Tag: Researchers

  • سولر پینل لگانے والوں کیلئے بڑی خبر، کم دھوپ میں زیادہ بجلی

    سولر پینل لگانے والوں کیلئے بڑی خبر، کم دھوپ میں زیادہ بجلی

    گھروں کی چھتوں پر لگائے جانے والے سولر پینلز کی کارکردگی میں اضافے کیلیے محققین نے نیا اور آسان طریقہ متعارف کرا دیا جس کی مدد سے کم دھوپ میں زیادہ بجلی اسٹور کی جاسکتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی اوٹاوا یونیورسٹی کے محققین نے سولر پینلز کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ایک سادہ لیکن مؤثر طریقہ دریافت کرلیا ہے۔

    انہوں نے دریافت کیا کہ شمسی پینلز کے نیچے ریفلیکٹو سرفیس رکھنے سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ اور زیادہ روشنی جذب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    solar panels

    اوٹاوا یونیورسٹی کے مطابق محققین نے پینلز کے نیچے ”مصنوعی گراؤنڈ ریفلیکٹرز“ یا انتہائی عکاس سفید سطحوں کو رکھ کر شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی کو بہتر بنایا۔

    محققین کا دعویٰ ہے کہ اس سادہ سی ایڈجسٹمنٹ کی وجہ سے توانائی کی پیداوار میں 4.5 فیصد اضافہ ہوگا۔ یعنی کم دھوپ میں بھی زیادہ بجلی اسٹور کی جا سکے گی۔

    تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایک محقق کا کہنا تھا کہ ان ریفلیکٹرز کو براہ راست سولر پینلز کے نیچے رکھنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو، نہ کہ اسے قطاروں کے درمیان لگایا جائے۔

  • گوشت والے چاول کاشت کرنے کا کامیاب تجربہ

    گوشت والے چاول کاشت کرنے کا کامیاب تجربہ

    سائنسدانوں نے سستی اور ماحول دوست خوراک بنانے کے لیے چاول کے دانے میں گائے کے گوشت (بیف) کے خلیے اگانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

    سائنسدانوں نے ایک نئی قسم کا ہائبرڈ فوڈ تیار کیا ہے جس کے تحت’گوشت دار‘ چاول اگائے ہیں جو ان کے مطابق پروٹین کا ایک سستا اور ماحول دوست ذریعہ ثابت ہوں گے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کی یونسی یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے گائے کے گوشت کے چاول اگائے ہیں جو کہ کم مہنگی پروٹین پر مبنی خوراک فراہم کرسکتے ہیں جبکہ کاربن کے اخراج کو بھی کم کرسکتے ہیں۔

    Beef rice

    یہ چاول لیبارٹری میں بیف کے پٹھوں اور چربی کے خلیوں کے ساتھ ملا کر اگائے گئے ہیں۔ چاولوں پر پہلے مچھلی کی جیلاٹین لیپ لگایا گیا تاکہ گائے کے گوشت کے خلیات اس سے چپک سکیں اور پھر بیجوں کو ڈش میں 11 دن تک کلچر کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ 100 گرام پروٹین پیدا کرنے میں ہائبرڈ چاول 6.27 کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ سے تھوڑا کم خارج کرتا ہے جب کہ گائے کا گوشت 49.9 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سادہ چاول 2.20 ڈالر فی کلو فروخت ہوتے ہیں، جب کہ گائے کے گوشت کی قیمت 14.88 ڈالر فی کلو ہے۔ لیکن اگر اس ہائبرڈ چاول کو مارکیٹ میں فروخت کیا جائے تو یہ خوراک $2.23 میں دستیاب ہوگی۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ کھانا قحط، فوجی راشن اور مسقتبل میں خلائی خوراک کے لیے بھی کام آسکے گا تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ اسے مارکیٹ میں رکھا جائے گا تو کیا عام صارفین بھی یہ لینا پسند کریں گے یا نہیں۔

  • بچوں کو ’’منکی پاکس‘‘ بیماری کے زیادہ خطرات لاحق ہیں، نئی تحقیق

    بچوں کو ’’منکی پاکس‘‘ بیماری کے زیادہ خطرات لاحق ہیں، نئی تحقیق

    محققین نے کہا کہ چھوٹے بچوں کو خارش سے متعلق پیچیدگیوں اور جسم کے دیگر حصوں بشمول آنکھوں تک انفیکشن کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    لندن : طبی ماہرین نے اپنی تازہ تحقیق میں کہا ہے کہ آٹھ سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کو منکی پوکس کی زیادہ شدید بیماری کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

    میگزین ’’دی پیڈیاٹرک انفیکشن ڈیزیز جنرل‘‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اب تک صرف چند بچے ہی منکی پاکس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن 8 سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔

    Monkeypox Is More Dangerous To Children" » Expat Guide Turkey

    رپورٹ کے مطابق بچوں میں بہت کم شرح کے باوجود بچوں میں منکی پوکس کی پیچیدگیوں اور دیگر سنگین نتائج کے بارے میں بہت خدشات پائے جاتے ہیں۔

    سوئٹز رلینڈ کی یونیورسٹی آف فرائی بورگ کی ڈاکٹر پیٹرا زیمرمین اور میلبورن یونیورسٹی سے نیگیل کرٹس نے کہا کہ بچوں کے اسپتال میں داخل ہونے کی شرح اور اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں بھی اموات کی شرح میں اضافے کی اطلاع دی ہے۔

    بنیادی طور پر کم آمدنی والے ممالک کے اعداد و شمار کی بنیاد پر 8 سال سے کم عمر کے بچوں کو خاص طور پر سنگین بیکٹیریل انفیکشن سمیت پیچیدگیوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ چھوٹے بچوں کو خارش سے متعلق پیچیدگیوں اور جسم کے دیگر حصوں بشمول آنکھوں تک انفیکشن کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    Is monkeypox worse in children? How severe virus is explained | NationalWorld

    ماہ اگست تک دنیا بھر میں لیبارٹریز سے تقریباً 47ہزار تصدیق شدہ منکی پاکس کے کیسز سامنے آئے تھے، ان میں سے صرف 211 کیسز 18 سال سے کم اور نوعمر بچوں کے تھے۔

    موجودہ وباء میں منکی پاکس وائرس زیادہ تر جنسی یا دوسرے قریبی رابطوں سے تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس بیماری کے پھیلاؤ کے دیگر عوامل میں آلودہ سطحوں اور کچھ اشیاء کا تعین ہونا باقی ہے۔

    منکی پاکس کے زیادہ تر مریض ابتدائی طور پر مناسب دیکھ بھال سے صحت یاب ہوجاتے ہیں تاہم شدید کیسز اور ہائی رسک گروپس کے لیے زیادہ مخصوص علاج ضروری ہے، یہ بات خاص طور پر8 سال سے کم عمر کے بچوں اور جلد کی بنیادی بیماریوں میں مبتلا افراد میں دیکھی گئی ہے۔

    دیگر کمزور افراد میں مثلاً حاملہ خواتین، ایسے مریض جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو اور ایگزیما کے مریضوں کے علاوہ منہ آنکھوں اور زیر ناف منکی پوکس کے دانے والے افراد شامل ہیں۔

    US reports at least 31 cases of monkeypox among children - ABC News

    محققین کے مطابق چیچک کی ویکسینیشن منکی پاکس کی روک تھام میں مؤثر ہے تاہم مکمل تحفظ کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

    منکی پاکس سے بچاؤ کے لیے ادویات یا ویکسین ان بچوں کے لیے تجویز کی گئی ہیں جو انتہائی محدود ڈیٹا’ کے ساتھ ایک بار پھر منکی وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔

    خاص طور پر چونکہ مونکی پوکس غیرعلامتی بھی ہوسکتا ہے، اس لیے اس وباء کو روکا نہیں جا سکتا اور چھوٹے بچوں سمیت کمزور افراد میں پھیل سکتا ہے۔

  • ڈیلٹا ویرینٹ کیخلاف کون سی ویکسین انتہائی مؤثر ہے؟ محققین نے بڑا دعویٰ کردیا

    ڈیلٹا ویرینٹ کیخلاف کون سی ویکسین انتہائی مؤثر ہے؟ محققین نے بڑا دعویٰ کردیا

    لندن : برطانوی ماہرین نے اپنی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ فائزر ویکسین کی دو خوراکیں ڈیلٹا ویرینٹ کیخلاف88 فیصد مؤثرہیں، مذکورہ ویکسین کو کورونا کی ابتدائی اقسام کے خلاف نتیجہ خیز اور کارگر قرار دیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک برطانوی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے سدباب کیلئے تیارکی گئی فائزر ویکسین کی دو خوراکیں ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف 88 فیصد مؤثر رہیں۔

    برطانوی تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی ایسٹرازینیکا ویکسین کی دو خوراکیں ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف 60 فیصد مؤثر رہیں۔

    برطانوی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف فائزر ویکسین کی ایک خوراک 36 فیصد جبکہ ایسٹرازینیکا کی ایک خوراک 30فیصد مؤثر رہی۔

    دوسری جانب چلی نے روسی کورونا وائرس کی ویکسین اسپوٹنک فائیو کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی ہے۔

  • چینی ویکسین کورونا سے بچاؤ کیلئے کتنی مؤثر ہے ؟ محققین نے بتا دیا

    چینی ویکسین کورونا سے بچاؤ کیلئے کتنی مؤثر ہے ؟ محققین نے بتا دیا

    استنبول : کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے متعدد ممالک نے ویکسینز تیار کی ہیں، ان ویکسینز کو عالمی سطح پر قابل استعمال قرار دیتے ہوئے عوام کو ویکسینیٹ بھی کیا جا رہا ہے۔

    اس حوالے سے چینی کمپنی سائنو ویک کی تیار کردہ کوویڈ 19 ویکسین بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے 83.5 فیصد تک مؤثر ہے۔ یہ بات ترکی میں جاری اس ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے عبوری نتائج میں سامنے آئی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع نتائج میں دریافت کیا گیا کہ یہ ویکسین کوویڈ 19 سے متاثر ہونے پر اسپتال میں داخلے کے خطرے سے سو فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے۔ سائنوویک کی کورونا ویک نامی ویکسین ناکارہ کورونا وائرس پر مبنی ہے جو اپنی نقول نہیں بناسکتا۔

    تاہم مدافعتی نظام کو اس ناکارہ وائرس کی بنیاد پر اینٹی باڈیز بنانے کی تربیت دی جاسکتی ہے یعنی اگر ویکسنیشن کے بعد کسی فرد کو وائرس کا سامنا ہوتا ہے تو اس کا جسم بیماری یا اس کی شدت کم کرنے کے لیے زیادہ بہتر مزاحمت کرسکتا ہے۔

    کورونا ویک کو پاکستان سمیت 37 ممالک میں ہنگامی استعمال کی منظوری دی جاچکی ہے اور عالمی ادارہ صحت نے بھی یکم جون 2021 کو اس کی ہنگامی منظوری دی تھی تاہم کورونا ویک کے ٹرائلز کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

    تازہ ترین نتائج ترکی میں ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے تھے جو ایک کنٹرول ڈبل بلائنڈ رینڈمائزڈ ٹرائل تھا جس میں 10 ہزار 29 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔ ان افراد کو یا تو ویکسین کی 2 خوراکیں 14 دن کے وقفے سے استعمال کرائی گئیں یا پلیسبو کا استعمال کرایا گیا۔

    یہ بات ترکی میں جاری اس ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے عبوری نتائج میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

    ٹرائل میں شامل رضاکاروں کی عمریں 18 سے 59 سال کے درمیان تھیں اور ایسے افراد کو شامل نہیں کیا گیا جو یا تو ماضی میں کوویڈ سے متاثر ہوئے یا مدافعتی نظام دبانے والا علاج کرارہے تھے۔

    اسی طرح حاملہ یا بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین، ویکسین میں موجود اجزا سے الرجک افراد یا آٹو امیون امراض کے شکار افراد کو بھی ٹرائل کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

    محققین نے رضاکاروں میں کوویڈ کی روک تھام کی تصدیق کے لیے ویکسین کی دوسری خوراک کے کم از کم 14 دن بعد پی سی آر ٹیسٹ کیا۔

    اس کے بعد 43 دن تک ان کا جائزہ لیا گیا اور محققین اس دورانیے کو بڑھانا چاہتے تھے تاہم ترکی میں ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری کے بعد اسے روک دیا گیا۔

    تمام تر ڈیٹا کے تجزیے کے بعد محققین نے دریافت کیا کہ کورونا ویک کوویڈ کی علامات والی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے میں 83.5 فیصد تک مؤثر ہے۔

    ویکسین گروپ میں شامل 6559 افراد میں سے 9 میں دوسری خوراک کے استعمال کے 14 دن بعد علامات والی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ اس کے مقابلے میں پلیسبو گروپ کے 3470 میں سے 32 کو بیماری کا سامنا ہوا۔

    ڈیٹا کے مطابق ویکسین سے کوویڈ سے ہسپتال میں داخلے سے 100 فیصد تحفظ ملا، تاہم محققین کا کہنا تھا کہ ٹرائل میں صرف 6 افراد کووڈکے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے جو پلیسبو گروپ سے تھے جبکہ ویکسین گروپ سے کسی کو داخل نہیں ہونا پڑا۔

    ٹرائل میں کورونا ویک انتہائی محفوظ ویکسین بھی ثابت ہوئی، ویکسین گروپ کے صرف 19 فیصد افراد نے مضر اثرات کو رپورٹ کیا۔

    ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ میں یہ اثرات معمولی تھے اور 50 فیصد سے زیادہ کو ان کا سامنا ایک دن سے زیادہ نہیں کرنا پڑا۔ محققین کا کہنا تھا کہ دنیا کو کوویڈ کے خلاف کسی بھی محفوظ اور مؤثر ویکسین کی ہر خوراک کی ضرورت ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا ویک علامات والی بیماری اور اسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے، جبکہ 18 سے 59 سال کی عمر کی آبادی کے لیے محفوظ بھی ہے۔

    تاہم یہ ٹرائل کچھ پہلوؤں کے حوالے سے محدود ہے اور محققین کے مطابق اس تجزیے میں جوان اور کم خطرے سے دوچار آبادی کو شامل کیا گیا جبکہ فالو اپ کا دورانیہ بھی بہت مختصر تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ویکسین سے ملنے والے تحفظ کی افادیت کو جاننے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے جبکہ معمر افراد، بچوں، نوجوانوں اور دائمی امراض کے شکار افراد میں اس کے محفوظ ہونے اور افادیت کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی نئی اقسام کے خلاف بھی اس کی افادیت کی جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔

  • کورونا وائرس : سائنسدانوں نے دنیا کو امید کی نئی کرن دکھا دی

    کورونا وائرس : سائنسدانوں نے دنیا کو امید کی نئی کرن دکھا دی

    کیلیفورنیا : امریکی محققین نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انسداد کوویڈ 19ویکیسن لگوانے کے بعد انسان کی قوت مدافعت کافی عرصے تک وائرس کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

    کورونا ویکسین کے حوالے سے کی گئی ایک تحقیق کے بعد امریکی محققین نے بتایا ہے کہ انسداد کورونا ویکسین کی خوراک لینے والے یا وائرس سے صحت یاب ہونے والے افراد کی قوت مدافعت میں وائرس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت طویل عرصے تک موجود رہتی ہے۔

    تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے بعد انسانی جسم میں کم از کم 8ماہ تک اس کے خلاف بہتر مدافعت قائم رہتی ہے جس کے باعث وائرس کے دوبارہ حملہ آور ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔

    محققین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت مکمل طور پر ختم ہونے میں کئی سال لگیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے کرونا وائرس کی ویکسین بار بار لگوانے کی مزيد ضرورت نہیں رہے گی اور وبا پر جلد قابو پانا بھی ممکن ہوگا۔

    اس تحقیق کے شریک مصنف، کیلیفورنیا میں واقع لاجولا انسٹی ٹیوٹ فار امیونولوجی کے ریسرچر شین کروٹی کہتے ہيں کہ شروع میں ہمیں ڈر تھا کہ اس مرض کے خلاف مدافعت زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہے گی تاہم اس تحقیق کے نتائج سے ہمارا خوف کچھ حد تک کم ہوگیا ہے۔

    اس سے قبل ماضی میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ کوویڈ19 کے خلاف مدافعت زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہتی، جس کے نتیجے میں اس مرض کے شکار لاکھوں افراد کا دوبارہ انفیکشن کا شکار ہونے کا امکان بہت زيادہ تھا۔

    اس کے علاوہ دوسرے کرونا وائرسز کے خلاف مدافعت بھی زيادہ عرصے تک قائم نہيں رہتی، اسی لیے سائنسدانوں کو زيادہ حیرت نہيں ہوئی۔ تاہم جریدہ سائنس میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے نتائج کے مطابق جن افراد میں انفیکشن یا ویکسی نیشن کے بعد مدافعت پیدا ہوئی ہو، ان میں کوویڈ19 کا دوبارہ شکار ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

    یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ امکان بہت کم ہے لیکن صفر نہیں ہے تاہم ویکسینیشن کے ذریعے اجتماعی مدافعت پیدا کرکے اس مرض کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن ہے۔

    اس نئی تحقیق میں کوویڈ19 کا کامیابی سے مقابلہ کرنے والے 185 افراد (جن میں مرد حضرات اور خواتین دونوں شامل تھے) سے حاصل کردہ خون کے نمونوں کا معائنہ کیا گیا تھا۔

    ان میں سے زیادہ تر افراد کو معمولی انفیکیشن ہوا تھا، لیکن سات فیصد افراد کو کچھ روز کے لیے ہسپتال میں رہنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔

    ان میں سے ہر ایک شخص نے ابتدائی علامات سامنے آنے کے بعد ریسرچ ٹیم کو چھ روز اور آٹھ مہینے کے عرصے کے دوران کم از کم ایک خون کا نمونہ فراہم کیا۔ ان میں سے 43 نمونے چھ مہینوں کے بعد حاصل کیے گئے۔

    ریسرچ ٹیم نے ان نمونوں میں قوت مدافعت کے ان عناصر کی پیمائش کی جن کی بدولت دوبارہ انفیکشن کا شکار ہونے کے امکانات میں کمی ممکن ہے یعنی اینٹی باڈیز (جو کسی بیماری کی وجہ بننے والے پیتھوجن کی نشاندہی

    کرتے ہيں تاکہ نظام مدافعت اس پر حملہ آور ہوسکے)، بی سیلز (جو اینٹی باڈیز بناتے ہيں) اور ٹی سیلز (جو انفیکشن کا شکار ہونے والے سیلز کا خاتمہ کرتے ہیں)۔

    ریسرچرز کو یہ بات معلوم ہوئی کہ آٹھ مہینوں کے بعد ہمارے جسم میں کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز میں کچھ حد تک کمی ہوتی ہے لیکن ہر ایک شخص میں اس کمی کی شرح مختلف ہوتی ہے۔

    ٹی سیلز کی تعداد میں بھی صرف کچھ حد تک کمی ہوتی ہے تاہم بی سیلز کی تعداد بعض دفعہ برقرار رہتی ہے اور بعض دفعہ اس میں اضافہ ہوتا ہے۔

    اس کا مطلب ہے کہ اینٹی باڈیز کی تعداد میں کمی کے باوجود ہمارے جسم میں کرونا وائرس کے خلاف دوبارہ اینٹی باڈیز بنانے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے جس کے باعث دوبارہ انفیکشن کے شکار ہونے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہيں۔

    شین کروٹی کے مطابق ان نتائج کی بنیاد پر توقع رکھی جاسکتی ہے کہ ویکسینیشن کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس تحقیق سے یہ امید ضرور پیدا ہوتی ہے کہ اگر ویکسینیشن کی مہم کامیاب ہوجائے تو اس وبا کا جلد خاتمہ ممکن ہوگا۔

  • کورونا وائرس سے بچاؤ کی دوا ایجاد کرلی، آسٹریلیا کے محققین کا دعویٰ

    کورونا وائرس سے بچاؤ کی دوا ایجاد کرلی، آسٹریلیا کے محققین کا دعویٰ

    سڈنی : آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے دو دوائیں ایجاد کرلی ہیں، اس دوا سے علاج کے بعد مریض میں کسی قسم کا وائرس نہیں رہے گا۔

    ایک جانب تو کورونا وائرس نے دنیا بھر میں اپنی تباہ کاریاں مچائی ہوئی ہیں تو دوسری طرف محققین اور سائنسدان بھی اس وائرس کے انسداد کیلئے دن رات کوششوں میں مصروف ہیں۔

    اس حوالے سے آسٹریلیا میں محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایسی دو ادویات تیار کی ہیں جن سے کورونا وائرس سے متاثرہ مریض کا علاج ممکن ہوسکے گا۔

    کیونسلینڈ سینٹر برائے کلینیکل ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹرسن نے خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ یہ دو دوائیں جو ٹیسٹ ٹیوب میں جانچ کی گئی تھیں، وہ کورونا وائرس کو روکنے میں کامیاب ثابت ہوئیں۔

    ان دواؤں سے کوروناوائرس کا علاج ممکن ہوسکے گا۔ اس میں سے ایک ایچ آئی وی کی دوا ہے اور دوسری ایک ملیریا سے بچنے والی دوا ہے جسے کلوروکین کہتے ہیں۔

    پیٹرسن نے بتایا کہ آسٹریلیا میں کووڈ 19 کے پہلے چند مریضوں کو یہ دوائیں دی گئیں جس کے بعد وہ پوری طرح ٹھیک ہوگئے۔ اس لئے یہ ممکنہ طور پر موثر علاج ہے۔ اس علاج کے بعد مریض میں کسی قسم کا وائرس نہیں ملے گا۔

    https://www.facebook.com/TheProjectTV/videos/703313707144463/

  • امریکی سائنسدان چوہے سے ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب

    امریکی سائنسدان چوہے سے ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب

    واشنگٹن : سائنسدانوں نے پہلی بار ادویات اور جین ایدیٹنگ کی مدد سے لیبارٹری کے چوہے کے پورے جینوم میں ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق جینوم میں ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیابی سے سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس 2 نکاتی طریقہ کار کی مدد سے اس لاعلاج مرض کے شکار انسانوں کے لیے پہلی بار علاج تشکیل دیا جائے گا اور انسانوں پر اس کی آزمائش اگلے سال سے شروع ہوگی۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اب تک صرف 2 افراد کے ایچ آئی وی کا علاج ہوسکتا ہے جو کہ دونوں بلڈ کینسر کا شکار تھے اور ایک خطرنک بون میرو ٹرانسپلانٹ کے عمل سے گزر کر دونوں بیماریوں سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔مگر یہ طریقہ کار ہر ایک پر کام نہیں کرتا بلکہ کچھ کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مریض ایچ آئی وی اور کینسر دونوں بیماریوں کا شکار ہوں۔

    امریکا کی نبراسکا یونیورسٹی کے ماہرین نے ایچ آئی وی سے نجات دلانے والے نئے طریقہ کار کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی جو کہ 5 سال سے اس پر کام کررہے تھے۔

    اس طریقہ کار میں انہوں نے آہستی سے اثر کرنے والی ادویات اور جین ایڈیٹنگ کرسپر کاس 9 کا استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں لیبارٹری کے ایک تہائی چوہوں کے مکمل جینوم سے ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس کامیابی پر ہمیں یقین ہی نہیں آیا، پہلے تو ہمیں لگا کہ یہ اتفاق ہے یا گرافس میں کوئی گڑبڑ ہے، مگر کئی بار اس عمل کو دہرانے کے بعد ہمیں یقین آیا ہے کہ ہم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ طبی جریدوں نے بھی ہم پر یقین نہیں کیا اور کئی بار ہمارے مقالے کو مسترد کیا گیا اور ہم بڑی مشکل سے یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ ایچ آئی وی کا علاج اب ممکن ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی سے نجات اس لیے لگ بھگ ناممکن ہوتی ہے کیونکہ یہ وائرس جینوم کو متاثر کرتا ہے اور خود کو خفیہ مقامات پر چھپا کر کسی بھی وقت دوبارہ سر اٹھالیتا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق ویسے اس وقت ایسی انتہائی موثر ادویات موجود ہیں جو اس وائرس کو دبا دیتی ہیں اور مریض میں یہ وائرس ایڈز کی شکل اختیار نہیں کرپاتا جس سے صحت مند اور لمبی زندگی گزارنا ممکن ہوجاتی ہے، تاہم یہ ادویات ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

    اب محققین اس نئے طریقہ کار کو بندروں پر آزمائیں گے اور توقع ہے کہ اگلے سال موسم گرما میں انسانوں پر اس کا ٹیسٹ شروع ہوگا۔محققین کا کہنا تھا کہ ابھی اسے مکمل علاج قرار نہیں دیا جاسکتا ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی کا مکمل علاج ممکن ہے۔