Tag: return

  • اسحٰق ڈار کی وطن واپسی تاخیر کا شکار

    اسحٰق ڈار کی وطن واپسی تاخیر کا شکار

    اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی وطن واپسی کا فیصلہ تاخیر کا شکار ہوگیا، مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی وطن واپسی کا فیصلہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وطن واپسی پر اسحٰق ڈار کو ذمہ داری دیے جانے کا تعین نہیں ہوسکا، مسلم لیگ ن کی سینئر قیادت مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔

    ذرائع کے مطابق پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی رائے ہے کہ مفتاح وزارت خزانہ بہتر انداز میں چلا رہے ہیں، مفتاح اسماعیل کو برقرار رکھنے کا اظہار سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف بھی کر چکے ہیں۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس بات کا فیصلہ نواز شریف کریں گے کہ اسحٰق ڈار کو کون سی ذمہ داری دی جائے گی، اسحٰق ڈار کی واپسی کا فیصلہ ضمنی انتخابات کے بعد کیا جائے گا۔

  • شادی کے بعد کترینہ اور وکی کی پہلی تصاویر

    شادی کے بعد کترینہ اور وکی کی پہلی تصاویر

    بالی وڈ کا معروف نوبیاہتا جوڑا کترینہ کیف اور وکی کوشل شادی کے بعد پہلی بار میڈیا کے سامنے آگئے، دونوں اپنی شادی کی تقریبات ختم ہونے کے بعد واپس ممبئی پہنچے ہیں۔

    راجھستان کے تاریخی قلعے میں شادی کی تقریبات ختم ہونے کے بعد کترینہ اور وکی واپس ممبئی پہنچے تو میڈیا نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Katrina Kaif (@katrina_k_beauty)

    اس موقع پر کترینہ نے گلابی اور سنہرے رنگ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا جبکہ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ بھی تھام رکھا تھا۔

    میڈیا کی فرمائش پر دونوں کافی دیر تک رک کر تصاویر بنواتے رہے۔

    یاد رہے کہ دونوں کی شادی 9 دسمبر کو ہوئی تھی جس کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھیں۔

  • عراق جنگ کی وجوہات جھوٹی تھیں: امریکی فوجی نے تمغے واپس کردیے

    عراق جنگ کی وجوہات جھوٹی تھیں: امریکی فوجی نے تمغے واپس کردیے

    واشنگٹن: عراق جنگ لڑنے والے ایک سابق امریکی فوجی نے اپنے تمام تمغے واپس لوٹانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عراق جنگ کی جو وجہ بتائی گئی وہ جھوٹ پر مبنی تھی۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق عراق جنگ لڑنے والے ایک سابق امریکی فوجی نے کہا ہے کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا، سب جھوٹ تھا۔

    امریکی فوجی نے اپنے تمام تمغے واپس لوٹانے کا اعلان بھی کیا۔

    اس سے قبل سنہ 2012 میں بھی عراق جنگ کے خاتمے پر جنگ میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے سروس میڈلز واپس لوٹانے کا اعلان کیا تھا۔

    امریکی فوجیوں کا کہنا تھا کہ تمغے، فیتے اور جھنڈے انسانوں کی بربادی کا مداوا نہیں کر سکتے۔

  • بھارتی سفارتکار قندھار کے بعد مزار شریف سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے

    بھارتی سفارتکار قندھار کے بعد مزار شریف سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے

    نیو دہلی : افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کے بعد بھارت نے مزار شریف سے بھی اپنے سفارت کاروں کو واپس بلالیا۔ ایک خصوصی طیارے کے ذریعے بھارتی عہدیداروں کو بحفاظت وطن لے جایا گیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت نے مزار شریف سے بھی اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا ہے، بھارتی حکومت نے افغانستان میں موجود تمام بھارتی شہریوں کو ملک سے نکل جانے کا بھی مشورہ دیا ہے۔

    ایک ایسے وقت جب طالبان کی مزار شریف کی جانب پیش قدمی جاری ہے، بھارت نے 10 اگست منگل کی شام کو مزار شریف میں موجود اپنے سفارتی عملے کو ایک خصوصی طیارے کی مدد سے دہلی واپس بلا لیا۔ گزشتہ ماہ بھارت نے قندھار سے اپنے عملے کا انخلا کروا لیا تھا۔

    اس سے قبل مزار شریف میں بھارتی قونصل خانے نے اعلان کیا تھا کہ سکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر، جو بھی بھارتی شہری اس علاقے میں موجود ہو، وہ شہر سے نکل جائیں اور 10 اگست کی شام کو ایک خصوصی پرواز کابل سے نئی دہلی کے لیے روانہ ہو رہی ہے اس میں سوار ہونے کے لیے اپنی تفصیلات روانہ کر دیں۔

    مزار شریف افغانستان کے شمال میں سب سے بڑا شہر ہے جو ازبکستان اور تاجکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس شہر میں گزشتہ کئی برسوں سے بھارت کا ایک بڑا سفارتی عملہ موجود رہا ہے۔ گزشتہ ماہ جب جنوبی علاقے قندھار میں لڑائی تیز ہوئی تو بھارت نے سب سے پہلے قندھار کا اپنا قونصل خانہ بند کر نے کا اعلان کیا تھا اور عملے کو واپس بلا لیا گيا تھا۔

    لیکن شدید لڑائی کے باوجود شمالی شہر مزار شریف میں اس کا سفارتی اور سکیورٹی کا عملہ اب بھی موجود تھا۔ گزشتہ روز طالبان نے کابل اور مزار شریف کے درمیان واقع اہم شہر ایبک پر قبضہ کر لیا تھا اور اطلاعات کے مطابق اب وہ مزار شریف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے اسی تناظر میں یہ انخلا کیا ہے۔

    لیکن کابل میں بھارتی سفارت خانہ اب بھی فعال ہے جس میں بھارتی سفارتی حکام، سکیورٹی فورسز کا عملہ اور سفارت خانے میں کام کرنے والے افغان شہری اب بھی حسب معمول کام کر رہے ہیں۔

  • امریکا کی افغان جنگ میں ناکامی ؟ کب کیا ہوا؟ جانیے !!

    امریکا کی افغان جنگ میں ناکامی ؟ کب کیا ہوا؟ جانیے !!

    گزشتہ 21 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے بعد اب امریکا نے اپنی ناکامی کا مبینہ اعتراف کرتے ہوئے بالآخر واپسی کا فیصلہ کر ہی لیا، یہ جنگ امریکا کے گلے میں پھنسی ایسی ہڈی بن گئی تھی جسے وہ نہ نگل سکتا تھا اور نہ ہی اُگل سکتا تھا۔

    امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ رواں سال 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی دستے افغانستان سے واپس بلالیے جائیں گے۔

    افغانستان میں سب سے بڑا فوجی اڈہ بند کرنے کے ساتھ ہی گویا امریکا نے جنگِ افغانستان کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے جس کا فیصلہ گزشتہ سال طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں کیا گیا تھا۔

    کابل سے تقریباً 60 کلومیٹرز کے فاصلے پر موجود بگرام ایئر بیس سے امریکی افواج کی وطن واپسی افغانستان میں امریکی مداخلت کا خاتمہ ہے کیونکہ مسلح افواج اسی ایئر بیس سے ہی یہاں کی اپنی تمام تر کارروائیاں کرتی تھی۔

    جنگ سے آغاز سے اختتام تک گزشتہ 21سال میں کون سے اہم واقعات پیش آئے؟ جن میں سے کچھ اہم واقعات پر ہم قارئین کو آگاہ کریں گے۔

    ‏11 ستمبر 2001ء – افغانستان میں امریکی آمد کا سبب دراصل نائن الیون کے حملے تھے کہ جن کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی، جس کے سربراہ اسامہ بن لادن اس وقت افغانستان میں طالبان کے سائے تلے موجود تھے۔

    ‏7 اکتوبر 2001ء – امریکی فوج نے طالبان اور القاعدہ پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ بمباری مہم کی رہنمائی اور طالبان مخالف مقامی دھڑوں کو منظم کرنے کے لیے امریکا کی اسپیشل فورسز اور سی آئی اے ایجنٹ افغانستان میں داخل ہوئے۔

    ‏13 نومبر 2001ء – امریکا کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کی فوجیں کابل میں داخل ہو گئیں اور طالبان جنوب کی طرف پسپا ہو گئے۔ یعنی تقریباً ایک مہینے کی کار روائی نے طالبان رہنماؤں کو فرار پر مجبور کر دیا۔

    ‏2 مئی 2003ء – امریکی حکام نے افغانستان میں اہم جنگی آپریشنز کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ صدر جارج ڈبلیو بش کی زیر قیادت اب امریکا کی توجہ عراق پر حملے کے لیے تیاریوں پر تھی۔ جس کے لیے امریکی فوجیوں اور جنگی ساز و سامان بڑے پیمانے پر منتقل کیا گیا۔ یوں طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا، جس نے ملک کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اپنے قدم مضبوط کر لیے۔

    ‏17 فروری 2009ء – صدر براک اوباما نے کمانڈر اِن چیف کی حیثیت سے اپنا پہلا فوجی فیصلہ کیا اور مزید 17 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا حکم دیا تاکہ وہ بڑھتی ہوئی شورش کو روک سکیں۔ یہ دستے ان 38 ہزار امریکی اور 32 ہزار نیٹو فوجیوں کے ساتھ مل گئے، جو پہلے سے ہی افغانستان میں موجود تھے۔

    یکم مئی 2011ء – امریکا نے پاکستان میں داخل ہو کر ایک کار روائی میں اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا۔ یہ وہی وقت تھا جب افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی، یعنی ایک لاکھ سے بھی زیادہ ۔ جبکہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور دیگر دھڑوں کے خلاف سی آئی اے کے ڈرون حملے بھی بڑھ رہے تھے۔

    دسمبر 2011ء – امریکی حکام نے کہا کہ امریکی سفارت کاروں نے گزشتہ 10 ماہ کے دوران جرمنی اور قطر میں افغان طالبان رہنماؤں کے ساتھ نصف درجن سے زیادہ ملاقاتیں کی ہیں۔

    ‏27 مئی 2014ء – صدر اوباما نے سال کے اختتام تک 9,800 فوجیوں کو چھوڑ کر باقی تمام امریکی دستوں کو افغانستان سے نکالنے اور 2016ء کے اختتام تک باقی ماندہ کے بھی انخلا کا منصوبہ بنایا۔

    ‏28 دسمبر 2014ء – زیادہ تر جنگی دستوں کے انخلا اور جنگ کی قیادت افغانستان کو منتقل کر کے امریکی جنگی مشن کی با ضابطہ تکمیل کر دی گئی۔ تقریباً 10 ہزار امریکی فوجی بدستور افغانستان میں موجود تھے، جن کی توجہ افغان فوج کو تربیت دینے اور دہشت گردی کے خاتمے پر رہی۔

    ‏21 اگست 2017ء – صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے لا محدود امریکی فوج اتارنے کا اعلان کیا۔

    ‏4 ستمبر 2018ء – طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے افغانستان میں پیدا ہونے والے سفارت کار زلمی خلیل زاد کو امریکا کا نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا۔

    ‏29 فروری 2020ء – امریکا نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ فوج کے انخلا کا معاہدہ کر لیا جس کے مطابق افغان حکومت اور طالبان آپس میں امن مذاکرات کریں گے۔

    ‏12 ستمبر 2020ء – افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کاروں نے کئی ماہ کی تاخیر کے بعد بالآخر دوحہ میں امن مذاکرات کا آغاز کر دیا۔

    ‏2 دسمبر 2020ء – افغان حکومت اور طالبان امن مذاکرات کے طریق کار پر اپنے ابتدائی معاہدے تک پہنچ گئے، یہ 19 سال کی جنگ کے بعد پہلا تحریری معاہدہ تھا۔

    ‏14 اپریل 2021ء – امریکی صدر جو بائیڈن اعلان کیا کہ امریکی افواج طالبان کے ساتھ معاہدے کے تحت مئی تک فوجی انخلا نہیں کر سکتیں، البتہ 11 ستمبر سے پہلے غیر مشروط انخلا مکمل ہو جائے گا۔

    ‏26 جون 2021ء – جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ افغان اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں جبکہ سکیورٹی حوالوں سے امداد جاری رکھنے کا عہد بھی کیا۔

    ‏2 جولائی 2021ء – امریکا نے کابل کے نواح میں واقع اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام خالی کر دیا، ایک ایسے وقت میں ملک کے طول و عرض میں پر تشدد کار روائیاں عروج پر نظر آ رہی ہیں۔

  • 39 ہزار سے زائد پاکستانی بیرون ممالک سے واپسی کے منتظر ہیں: وزیر خارجہ

    39 ہزار سے زائد پاکستانی بیرون ممالک سے واپسی کے منتظر ہیں: وزیر خارجہ

    اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان واپس آنے والوں کی تعداد 40 ہزار تک بڑھ سکتی ہے، تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خصوصی کمیٹی برائے کرونا کے دوسرے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شہریار آفریدی نے سب کمیٹی کی رپورٹ ہمارے سامنے رکھی ہے، اس وقت 39 ہزار 748 پاکستانی بیرون ممالک سے واپسی کے منتظر ہیں۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں واپسی کے منتظر بہت سے پاکستانی روزگار سے محروم ہو چکے ہیں، 16 سو 40 پاکستانیوں کو 12 خصوصی فلائٹس کے ذریعے واپس لایا گیا،ان 16 سو 40 مسافروں میں سے 28 مسافروں کے کرونا ٹیسٹ مثبت آئے۔

    انہوں نے کہا کہ 22 سو 48 پاکستانی اس وقت انڈونیشیا، کینیا، یوگنڈا اور سوڈان میں موجود ہیں، نیپال میں 14 اور مالدیپ میں 4 پاکستانی واپسی کے منتظر ہیں۔ اگلا مرحلہ کل سے شروع ہو رہا ہے جنہیں 9 پروازوں سے لایا جائے گا۔ ان میں بیرون ممالک میں مقیم پاکستانی بھی شامل ہیں۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ تعداد بڑھ سکتی تھی مگر صوبے ایئر پورٹس کھولنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اب صوبوں نے ایئر پورٹس کھولنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ ہم 14 اپریل سے شروع آپریشن میں زیادہ پاکستانیوں کو لا سکیں گے۔ امریکہ اور کینیڈا میں مقیم پاکستانی بھی واپس آنا چاہتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان واپس آنے والوں کی تعداد 40 ہزار تک بڑھ سکتی ہے، تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ وزارت خارجہ اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ یہ عالمی وبا ہے امریکا اور یورپ کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔

  • حجاج کرام کی واپسی آسان بنانے کے لیے سعودی ایوی ایشن کا منفرد منصوبہ متعارف

    حجاج کرام کی واپسی آسان بنانے کے لیے سعودی ایوی ایشن کا منفرد منصوبہ متعارف

    ریاض : سعودی انتظامیہ نے کہا ہے کہ منصوبے کے تجرباتی مرحلے کا آغاز ان شاءاللہ پیر جبکہ اطلاق انڈونیشیا، ملائیشیا اور بھارت جانے والے حجاج کرام پر ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں شہری ہوابازی کی جنرل اتھارٹی نے اِیاب (واپسی) کے نام سے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو اللہ کے مہمانوں (حجاج کرام) کی خدمت میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد مثال ہے،منصوبے کے تجرباتی مرحلے کا آغاز ان شاءاللہ پیر سے ہو گا۔

    منصوبے کا مقصد حجاج کرام کی واپسی کے سفر کے اقدامات کو ہوائی اڈے پہنچنے سے پہلے ہی اُن کی قیام گاہوں پر مکمل کرنے کو آسان بنانا ہے، رواں سال 1440 ہجری کے حج سیزن میں اس منصوبے کا اطلاق انڈونیشیا، ملائیشیا اور بھارت جانے والے حجاج کرام پر ہو گا۔

    سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق سعودی شہری ہوابازی کی جنرل اتھارٹی کے سربراہ عبدالہادی المنصوری کا کہناتھا کہ اتھارٹی اِیاب منصوبے کے ذریعے مسافروں کے تجربے کو آسان بنانے کے ساتھ جدہ کے کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور مدینہ منورہ کے پرنس محمد بن عبدالعزیز انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر انتظار کا دورانیہ کم کرنا چاہتی ہے تا کہ حجاج کرام مکمل سہولت کے ساتھ اپنے وطن لوٹ سکیں۔

    المنصوری کے مطابق اِیاب منصوبہ رواں سال 1440 ہجری کے حج سیزن میں تجرباتی طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔

    پہلے مرحلے میں جدہ اور مدینہ منورہ کے دونوں ہوائی اڈوں پر 30 ہزار حجاج کرام اس سے مستفید ہوں گے۔ بعد ازاں اس خدمت کا دائرہ کار مملکت کے ہوائی اڈوں کے ذریعے تمام حجاج کرام ، معتمرین اور مسافروں تک پھیلا دیا جائے گا۔

    شہری ہوابازی کی جنرل اتھارٹی کے سربراہ نے اپنے بیان کے اختتام پر اِیاب منصوبے میں شریک تمام سرکاری اور قومی اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی کوششوں کو گراں قدر قرار دیا۔

    واضح رہے کہ اِیاب منصوبے کے تحت حجاج کرام کے سامان وصول کرنے کے اقدامات ان کی قیام گاہوں سے مکمل کر لیے جائیں گے اور ان کی واپسی کا اندراج ہوائی اڈے پہنچنے سے پہلے خودکار طریقے سے کر لیا جائے گا۔

  • امریکی پابندیاں اٹھانے کے بدلے ایران کی اہم پیش کش

    امریکی پابندیاں اٹھانے کے بدلے ایران کی اہم پیش کش

    تہران /واشنگٹن : ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے وسیع تر معائنے کو دائمی صورت میں قبول کرسکتاہے۔

    تفصیلات کے مطا بق ایران نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر امریکا تہران پر عائد اقتصادی پابندیوں سے مستقل طور پر دست بردار ہو جائے تو ایران اپنے جوہری پروگرام کے وسیع تر معائنے (اضافی پروٹوکول) کو دائمی صورت میں قبول کر لے گا۔ تاہم امریکا نے اس پیش کش کی سنجیدگی پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

    برطانوی اخبار نے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے نیویارک میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایران اضافی پروٹوکول پر فوری دستخط کر سکتا ہے جو اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کو ایرانی جوہری پروگرام کے پُرامن ہونے کو یقینی بنانے کے لیے زیادہ راستے فراہم کرے گا تاہم اس کے لیے پہلے امریکا کو ایران پر عائد پابندیاں مستقل طور پر ختم کرنا ہوں گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب سے پہلے ہی مذکورہ پروٹوکول نافذ ہے لہذا یہ واضح نہیں کہ وہ کون سی رعایت ہے جو جواد ظریف اس تجویز میں پیش کر رہے ہیں، دوسری جانب ایک امریکی ذمے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ وہ اس معاملے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایران پابندیوں میں نرمی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ اس کے مقابل کوئی قابل ذکر چیز پیش نہیں کی گئی۔

    امریکی ذمے دار کے مطابق ان (ایرانیوں) کی چال یہ ہے کہ پابندیوں کے حوالے سے کسی بھی ممکنہ نرمی کو حاصل کر لیں جب کہ خود مستقبل میں جوہری ہتھیار کے حصول کی صلاحیت محفوظ رکھیں، ذمے دار نے مزید کہا کہ ایران ایک چھوٹے اقدام کو اس طرح ظاہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے گویا کہ وہ ایک بڑی رعائت ہو۔

    انہوں نے واضح کیا کہ ایرانی تجویز سے یورینیم کی افزودگی کا سلسلہ موقوف نہیں ہو گا اور اس سے یمن ، عراق، شام اور لبنان میں ایران کی اپنے ایجنٹوں کے لیے سپورٹ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔

    یاد رہے کہ مذکورہ اضافی پروٹوکول پر 1993 میں دستخط کیے گئے تھے۔

    یہ پروٹوکول تفتیش اور دیگر وسائل کے ذریعے جوہری تنصیبات کے پر امن ہونے کو یقینی بنانے کے حوالے سے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے اختیارات میں اضافہ کرتا ہے۔

    سال 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت تہران پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اضافی پروٹوکول کو مستقل طور پر قبول کرنے کے لیے کوشش کرے،ایسے وقت میں جب کہ امریکا کی جانب سے تہران پر عائد بہت سی پابندیوں کو حتمی طور پر منسوخ کرنے کے حوالے سے پاسداری کی جا رہی ہو۔

  • خواہش ہے کہ افغان مہاجرین اب عزت کے ساتھ واپس چلے جائیں، شوکت یوسفزئی

    خواہش ہے کہ افغان مہاجرین اب عزت کے ساتھ واپس چلے جائیں، شوکت یوسفزئی

    پشاور: صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو مزید توسیع دینے کا کوئی ارادہ نہیں، خواہش ہے یہ اب عزت کے ساتھ واپس چلے جائیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا, خیبرپختونخوا حکومت نے افغان مہاجرین کے پاکستان میں مزید قیام کی مخالفت کردی.

    اس حوالے سے صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو رہنے کیلئے جگہ دی ان کے ساتھ پاکستان میں بھائیوں جیسا سلوک کیا گیا۔

    حکومت کا افغان مہاجرین کو مزید توسیع دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، لہٰذا ہماری خواہش ہے یہ اب عزت کے ساتھ اپنے وطن واپس چلےجائیں۔

    مزید پڑھیں: وزیراعظم نے پاکستان میں رجسٹرڈافغان مہاجرین کوبینک اکاؤنٹس کھولنےکی اجازت دےدی

    انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے سفارش کی ہے کہ افغان مہاجرین کے پاکستان میں قیام کی ڈیڈ لائن 30 جون کو ختم ہورہی ہے اس میں مزید توسیع نہ کی جائے اور ان کی وطن واپسی کے انتظامات مکمل کرے، اب وقت آگیا ہے وہ واپس افغانستان چلے جائیں، ہم امید کرتے ہیں کہ افغان مہاجرین یہاں سے اچھی یادیں لے کرجائیں گے۔

    مزید پڑھیں: افغان مہاجرین کے لیے انسانیت کی وہ مثالیں قائم کیں جن کا جواب نہیں: شہریار آفریدی

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وفاق نے فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی رابطہ کیا گیا ہے تاہم تجویز مانگی گئی تو اتفاق رائے سے وزیراعلیٰ فیصلہ کریں گے۔

  • داعش کی مالی معاونت کرنے والے شخص کو ہسپانوی پولیس نے گرفتار کرلیا

    میڈرڈ : ہسپانوی پولیس نے داعشیوں کی یورپ واپسی کے لیے مالی امداد کرنے والے شامی کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں پولیس نے خفیہ اطلاعات پر کارروائی کرتے ہوئے شامی شہری کو گرفتار کیا ہے کہ جس پر داعش کے دہشت گردوں کی یورپ کےلیے مالی امداد کرنے کا الزام ہے۔

    پولیس کا خیال رہے کہ گرفتار شخص خود بھی دہشت گرد تنظیم داعش کا رکن ہے، جو ہوالہ کے لیے ذریعے داعش میں شامل ہونے والے یورپی شہریوں کو رقم منتقل کرتا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مغربی یورپ سے تعلق رکھنے والے 6ہزار شہریوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ 43 سالہ شخص نے سیکیورٹی مسائل سے بچنے کےلیے اپنے شناخت چھپائی ہوئی تھی جبکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بھی استعمال نہیں کرتا تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق 7 ہزار داعشی دہشت گرد اب تک اپنے گھروں کو واپس آچکے ہیں، جبکہ ریاستی ادارے اپنے ملک واپس لوٹنے والے شہریوں کے ساتھ سخت سے پیش آرہی ہے۔

    امارات میں داعش کے ’کی بورڈ جہادی‘ کو پانچ سال قید، دس لاکھ درہم جرمانہ

    یاد رہے کہ پانچ اپریل کو متحدہ عرب عمارات کی عدالت نے سوشل میڈیا پر شدت پسندی کی ترغیب دینے والے دو افراد کو سائبر کرائم کے قوانین کے تحت قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔