Tag: Saadeqa Khan

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    ایک ہفتے بعد وہ پوری طرح ہوش میں آئی تھی۔۔ اُس کے پورے جسم میں صرف آنکھیں تھیں۔۔ جنھیں وہ جنبش دے سکتی تھی اور باقی سارا جسم جیسے بے جان تھا ۔۔ ڈاکٹرز اور نرسیں کئی روز تک ۔۔منتہیٰ کے پاس آکر اسے جھوٹی تسلیاں اور تھپکیاں دیکرجاتے رہے ۔۔ دس دن بعد اپنے پاس جو پہلا شناسا چہرہ اُسے نظر آیا ۔۔۔ وہ ۔۔ ارمان یوسف تھا ۔۔ بڑھی ہوئی شیو ۔۔ ستا ہوا چہرہ۔۔ اور سرخ متورم آنکھیں اُس کے رت جگوں کی گواہ تھیں ۔۔۔ منتہیٰ اُس سے نظر ملانے کی ہمت ہی نہیں کرسکی ۔۔ سرابوںکے تعاقب میں جس شخص کو اُس نے سب سے پہلے چھوڑا تھا ۔۔۔ وہ آج کڑے وقت پر سب سے پہلے آیا تھا ۔
    جس کی آنکھوں سے چھلکتے درد کو پڑھنے کے لیئے آج منتہیٰ دستگیر کو کسی عدسے کی ضرورت ہر گز نہیں تھی ۔۔ کامیابیوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ بھول گئی تھی کہ وقت کی تلوار بہت بے رحم ہے ۔۔ اور دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے ۔۔۔’’ یقیناًیہ بد نصیبی کی انتہا ہوتی ہے کہ انسان اپنے در پر آئی اللہ پاک کی رحمت کو ٹھکرا دے ۔۔ سچی محبت اور نیک جیون ساتھی عورت کے لیے اللہ کا بہت بڑا انعام ہوتے ہیں ۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عروج کی چوٹیوں کو سر کرنے والی ہر عورت کے پیچھے ایک نہیں ۔۔ کئی مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے ۔۔فاروق صاحب۔ ڈاکٹر یوسف اور پھر ارمان ۔۔ خدا نے اُسے یہ تین مضبوط ستون عطا کیے تھے ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    مگر سارا کریڈٹ خود بٹورنے کی دُھن میں منتہیٰ نے منہ کی کھائی تھی ۔‘‘
    زندگی اتفاقات ، واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے ۔۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب کون سا واقعہ یا حادثہ آپ کو کسی بند گلی کے موڑ پر لیجا کر چھوڑ دیگا ۔۔جہاں اسے ایک بے مصرف زندگی گزارنی پڑے گی۔۔ ایک کامیاب ترین زندگی سے ایک بے مصرف وجود تک پہنچ جانے میں انسان پر کیا کچھ بیت جاتی ہے ۔۔یہ وہی جان سکتا ہے جو اِن حالات سے گزرے۔۔ تب زندگی گزارنے اور اِسے بیتنے کااصل مفہوم سمجھ میں آتا ہے ۔۔۔
    پہلے اُس کے پاس زندگی کو سمجھنے کا وقت نہیں تھا ۔۔ اور اَب ۔۔ جب وقت ملا تھا ۔۔ تو زندگی اُس سے روٹھ گئی تھی ۔

    ***********

    اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے ۔۔۔
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا ، تم بہت دیر تک یاد آتے رہے۔۔

    دو ماہ پہلے پیل لیک کے کنارے کاٹی ایک رات اُس کی زندگی کی کھٹن ترین راتوں میں سے ایک تھی ۔۔اور آج پھر ارمان کو ایک ایسی ہی رات کا سامنا تھا ۔۔ فرق صرف یہ تھا ۔۔۔اُس رات ۔۔ جس دشمنِ جاں نے رلایا تھا اور آج اُسی کے دکھ میں آنسو چھلکے تھے ۔۔
    صبح اُس کی منتہیٰ کے ڈاکٹرز کے ساتھ فائنل میٹنگ تھی ۔۔ ڈاکٹرز کو سپائنل چورڈ کی ایم آر آ ئی رپورٹ کا انتظار تھا کیا وہ عمر بھر کے لیے معذور ہوجا ئیگی ۔۔۔ ؟؟ یہ سوال ۔۔ عجیب دیوانگی اور وحشت میں وہ شدید ٹھنڈ میں اسپتال سے نکلا تھا ۔۔یونہی سڑکوں پر دھول اُڑاتے اُس نے ساری شام کاٹی ۔۔ یہ دُھول تو شاید اب اُس کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔۔

    زہر ملتا رہا ‘ زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتے رہے۔۔
    زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے ۔۔

    بے د ھیانی میں زور سے ٹھوکر لگنے پر ارمان منہ کے بل گرا ۔۔ اُس نے گرد آلود آنکھوں کو مسل کر دیکھا۔۔ سامنے ہاسٹن کا اِسلامک سینٹر تھا ۔۔ وہ آیا نہیں تھا ۔۔ لایا گیا تھا ۔۔ وضو کر کے وہ چپ چاپ امام صاحب کے گردلوگوں کے گروپ میں جا بیٹھا ۔۔جن کی شیریں آواز سماعتوں میں رَس گھول رہی تھی ۔۔۔

    ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیںُ ان کے لیئے ہدایت اور نصیحت ہے ، دل شکستہ نہ ہو ۔۔ یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں میں گردش دیتے رہتے ہیں ۔۔ تم پر یہ وقت اِس لیئے لایا گیا کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں ۔۔ ‘‘ ( سورۂ الِ عمران) ۔

    خدا کی اِس وسیع و عریض کائنات کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں ہر شے متحرک ہے۔۔ ہر رات کہ بعد سحر اگر خدا کا قانون ہے ، تو ہر آسائش کے بعد تکلیف اور ہرُ دکھ کے بعدُ سکھ کی گھڑی بھی اِسی اللہ کے حکم سے میسر آتی ہے زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ ہر وہ شخص جس نے اچھا وقت دیکھا ہو ۔۔ اُسے کبھی نہ کبھی بدترین حالات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے اعمال سے کچھ لینا د ینا نہیں ۔۔ وہ ہر شے سے بہت بلند ہے ۔
    امام صاحب ایک لمحے توقف کو رکے ۔۔

    ”آپ کی زندگی میں آنا والا برا وقت خدا نخواستہ آپکے اعمال پر اللہ کا عذاب نہیں ہوتا ۔کبھی یہ محض ایک اشارہ ہوتا ہے کہ آپ بھٹک کر کہیں اور نکلنے لگے ہیں ۔۔ تو اپنی اوقات، اپنی اصل پر واپس آجائیے ۔کبھی یہ آزمائش ہوتی ہے ۔ جس طرح لوہا آگ میں تپ کر اور موتی سیپ میں ایک متعین وقت گزار کر باہر آتا ہے ۔اِسی طرح ہر انسان کے اندر چھپی اُس کی ہیرا صفت خصلتیں آزمائشوں کی کھٹالی سے گزر کر کچھ اور نکھر کر سامنے آتی ہیں اور اِس کھٹالی سے یقیناًوہی کندن بن کر نکلتے ہیں ۔جن کا ایمان اورتوکل خالص اللہ تعالیٰ پرہوتا ہے۔ "وقت کبھی رکتا نہیں گزر جاتا ہے لیکن کچھ گھڑیاں ، کچھ ساعتیں ، کچھ آزمائشیں اپنے پیچھے اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں۔اور یقیناً فلاح وہی پاتے ہیں جو صرف اپنے رب سے مانگتے ہیں اور وہ اپنے ہر بندے کی یکساں سنتا ہے ۔۔”بے اختیار ارمان کے ہاتھ دعا کے لیئے اٹھے تھے ۔۔ اور ۔۔ دل کی گہرائیوں سے اَوروں کے لیئے مانگی جانے والی دعائیں اللہ تعالیٰ کے دربار سے کبھی رَد نہیں ہوا کرتیں ۔

    ***********

    منتہیٰ کے پاس سے کچھ دیر پہلے نینسی گئی تھی ۔۔ اُس نے کسلمندی سے آنکھیں موندی ہی تھیں کہ دروازہ کھلا۔۔ اور ارمان داخل ہوا ۔۔ اُس کے ہاتھ میں خوبصورت سا بُوکے تھا ۔
    آل اِز ویل ہر گز نہیں تھا ۔ مگر منتہیٰ کی ایم آر آئی حیرت انگیزطور پر کلیئر آئی تھی ۔ بیس ہزار فٹ کی بلندی سے گرنے کے بعد ریڑھ کی ہڈی کا سلامت رہنا یقیناً ایک معجزہ تھا ۔لیکن اُس کی بائیں ٹانگ میں دورانِ خون بند تھا ۔۔ وقتی یا عمر بھر کی معذوری تلوار ہنوز سر پر لٹکی تھی ۔۔ لیکن ہمت توکرنا تھی ۔ ارمان ۔ آپ کو ڈاکٹرز نے ایم آر آئی رپورٹ دیکھ کر کیا بتایا ہے ۔۔؟؟ آئرن لیڈی ہر نا گہانی کے لیے خود کو تیار کیے بیٹھی تھی ۔ ارمان کھڑکی کے قریب کھڑا تھا اور منتہیٰ کی طرف اُس کی پشت تھی ۔۔ وہ مڑا ۔۔ اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اُس کے بیڈ تک آیا ۔۔
    ڈونٹ وری منتہیٰ ۔۔ آپ کی ایم آر آئی بالکل ٹھیک آئی ہے ۔۔ اور باقی باڈی انجریز سے صحت یاب ہونے میں آپ کو چارسے چھ ماہ کا عرصہ لگے گا۔۔ وہ آدھا سچ بتا کر آدھا چھپا گیا ۔
    منتہیٰ نے بہت غور سے اُسے دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ کا گُھنا تھا ۔۔ اندر کا حال پتا ہی نہیں لگنے دیتا تھا ۔ وہ گھنٹوں اسپتال میں اُس کے پاس یوں گزارتا ۔۔ جیسے سارے کاموں سے فارغ بیٹھا ہو ۔۔نیوز پڑھ کے سناتا ۔۔ کبھی ایس ٹی ای کے پراجیکٹس کی تفصیلات بتاتا ۔۔ کبھی لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتا اور ایسٹرانامی پر اس کی پسند کے آرٹیکلز سرچ کرتا۔۔
    منتہیٰ کو ہاسپٹل میں دو ماہ ہونے کو آئے تھے ۔۔ اُس کے فریکچرز تیزی کے ساتھ بہترہو رہے تھے لیکن ڈسچارج ہونے کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک اُسے ایکسر سائز اور ٹریٹمنٹس کی ضرورت تھی ۔۔جس کے لیے اس کے پاس کسی کا موجود ہونا ضروری تھا ۔ منتہیٰ فی الحال سفر کے قابل نہیں تھی اِس لیے فاروق صاحب ، رامین کو اس کے پاس ہاسٹن بھیج رہے تھے۔۔ رامین کی چند ماہ بعد رخصتی طے تھی ۔۔۔ مگر فی الحال اُن سب کے لیے سب سے بڑا مسئلہ منتہیٰ کی صحت یابی تھی ۔

    ***********

    اُن کا ہیلی کاپٹر تقریباً۲۱ ہزار فٹ کی بلندی پر تھا ۔ اِس سے پہلے منتہیٰ کی ساتھی ٹرینر مارلین ۔ نندا اور ربیکا اِسی بلندی سے چھلانگ لگا چکی تھیں اور نیچے اُن کے پیرا شوٹ چھتریوں کی طرح گول گول گھومتے نظر آ رہے تھے ۔’’ون ۔۔ ٹو۔ ۔ تھری ‘‘۔۔
    اور پھر انسٹرکٹر کے ا شارے پر منتہیٰ نے جمپ لگائی ۔۔۔ بچپن سے امی اور دادی کی ہر کام بسم اللہ پڑھ کر شروع کرنے کی ہدایت آج بھی اُس کے ساتھ تھی ۔
    تقریباًپندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر آکر انہیں پیرا شوٹ کھولنے کی ہدایت دی گئی تھی ۔۔ ایک ، دو ، تین ۔۔۔ ہر دفعہ بٹن دبانے پر صرف کلک کی آواز آئی ۔۔۔ شدید گھبراہٹ میں اُس نے نیچے چودہ ہزار فٹ کی گہرائی کو دیکھا ۔۔
    ’’ہیلپ می اللہ ۔۔ ہیلپ می اللہ۔۔۔‘‘
    دو مہینے میں یہ خواب شاید اُسے دسویں بار نظر آیا تھا ۔۔ وہ دوپہر کی سوئی تھی ۔۔اوراب مغرب کا وقت تھا۔۔ اُس نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔۔۔ بیڈ سے کچھ فاصلے پر۔۔ ارمان جانما ز پر دعا کے لیئے ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔۔ منتہیٰ یک ٹک اسے دیکھے گئی ۔۔۔ دو ۔۔ پانچ ۔۔ پورے دس منٹ بعد اُس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر جا نماز لپیٹی اور پلٹا۔۔ منتہیٰ کو یوں اپنی جانب دیکھتا پاکر چونکا ۔۔۔
    آپ کب جاگیں منتہیٰ۔۔؟؟۔۔ وہ آج بھی پہلے کی طرح احترام سے اُس کا نام لیتا تھا ۔ لیکن منتہیٰ کچھ کہے بغیر چپ چاپ چھت کو گھورتی رہی ۔۔ وہ کچھ قریب آیا
    کیا بات ہے منتہیٰ طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔ ٹمپریچر تو نہیں ۔۔؟؟
    اور پیشانی پرُ اس کے لمس نے جیسے منتہیٰ کی ساری حسیات بیدار کردی تھیں ۔۔ بہت دنوں سے ۔۔ بہت سے رکے ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔
    اور ارمان اپنی جگہ گنگ تھا ۔۔۔ یہ آنسو ۔۔ اُس کے لیے اجنبی تھے ۔۔ آئرن لیڈی کبھی روئی ہی نہ تھی ۔۔ منتہیٰ۔۔ کیا بات ہے ۔۔ درد بڑھ گیا ہے کیا ۔۔؟؟ ۔۔وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
    ار۔۔ارمان۔۔وہ اَٹکی اندر بہت کچھ۔ بہت پہلے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو چکا تھا ۔۔ بس ایک اعتراف ۔ایک معافی ۔۔
    ’’ارمان مجھے معاف کر دیں ‘‘۔۔۔ہچکیوں کے درمیان بہ مشکل ارمان کو اُس کے الفاظ سمجھ میں آئے۔۔ اُس نے سختی سے آنکھیں بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔۔ منتہیٰ کو یوں روتے دیکھنا ۔۔ اُس کے لیے دو بھر تھا ۔۔
    آنسو نہ کسی کی کمزوری کی علامت ہوتے ہیں ۔۔ نہ کم ہمتی کی ۔۔ اشک بہہ جائیں تو من شانت ہو جاتا ہے ۔۔ رکے رہیں تو اندر کسی ناسور کی طرح پلتے رہتے ہیں ۔۔ پانی اگر ایک لمبے عرصے تک کسی جوہڑ یا تالاب میں رکا رہے تو گدلا اور بد بو دارہو جاتا ہے ۔
    ارمان نے اُسے رونے دیا ۔۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑا تھا ۔۔ اپنے سیل کی مدہم سی بیپ پر وہ کمرے سے باہر آیا ۔۔

    ***********

    یار تجھے اپنی جاب کی کوئی فکر ہے یا نہیں ۔۔؟؟ ۔۔دوسری طرف اَرحم ۔۔ چھوٹتے ہی برحم ہوا ۔۔۔ آج فائنل نوٹس آ گیا ہے ۔ اگر تو نے ایک ہفتے تک آفس جوائن نہیں کیا تو ۔۔ تیری چھٹی ہے سمجھا تو ۔۔
    ارمان نے گہری سانس لیکر دیوار سے ٹیک لگایا ۔۔ وہ مجنوں تھا نہ رانجھا ۔ کہ اپنی ہیر کے لیے بن باس لے کر بیٹھا رہتا ۔۔
    پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر میں ایک بہترین جاب ۔۔ ہر نوجوان کا خواب تھی ۔۔
    میں اِسی ہفتے پاکستان آجاؤں گا ۔۔ ارمان نے اَرحم کو مطلع کیا
    دیٹس گڈ ۔۔ پر تیری ہیر کا کیا ہوگا ۔۔؟؟
    منتہیٰ کے پاس چند روز تک رامین آجائے گی ۔
    چل یہ تو اچھا ہوا ۔۔۔ یہ بتا کہ وہ پاکستان کب تک آسکیں گی ۔۔۔؟؟
    پاکستان وہ کیوں آئیں گی ۔۔ صحت یاب ہوکر وہ واپس ناسا کے مشن پر جائیں گی ۔۔ اُن کو اپنے خواب جو پورے کرنے ہیں
    نہ چاہتے ہوئے بھی وہ تلخ ہوا ۔۔
    اور تیرا کیا ہوگا پیارے ۔۔؟؟۔۔ تو جو دو ماہ سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہاسپٹل کا ہوا بیٹھا ہے ۔۔۔ اُ ن کی زندگی میں تیری جگہ ۔۔
    کدھر ہے۔۔۔؟؟؟
    اَرحم ۔۔۔کلوز دس ٹا پک پلیز۔۔ وہ برحم ہوا ۔۔ یہ اس کی دھکتی رگ تھی ۔۔ ہر زخم تازہ تھا ۔۔۔ کچھ بھی تو مند مل نہیں ہوا تھا ۔۔
    مگر وہ دشمنِ جاں شدید اذیت میں تھی ۔۔۔اور اب ۔۔ ایک گہری چوٹ کھا کر نادم بھی ۔۔۔
    ہر فیصلہ وقت کے ہاتھوں چھوڑ کر وہ ہاسپٹل سے فلیٹ چلا آیا ۔۔ ۔ جو اس نے ایس-ٹی-ای کے کچھ امریکی سپانسرز کی مدد سے حاصل کیا تھا ۔۔۔اُسے اب پیکنگ کرنا تھی ۔۔ اِس فلیٹ میں چند دن بعد منتہیٰ نے رامین کے ساتھ منتقل ہوجانا تھا۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    ییل یونیورسٹی میں ارمان کی ساتھی انجینئرز نے اس کی فاؤنڈیشن میں بھرپور دلچسپی لی تھی، کیونکہ قدرتی آفات پاکستان ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں
    بسنے والے افراد کا مشترکہ مسئلہ ہے اور بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ نے اِن آفات کی شرح ایشیائی ممالک
    سمیت یورپ اور امریکہ میں بھی تیز تر کردی ہے "۔۔
    "تقریباٌ چھہ برس قبل سپارکو کے پلیٹ فارم سے پاکستانی انجینئرز نے ڈیزاسٹرمینجمنٹ کی جو تکنیک متعارف کروائی تھی اور پھر۔ قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے ریلیف کے لیئے جس طرح انہوں نے سیو دی ارتھ کو متحرک کیا ۔۔ آج ایشیا ء کے کئی ممالک اسے رول ماڈل کو طور پر اپنائے ہوئے تھے "۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "اس جدوجہد کے دوران ارمان یوسف نے ہی نہیں، آسائشوں اور ائیر کنڈیشنڈ میں پلنے والے اُس جیسے ہزاروں نوجوانوں نےاپنے ہم وطنوں کی غربت ،
    مفلوک الحالی اور اَبتر حالت کو بہت قریب سے دیکھ کر زندگی کا اصل مفہوم جانا تھا ۔۔۔
    "انسانی زندگی کی حقیقت کیا ہے "۔۔؟؟
    ’’ محض روٹی ،کپڑا اور مکان ۔۔ وہ اِس دنیا میں آتا بھی خالی ہاتھ ہے ۔۔ اور جاتے وقت بھی تہی داماں ہی ہوتا ہے‘‘ ۔۔
    ارمان یونیورسٹی سے اپنا کورس مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فاؤنڈیشن کے لیے بھی بھرپور سرگرم تھا ۔اور اِس وقت اس کا بھرپوردھیان تھر
    اورچولستان کے علاوہ ملحقہ ریگستانی علاقوں میں قحط ، خشک سالی اور بھوک سے لڑتی عوام۔۔ کو ریلیف دلانے کی سٹرٹیجی
    بنانے میں پر تھا جس میں اُس کے ساتھی انجینئرز مائیکل اور سٹیون اُس کی بھرپور معاونت کر رہے تھے ۔
    "تھر میں تیزی سے پھوٹتے وبائی امراض سے ہونے والی اموات کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی تھی ۔ جس کے بارے میں اتھاریٹیزٹی وی چینلز پر۔’’ منہ پھاڑ کے بیان دے دیا کرتی تھیں کہ بچے مر رہے ہیں ‘بابا تو ہم کیا کرے۔ بڑے بھی تو مرتے ہیں ۔‘‘
    ’’ مرنا تو ایک دن ہم سب نے ہے لیکن ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اوروں کی موت ہمیں اپنا آخری وقت یاد نہیں دلاتی ۔۔ہم دوسروں کو قبر میں
    اتارتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ انسان کی اصل یہی مٹی ہے ۔۔اربوں کھربوں کے بینک بیلنس ، محل اور
    جائیدادیں جمع کرنے والوں کی قبر کا سائز بھی اُتنا ہی ہوتا ہے جتنا ایک مفلوک الحال مزدور کی قبر کا ، کروڑوں کے برانڈڈ ملبوسات پہننے والے کبھی اپنے لیے
    لاکھوں کا سٹائلش کفن تیار کروا کر کیوں نہیں رکھتے ۔۔؟؟
    شایدِ اس لیے کہ اِس حقیقت سے سب ہی بخوبی آگاہ ہیں ۔۔۔کہ قبر میں جا کر ہر شے نے مٹی ہی ہوجانا ہے ۔‘‘

    ***********

    منتہیٰ کو ہالی ووڈ کی فلمز’’ گریویٹی‘‘ اور’’ انٹرسٹیلر‘‘ اسی لیے سب سے زیادہ پسند تھیں کہ اِن میں خلا کی افسانوی کہانیوں کے بجائے وہ کڑوا سچ دکھایا گیا تھا جو ’’ خلا
    کے سفر‘‘ کو ایک طلسماتی دنیا کے بجائے ۔۔ ایک مشکل ترین چیلنج کے طور پر پیش کرتا تھا ۔
    دل پر بہت سا بوجھ لے کر وہ ہاسٹن کے جانسن سپیس سینٹر میں اپنی ٹریننگ شروع کر چکی تھی ۔ جسے درحقیقت دنیا کی مشکل ترین ٹریننگز میں شمار کیا
    جاتا ہے ۔۔ خلا میں انسانی جسم کو لاحق سب سے بڑا خطرہ گریویٹی کا ہے جس کے سبب بڑے بڑے سورما
    خلا باز مختلف طرح کے جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔۔
    صبح شام انہیں شدید مشکل ایکسرسائز کے مراحل سے گزرنا ہوتا تھا ۔۔ اور پھر ہر دو یا تین دن کے بعد ان کا مکمل جسمانی معائنہ کیا جاتا ۔۔
    منتہیٰ کے ساتھ انڈیا کی نندا اور ربیکا بھی تھیں جو اس کی نسبت زیادہ تناور اور مضبوط خدوخال کی مالک تھیں مگر منتہیٰ کی ذہانت اور چیلنجز سے مردانہ وار نمٹنے کی
    قدرتی صلاحیت ہر چیز پر بھاری تھی۔ٹریننگ سینٹر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ دن رات ایک ساتھ گزارنے کے باوجود ہر کوئی ایک دوسرے سے لا تعلق اور بیگانہ رہتاتھا ۔ منتہیٰ کی اپنے خول میں بند رہنے والی طبیعت کے لیے یہ ماحول کسی نعمتِ مترقبہ سے کم نہ تھا ۔
    اِس دھان پان سی لڑکی کی ذہانت نے ہی نہیں ۔۔ مضبوط قوتِ ارادی اور مشکل حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نے ناسا کےٹرینرز کو کچھ نئے تجربات پر اُکسایا
    تھا ۔
    چار ماہ سے تربیت پانے والے تیس مرد و خواتین کی پراگریس رپورٹ ان کی مکمل پروفائل کے ساتھ ناسا کے مشن کنٹرول کرنے والے سینئر انجینئرز اور
    سائنسدانوں کے سامنے کھلی پڑی تھیں اور وہ سب سر جوڑے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے ، فی الوقت ان کی سب سے بڑی ضرورت پیگی واٹسن کی جگہ انٹر نیشنل سپیس سٹیشن پر طویل مدت تک قیام کے لیے کسی جاندار ،توانا اور مضبوط اعصاب رکھنے والی خاتون کا انتخاب تھا ۔
    تربیت پانے والی دس خواتین میں اب تک سب سے بہتر کارکردگی منتہیٰ کی تھی مگر سینئرز اس کے انتخاب میں اس لیے تذبذبکا شکار تھے کہ وہ نہ صرف مسلمان تھی بلکہ اس کا تعلق پاکستان سے تھا ، ایک ایسا ملک جسے اب دنیا بھر میں’’ دہشت گردوں ‘‘ کی
    آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر اپنے مشن کی مناسبت سے انھیں جس ’’باکرہ پن‘‘ کی ضرورت تھی وہ کسی مغربی خاتون ہی نہیں انڈیا کی نندا اور ربیکا میں بھی ملنامشکل تھی۔
    طویل میٹنگ میں بہت سے اہم فیصلے کرنے کے بعد ایک ایک کرکے سب اٹھ کر جاچکے تھے مگر منتہیٰ کا ٹرینر ایڈورڈ گہری سوچوںمیں غرق اپنی جگہ
    بیٹھا رہا تھا ۔
    کیا یہ لڑکی ان کی توقع کے مطابق معاون ثابت ہو سکے گی ‘‘۔۔؟؟

    ***********

    ارمان کا ٹیلی کام کورس تکمیل کے آخری مراحل میں تھا اور ایک ماہ تک اس کی پاکستان واپسی طے تھی ۔ وہ مائیکل کے ساتھ اُس روز ہاسٹن میں تھا
    جب سیل پر اسے منتہی ٰ کے حادثے کی خبر ملی ۔
    اسپتال میں پٹیوں اور مشینوں میں گھری منتہیٰ کی ایک جھلک دیکھ کر ارمان کا سانس ایک لمحے کوبند ہوا ۔۔
    "اُسے وہ وقت یاد آیا جب وہ خود بھی۔۔ اِسی طرح ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا ۔۔ اُسے توصرف چند گولیاں لگی تھیں ۔۔۔
    مگر یہ لڑکی تو پلاسٹک کی ایسی گڑیا کے طرح بکھری پڑی تھی۔۔ جسے کسی ضدی شرارتی بچے نے
    پرزے پرزے کر ڈالا ہو” ۔
    دو روز پہلے پیرا گلائیڈنگ ٹریننگ کے آخری مرحلے میں بیس ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاتے ہوئے ۔۔ منتہی کا پیرا شوٹ کسی تکنیکی خرابی
    کے باعث بر وقت کھل نہیں پایا تھا ۔۔ اور وہ انتہائی زخمی حالت میں ہسپتال لائی گئی تھی ۔۔ دو دن سے ڈوبتی
    ابھرتی سانسوں کے ساتھ وہ زندگی اور موت کے درمیان معلق تھی ۔
    ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ اگر وہ بچ بھی گئی ۔۔۔” تو عمر بھر کی معذوری یقیناٌ اب اُس کا مقدر تھی "۔۔۔
    اُس کی ایک جھلک دیکھ کر ارمان پلٹا تو پیچھے نینسی کھڑی تھی ۔۔۔ دونوں کی نظریں ملیں ۔۔کسی کے پاس بھی کہنے سننے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔ وہ ایک
    دوسرے سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر وقت کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے ۔
    دو روز تک ارمان اسپتال کے ایک ہی کونے میں بیٹھا رہا۔۔ نینسی اسے چائے ، کافی اور کھانے کی کوئی اور شے لا دیتی تو وہ اس کے اصرار پر جیسے تیسے زہر مار کر لیتا ۔۔جیسے
    جیسے وقت گزر رہا تھا ۔ بھوک، نیند ، تھکاوٹ ۔۔ زندگی کا ہر احساس ختم ہوتا جا رہا
    تھا ۔اور منتہی ٰ کی حالت میں رتی بھر بھی فرق نہ تھا ۔
    "ایک دھندلی دھندلی سی یاد اتنے عرصے بعد بھی کہیں ذہن کے گوشوں میں اٹکی رہ گئی تھی۔۔چند برس قبل وہ خود بھی اسی کیفیت میں کئی روز تک وینٹی لیٹر پر پڑا رہا تھا اور عین اس وقت جب سانس زندگی سے اپنا ناتا توڑنے والی تھی تو ۔ماما کی دعا اسے موت کے منہ سے کھینچ کر زندگی کی طرف واپس لے آئی تھی”۔
    اس نے اب تک پاکستان میں اپنی اور منتہیٰ کی فیملی کو اس حادثے کی اطلاع نہیں دی تھی۔جب کے دوسرے ذرائع جن سے انھیں خبر ملنے کا ندیشہ تھا ، ان کو بھی ارمان نے سختی سے تنبیہ کردی تھی۔ مگر اس وقت منتہیٰ کو دعا کی شدید ضرورت تھی اور وہ بھی براہِ راست عرش تک رسائی پانے والی ’’ماں‘‘ کی دعا کی۔
    انہی سوچوں میں گم وی اپنے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو خالی نگاہوں سے تکنے میں مصروف تھا کہ یکدم اس کی سکرین روشن ہوئی
    "پاپا کالنگ ‘‘۔۔
    اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال ریسیو کی ۔۔ "ہیلو "۔۔
    "ھیلو ارمان "۔ "تم کہاں ہو "۔۔؟؟ ۔”فوری طور پر ہاسٹن پہنچو۔۔ منتہیٰ کے حادثے کی اطلاع ہمیں آج ہی ملی ہے "۔۔ڈاکٹر یوسف کی آواز میں شدید تشویش تھی ۔۔۔
    مگر دوسری طرف ۔۔ ہنوز خاموشی تھی ۔۔
    "ارمان "۔۔ انہوں نے پکارا ۔۔ "بیٹا یہ وقت پرانی باتیں سوچنے کا نہیں ۔۔ ہم میں سے کوئی فوری طور پر وہاں نہیں پہنچ سکتا "۔۔
    "پاپا ۔۔۔ پاپا میں تین دن سے یہیں ہاسپٹل میں ہوں "۔۔ اُس کے حلق سے بمشکل آوا زنکلی ۔۔
    "اچھا "۔۔ ڈاکٹر یوسف چونکے ۔۔ "کیسی حالت ہے منتہی ٰ کی "۔۔؟؟
    "وہ کیا بتاتا انہیں ۔۔پاپا اب وہ بہتر ہے”۔۔ "ڈونٹ وری "۔۔ حلق میں کوئی گولا سا آکر اٹکا
    "اُوکے "۔۔۔ "تم فوراٌ فاروق صاحب سے رابطہ کرو ۔۔۔ وہ بہت پریشان ہیں "۔۔۔
    اور اِس کے بعد جیسے کالز کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔۔ رامین ، ارسہ ، فاریہ ، ارحم ، شہریار ۔۔ ڈاکٹر عبدالحق مسلسل کئی روز تک وہ کسی
    مشین کی طرح فیڈ جملے دوہراتا رہا ۔
    "منتہی اب بہتر ہے ۔۔ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی "۔۔۔
    "لیکن وہ خود کو کیونکر یقین دلاتا ۔۔ جس طرح منتہیٰ کا جوڑ جوڑ فریکچر ہوا تھا ۔۔ اس کا زندہ بچنا محال تھا ۔بچ بھی گئی تو اب وہ محض ایک زندہ لاش تھی ۔۔ یہ کسی طور
    ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی چلنے پھرنے کے قابل ہو سکے۔۔
    مگر ارمان لا علم تھا۔۔۔”کہ معجزے کی اصل روح یہی ہے کہ انسان معجزے کا انتظار چھوڑ دے ۔دعا اور محبت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں”۔
    اور بالاآخر وقت نے منتہیٰ کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔۔وہ کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہ کرنے والی لڑکی موت سے جیت کرزندگی کی طرف لوٹ آئی تھی ۔۔
    "ہاں منتہیٰ دستگیر۔۔ دنیا کے جینیئس ترین مائنڈزسے جیت گئی تھی” ۔

    جاری ہے
    ***********