دنیا رابرٹ ولیم فسک کو ایک جرأت مند اور نڈر صحافی مانتی ہے۔ رابرٹ فسک امریکا اور اسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف رکھتے تھے۔ اپنے قلم کی طاقت کو ہتھیار بنانے اور ہمیشہ حق و سچ کا ساتھ دینے والے رابرٹ فسک ایک بہترین رپورٹر اور عمدہ تجزیہ کار تھے۔
رابرٹ فسک کے والد پہلی جنگِ عظیم میں شریک رہے تھے۔ وہ جنگ کی خوف ناک ساعتوں اور جیتے جاگتے انسانوں کی گولہ بارود سے ہلاکتوں کے واقعات اکثر اپنے اکلوتے بیٹے رابرٹ ولیم فسک کو سناتے تھے۔ یوں رابرٹ فسک کو کم عمری ہی میں جنگ کی ہولناکی کا ادراک ہوگیا تھا۔ وہ بڑے تو الفرڈ ہچکاک کی فلم ’’فارن کارسپانڈنٹ‘‘ دیکھنے کا موقع ملا جس نے رابرٹ فسک کو بہت متاثر کیا اور وہ بھی غیر ملکی نمائندہ بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ رابرٹ فسک اس فلم کے ہیرو جونی جونز کو اپنا آئیڈیل بنا چکے تھے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کی اور اپنے خواب کی تکمیل کے لیے کوچۂ صحافت میں قدم رکھ دیا اور بڑا نام پیدا کیا۔ رابرٹ فسک 30 اکتوبر 2020ء کو چل بسے تھے۔
رابرٹ نے مقامی اخبارات سے صحافت کا آغاز کیا اور پھر وہ ‘سنڈے ایکسپریس’ سے بطور کالم نویس منسلک ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بلفاسٹ میں شورش اپنے عروج پر تھی۔ وہ 1972ء میں شمالی آئرلینڈ کے شہر بالفاسٹ اس وقت منتقل ہوئے جب وہاں نسلی اور قوم پرست فسادات جاری تھے۔ ان واقعات پر لکھتے ہوئے 1976ء میں رابرٹ فسک دی ٹائمز کے مشرق وسطیٰ کے نامہ نگار بن گئے۔ نوے کی دہائی میں انھوں نے تین بار اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا جب کہ نائن الیون کے بعد رابرٹ فسک اگلی دو دہائیوں تک مشرق وسطیٰ میں مقیم رہے اور وہاں جنگوں سے متعلق رپورٹنگ کی۔ اس دور میں انھوں نے افغانستان، عراق اور شام سے بھی کام کیا۔ وہ عربی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے پرتگال کی شورش پر لکھنے کے ساتھ ’’انقلابِ ایران‘‘ پر بھی متعدد کالم لکھے۔ فسک ایک ایسے صحافی تھے جو کسی واقعے اور سانحے پر پوری ذمہ داری کے ساتھ اور تحقیق کر کے اپنی رپورٹ فائل کرتے تھے۔ گویا وہ ایک ‘کھوجی’ کی طرح معاملے کی تہ تک پہنچنے اور حقائق سامنے لانے کے لیے پہچانے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان میں فسک کے تجزیے اور تبصرے بہت توجہ سے پڑھے جاتے تھے اور ان کے کالم سرکاری افسران کی میز پر اور مختلف سنجیدہ اور باشعور طبقہ ہائے عوام تک بھی پہنچتے تھے۔ 1989ء میں فسک ’دی انڈیپنڈنٹ‘‘ سے وابستہ ہوئے اور آخری سانس تک اسی ادارے سے جڑے رہے۔ اپنے صحافتی کیریئر کے دوران فسک نے اسرائیل، فلسطین، لبنان، مصر اور دیگر ممالک میں اہم اور عالمی سطح کے واقعات، جنگیں، جھڑپیں، تنازع اور اُن بین الاقوامی سطح کے معاہدوں کی رپورٹنگ کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے امور پر رائے زنی اور تجزیہ پیش کیا جن کے اثرات خطّے اور دنیا پر پڑے۔ انھوں نے مشرق وسطیٰ کے علاوہ شمالی افریقہ اور بلقان خطّے کے بارے میں برطانوی اخبارات کے لیے پانچ دہائیوں تک رپورٹنگ کی۔
رابرٹ فسک کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ وہ 1946ء میں برطانیہ کے علاقے کینٹ میں پیدا ہوئے۔ رابرٹ فسک کے پاس آئرلینڈ کی شہریت بھی تھی۔ 90 کی دہائی ختم ہونے تک رابرٹ فکس برطانیہ میں ایک نہایت قابل اور باصلاحیت صحافی مشہور ہوچکے تھے۔ رابرٹ فسک نے سنہ 1994 میں امریکی صحافی لارا مارلو سے شادی کی لیکن سنہ 2006 میں ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ یہ جوڑا بے اولاد رہا۔
1976ء سے فسک بیروت میں رہے اور اس دوران خانہ جنگی دیکھی۔ وہ کئی لرزہ خیز واقعات اور لبنان میں سنگین صورتِ حال کے چشم دید گواہ تھے۔ رابرٹ فسک نے اس دوران عالمی سیاست کے مکروفریب اور تضادات کو بھی دیکھا اور اپنے کالموں میں مفاد کی بساط پر کھیلی جانے والی چالوں کو دنیا کے سامنے لائے۔ ان کی یہ بیباک صحافت مغربی دنیا میں ناپسندیدہ رہی۔ فسک نے ایک جگہ لکھا تھا کہ لبنان کے خلاف اسرائیل نے جس نوعیت کی جارحیت کی اس میں ہم مغربی ممالک بھی شامل ہیں۔ اس میں وہ ملک بھی شامل ہیں جو نائن الیون کے بعد امریکی صدر کی جنگی کار گزاریوں میں شریک تھے۔ آج ایک مرتبہ پھر فلسطین کے نہتے اور بے بس مسلمانوں اور غزہ پر اسرائیلی بمباری جاری ہے اور یہ خونی تماشا عشروں سے جاری ہے۔ اس سے قبل جب یہ سب ہوا تھا تو رابرٹ فسک نے لکھا تھا کہ بمباری سے ہلاک ہونے والے بچے امریکا کے تمام اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ ہمیں اسرائیل نہیں، آپ ہلاک کر رہے ہیں۔ ہمارا قاتل اسرائیل نہیں امریکا ہے، مغربی طاقتیں ہیں جو مظلوم کے نہیں، ظالم کے ساتھ ہیں۔
امریکا، اسرائیل اور مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی اور دنیا میں جنگ اور خانہ جنگی پر تنقید اور اپنی اسی صاف گوئی کی وجہ سے فسک مختلف ممالک کی حکومتوں اور اداروں کے نزدیک متنازع بھی رہے۔
رابرٹ فسک متعدد کتابوں کے مصنّف بھی تھے جن پر انھیں عالمی سطح پر سراہا گیا اور صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے متعدد اعزازات سے بھی نوازا۔ مشہور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے سنہ 2005 میں اس صحافی کے بارے میں لکھا کہ ’رابرٹ فسک برطانیہ کے سب سے مشہور غیر ملکی نامہ نگار ہیں۔‘
سنہ 2010ء میں رابرٹ فسک پاکستان بھی آئے تھے۔