Tag: Russia Ukrain war

  • غزہ میں امداد کا پہنچنا اہم ہے، کون پہنچا رہا ہے؟ یہ اہم نہیں، امریکا

    غزہ میں امداد کا پہنچنا اہم ہے، کون پہنچا رہا ہے؟ یہ اہم نہیں، امریکا

    واشنگٹن : امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ غزہ میں امداد کون پہنچا رہا ہے اہم نہیں، اہم بات یہ ہے کہ وہاں امداد پہنچے۔

    یہ بات انہوں نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسے تمام اقدامات کی حمایت کرینگے جو غزہ میں امداد پہنچانے کیلئے مددگار ہوں۔

    ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ کھانوں کے 8 ہزار باکس اب تک غزہ میں تقسیم کیے جاچکے ہیں، ایک فوڈ باکس 5سے زائد افراد کو 6دن کھانا فراہم کرسکتا ہے۔

    اس موقع پر ایک صحافی کی جانب سے غزہ میں سیز فائر سے متعق سوال کیا جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قومی سلامتی کے مدنظر زیادہ تفصیل سے نہیں بتا سکتی۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ غزہ کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار حماس ہے،
    حماس اسپتالوں کو انسانی شیلڈ کے طور پر استعمال کررہی ہے۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکیوں کو وینزویلا کا سفر کرنے سے خبردار کرتے ہیں، شام کیلئے صدر ٹرمپ کے وژن پر عمل درآمد کیا جارہا ہے، شام پر اقتصادی پابندیاں ختم کی جارہی ہیں، دوست ملکوں سے کہیں گے شام میں سرمایہ کاری کیلئے آگے آئیں۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے ایران کے ساتھ مذاکرات کا پانچواں دور گزشتہ جمعہ کو ہوا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کو یوکرین میں روسی حملوں پر شدید تشویش ہے، جنگ مسئلے کا حل نہیں، روس اور یوکرین کے درمیان براہ راست بات چیت کی حوصلہ افزائی کرینگے۔

  • سعودی عرب کا یوکرین جنگ رکوانے کے لیے اہم قدم

    سعودی عرب کا یوکرین جنگ رکوانے کے لیے اہم قدم

    جدہ : روس اور یوکرین کے درمیان 17 ماہ سے جاری جنگ روکنے کیلئے سعودی عرب نے اہم اقدام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت مختلف ممالک کے درمیان مذاکراتی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب رواں سال اگست میں یوکرین جنگ کے حوالے سے مذاکرات کی میزبانی کرے گا جس میں مغربی ممالک، یوکرین، ہندوستان اور برازیل سمیت ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کو مدعو کیا جائے گا۔

    امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس اجلاس میں انڈونیشیا، مصر، میکسیکو، چلّی اور زیمبیا سمیت 30 ممالک کے سینئیر حکام شرکت کریں گے اور یہ اجلاس 5 اور 6اگست کو جدہ میں ہوگا۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یوکرین اور مغربی حکام کو امید ہے کہ یہ مذاکرات یوکرین کے حق میں امن شرائط کے لیے بین الاقوامی حمایت کا باعث بن سکتے ہیں، تاہم ان مذاکرات میں روس شامل نہیں ہوگا۔

    کریملن نے، جو یوکرین کے تقریباً چھٹے حصے پر قابض ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، کہا ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات کو صرف اسی صورت میں ممکن سمجھتا ہے جب کیف ’’نئی حقیقتوں‘‘ کو قبول کرے۔ اس کااشارہ روسی فوج کے زیرقبضہ یوکرین کے علاقوں کی طرف تھا جبکہ یوکرین کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ مذاکرات صرف اس وقت ممکن ہوں گے جب وہ اپنی افواج واپس بلالے گا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مدعو ممالک میں سے ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کتنے شرکت کریں گے البتہ جون میں کوپن ہیگن میں اسی طرح کے مذاکرات میں حصہ لینے والے ممالک کے نمایئندوں کی جدہ میں آمد متوقع ہے۔

    رپورٹ کے مطابق برطانیہ، جنوبی افریقا، پولینڈ اور یورپی یونین نے جدہ اجلاس میں شرکت کی تصدیق کی ہے اور امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کی شرکت بھی متوقع ہے۔(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)

  • روس کو یوکرین حملے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی، امریکا

    روس کو یوکرین حملے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی، امریکا

    واشنگٹن : امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے کہا ہے کہ ہم یوکرین پر حملہ کی پاداش میں برآمدی پابندیوں اور دیگر رکاوٹوں کے ذریعہ روس پر بھاری قیمت عائد کرنا جاری رکھیں گے۔

    یہ بات انہوں نے یوکرین پر روسی فوجی آپریشن کے 500 دن مکمل ہونے کے موقع پر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کے مزید اقدامات سے روس کی جنگ چھیڑنے کی صلاحیت کو محدود کریں گے۔

    بلینکن نے کہا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ یوکرین کے ساتھ کھڑے رہیں گے تاکہ وہ اپنا دفاع جاری رکھے اور وقت آنے پر مذاکرات کی میز پر مضبوط ترین پوزیشن کے ساتھ بیٹھے۔

    امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ روسی حکومت ہی یوکرین میں منصفانہ اور دیرپا امن کے حصول میں واحد رکاوٹ ہے۔

    واضح رہے امریکہ نے جمعہ کو اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرین کو روسی افواج کے خلاف جوابی حملے میں استعمال کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر ممنوعہ کلسٹر بم فراہم کرے گا۔

    امریکی محکمہ دفاع نے کہا کہ امریکی اقدام کو اتحادیوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے کلسٹر گولہ بارود یوکرین کو فراہم کرنے کو قبول نہیں کیا۔

    امریکی صدر جو بائیڈن نے سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ ایک ایسے وقت میں بہت مشکل تھا جب کیف کی افواج ایک ماہ قبل روس کے زیر کنٹرول علاقوں کو بحال کرنے کے لیے شروع کیے گئے جوابی حملے میں میدان میں آگے بڑھنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا تاہم واشنگٹن کو یقین دلایا گیا ہے کہ یہ ہتھیار شہریوں کے خلاف استعمال نہیں کیے جائیں گے۔