Tag: Russia

  • پیوٹن کی بیٹیوں پر بھی پابندیاں عائد

    پیوٹن کی بیٹیوں پر بھی پابندیاں عائد

    واشنگٹن: امریکا نے روسی صدر پیوٹن کی بیٹیوں پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی بیٹیوں پر امریکا کی جانب سے پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، امریکی حکومت نے بدھ کو دونوں بیٹیوں پر پابندیاں لگائیں جن کے بارے میں زیادہ معلومات کبھی منظر عام پر نہیں آئیں۔

    امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ صدر پیوٹن کی بیٹی کترینا تیخونووا ایک ٹیکنالوجی کمپنی کی سربراہ ہیں، جو روسی دفاعی صنعت کو مدد فراہم کرتی ہے، جب کہ دوسری بیٹی ماریہ ورونوٹسوا سرکاری فنڈز پر چلنے والے جینیاتی تحقیق کے پروگراموں کی سربراہی کرتی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایک سینیئر امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ پیوٹن کے اثاثے ان کے خاندان کے افراد کی آڑ میں چھپائے گئے ہیں۔

    ادھر کریملن کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق پیوٹن کی بیٹی ماریہ 1985 میں پیدا ہوئی تھیں، اس وقت پیوٹن روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے لیے ابھی جرمنی کے شہر ڈرزڈن منتقل نہیں ہوئے تھے۔

    گزشتہ برسوں میں پیوٹن نے اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں بہت کم بات کی ہے، مختلف مواقع پر انھوں نے اپنی بیٹیوں کے بارے میں صرف اتنا بتایا کہ ان کی تعلیم روسی یونیورسٹیوں میں ہوئی ہے اور وہ کئی یورپی زبانیں بول سکتی ہیں، صدر پیوٹن کے نواسے نواسیاں بھی ہیں۔

    روسی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ماریہ ورونوٹسوا اینڈوکرائنولوجسٹ (جسمانی غدودوں کی ماہر) ہیں جو ایک بڑی میڈیکل ریسرچ کمپنی سے وابستہ ہیں، یہ کمپنی کینسر کے علاج کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

    کترینا تیخونووا ایک ریاضی دان ہیں جو روس کی ایک یونیورسٹی سے منسلک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فاؤنڈیشن کی سربراہ ہیں، کترینا ایکروبیٹک راک اور رول ڈانسر بھی ہیں جو کئی اہم عالمی مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں۔

    کئی برس قبل روسی صدر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کی بیٹیوں کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

  • ایک اور ملک کا روس میں شمولیت کے لیے ریفرنڈم

    ایک اور ملک کا روس میں شمولیت کے لیے ریفرنڈم

    اسخنوالی: جنوبی اوسیشیا کے الیکشن کمیشن نے ملک کی روس میں شمولیت پر ریفرنڈم کی تیاری شروع کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی اوسیشیا کے مرکزی الیکشن کمیشن کی سیکریٹری کرسٹینا اولوخووا نے بتایا ہے کہ جنوبی اوسیشیا کے سینٹرل الیکشن کمیشن نے ایک ابتدائی گروپ رجسٹر کیا ہے، جس میں 26 عوامی اور سیاسی شخصیات شامل ہیں، تاکہ جنوبی اوسیشیا کی روس میں شمولیت پر ریفرنڈم کرایا جا سکے۔

    اولوخووا نے کہا کہ اس ابتدائی گروپ کے نمائندے جمعرات سے ریفرنڈم کی حمایت میں دستخط جمع کرنا شروع کر سکتے ہیں، اور کم از کم ایک ہزار دستخط جمع کیے جانے ہیں۔

    سی ای سی کے مطابق ابتدائی گروپ کی جانب سے مرکزی الیکشن کمیٹی کو جمع کرائی گئی درخواست میں ریفرنڈم کے لیے تجویز کردہ جو سوال شامل ہے وہ ہے: کیا آپ جمہوریہ جنوبی اوسیشیا اور روس کے اتحاد کی حمایت کرتے ہیں؟

    منگل کو سیکریٹری اولوخووا نے بتایا کہ گروپ کے ارکان میں چار جنوبی اوسیشین صدور ہیں، یعنی موجودہ صدر اناتولی بیبلوف، سابق صدور لیوڈوِگ چیبیروف، ایڈورڈ کوکوئٹی اور لیونیڈ تبیلوف شامل ہیں۔

  • یوکرینی صدر کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، روس

    یوکرینی صدر کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، روس

    ماسکو : کریملن کے پریس سیکرٹری دیمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس کا یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو قتل کرنے یا انہیں اقتدار سے ہٹانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

    فرانسیسی نشریاتی ادارے ایل سی آئی کو انٹرویو کے دوران جب ان سے ان قیاس آرائیوں پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا کہ کیا ماسکو زیلنسکی کو قتل کرنا چاہتا ہے؟

    جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا نہیں یہ سچ نہیں ہے، پیسکوف نے یہ بھی وضاحت کی کہ پڑوسی ملک میں حکومت کی تبدیلی روس کے جاری فوجی آپریشن کے مقاصد میں شامل نہیں ہے۔

    روسی صدارتی ترجمان نے کہا کہ زیلنسکی یوکرین کے صدر ہیں اور ماسکو ان سے ان مطالبات کو منوانا چاہتا ہے جو روسی وفد نے امن مذاکرات کے دوران پیش کیے ہیں۔

    پیسکوف نے کہا کہ بات چیت کے ذریعے ہم فوجی آپریشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یوکرائنی دارالحکومت کیف کے قریب کے علاقوں سے اپنی فوجوں کو واپس بلانے کا ماسکو کا حالیہ فیصلہ ان کے مثبت نتائج کو آسان بنانے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار تھا۔

    ماسکو اور کیف کے وفود کے درمیان آمنے سامنے مذاکرات کا حالیہ دور ایک ہفتہ قبل ترکی کے شہر استنبول میں ہوا۔

    ماسکو نے فروری کے آخر میں اپنے پڑوسی میں فوجی آپریشن شروع کیا، یوکرین کی جانب سے 2014 کے مینسک معاہدوں کی شرائط پر عمل درآمد میں ناکامی، اور روس کی جانب سے دونیسک اور لوگانسک میں دونباس جمہوریہ کو حتمی طور پر تسلیم کرنے کے بعد یہ فوجی مہم شروع ہوئی۔

  • جرمن کمپنی کا روس میں اپنا کاروبار جاری رکھنے کا اعلان

    جرمن کمپنی کا روس میں اپنا کاروبار جاری رکھنے کا اعلان

    برلن: جرمنی کی کنزیومر گڈز کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ وہ روس میں اپنا کاروبار جاری رکھے گی، کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ہم تمام قابل اطلاق پابندیوں کو مکمل طور پر لاگو کر رہے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جرمن کمپنی کی چیئر پرسن سیمون ٹراہ کا کہنا ہے کہ جرمن کیمیائی اور اشیائے خور و نوش کی بڑی کمپنی ہینکل روس میں کاروبار جاری رکھے گی۔

    سیمون ٹراہ نے گروپ کی سالانہ جنرل میٹنگ کے دوران شیئر ہولڈرز کو بتایا کہ یہ کبھی کبھی عوام کی طرف سے بہت تنقیدی طور پر دیکھا جاتا ہے، لہٰذا ہمارے لیے اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ ہم تمام قابل اطلاق پابندیوں کو مکمل طور پر لاگو کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہینکل کی انتظامیہ موجودہ جغرافیائی سیاسی پیش رفت کی بہت قریب سے پیروی کرے گی اور اگر ضرورت پڑی تو مزید اقدامات کرے گی۔

    چیئر پرسن کا کہنا تھا کہ ملک میں کمپنی کی سرگرمیاں پابندیوں کے تابع ہیں، ہینکل کا فیصلہ یوکرین میں ماسکو کے فوجی آپریشن سے متعلق مغربی پابندیوں کے درمیان صنعتوں کی ایک وسیع صف سے بڑے بین الاقوامی برانڈز کے روس سے بڑے پیمانے پر اخراج کے درمیان آیا ہے۔

    خیال رہے کہ ڈسلڈورف میں قائم یہ کمپنی 3 دہائیوں سے روس میں کام کر رہی ہے، اس کے 12 دفاتر اور 11 فیکٹریاں ہیں جو کاسمیٹکس، گھریلو کیمیکلز اور مرمتی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔

    اس کی مصنوعات کی روسی شہروں پرم، اینگلز کے ساتھ ساتھ لینن گراڈ، ماسکو، اسٹاورو پول اور اولیانوسک کے علاقوں میں ترسیل جاری ہیں، پورے روس میں ڈھائی ہزار افراد کمپنی کے ملازم ہیں۔

  • روس کا پاکستان سمیت ’دوست‘ ممالک کے لیے پروازوں کی بحالی کا اعلان

    روس کا پاکستان سمیت ’دوست‘ ممالک کے لیے پروازوں کی بحالی کا اعلان

    ماسکو: روس نے پاکستان سمیت 52 ’دوست‘ ممالک کے لیے پروازوں کی بحالی کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق روس نے کرونا وائرس کے باعث عائد پابندیوں میں نرمی کرتے ہوئے پاکستان سمیت باون دوست ممالک کے ساتھ فضائی آپریشن دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    روس کے وزیر اعظم میخائل مشسٹن نے پیر کو کہا کہ روس نے 9 اپریل کے بعد باون ممالک کی پروازوں پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے، ارجنٹینا، جنوبی افریقہ اور دیگر ’دوست ممالک‘ کے ساتھ پروازیں دوبارہ شروع کریں گے۔

    دیگر ممالک میں الجیریا، چین، لبنان، پیرو اور پاکستان بھی شامل ہیں، وزیر اعظم کے بیان کے مطابق دوست ممالک وہ ہیں جو یوکرین پر حملے کے بعد مغربی پابندیوں کی تازہ ترین لہر میں شامل نہیں ہوئے۔

    مارچ 2020 میں روس نے کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے سفری پابندیاں عائد کی تھیں۔ مغرب کی جانب سے پابندیوں کے ردعمل میں روس نے یورپی یونین کے 27 ممالک سمیت 36 ملکوں کے لیے فضائی حدود کو بند کر دیا تھا۔

    مغربی طاقتوں کی جانب سے روس کے خلاف اقدامات نے یورپی اداروں کو مجبور کیا کہ وہ 500 سے زیادہ طیاروں کے لیے روسی فضائی کمپنی کے ساتھ لیز کے معاہدے ختم کریں۔

  • ’گیس رک گئی تو روس سے زیادہ یورپ کو نقصان ہوگا‘

    ’گیس رک گئی تو روس سے زیادہ یورپ کو نقصان ہوگا‘

    برلن: جرمن وزیر خزانہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر روسی گیس رک گئی تو اس سے یورپ ہی کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن وزیر خزانہ کرسچن لِنڈنر نے کہا ہے کہ روسی گیس کے رکنے سے یورپی یونین کو روس سے زیادہ نقصان پہنچے گا، کیوں کہ فی الحال اس گیس کا متبادل لانا مشکل ہے۔

    جرمن وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد جلد از جلد روس سے توانائی کی سپلائی سے آزاد ہونا ہے، اور ہمیں سنگین پابندیاں عائد کرنی چاہئیں، لیکن گیس قلیل مدت میں ناگزیر ہے، ہم خود کو زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔

    انھوں نے کہا روسی وسائل سے آزادی کے بارے میں ہونے والی بحث میں گیس، تیل اور کوئلے کے درمیان ایک لکیر کھینچی جانی چاہیے۔

    خیال رہے کہ یورپ روس پر دباؤ بڑھانے کے حق میں ہے اور روس کے ساتھ تمام اقتصادی تعلقات جلد از جلد ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن روس سے توانائی کی فراہمی کے آگے وہ بے بس ہے۔

    جرمن چانسلر اولاف شولز کا کہنا تھا کہ جرمنی ایک سال کے اندر اندر روس سے تیل اور کوئلے کی درآمدات پر انحصار ختم کرنے کے قابل ہو جائے گا، لیکن گیس میں زیادہ وقت لگے گا۔

    جرمن حکام نے بارہا کہا ہے کہ وہ روسی توانائی کے وسائل کی فراہمی پر فوری پابندی عائد کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

    مارچ میں یورپی کمیشن نے یورپی یونین کے ممالک کو یوکرین کے تنازعے کی وجہ سے اس سال کے آخر تک روسی گیس کی سپلائی پر انحصار 67 فی صد کم کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔

  • یوکرینی شہریوں کا ‘قتل عام’  روس کے خلاف سازش قرار

    یوکرینی شہریوں کا ‘قتل عام’ روس کے خلاف سازش قرار

    ماسکو: روس نے یوکرینی قصبے ‘پوجا’ میں شہریوں کی قتل عام کو سازش قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے بڑا مطالبہ کردیا ہے۔

    غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ترجمان کریملن دیمتری پیسکوف نے ماسکو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کے قصبے بوچا میں شہریوں کے قتل سے متعلق کسی بھی الزام کی واضح طور پر تردید کرتے ہیں، بوچا میں شہریوں کی ہلاکت کے الزام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاناچاہیے۔

    انہوں نے دعویٰ کیا کہ روسی ماہرین کو بوچا واقعے کے پیش کردہ مواد میں مختلف جعلی اور ویڈیو ایڈیٹس کے اشارے ملے ہیں، ترجمان نے مزید کہا کہ بوچا میں جوہوا اس حقائق اور کرونولوجی یوکرینی ورژن سے مطابقت نہیں رکھتی۔ترجمان کریملن نے مطالبہ کیا کہ بین الاقوامی رہنما بوچا الزامات پر فیصلے میں جلدی نہ کریں، الزام عائد کرنے والے بین الاقوامی رہنماؤں کو بوچا الزامات پر روسی وضاحت اور مختلف ذرائع سے بھی معلومات لینی چاہئیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ یوکرین کے قصبے بوچا میں پیش آنے والے واقعے پر بین الاقوامی سطح پر بات کی جائے۔

    واضح رہے کہ یوکرین کے بوچا قصبے سے روسی فوج کی واپسی کے بعد ایک چرچ کے احاطے میں اجتماعی قبر کا پتہ چلا تھا، یوکرین نے روسی فورسز پر کیف کے نواح میں واقع اس قصبے میں "قتل عام” کا الزام عائد کیا تھا۔

    یوکرین کے ایک اعلی عہدیدار کا کہنا تھا کہ بوچا قصبے سے روسی افواج کی واپسی کے بعد علاقے سے 410 شہریوں کی لاشیں ملی ہیں۔

  • یورپ کو دی گئی روسی مہلت آج ختم، آگے کیا ہوگا؟

    یورپ کو دی گئی روسی مہلت آج ختم، آگے کیا ہوگا؟

    ماسکو: یورپ کو دی گئی روسی مہلت آج ختم ہو جائے گی، اگر گیس کی خریداری کے لیے ادائیگی روسی کرنسی روبل میں نہ گئی تو سپلائی بند کر دی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق روس کی جانب سے یورپ کی دی گئی مہلت کا آج آخری روز ہے، جس کے بعد ادائیگی صرف روبل میں ہوگی ورنہ گیس بند کر دی جائے گی۔

    دوسری طرف مذاکرات کی بحالی کے باوجود یوکرین میں جنگ جاری ہے، روسی وزارت خارجہ کے سینیئر عہدے دار نیکولائی کوبرینائٹس نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا جواب دیا جائے گا۔

    نیکولائی کوبرینائٹس کا کہنا تھا کہ برسلز کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ طور سے عائد ہونے والی پابندیاں عام یورپیوں کی زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔

    امریکا نے بھارت کو بھی دھمکی دے دی

    یاد رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعرات کو ایک فرمان پر دست خط کیے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ روسی گیس کے غیر ملکی خریداروں کو یکم اپریل سے صرف روبل میں ادائیگی کرنا ہوگی، نہ صورت دیگر معاہدے معطل کر دیے جائیں گے۔

    صدر پیوٹن نے ٹی وی خطاب میں کہا کہ روس سے قدرتی گیس کے خریداروں کو اب روسی بینکوں میں روبل کرنسی میں اپنے کھاتے کھولنا ہوں گے، انھی اکاؤنٹس سے گیس کی ترسیل کے لیے رقوم ادا کی جائیں گی، ایسا نہ کیا گیا تو ہم خریداروں کو ڈیفالٹ سمجھیں گے۔

    روسی صدر نے واضح کر دیا تھا کہ کوئی بھی ہمیں مفت میں کچھ فروخت نہیں کرتا اور ہم بھی خیرات نہیں کریں گے۔

  • امریکا نے بھارت کو بھی دھمکی دے دی

    امریکا نے بھارت کو بھی دھمکی دے دی

    واشنگٹن: روس پر امریکا کی جانب سے سخت عالمی پابندیوں کے باوجود بھارت روس کے ساتھ تجارتی روابط جاری رکھے ہوئے ہے، ایسے میں امریکا نے دھمکی دی ہے کہ بھارت نے اگر روس سے روبل اور روپے میں تجارت کی تو نتائج بھگتنا ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے روس کے ساتھ روپے اور روبل میں تجارت کی یا تیل خریدا تو مغربی بلاک کے زیادہ تر ممالک اس پر سخت پابندیاں عائد کر دیں گے۔

    گزشتہ روز سے بھارت سے تجارت کے سلسلے میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف بھارت دورے پر ہیں، دوسری طرف برطانوی وزیر خارجہ بھی کل ہی بھارت پہنچ گئی تھیں، تاہم سرگئی لاوروف کی آمد سے چند گھنٹے قبل تک امریکی نائب مشیر قومی سلامتی برائے بین الاقوامی اقتصادیات دلیپ سنگھ بھی نئی دہلی میں موجود تھے۔

    بھارتی اخبار کے مطابق نئی دہلی کے دورے پر آئے امریکی نائب مشیر دلیپ سنگھ نے کہا کہ روس کے خلاف امریکا پابندیاں نافذ کر چکا ہے، اب اس کی خلاف ورزی کر کے جو بھی ملک روس کے مرکزی بینک کے ذریعے مقامی کرنسی کا لین دین کرے گا، اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

    روسی اور برطانوی وزرائے خارجہ کا ایک ہی دن بھارت کا دورہ، بھارت کس طرف جائے گا؟

    دلیپ سنگھ کا کہنا تھا اتحادی اور شراکت دار ایسا طریقہ کار نہ اپنائیں جو روسی روبل کو سہارا دے اور جو ڈالر پر مبنی مالیاتی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔

    ادھر وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ وزارت خزانہ کی سربراہی میں ایک خصوصی بین الوزارتی گروپ کو روس کے ساتھ درآمدات اور برآمدات کے لیے ادائیگی کے مسائل کو حل کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔

    امریکا نے بھارت کو یہ کہتے ہوئے بھی خبردار کیا ہے کہ روس چین کا جونیئر پارٹنر بننے جا رہا ہے، اور چین روس سے جتنا زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے، یہ بھارت کے لیے اتنا ہی ناسازگار ہو گا، اور مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی اس بات پر یقین کرے گا کہ اگر چین نے ایک بار پھر لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف ورزی کی تو روس بھارت کے دفاع کے لیے آئے گا۔

  • خوردنی تیل کی بڑھتی قیمتیں، بھارت نے روسی سن فلاور آئل خرید لیا

    خوردنی تیل کی بڑھتی قیمتیں، بھارت نے روسی سن فلاور آئل خرید لیا

    نئی دہلی: بھارت نے ملک میں خوردنی تیل کی قلت اور بڑھتی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے روسی سن فلاور آئل مہنگے داموں خرید لیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی آئل صنعت کے عہدیداروں نے روئٹرز کو بتایا کہ بھارت نے روسی سورج مکھی تیل کی اپریل میں 45,000 ٹن کی کھیپ کے لیے ریکارڈ بلند قیمت پر معاہدہ کر لیا ہے، کیوں کہ یوکرین سے سپلائی بند ہونے کے بعد مقامی مارکیٹ میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔

    بھارت خوردنی تیل کا دنیا کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے، ادھر انڈونیشیا نے پام آئل کی سپلائی کو محدود کر دیا ہے، اور جنوبی امریکا میں سویابین کی فصل کو کم کرنے کا فیصلہ سامنے آیا، جس سے سبزیوں کے تیل کی دستیابی سکڑ گئی ہے، ایسے وقت میں روس کے ساتھ سن فلاور آئل کی فراہمی کا یہ معاہدہ صورت حال کی شدت کو کم کر سکتا ہے۔

    جیمنی ایڈیبلز اینڈ فیٹس انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر پردیپ چودھری نے کہا کہ چوں کہ یوکرین میں جہاز کی لوڈنگ ممکن نہیں ہے، اس لیے خریدار روس سے سپلائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کمپنی نے اپریل کی ترسیل کے لیے 12,000 ٹن روسی سورج مکھی کے تیل کا معاہدہ کیا ہے۔

    ڈیلرز کے مطابق بھارتی ریفائنرز نے روس سے سورج مکھی کا خام تیل 2,150 ڈالر فی ٹن کی ریکارڈ قیمت پر خریدا ہے، جس میں لاگت، انشورنس اور فریٹ بھی شامل ہیں، روس کے یوکرین پر حملہ کرنے سے قبل یہ قیمت 1,630 ڈالر تھی۔ پردیپ چودھری نے کہا کہ یوکرین جنگ سے پہلے سورج مکھی کا تیل پام آئل اور سویا آئل کے مقابلے سستا تھا، لیکن جیسے ہی سب سے بڑے برآمد کنندہ یوکرین کی طرف سے سپلائی بند ہو گئی ہے، خریداروں کو بھاری پریمیم ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

    واضح رہے کہ بحیرۂ اسود (بلیک سی) کا علاقہ دنیا کے سن فلاور آئل کی مجموعی پیداوار کا 60 فی صد حصہ رکھتا ہے، جب کہ برآمدات میں اس کا حصہ 76 فی صد ہے۔

    نئی دہلی کے ایک ڈیلر نے کہا کہ بھارتی خریدار تقریباً ایک ماہ سے روسی سورج مکھی کے تیل کی خریداری نہیں کر رہے تھے، لیکن اب وہ آرڈر دے رہے ہیں کیوں کہ بینکوں نے درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (LC) جاری کرنا شروع کر دیا ہے۔

    ممبئی کے ایک ڈیلر نے بتایا کہ یوکرین سے بھارت کو سن فلاور تیل کی 3 لاکھ ٹن سے زیادہ کی ترسیل پھنس گئی ہے کیوں کہ یوکرین کی بندرگاہوں پر لوڈنگ معطل ہے۔ خیال رہے کہ بھارت بنیادی طور پر روس اور یوکرین سے سن فلاور آئل درآمد کرتا ہے، جب کہ پام آئل انڈونیشیا اور ملائیشیا سے درآمد کرتا ہے، اور سویا آئل کا بڑا حصہ ارجنٹائن اور برازیل سے حاصل کیا جاتا ہے۔