Tag: rich countries

  • امیر ممالک دنیا میں غریبوں کی مشکلات کے ذمہ دار ہیں، اقوام متحدہ

    امیر ممالک دنیا میں غریبوں کی مشکلات کے ذمہ دار ہیں، اقوام متحدہ

    دوحہ : اقوام متحدہ نے دنیا کے امیر ممالک کو دیگر غریب ملکوں کے باشندوں کی مشکلات سے بھری زندگی کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

    اس حوالے سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے غریب ممالک کی ترقی کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اونتونیو گوتریس نے دنیا میں غربت کی بڑی وجہ امیر ممالک کو ٹھہرایا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ دنیا میں 40 سے زائد ایسے ملک ہیں جو انتہائی غربت کا شکار ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ امیر ممالک غریب ملکوں پر دباؤ ڈال کر انہیں مختلف حربوں سے تنگ کررہے ہیں۔ امیر ممالک اور توانائی کی بڑی کمپنیوں کی جانب سے شرح سود میں اضافے کیلیے ترقی پذیر اور غریب ممالک پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، اُن کا یہ اقدام انتہائی قابل مذمت ہے۔

    انتونیو گوتریس کے مطابق یہ ایسا شیطانی چکر ہے جس میں غریب ملکوں کی معیشت پھنس چکی ہے اور جس کے باعث ان ممالک میں صحت اور تعلیم کو بہتر بنانے کی کوششوں میں رکاوٹ آتی ہے۔

    سیکریٹری جنرل یو این نے کہا کہ غریب ریاستیں غربت کے بدترین دور سے گزر رہی ہیں اُس کے باوجود بھی امیر ممالک کا رویہ درست نہیں ہورہا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امیر ممالک نے صرف اپنے فائدے کیلیے عالمی مالیاتی نظام ڈیزائن کیا۔

    انہوں نے زور دیا کہ امیر ممالک سالانہ 500 ارب ڈالر دوسرے ممالک کی مدد کیلیے فراہم کریں تاکہ وہ مشکلات سے باہر آسکیں اور اُن کی تعلیم، صحت اور معاشی نظام بہتر ہوسکے۔

    انہوں نے کہا کہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث تباہی کے شکار ممالک کے لیے کچھ نہیں کیا گیا اور انہیں جو امداد دی گئی وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ایندھن سے منسلک کمپنیاں بہت زیادہ منافع کما رہی ہیں جبکہ دنیا میں لاکھوں افراد دو وقت کے کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں۔

  • کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم ، عالمی ادارہ صحت کا بڑا انکشاف

    کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم ، عالمی ادارہ صحت کا بڑا انکشاف

    جنیوا : دنیا بھر میں کورونا ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے لیکن کچھ غریب ممالک میں ویکیسن نہ پہنچنے کے باعث لوگ ابھی تک ویکسی نیشن نہیں کراسکے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک دنیا بھر میں تقسیم ہونے والے ویکسین کی کل دو فیصد مقدار افریقا تک پہنچ سکی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کے امیر ممالک کورونا ویکسین افریقہ نہیں جانے دے رہے کیونکہ سرمایہ دار ممالک نے کورونا ویکسین کے افریقہ پہنچنے کا راستہ بند کیا ہوا ہے۔

    ینگ جرنسلٹ کلب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈھانوم نے کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم کو دنیا کے لئے کلنک کے ٹیکے سے تعبیر کیا ہے۔

    یاد رہے کہ دنیا بھر میں کورونا ویکسین کی غیر منصفانہ تقسیم پر عالمی ادارہ صحت اور دیگر عالمی ادارے بارہا اعتراض کرچکے ہیں لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

    عالمی ادارہ صحت کے اعلیٰ عہدے داروں نے سرمایہ دار ممالک منجملہ امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ویکسین کی تیسری ڈوز اپنے عوام کو دینے کے بجائے اُسے کوویکس پروگرام کے حوالے کر دے تاکہ ویکسین کو مالی لحاظ سے کمزور ممالک تک پہنچایا جا سکے۔

    اس سے قبل بھی عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی غیر منصفانہ تقسیم، اس کی ذخیرہ اندوزی، اس کی درآمدات و برآمدات میں محدودیت، منصفانہ تقسیم کے لئے مناسب انفرااسٹرکچر کے فقدان اور اس کے لئے ناکافی بجٹ کی عدم تخصیص کو حالیہ دور کے بڑے چیلنجوں میں شمار کیا تھا۔

  • کورونا ویکسین : عالمی ادارہ صحت کی امیر ممالک سے اہم اپیل

    کورونا ویکسین : عالمی ادارہ صحت کی امیر ممالک سے اہم اپیل

    عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ ایسے وقت میں جب کئی ممالک کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین موصول نہیں ہوئی، امیر ممالک کو اپنے شہریوں کو بوسٹر شاٹس یا تیسری خوراک نہیں دینی چاہیے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کو عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم نے کہا ہے کہ کورونا کی وبا سے ایک بار پھر اموات میں اضافہ ہوا ہے جبکہ کورونا وائرس کا نیا ڈیلٹا ویریئنٹ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک کو اب تک اپنے ہیلتھ ورکرز کو وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے کورونا ویکسین کی خوراک کی کافی مقدار موصول نہیں ہوئی۔

    ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کورونا وائرس کے نئے کیسز اور اموات میں اضافہ ہوا ہے۔
    انہوں نے بتایا کہ تیزی سے پھیلنے والا ڈیلٹا ویریئنٹ سب سے پہلے انڈیا میں سامنے آیا تھا اور اب یہ ایک سو چار سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بتایا کہ عالمی سطح پر ویکسین کی فراہمی بہت حد تک ناہموار اور غیر منصفانہ ہے۔

    انہوں نے ویکسین بنانے والی کمپنیوں فائزر اور موڈرنا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ امیر ممالک کو ویکسین کی تیسری یا بوسٹر خوراکیں فراہم کرنے کے بجائے کوویکس کو بھیجیں۔ کوویکس کے تحت درمیانی آمدنی والے اور غریب ممالک کو ویکسین فراہم کی جاتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی چیف سائنسدان سومیا سوامی ناتھن نے کہا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو ابھی تک ایسے ثبوت نہیں ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ ویکسین کا مکمل کورس کرنے والوں کو بوسٹر خوراکوں کی ضرورت ہو۔ اگرچہ ایک دن بوسٹر یا تیسری خوراک ضروری ہو سکتی ہے تاہم ایسا کوئی ثبوت نہیں کہ اس کی ابھی ضرورت ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسیز پروگرام کے سربراہ مائیک ریان کا کہنا ہے کہ اگر ممالک ویکسین کی قیمتی خوراکیں بوسٹر شاٹ کے طور پر ایسے وقت میں استعمال کریں جب لوگ اب بھی ویکسین لگائے بغیر مر رہے ہیں تو ہم غصے میں پیچھے مڑ کر دیکھیں گے اور ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنے پر شرمندہ ہونا ہو گا۔

  • کورونا وائرس : بل گیٹس نے امیر ممالک کو خوشخبری سنا دی

    کورونا وائرس : بل گیٹس نے امیر ممالک کو خوشخبری سنا دی

    نیو یارک : مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے کہا ہے کہ امیر ممالک میں زندگی 2021 کے آخر میں اس صورت میں معمول پر آجائے گی، اگر ایک کوویڈ 19 ویکسین مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ جلد تیار ہوکر بڑے پیمانے پر مناسب طریقے سے تقسیم ہوگئی۔

    وال اسٹریٹ جرنل سی ای او کونسل سے خطاب میں بل گیٹس نے کہا کہ اگلے سال کے آخر تک صورتحال لگ بھگ معمول پر آسکتی ہے اور یہ بہترین منظرنامہ ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم ابھی نہیں جانتے کہ کب تک یہ ویکسینز کامیاب ہوں گی جبکہ ان کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لیے بھی وقت درکار ہوگا اور امریکا اور دیگر ممالک میں ان کے کوٹے کو مختص کرنا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔‎

    مائیکرو سافٹ کے بانی نے کہا کہ ہم روس اور چین کے ساتھ بھی بات کررہے ہیں ان کی تیسرے مرحلے کے ٹرائل کی کسی بھی ویکیسینز کی نگرانی معتبر ریگولیٹرز نہیں کررہے۔

    انہوں نے کہا کہ سائنسی نقطہ نظر سے روسی اور چینی ویکسینز مستند پراجیکٹس ہیں مگر قابل احترام تیسرے مرحلے کی تحقیق کے بغیر ان کی کشش روس اور چین سے باہر محدود ہوگی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مغربی کمپنیاں تیسرے مرحلے کی تحقیق میں زیادہ آگے ہیں اور اگر ان کے نتائج اچھے آتے ہیں اور کم قیمت میں انہیں پیش کیا جاتا ہے، تو مجھے نہیں لگا کہ روسی یا چینی ویکسینز ان ممالک سے باہر زیادہ فروخت ہوسکیں گی۔

    جب ان سے پوچھا گیا کہ کون سے ممالک نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران صحت اور معیشت کی ضروریات کے توازن میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کیونکہ اس وبا کے دوران آغاز میں تھوڑی ذہانت سے بہت بڑا فرق پیدا کرنے میں مدد ملی۔

    واضح رہے کہ مغربی ممالک میں اس وقت فیزر، بائیو این ٹیک اور آسترا زینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسینز ریگولیٹری منظوری کی دوڑ میں سرفہرست ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے بھی 6 اکتوبر کو توقع ظاہر کی تھی کہ کوویڈ 19 کی روک تھام کے لیے ایک ویکسین رواں سال کے آخر تک تیار ہوسکتی ہے۔

    بل گیٹس کے ادارے بل اینڈ ملینڈا گیٹس نے گزشتہ ماہ 16 فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے ایاک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
    بل گیٹس کے مطبق یہ معاہدہ بے نظیر رفتار سے ویکسین کی تیاری کے عمل کو تیز کرنے کے عزم کا حصہ ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ منظور شدہ ویکسینز جس حد تک جلد ممکن ہو، بڑے پیمانے پر تقسیم ہوسکے۔