Tag: review-petition

  • ڈینئل پرل کیس : وفاقی اور سندھ حکومت کی احمد عمر شیخ کی رہائی کیخلاف نظر ثانی درخواست دائر

    ڈینئل پرل کیس : وفاقی اور سندھ حکومت کی احمد عمر شیخ کی رہائی کیخلاف نظر ثانی درخواست دائر

    اسلام آباد: حکومت پاکستان اور سندھ حکومت نے ڈینئل پرل کیس میں احمد عمر شیخ کی رہائی کیخلاف نظرثانی درخواست دائر کردی ، عدالت نے ڈینئل پرل قتل کیس کے 4 ملزمان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے ڈینئل پرل کیس میں احمد عمر شیخ کی رہائی کیخلاف نظرثانی درخواست دائر کردی گئی ، حکومت نے نظرثانی درخواست پراسیکیوٹر جنرل سندھ کے ذریعے سپریم کورٹ میں دائر کی۔

    دوسری جانب سندھ حکومت نے بھی ڈینئل پرل کیس میں احمد عمر شیخ کی رہائی کیخلاف نظرثانی درخواست دائر کی، پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے سندھ حکومت کی طرف سے درخواست دائر کی ، جس میں استدعا کی ہے کہ عدالت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

    یاد رہے گزشتہ روز سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے نے ڈینئل پرل قتل کیس کے 4 ملزمان کی رہائی کا حکم دیا تھا، ملزمان میں احمد عمر شیخ، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور محمد عادل شامل ہیں۔

    بعد ازاں ڈینئل پرل قتل کیس میں ملزمان کی بریت کے حکم کے خلاف وفاق اور سندھ حکومت نے نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    خیال رہے امریکا نے ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی پر اظہار تشویش اور وائٹ ہاؤس نے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈینئل پرل کے خاندان کو انصاف فراہم کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔

  • نیب  نے  خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کر دی

    نیب نے  خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کر دی

    لاہور :قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے  خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کر دی، جس میں سپریم کورٹ سے 17 مارچ کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی استدعا  کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے  سپریم کورٹ میں خواجہ برادران کی ضمانت کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کر دی، درخواست میں کہا گیا ہے کہ  سپریم کورٹ سے 17 مارچ کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ  سپریم کورٹ سعد رفیق،سلمان رفیق کی ضمانت کا فیصلہ واپس لے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ  رولز کے تحت نیب مقدمات کی 3رکنی بینچ سماعت کر سکتا ہے،  سپریم کورٹ کے 2رکنی بینچ نے سعد رفیق،سلمان رفیق کو ضمانت دی۔

    یاد رہےمسلم لیگ رہنما لیگ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی ضمانت منسوخی کیلئے نیب نظرثانی اپیل  کے ڈرافٹ کی چیئرمین نیب سے منظوری کی گئی۔

    نیب اپیل میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے کیس کے بنیادی اور اہم شواہد کو نظرانداز کیا، آبزرویشن ختم نہ کی گئی تو ٹرائل کورٹ کارروائی پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

    متن کے مطابق سپریم کورٹ کا کیس کے میرٹ کو دیکھنا پراسیکیوشن کے کیس کو کمزور کرسکتا ہے، سابق چیف جسٹس ضمانت معاملے پر تفصیلی فیصلوں کی حوصلہ شکنی کرچکے ہیں، سپریم کورٹ ہدایات کے مطابق ضمانت کے فیصلے 4یا 5 صفحات پر ہونے چاہئیں۔

    اپیل میں کہا گیا تھا قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد درخواست گزاروں کےخلاف کارروائی کی، پٹیشن کی سماعت کے موقع پر عدالت کی مزید معاونت کی جائے گی، عدالت کو دستیاب شواہد پر سرسری جائزے کے بعد فیصلے کا اختیار ہے۔

    متن کے مطابق سعدرفیق اور خاندان نے فرنٹ مین کے ذریعے پیراگون کو استعمال کیا اثاثے بنائے، سعدرفیق کےخلاف انکوائری اس وقت شروع ہوئی جب ان کی جماعت اقتدارمیں تھی، حقائق کی روشنی میں خواجہ برادران کی ضمانت فیصلے کو کالعدم قراردیا جائے۔

  • خدیجہ حملہ کیس ، مجرم کی سزا کیخلاف نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر

    خدیجہ حملہ کیس ، مجرم کی سزا کیخلاف نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ  کی سربراہی میں 3رکنی بینچ خدیجہ حملہ کیس کے مجرم شاہ حسین کی سزا کیخلاف نظرثانی درخواست پر 8 اگست کو سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے خدیجہ حملہ کیس کے مجرم شاہ حسین کی سزا کیخلاف نظرثانی درخواست سماعت کیلئے مقرر کردی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ 8 اگست کوسماعت کرے گا۔

    یاد رہے خدیجہ صدیقی حملہ کیس میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم شاہ حسین کوگرفتارکرنے کا حکم دیتے ہوئے 5 سال قیدکی سزا کافیصلہ برقرار رکھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہم ریکارڈکےمطابق فیصلہ کریں گے ۔

    مزید پڑھیں : خدیجہ صدیقی حملہ کیس: سپریم کورٹ کا ملزم شاہ حسین کوگرفتار کرنے کا حکم، 5سال قید کی سزا کافیصلہ برقرار

    شاہ حسین کوسزابحال ہونے پر سپریم کورٹ سےگرفتارکیاگیا تھا، شاہ حسین پر ساتھی طالبہ خدیجہ صدیقی پرقاتلانہ حملے کا الزام تھا۔

    واضح رہے مئی 2016 میں قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر شاہ حسین نے خنجر کے 23 وار کیے تھے، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئیں تھیں۔جس کے بعد سابق چیف جسٹس کے حکم پر جوڈیشل مجسٹریٹ مبشرحسین نے ایک ماہ میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔

    بعد ازاں ملزم شاہ حسین نے مجسٹریٹ کورٹ سے سنائی جانے والی سزا کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، شاہ حسین کی درخواست پرسیشن کورٹ نے مجسٹریٹ کورٹ کی جانب سے دی گئی 7 سال کی سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی، جبکہ خدیجہ صدیقی کیس کے ملزم شاہ حسین کو لاہور ہائی کورٹ نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

    جس پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

    خیال رہے خدیجہ صدیقی نے برطانوی یونیورسٹی سے وکالت کی اعلیٰ تعلیم مکمل کرلی اور اب وہ بیرسٹر بن گئیں ہیں۔

  • مختاراں مائی کیس : سپریم کورٹ نے  ملزمان کو وکیل کرنے کی مہلت دے دی

    مختاراں مائی کیس : سپریم کورٹ نے ملزمان کو وکیل کرنے کی مہلت دے دی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مختاراں مائی کی نظرثانی درخواست پر ملزمان کو وکیل کرنے کے لیے مہلت دیتے ہوئے سماعت 27 مارچ تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے مختاراں مائی کیس کی سماعت کی ، سماعت میں جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ملزمان کے وکلا کہاں ہیں ؟ جس پر ملزم رسول بخش نے استدعا کی عدالت کانوٹس کل ملا ،وکیل کرنے کی مہلت دی جائے۔

    جسٹس گلزار نے کہا ٹھیک ہے ہم آپ کو مہلت دیتے ہیں، آئندہ تاریخ پر وکیل کے ساتھ عدالت پیش ہوں۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 27 مارچ تک ملتوی کردی۔

    واضح رہے سنہ 2002 میں پنچایت کے حکم پر مختاراں مائی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد مختاراں مائی نے 14 ملزمان پر زیادتی میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

    اگست 2002 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 ملزمان سزائے موت سنائی تھی جبکہ دیگر 8 افراد کو بری کردیا گیا تھا۔

    بعد ازاں 2005 میں لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے 5 ملزمان کی نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے انھیں بری کردیا تھا جبکہ ایک ملزم کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا تھا۔

    مختاراں مائی نے 5 ملزمان کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں، جس پر اپریل 2011 میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔

    خیال رہے مختاراں مائی نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں، جس میں کہا تھا سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیافیصلہ انصاف کی بہت بڑی ناکامی تھی۔

  • جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، آصف زرداری، فریال تالپور اور مراد علی شاہ کی نظرثانی درخواستیں خارج

    جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، آصف زرداری، فریال تالپور اور مراد علی شاہ کی نظرثانی درخواستیں خارج

    اسلام آباد :سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور اور مرادعلی شاہ کی نظرثانی درخواستیں خارج کردیں جبکہ بلاول بھٹوکونظرثانی کی اپیل دائرکرنےکی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کی۔

    سماعت میں آصف زرداری کےوکیل لطیف کھوسہ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا فل کورٹ ریفرنس میں آپ نے تاریخی جملے ادا کیےتھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا فل کورٹ ریفرنس کی تقریرعدالتی مثال نہیں ہوتی، یہ مقدمے کی دوبارہ سماعت یا اپیل کی سماعت نہیں ہے۔

    فیصلےمیں کیاغلطی ہےبراہ راست اس کی نشاندہی کریں، جسٹس اعجازالاحسن کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ

    جسٹس اعجازالاحسن نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ میں کہا فیصلےمیں کیاغلطی ہےبراہ راست اس کی نشاندہی کریں، نظرثانی کادائرہ ذہن میں رکھیں، نظر ثانی کے دائرے پر 50 سے زائد عدالتی فیصلے موجودہیں ، جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کسی بھی مقدمےمیں درجہ بدرجہ نچلی عدالت سے مقدمہ اوپر آتا ہے، اسلامی تصور بھی ہے کہ اپیل کاحق ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا نیب کےسامنےساراموادرکھاگیا، کہاگیا ریفرنس بنتا ہے تو بنائیں نہیں بنتا تو نہ بنائیں، ہم اس معاملے میں مداخلت کیوں کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا اس مقدمےمیں عدالت نےکوئی فیصلہ نہیں دیا، ہم نےتوصرف متعلقہ اداروں کوتفتیش کےلیےکہا، اس سے آپ کا اپیل کاحق کیسے متاثرہوا اور لطیف کھوسہ کو ہدایت کی کہ آپ اپنے قانونی نکات دیں، جائزہ لیں گے قانونی نکات نظرثانی کے دائرہ کار میں آتے ہیں یا نہیں۔

    لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا عام مقدمات میں سائلین کوقانونی راستہ کےتمام حق ملتےہیں، عام مقدمات میں نچلی عدالتوں کےفیصلوں کیخلاف اپیل کاحق ہوتاہے، اسلامی قانون میں بھی اپیل کاحق ہوتا ہے، عدالت  آرٹیکل 184/3 کے اطلاق پیرا میٹرز کا جائزہ لے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت کےسامنےایک معاملہ آیاجو متعلقہ فورم کو بھجوادیاگیا، عدالت نے اب کیا کر دیا جوآپ اپیل کاحق مانگ رہے ہیں،  جس پر  لطیف کھوسہ نے کہا فیصلےمیں کہاگیاسندھ حکومت جےآئی ٹی سےتعاون نہیں کررہی، تو  چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں توتفتیشی افسران کو سیکیورٹی دیناپڑی، جس خاتون کےنام پرجعلی اکاؤنٹ کھولاساری رات تھانےمیں رکھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ہم نےکہاگواہان کوہراساں نہ کیاجائے، رینجرزکی سیکیورٹی بھی مہیاکی گئی، تو لطیف کھوسہ نے سوال کیا کیاایف آئی اےتفتیش میں سست روی پرسوموٹولیاجاسکتاہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اربوں روپےکامعاملہ ہے، قلفی والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں برآمد ہو رہے ہیں، آپ عدالتی مؤقف سے متفق نہیں تویہ نظرثانی کی وجہ نہیں۔

      اربوں روپےکامعاملہ ہے، قلفی والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں برآمد ہو رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن 

    چیف جسٹس نے کہا نیب قانون کے مطابق مقدمے کی منتقلی کی درخواست دے سکتے ہیں، فیصلے میں جو لکھاہےاس کا پس منظر ہے، خطرے کے پیش نظر جے آئی ٹی اور گواہان کوسیکیورٹی کا حکم دیا،کیس کی منتقلی کے بعد بھی آپ کے پاس متعلقہ فورم موجود ہے، جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی افسران نے ہراساں کرنے کی شکایت نہیں کی، لاکھوں انکوائریاں زیرالتوا ہیں انہیں نہیں چھیڑا گیا اور عدالت نے بلاول کا نام جے آئی ٹی سے نکالنے کاحکم دیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا بینچ کے کسی ممبرکی یہ آبزرویشن ہوسکتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اعتراض تو فالودہ والے کو کرنا چاہیے، اعتراض کرنا چاہیے کہ میرے پیسوں کیخلاف کیوں تحقیقات کررہے ہیں، آپ تو اکاؤنٹس کی ملکیت سے انکار کررہے ہیں۔

    لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا نیب اور ایف آئی اے متوازی تحقیقات کررہے ہیں ، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا جعلی اکاؤنٹس میں ملٹی پل ٹرانزیکشن ہوئیں، ایک حدتک معاملہ نیب کو  بھجوا دیا ہے، ایف آئی اے تحقیقات باقی معاملے پر روک تو نہیں سکتا، آپ بری ہوگئے تو خوشی خوشی جائیں، پورا ملک مطمئن ہو جائے گا۔

    آپ تمام کیسوں میں سست روی کانوٹس لیں تو مجھےاعتراض نہیں،لطیف کھوسہ

    آصف زرداری کےوکیل کا کہنا تھا کہ آپ تمام کیسوں میں سست روی کا نوٹس لیں تو مجھے اعتراض نہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس سوال پر تفصیل سے بحث ہوچکی ہے، آپ کے خلاف ابھی ریفرنس فائل نہیں ہوا تو لطیف کھوسہ نے کہا زرداری صاحب کی بہن کو روز اسلام آباد طلب کیا جاتا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کے مؤکل کو ریکارڈ مہیا کرنے کیلئے سیکڑوں خط لکھےگئے، آپ کے مؤکل نے ریکارڈ مہیا نہیں کیا، لطیف کھوسہ کا کہنا تھا جہانگیر ترین نے مانا نوکروں کے نام پر اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے اس کامطلب ہے غلطی کو چلنے دیا جائے۔

    لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب نے بینکنگ کورٹ کو مقدمے کی منتقلی کی درخواست کی ، آپ کے آرڈر سے میرے لیے تمام دروازے بند ہوگئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا نیب قانون کے تحت مقدمہ دوسری جگہ منتقل ہوسکتا ہے، آپ کے موکل ابھی ملزم ہیں پتہ نہیں کیوں یہ دلائل دے رہے ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا یہ وائٹ کالر کرائم کا مقدمہ ہے کوئی فوجداری مقدمہ نہیں، جب آپ کہتے ہیں اکاؤنٹ آپ کے مؤکل کے نہیں تو کیا پریشانی ہے، لطیف کھوسہ کا کہنا تھا میرے مؤکل کے سارے خاندان کو ہراساں کیا جارہاہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ای سی ایل سے متعلق یہ متعلقہ فورم نہیں، اربوں روپے ادھر ادھر ہوگئے کسی کو تو تفتیش کرنی ہے، اس لیے ہم نے معاملہ نیب کے سپرد کیا ہے۔

    فریال تالپورکے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل


    فریال تالپورکے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا ہمیں توقع ہے کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نیا ہوگا، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا  تھا کہ 7 جنوری کا فیصلہ عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے، متفق ہوں نظر ثانی میں دائرہ محدود ہوتا ہے، غلطی کی نشاندہی کروں گا، جو معاملے میں سطح کے اوپر ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کیا جے آئی ٹی کو منی ٹریل کی کھوج لگانے سے منع کر دیاجاتا؟ غیر قانونی رقم کو مختلف ذرائع سےجائز پیسہ بنانے کی کوشش کی گئی، غیرقانونی پیسے سے جائیدادیں، شیئرز اور بہت کچھ خریدا گیا، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا میں جے آئی ٹی کے اختیار پر بحث کرنا چاہتا ہوں،  جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا جے آئی ٹی کو صرف جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش کے لیے کہاگیا تھا، شاید آپ نے سردار لطیف کھوسہ کے دلائل کی نقل کی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فاروق ایچ نائیک صاحب مجھے بڑی حیرانی ہے، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلے میں کیس کے میرٹس  پر تو بحث کی ہی نہیں،  تمام فریقین متفق تھے معاملہ نیب کو بھجوایا جائے، جسٹس فیصل عرب  نے کہا  ہم نے صرف یہ کہا معاملے کی تفتیش کی جائے۔

    فاروق نائیک نے کہا کراچی سے مقدمہ راولپنڈی منتقل کیوں کیاگیا وجہ سمجھ نہیں آرہی، وقوعہ کراچی کا ہے تو تفتیش وہیں ہونی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فیصلے میں کہاگیا ہے اسلام آباد میں بھی تفتیش ہوسکتی ہے، ایک تھانیدار اپنے تھانے میں کہیں بھی بیٹھ کر تفتیش کرسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا نیب کے اختیارات پورے ملک میں ہیں، ہم نے کہا کہ اسلام آباد سمیت کہیں بھی تفتیش ہوسکتی ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ   آپ اس مقدمے کو سندھ سے کیوں نکال کرلے آئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا جو آپ کی پریشانی ہے وہ اس فیصلے میں نہیں۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا  ملزم تو عدالت کا لاڈلہ بچہ ہوتاہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ یہاں تو ضدی بچہ بناہوا ہے، ابھی تو آپ ملزم بنے ہی نہیں۔

    سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری، فریال تالپور،مرادعلی شاہ ، سندھ حکومت اور اومنی گروپ کی نظرثانی درخواستیں خارج کردیں جبکہ بلاول بھٹوکو نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کی اجازت دے دی۔

    چیف جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے 99.9 فیصددرخواستیں مستقبل کے خدشات پرمبنی ہیں، ہم سےوہ باتیں منسوب کی گئیں جوہم نےنہیں کیں۔

    یاد رہے 28 جنوری کو ججعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی ۔

    مزید پڑھیں : جعلی اکاؤنٹس کیس ، آصف زرداری، فریال تالپور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا

    جس میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے بینکنگ کورٹ میں حتمی چالان داخل کرنےمیں ناکام رہا، قانون کی عدم موجودگی میں مختلف اداروں کی جےآئی ٹی نہیں بنائی جاسکتی، لہذا سپریم کورٹ 7جنوری کے فیصلے کو ری وزٹ اور نظر ثانی کرے اور حکم نامے پر حکم امتناع جاری کرے۔

    بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کی تھی، بلاول بھٹو نے  اپیل  میں جےآئی ٹی کی تشکیل،حساس اداروں کے ممبران کی شمولیت پر اعتراضات اور سپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیار پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

    واضح رہے 7 جنوری کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں چیف جسٹس نے جعلی بینک اکاؤنٹس کامعاملہ نیب کو بھجواتے ہوئے مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو کا نام جے آئی ٹی رپورٹ اورای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

    خیال رہے جعلی بینک اکاؤنٹ کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ میں بلاول ہاؤس اور زرداری خاندان کے دیگر اخراجات سے متعلق انتہائی اہم اور ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے کہ زرداری خاندان اخراجات کے لیے جعلی اکاؤنٹس سے رقم حاصل کرتا رہا۔

  • بلاول بھٹو نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں نظرثانی اپیل دائر کردی

    بلاول بھٹو نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں نظرثانی اپیل دائر کردی

    اسلام آباد : جعلی اکاؤنٹس کیس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست دائر کردی ، جس میں جےآئی ٹی کی تشکیل،حساس اداروں کے ممبران کی شمولیت پر اعتراضات اور سپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیار پر بھی سوال اٹھاگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جعلی اکاؤنٹس کیس میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست دائر ‌‌‌کردی، درخواست میں جے آئی ٹی کی تشکیل،حساس اداروں کے ممبران کی شمولیت پر اعتراضات اور سپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیارپر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔

    اپیل میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے7 جنوری کو جےآئی ٹی رپورٹ سےنام نکالنے کا حکم دیا، تحریری فیصلے میں نام جےآئی ٹی رپورٹ سے نکالنے کا کوئی ذکر نہیں، سپریم کورٹ اپنے صوابدیدی اختیار کے پیرا میٹرز طے کرے، طےکیا جائےکس نوعیت میں صوابدیدی اختیار کا استعمال ہوسکتا ہے۔

    جےآئی ٹی کی تشکیل میں میری کوئی رضا مندی شامل نہیں تھی، سپریم کورٹ اپنے صوابدیدی اختیار کے پیرا میٹرز طے کرے، اپیل

    نظرثانی اپیل میں کہا گیا جےآئی ٹی کی تشکیل میں میری کوئی رضا مندی شامل نہیں تھی، جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے ممبران کا کیا تعلق ہے، ریکارڈ کے مطابق یہ مقدمہ نیب کا نہیں بینکنگ کورٹ کا ہے۔

    بلاول بھٹو نے اپیل میں استدعا کی سپریم کورٹ7جنوری کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

    اس سے قبل سندھ حکومت نے جعلی بینک اکائونٹس کیس میں نظرثانی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس اسلام آبادمنتقل نہ کیاجائے، مزیدانکوائری اسلام آباد میں کرنے سے انتظامی مسائل ہوں گے،انکوائری کراچی میں ہی کی جائے۔

    مزید پڑھیں : جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، سندھ حکومت نےسپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائرکر دی

    گذشتہ روز چیئرمین نیب جاوید اقبال کی زیر صدارت اجلاس میں جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق نیب کی مختلف ٹیمیں تشکیل دی گئیں تھیں، چیئرمین نیب جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کرنے اور تمام تر توانائیاں استعمال کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    یاد رہے 28 جنوری کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری  اور ان کی بہن فریال تالپور نے  سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر  کی تھی ۔

    جس میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے بینکنگ کورٹ میں حتمی چالان داخل کرنےمیں ناکام رہا،   قانون کی عدم موجودگی میں مختلف اداروں کی جےآئی ٹی نہیں بنائی جاسکتی، لہذا سپریم کورٹ 7جنوری کے فیصلے کو ری وزٹ اور نظر ثانی کرے اور حکم نامے پر حکم امتناع جاری کرے۔

    مزید پڑھیں :  جعلی اکاؤنٹس کیس ، آصف زرداری، فریال تالپور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا

    واضح رہے  7 جنوری کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں چیف جسٹس نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کامعاملہ نیب کو بھجواتے ہوئے مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو کا نام جے آئی ٹی رپورٹ اورای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

    خیال رہے جعلی بینک اکاؤنٹ کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ میں بلاول ہاؤس اور زرداری خاندان کے دیگر اخراجات سے متعلق انتہائی اہم اور ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے کہ زرداری خاندان اخراجات کے لیے جعلی اکاؤنٹس سے رقم حاصل کرتا رہا۔

    رپورٹ میں بتایاگیا جے آئی ٹی نے 924 افراد کے 11500 اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کی، جن کا کیس سے گہرا تعلق ہے، مقدمے میں گرفتار ملزم حسین لوائی نے 11 مرحومین کے نام پر جعلی اکاؤنٹ کھولے، اومنی گروپ کے اکاؤنٹس میں 22.72بلین کی ٹرانزکشنز ہوئیں، زرداری خاندان ان جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اخراجات کے لیے رقم حاصل کرتا رہا، فریال تالپور کے کراچی گھر پر3.58ملین روپے خرچ کیے گئے، زرداری ہاؤس نواب شاہ کے لیے 8لاکھ 90ہزار کا سیمنٹ منگوایا گیا۔

    جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ بلاول ہاؤس کے یوٹیلیٹی بلز پر1.58ملین روپے خرچ ہوئے، بلاول ہاؤس کے روزانہ کھانے پینے کی مد میں4.14ملین روپے خرچ ہوئے جبکہ زرداری گروپ نے148ملین روپے کی رقم جعلی اکاؤنٹس سے نکلوائی تھی، زرداری خاندان نے اومنی ایئر کرافٹ پر110سفر کیے، جس پر8.95 ملین روپے خرچ آیا، زرداری نے اپنے وکیل کو2.3ملین کی فیس جعلی اکاؤنٹ سے ادا کی۔

  • سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر سماعت 29 جنوری کو ہوگی

    سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر سماعت 29 جنوری کو ہوگی

    اسلام آباد:سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی اپیل سماعت کے لیے مقرر کرلی، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 29جنوری کو نظرثانی درخواست کی سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی سزاکالعدم کرنے کے خلاف اپیل سماعت کے لیے مقرر کردی اور تین رکنی خصوصی بنچ تشکیل دے دیا، سپریم کورٹ کےفیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل پرسماعت انتیس جنوری کو ہوگی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 29جنوری کو نظرثانی درخواست کی سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔

    یاد رہے نومبر 2018 میں سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے خلاف توہین مذہب کیس کے مدعی قاری عبدالسلام نے نظرثانی درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تفتیش کے دوران آسیہ بی بی نے جرم کا اعتراف کیا، اس کے باوجود ملزمہ کو بری کردیا گیا، سپریم کورٹ سے استدعا ہے آسیہ بی بی سے متعلق بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر

    واضح رہے 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کے خلاف آسیہ مسیح کی اپیل پر فیصلہ سناتے چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے آغاز کیا اور لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے آسیہ مسیح کوبری کردیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ برداشت اسلام کا بنیادی اصول ہے، مذہب کی آزادی اللہ پاک نے قران میں دے رکھی ہے، قرآن مجید میں اللہ نے اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے پست رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ نے اعلان کررکھا ہے کہ میرے نبی کا دشمن میرا دشمن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی لفظ براہ راست یا بلاواسطہ نہ بولا جاسکتا ہے اور نہ ہی لکھا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

    فیصلے کے مطابق 1923 میں راج پال نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی، غازی علم الدین شہد نے راج پال کوقتل کیا، مسلمان آج بھی غازی علم الدین شہید کو سچا عاشق رسول مانتے ہیں۔ 1996میں ایوب مسیح کو گرفتارکیا گیا ، مقدمہ سپریم کورٹ آیا تو پتہ چلا اس کے پلاٹ پر قبضے کے لیے پھنسایا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے کہا جب تک کوئی شخص گناہ گار ثابت نہ ہو بے گناہ تصور ہوتا ہے، ریاست کسی فرد کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتی، توہین مذہب کا جرم ثابت کرنا یا سزا دینا گروہ یا افراد کا نہیں ریاست کااختیارہے۔

  • شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی منظوری کے لئے نظر ثانی اپیل دائر

    شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی منظوری کے لئے نظر ثانی اپیل دائر

    لاہور : اپوزشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی منظوری کے لئے نظر ثانی اپیل دائر کر دی گئی، جس میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 24 اکتوبر کا شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کا حکم کالعدم قرار دے اور رہائی کا حکم دے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں اپوزشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی منظوری کے لئے نظر ثانی اپیل دائر کر دی، نظر ثانی اپیل اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ سنگل بنچ نے قانونی جواز کے بغیر شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کی، انکوائری مکمل اور جرم ثابت ہونے سے قبل نیب کا ملزم کو گرفتار کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

    درخواست گزار کا کہنا ہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل میں شہباز شریف کو انکوائری مکمل ہونے اور جرم ثابت ہونے سے قبل گرفتار کیا گیا، نیب کا دوران انکوائری کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے کا اختیار آئین سے متصادم ہے۔

    دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت 24 اکتوبر کا شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کرنے کا حکم کالعدم قرار دے اور فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ضمانت منظور کر کے رہائی کا حکم دے۔

    یاد رہے 24 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے شہباز شریف کی ضمانت کیلئے دائر درخواست مسترد کردی تھی۔

    واضح رہے نیب لاہور نے5 اکتوبر کو شہبازشریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا تاہم ان کی پیشی پر انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    اگلے روز شہبازشریف کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پرنیب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

    جس کے بعد 16 اکتوبر کو ریمانڈ ختم ہونے پر پیش کیا گیا تو احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں گرفتار مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 30 اکتوبرتک توسیع کردی تھی۔

    ریمانڈ ختم ہونے پر شہبازشریف کو 29 اکتوبر کو عدالت میں پیش کیا گیا تو (نیب) نے آشیانہ اسکینڈل کیس کے ملزم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مزید 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی ، جس پر عدالت نے ان کے ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع کردی تھی۔

  • سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل  دائر

    سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل  دائر کردی، اپیل میں  آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہوررجسٹری میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کردی، درخواست مدعی قاری محمد سلام نے دائر کی۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران آسیہ بی بی نے جرم کا اعتراف کیا، اس کے باوجود ملزمہ کو بری کردیا گیا، سپریم کورٹ سے استدعا ہے آسیہ بی بی سے متعلق بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

    نظرثانی اپیل میں آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی بھی درخواست کی گئی ۔

    یاد رہے 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں  توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کے خلاف آسیہ مسیح کی اپیل پر فیصلہ سناتے چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے آغاز کیا اور لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے آسیہ مسیح کوبری کردیا تھا۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ برداشت اسلام کا بنیادی اصول ہے، مذہب کی آزادی اللہ پاک نے قران میں دے رکھی ہے، قرآن مجید میں اللہ نے اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے پست رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ نے اعلان کررکھا ہے کہ میرے نبی کا دشمن میرا دشمن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی لفظ براہ راست یا بلاواسطہ نہ بولا جاسکتا ہے اور نہ ہی لکھا جاسکتا ہے۔

    فیصلے کے مطابق 1923 میں راج پال نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی، غازی علم الدین شہد نے راج پال کوقتل کیا، مسلمان آج بھی غازی علم الدین شہید کو سچا عاشق رسول مانتے ہیں۔ 1996میں ایوب مسیح کو گرفتارکیا گیا ، مقدمہ سپریم کورٹ آیا تو پتہ چلا اس کے پلاٹ پر قبضے کے لیے پھنسایا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے کہا جب تک کوئی شخص گناہ گار ثابت نہ ہو بے گناہ تصور ہوتا ہے، ریاست کسی فرد کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتی، توہین مذہب کا جرم ثابت کرنا یا سزا دینا گروہ یا افراد کا نہیں ریاست کااختیارہے۔

  • جہانگیرترین کی نظرثانی کی درخواست مسترد، نااہلی برقرار

    جہانگیرترین کی نظرثانی کی درخواست مسترد، نااہلی برقرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جہانگیرترین کی نظرثانی کی درخواست مسترد کردی اور نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا, چیف جسٹس نےکہاجودستاویزآپ سےپہلےمانگ رہےتھے، وہ بعدمیں ملی توکیانظرثانی کا جوازہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں جہانگیرترین نااہلی پر نظرثانی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا یہ دستاویزات پہلے کہاں تھے، ٹرسٹ ڈیڈ بھی آپ نے کیس کے آخری لمحے میں دی تھی۔

    وکیل جہانگیر ترین نے کہا دستاویزات ٹرسٹ کے تھے اور ٹرسٹی کے قبضےمیں تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کی آرائش آُپ نے کی، سب کچھ آپ نے کیا تھا، آپ کے پاس 20 منٹ ہیں، جہانگیرترین کے وکیل کا کہنا تھا کہ دستاویزات عدالت میں پیش کررہاہو۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے جعلی قسم کی کمپنیاں بنالی اورلوگوں کو جھانسہ دیا، ایچ ایس بی سی کس نے بنائی، وکیل جہانگیرترین نے جواب دیا 2011ایچ ایس بی سی انٹرنیشنل ٹرسٹی نے بنائی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا سارا کا سارا فراڈ ہے ، آپ پبلک آفس ہولڈر تھے، آپ نے پیسے باہربھیج دئیے، جہانگیر ترین کے وکیل نے بتایا کہ سارا کا سارا پیسہ صاف اور ظاہری بھیجا گیا، لیگل چینل سے پیسہ باہر بھیجنا کوئی جرم نہیں، میرے موکل نے ٹرسٹ سے متعلق دستاویزات دی ہیں۔

    چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل سے مکالمہ میں کہا ہم مقدمے کو ازسرنونہیں سن رہے، مہربانی کرکے ازسرنومقدمہ نہ لڑیں اجازت نہیں ملے گی، پیسے چھپوانے کی ڈیوائس بنالی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا باہر فلیٹ آپ نے بنائے، تعمیر خود کرائی،رہتے وہاں ہیں، آپ نے ظاہری شناخت چھپا کر تفصیلات ظاہرنہیں کیں، ہم جہانگیر ترین کی ٹرسٹ ڈیڈ کو درست تسلیم نہیں کررہے۔

    چیف جسٹس نے واضح کیا کہ یادرکھیں ہم مقدمہ ازسرنو نہیں سن رہے، نئے دستاویزات نظرثانی میں دائر نہیں کیے جاسکتے، اب آپ جھانسہ دے رہے ہیں، کمپنی جہانگیرترین نے بنائی، کیا لندن فلیٹس کی آف شور کمپنی فرشتے بنا کر چلے گئے، ہم نے دستاویزات دینے کے لیے کئی مواقع فراہم کیے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے آپ خود اپنے دلائل میں واضح نہیں ہیں، کمپنی کس نے بنائی،ایچ ایس بی سی نے آف شورکمپنی بنائی، کمپنی کیسے بنتی ہے، اس کا پہلے بھی پوچھا تھا، ایک آفس ہولڈر نے دھوکا دہی کرکے پیسہ باہربھجوایا۔

    جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ پہلے آپ نے کہا تھا آپ کونہیں پتا، جس پر وکیل جہانگیرترین نے کہا ابھی میرے ذہن میں نام آیا توجسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے زیادہ پرجوش نہ ہوں، ایک بڑی رقم کو پاکستان سے باہر لے جایا گیا، عام شخص کی حیثیت سےآف شورکمپنی کےاثرات مختلف تھے،عدالت
    ایک آفس ہولڈر کے لیے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہے۔

    سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کی نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    جہانگیرترین کےوکیل نے ٹرسٹ ڈیڈ عدالت میں پیش کردی ، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہم یہ دستاویزآپ سےپہلےمانگ رہے تھے، جس پر وکیل جہانگیرترین کا کہنا تھا کہ ہم یہ دستاویزپہلے فراہم نہیں کرسکے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا محاورہ ہے جوتھپڑ لڑائی کے بعد یاد آئے وہ کسے مارنا چاہیے، دستاویز آپ کو بعد میں ملی تو کیا نظر ثانی کا جوازہے؟

    مزید پڑھیں : جہانگیرترین کی نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر

    یاد رہے 15 دسمبر 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ کوئی عوامی عہدہ یا پھر اسمبلی رکنیت رکھنے کے مجاز نہیں رہے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ جہانگیرترین کو دو نکات پر نااہل کیا گیا ہے، انہوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے جھوٹ بولا۔

    بعد ازاں جہانگیرترین نے نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائرکردی، جہانگیر ترین نے بیان حلفی بھی جمع کرایا تھا، جس میں موقف اختیار کیا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں جان کراثاثے چھپانےکی کوشش نہیں کی۔ ٹرسٹ کے قیام کا مقصد بچوں کوبرطانیہ میں گھر کی فراہمی تھا۔