Tag: risk

  • بڑھتی عمر میں فریکچر سے کیسے بچا جائے؟

    بڑھتی عمر میں فریکچر سے کیسے بچا جائے؟

    عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم ڈھلتا جاتا ہے اور ہمارے اعضا بوسیدگی کی جانب بڑھنے لگتے ہیں، ایسے میں ہمیں کئی مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن میں سے ایک ہڈیوں کی کمزوری بھی شامل ہے۔

    چند غذائی عادات کو تبدیل کر کے خواتین بڑھاپے میں ہڈیوں کے انحطاط خصوصاً ہپ یعنی کولہے کے فریکچر سے خود کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پروٹین کی مقدار میں اضافہ اور باقاعدگی سے چائے یا کافی پینا خواتین کے کولہے کے فریکچر کے خطرے کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔

    فوڈ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے پروٹین میں روزانہ 25 گرام اضافہ اوسطاً ان کے کولہے کے فریکچر کے خطرے میں 14 فیصد کمی کے ساتھ منسلک تھا۔

    حیرت انگیز طور پر انہوں نے اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا کہ چائے یا کافی کا ہر اضافی کپ جو انہوں نے پیا تھا اس کا تعلق خطرے میں 4 فیصد کمی سے تھا۔

    ماہرین نے جرنل کلینیکل نیوٹریشن لکھا کہ ایسی خواتین جن کا وزن کم تھا، یہ حفاظتی فوائد ان خواتین کے لیے زیادہ تھے، یعنی ہر روز پروٹین میں صرف 25 گرام اضافہ ان کے خطرے کو 45 فیصد تک کم کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پروٹین کے لیے گوشت، دودھ، انڈے، پھلیاں، گری دار میوے یا مچھلی وغیرہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

    اس تحقیق میں 26 ہزار سے زیادہ درمیانی عمر کی خواتین کا مشاہداتی تجزیہ کیا گیا۔

  • گھنگھریالے بالوں کو سیدھا کرنے والی خواتین ہوشیار!

    گھنگھریالے بالوں کو سیدھا کرنے والی خواتین ہوشیار!

    گھنگھریالے بالوں کو سیدھا کرنے کے لیے اکثر خواتین کیمیکلز اور مشینوں کا استعمال کرتی ہیں، تاہم اب ایسی خواتین کے لیے شدید خطرہ سامنے آیا ہے۔

    امریکا میں رحم کا کمیاب اور شدید کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس میں بالوں کو سیدھا کرنے والےکیمیائی اجزا کا اہم کردار سامنے آیا ہے۔

    اس حوالے سے امریکی قومی انسٹی ٹیوٹ برائے ماحولیاتی صحت کے ماہرین نے مسلسل گیارہ برس تک 33 ہزار 947 خواتین کا جائزہ لیا اور اختتام پر کل 378 خواتین کو بچہ دانی کا سرطان لاحق ہوچکا تھا۔

    ان خواتین کو کل 12 ماہ میں رحم کا سرطان لاحق ہوا، معلوم ہوا کہ جن خواتین نے 12 ماہ میں بال سیدھا کرنے کے لیے چار مرتبہ سے زائد کیمیکل استعمال کیا تو ان میں سرطان کا خطرہ کل 155 فیصد تک بڑھ گیا۔

    جن خواتین نے ایسے کیمیکل سے اجتناب کیا ان میں بچہ دانی کا سرطان نہیں دیکھا گیا۔

    اس طرح 70 سالہ ایسی خواتین جنہوں نے بال سیدھا کرنے کے لیے (ہیئر اسٹریٹنر) استعمال نہیں کیا ان میں رحم کے سرطان کا خطرہ 1.64 فیصد اور بار بار کیمیکل لگانے والی خواتین میں اس کی شرح 4 فیصد نوٹ کی گئی۔

    تاہم حیرت انگیز طور پر بالوں پر لگانے والے رنگوں سے سرطان لاحق نہیں ہوتا جو سروے سے بھی معلوم ہوا ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ بال سیدھا کرنے والے کیمیائی اجزا میں ایسے اجزا ہیں جو اینڈو کرائن نظام کو متاثر کرتے ہیں اور مختلف اعضا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

    پھر ایسٹروجن اور پروجیسٹیرون جیسے ہارمون سے بھی رحم کے سرطان کے شواہد ملے ہیں، وجہ یہ ہے کہ بال سیدھا کرنے والے کیمیائی اجزا میں ایسے اجزا ہوتے ہیں جو عین انہی ہارمون کے طور پر کام کرتے ہیں کیونکہ انہیں تادیر بالوں کو سیدھا رکھنا ہوتا ہے۔

    ماہرین نے ایک خوفناک بات بھی دریافت کی کہ 18 مصنوعات میں ایسے اجزا ملے جو اینڈو کرائن نظام پر منفی اثر ڈالتے ہیں، جبکہ 84 فیصد اجزا پیکنگ پر لکھے ہی نہیں گئے تھے اور 11 مصنوعات میں وہ اجزا تھے جن پر یورپی یونین کاسمیٹکس ڈائریکٹوریٹ پابندی عائد کرچکی ہے۔

    اس سے قبل 2019 میں بال رنگنے والے کیمیکل اور بریسٹ کینسر کے درمیان تعلق بھی سامنے آچکا ہے۔

  • ہاف فرائی انڈے کھانے والے ہوشیار

    ہاف فرائی انڈے کھانے والے ہوشیار

    صبح کی پہلی غذا کے لیے عموماً انڈا بہترین سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر آپ انڈے کو فرائی کر کے کھانے کے عادی ہیں تو پھر آپ کو اس کے خطرے سے آگاہ ہونا چاہیئے۔

    انڈا ایک مکمل غذا ہے اور دنیا کی بڑی آبادی کی صبح کی پہلی غذا بھی یہی ہے۔ اسے مختلف طرح سے پکایا جاتا ہے لیکن لوگوں کی بڑی تعداد اکثر فرائی کیا ہوا انڈا کچی زردی کے ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچی زردی اگرچہ مزیدار ہوتی ہے لیکن اس میں سب سے بڑا خطرہ سالمونیلا کا ہے۔

    سالمونیلا ایک بیکٹیریا ہے جو آلودہ پانی اور غذا میں پایا جاتا ہے جو کئی طرح کی بیماریوں جیسے اسہال، بخار، سردی لگنا اوربعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ شدید علامات کے طور پر سامنے آتا ہے۔

    سالمونیلا کچے یا کم پکے ہوئے کھانوں میں پکے ہوئے اجزا کے مقابلے میں زیادہ عام ہے۔ جانوروں سے حاصل شدہ کوئی بھی غذا جیسے انڈے، مرغی، گائے کا گوشت اور مچھلی کے سالمونیلا سے آلودہ ہونے کا قوی امکان ہے۔

    ماہر غذائیات کا کہنا ہے کہ ان میں سے کسی بھی غذا کو کھانا محفوظ نہیں ہے اگر وہ کچی یا کم پکی ہوئی ہوں۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب انڈے کو فرائی کریں تو اسے کم از کم 2 سے 3 منٹ تک پکائیں، جب آپ فرائی پین کو ہلائیں تو انڈے کی سفیدی کو ہلنا نہیں چاہیئے، اور جیلی جیسی سفیدی باقی نہیں رہنی چاہیئے۔ زردی کو بالکل بھی کچا نہیں رہنا چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق ٹوٹے ہوئے خول والے انڈوں کو ضائع کرنا ضروری ہے، اگر آپ اپنے انڈے کسی فارم سے حاصل کرتے ہیں، تو انڈے پکانے سے پہلے انہیں اچھی طرح دھولیں، آخر میں، بیکٹیریا کے ممکنہ پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کچے انڈوں کو محفوظ کرنے سے پہلے اور بعد میں اپنے ہاتھ دھو لیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کچی یا کم پکی ہوئی زردی عموماً صحت مند بالغ افراد کے لیے محفوظ ہوتی ہے، تاہم حاملہ خواتین، 5 سال سے کم عمر بچے، اور وہ لوگ جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو انہیں کچی زردی کھانے سے گریز کرنا چاہیئے۔

  • بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچانے والی حیران کن وجہ

    بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی سے بچانے والی حیران کن وجہ

    یادداشت کا مرض ڈیمنشیا بڑی عمر میں ہونے والا ایک عام مرض ہے، تاہم حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچاؤ کی ایک حیران کن وجہ دریافت کی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ایک بہتر معاشرتی زنگی ڈیمنشیا کی ابتدائی علامات رکھنے والوں میں یادداشت کے مسائل کو ختم کردیتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ لوگ جو دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، کلاسز لیتے ہیں، مذہبی معاملات میں رضا کار بنتے ہیں یا شرکت کرتے ہیں ان کے دماغ واپس نارمل انداز میں کام کرنے لگ جاتے ہیں۔

    ایسا ان لوگوں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جن میں یہ خرابی سالوں پہلے شروع ہوئی ہو، یہ ان لوگوں کے لیے اچھی خبر ہے جن کی یادداشت اور سوچنے کی صلاحیت میں لاک ڈاؤن کے دوران مسائل واقع ہوئے تھے۔

    ماہرین نے 22 سو کے قریب 62 سے 90 سال کے درمیان امریکیوں کے دماغ کی فعالی، طرزِ زندگی اور معاشرتی زندگی کا تجزیہ کیا، ان میں 972 لوگ وہ تھے جن میں جزوی کاگنیٹو مسائل تھے، جو عموماً ڈیمینشیا کی ایک علامت ہوتی ہے۔

    پانچ سال بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ 22 فیصد شرکا جن میں جزوی کاگنیٹو مسائل تھے، وہ اس حد تک بہتر ہوگئے کہ ان کا دماغ نارمل انداز میں کام کرنے لگا، 12 فیصد افراد میں ڈیمینشیا میں بتدریج کمی ہوئی اور 66 فیصد میں معاملات ویسے ہی رہے۔

    وہ لوگ جن کی معاشرتی سرگرمیاں زیادہ تھیں ان لوگوں میں بہتری کے امکانات زیادہ تھے۔

    امریکا کی یونیورسٹی آف یوٹاہ کی سربراہ پروفیسر منگ وین کا کہنا تھا کہ وہ سامنے آنے والی ان معلومات سے خوشگوار حیرانی میں مبتلا ہیں۔

  • کرونا وائرس: کم وزن والے افراد کے لیے خوشخبری

    کرونا وائرس: کم وزن والے افراد کے لیے خوشخبری

    واشنگٹن: جسمانی وزن میں اضافہ کووڈ 19 کے لیے سازگار عنصر قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ زیادہ وزن کرونا وائرس کی سنگینیوں میں اضافہ کرسکتا ہے جبکہ کم وزن والے افراد میں یہ خطرہ کم ہے، اب اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے پر بیماری کی سنگین پیچیدگیوں اور موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، مگر وزن میں کمی لاکر اس خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    کلیو لینڈ کلینک کی ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ جسمانی وزن میں نمایاں کمی لانا کووڈ 19 سے لڑنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق میں 20 ہزار سے زیادہ افراد کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جائزہ لینا تھا کہ موٹاپے کے شکار افراد اگر کووڈ سے متاثر ہونے سے قبل جسمانی وزن میں کمی لاتے ہیں تو بیماری کی پیچیدگیوں کا خطرہ کس حد تک کم ہوتا ہے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری سے قبل سرجری کے ذریعے جسمانی وزن میں کمی لانے والے افراد میں کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوگیا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد اگر اپنے جسمانی وزن کو کووڈ سے بیمار ہونے سے قبل کم کرلیتے ہیں تو سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے ٹھوس شواہد فراہم ہوتے ہیں کہ موٹاپا کووڈ 19 کی سنگین پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھانے والا اہم عنصر ہے مگر اس میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

    تحقیق میں شامل 20 ہزار سے زیادہ افراد میں سے 5 ہزار نے اپنا جسمانی وزن سرجری کے ذریعے 2004 سے 2017 کے دوران کم کیا تھا اور ان کا موازنہ باقی 15 ہزار افراد پر مشتمل کنٹرول گروپ سے کیا گیا۔

    کووڈ 19 کی وبا پھیلنے کے بعد ان افراد میں کووڈ کے کیسز کی شرح، اسپتال میں داخلے، آکسیجن کی ضرورت اور سنگین پیچیدگیوں کو دیکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی شرح دونوں گروپس میں ملتی جلتی تھی مگر جسمانی وزن کم کروانے والی سرجری کے عمل سے گزرنے والے افراد میں بیماری کے بعد کے نتائج دوسرے گروپ سے بہتر تھے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ وزن کم کرنے والے مریضوں میں اسپتال میں داخلے کا خطرہ 49 فیصد، آکسیجن کی ضرورت کا امکان 63 فیصد اور بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوگیا۔

    انہوں نے بتایا کہ نتائج چونکا دینے والے ہیں اور اس بات کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ جسمانی وزن میں کمی لانا کووڈ کے مریضوں کو جان لیوا پیچیدگیوں سے بچا سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران جسمانی وزن میں کمی کو عوامی صحت کی حکمت عملی بنا کر بہتری لاسکتے ہیں۔

  • کیا چکنائی نقصان کے بجائے فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

    کیا چکنائی نقصان کے بجائے فائدہ پہنچا سکتی ہے؟

    اب تک کہا جاتا رہا تھا کہ چکنائی یا چربی صحت کے لیے مضر ہوسکتی ہے تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں اس حوالے سے مختلف نتائج سامنے آئے ہیں۔

    امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے سائنٹیفک سیشنز 2021 میں پیش کیے گئے ایک تحقیق کے نتائج میں کہا گیا کہ نباتاتی ذرائع سے حاصل کی گئی چکنائی جیسے زیتون، کینولا، سورج مکھی کا تیل، گریاں اور بیج فالج جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں سرخ گوشت یا حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی سے فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مختلف غذائی ذرائع سے حاصل چکنائی کی اقسام دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول فالج کی روک تھام کے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چکنائی کی 2 بنیادی اقسام ہے ایک حیوانی ذرائع اور دوسری پودوں سے حاصل ہونے والی چکنائی، دونوں کے درمیان مالیکیولر لیول کا فرق بڑا فرق پیدا کرتا ہے، حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی میں ان کاربن ایٹمز کے درمیان تعلق کی کمی ہوتی ہے جو فیٹی ایسڈز کو جوڑتے ہیں۔

    اس تحقیق میں ایک لاکھ 17 ہزار سے زیادہ افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    یہ تمام افراد تحقیق کے آغاز پر امراض قلب سے محفوظ تھے، ان افراد سے ہر 4 سال بعد غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھروائے گئے۔

    نتائج میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ حیوانی ذرائع سے حاصل چکنائی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں 16 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح جو لوگ ویجیٹیبل چکنائی کازیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں فالج کا خطرہ 12 فیصد تک کم ہوجاتا ہے، دودھ سے بنی مصنوعات جیسے پنیر، مکھن، دودھ، آئسکریم اور کریم فالج کا خطرہ بڑھانے سے منسلک نہیں۔

    سرخ گوشت زیادہ کھانے والے افراد میں فالج کا خطرہ 8 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جبکہ جو لوگ پراسیس سرخ گوشت کھاتے ہیں ان میں یہ خطرہ 12 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض بشمول فالج اور موٹاپا سرخ گوشت زیادہ کھانے سے جڑے ہوتے ہیں، جس کی وجہ اس میں چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہے، جو کولیسٹرول کی سطح بڑھانے اور شریانوں کے بلاک ہونے کا خطرہ بڑھاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نباتاتی ذرائع سے حاصل چکنائی دل کی صحت کے لیے بہترین ہے، کیونکہ اس میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں جو جسم خود نہیں بناسکتا، یہ چکنائی ورم اور کولیسٹرول کو کم کرتی ہے۔

  • کیا ہماری زمین سے مینڈک ختم ہوجائیں گے؟

    کیا ہماری زمین سے مینڈک ختم ہوجائیں گے؟

    کینبرا: آسٹریلوی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے ہماری زمین سے مینڈک کی نسل کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آسٹریلوی ماہرین نے مختلف بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلوں کے باعث مینڈک کی مختلف نسل کے معدوم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے آسٹریلوی حکام کو اس بات سے خبردار کیا ہے کہ مینڈکوں کی 26 اقسام سنہ 2040 تک دنیا سے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی، 4 اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    مصنف ڈاکٹر گریم گلیسپی کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے شمالی علاقوں کے محکمہ ماحولیات نے سالوں کے مطالعے کے بعد مینڈک کی ختم ہو جانے والی اقسام کی نشاندہی کی ہے۔

    ڈاکٹر گلیسپی نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ مینڈک جلد ہی آسٹریلیا کے رینگنے والے جانوروں، ممالیہ جانوروں، پرندوں اور پودوں کی کئی اقسام کی طرح معدوم ہو سکتے ہیں جس سے فوڈ سائیکل متاثر ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر گلیسپی کے مطابق مینڈکوں میں جلد کی بیماری کے ساتھ ایک اور بیماری بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے مینڈک کی 4 اقسام معدوم ہوچکی ہیں۔

    ان نئی اقسام کی بیماریوں کے ساتھ تیزی سے بدلتی موسمیاتی تبدیلیاں بھی خطرے کا سبب بن رہی ہیں، جنہیں محفوظ کرنے کے لیے جلد سے جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

  • کرونا وائرس: ماہرین نے فضائی آلودگی سے خبردار کردیا

    کرونا وائرس: ماہرین نے فضائی آلودگی سے خبردار کردیا

    فضائی آلودگی یوں تو بے شمار بیماریوں کا باعث بن سکتی ہے لیکن حال ہی میں ایک تحقیق میں علم ہوا کہ یہ کووڈ 19 کا خطرہ بھی بڑھا دیتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ فضائی آلودگی متعدد طبی مسائل کا باعث بن سکتی ہے اور اب انکشاف ہوا ہے کہ اس کے نتیجے میں کووڈ 19 کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

    کیلی فورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک کے استعمال سے کووڈ کا خطرہ 15 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ ناقص ہوا کا زیادہ وقت تک سامنا ہونا ہر نئی لہر میں کووڈ 19 کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق اگرچہ احتیاطی تدابیر بیماری سے بچنے کے لیے مؤثر ہیں، مگر طویل وقت تک فضا میں موجود آلودہ ذرات کے جسم میں داخلے کی صورت میں کوئی مثبت اثر سامنے نہیں آسکا۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ فضائی معیار کو بہتر بنانے اور احتیاطی تدابیر پالیسی سازوں کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیئے، امریکا کے جن حصوں میں فضائی معیار ناقص تھا وہاں کووڈ سے زیادہ اموات ہوئیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی خطرات کا بوجھ امریکا اور عالمی سطح پر مساوی نہیں اور تحقیق میں فضائی آلودگی کے ہر عمر کے افراد کی صحت کو لاحق سنگین خطرات کے خدشات کو سامنے لایا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فضا میں موجود فائن ذرات یعنی ایسے آلودہ ذرات جن کا حجم 2.5 مائیکرو میٹر سے چھوٹا ہے، دل اور پھیپھڑوں کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایک ذرہ انسانی بال سے 30 گنا چھوٹا ہوتا ہے جبکہ زیادہ آلودہ مقامات پر رہنے والے عموماً زیادہ غریب ہوتے ہیں، آبادی گنجان ہوتی ہے اور کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر میں رہنے اور فیس ماسک جیسے اقدامات سے خطرے کو نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

  • سینی ٹائزر کا مستقل استعمال کیا خطرات کھڑے کر سکتا ہے؟ برطانوی ماہرین نے وارننگ دے دی

    سینی ٹائزر کا مستقل استعمال کیا خطرات کھڑے کر سکتا ہے؟ برطانوی ماہرین نے وارننگ دے دی

    کرونا وائرس کی وبا نے الکوحل ملے صفائی کے محلول جیسے سینی ٹائزر اور کلیننگ جیل کو ہماری زندگی کا لازمی حصہ بنا دیا ہے، تاہم حال ہی میں ماہرین نے اس کے خطرناک مضمرات سے آگاہ کردیا۔

    برٹش انسٹی ٹیوٹ آف کلیننگ سائنس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اینڈریو کیمپ کا کہنا ہے کہ سینی ٹائزر کا حد سے زیادہ استعمال جراثیم اور وائرسز میں اس کے خلاف مزاحمت پیدا کردے گا جس کے بعد وہ اتنے طاقتور ہوجائیں گے کہ سینی ٹائزر ان پر بے اثر ہوجائے گا۔

    ڈاکٹر کیمپ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاتھوں پر موجود دیگر جراثیم رفتہ رفتہ سینی ٹائزر سے مطابقت پیدا کرلیں گے اور یوں وہ ان پر بے اثر ہوجائے گا۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو جراثیموں اور وائرسز کا حملہ ناقابل تسخیر ہوگا اور ہم طبی طور پر جنگی صورتحال کا شکار ہوجائیں گے۔

    ڈاکٹر کیمپ کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ سینی ٹائزر کا استعمال ہماری زندگیوں کا معمول بن گیا ہے، ہر جگہ پر سینی ٹائزر موجود ہیں جو ہم بے تحاشہ استعمال کر رہے ہیں۔

    ان کے مطابق سینی ٹائزر اور الکوحل جیل کے استعمال کے بجائے ہمیں ہاتھ دھونے کو ترجیح دینی چاہیئے۔ صابن اور پانی جراثیم اور وائرسز کو دھو ڈالتے ہیں اور یہ ہمارے لیے نقصان دہ بھی نہیں بنتے۔

    علاوہ ازیں سینی ٹائزر اور کلیننگ جیل وہیں استعمال کرنے چاہئیں جہاں صاف پانی اور صابن کی فراہمی نہ ہو۔

    ڈاکٹر کیمپ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی صفائی کا محلول ہمارے ہاتھوں سے 99.9 فیصد تک جراثیم کے خاتمے کا دعویٰ کرتا ہے تب بھی بقیہ 0.1 فیصد جراثیم کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے، اور جو جرثومے اور وائرس الکوحل سے بھی زندہ بچ جائیں تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر کیمپ اپنی یہ تحقیق اکتوبر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں بھی پیش کرنے جارہے ہیں۔

  • فربہ افراد کرونا وائرس کے لیے سب سے آسان ہدف کیوں ہیں؟

    فربہ افراد کرونا وائرس کے لیے سب سے آسان ہدف کیوں ہیں؟

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور ایسے میں کمزور قوت مدافعت رکھنے والے، بزرگ اور دیگر بیماریوں کا شکار افراد اس کا آسان ہدف ہوسکتے ہیں۔

    کرونا وائرس کے آغاز سے ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ فربہ افراد کو کوویڈ 19 کا شکار ہونے کا زیادہ خطرہ ہے، اب حال ہی میں ماہرین نے اس کی ممکنہ وجوہات سے آگاہ کیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق موٹاپے کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضا جیسے دل کے ارد گرد چربی جمع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دل کو خون پمپ کرنے میں دباؤ کا سامنا ہوتا ہے، اس کی وجہ سے بلڈ پریشر کی شکایت ہوسکتی ہے۔

    اسی وجہ سے موٹاپا جسم کو دیگر بیماریوں جیسے ذیابیطس، امراض قلب، جگر اور گردوں کے مسائل کا تحفہ دے سکتا ہے۔ یہ تمام بیماریاں کرونا سمیت ہر طرح کے وائرسز کو جسم میں دعوت دے سکتی ہیں۔

    موٹاپے کی وجہ سے سانس لینے میں بھی دشواری پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ جسم کی نالیوں میں موجود چکنائی کی وجہ سے آکسیجن کی آمد و رفت مشکل ہوتی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سوزن جیب کے مطابق موٹاپے کی وجہ سے دراصل تمام اعضا کو اپنے افعال ادا کرنے کے لیے دگنی محنت کرنی پڑتی ہے، وہ اعضا جو پہلے ہی دگنا کام کر رہے ہوں وہ جسم میں داخل ہونے والے کسی نئے وائرس سے مزاحمت کس طرح کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپے اور کرونا وائرس میں تعلق کی ایک اور وجہ جسم میں فیٹی ٹشوز کا ہونا بھی ہے جو موٹاپے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، ان ٹشوز میں ایک خاص قسم کے انزائم پیدا ہوتے ہیں۔ کرونا وائرس ان انزائم کو جسم میں داخل ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    لندن کے کنگز کالج کے ماہر فرانسسکو روبینو کہتے ہیں کہ موٹاپے اور کرونا وائرس کے تعلق کو دو پینڈیمکس کا ٹکراؤ کہا جاسکتا ہے۔

    روبینو کا کہنا ہے کہ کوویڈ 19 نے ہمیں احساس دلایا ہے کہ موٹاپے کا تدارک کرنے کی جتنی ضرورت اب ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اب وقت ہے کہ صحت مند طرز زندگی اپنایا جائے، فعال اور متحرک زندگی گزاری جائے اور موٹاپے سے چھٹکارہ پایا جائے۔