Tag: russia ukraine war

  • یوکرین کی فوج نے روسی افواج سے لڑنے سے انکار کر دیا

    یوکرین کی فوج نے روسی افواج سے لڑنے سے انکار کر دیا

    ماسکو: یوکرین کے نیشنل گارڈ کی تین کمپنیوں نے ڈونیسک میں روسی افواج سے لڑنے کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

    روسی میڈیا نے یوکرین کی 15 ویں نیشنل گارڈ بریگیڈ کی دوسری بٹالین کے ایک فوجی کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ یوکرین کے نیشنل گارڈ کی تین کمپنیوں نے ڈونیسک میں روسی افواج سے لڑنے کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرینی فوج میں شامل مرد سپاہیوں نے اپنے کمانڈروں کی قیادت میں ڈی پی آر کے یوکرینی زیر کنٹرول حصے میں واقع کراسنوآرمیسک کے قریب جنگی مشن انجام دینے سے انکار کیا۔

    ایسوسی ایٹڈ پریس نے بھی یوکرین کی فوج کے چند کمانڈرز اور سپاہیوں کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ یوکرین کے کچھ نئے فوجی دشمن پر گولی چلانے سے انکاری ہیں، اور کچھ فوجی ہتھیاروں کو درست کرنے یا بنیادی جنگی نقل و حمل کا ساتھ دینے کے لیے جدوجہد کرتے رہ جاتے ہیں، کچھ سپاہی تو اپنی پوسٹوں ہی سے ہٹ جاتے ہیں اور میدان جنگ کو یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں۔

    ایک طرف جب کہ یوکرین روس کے کرسک کے علاقے میں گھستا چلا جا رہا ہے، اس کے فوجی ملک کے مشرقی محاذ پر اپنا علاقہ کھوتے جا رہے ہیں، فوجی کمانڈروں نے اس کی ذمہ داری ناقص تربیت یافتہ بھرتیوں پر ڈال دی ہے، اور کہا ہے کہ روس کو گولہ بارود اور فضائی طاقت میں واضح برتری بھی حاصل ہے۔

    یوکرین کی 47 ویں بریگیڈ میں ایک مایوس بٹالین کمانڈر نے کہا ’’کچھ سپاہی گولی چلانا ہی نہیں چاہتے، وہ خندقوں میں دشمن کو فائرنگ کی پوزیشن میں دیکھتے ہیں لیکن فائر نہیں کرتے، اسی لیے ہمارے جوان مر رہے ہیں، جب وہ ہتھیار استعمال ہی نہیں کرتے، تو وہ بے اثر ہو جاتے ہیں۔‘‘

    اے پی کا کہنا ہے کہ فوجی کمانڈروں اور دیگر فوجیوں نے حساس فوجی معاملات پر آزادانہ طور سے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کی، اور کہا کہ ان کی شناخت فوجی پروٹوکول کے مطابق صرف ’کال سائنز‘ سے کی جائے۔

  • یوکرین کا بڑا دعویٰ، کرسک حملے میں 1,000 مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا

    یوکرین کا بڑا دعویٰ، کرسک حملے میں 1,000 مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا

    کیف: یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کرسک حملے میں 1,000 مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔

    دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کے اعلیٰ کمانڈر نے کہا ہے کہ ان کی افواج نے روس کے سرحدی علاقے کرسک کے ایک ہزار مربع کلومیٹر (386 مربع میل) علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔

    روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے عزم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین کے اس حملے کا ’ٹکر کا جواب‘ دیا جائے گا، انھوں نے اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ وہ ’دشمن کو روسی علاقے سے نکال باہر کریں۔‘

    یوکرین کا کہنا ہے کہ اس نے مغربی روس میں 28 مقامات پر قبضہ کیا ہے، یوکرینی فوج کرسک میں ہزار اسکوائر کلومیٹر اندر تک داخل ہو گئے ہیں، دریں اثنا روسی فوج نے یوکرین کے 7 حملوں کو ناکام بنانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

    یوکرین کے اعلیٰ کمانڈر اولیکسینڈر سیرسکی نے ویڈیو لنک کے ذریعے صدر ویلودیمیر زیلنسکی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے سے جاری حیرت انگیز یوکرینی حملے کو پسپا کرنے کے لیے روس اب بھی جدوجہد کر رہا ہے، جب کہ یوکرینی فوج کی روسی علاقے میں پیش قدمی جاری ہے۔

    روسی علاقے کرسک کے قائم مقام علاقائی گورنر الیکسی سمرنوف نے کہا کہ کیف کی افواج نے تقریباً 12 کلومیٹر گہری اور 40 کلومیٹر چوڑی دراندازی میں 28 بستیوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے روس کو پہنچنے والے بڑے دھچکے کا پہلا عوامی اعتراف ہے۔ دوسری طرف روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں 200 سے زیادہ یوکرینی فوجی ہلاک ہوئے اور 31 بکتربند گاڑیوں کو تباہ کر دیا گیا۔

  • روس یوکرین جنگ دوبارہ شدت اختیار کرگئی

    روس یوکرین جنگ دوبارہ شدت اختیار کرگئی

    یوکرینی جنرل کا کہنا ہے کہ روس یوکرین جنگ میں ایک بار پھر شدت آگئی ہے، یوکرین کے مشرقی علاقے میں لڑائی تیز ہوگئی ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یوکرینی جنرل کا کہنا ہے کہ مشرقی یوکرین میں لڑائی کی صورتحال خراب ہوگئی ہے۔ یوکرینی فوجی تین مقامات پر نئی پوزیشنوں پر واپس لوٹ رہے ہیں۔

    یوکرینی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ فوجی دستوں نے اپنی افواج کی حفاظت کیلیے مغربی دیہات میں پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔

    ماسکو سے خبر ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس نے گزشتہ ہفتے یوکرین کی دفاعی تنصیبات اور بارودی گوداموں پر 35 میزائل اور ڈرون حملے کیے۔

    ہوٹل کے دروازے پر اسرائیل کے خلاف احتجاج، بائیڈن کو پچھلے دروازے سے اندر جانا پڑا

    خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یوکرین نے روس کے 21 میزائلوں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔

  • اردوان نے یوکرینی صدر کے 10 نکاتی فارمولے کی حمایت کر دی

    اردوان نے یوکرینی صدر کے 10 نکاتی فارمولے کی حمایت کر دی

    انقرہ: رجب طیب اردوان نے یوکرینی صدر کے 10 نکاتی امن فارمولے کی حمایت کر دی ہے، ترک صدر نے بدھ کو کہا کہ ترکی روس اور یوکرین کے درمیان دوبارہ امن مذاکرات کی میزبانی کے لیے تیار ہے۔

    ترک میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے روس یوکرین میں امن مذاکرات کے لیے ثالثی کی ایک بار پھر پیشکش کر دی، انھوں نے کہا کہ ترکی روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات کے لیے ثالث کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

    ترک صدر نے کہا کہ روس اور یوکرین کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور پرامن مذاکرات کی کوششیں ناکافی ہیں، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکنہ راستے سے اعلیٰ ترین سطح پر سفارتی ذرائع کا استعمال کرنا ہوگا۔

    یوکرین-جنوب مشرقی یورپ سمٹ کے لیے بھیجے گئے ایک ویڈیو پیغام میں انھوں نے مزید کہا کہ وہ یوکرین کے صدر ولودمیر زیلنسکی کے 10 نکاتی امن فارمولے کی اصولی طور پر حمایت کرتے ہیں۔ اردوان نے کہا یوکرین کی آزادی، خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کے لیے ترکی کی حمایت سب کو معلوم ہے۔ ’’ہم اپنے کریمیائی تاتار ہم وطنوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

    دوسری طرف روس اور یوکرین کے درمیان تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، روس نے یوکرین میں گولہ بارود کے ڈپو کو نشانہ بنایا، جب کہ یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے روس کا لڑاکا طیارہ مار گرایا ہے۔

  • اہم شہر اؤدِیوکا سے یوکرین فوج پسپا ہو گئی، روس نے قبضہ کر لیا

    اہم شہر اؤدِیوکا سے یوکرین فوج پسپا ہو گئی، روس نے قبضہ کر لیا

    ماسکو: روس نے یوکرین کے اہم شہر اَؤدِیوکا پر قبضہ کر لیا ہے، یوکرینی فوج نے شہر سے پسپائی اختیار کی تھی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق روس کی یوکرین میں پیش قدمی جاری ہے، یوکرینی فوج کے اپنے شہر اَؤدِیوکا سے انخلا کے بعد روسی فوج نے شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے مشرقی یوکرین کے قصبے اَؤدِیوکا (Avdiivka) پر اپنی فوج کے قبضے کو ایک اہم فتح قرار دیا۔

    سی این این کے مطابق ہفتے کے روز میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ اَؤدِیوکا سے دست برداری کا فیصلہ ہمارے فوجیوں کی جان بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ تاہم زیلنسکی نے کہا کہ ہم بس چند کلو میٹر پیچھے ہٹے ہیں، روس یہ نہ سمجھے کہ اس نے کچھ حاصل کر لیا ہے۔

    اَؤدِیوکا حالیہ مہینوں میں مشرقی محاذ پر سب سے شدید معرکوں والا شہر بن گیا تھا، یوکرینی فوج کے انخلا کا یہ قدم اس علاقے پر ماسکو کے حملوں میں شدت آنے کے بعد اٹھایا گیا ہے، روس نے شہر کو فضائی حملوں اور توپ خانے سے تباہ کر دیا ہے، جب کہ روسی فوج نے بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ زمینی حملے بھی کیے۔

    گزشتہ برس باخموت شہر پر قبضے کے بعد اب اَؤدِیوکا پر قبضے سے یہ بات واضح ہونے لگی ہے کہ جنگ کا نتیجہ تیزی سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے حق میں نکلنے لگا ہے۔

    روسی فوج سے لڑائی میں ڈیڑھ ہزار یوکرینی اہلکار مارے گئے ہیں۔ روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اَؤدِیوکا شہر پر قابض ہونے سے ہمیں جنگ کی پیش قدمی میں مدد ملے گی، اور ڈونیسک کے دارالحکومت پر یوکرینی حملے روکنا ممکن ہو گیا ہے۔

  • امریکی منصوبہ بے نقاب، یوکرین جنگ کی خفیہ دستاویزات لیک

    امریکی منصوبہ بے نقاب، یوکرین جنگ کی خفیہ دستاویزات لیک

    روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں امریکی منصوبے سے متعلق خفیہ فوجی دستاویزات لیک ہوگئیں، مذکورہ دستاویزات سوشل میڈیا پر افشا کی گئیں۔

    یوکرین میں امریکا اور نیٹو کی جنگ کے حوالے سے تیاریوں سے متعلق دستاویزات سوشل میڈیا پر لیک ہونے کے بعد امریکی محکمہ دفاع میں خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔

    بھاری تعداد میں یہ دستاویزات سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم پر گزشتہ ہفتے لیک ہوئی تھیں اور ان پر ٹاپ سیکریٹ (انتہائی حساس) لکھا ہے۔

    ان میں مبینہ طورپر ایسے چارٹس اور تفصیلات شامل ہیں، جن میں ہتھیاروں کی ترسیل، بٹالینز کی تعداد اور دیگر حساس معلومات موجود ہیں۔

    ان خفیہ دستاویزات میں یوکرین کو روس کے خلاف جارحانہ مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنے سے متعلق امریکہ اور نیٹو کے منصوبوں کی تفصیلات درج ہیں، اس حوالے سے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ وہ سکیورٹی معاملات میں مبینہ خامیوں کے تعین کے لیے تحقیقات کررہا ہے۔

    ڈپٹی پریس سیکرٹری سابرینا سنگھ نے کہا کہ ہم سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ان رپورٹوں سے آگاہ ہیں اور محکمہ اس معاملے کا جائزہ لے رہا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ تفصیلات موسم بہار کے دوران روسی فوج کے خلاف یوکرین کے عسکری حملوں سے متعلق ہیں۔ یہ دستاویزات تقریباً پانچ ہفتے پرانی ہیں اور ان میں سے تازہ ترین دستاویز میں یکم مارچ کا حوالہ موجود ہے۔

    اخبار کے مطابق ایک دستاویز میں یوکرین کی 12 جنگی بریگیڈز کا تربیتی پروگرام تک موجود ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے نو کی تربیت امریکہ اور نیٹو کی فورسز نے کی۔ اسی دستاویز میں 250 ٹینکوں اور 350 سے زائد میکینائزڈ گاڑیوں کی ضرورت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

    یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دستاویزات میں یوکرینی فوجی کنٹرول کے تحت گولہ بارود پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ ان میں امریکی ساختہ آرٹلری راکٹ سسٹم یا ایچ آئی ایم اے آر ایس پر آنے والے اخراجات بھی شامل ہیں۔ یہ امریکی آرٹلری راکٹ سسٹم یوکرین میں روسی فوج کے خلاف انتہائی مؤثر ثابت ہوا ہے۔

    رپورٹ میں ایسے فوجی تجزیہ کاروں کے تجزیے بھی شامل ہیں، جنہوں نے متنبہ کیا ہے کہ بعض دستاویزات کو روس گمراہ کن اطلاعات پھیلانے کی اپنی مہم میں استعمال کرنے کی خاطر ممکنہ طور پر تبدیل بھی کرسکتا ہے۔

  • یوکرین جنگ : جی سیون ممالک کی روس سے انخلاء کی اپیل

    یوکرین جنگ : جی سیون ممالک کی روس سے انخلاء کی اپیل

    جی سیون ممالک نے روس سے یوکرین پر فضائی و زمینی حملوں کو روکنے اور وہاں سے روسی فوجیوں کے انخلاء کی اپیل کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ،جرمنی، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی اور جاپان پر مشتمل جی7 ممالک کے سربراہان کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ میں یوکرین کی سفارتی، مالی اور فوجی حمایت میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔

    مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی جارحیت بند کرے اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یوکرین کی سرزمین سے فوری طور پر مکمل اور غیر مشروط طور پر اپنے فوجیوں کو واپس بلا لے۔

    جی سیون سربراہان کا کہنا ہے کہ روس کے خلاف پابندیوں کو روکنے میں مدد کرنے والے تیسرے ممالک کو اس کا سخت ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا۔

    بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ روس نے ہی جنگ شروع کی اور وہی اسے ختم کرے گا، اس کے علاوہ بیان میں ماسکو انتظامیہ پر یوکرین میں ہسپتالوں، اسکولوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے اور تاریخی شہروں کو تباہ کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

    اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ روس کی جانب سے کسی بھی کیمیائی، حیاتیاتی، تابکاری یا جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمیں نئے اسٹارٹ معاہدے پر عمل درآمد کو معطل کرنے کے روس کے فیصلے پر گہرا افسوس ہے۔

  • بیلا روس نے بھی یوکرین کو دھمکی دے دی

    بیلا روس نے بھی یوکرین کو دھمکی دے دی

    بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو نے کہا ہے کہ بیلاروس صرف یوکرین کی طرف سے پہلے حملے کی صورت میں جنگ میں شامل ہوسکتا ہے۔

    یہ بات انہوں نے یوکرین جنگ میں بیلاروس کے کردار کے بارے میں اخباری نمائندوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہی۔

    انہوں نے کہا ہے کہ اگر یوکرین کے فوجی بیلاروس کی عوام کو مارنے کے لئے ملک میں داخل ہوئے تو صرف اسی صورت میں ہی ہم روس کے ساتھ مل کر یوکرین کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں۔ اگر انہوں نے بیلاروس پر حملہ کیا تو اس کا جواب نہایت سخت ہو گا اور جنگ کا رنگ ڈھنگ مکمل طور پر تبدیل ہو جائے گا۔

    لوکا شینکو نے کہا ہے کہ یہ صورتحال صرف یوکرین کے معاملے میں ہی نہیں دیگر ہمسایہ ممالک کے لئے بھی اسی طرح قبول کی جائے گی۔

    لوکا شینکو نے مغربی رہنماوں کے ان بیانات کا ذکر کیا کہ منسک سمجھوتے کا مقصد یوکرینی فوج کو جنگ کے لئے تیار کرنا ہے” اور کہا ہے کہ یوکرین انتظامیہ نے خود جنگ کو ہوا دی ہے۔

    انہوں نے کہا ہے کہ اس وقت درپیش تناو کا ذمہ دار مغرب ہے کیونکہ مغرب نہیں چاہتا کہ یوکرین میں امن کے لئے مذاکرات کئے جائیں۔

    صدر الیگزینڈ لوکا شینکو نے مزید کہا ہے کہ امریکہ بھی یورپ کو من چاہی شکل میں استعمال کر رہا ہے۔

  • یوکرین جنگ : روس نے اسرائیل کو خبردار کردیا

    یوکرین جنگ : روس نے اسرائیل کو خبردار کردیا

    ماسکو : روس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ یوکرین کو اسلحے کی فراہمی معاملے کے بحران میں مزید تناؤ پیدا کردے گی۔

    گزشتہ روز روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے اس حوالے سے صحافیوں کو بتایا کہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ وہ تمام ممالک جو یوکرین کو ہتھیار بھیجتے ہیں تمام ممالک کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم اس اسلحے کو روس مسلح افواج کے لئے ایک جائز ہدف قبول کریں گے۔

    اپنے بیان میں زاہرووا نے کہا کہ ہماری پوزیشن ہر کوئی بخوبی سمجھتا ہے لہٰذا یہ حقیقت قبول کرلینی چاہیے کہ یوکرین کو اسلحے کی فراہمی سے متعلق کوئی بھی قدم بحران میں مزید شدت کا سبب بنے گا ہر ایک کو اس کا احساس ہونا چاہیے۔

    گزشتہ سال فروری میں یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے صیہونی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس جنگ میں غیرجانبدار ہے اور یوکرین کو فوجی امداد نہیں بھیج رہا ہے۔

    واضح رہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے امریکی ٹیلی ویژن چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے یوکرین کو فوجی امداد فراہم کرنے کا جائزہ لیا ہے اور ہم ایران میں اسلحے کی پیداوار کے مقابل حرکت میں آگئے ہیں۔

  • ہوسکتا ہے روس یوکرین جنگ برسوں تک جاری رہے، امریکا

    ہوسکتا ہے روس یوکرین جنگ برسوں تک جاری رہے، امریکا

    واشنگٹن : امریکی عہدیدار نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ روس یوکرین جنگ برسوں تک جاری رہ سکتی ہے جس کے نتیجے میں امریکا کو بھی اسلحہ کی مزید قلت کا سامنا ہوگا۔

    یہ بات امریکی ایوان نمائندگان کے رکن مائیک کویگلی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ یوکرین کی جنگ دو تین روز سے زیادہ نہیں چلے گی لیکن آج اس جنگ کو نو ماہ ہوچکے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ یہ جنگ مزید کئی برسوں تک جاری رہے۔

    انہوں نے کہا کہ جنگ کی طوالت نے یوکرین کی ضرورت کے ہتھیاروں کی فراہمی کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے اور ہم بھی اسلحے کی شدید قلت کا شکار ہیں۔

    دوسری جانب سی این این نے پہلی بار یوکرین کی جانب سے فوجی امداد کی درخواستوں کی ایک فہرست جاری کی اور اس چینل کے دفاعی مبصر نے بھی اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ امریکہ یوکرین کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔

    یہ ایسی حالت میں ہے کہ یوکرین کے صدر ویلودیمر زیلنسکی نے یورپ اور امریکہ سے مزید فوجی امداد فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔

    ادھر امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے کہا کہ امریکہ اب تک اٹھارہ ارب ڈالر سے زائد کی امداد یوکرین کو دے چکا ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

    اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے اب تک بیس ہمارس میزائل سسٹم یوکرین کو فراہم کیے ہیں اور آنے والے برسوں میں ایسے اٹھارہ دیگر سسٹم فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

    دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ یورپی پارلیمنٹ نے یوکرین کے لیے اٹھارہ ارب یورو کی امداد کی منظوری دے دی ہے۔

    یورپی پارلیمنٹ کے اڑتیس ارکان نے یوکرین کو امداد کی فراہمی کے بل کی مخالفت کی جبکہ چھبیس نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

    یورپی پارلیمنٹ کے قدامت پسند اسپیکر روبرٹو متسولا نے اٹھارہ ارب یورو کی مالی امداد کو یوکرین کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور جمہوریت کے فروغ کے لیے انتہائی اہم قرار دیا ہے۔

    قرض کی شکل میں یوکرین کو مرحلہ وار دی جانے والی اس امداد کی پہلی قسط آئندہ سال جنوری تک فراہم کیے جانے کی توقع ہے۔