ان مسائل کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح سونگھنے کی حس سے محرومی بھی دماغی افعال کے مسائل سے جڑی ہوتی ہے، سونگھے کی حس سے محرومی کی شدت جتنی زیادہ ہوگی، دماغی افعال اتنے ہی زیادہ متاثر ہوں گے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ کورونا وائرس سے ہونے والی دماغی تبدیلیاں مستقل ہوتی ہیں یا ان کو ریورس کیا جاسکتا ہے۔

    دوسری تحقیق یونان کی ٹھیسلے یونیورسٹی کی تھی جس میں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 2 ماہ بعد کووڈ کے مریضوں کے دماغی افعال میں مسائل کا تجزیہ کیا گیا۔

    اس تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 61 سال تھی اور ان میں بیماری کی شدت معملی سے معتدل تھی۔ تحقیق میں یہ بھی جائزہ لیا گیا کہ دماغی تنزلی کس حد تک جسمانی فٹنس اور نظام تنفس کے افعال سے منسلک تھی۔

    محققین نے دریافت کیا کہ مریضوں کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے 2 ماہ بعد دماغی تنزلی کا سامنا کررہے تھے جبکہ ان میں نظام تنفس کے افعال زیادہ خراب ہوچکے تھے۔

    علامات جیسے ہی تھیں ان میں سے کچھ مریضوں کو دماغی صحت کے ڈاکٹروں سے مدد لینے پر غور کرنا پڑا۔ محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں کو دماغی تنزلی کو لانگ کووڈ کا حصہ سمجھنا چاہئے۔

    تیسری تحقیق میں کووڈ کے مریضوں کے خون میں الزائمر کا خطرہ بڑھانے والے حیاتیاتی اشاروں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے لیے نیویارک یونیورسٹی لانگون ہیتھ میں زیرعلاج رہنے والے 310 مریضوں کے پلازما نمونوں کو اکٹھا کیا گیا تھا۔

    محققین نے دریافت کیا کہ الزائمر سے منسلک حیاتیاتی اشارے توقع سے زیادہ تھے اور یہ حیاتیاتی تبدیلیاں اس سے ملتی جلتی تھیں جو الزائمر اور دیگر دماغی امراض سے منسلک کی جاتی ہیں۔

    تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 69 سال تھی اور محققین کا کہنا تھا کہ ہم یہ سمجھ نہیں سکے کہ لوگوں میں یہ حیاتیاتی تبدیی کیوں آتی ہے، ہم ابھی نہیں جانتے کہ اس کا تسلسل برقرار رہتا ہے یا نہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ کے مریضوں میں الزائمر کی علامات اور اس مرض کی جانب سفر کی رفتار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ سب تحقیقی رپورٹس ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئیں اور طبی ماہرین نے ان کی جانچ پڑتال نہیں کی۔

    تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفصیلات انتہائی اہم ہیں اور اس وبا سے ہمیں وائرل انفیکشن کے اثرات کو جاننے کا موقع ملا ہے، بالخصوص کورونا وائرس سے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات کا۔

    ماہرین نے زور دیا کہ اگر انہوں نے اب تک ویکسینیشن نہیں کرائی تو جلد از جلد کرالیں، ہمارا بہترین مشورہ یہ ہے کہ کووڈ سے بچیں۔

  • مستقبل میں لوگوں کی اوسط عمر کیا ہوگی ؟؟

    مستقبل میں لوگوں کی اوسط عمر کیا ہوگی ؟؟

    ایک زمانے میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ انسان کی أوسط عمر میں 90 سال سے زیادہ اضافہ ممکن نہیں ہے لیکن طبی شعبے میں ہونے والی ترقی اور سماجی پروگراموں میں بہتری نے یہ رکاوٹ دور کردی، اس وقت دنیا بھر میں خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ عرصہ زندہ رہتی ہیں۔

    جب 1776ء میں بینجمن فرینکلن نے امریکا کے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے تو اُن کی عمر 77 سال تھی، اُس زمانے میں مردوں کی اوسط عمر 34 سال بھی نہیں ہوتی تھی، یعنی اپنے زمانے کے حساب سے فرینکلن نے بہت طویل عمر پائی اور بالآخر 84 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس طویل عمری کا راز وہ شراب نوشی سے پرہیز اور تیراکی کے شوق کو قرار دیتے تھے۔

    آج دنیا بھر میں متوقع عمر مردوں کے لیے 70 سال اور خواتین کی 75 سال ہے۔ اس صدی کے وسط یعنی 2050ء تک دنیا میں 100 سال یا اس سے زیادہ عمر رکھنے والے افراد کی تعداد تقریباً 37 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے، جو 1990ءمیں صرف 95 ہزار تھی۔

    جرمنوں کی اوسط متوقع عمر میں مسلسل اضافہ، عورتیں مردوں سے آگے | معاشرہ | DW | 05.11.2019

    ایک تحقیق کے مطابق حیاتیاتی طور پر ہماری زیادہ سے زیادہ عمر کی "حد” 150 سال ہے، الّا یہ کہ کوئی مرض لاحق ہو جائے یا کسی قدرتی آفت کے ہاتھوں جان چلی جائے۔

    ویکسین کی دستیابی اور طبی لحاظ سے دیگر کامیابیوں کی بدولت عمر میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اس سے کئی نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں مثلاً دنیا کے چند ممالک اور علاقوں میں بزرگوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے لیے سرمائے کا حصول مشکل ہوگیا ہے۔

    دوسری جانب اگر انسان کی اوسط عمر میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے مستقبل کے حوالے سے سوچنے کے انداز میں تبدیلی آسکتی ہے اور ممکن ہے کہ وہ مختلف کیریئرز اپنائیں اور اپنی زندگی کے مختلف مراحل کو ایک تسلسل میں لا سکیں۔

    حالیہ تاریخ میں کچھ مراحل ایسے آئے ہیں جو انسان کی اوسط عمر کے حوالے سے اچھے امکانات نہیں لائے، مثلاً امریکا پچھلے سال کووِیڈ-19 کی وجہ سے دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا میں پہلی بار متوقع عمر میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ فرانس میں بھی 2020ء میں اوسط عمر میں کمی آئی ہے۔

    عمر کی اوسط حد میں اضافے کے آثار - ایکسپریس اردو

    لیکن اس کے واضح اشارے موجود ہیں ہم اوسط عمر میں غیر معمولی اضافے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اگر لوگ صحت مندی کے ساتھ طویل عمر پائیں تو اس کے معاشی فوائد بھی ہیں۔ رواں ماہ شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق عمر رسیدگی کے عمل کو دھیما کرنے سے ایک سال میں 38ٹریلین ڈالرز کا فائدہ ہو سکتا ہے۔

    معاشی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم او ای سی ڈی کے مطابق اُس کے 25 رکن ممالک جن میں تعلیم کی شرح بہت زیادہ ہے، کی متوقع عمر میں تقریباً چھ سال کا اضافہ ہو سکتا ہے، ان کے ملکوں کے مقابلے میں کہ جہاں شرحِ خواندگی کم ہے۔

    سائنسی شواہد کے مطابق ذہنی دباؤ سے بچنا طویل عمری کا راز ہے۔ دماغ کے خلیات کو مضر اثرات سے بچانے والے ایک جین کا تعلق غیر معمولی طویل عمری سے ہے۔ تحقیق کے مطابق عمر رسیدگی کے اثرات کو کم کرنے اور عمر کو بڑھانے کے لیے سگریٹ کے دھوئیں، شراب اور کیڑے مار ادویات سے بچنا اہم ہیں۔

  • کورونا وائرس کے مریضوں کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس کے مریضوں کو ایک اور بڑے خطرے کا سامنا؟ ماہرین نے خبردار کردیا

    کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد بڑی مشکل میں پڑ سکتے ہیں، محققین کا کہنا ہے کہ متعدد مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ذیابیطس کی تشخیص کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    اس سے قبل اگست 2020 میں امپرئیل کالج لندن کے محققین نے انتباہ جاری کیا تھا کہ کووڈ 19 بچوں میں ذیابیطس ٹائپ ون کا باعث بن سکتی ہے۔

    اب طبی جریدے نیچر میٹابولزم میں شائع نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ اٹلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہنے والے 551 کووڈ مریضوں میں سے 46 فیصد کا بلڈ شوگر لیول بڑھ گیا، جو ذیابیطس کے مریضوں میں ایک عام مسئلہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق یہ مسئلہ مریضوں میں کوویڈ سے صحتیابی کے بعد بھی کم از کم 2 ماہ تک برقرار رہا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ابھی یہ تو معلوم نہیں کہ کورونا وائرس سے متحرک ہونے والے ذیابیطس کے مرض کا بہترین علاج کیا ہے، مگر ایک ماہر نے خبردار کیا کہ کووڈ کے باعث ہمیں شاید ذیابیطس کے شکار افراد کی تعداد میں نمایاں اضافے کو دیکھنا پڑے گا۔

    ذیابیطس کی 2 اقسام عام ہیں، جن میں سے ٹائپ ون ایک آٹوامیون مرض ہے جو اس وقت سامنے آتا ہے جب مریض کا جسم غلطی سے انسولین بنانے والے خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں ذیابیطس ٹائپ 2 کو مریض کے طرز زندگی سے منسلک کیا جاتا ہے، یعنی زیادہ جسمانی وزن یا سست طرز زندگی اس کی وجوہات میں شامل ہے۔

    ذیابیطس کے مریضوں کے بارے میں یہ پہلے ہی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ ان میں کورونا وائرس سے بیماری کی شدت سنگین ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر اب ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں کہ کووڈ اس خاموش قاتل مرض کا شکار بھی بناسکتا ہے۔

    کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی تشخیص کو سمجھنے کے لیے بوسٹن چلڈرنز ہاسپٹل کے ماہرین نے اٹلی کے شہر میلان کے ایک ہسپتال میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران زیر علاج رہنے والے 551 مریضوں کا جائزہ لیا۔

    ان مریضوں میں ایک بلڈ شوگر سنسر ہسپتال میں داخلے کے وقت نصب کیا گیا تھا اور اس کے ڈیٹا کا جائزہ 6 ماہ تک لیا گیا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ان مریضوں میں سے کوئی بھی ہسپتال میں داخلے سے پہلے سے ذیابیطس کا شکار نہیں تھا اور ہم نے 46 فیصد مریضوں میں نئے ہائپر گلیسیما کو دریافت کیا۔

    ہائپر گلیسمیا ہائی بلڈ شوگر لیول کے لیے استعمال ہونے والی طبی اصطلاح ہے، وقت کے ساتھ اس کے نتیجے میں مریضوں کی آنکھوں، اعصاب، گردوں یا خون کی شریانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن مریضوں کو کووڈ کے باعث ہائی بلڈ شوگر کا سامنا ہوا ان کو دیگر مریضوں کے مقابلے میں ہسپتال میں زیادہ عرصے قیام کرنا پڑا، ان کی علامات زیادہ سنگین تھیں اور انہیں آکسیجن، وینٹی لیشن اور آئی سی یو نگہداشت کی بھی زیادہ ضرورت پڑی۔

    محققین کے مطابق حیران کن طور پر ان افراد میں انسولین کی بہت زیادہ مقدار بننے لگی تھی جبکہ بلڈ شوگر لیول کی سطح کم کرنے والے خلیات کے افعال پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

    انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر لبلبے کے ہارمونز میں آنے والی خرابیوں سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ کے باعث انہیں ان مسائل کا سامنا ہوا اور صحتیابی کے لیے بھی زیادہ وقت لگا۔

    کورونا وائرس کی یچیدگیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مریض کا مدافعتی نظام حد سے زیادہ متحرک ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں ورم کا باعث بننے والے مالیکیولز کی بھرمار ہوجاتی ہے جو صحت مند خلیات پر حملہ آور ہوجاتی ہے۔

    اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ورم کا باعث بننے والے مدافعتی پروٹیشنز کو بلاک کرنے سے مریضوں کے بلڈ شوگر لیول کو کسی حد تک بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

    تاہم دیگر مسائل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں اور ہر بار کھانے کے بعد ان مریضوں کے جسم میں گلوکوز کی سطح میں غیرمعموی اضافہ ہوجاتا۔

    محققین کا کہنا تھا کہ یہ اولین تحقیقی رپورٹس میں سے ایک ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ 19 براہ راست لبلبے پر اثرات مرتب کرنے والا مرض ہے جو کہ طویل المعیاد طبی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

    ان مریضوں کا علاج کس طرح ہوسکتا ہے یہ تاحال کسی اسرار سے کم نہیں، کیونکہ انسولین کو مسلسل بلاک کرنے سے دائمی ورم کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے نقصان بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس حواے سے زیادہ بڑی تحقیق کیے جانے کی ضرورت ہے، کیونکہ کروڑوں افراد کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی دنیا بھر میں جاری ہے، جس سے ذیابیطس کے شکار آبادی میں نمایاں اضافے کا خدشہ ہے۔

    یہ تو ابھی مکمل طور پر واضح نہیں کہ کووڈ ذیابیطس کا باعث کیوں بن سکتا ہے، مگر ایک ممکنہ وضاحت لبلبے میں ایس 2 ریسیپٹرز کی تعداد بہت زیادہ ہونا ہے، جس کو کورونا وائرس خلیات میں داخلے کے لیے استعتمال کرتا ہے۔

    اسی طرح کورونا وائرس کے مریضوں میں مدافعتی نظام کے باعث متحرک ہونے والا ورم بھی لبلبلے کو نقصان پہنچا کستا ہے جس سے اس کی انسولین بنانے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے۔

  • کورونا سے صحت یاب افراد کو ایک اور خطرے کا سامنا، ہوشربا انکشاف

    کورونا سے صحت یاب افراد کو ایک اور خطرے کا سامنا، ہوشربا انکشاف

    برطانیہ اور امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی افعال میں نمایاں کمی کے خطرہ ہوسکتا ہے۔

    امپرئیل کالج لندن، کنگز کالج، کیمبرج، ساؤتھ ہیمپٹن اور شکاگو یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں  یہ بات جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کوویڈ 19 کس حد تک ذہنی صحت اور دماغی افعال پر اثرات مرتب کرنے والی بیماری ہے۔

    اس مقصد کے لیے گریٹ برٹش انٹیلی جنس ٹیسٹ کے 81 ہزار سے زیادہ افراد کے جنوری سے دسمبر 2020 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جن میں سے 13 ہزار کے قریب میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق کے مطابق ان میں سے صرف 275 افراد نے کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل اور بعد میں ذہانت کے ٹیسٹ کو مکمل کیا تھا۔

    باقی افراد کے لیے محققین نے دماغی کارکردگی کی پیشگوئی کے ایک لائنر ماڈل کو استعمال کیا، جس میں جنس، نسل، مادری زبان، رہائش کے ملک، آمدنی اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق دماغ کی کارکردگی کے مشاہدے اور پیشگوئی سے ان افراد کے ذہانت کے ٹیسٹوں میں ممکنہ کارکردگی کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔

    تحقیق میں تمام تر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کووڈ 19 کا شکار ہوئے، ان کی ذہنی کارکردگی اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوگئی۔

    ذہنی افعال کی اس تنزلی سے منطق، مسائل حل کرنے، منصوبہ سازی جیسے اہم دماغی افعال زیادہ متاثر ہوئے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ نتائج لانگ کووڈ کی رپورٹس سے مطابقت رکھتے ہیں، جن میں مریضوں کو ذہنی دھند، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور الفاظ کے چناؤ جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کوویڈ 19 سے ریکوری ممکنہ طور پر ذہانت سے متعلق افعال کے مسائل سے جڑی ہوسکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کوویڈ 19 دماغی تنزلی سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس کا تسلسل صحت یابی کے مراحل کے دوران برقرار رہتا ہے یعنی علامات ہفتوں یا مہینوں تک برقرار رہ سکتی ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ذہنی افعال میں تنزلی کی سطح کا انحصار بیماری کی شدت پر ہوتا ہے۔

    یعنی جن مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی، ان میں ذہنی افعال کی تنزیلی کی شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ تھی، درحقیقت یہ کمی اتنی زیادہ تھی کہ وہ کسی ذہانت کے ٹیسٹ میں آئی کیو لیول میں 7 پوائنٹس تک کمی کے مساوی سمجھی جاسکتی ہے۔

    محققین کے مطابق ذہانت کی شرح میں یہ کمی فالج کا سامنا کرنے والے مریضوں سے بھی زیادہ تھی۔

    تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی حتمی نتیجے پر دماغی امیجنگ ڈیٹا کے بغیر پہنچنا ممکن ہیں، مگر یہ نتائج اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ضرور ظاہر کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی لانیسٹ میں شائع ہوئے۔

  • دوقسم کی ویکسین کی خوراکیں جسم پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں؟

    دوقسم کی ویکسین کی خوراکیں جسم پر کیسے اثرات مرتب کرتی ہیں؟

    سیئول : ایک ہی شخص کو دو قسم کی کورونا ویکسینز لگوانے کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق نے ماہرین کی بڑی مشکل آسان کردی۔

    جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایسٹرازینیکا اور فائزر ویکسینز کا امتزاج کورونا وائرسز کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کئی گنا اضافہ کردیتا ہے۔

    اس تحقیق میں لوگوں کو دوویکسینز کی ایک، ایک خوراک کا استعمال کرواکے اثرات کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد تمام افراد میں وائرس ناکارہ بننے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

    India offers Covid vaccines to diplomats, including Pak, China | India News,The Indian Express

    تحقیق کے مطابق ایسٹرازینیکا کو بطور پہلی جبکہ فائزر ویکسین کو دوسری خوراک کے طور پر استعمال کرانے سے وائرس ناکارہ بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکوں کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں 499 طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا، جن میں سے 100 کو 2 ویکسینز کی خوراکیں دی گئیں، 200 کو فائزر جبکہ باقی لوگوں کو ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرائی گئیں۔

    تحقیق کے مطابق 2 ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں ان اینٹی باڈیز کی سطح فائزر ویکسین استعمال کرنے والے گروپ جتنی ہی تھی۔

    اس سے قبل جون میں ایک برطانوی تحقیق میں بھی اسی طرح کے نتائج سامنے آئے تھے جس میں پہلے ایسٹرازینیکا اور پھر فائزر ویکسین رضاکاروں کو استعمال کرائی گئی، جس سے ان میں بننے والے مدافعتی ردعمل ایسٹرازینیکا ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والوں سے زیادہ طاقتور تھا۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک ہی ویکسین کی 2 خوراکوں کے بجائے دونوں ڈوز 2 مختلف ویکسینز کے استعمال کرنے سے کووڈ سے لڑنے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔

    FACT CHECK: Can you get infected with COVID-19 after vaccination? This is what government says

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ لوگوں کو پہلے ایسٹرازینیکا اور پھر فائزر ویکسین کی خوراک دینا زیادہ بہتر ردعمل کے لیے تیار کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جنوبی کورین تحقیق میں کورونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف بھی ویکسینز کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    محققین نے دریافت کیا کہ ویکسینز کے امتزاج سے وائرس کی اوریجنل قسم کی روک تھام کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح ایلفا قسم کے خلاف یکساں سطح پر رہی، یہ وہ قسم ہے جو سب سے پہلے برطانیہ میں سامنے آئی تھی۔

    تاہم بیٹا (جنوبی افریقی قسم)، گیما (برازیلین قسم) اور ڈیلٹا (بھارتی قسم) کے خلاف ویکسینز کی وائرس ناکارہ بنانے والی صلاحیت میں ڈھائی سے 6گنا کمی دریافت کی گئی۔

  • لانگ کووڈ سے متعلق ایک اور انکشاف

    لانگ کووڈ سے متعلق ایک اور انکشاف

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک اس کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے، حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق کی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 کا سامنا کر کے اس سے صحت یاب ہونے والی ایک چوتھائی سے زائد مریضوں میں بیماری کی طویل المعیاد علامات یا لانگ کووڈ کا امکان ہوتا ہے۔

    زیورخ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 2020 میں عام آبادی میں کووڈ 19 سے بیمار ہونے والے بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ایک چوتھائی سے زائد نے بتایا کہ وہ ابتدائی بیماری کے 6 سے 8 مہینے بعد بھی مکمل طورپر صحت یاب نہیں ہوسکے۔

    کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں محققین کی زیادہ تر توجہ کووڈ 19 کے بوجھ میں کمی لانے پر مرکوز تھی۔ مگر حالیہ مینوں میں ایسے شواہد مسلسل سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ بیماری طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرسکتی ہے۔

    ان طویل المعیاد اثرات کے لیے پوسٹ کووڈ 19 سنڈروم یا لانگ کووڈ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ اس تحقیق میں 431 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص فروری سے اگست 2020 کے دوران ہوئی تھی۔

    ان افراد سے بیماری کی تشخیص کے 7.2 ماہ بعد صحت کے بارے میں ایک آن لائن سوال نامہ بھرنے کے لیے کہا گیا۔

    بیماری کی تشخیص کے وقت 89 فیصد افراد میں بیماری کی علامات موجود تھیں جبکہ 19 فیصد کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، ان افراد کی اوسط عمر 47 سال تھی۔

    مجموعی طور پر 26 فیصد افراد نے بتایا کہ کووڈ 19 کی ابتدائی تشخیص کے 6 سے 8 ماہ بعد بھی وہ مکمل طور پر بیماری کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔

    ان میں سے 55 فیصد افراد نے تھکاوٹ کی علامات کو رپورٹ کیا، 25 فیصد کو کسی حد تک سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ 26 فیصد کو ڈپریشن کی علامات نے پریشان کیا۔

    مجموعی طور پر 40 فیصد افرد نے بتایا کہ انہیں کم از کم ایک بار کووڈ 19 سے متعلق کسی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق آبادی پر کووڈ 19 کے اثرات پر مبنی تھی جس سے معلوم ہوا کہ 26 فیصد افراد تشخیص کے 6 سے 8 ماہ بعد بھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو سکے جبکہ 40 فیصد کو کم از کم ایک بار طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا۔

  • فائزر ویکسین ڈیلٹا ویریئنٹ کے خلاف کتنی مؤثر ہے؟

    فائزر ویکسین ڈیلٹا ویریئنٹ کے خلاف کتنی مؤثر ہے؟

    اسرائیلی وزارت صحت کے زیرتحت ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کوویڈ 19 ویکسین دنیا کی چند مؤثر ترین ویکسینز میں سے ایک ہے جس کی افادیت 90 فیصد سے زیادہ ہے تاہم کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کے خلاف یہ ویکسین اتنی زیادہ مؤثر نہیں۔

    اس تحقیق میں وائرس کی ابتدائی اقسام کے خلاف اس ویکسین کی 95 فیصد افادیت کا موازنہ ڈیلٹا قسم سے کیا گیا تھا۔ بھارت میں سب سے پہلے سامنے آنے والی یہ قسم گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران اسرائیل میں 90 فیصد سے زیادہ نئے کیسز کا باعث بنی ہے۔

    تحقیق کے دوران جون کے مہینے میں اکٹھے کیے گئے ڈیٹا سے عندیہ ملا کہ فائزر ویکسین کی 2 خوراکوں کو استعمال کرنے والے افراد کو ڈیلٹا قسم کے خلاف 64 فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔ تاہم تحقیق میں بتایا کہ ویکسین بیماری کی سنگین شدت اور ہسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے 93 فیصد تک مؤثر ہے۔

    محققین نے بتایا کہ ڈیلٹا قسم بہت زیادہ متعدی ہے مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین کا استعمال لوگوں کو کووڈ کی سنگین شدت اور موت سے بچانے میں مددگار ہے۔

    اس سے قبل مئی 2021 میں پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ فائزر/بائیو این ٹیک اور ایسٹرازینیکا/ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کووڈ ویکسینز کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے خلاف بہت زیادہ مؤثر ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر ویکسین کورونا کی دوسری خوراک استعمال کرنے کے 2 ہفتے بعد ڈیلٹا سے 88 فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی ڈیلٹا کے خلاف افادیت 60 فیصد ہے۔

    پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق دونوں ویکسینز کی افادیت میں فرق کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی دوسری خوراک فائزر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ وقفے کے بعد دی جاتی ہے۔