Tag: Rizwan Gondal

  • ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاؤس کی ایما پر ہوا، رپورٹ

    ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاؤس کی ایما پر ہوا، رپورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل تبادلے سے متعلق رپورٹ جمع کرادی، جس کے مطابق ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاؤس کی ایما پر ہوا،آئی جی پنجاب کلیم امام کا تبادلے میں کردار صرف ربراسٹمپ کا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ڈی پی اوپاکپتن تبادلہ ازخود نوٹس کی سماعت ہورہی ہے، خاورمانیکا ، احسن جمیل گجر اور رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت میں نیکٹا کےسربراہ خالق داد لک نے تحقیقاتی رپورٹ جمع کر ادی ، انکوائری رپورٹ کے مطابق ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاوس کی ایماپرہوا، آئی جی پنجاب کلیم امام کاتبادلے میں کردار صرف ربرسٹمپ کا تھا، آئی جی نے ڈی پی او کے خلاف محکمانہ کارروائی کی سفارش کی۔

    ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ وزیراعلی ہاؤس کی ایما پر ہوا. رپورٹ

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او پربروقت اقدامات نہ کرنے کاالزام عائد کیا گیا، آئی جی پنجاب کی سفارش سمجھ سے بالاتر ہے، ڈی پی او نے واقعےکے اگلے ہی دن مانیکا فیملی کو چائے پربلایا۔

    انکوائری رپورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب کلیم امام نےشاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کی، رضوان گوندل کیخلاف انکوائری شاید انہیں سبق سکھانےکیلئےکی گئی، وزیراعلی ہاؤس ملاقات میں معاملہ آر پی او کے سپرد کیا گیا، آر پی او ساہیوال کوبھی ڈی پی او کے تبادلے پر حیرت ہوئی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ آر پی او نے انکوائری مکمل ہونے تک تبادلہ نہ کرنے کا کہا، ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ یک قلم جنبش کیا گیا، آئی جی کوانکوائری اورتبادلے کے احکامات ایک ساتھ دینے چاہیے تھے۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ آئی جی نےانکوائری خود شروع کرائی تو پورٹ آنے کا انتظار کرنا چاہیےتھا، انکوائری رپورٹ سےقبل ڈی پی او کا تبادلہ شکوک وشہبات پیدا کرتا ہے، ٹیلی فونک ریکارڈ سےواضح ہے ڈی پی او پاکپتن کا بیان درست ہے۔

    رپورٹ کے مطابق وزیرا علیٰ کےپی ایس او کے آئی جی کو ٹیلی فون ثابت ہوتاہے، آئی جی کےڈی آئی جی ہیڈ کواٹر کو فون ثاب ہوتاہے، پی ایس او کا ڈی پی او پاکپتن کو بھی ٹیلی فون ثابت ہوتاہے ، وزیرا علی ٰنے28 تاریخ کوغیر مناسب وقت پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا۔

    انکوائری افسر کی رپورٹ پر وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی کلیم امام سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا دونوں کو 3دن میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا وزیر اعلی نے اپنے پاس ایک اجنبی کو بٹھایا،کیا وزیراعلیٰ کایہ اقدام صحیح ہے ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا یہ ایک خاندان کی عزت و توقیر کامعاملہ تھا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ اس سے قبل احسن جمیل تکبرانہ انداز میں عدالت پیش ہوا، اب سر جھکائےمعافی کا طلبگار ہے ، پہلے تو اپنے آپ کو کسی بڑے عہدے پر تصور کر رہا تھا۔

    چیف جسٹس نے ہدایت کی 62ون ایف کوتعویذکی طرح بازوپرباندھ لیں، آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کو بار بار پڑھیں ، کیا اس پر انسداد دہشت گردی کی دفعات لگیں گی، ہمیں سختی پرمجبورنہ کریں۔

    چیف جسٹس نے مانیکا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جی خاور مانیکا صاحب آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، جس پر خاور مانیکا کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں کئی چیزیں سیاق وسباق سےہٹ کرپیش کی گئیں، کیا میں سابقہ بیوی سےبات کرتا کہ وہ وزیراعظم سے معاملے پر بات کریں۔

    رپورٹ میں کئی چیزیں سیاق وسباق سےہٹ کرپیش کی گئیں، خاور مانیکا

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے آپ کو جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے مجبور نہ کریں کہ آپ کے ساتھ سختی سے پیش آؤں، آپ کو رپورٹ پر تحفظات ہیں تو تحریری جواب جمع کرادیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات کے بعد رضوان گوندل کا تبادلہ ہوا، ایسے حالات میں عدالت کیا نتیجہ اخذ کرے، جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا وزیراعلیٰ کےپولیس کےکام میں مداخلت کےشواہدنہیں۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا وزیراعلیٰ صوبےکاسربراہ ہے، اعتراض ہےڈی پی اواورآرپی اوکےساتھ اجنبی شخص نےگفتگوکی، وزیراعلیٰ کےاقدام پراعتراض نہیں، اجنبی شخص نےوزیراعلیٰ کے سامنے ایسی گفتگو کی۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا آج بڑےاحترام سےاحسن جمیل کھڑےہیں، اس دن ان کارعب اور دبدبہ کچھ اورتھا، آج احسن جمیل معافی مانگ رہےہیں، کس بات کی معافی دیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ رپورٹ کےمطابق ڈی پی اوکاتبادلہ غیرمعمولی وقت پرہوا، جس پر انکوائری افسر نے بتایا کہ وزیراعلیٰ کے عملے نے ڈی پی او کٹرانسفر کے متعلق بتایا، تبادلے کے بعد چارج چھوڑنے سے متعلق وزیراعلیٰ ہاؤس سے فون آیا۔

    خالق دادلک نے بتایا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس سے رات11بجےکال کی گئی، وزیراعلیٰ کے پی ایس او نے دیگرافسران سے بھی رابطےکیے، شواہد رضوان گوندل کے مؤقف کو درست قرار دے رہے ہیں، آر پی اوساہیوال نے انکوائری تک تبادلہ نہ کرنے کا کہا، تبادلوں کے کئی احکامات کی منظوری بعد میں دی جاتی ہے۔

    یاد رہے کہ ڈی پی او پاکپتن تبادلے سے متعلق اس وقت کے آئی جی پنجاب کلیم امام نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا، سپریم کورٹ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سینئر پولیس افسر خالق داد لک کو انکوائری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

    خیال رہے سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے سے متعلق کیس سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے اٹارنی جنرل ،سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ، سربراہ نیکٹا اور دیگر کو نوٹسز جاری کئے تھے۔

    سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر سیاسی اثرورسوخ سے متعلق رپورٹ طلب کر رکھی تھی اور کہا تھا کہ سربراہ نیکٹا، وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے اثرورسوخ پر عدالت میں رپورٹ جمع کرائیں گے۔

  • سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    سابق ڈی پی او پاکپتن تبدیلی کیس: خاورمانیکا اورجمیل گجر پیر کو طلب

    اسلام آباد :  سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت میں  چیف جسٹس نے خاور مانیکا اور جمیل گجر کو پیرکو طلب کرلیا اور کہا حاضرنہ ہوئے تو پھر اگلا لائحہ عمل دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی ، آرپی اوساہیوال اور رضوان گوندل عدالت میں پیش ہوئے ۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تواس کے نتائج بھتگنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ آپ بھی گریڈ 21 کے افسراور22 پرکا م کررہے ہیں، کیوں نہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کوبلا کرآپ کو بھی تبدیل کردیا جائے۔

    انہوں نے استفسار کیا کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیا، کیا صبح نہیں ہوتی؟ کیا اگلے دن کا سورج نہیں چڑھنا تھا؟۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اے ڈی خواجہ معاملے میں بھی ہم نے پولیس کوبا اختیار کیا، آپ خود سیاسی اثرکے نیچے جا رہے ہیں۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت میں کہا کہ میں نے واقعے کا پوچھا تورضوان گوندل نے درست بات نہ بتائی، میں نے دیگرذرائع سے اصل معاملہ پتہ کیا۔

    سید امام کلیم نے کہا کہ ایک خاتون کو روکا گیا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کتنے بجے روکا گیا جس پر آئی جی پنجاب پولیس نے جواب دیا کہ رات کوایک یا 2 بجے روکا گیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ آپ خود معاملے کے حقائق پوچھ سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں عدالت کوکہنے والے ہم معلوم کریں۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت سے بات کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے جس پر سید امام کلیم نے کہا کہ میں اپنےالفاظ واپس لیتا ہوں۔

    آئی پنجاب پولیس نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے جوڈی پی اوکوبلایا انہیں نہیں بلانا چاہیے تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے ڈی پی اوکووزیراعلٰی کے پاس جانے کی اجازت کیوں دی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نےکیا وزیراعلیٰ سے ڈی پی اوکوملنےسے روکا؟ خاتون پیدل چل رہی تھی پولیس نے پوچھا تواس میں کیاغلط ہے؟ آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ لڑکی کا ہاتھ پکڑا گیا۔

    سابق ڈی پی اور پاکپتن رضوان گوندل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 23،24 اگست والے واقعے کا قائم مقام آرپی او کو بتایا، مجھ سے متعلق وزیراعلیٰ نے آئی جی کوحکم دیا، حکم آیا کہ رضوان گوندل کوڈی پی اوکے طورپر نہیں دیکھنا تھا۔

    رضوان گوندل نے کہا کہ اتوارکی رات سی ایس اواور پی ایس او کی کال موصول ہوئی، مجھے بتایا گیا 9 بجے وزیراعلیٰ کے دفترآئیں۔

    سابق ڈی پی او پاکپتن نے کہا کہ پی ایس اوصاحب نے بتایا وزیراعلیٰ نے آئی جی کو حکم دیا ہے، میں نے آرپی او سے بات کی، آرپی اونے کہا انکوائری مکمل نہیں ہوئی توایسا حکم نہیں آنا چاہیے تھا۔

    سپریم کورٹ نے خاورمانیکا اور جمیل گجرکو فوری طلب کرلیا، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو حکم دیا کہ 3 بجے کراچی جانا ہے اس سے قبل پیش کیا جائے۔

    وفقے کے بعد سابق ڈی پی اوپاکپتن رضوان گوندل ازخود نوٹس کیس کی شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ احسن جمیل گجر کے گھر ایس ایچ او کھڑے ہیں، ایس ایچ او سے رابطہ نہیں ہورہا، خاور مانیکا نے کہا بیٹی کو اسکول سے پک کرنا ہے،3 بجے سے پہلے لاہورنہیں چھوڑسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آرپی اوساہیوال اوررضوان گوندل کل تک بیان حلفی جمع کرائیں اور احسن جمیل گجراوردیگر پیرکوعدالت میں حاضر ہو، احسن جمیل گجرکی حاضری کوآئی جی نےیقینی بنانا ہے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا 62 ون ایف پر فیصلوں کوایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پڑھ کرآئیں کہ اختیارات کے غلط استعمال پر عدالتی فیصلوں کا اسکوپ کتنا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا احسن جمیل گجرکو پیار سے لائیے گا، احسن جمیل گجر پیر کو حاضر نہ ہوئے تو پھر اگلالائحہ عمل دیں گے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پرازخود نوٹس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا نوٹس لے لیا

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایڈیشنل آئی جی پنجاب، آرپی او ساہیوال اورمتعلقہ ڈی پی او کو کل ساڑھے نو بجے طلب کیا تھا اور ساتھ ہی پنجاب پولیس کے حکام سے انکوائری رپورٹ بھی طلب کی تھی۔

    اس سے قبل اپوزیشن پارٹیوں‌ نے الزام لگایا تھا کہ 23 اگست کو خاور مانیکا کو ناکے پر روکنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا، واقعے کے بعد آر پی او اور ڈی پی او پر مبینہ طور پر معافی مانگنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور ان کے انکار کرنے پر ڈی پی او کا تبادلہ کیا گیا۔

    حکومت پنجاب کا موقف تھا کہ آر پی او اور ڈی پی او کو طلب کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، اس معاملے پر غفلت میں تبادلہ کیا گیا۔

    ماریہ محمودکوڈی پی اوپاکپتن تعینات

    دوسری جانب ماریہ محمود کو ڈی پی اوپاکپتن تعینات کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔

    خاور مانیکا اور رضوان گوندل کے موقف

    واقعے کے بعد سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں غیرمتعلقہ شخص سوالات پوچھتا رہا، باربار کہا گیا ڈیرے پر جاکرمعافی مانگو۔

    خاور مانیکا فیملی نے بھی اپنا جواب ای میل کے ذریعے کمیٹی کو ارسال کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اہلکاروں نے خاور مانیکا اور بیٹی سے بدتمیزی کی تھی۔