Tag: research

  • کیا آپ کو کورونا ویکسین کے اس اہم فائدے کا علم ہے؟

    کیا آپ کو کورونا ویکسین کے اس اہم فائدے کا علم ہے؟

    کوویڈ 19 کی روک تھام کے لیے دنیا بھر میں مختلف ویکسینز کا استعمال کیا جارہا ہے تاہم ابھی ایسی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی جو 100 فیصد تک بیماری سے تحفظ فراہم کرسکے۔

    ویسے تو کووڈ 19 ویکسین کا استعمال کرنے زیادہ تر افراد کو بیماری سے تحفظ مل جاتا ہے مگر کچھ لوگ اس وبائی مرض کا شکار ہوسکتے ہیں تاہم ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویکسنیشن کے عمل سے گزرنے والے افراد کو اگر کوویڈ کا سامنا ہوتا ہے تو ان میں وائرل لوڈ کم ہوتا ہے۔

    اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایسے افراد ویکسین استعمال نہ کرنے والے کے مقابلے میں وائرس کو آگے زیادہ نہیں پھیلاتے۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسنیشن کے بعد اگر کسی کو کووڈ کا سامنا ہوتا بھی ہے تو بھی بیماری کی شدت معمولی اور دورانیہ مختصر ہوتا ہے۔

    تحقیقی ٹیم میں شامل سینٹرز فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے وبائی امراض کے ماہر مارک تھامپسن نے بتایا کہ ویکسینیشن کے باوجود کوئی کورونا وائرس سے متاثر ہوتا ہے تو زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ اس کو ایسی بیماری کا سامنا نہیں ہوگا جو بخار کا باعث بنتی ہے۔

    اس تحقیق میں 4 ہزار کے قریب ہیلتھ ورکرز کو شامل کیا گیا تھا اور دسمبر 2020 سے اپریل 2021 کے وسط تک ان کے ہر ہفتے کووڈ ٹیسٹ ہوئے۔

    اس عرصے میں 204 میں کوڈ کی تشخیص ہوئی جن میں سے 5 ایسے تھے جن کی ویکسنیشن مکمل ہوچکی تھی جبکہ 11 ایسے تھے جن کو فائزر یا موڈرنا کی ویکسین کی ایک خوراک استعمال کرائی گئی تھی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مکمل یا جزوی ویکسینیشن والے افراد میں وائرل لوڈ اس وقت تک ویکسین استعمال نہ کرنے والے مریضوں کے مقابلے میں 40 فیصد کم تھا۔

    اسی طرح ایک ہفتے کے بعد وائرس کی موجودگی کا خطرہ دوسرے گروپ سے 66 فیصد تک کم تھا جبکہ بخار جیسی علامات کا خطرہ 58 فیصد تک کم تھا۔

    ویکسین والے گروپ میں سے کسی کو بھی کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا اور بیماری کی شدت معمولی یا معتدل تھی۔

    ان کی بیماری کا دورانیہ بھی کم تھا یعنی بستر پر بیماری کے باعث دوسرے گروپ کے مقابلے میں 2 دن کم گزارنے پڑے اور علامات کا دورانیہ بھی 6 دن کم تھا۔

    تحقیق کے نتائج سے محققین نے تخمینہ لگایا کہ ویکسین کی دونوں خوراکیں بیماری کی روک تھام سے بچانے میں 91 فیصد تک جبکہ جزوی ویکسینیشن 81 فیصد تک مؤثر ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ویکسینز نہ صرف نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کے خلاف بہت زیادہ مؤثر ہیں بلکہ وہ بریک تھرو انفیکشن (ویکسنیشن والے افراد میں بیماری کی تصدیق پر طبی زبان میں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہے) میں بیماری کی شدت کو کم کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے۔

  • کورونا متاثرہ کچھ مریضوں میں شدت کم کیوں ہوتی ہے ؟ ممکنہ وجہ سامنے آگئی

    کورونا متاثرہ کچھ مریضوں میں شدت کم کیوں ہوتی ہے ؟ ممکنہ وجہ سامنے آگئی

    واشنگٹن : ماہرین صحت نے ان وجوہات کا پتہ لگا لیا ہے جس کی وجہ سے کورونا سے متاثرہ کچھ مریضوں میں وائرس کی شدت کم ہوتی ہے یا بہت معمولی علامات نظر آتی ہیں۔

    کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ19 کے حوالے سے ایک پہلو وبا کے آغاز سے ماہرین کے لیے معمہ بنا ہوا ہے کہ آخر کچھ افراد

    میں اس کی شدت زیادہ کیوں ہوتی ہے جبکہ بیشتر میں علامات معمولی یا ظاہر ہی نہیں ہوتیں۔ اب ایک نئی تحقیق میں اس معمے کا ممکنہ جواب سامنے آیا ہے۔

    امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جن افراد میں کوویڈ کی شدت معمولی ہوتی ہے، اس کی وجہ ماضی میں دیگر اقسام کے سیزنل کورونا وائرسز کا سامنا ہے۔

    یعنی وہ کورونا وائرسز جو زیادہ تر بچوں میں عام نزلہ زکام کا باعث بنتے ہیں اور مدافعتی نظام کے مخصوص خلیات ان کو ‘یاد’ رکھتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مدافعتی خلیات بہت تیزی سے سارس کووو 2 (کووڈ کا باعث بننے والا وائرس) کے خلاف اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب ان کا سامنا دیگر کورونا وائرسز سے ہوچکا ہو۔

    اس دریافت سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کچھ افراد بالخصوص بچوں میں اس وائرس سے متاثر ہونے پر علامات معمولی کیوں ہوتی ہیں۔

    یہ مدافعتی خلیات جن کو ٹی سیلز کہا جاتا ہے، خون اور لمفی نظام میں گھومتے ہیں اور جراثیم کے میزبان بننے والے خلیات کے خلاف آپریشن کرتے ہیں۔

    محققین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے خلاف مدافعت کے لیے اکثر اینٹی باڈیز پروٹینز کی بات کی جاتی ہے جو وائرس کو کمزور خلیات کو متاثر کرنے سے قبل روکتے ہیں، مگر اینٹی باڈیز کو آسانی سے بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جراثیم تیزی سے ارتقائی مراحل سے گزر کر اینٹی باڈیز کے انتہائی اہم خصوصیات سے بچنا سیکھتے ہیں، مگر ٹی سیلز جراثیموں کو مختلف طریقے سے شناخت کرتے ہیں اور انہیں دھوکا دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔

    ہمارے خلیات رئیل ٹائم میں رپورٹس جاری کرتے ہوئے اندرونی حالت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور ہر پروٹین کے نمونے ایک دوسرے سے بدلتے ہیں جبکہ ٹی سیلز ان کی سطھ پر موجود اجزا کا معائنہ کرتے ہیں۔

    جب ٹی سیلز ریسیپٹر کسی ایسے جز کو دیکھتا ہے جس کا وہاں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو وہ جنگ کا اعلان کرتے ہیں اور بہت تیزی سے اپنی تعداد کو بڑھا کر اس جز پر حملہ آور ہوکر ان اجزا والے خلیات کو تاہ کردیتےہ یں۔

    یہ میموری ٹی سیلز بہت زیادہ حساس اور ان کی عمر متاثرکن حد تک طویل ہوتی ہے جو مسلسل خون اور لمفی نظام میں دہائیوں تک موجود رہ سکتے ہیں۔

    محققین نے بتایا کورونا کی وبا کے آگے بڑھنے کے ساتھ متعدد افراد کووڈ سے بہت زیادہ بیمار یا ہلاک ہوگئے جبکہ دیگر کو بیماری کا علم بھی نہیں ہوا، اس کی وجہ کیا ہے؟

    اسی سوال کو جاننے کے لیے تحقیق کی گئی جس میں دریافت کیا گیا کہ نئے کورونا وائرس کا جینیاتی سیکونس نزلہ زکام کا باعث بننے والے 4 کورونا وائرس اقسام سے حیران کن حد تک مماثلت رکھتا ہے۔

    انہوں نے 24 مختلف سیکونسز کے نمونے کو اکٹھا کیا جو کورونا وائرس یا اس سے ملتے جلتے دیگر کورونا وائرسز کا تھا۔

    محققین مے کورونا کی وبا سے قبل حاصل کیے گئے صحت مند افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا جو دیگر کورونا وائرسز کا سامنا تو کرچکے تھے مگر نئے کورونا وائرس سے اس وقت تک محفوظ تھے۔

    ان نمونوں میں ٹی سیلز کی تعداد کا تعین کیا گیا اور دریافت ہوا کہ ان افراد میں موجود ٹی سیلز کورونا وائرس کے زرات کو ہدف بنارہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر ٹی سیلز کا میموری موڈ متحرک تھا اور ایسے خلیات وبائی مرض کے خلاف زیادہ سرگرم اور دفاع کرتے ہیں۔

    محققین نے یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جن افراد میں سابقہ کورونا وائرسز کے خلاف ٹی سیلز متحرک تھے ان میں کووڈ کی شدت بھی معمولی تھی جبکہ زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے ٹی سیلز کے لیے کورونا وائرس ایک منفرد جراثیم تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں دیگر کورونا وائرسز سے متاثر نہیں ہوئے یا کم از کم حال ہی میں ان سے بیمار نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے ان میں نئے کورونا وائرس کے خلاف تحفظ فراہم کرنےوالے ٹی سیلز موجود نہیں تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچے زندگی کے ابتدائی برسوں میں مختلف وائرسز کی زد میں آتے ہیں اور اسی وجہ سے ان میں کورونا کی شدت عام طور پر بہت کم ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے نتائج جریدے سائنس امیونولوجی کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہوئے۔

  • مچھروں کو کس قسم کے لوگوں کا خون زیادہ پسند ہے؟ دلچسپ تحقیق

    مچھروں کو کس قسم کے لوگوں کا خون زیادہ پسند ہے؟ دلچسپ تحقیق

    ایک تحقیق کے مطابق مچھر خاص قسم کے خون سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا شکار بناتے ہیں اور یہ کام وہ اپنا من پسند خون منتخب کرکے ہی کرتے ہیں۔

    پاکستان میں ہر سال ماہ جولائی سے مون سون کا سیزن شروع ہو جاتا ہے اور اس گرم موسم میں بارش کا ذکر سن کر ہی شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بارش کا موسم انسانی صحت کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔

    نزلہ، زکام سے لے کر ڈینگی، ملیریا اور چکن گنیا جیسے مہلک امراض بھی اسی موسم میں زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں، بارش کا موسم صحت کے حوالے سے کئی مسائل بھی ساتھ لاتا ہے اور انسانی صحت کو متاثر کرتا ہے۔

    مؤخر الذکر تینوں امراض دراصل مچھر کے کاٹنے سے پھیلتے ہیں اور جیسے جیسے بارش کی وجہ سے ہر طرف پانی جمع ہونے لگتا ہے، مچھروں کی تعداد بھی بڑھتی ہے ساتھ ہی امراض بھی۔

    آپ نے اپنے دوستوں، یا قریبی عزیزوں، میں دیکھا ہوگا ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو ہر وقت یہ شکایت کرتا رہتا ہے کہ مچھر بہت ہیں جبکہ دوسرے مچھروں کے ہاتھوں اتنے تنگ نہیں ہوتے۔ تو یہ بات بالکل درست ہے کہ مچھر اپنا شکار منتخب کر کے ہی کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کاٹتے ہیں۔

    اس حوالے سے چند عوامل اہم ہیں۔ جرنل آف میڈیکل اینٹومولوجی کی ایک تحقیق کے مطابق مچھر "اے” ٹائپ خون کے مقابلے میں "او” ٹائپ خون رکھنے والے افراد کو دو گنا زیادہ کاٹتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کا تعلق ہمارے جسم سے خارج ہونے والی رطوبت ہے، جو مچھروں کو بتاتی ہیں کہ یہ شخص کون سے قسم کا خون رکھتا ہے۔

    فلوریڈا یونیورسٹی میں علم حشریات (حیاتیات) کے پروفیسر جوناتھن ڈے کا کہنا ہے کہ مختلف اقسام کے خون رکھنے والے افراد میں مچھروں کی ترجیحات کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے البتہ انہوں نے اتفاق کیا کہ مچھر ہمارے جسم سے ملنے والے چند اشاروں کی مدد سے کچھ لوگوں کو زیادہ کاٹتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ چند اشارے انہیں بتاتے ہیں کہ شاید کاربن ڈائی آکسائیڈ ان میں اہم ہو۔ چند لوگوں میں جینیاتی یا دیگر عوامل کی بنیاد پر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔ آپ جتنی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالیں گے، اتنا ہی آپ مچھروں کی توجہ حاصل کریں گے۔”

    اگلا سوال جو سامنے آتا ہے کہ آخر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے بے جان اجسام کے مقابلے میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جو ہمیں ممتاز کرتی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ مچھر بنیادی علامات کے علاوہ کچھ دیگر ثانوی اشارے بھی پاتے ہیں۔

    مثلاً لیکٹک ایسڈ، وہ مادہ جو ورزش کے دوران ہمارے پٹھوں میں اینٹھن کا باعث بنتا ہے، ثانوی علامات میں سے ایک ہے۔ یہ جلد کے ذریعے نکلتا ہے اور مچھروں کو اشارہ کرتا ہے کہ ہم ایک ہدف ہیں۔

    پھر مچھر کچھ مزید خصوصیات بھی رکھتے ہیں جو انہیں ثانوی اشارے سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ پروفیسر جوناتھن ڈے کا کہنا ہے کہ "مچھروں کی نظر بہت تیز ہوتی ہے، لیکن وہ ہوا سے بچنے کے لیے زمین کے قریب ہو کر اڑتے ہیں۔

    اس کے علاوہ آپ نے کس طرح یا کس رنگ کا لباس پہنا ہے، یہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ گہرے رنگ کا لباس پہننے پر آپ مچھروں کی زیادہ توجہ حاصل کریں گے، جبکہ ہلکے رنگ کے لباس پر وہ زیادہ نہیں آتے۔”

    پھر مچھر آپ کے جسم پر اترنے کے بعد بھی کچھ چیزیں محسوس کرتا ہے مثلاً جسم کا درجہ حرارت ایک بہت اہم اشارہ ہوتا ہے جو جینیاتی وجوہات یا پھر جسمانی فرق کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    کچھ لوگوں کا جسم نسبتاً گرم ہوتا ہے اور کیونکہ جس مقام سے خون جلد کے قریب ہو، وہاں کچھ گرماہٹ ہوتی ہے اس لیے ان لوگوں کے مچھروں کےکاٹے جانے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

    کلیولینڈ کلینک میں جلدی امراض کی ماہر میلیسا پلیانگ کہتی ہیں کہ آپ کا طرزِ زندگی اور صحت کے دیگر عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر جسم کا درجہ حرارت زیادہ رہتا ہے، آپ ورزش یا چلت پھرت زیادہ کرتے ہیں تو آپ مچھروں کے نشانہ پر زیادہ ہوں گے۔

    تحقیق کے مطابق اس کے علاوہ حاملہ خواتین یا زیادہ وزن رکھنے والے افراد بھی مچھروں کی زد پر ہوتے ہیں۔

  • کورونا وائرس آپ کا دماغی توازن بھی خراب کرسکتا ہے، تحقیق میں انکشاف

    کورونا وائرس آپ کا دماغی توازن بھی خراب کرسکتا ہے، تحقیق میں انکشاف

    کورونا وائرس عالمی سطح پر اپنی تباہ کاریاں جاری رکھے ہوئے ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی رونما ہورہی ہیں، مختلف اقسام کے ساتھ حملہ آور ہونے والے وائرس کی اب ایک اور خطرناک شکل سامنے آئی ہے۔

    کورونا وائرس کی وبا کی ابتدا سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ یہ محض پھیپھڑوں تک محدود بیماری نہیں، بلکہ دل، گردوں اور جگر بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ متاثر افراد کو دماغی مسائل جیسے ذہنی دھند، سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور فالج کا بھی سامنا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ پہلی بار یہ علم بھی ہوا ہے کہ کوویڈ 19 سے طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی ٹشوز کی محرومی کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں یوکے بائیوبینک کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا جس کے پاس 40 ہزار سے زیادہ افراد کے جینیاتی ڈیٹا، طبی ریکارڈز اور دماغی اسکینز موجود تھے۔

    ان میں سے 782 افراد کا انتخاب کیا گیا جن میں سے 3394 میں مارچ 2020 سے اپریل 2021 کے دوران کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی، جبکہ باقی افراد (388) اس سے محفوظ رہے تھے جن کو کنٹرول گروپ کی حیثیت دی گئی۔

    کووڈ سے متاثر افراد اور کنٹرول گروپ میں عمر، صنف، نسل، بلڈ پریشر اور جسمانی وزن جیسے عناصر کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ کووڈ سے متاثر بیشتر افراد میں بیماری کی علامات معتدل تھیں یا کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔

    محققین نے دونوں گروپس کے دوبارہ دماغی اسکین کیے اور ان کا موازنہ وبا سے قبل کے اسکینز سے کیا گیا۔ تحقیق میں 2360 دماغی حصوں کو مدنظر رکھا گیا اور جانچ پڑتال کی گئی کہ دونوں اسکینز میں کیا فرق آیا ہے، اور بیماری سے متاثر افراد میں کیا تبدیلیاں آئیں۔

    نتائج سے عندیہ ملا کہ کووڈ 19 کا سامنا کرنے والے افراد کے ان دماغی حصوں کے ٹشوز میں کمی آئی ہے جو سونگھنے کی حس سے منسلک ہیں۔

    اس جامع تجزیے میں ہر طرح کے نکتوں کو مدنظر رکھا گیا تاہم محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کی مکمل تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ دماغ کے مخصوں کے حجم میں معمولی کمی تشویشناک لگتی ہیں، تاہم یہ تبدیلیاں ضروری نہیں کہ بیماری کا نتیجہ ہوں۔

    محققین کے خیال میں ان کی دریافت براہ راست کووڈ 19 کا اثر ہے کیونکہ وائرس دماغ میں ناک کے راستے داخل ہوتا ہے تاہم ایک ممکنہ وضاحت یہ بھی ہے کہ مخصوص دماغی حصوں میں تبدیلیاں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔

    کورونا سے قبل بھی سونگھنے کی حس سے محرومی کے نتیجے میں دماغی ساکت میں تبدیلیوں کو دیکھا گیا ہے اور مختلف جراثیم بھیھ دماغی گرے میٹر میں تبدیلیاں لاتے ہیں۔

    تاہم اس تحقیق کے نتائج سے ان خدشات میں اضافہ ہوتا ہے کہ لانگ کووڈ یا بیماری کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں میں کووڈ سے دماغی تبدیلیوں کا خدشہ ہوتا ہے۔

    نتائج سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ کی معموی شدت یا علامات سے محفوظ رہنے واے افراد میں بھی طویل المعیاد علامات کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اس سے قبل یہ بات سامنے آچکی ہے کہ لانگ کووڈ کے مریضوں میں مختلف علامات جیسے تھکاوٹ اور ڈپپریشن کا خطرہ ہوتا ہے، اس نئی تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر جاری کیے گئے۔

  • کیا الٹے ہاتھ سے کام کرنے والے واقعی ذہین ہوتے ہیں؟

    کیا الٹے ہاتھ سے کام کرنے والے واقعی ذہین ہوتے ہیں؟

    آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ الٹے ہاتھ سے کام کرنے والے لوگ عموماً انتہائی ذہین اور باشعور ہوتے ہیں اور ان افراد میں قائدانہ صلاحتیں بھی پائی جاتی ہیں، آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ان باتوں میں حقیقت کہاں تک ہے؟

    تحقیق کے مطابق دنیا کی آبادی کا 10 فی صد بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے، انگریزی میں لیفٹی اور اردو میں کھبا مشہور ہونے والے لوگوں کے بارے میں کافی روایات موجود ہیں لیکن مختلف یونی ورسٹیوں اور تحقیقاتی اداروں کی تحقیق کے مطابق معاملہ اس کے برعکس ہے۔

    دنیا میں مشہور لوگوں کی فہرست پر نظر دوڑائیں تو ایک بڑی تعداد بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی نظر آئے گی جس میں مصور لیونارڈو ڈاؤنچی، سائنسدان آئن اسٹائن، فسلفی ارسطو، خلا نورد نیل آرم اسٹرونگ، برطانوی ملکہ وکٹوریہ اور شہزادہ ولیم، مائیکرو سافٹ کمپنی کے مالک بل گیٹس، بارک اوباما سمیت 8 امریکی صدور اس فہرست میں شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ ہالی وڈ اداکار ٹام کروز اور اداکارہ انجلینا جولی، بالی وڈ اسٹار امیتابھ بچن اور ان کے صاحبزادے ابھیشک بچن اور پاکستانی کرکٹر وسیم اکرم کا شمار بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں میں ہوتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کلینکل سائیکالوجسٹ زینب خان نے اس حوالے سے بہت معلوماتی گفتگو کی اور ناظرین کو تفصیل سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ پہلے زمانے میں کھبا ہونے کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا اور ایسے لوگوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ رجحان ختم ہوتا گیا اور بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کو بھی نارمل سمجھا جانے لگا۔

    زینب خان کا کہنا تھا کہ جدید تحقیق کے مطابق بائیں ہوں یا دائیں دونوں قسم کے افراد کا آئی کیو لیول ففٹی ففٹی ہوتا ہے، اگر کوئی بچہ یا بچی الٹے ہاتھ سے کام کررہے ہیں تو کوئی غلط بات نہیں والدین ان کے ساتھ زبردستی نہ کریں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک تحقیق کے مطابق بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں، ان لوگوں میں راستوں کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اور بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے لوگ راستوں کو زیادہ اچھی طرح یاد رکھتے ہیں۔

  • جوان افراد کورونا وائرس سے انتہائی محتاط رہیں، تحقیق میں انکشاف

    جوان افراد کورونا وائرس سے انتہائی محتاط رہیں، تحقیق میں انکشاف

    ناروے میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ19 کو شکست دینے والے 50 فیصد سے زیادہ جوان افراد میں بیماری کی طویل المعیاد علامات موجود ہوتی ہیں۔

    برجن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 16 سے 30 سال کے ایسے 312 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں بیماری کی شدت معمولی تھی۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر میڈیسین میں شائع ہوئے۔

    یہ افراد ناروے میں کورونا کی پہلی لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے جن میں سے 247 کو گھر میں رکھ کر علاج کیا گیا جبکہ 65 کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کو شکست دینے کے 6 ماہ بعد 61 فیصد افراد میں علامات کا تسلسل برقرار تھا جس کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    ان افراد میں 6 ماہ بعد موجود علامات میں سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی، تھکاوٹ، سانس لینے میں دشواری، توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات اور یادداشت کے مسائل سب سے عام تھیں۔

    محققین نے بتایا کہ سب سے اہم نتیجہ یہ ہے کہ 50 فیصد سے زیادہ 30 سال کی عمر تک کے جوان افراد میں معمولی بیماری کے 6 ماہ بعد بھی علامات موجود تھیں۔

    انہوں نے کہا کہ گھروں میں آئسولیٹ ہونے والے ان مریضوں میں اینٹی باڈیز کی زیادہ سطح اور علامات کے تسلسل کا تعلق موجود تھا، علامات کا خطرہ بڑھانے والے دیگر عناصر میں دمہ یا پھیپھڑوں کی کوئی دائمی بیماری قابل ذکر ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ گھروں میں زیرعلاج رہنے والے کووڈ 19 کے 30 فیصد مریضوں میں تھکاوٹ کی علامت س سے عام تھی۔16سال سے کم عمر بچوں میں بالغ افراد کے مقابلے میں طویل المعیاد علامات کی تعداد بہت کم تھی۔

    تاہم محققین کا کہنا تھا کہ یادداشت متاثر ہونے اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کالجوں یا یونیورسٹی میں زیرتعلیم نوجوانوں کے لیے تشویشناک علامات ہیں۔

    انہوں نے کہ اس سے کووڈ 19 سے شکار ہوکر صحت پر مرتب ہونے والے طویل المعیاد منفی اثرات کی روک تھام کے لیے ویکسینیشن کی اہمیت کا بھی عندیہ ملتا ہے۔

  • کورونا وائرس کن لوگوں کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے؟؟ ہوشربا تحقیق

    کورونا وائرس کن لوگوں کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے؟؟ ہوشربا تحقیق

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیند کی کمی جسمانی صحت کے لیے تو تباہ کن ثابت ہوتی ہی ہے مگر اس کے نتیجے میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ رات کو نیند کا دورانیہ، نیند کے مسائل اور ملازمت سے جڑا تناؤ یا دیگر مسائل ممکنہ طور پر وائرل امراض جیسے کوویڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے عناصر ہوسکتے ہیں۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ایک طویل المعیاد یوکے بینک اسٹڈی کے 46 ہزار افرد کے سروے میں جوابات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ ان میں سے 8 ہزار 422 افراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی۔

    ان افراد سے 2006 سے 2010 کے دوران نیند کے دورانیے، دن کے وقت غنودگی، بے خوابی اور جسمانی گھڑی سے متعلق سوالات کے جواب حاصل کیے گئے تھے۔

    اس نئی تحقیق کے لیے محققین نے ناقص نیند سے جڑی عادات کے حوالے سے ان افراد کو اسکور دیئے۔ نتائج سے عندیہ ملا کہ نیند کے مسائل کے نتیجے میں کووڈ 19 کے شکار افراد میں موت کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    درحقیقت ایسے افراد جن میں نیند کے حوالے سے نقصان دہ محض 2 یا ایک عادت بھی موجود ہوتی ہے تو بھی ان میں کووڈ 19 کی شدت سنگین ہونے اور موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ فرق بہت اعدادوشمار کے حوالے سے زیادہ بہت زیادہ نہیں اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ نتائج کی تصدیق کی جاسکے۔

    مگر یہ بات طبی سائنس پہلے ہی دریافت کرچکی ہے کہ ناقص نیند مدافعتی نظام کو متاثر اور بلڈ کلاٹس کا خطرہ بڑھاتی ہے، یہ دونوں ہی کووڈ 19 کی شدت بڑھانے والے اہم عناصر ہیں۔

    محققین نے کہا کہ یند کے رویوں پر نظر رکھنا مکمنہ طور پر اہم ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے کووڈ کے نتیجے میں اموات اور ہسپتال میں داخلے کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اس تحقیق کے تنائج طبی جریدے جرنل کلینکل انفیکشیز ڈیزیز میں شائع ہوئے۔

    اس سے قبل اپریل 2021 میں ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ اچھی نیند کا مزہ لینے والے اور اپنی ملامتوں سے مطمئن افراد میں کووڈ 19 کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    تحقیق میں 2844 ہیلتھ ورکرز کو شامل کی گیا تھا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ رات کو نیند کا ہر اضافی گھنٹہ کووڈ 19 کا شکار ہونے کا خطرہ 12 فیصد تک کم کردیتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جو لوگ ملازمت سے متعلق تھکاوٹ یا جسمانی توانائی میں کمی کے مسئلے کا شکار ہوتے ہیں، ان میں کووڈ 19کی تشخیص کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 2.6 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ درحقیقت ایسے افراد میں کووڈ 19 کا دورانیہ طویل ہوتا ہے اورر انہیں زیادہ سنگین علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

  • کورونا وائرس کی شدت مریض پر کتنی اثر انداز ہوتی ہے؟ نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    کورونا وائرس کی شدت مریض پر کتنی اثر انداز ہوتی ہے؟ نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    امریکا میں ہونے والی ایک تازہ طبی تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگرچہ کورونا وائرس کی 2 اقسام زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہیں مگر ان کے شکار افراد میں سابقہ اقسام سے متاثر مریضوں کے مقابلے میں زیادہ وائرل لوڈ نہیں ہوتا۔

    جونز ہوپکنز اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں کورونا وائرس کی 2 اقسام ایلفا (جو سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی) اور بیٹا (جو سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سامنے آئی تھی) پر جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    محققین نے مریضوں میں دیکھا کہ ان اقسام کے متاثرہ افراد میں وائرل لوڈ کتنا ہوتا ہوتا ہے اور وائرس کے جھڑنے اور ایک سے دوسرے میں منتقلی کا تسلسل کب زیادہ ہوتا ہے۔

    محققین نے اس مقصد کے لیے ان اقسام کے مکمل جینوم سیکونس تیار کیے اور اس مققصد کے لیے برطانیہ میں اپریل 2021 تک جمع کیے جانے والے وائرس کے نمونوں کو حاصل کیا گیا۔

    محققین نے اقسام سے متاثر 134 مریضوں کے کے نمونوں کا موازنہ 126 کنٹرول گروپ کے افراد کے نمونے سے کیا۔تمام نمونوں کے اضافی ٹیسٹ کرکے وائرل لوڈ کا تعین کیا گیا۔

    یہ تفصیلات بیماری کی علامات کے آغاز کے کچھ دن بعد سے جمع کی گئی تھیں تاکہ گروپس کے درمیان وائرس جھڑنے کا عمل شفاف ہوسکے۔

    محققین نے بتایا کہ یہ اقسام زیادہ تیزی سے کیوں پھیلتی ہیں، اس کی وجہ تو ابھی تک واضح نہیں، تاہم نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ان اقسام سے متاثر افراد میں علامات ظاہر نہ ہونے کا امکان کنٹرول گروپ کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان اقسام سے متاثر افراد میں موت یا آئی سی یو میں داخلے کا خطرہ کنٹرول گروپ سے زیادہ نہیں ہوتا، مگر ان کا ہسپتال میں داخلے کا امکان زیادہ ہوسکتا ہے۔

     

  • کورونا مریضوں کیلئے مؤثردوا سامنے آگئی، نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    کورونا مریضوں کیلئے مؤثردوا سامنے آگئی، نئی تحقیق میں اہم انکشاف

    ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈشوگر کی سطح میں کمی لانے کے لیے دنیا بھر میں تجویز کی جانے والی دوا میٹ فورمن کورونا وائرس کے مریضوں میں پھیپھڑوں کے ورم کے علاج میں مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

    یہ دوا جگر میں گلوکوز بننے کی سطح کو کم کرتی ہے جس سے جسم میں بلڈ شوگر لیول کم ہوتا ہے اور جسم کا انسولین پر ردعمل بہتر ہوتا ہے جبکہ یہ ورم کش خصوصیات کی بھی حامل دوا ہے، تاہم اس سرگرمی کی وجہ معلوم نہیں۔

    اب امریکا کی کیلیفورنیا کی تحقیق میں میٹ فورمن کی ورم کش سرگرمی کے مالیکیولر میکنزم کو دریافت کیا گیا۔

    چوہوں پر کی جانے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس دوا سے کووڈ 19 کے مریض جانوروں میں پھیپھڑوں کے ورم کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    گزشتہ سال سے ہی دنیا بھر میں متعدد کلینکل ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے ذیابیطس کے مریض اگر پہلے سے میٹ فورمن کا استعمال کررہے ہوتے ہیں تو ان میں بیماری کی شدت اور موت کے خطرے میں کمی آتی ہے۔

    ذیابیطس اور موٹاپے دونوں کو کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے خطرہ بڑھانے والے 2 اہم ترین عناصر تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کے شکار افراد میں سنگین نتائج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    تاہم بلڈ شوگر کی سطح میں کمی لانے والی دیگر ادویات سے کوویڈ19 کے مریضوں میں یہ فائدہ دریافت نہیں ہوسکا۔

    اگرچہ کلینیکل ٹرائلز میں میٹ فورمن کو ورم کش سرگرمی سے منسلک کیا گیا مگر کسی بھی تحقیق میں اس کی وضاحت نہیں کی گئی جبکہ کنٹرول ٹرائلز بھی ہیں ہوئے۔

    طبی جریدے جرنل امیونٹی میں شائع تحقیق میں شریک ماہرین کا کہنا تھا کہ ٹرائلز میں ایسے نتاج سامنے آئے جنس سے حتمی نتیجے پر پہنچنا بہت مشکل تھا جس کی وجہ سے ان پر شکوک سامنے آئے تھے۔

    انہوں نے چوہوں پر اس کے تجربات کیے اور ایسے جانوروں کو شامل کیا گیا جن کو نظام تنفس کے ایک جان لیوا مرض اے آر ڈی ایس کا سامنا تھا، جس میں پھیپھڑوں میں سیال لیک ہوجاتا ہے اور سانس لینا دشوار جبکہ اہم اعضاء تک آکسیجن کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

    اے آر ڈی ایس سے ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کوویڈ19 سے متاثر اسپتال میں زیرعلاج مریضوں میں بھی موت کا باعث بنتے ہیں۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ چوہوں کو بیمار کرنے سے پہلے میٹ فورمن کا استعمال علامات کی شدت میں کمی لاتا ہے۔

    اسی طرح بیماری کے شکار جانوروں میں اس دوا سے موت کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے کیونکہ وہ مدافعتی خلیات کے باعث ہونے والے ورم کی روک تھام کرتے ہیں، ایسا کوویڈ19کے مریضوں میں بھی عام ہوتا ہے۔

    کوویڈ19 کے مریضوں میں ورم کی وجہ سے جسم اپنے ہی خلیات اور ٹشوز کے خلاف سرگرم ہوجاتا ہے جس کی وجہ ایک آئی ایل 1 نامی پروٹین بنتا ہے، جس کی شرح کوویڈ19 سے ہلاک ہونے والے مریضوں کے پھیپھڑوں میں بہت زیادہ دریافت کی گئی ہے۔

    محققین نے دریافت کیا کہ میٹ فورمن کوویڈ19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں میں ورم کو متحرک ہونے سے روکنے اور اس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تجربات سے یہ ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ اس دوا سے کوویڈ19 کے سنگین شدت سے متاثر افراد کے لیے نیا علاج فراہم کیا جاسکتا ہے تاہم اس حوالے سے ابھی کوویڈ19 کے انسانی مریضوں پر ٹرائل کی ضرورت ہے۔

  • کیا "اسپرین” کورونا متاثرہ مریضوں کیلیے فائدہ مند ہے ؟ نئی تحقیق

    کیا "اسپرین” کورونا متاثرہ مریضوں کیلیے فائدہ مند ہے ؟ نئی تحقیق

    گزشتہ ایک صدی سے دنیا میں استعمال ہونے والی جادوئی دوا اسپرین جسے کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دیا گیا تھا لیکن اب محققین کا کہنا ہے کہ اس دوا سے مریضوں کی اموات روکنے میں مدد نہیں ملتی۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا ہے سستی اور ہر جگہ آسانی سے دستیاب دوا اسپرین سے کوویڈ19 کے نتیجے میں اسپتال میں داخل ہونے والے افراد کی حالت بہتر نہیں ہوتی۔

    نومبر 2020 میں برطانیہ میں ٹرائل کا آغاز ہوا تھا جس کا مقصد یہ جانا تھا کہ اسپرین کووڈ کے شکار افراد میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی یا نہیں۔

    خیال رہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور اسپرین وہ دوا ہے جو خون پتلا کرنے میں مددگار ہے اور اس سے کلاٹس کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔

    اب اس کے نتائج سامنے آئے ہیں جس میں دریاافت کیا گیا کہ اسپرین کے استعمال سے کووڈ 19 کے مریضوں کی اموات روکنے میں مدد نہیں ملتی۔ ریکوری نامی اس ٹرائل میں متعدد ادویات کو اسپتال میں زیرعلاج مریضوں کے علاج کے طور پر آزمایا جارہا ہے۔

    ٹرائل میں اسپرین پر تحقیق کے دوران لگ بھگ 15 ہزار مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے نصف کو روزانہ 150 ملی گرام اسپرین استعمال کرائی گئی جبکہ دیگر کی معمول کی نگہداشت کی گئی۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اسپرین کے علاج سے موت کا خطرہ کم نہیں ہوتا اور ہسپتال میں علاج کے 28 دن بعد دونوں گروپس میں اموات کی شرح 17 فیصد تھی۔

    محققین نے بتایا کہ اگرچہ اسپرین سے مریضوں کے ڈسچارج ہونے کا امکان تھوڑا بڑھ جاتا ہے مگر یہ کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے اس کے استعمال کو درست ثابت نہیں کرتا۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہان میں شامل پروفیسر مارٹن لنڈرے نے بتایا کہ نتائج مایوس کن ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایسا ٹھوس عندیہ ملا ہے کہ بلڈ کلاٹس کووڈ 19 کے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کے افعال کو متاثر کرنے کے ساتھ ان کی موت کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اسپرین سستی اور آسانی سے دستیاب دوا ہے جو بلڈ کلاٹس کا خطرہ کم کرتی ہے تو نتائج مایوس کن ہیں کیونکہ اس سے کووڈ کے مریضوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، مگر یہی وجہ ہے جو ایک بڑے کنٹرول ٹرائل کی اہمیت ظاہر کرتا ہے، تاکہ تعین کیا جاسکے کہ کونسا علاج کام کرتا ہے اور کونسا نہیں۔

    اس ریکوری ٹرائل کے دوران کووڈ سے زندگی بچانے کے لیے ایک دوا ڈیکسامیتھاسون کو تلاش کیا گیا تھا جو قریب المرگ افراد کی زندگیوں کو بچانے میں مددگار قرار دی گئی۔

    اسپرین پر ہونے والی تحقیق کے نتائج کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ان کو پری پرنٹ سرور  میڈ آرکسیو  پر جاری کیا گیا۔