Tag: research

  • کورونا وائرس کی نئی قسم "ایلفا” تیزی سے کیوں پھیلتی ہے؟ ہوشربا تحقیق

    کورونا وائرس کی نئی قسم "ایلفا” تیزی سے کیوں پھیلتی ہے؟ ہوشربا تحقیق

    کورونا وائرس کی نئی قسم جسے ایلفا کا نام دیا گیا ہے یہ بہت تیزی سے پھیلنے سے باعث لاکھوں انسانوں کی جانیں لے چکی ہے، اس کی طاقت کا اندازہ لگانے کیلئے سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد ایک بڑا انکشاف کیا ہے۔

    گزشتہ سال دسمبر2020 میں برطانوی ماہرین نے کورونا وائرس کی ایک نئی قسم کی دریافت کے بارے میں بتایا تھا جو برطانیہ میں بہت تیزی سے پھیل رہی تھی۔

    اب اس قسم کو عالمی ادارہ صحت نے ایلفا کا نام دیا ہے اور جس ملک تک پہنچی ہے وہاں دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ عام ہوچکی ہے۔ اس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے سائنسدان حیران تھے کہ آخر اس نے دنیا کو کیسے قابو کرلیا۔

    اب ایک نئی تحقیق میں اس کی کامیابی کے راز کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق ایلفا قسم جسم کے دفاعی نظام کے ابتدائی دفاع کو ناکارہ کردیتی ہے جس کے باعث وہ بہت تیزی سے خلیات میں اپنی نقول بنانے لگتی ہے۔

    یاد رہے کہ اس نئی تحقیق کے نتائج باقاعدہ طور پر ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ آن لائن جاری کیے گئے ہیں۔

    ایلفا قسم میں 233 میوٹیشنز ہوئی ہیں جو اسے دیگر کورونا وائرس سے الگ کرتی ہیں اور برطانیہ میں اس کے پھیلاؤ کے بعد جینیاتی جانچ پڑتال سے جاننے کی کوشش کی گئی کہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں تیزی سے کیسے پھیلتی ہے۔

    زیادہ تر ماہرین نے نو میوٹیشنز پر توجہ مرکوز کی تھی جو اسپائیک پروٹین میں ہوئی تھیں، ان میں سے ایک میوٹیشن کورونا وائرس کو چھپا کر خلیات پر حملہ آور ہونے میں مدد کرتی ہے مگر دیگر سائنسدانوں نے اس پر توجہ مرکوز کی کہ ایلفا قسم سے جسم کے مدافعتی ردعمل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے لندن کالج یونیورسٹی اور کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہرین نے انسانی پھیپھڑوں کے خلیات میں کورونا وائرسز کو اگایا اور پھر ایلفا سے متاثر خلیات کا موازنہ کورونا کی دیگر ابتدائی اقسام سے کیا گیا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ ایلفا سے متاثرہ خلیات میں انٹرفیرون نامی پروٹین کی مقدار ڈرامائی حد تک گھٹ گئی جو مدافعتی دفاع کو متحرک کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان خلیات میں انٹرفیرون سے متحرک ہونے والے دفاعی جینز دیگر اقسام سے متاثر خلیات کے مقابلے میں غیرمتحرک تھے۔

    محققین نے بتایا کہ اس طرح کورونا کی یہ قسم مدافعتی نظام کے اہم ترین خطرے کی گھنٹی کو بجنے نہیں دیتی، آسان الفاظ میں خود کو نادیدہ بنالیتی ہے۔

    محقین نے پھر یہ دیکھا کہ یہ قسم کس طرح خود کو نادیدہ رکھنے میں کامیابی حاصل کرتی ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے متاثرہ خلیات میں کورونا وائرس کی نقول کا جائزہ لیا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ ایلفا سے متاثر خلیات میں دیگر اقسام کے مقابلے میں 80 گنا زیادہ نقول بن جاتی ہیں اور ایسا ایک جین او آر ایف 9بی کی وجہ سے ہوا۔

    اس سے قبل ان ماہرین نے ایک تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ یہ جین ایسا وائرل پروٹین بناتا ہے جو ایک انسانی پروٹین ٹام 70 میں داخل ہوجاتا ہے، یہ پروٹین کسی حملہ آور وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے انٹرفیرون کے اخراج کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔

    تمام تر شواہد کو اکٹھا کرنے کے بعد محققین کا کہنا تھا کہ ایلفا قسم میں ایک ایسی میوٹیشن موجود ہے وہ او آر ایف 9بی پروٹینز کی بہت زیادہ مقدار بنانے میں کردار ادا کرتی ہے۔

    یہ پروٹین انسانی ٹام 70 پروٹینز میں داخل ہوکر انٹرفیرونز بننے اور مدافعتی ردعمل میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس طرح وائرس مدافعتی حملے سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نقول بنانے کا عمل آسان ہوجاتا ہے۔

    ایک متاثرہ خلیہ بتدریج او آر ایف 9بی پروٹینز کو ٹام 70 سے نکال باہر کرتا ہے اور بیماری کے حملے کے 12 گھنٹے بعد الارم سسٹم پھر کام کرنے لگتا ہے مگر اس وقت تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

    محققین کے خیال میں جب مدافعتی ردعمل تاخیر سے حرکت میں آتا ہے تو ایلفا قسم سے متاثر افراد میں دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سخت ردعمل حرکت میں آتا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف کھانسی سے یہ وائرس منہ سے خارج ہونے لگتا ہے بلکہ ناک سے بھی نکلتا ہے اور اس طرح وہ زیادہ بہتر طریقے سے پھیلنے لگتا ہے۔

    اب محقققین نے جنوبی افریقہ میں دریافت قسم بیٹا اور بھارت میں شناخت ہونے والی قسم ڈیلٹا پر بھی اس طرح کا کام کررہے ہیں اور ابتدائی نتائج نے انہیں حیران کردیا۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ بیٹا اور ڈیلٹا بھی متاثرہ خلیات میں انٹرفیرونز کی سطح کو گھٹاتے ہیں مگر ان میں او آر ایف 9بی پروٹینز سے خلیات کو ڈبونے کے آثار ہیں ملتے۔

    محققین کے خیال میں ان دونوں اقسام نے خودمختار طور پر مدافعتی نظام کو دھوکا دینے کے طریقوں کو ڈھونڈ لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں مختلف انداز سے مدافعتی ردعمل کو دھوکا دیتے ہیں۔

  • بھارتی کرونا وائرس کے حوالے سے تشویشناک تحقیق

    بھارتی کرونا وائرس کے حوالے سے تشویشناک تحقیق

    لندن: بھارت میں پھیلنے والی کرونا وائرس کی قسم کو ماہرین نے دیگر اقسام سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی قسم قرار دیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے امپریئل کالج لندن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا جسے سب سے پہلے بھارت میں دریافت کیا گیا تھا، دیگر اقسام کے مقابلے میں 30 سے 100 فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

    ماہرین کی ٹیم کی قیادت کرنے والے پروفیسر نیل فرگوسن کے مطابق کرونا وائرس کی قسم ڈیلٹا برطانیہ میں کچھ عرصے پہلے تیزی سے پھیلنے والی قسم ایلفا (جو گزشتہ سال برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی) کے مقابلے میں 30 سے 100 فیصد زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم یقیناً مزید ڈیٹا اکٹھا کریں گے مگر بدقسمتی سے اب تک کی صورتحال مثبت نہیں، اس وقت بہترین تخمینہ یہی ہے کہ ڈیلٹا نامی یہ قسم ایلفا قسم سے ممکنہ طور پر 60 فیصد زیادہ متعدی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے صورتحال غیر یقینی ہے، یہ 30 فیصد زیادہ تیزی سے بھی پھیل سکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ 100 فیصد زیادہ متعدی ہو۔

    خیال رہے کہ ویسے تو اس قسم کا اعلان مارچ 2021 میں ہوا مگر یہ اکتوبر 2020 میں کووڈ سیکونسنگ کے ڈیٹا بیس میں دریافت ہوچکی تھی، مگر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔

    یہ نئی قسم ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہی 60 فیصد سے زیادہ کیسز اس کا نتیجہ ہیں، وائرسز میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ کسی بھی جگہ میوٹیشن ہوتی ہے۔

    نیا کرونا وائرس، ایچ آئی وی اور انفلوائنزا وائرسز سب میں جینیاتی انسٹرکشنز کے لیے مالیکیول آر این اے کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں دیگر وائرسز کے مقابلے میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں، جس کی وجہ میزبان خلیات میں وائرسز کی نقول بنانے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہوتی ہیں۔

    عالمی پبلک ڈیٹا بیس میں نئے کرونا وائرس کے لاکھوں جینیاتی سیکونسز موجود ہیں، جن میں متعدد میوٹیشنز پر توجہ نہیں دی جاسکی، مگر کچھ میوٹیشنز سے امینو ایسڈز میں تبدیلی آئی، جو وائرل پروٹیشن کی تیاری کی بنیاد ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی خصوصیات بدل گئیں۔

    جب ایک یا زیادہ میوٹیشن برقرار رہتی ہیں تو ایک ایسی نئی قسم تشکیل پاتی ہے جو دیگر مختلف ہوتی ہیں اور انہیں ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔

  • چینی کورونا ویکسین کتنی مؤثر ہے؟ محققین نے بتا دیا

    چینی کورونا ویکسین کتنی مؤثر ہے؟ محققین نے بتا دیا

    عالمی وبا کورونا وائرس کے خلاف چینی دوا ساز کمپنی سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین 73 فیصد مفید اور مؤثر قرار دے دی گئی ہے۔ سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین کے دو ڈوز کی کورونا ویکسین کے خلاف افادیت کی شرح 73 فیصد ہے۔

    مؤقر خلیجی اخبار خلیج ٹائمر نے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے حوالے سے بتایا ہے کہ سائنو فارم ویکسین سے متعلق ایک بڑے مطالعے کے بعد یہ پہلی تفصیلی رپورٹ سامنے آئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سائنوفارم کے ووہان شہر میں قائم ایک ذیلی ادارے کی تیار کردہ ویکسین کا ایک ڈوز لگانے کے دو ہفتے بعد دوسری ویکسین لگوانے کی افادیت 72.8 فیصد سے زائد ظاہر ہوئی ہے۔

    فروری میں چینی کمپنی نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے خلاف اس کی تیار کردہ ویکسین کی افادیت کی شرح 72.5 فیصد ہے۔

    جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق بیجنگ میں قائم سائنوفارم سے منسلک ایک انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ تیار کردہ ایک اور ویکسین، جسے رواں ماہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے ہنگامی طور پر استعمال کی منظوری دی تھی، 78.1 فیصد مؤثر قرار پائی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ نتائج ووہان ا اور بیجنگ میں 40،000 سے زائد افراد کو ٹیکے لگانے کے بعد سامنے آئے ہیں۔

    جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ویکسین لگوانے کے بعد ان شرکاء میں سے صرف دو میں کوویڈ 19 کی شدید علامات ظاہر ہوئی تھیں۔ تاہم سنگین نوعیت کی روک تھام کے کے حوالے سے اس ویکسین کی افادیت کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔

  • یادداشت کو متاثر کرنے والے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے نیا انکشاف

    یادداشت کو متاثر کرنے والے مرض ڈیمینشیا کے حوالے سے نیا انکشاف

    بڑھاپے میں ذہن و یادداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمینشیا کے بڑھاپے سمیت کئی عوامل ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے اب ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ذہنی صحت اور یاداشت کو متاثر کرنے والی بیماری ڈیمنشیا کے لاحق ہونے کے خطرات مرد و خواتین میں یکساں ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں علم ہوا کہ مردوں میں یہ بیماری ہائی بلڈ پریشر اور لو بلڈ پریشر یعنی دونوں صورتوں میں لاحق ہونے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن خواتین میں یہ مرض صرف ہائی بلڈ پریشر کے باعث ہوتا ہے۔

    ماہرین نے وسط زندگی میں ہونے والے امراض قلب کے خطرات پر مبنی فیکٹرز اور ڈیمنشیا کا دونوں جنس پر تجزیہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ سامنے آیا کہ مرد و خواتین میں بیماری لاحق ہونے کے امراض قلب پر مبنی خطرات یکساں تھے۔

    یہ تحقیق جارج انسٹی ٹوٹ کے ماہرین نے 5 لاکھ سے زائد افراد پر کی۔ تحقیقی ٹیم کی سربراہ جسیکا گونگ کا کہنا ہے کہ ابھی اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان نتائج کی تصدیق ہوسکے تاکہ اس کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھ کر مستقبل میں اس مرض سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام کے بارے میں ایک اور انکشاف

    کرونا وائرس کی نئی اقسام کے بارے میں ایک اور انکشاف

    واشنگٹن: حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس کی نئی قسموں میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو خود کو ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد کرتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی تیزی سے پھیلنے والی اقسام میں ایسی میوٹیشنز موجود ہیں جو اس وائرس کو بیماری یا ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل سے کسی حد تک بچنے میں مدد کرتی ہیں۔

    امریکا کے اسکریپرز ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں جرمنی اور نیدر لینڈز کے ماہرین نے بھی کام کیا تھا اور اس میں میوٹیشنز کے بارے میں اہم تفصیلات کا انکشاف کیا گیا۔

    تحقیق میں اسٹرکچرل بائیولوجی تیکنیکوں کا استمال کر کے جانچ پڑتال کی گئی کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کس طرح وائرس کی اوریجنل قسم اور نئی اقسام کے خلاف کام کرتی ہیں اور ان کے افعال برطانیہ، جنوبی افریقہ، بھارت اور برازیل میں دریافت اقسام کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔

    کرونا کی تشویش کا باعث بننے والی اقسام میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117، جنوبی افریقہ میں دریافت قسم بی 1351، برازیل میں دریافت قسم پی 1 اور بھارت میں دریافت قسم بی 1617 شامل ہیں۔

    یہ اقسام ووہان میں پھیلنے والی وائرس کی اوریجنل قسم کے مقابلے میں زیادہ متعدی قرار دی جاتی ہیں اور حالیہ تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ ان اقسام کے خلاف اوریجنل وائرس سے بیمار ہونے کے بعد یا ویکسی نیشن سے بننے والی اینٹی باڈیز کم مؤثر ہوتی ہیں۔

    ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ یہ نئی اقسام کچھ کیسز میں ویکسی نیشن کے باوجود لوگوں کو بیمار کرسکتی ہیں اور اسی لیے ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ یہ اقسام کس طرح مدافعتی ردعمل سے بچنے کے قابل ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین میں آنے والی 3 میوٹیشنز کے 417 این، ای 484 کے اور این 501 وائے پر توجہ مرکوز کی۔

    اکٹھے یا الگ الگ یہ میوٹیشنز کرونا کی بیشتر نئی اقسام میں دریافت ہوئی ہیں اور یہ سب وائرس کے ریسیپٹر کو جکڑنے والے مقام پر ہیں۔

    محققین نے اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی اور دریافت کیا کہ ان میں سے بیشتر اینٹی باڈیز کی وائرس کو جکڑنے اور اسے ناکارہ بنانے کی صلاحیت کافی حد تک کم ہوجاتی ہے۔

    اسٹرکچرل امیجنگ ٹیکنیکس کو استعمال کر کے ماہرین نے وائرس کے مختلف حصوں کا نقشہ بناکر جانچ پڑتال کی کہ کس طرح میوٹیشنز ان مقامات پر اثر انداز ہوتی ہیں جن کو اینٹی باڈیز جکڑ کر وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔

    نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی اوریجنل قسم کے خلاف اینٹی باڈیز کا ردعمل بہت مؤثر ہوتا ہے مگر مخصوص اقسام اس سے بچنے کی اہلیت رکھتی ہیں، چنانچہ بتدریج ویکسینز کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی۔

  • بھارتی کورونا وائرس کے خلاف سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی

    بھارتی کورونا وائرس کے خلاف سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی

    نئی دہلی : بھارت میں پائی جانے والی کورونا وائرس کی انتہائی مہلک قسم نے تباہی پھیلائی ہوئی ہے جس کے سدباب کیلئے سائنسدانوں نے اہم کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق فائزر/ بائیو این ٹیک اور ایسٹرازینیکا / آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کوویڈ ویکسینز بھارت میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم کے خلاف بہت زیادہ مؤثر قرار پائی ہیں۔ یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔

    پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ان دونوں ویکسینز کی دو خوراکوں سے کورونا کی بھارتی قسم سے ہونے والی علامات والی بیماری سے لگ بھگ برطانوی قسم جتنا ہی تحفظ ملتا ہے۔

    تاہم دونوں ویکسینز کی ایک خوراک سے تین ہفتوں بعد بھارت میں دریافت قسم کے خلاف محض 33 فیصد تحفظ ہی ملتا ہے، جبکہ برطانیہ میں دریافت قسم کے خلاف دونوں ویکسینز کی ایک خوراک سے 50 فیصد تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ویکسینز ممکنہ طور پر اسپتال میں داخلے اور اموات کی روک تھام کے لیے اس سے بھی زیادہ مؤثر ہوں گی۔

    برطانیہ میں موڈرنا ویکسین کا استعمال بھی اپریل سے ہورہا ہے مگر تحقیق کے مطابق بہت کم افراد کو یہ ویکسین دی گئی تو اسے تحقیق کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر ویکسین کورونا کی دوسری خوراک استعمال کرنے کے 2 ہفتے بعد کورونا کی بھارتی قسم سے 88 فیصد تک تحفظ ملتا ہے جبکہ برطانوی قسم کے خلاف 93 فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔

    اس کے مقابلے میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی کورونا کی بھارتی قسم کے خلاف افادیت 60 فیصد ہے جبکہ برطانوی قسم سے بچاؤ میں 66 فیصد تک مؤثر ہے۔

    پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق دونوں ویکسینز کی افادیت میں فرق کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی دوسری خوراک فائزر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ وقفے کے بعد دی جاتی ہے۔

    ڈیٹا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین کی افادیت کو عروج تک پہنچنے کے لیے زیادہ وقت لگتا ہے۔ تحقیق کے لیے 12 ہزار سے زیادہ کیسز کے جینوم سیکونس کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جو 5 اپریل سے 16 مئی کے درمیان کیے گئے۔

    تحقیق میں 5 اپریل سے ہر عمر کے گروپ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا، یعنی اس تاریخ سے جب یہ نئی قسم برطانیہ میں دریافت ہوئی۔ ان میں سے 154 میں کورونا کی بھارتی قسم یعنی بی 1617 کو دریافت کیا گیا۔

    یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر جینی ہیرس نے کہا کہ یہ حقیقی دنیا میں اس نئی قسم کے خلاف ویکسین کی افادیت کا پہلا ثبوت ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بھی بیماری کس عمر کے افراد کو ہوسکتی ہے؟

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد میں کئی ماہ تک کووڈ 19 کی علامات کو دیکھا گیا جسے لانگ کووڈ کا نام دیا گیا ہے، اب ماہرین نے اس حوالے سے ایک نئی تحقیق کی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے ضروری نہیں کہ معمر مریض ہوں بلکہ 65 سال سے کم عمر مریضوں میں بھی اس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، سینے میں درد، کھانسی، ذہنی تشویش، ڈپریشن اور تناؤ جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

    اسی طرح یادداشت کی کمزوری اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات کا سامنا بھی ہوتا ہے اور اس کا سامنا کئی ہفتوں یا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق 57 ہزار سے زائد کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں پی سی آر ٹیسٹ سے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

    تحقیق میں کمپیوٹیشنل ماڈل کی مدد لی گئی اور لانگ کووڈ کی علامات کو مریضوں میں بیماری کی تشخیص کے 2 یا اس سے زیادہ مہینوں بعد ریکارڈ کیا گیا۔

    بعد ازاں 6 ماہ بعد بھی کچھ مریضوں میں علامات کا جائزہ لیا گیا اور 57 ہزار مریضوں میں سے 11 ہزار 400 میں وائرس کی موجودگی کو دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے ان افراد میں 3 سے 6 ماہ بعد اور 6 سے 9 ماہ بعد نئی علامات کو کووڈ کے نیگیٹو اور مثبت ٹیسٹوں والے افراد میں دریافت کیا۔

    3 سے 6 ماہ کے دوران 65 سال سے کم عمر افراد میں بال جھڑنے کا امکان ساڑھے 3 گنا زیادہ دریافت ہوا جبکہ 65 سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ امکان 4 گنا زیادہ تھا جبکہ 6 سے 9 ماہ کے دوران خطرے میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

    3 سے 6 ماہ کے دوران سینے میں تکلیف کا سامنا ہونے کا امکان 65 سال کی عمر کے 35 فیصد افراد میں دیگر سے ڈھائی گنا زیادہ دریافت کیا گیا۔

    اسی طرح 3 سے 6 ماہ کے دوران 65 سال سے کم عمر مریضوں میں پیشاب سے پروٹین کی زیادہ مقدار کے اخراج کا امکان 2.6 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

    6 سے 9 ماہ کے عرصے میں کووڈ کا سامنا کرنے والے 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں ناخنوں کے امراض کو بھی دریافت کیا گیا۔

    اسی عرصے میں 65 سال یا اس سے زائد عمر کی خواتین میں ذہنی تشویش اور سر چکرانے جیسے مسائل کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے جبکہ کم عمر خواتین کو مخصوص ایام کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    مجموعی طور پر دونوں ٹائم پیریڈ میں 65 سال سے کم عمر خواتین میں لانگ کووڈ کی علامات کا خطرہ ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے خیال میں کووڈ کے نتیجے میں جسم میں پیدا ہونے والا ورم ممکنہ طور پر لانگ کووڈ کی مختلف علامات کا باعث بنتا ہے جبکہ متعدد کیسز میں بیماری سے گردوں کو بھی نقصان پہنچنے اس کا باعث بنا۔

  • بھارت میں کرونا وائرس سے خوفناک تباہی، ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس سے خوفناک تباہی، ماہرین کا نیا انکشاف

    بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر نے تباہی مچا رکھی ہے، روزانہ 3 لاکھ سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں اموات ہورہی ہیں۔ حال ہی میں ماہرین نے اس حوالے سے نیا انکشاف کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بھارت میں برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی قسم بی 117 کی دریافت کے بعد حکومتی سطح پر ملٹی لیبارٹری نیٹ ورک (آئی این ایس اے سی او جی) کا قیام عمل میں آیا تھا۔

    24 مارچ کو اس نیٹ ورک نے ایک ڈبل میوٹنٹ قسم دریافت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    ویسے تو اس قسم کا اعلان مارچ 2021 میں ہوا مگر یہ اکتوبر 2020 میں کووڈ سیکونسنگ کے علامتی ڈیٹا بیس میں دریافت ہوچکی تھی، مگر اس وقت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ نئی قسم ممکنہ طور پر زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور صرف بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں ہی 60 فیصد سے زیادہ کیسز اس کا نتیجہ ہیں۔

    زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اقسام کا ابھرنا عالمی سطح پر نگرانی کے محدود نظام کی جانب نشاندہی کرتا ہے جو دور دراز علاقوں میں کام نہیں کر رہا۔

    آئی این ایس اے سی او جی کی جانب سے توقع تھی کہ تمام ریاستوں کے مثبت کیسز کے 5 فیصد کے جینیاتی سیکونسز تیار کرے گی مگر 15 اپریل تک محض 13 ہزار سیکونس ہی تیار ہوسکے۔

    ڈبل میوٹنٹ کیا ہے؟

    وائرسز میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں اور یہ مخصوص نہیں ہوتیں بلکہ جگہ جگہ میوٹیشن ہوتی ہے۔

    نیا کرونا وائرس، ایچ آئی وی اور انفلوائنزا وائرسز سب میں جینیاتی انسٹرکشنز کے لیے مالیکیول آر این اے کو استعمال کرتے ہیں اور ان میں دیگر وائرسز کے مقابلے میں اکثر تبدیلیاں آتی ہیں، جس کی وجہ میزبان خلیات میں وائرسز کی نققول بنانے کے دوران ہونے والی غلطیاں ہوتی ہیں۔

    عالمی پبلک ڈیٹا بیس میں نئے کرونا وائرس کے لاکھوں جینیاتی سیکونسز موجود ہیں، جن میں متعدد میوٹیشنز پر توجہ نہیں دی جاسکی، مگر کچھ میوٹیشنز سے امینو ایسڈز میں تبدیلی آئی، جو وائرل پروٹیکشن کی تیاری کی بنیاد ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی خصوصیات بدل گئیں۔

    جب ایک یا زیادہ میوٹیشن برقرار رہتی ہیں تو ایک ایسی نئی قسم تشکیل پاتی ہے جو دیگر اقسام سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت میں دریافت نئی قسم کو بی 1617 کا نام دیا گیا ہے جس میں 2 میوٹیشنز موجود ہیں۔ پہلی میوٹیشن اسپائیک پروٹین 452 میں ہوئی اور دوسری پروٹین 484 میں۔

    ویسے اس نئی قسم میں صرف 2 میوٹیشنز نہیں ہوئیں بلکہ مجموعی طور پر 13 تبدیلیاں آئی ہیں، جن میں سے 7 اسپائیک پروٹین میں موجود ہیں۔

    یہ وائرس اسپائیک پروٹین کو پھیپھڑوں اور دیگر انسانی خلیات کی سطح پر موجود ایس 2 ریسیپٹر پروٹین سے جڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور پھر بیمار کرتا ہے۔ وائرس میں 8 ویں میوٹیشن ناپختہ اسپائیک پروٹین کے وسط میں ہوئی جو وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی کا باعث ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق بھارتی قسم میں موجود میوٹیشنز پر الگ الگ تو تحقیقی کام ہوا ہے مگر اجتماعی طور پر ایسا نہیں ہوا، اہم بات یہ ہے کہ اس کے اسپائیک پروٹین میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔

    میوٹیشنز کی تعداد نہیں ان کا مقام اہمیت رکھتا ہے

    ماہرین کے مطابق وائرسز میں ایسا اکثر ہوتا ہے، سرفیس پروٹینز بہت تیزی سے ارتقائی مرحال سے گزرتا ہے بالخصوص کسی نئے وائرس میں، تاکہ وہ خلیات کو زیادہ بہتر طریقے سے جکڑ سکے۔

    چونکہ اسپائیک پروٹین نئے کرونا وائرس کی سطح پر ہوتا ہے تو یہ مدافعتی نظام کا بنیادی ہدف ہوتا ہے، مدافعتی خلیات ایسی اینٹی باڈیز تیار کرتے ہیں جو اسے شناخت کر کے وائرس کو ناکارہ بنادیں۔

    یہی وجہ ہے کہ اس وقت دستیاب کووڈ ویکسین میں اسپائیک پروٹین کو استعمال کر کے جسم کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ بیماری سے بچا جاسکے۔

    اسپائیک پروٹین میں آنے والی تبدیلیاں اس کی شکل اور ساخت کو بدل دیتی ہیں جس سے وائرس کو اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد ملتی ہے، اس سے وائرس کی بقا اور نقول بنانے کی صلاحیت بھی بڑھتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اسپائیک پروٹین میں کسی بھی میوٹیشن سے وائرس کے افعال، پھیلاؤ اور دیگر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    مختلف تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ایل 452 آر نامی میوٹیشن سے وائرس کی خلیاات کو متاثر کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے یعنی وہ تیزی سے اپنی نقول بناتا ہے اور ایس 2 ریسیپٹر کو زیادہ سختی سے جکڑتا ہے۔

    اسی طرح ای 484 نامی میوٹیشن وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز سے بچنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

    بھارت میں دریافت قسم بی 1617 میں یہ دونوں میوٹیشنز موجود ہیں اور اس وجہ سے یہ ممکنہ طور پر بہت زیادہ مشکل میں ڈال دینے والی قسم ہوسکتی ہے، جس پر زیادہ تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔

    عالمی سطح پر پھیلاؤ

    بی 1618 بہت تیزی سے دنیا کے مختلف ممالک تک پہنچی ہے اور اب تک 1 ملک میں اسے دریافت کیا جاچکا ہے۔

    چونکہ اس میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں تو اس وقت بھارت میں وبا کی لہر میں تیزی کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے مگر اس حوالے سے فی الحال حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

    کچھ ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ موجودہ ویکسینز اس نئی قسم کے خلاف مؤثر ہیں جبکہ احتیاطی تدابیر یعنی فیس ماسک، سماجی دوری اور ہاتھوں کو اکثر دھونا بھی اس سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہیں۔

  • کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    کرونا وائرس کی برطانوی قسم زیادہ خطرناک؟ نئی تحقیق نے نفی کردی

    برطانیہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی قسم کو خطرناک سمجھا جارہا تھا لیکن اب حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے اس کی نفی کی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم بی 117 سے متاثر ہونے والے افراد میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع شدہ انفیکشیز ڈیزیز تحقیق میں اسپتالوں میں زیر علاج رہنے والے کووڈ 19 کے مریضوں کے ایک گروپ کا جائزہ لیا گیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا ڈیٹا حقیقی دنیا پر مبنی ہے جس سے ابتدائی یقین دہانی ہوتی ہے کہ بی 117 سے متاثر مریضوں میں بیماری کی شدت دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

    تحقیق میں 496 مریضوں کا جائزہ لیا گیا تھا جو نومبر اور دسمبر 2020 کے دوران برطانیہ کے اسپتالوں میں کووڈ 19 کے باعث زیر علاج رہے تھے۔

    ان میں سے 198 مریضوں میں بی 117 قسم کی تشخیص ہوئی تھی، جن میں سے 72 میں بیماری کی شدت سنگین ہوئی جبکہ گروپ کے دیگر 141 افراد (جن میں کرونا کی دیگر اقسام کو دریافت کیا گیا تھا) میں سے 53 مریضوں کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوا۔

    بی 117 سے متاثر 31 جبکہ دیگر اقسام سے متاثر 24 مریض ہلاک ہوئے۔ جن افراد میں بیماری کی شدت زیادہ ہوئی یا ہلاک ہوئے، وہ معمر تھے یا پہلے سے کسی اور بیماری کا شکار تھے۔

    اگرچہ محققین بی 117 کے مریضوں میں بیماری کی سنگین شدت یا موت کے نمایاں خطرے کو دریافت نہیں کرسکے تاہم ان میں وائرل لوڈ کی سطح زیادہ تھی، جس سے وائرس کے زیادہ پھیلاؤ کا عندیہ ملتا ہے۔

    تحقیق کے نتائج سے سابقہ تحقیق کو توقع ملتی ہے کہ برطانیہ میں دریافت یہ قسم زیادہ متعدی ہے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے سے کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • کیا انسان میں سانپ جیسا زہریلا ہونے کی صلاحیت ہے؟ ہوشربا تحقیق

    کیا انسان میں سانپ جیسا زہریلا ہونے کی صلاحیت ہے؟ ہوشربا تحقیق

    اکثر ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں انسان کو سانپ کا روپ دھارتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، جس میں ایک عورت ناگن بن کر دوسروں کو ڈستی ہے اور ڈسے جانے والا موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

    اس بات کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے؟ یا اس میں کہاں تک سچائی ہے؟ کہ انسان کے اندر بھی خطرناک حد تک زہریلا بننے کی صلاحیت موجود ہے۔

    اس حوالے سے ایک ویب سائٹ نے جدید سائنس کے حوالے سے بتایا ہے کہ انسان کے اندر بھی مخصوص حالات میں زہریلا بننے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق سانپ اور بچھو کے علاوہ بھی کئی جانور ایسے ہیں جنہوں نے ارتقا کے عمل سے گزر کر زہریلے پن کی خصوصیت حاصل کی ہے تاکہ دشمنوں سے اپنا دفاع کرسکیں اور دوسرے جانوروں کو شکار کر سکیں۔

    حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ نہ صرف انسان بلکہ دوسرے ممالیہ جانوروں کے اسی قسم کے جینز موجود ہیں جو سانپ میں پائے جاتے ہیں۔

    جاپان کی اوکیناوا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنس دان اور اس تحقیق کے شریک مصنف اگنیش باروا نے لائیو سائنس کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر انسان کے اندر (زہر بنانے کے) تمام ضروری اجزا موجود ہیں۔

    سائنس دانوں کے مطابق زہر انہی غدودوں میں پیدا ہوتا ہے جن کے اندر انسانوں میں منہ کا لعاب تیار ہوتا ہے۔ جو جانور لعاب تیار کر سکتے ہیں، ان کے اندر ممکنہ طور پر زہر تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

    سائنسی جریدے "پی این اے ایس” میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق بعض ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت میں انسان اور دوسرے ممالیہ جانور زہریلا لعاب پیدا کر سکتے ہیں۔

    سائنس دانوں نے 1980 کی دہائی میں تجربات کے دوران دریافت کیا تھا کہ بعض قسموں کے چوہوں کا لعاب جب انجکشن کے ذریعے دوسرے چوہوں کو لگایا جائے تو وہ زہریلا ثابت ہوتا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق اگر ماحول بدل جائے اور وہ چوہے جن کے لعاب میں زہریلی پروٹینز موجود ہوں ان کی نسل زیادہ کامیابی سے پھلنے پھولنے لگے تو چند ہزار سالوں میں زہریلے چوہے وجود میں آ جائیں گے۔

    تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر اسی قسم کی صورتِ حال انسانوں کو درپیش ہو جائے تو وہ بھی مخصوص حالات میں زہریلے ہو سکتے ہیں تاہم اس کا امکان کم ہے۔

    اس تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے زہر کی بجائے تین ہزار کے قریب ان جینز پر توجہ مرکوز کی جو خود زہر نہیں بناتے بلکہ زہر بنانے والے جینز کی مدد کرتے ہیں۔

    سب سے پہلے سائنسدانوں نے ’ہابو‘ نامی زہریلے سانپ کے ڈی این اے کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ اس میں کون سے ایسے جین ہیں جو زہر بنانے والے جینز کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اس کا تقابل دوسرے جانوروں سے کیا۔

    سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ انسانوں کے منہ میں لعاب بنانے والے جینز سانپ کے جینز سے بہت ملتے جلتے تھے۔ البتہ انسانوں میں یہ جین لعاب کے اندر موجود پروٹینز تیار کرتے ہیں جو خوراک کو ہضم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

    سائنس دانوں کے مطابق دونوں نظاموں کی مشینری ایک جیسی ہی ہے۔ مزید یہ کہ انسان کے لعاب کے غدود ایک پروٹین تیار کرتے ہیں جو زہریلے جانور بھی بناتے ہیں۔ اس پروٹین کا نام کیلی کرین ہے اور یہ خوراک میں موجود پروٹینز کو تحلیل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

    انڈیپنڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوین لینڈ کے بائیو کیمسٹ اور زہروں کے ماہر برائن فرائی نے کہا کہ ’یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ کیلی کرین مختلف جانوروں میں پائے جانے والے زہروں کا حصہ ہے، کیوں کہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو، یہ بہت فعال انزائم ہے اور یہ بہت سے کام سرانجام دے سکتی ہے۔‘

    رپورٹ کے مطابق ارتقائی نظریے کے مطابق کروڑوں سال قبل ممالیہ جانوروں اور سانپوں کا جدِ امجد ایک ہی تھا، اس لیے ان کے منہ کے اندر لعاب بنانے کا نظام بھی ایک ہی تھا۔

    بعد میں ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے سانپوں اور دوسرے زہریلے جانوروں کا لعاب اسی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے زہریلا ہوتا چلا گیا، جب انسان اور دوسرے ممالیہ جانوروں میں یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوئی، البتہ اس کی بنیادی مشینری ان میں بھی وہی ہے۔