Tag: Russian Oil

  • روسی تیل و گیس کے خلاف اقدامات، برطانوی و امریکی شخصیات کی جانب سے ٹرمپ کی تعریف

    روسی تیل و گیس کے خلاف اقدامات، برطانوی و امریکی شخصیات کی جانب سے ٹرمپ کی تعریف

    روسی تیل و گیس کے خلاف اقدامات پر برطانوی و امریکی شخصیات کی جانب سے ٹرمپ کی تعریف ہونے لگی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بہادرانہ اور منطقی کام کیا، آخر کار ان ممالک کو سزا دی جو روسی تیل و گیس خرید کر پیوٹن کی شیطانی جنگی مشین کو فنڈ فراہم کرتے ہیں۔

    بورس جانسن نے سوال کیا کہ برطانیہ اور باقی یورپ میں ایسا کرنے کی ہمت کب ہوگی؟ ادھر امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سستا روسی تیل خریدنا اب اتنا آسان نہیں رہا جو پہلے تھا، پیوٹن کا تیل خریدتے رہے تو ٹیرف کے بغیر امریکی معیشت تک رسائی نہیں ملے گی۔


    50 فی صد ٹیرف کے 8 گھنٹے بعد ٹرمپ نے بھارت کو ایک اور بڑی دھمکی دے دی


    لنزے گراہم نے کہا میں بھارت پر اضافی 25 فی صد ٹیرف لگانے کے فیصلے کو سراہتا ہوں، جو روس سے سستا تیل لینے میں ملوث ہیں وہ اب کسی اور کی بجائے خود کو مورد الزام ٹھہرائیں۔

    واضح رہے کہ ٹرمپ نے گزشتہ روز بھارت پر اضافی 25 فی صد ٹیرف لاگو کر دیا ہے، ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر میں وجہ بتائی کہ انھیں معلوم ہوا تھا کہ حکومت ہند فی الحال براہ راست یا بالواسطہ طور پر روسی فیڈریشن کا تیل درآمد کر رہی ہے۔

    سی این بی سی کو ایک انٹرویو میں منگل کو ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اگلے 24 گھنٹوں کے دوران ہندوستان پر بہت زیادہ ٹیرف بڑھائیں گے، کیوں کہ وہ روسی تیل خرید رہے ہیں، اور جنگی مشین کو ایندھن دے رہے ہیں۔

  • کراچی بندرگاہ پر روسی جہاز سے تیل کی منتقلی مکمل

    کراچی بندرگاہ پر روسی جہاز سے تیل کی منتقلی مکمل

    کراچی: روسی جہاز سے تیل کی منتقلی کراچی بندرگاہ پر مکمل ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی بندرگاہ پر روسی جہاز سے تیل کی منتقلی مکمل ہو گئی، 45 ہزار میٹرک ٹن تیل سے لدا جہاز اتوار کو کراچی پہنچا تھا۔

    پیور پوائنٹ نامی جہاز میں 45 ہزار 142 میٹرک ٹن تیل تھا، روسی آئل ٹینکر پیور پوائنٹ کو او پی ٹو پر برتھ کیا گیا تھا، دوسرا تیل بردار جہاز آئندہ ہفتے روس سے کراچی کی بندرگاہ پہنچے گا۔

    واضح رہے کہ اس تیل کی آمد اس ریجنل کنیکٹویٹی سے جڑا ایک قدم ہے جو گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والے اسی سسلسلے کے قابل ذکر اقدامات میں سے ایک ہے۔

    11 جون 2023 کو کُل ایک لاکھ ٹن روسی خام تیل میں سے 45 ہزار ٹن کراچی بندرگاہ پر پہنچا، جس کی درآمدی ادائیگی چینی یوآن میں کی گئی، 12 جون کو روسی ایل پی جی گیس کے 10 کنٹینرز طور خم کے مقام پر پاک افغان سرحد کے راستے پاکستان پہنچے، جس کی درآمدی ادائیگی چینی یوآن میں کی گئی۔

    7 جون کو این ایل سی نے افغانستان کے راستے ازبکستان، قازقستان برآمدی سامان پہنچایا، یہ پہلا موقع ہے جہاں دونوں ملکوں کے ساتھ برآمدات کے لیے زمینی راستہ استعمال کیا گیا ہے، 4 مئی کو چمن بارڈر کے ذریعے زمینی راستے سے ترکمانستان سے سستی ایل پی جی 160 ٹن درآمد کی گئی۔

    22 مئی 2023 کو پاک ایران بارڈر پر مند پشین بارڈر سسٹیننس مارکیٹ پلیس کو فعال کر دیا گیا، یہ تعمیر ہونے والی کل 6 سرحدی مارکیٹوں میں سے پہلی ہے، یہ انتہائی خوش آئند خبر ہے کہ پاکستان بتدریج علاقائی روابط کے مرکز کے طورپر پوزیشن کو محفوظ کر رہا ہے، پاکستان مستقبل میں بھی معاشی بہتری اور ریجنل کنیکٹویٹی کے لیے مسلسل اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

  • روسی تیل کی خریداری پر بھارت کا یورپی یونین کو جواب

    روسی تیل کی خریداری پر بھارت کا یورپی یونین کو جواب

    نئی دہلی: بھارتی وزیر خارجہ نے یورپی یونین کے سربراہ جوزپ بوریل کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے انھیں ’مشورہ‘ دیا ہے کہ وہ ’کونسل کے قواعد پر نظر ڈالیں۔‘

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق جوزپ بوریل نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپی یونین اُن انڈین پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے خلاف اقدامات اٹھائے گا جن میں روسی تیل استعمال ہو رہا ہو۔

    اس بیان پر رد عمل میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ یورپی یونین کے سربراہ کو کونسل کے قواعد و ضوابط پر نظر ڈالنی چاہیے۔ انھوں نے کہا ’’روسی خام تیل تیسرے ملک میں کافی حد تک تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کو روسی تیل نہیں سمجھا جاتا۔‘‘

    جے شنکر نے کہا ’’میں آپ سے کونسل کے ضابطے 833/2014 کو دیکھنے کی گزارش کرتا ہوں۔‘

    جوزپ بوریل نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’یورپی یونین کو روس اور انڈیا کے درمیان تیل کی تجارت پر اعتراض نہیں ہے، تاہم یورپی یونین کو انڈیا سے آنے والی ان مصنوعات کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہیے جس میں روسی تیل استعمال کیا گیا ہو۔‘‘

  • روسی تیل کی درآمدات سے بھارت کو کون سا بڑا فائدہ ہوا؟

    روسی تیل کی درآمدات سے بھارت کو کون سا بڑا فائدہ ہوا؟

    رواں مالی سال میں روس سے خام تیل کی درآمد سے بھارت کو یورپ کے لیے اپنی برآمدات بڑھانے میں بڑی مدد ملی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مالی سال 2022-23 میں روس سے خام تیل کی ریکارڈ درآمدات نے بھارت کے ریفائنرز کو ڈیزل اور جیٹ ایندھن کی یورپ کو برآمدات بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

    سستے روسی خام تیل تک رسائی نے بھارتی ریفائنریوں میں تیل کی پیداوار اور منافع کو بڑھادیا ہے، جس سے وہ اپنی مصنوعات یورپ کو برآمد کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔

    روس یوکرین جنگ سے پہلے یورپ عام طور پر اوسطاً 154,000 بیرل یومیہ ڈیزل اور جیٹ ایندھن بھارت سے درآمد کرتا تھا۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے 5 فروری سے روسی تیل کی مصنوعات کی درآمد پر پابندی کے بعد یہ بڑھ کر 200,000 تک پہنچ گئی۔

    اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں مارچ میں روسی خام تیل کی درآمدات مالی سال کے اختتام پر سب سے زیادہ رہی جس کی وجہ سے بھارت روس سے تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا فراہم کنندہ ہے۔

    کیپلر اور ورٹیکسا کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی ریفائنرز نے مالی سال میں اس کا 9لاکھ 70ہزار اور 9لاکھ 81ہزار بیرل یومیہ درآمد کیا جو مجموعی درآمدات کا پانچواں حصہ ہے اور بھارتی ڈیزل کے اہم یورپی خریدار فرانس، ترکی، بیلجیم اور نیدرلینڈز ہیں۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر انڈیا کی نجی کمپنیاں سستا روسی تیل درآمد کر رہی ہیں جس سے مستقبل میں زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر پڑسکتا ہے۔

    روس کی سب سے بڑی تیل پیدا کرنے والی کمپنی "روزنیفٹ” اور سرفہرست بھارتی ریفائنر انڈین آئل کارپوریشن نے بھارت کو فراہم کیے جانے والے تیل کی درآمدات کو بڑھانے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

  • روس کی پاکستان کو تیل کی فراہمی میں امریکا رکاوٹ ڈالے گا: روسی وزیر خارجہ

    روس کی پاکستان کو تیل کی فراہمی میں امریکا رکاوٹ ڈالے گا: روسی وزیر خارجہ

    ماسکو: روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ روس کی پاکستان کو تیل کی فراہمی میں امریکا رکاوٹ ڈالے گا۔

    تفصیلات کے مطابق روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکا، روس کی پاکستان کو تیل کی فراہمی کے معاہدے میں رکاوٹ ڈالے گا۔

    وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے ہمراہ پریس کانفرنس میں روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا پاک روس توانائی ڈیل روکنے کی کوشش کرے گا۔

    سرگئی لاوروف نے کہا کہ امریکا شرمناک اور غرور بھرے لہجے میں ہر ملک کو روس سے تجارت کرنے سے روکتا ہے، انھوں نے کہا امریکا نے حال ہی میں چین کو بھی دھمکایا ہے، جب کہ بھارت، ترکی اور مصر کو بھی دھمکیاں دی ہیں۔

    واضح رہے کہ وزیرخارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری اس وقت اپنے روسی ہم منصب کی دعوت پر ماسکو کے دورے پر ہیں، جہاں ان کی روس کے وزیر خارجہ سے وفود کی سطح پر بات چیت ہوئی ہے۔

  • روسی تیل پر قیمت کی حد، ماسکو نے پہلے ہی سے تیار ہونے کا انکشاف کر دیا

    روسی تیل پر قیمت کی حد، ماسکو نے پہلے ہی سے تیار ہونے کا انکشاف کر دیا

    ماسکو: یورپی یونین کے بعد جی سیون ممالک اور آسٹریلیا نے بھی روسی تیل پر پرائس کیپ کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    روسی میڈیا کے مطابق ماسکو نے پرائس کیپ کے تحت تیل کی فروخت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس اقدام کی پابندی نہیں کرے گا، چاہے اسے تیل کی پیداوار میں کٹوتی ہی کرنی پڑے۔

    ترجمان کریملن دیمیتری پیسکوف نے صورت حال کے لیے پہلے سے تیار ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلے کو ہم قبول نہیں کرتے اور اس کے خلاف ہماری تیاری مکمل ہے، جلد ہی اقدام اٹھائیں گے۔ ماسکو نے کہا کہ قیمتوں کی حد میں اضافے والے یورپی ممالک کو تیل کی سپلائی کی معطلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس کی خبر رساں ایجنسی ٹاس نے ہفتے کے روز کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ اس سال سے یورپ روسی تیل کے بغیر گزارہ کرے گا۔

    پرائس کیپ کے حوالے سے مزید تفصیلات بھی سامنے آئی ہیں، روسی تیل 60 ڈالر فی بیرل سے زائد فروخت پر شپمنٹ کی انشورنس اور فنانس پر پابندی ہوگی۔

    گروپ آف سیون (جی 7) کی طرف سے مقرر کردہ قیمت کی حد کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی طرف سے روسی سمندری تیل پر مکمل پابندی پیر کے روز سے عمل میں آ گئی ہے، یہ دونوں بلاک یوکرین میں جنگ کی مالی اعانت جاری رکھنے کے لیے کریملن کی صلاحیت کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

    دوسری طرف روس نے خبردار کیا ہے کہ مغرب کا یہ اقدام توانائی کی عالمی منڈیوں کو عدم استحکام سے دوچار کر دے گا، روسی تیل پر پرائس کیپ کے مغرب کے اقدام سے سپلائی میں کمی ہو جائے گی۔

    الجزیرہ کے مطابق جمعہ کو G7، EU اور آسٹریلیا نے روسی تیل کی قیمت کی حد 60 ڈالر فی بیرل مقرر کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ مئی 2022 میں، یورپی یونین نے روسی سمندری خام تیل پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ 27 رکنی بلاک نے یہ بھی کہا ہے کہ ریفائنڈ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر پابندی 5 فروری 2023 سے نافذ ہوگی۔

    یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل کے مطابق، یہ پابندی یورپی یونین میں آنے والے روسی تیل کی دو تہائی سے زیادہ درآمدات پر محیط ہے۔ انھوں نے اس پابندی کو یورپی یونین کے اتحاد کی علامت قرار دیا اور ایک ٹویٹ میں کہا کہ اس سے روس پر جنگ ختم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ پڑے گا۔

    یورپی یونین کی جانب سے تیل کی پابندی یورپی یونین کے آپریٹرز پر بھی لاگو ہوتی ہے، جو دنیا بھر میں روسی خام تیل لے جانے والے جہازوں کا بیمہ اور مالی اعانت کرتے ہیں، لیکن اس کا اطلاق پائپ لائنوں کے ذریعے بلاک میں آنے والی روسی تیل کی درآمدات پر نہیں ہوتا۔ 1964 میں کام شروع کرنے والی تیل کی Druzhba پائپ لائن سے جرمنی، پولینڈ، ہنگری، سلوواکیہ، جمہوریہ چیک اور آسٹریا سمیت کئی وسطی اور مشرقی یورپی ممالک کو روسی تیل کی سپلائی ہو رہی ہے۔

    جرمنی، پولینڈ اور آسٹریا نے اس سال کے آخر تک روسی تیل کی درآمدات کو مکمل طور پر ختم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اس پابندی کی حمایت کی ہے۔ لیکن ہنگری، جمہوریہ چیک، سلوواکیہ اور بلغاریہ اب بھی روسی پائپ لائن کے تیل پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں اور انھیں اس وقت تک درآمدات جاری رکھنے کی اجازت ہوگی جب تک کہ وہ متبادل سپلائی کا بندوبست نہیں کر لیتے۔ تاہم، یورپی کمیشن کے مطابق، پائپ لائن کی ان درآمدات کو دیگر یورپی یونین سے منسلک ممالک یا غیر یورپی یونین ممالک کو دوبارہ فروخت نہیں کیا جا سکتا۔

  • روسی تیل سے متعلق یورپی یونین نے ایک بڑے فیصلے پر اتفاق کر لیا

    روسی تیل سے متعلق یورپی یونین نے ایک بڑے فیصلے پر اتفاق کر لیا

    برسلز: یورپی یونین نے آخر کار روسی تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے پر اتفاق کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی اتحاد روس کے سمندری ترسیل والے خام تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل مقرر کرنے پر متفق ہو گیا ہے۔

    یورپی یونین کی صدر ارسلا وان ڈر لیئن کے مطابق قیمتوں کے تقرر کی حد سے روس کی آمدنی میں نمایاں کمی آئے گی، روس صرف ٹینکر کے ذریعے رعایتی قیمتوں پر تیل برآمد کر سکے گا۔

    دوسری جانب روس نے ایسی کسی بھی حد کو ماننے سے انکار کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس طرح کا فیصلہ مارکیٹ کے تمام نظام کو متاثر کرے گا اور تیل کی عالمی صنعت پر منفی اثرات پڑیں گے۔

    روئٹرز کے مطابق گروپ آف سیون (جی 7) ممالک اور آسٹریلیا نے جمعہ کے روز کہا کہ انھوں نے روسی سمندری خام تیل پر 60 ڈالر فی بیرل قیمت کی حد مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے، اس سے قبل یورپی یونین کے ارکان نے اس سلسلے میں پولینڈ کی جانب سے مزاحمت پر قابو پایا تھا۔

    یورپی یونین نے پولینڈ کی حمایت کے بعد قیمت پر اتفاق کیا، جس سے ہفتے کے آخر میں باضابطہ منظوری کی راہ ہموار ہوئی۔ G7 اور آسٹریلیا نے ایک بیان میں کہا کہ قیمت کی حد 5 دسمبر یا اس کے بہت جلد بعد نافذ ہو جائے گی۔

    ادھر امریکا نے کہا ہے کہ روسی تیل کی قیمت پر یہ نئی حد پیوٹن کی آمدنی کے سب سے اہم ذریعے کو متاثر کرے گی، امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے کہا کہ یہ پرائس کیپ جسے جمعہ کو مغربی اتحادیوں نے باضابطہ طور پر منظور کیا تھا، مہینوں کی محنت کے بعد سامنے آیا ہے۔

    انھوں نے کہا کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک جو توانائی اور خوراک کی اونچی قیمتوں سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں، خاص طور پر اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ انھوں نے کہا یہ حد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی مالیات کو مزید محدود کر دے گی۔

  • روسی تیل خریدنے پر بھارتی کمپنی کے ساتھ عالمی سطح پر لین دین بند

    روسی تیل خریدنے پر بھارتی کمپنی کے ساتھ عالمی سطح پر لین دین بند

    نئی دہلی: روسی تیل خریدنے پر بھارتی ریفائنر کے ساتھ عالمی سطح پر لین دین بند کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق تیل کی عالمی کمپنیوں اور بینکوں نے روس سے تیل خریدنے پر بھارتی فرم نیارا انرجی کے ساتھ لین دین بند کر دیا ہے۔

    یورپ سمیت بیش تر پروڈیوسرز نے نیارا انرجی کو براہِ راست تیل فروخت کرنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد بھارتی کمپنی اب مشرقِ وسطیٰ، چینی اور روسی کمپنیوں تک محدود ہو گئی ہے۔

    خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق روسی کمپنی روزنیفٹ بھارتی ریفائنری نیارا انرجی میں 49 فی صد حصص کی مالک ہے، نیارا انرجی بھارت کی دوسری بڑی پرائیویٹ ریفائنر ہے۔

    ذرائع کے مطابق عالمی کمپنیاں اور بینک یوکرین پر روس کے حملے کے تناظر میں مغربی پابندیوں کے خدشے کا شکار ہیں۔ اگرچہ نیارا انرجی پر یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں کوئی پابندی نہیں لگی، تاہم روسی کمپنی روزنیفٹ پر پابندیاں عائد ہیں۔

    روئٹرز کے مطابق زیادہ تر تجارتی فرموں بشمول Vitol اور Glencore کے ساتھ ساتھ کینیڈا، لاطینی امریکا اور یورپ میں پروڈیوسرز نے نیارا کو براہ راست خام تیل فروخت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

  • چین نے روسی تیل کی درآمدات میں اضافہ کر دیا

    چین نے روسی تیل کی درآمدات میں اضافہ کر دیا

    بیجنگ: چین نے روسی تیل کی درآمدات میں اضافہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چین نے روسی توانائی کی درآمدات میں اضافہ کر دیا ہے، یورپی ممالک کی جانب سے روسی گیس پر انحصار محدود کرنے کی کوششوں کے درمیان چین اور روس کے درمیان تجارتی تعلقات مزید فروغ پا رہے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق چین روس سے توانائی کی بڑی مقدار درآمد کر رہا ہے، مسلسل تیسرے ماہ کے دوران بھی روس چین کے لیے تیل کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔

    جولائی میں چین نے کل 7.15 ملین ٹن روسی تیل درآمد کیا جو کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں 7.6 فی صد زیادہ ہے۔

    چین کی روس سے کوئلے کی درآمدات جولائی میں 7.42 ملین ٹن کے ساتھ پانچ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں، جو پچھلے سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں تقریباً 14 فی صد زیادہ ہیں۔

    دوسری جانب یورپی یونین تقریباً 6 ماہ قبل شروع ہونے والی روس یوکرین جنگ کے بعد سے روسی توانائی کی سپلائی پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ایسے میں چین روس سے اشیا کی قیمتوں میں رعایت کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ بیجنگ نے اب تک یوکرین میں روس کی جنگ کی مذمت نہیں کی ہے، چینی حکومت کی جانب سے کئی مواقع پر روس کو حمایت کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے۔

    چینی و روسی سربراہان کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں چین کی جانب سے بنیادی مفادات، خود مختاری اور سلامتی جیسے خدشات سے متعلق امور پر روس کو باہمی تعاون کی پیش کش جاری رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

    اس حمایت کے اعلان کے بعد کریملن سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے مغرب کی غیر قانونی پابندیوں کی پالیسی کی وجہ سے عالمی معیشت کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے توانائی، مالیاتی، صنعتی، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے پر بھی اتفاق کیا۔

  • سری لنکا کا روس سے مزید تیل اور گندم خریدنے کا فیصلہ

    سری لنکا کا روس سے مزید تیل اور گندم خریدنے کا فیصلہ

    کولمبو: سری لنکا کے نو منتخب وزیر اعظم نے کہا کہ سری لنکا روس سے مزید تیل خریدنے پر مجبور ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا ملک شدید معاشی بحران کی وجہ سے سستا ایندھن تلاش کر رہا ہے۔

    وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے کہا کہ وہ تمام ذرائع کو دیکھیں گے لیکن ماسکو سے مزید خام تیل خریدنے کے لیے تیار ہوں گے۔

    یاد رہے کہ یوکرین میں روس کے فوجی آپریشن پر پابندیوں کی وجہ سے مغربی ممالک نے بڑے پیمانے پر روس سے توانائی کی درآمدات بند کردی ہیں۔

    سری لنکن وزیر اعظم وکرما سنگھے نے یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ اپنے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں کے باوجود چین سے مزید مالی مدد قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ سری لنکا کی موجودہ حالت بری ہے اور یوکرین میں جنگ اسے مزید بدتر بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روس نے سری لنکا کو گندم کی پیشکش بھی کی ہے۔

    سری لنکا نے 51 بلین ڈالر کا غیر ملکی قرضہ جمع کیا ہے، لیکن اس نے اس سال تقریباً 7 بلین ڈالر کی ادائیگی روک دی ہے۔

    کرشنگ قرض نے ملک کے پاس بنیادی درآمدات کے لیے پیسے نہیں چھوڑے ہیں جس کا مطلب ہے کہ شہری بنیادی ضروریات جیسے کہ خوراک، ایندھن، ادویات حتیٰ کہ ٹوائلٹ پیپر اور ماچس تک رسائی کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔

    توانائی کی قلت نے بجلی کی بندش کو بھی جنم دیا ہے، لوگ کئی کلومیٹر (میل) تک پھیلی لائنوں میں کھانا پکانے کے لیے گیس اور پیٹرول کے لیے کئی دن انتظار کرنے پر مجبور ہیں۔