Tag: Sadae ilm

  • صدائے علم – حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

    صدائے علم – حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

    ناقدینِ ادب کا ماننا ہے کہ جدید دور میں اردو ادب زوال کا شکار ہے اور نئے لکھنے والے اس طرح سے نہیں لکھ پارہے جیسا کہ ان کے پیشرو لکھ گئے تاہم سمیع اللہ خاں کی کتاب’ صدائے علم‘ ان تاثرات کی نفی کرتی نظر آتی ہے۔

    سمیع اللہ خان لسانیات کے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے پاکستان کے نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کے لیے صدائے علم کے عنوان سے متفرق مضامین منتخب کیے ہیں تاکہ ان کی وساطت سے نئے لکھاریوں کا کام عوام تک پہنچ سکے۔

    اس کتاب کے ناثر’اردوسخن ڈاٹ کام ہیں اور196 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کہ کتاب میں موجود مواد کے لحاظ سے مناسب ہے‘ کتاب میں معیاری کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔ کتاب کا سرورق ناصرملک نے تیار کیا ہے جو انتہائی دیدہ زیب اوردل پذیر ہے۔

    صدائے علم کے بارے میں


    سمیع اللہ خان کی ترتیب کردہ کتاب صدائے علم متفرق موضوعات پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہے اورزیادہ تر ان لکھاریوں کا کام اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے جو کہ ابھی اس دشت میں نووارد ہیں اور صحرا میں جینے کا قرینہ سیکھ رہے ہیں۔

    کتاب سیاست‘ مذہب‘ ریاست‘ سماج‘ تعلیم اور عوامی شعور جیسے سنجیدہ موضوعات پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے جن کا انتخاب سمیع اللہ خان نے انتہائی باریک بینی سے کیا ہے۔

    سرورق پر صرف کتاب اورترتیب کنندہ کا نام موجود ہے جس سے یہ اندازہ نہیں ہوپاتا کہ یہ تصنیف ہے یا تالیف ‘ یا ادب کی کس صنف کے بارے میں ہے۔

    مضامین کی فہرست کا جائزہ لینے پر کتاب میں ایک اور خامی سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ کتاب ترتیب دینے میں خواتین کو مناسب نمائندگی نہیں دی گئی اور کتاب میں موجود مضامین میں سے محض دو مضامیں خواتین کے تحریر کردہ ہیں جو کہ تناسب کے اعتبار سے انتہائی کم ہے۔

    جب آپ کتاب پڑھنا شروع کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سمیع اللہ خان نےمضامین کے انتخاب میں انتہائی عرق ریزی کی ہے اور ایک ایک مضمون بے پناہ سوچ بچار کے بعد شامل کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر اک مضمون اپنی جگہ شہہ پارہ ہے۔

    کتاب سے چنیدہ جملے


    برائے فروخت نامی مضمون میں افتخار خان لکھتے ہیں کہ ’’ یہ اس قوم کےپیسے ہیں جس کے بانیوں کی بنیانیں شیروانی کےاندرپھٹی ہوئی تھیں۔ وہ ایک پیالی چائے کے بھی روادارنہیں تھے جو عوام کی جیب سے پی جائے‘‘۔

    عورت آج بھی ونی کی جاتی ہے نامی مضمون میں مقدس فاروق اعوان لکھتی ہیں کہ ’’یا پھر عورت وہ ہے جسے اپنے گھر کے کسی فرد کے کیے گئے جرم کے بدلے میں ونی کردیا جاتا ہے۔ اللہ ! تونے تو عورت کا یہ مقام نہیں رکھا پھر یہ دنیا کے ظالم لوگ کیوں عورت کو قربانی کا دوسرا نام سمجھتے ہیں‘‘۔

    فاصلاتی تعلیم سے متعلق لکھے گئے اپنے مضمون میں سمیع اللہ خان یوں رقم طراز ہیں کہ’’زوال کی تلخ داستان خونِ دل سے لکھتی ہے کہ یورپ میں چودویں صدی عیسویں میں ایجاد ہونے والا چھاپہ خانہ اسلامی دنیا(استنبول)میں 1739ء کو پہنچا اور اس شرط پر لگانے کی اجازت دی گئی کہ اس شیطانی مشین پر قرآنِ حدیث کو نہیں چھاپا جائے گا‘‘۔

    نہ صرف یہ بلکہ کتاب میں موجود زیادہ تر مضمون پڑھنے سے تعلیم رکھتے ہیں جو کہ ناقدین کے اس اعتراض کا جواب ہیں کہ نئی نسل ادب تحریر کرنے کے اس مقام پر نہیں جہاں ان کے پیشرو تھے بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نئی نسل اپنے پیشرؤں سے کئی قدم آگے ہے اور ادب کے نئے امکانات تلاش رہی ہے۔ یقیناً اس جستجو میں ان سے غلطیاں بھی ہوں گی لیکن اگر صدائے علم کی طرح ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تو یقیناً نئی نسل ہمیں کئی اچھے مصنفین عطا کرے گی جو اپنے پیشروؤں کی میراث کو بہم آگے منتقل کریں گے۔

    مصنف کے بارے میں


    صدائے علم کے مرتب کنندہ سمیع اللہ خان نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز کے شعبہ اردو سے بحیثت استاد وابستہ ہیں۔

    اس کے علاوہ آپ پاکستان ادب پبلشرز سے بحیثیت ڈائریکٹر بھی منسلک ہیں۔ آپ نے سنہ 2010 میں اپنے صحافتی سفرکا آغاز کیا اور مختلف رسائل و جرائد سے وابستہ رہے۔

    ان کے اپنے تصنیف کردہ کالموں کا مجموعہ زیرِ طبع ہے جس میں آپ ان کے قلم کی جولانیوں کا مظاہرہ کرسکیں گے۔

  • صدائے علم‘ حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

    صدائے علم‘ حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا

     سمیع اللہ خان کی مرتب کردہ کتاب’’صدائے علم‘‘میرے سامنے ہے اورمطالعہ کے بعد سوچ و قلم اِس کشمکش میں ہیں کہ اپنے تاثرات کو کیا عنوان دوں؟ انمول لکھوں یا کہ لاجواب؟گوہرِ ادب لکھوں یا کہ نگینہ صحافت؟شاہکار لکھوں یا کہ نادر؟آفتاب لکھوں یا کہ مہتاب؟صبح کی روشن کرن لکھوں یا کہ اندھیرے میں جلتا دیا؟تپتے صحرا میں کوئی شجرہ سایہ دار لکھوں یاکہ جلتے سروں پر پڑنے والا بارش کا پہلا قطرہ ؟ مہکتا گلستان لکھوں یا چمکتی کہکشاں؟تعبیر لکھوں یا کہ تدبیر؟ جذبہ لکھوں یا کہ نئی لگن، کوئی بھی ایسا لفظ اِس کاوش کے شایانِ شان میرے پاس نہیں جو اِس کتاب کے اعلیٰ و بے مثا ل ہونے کی تعریف کر سکے ۔

    سمیع کی اس خوبصورت و کامیاب کاوش پرجتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے جنہوں نے مضامین کے انتخاب میں زبان و بیان کے تمام تر معیارات کو پیش نظر رکھا ہے۔اِس کتاب کی اشاعت کو عملی شکل دینے میں سمیع اللہ خان کو عبدالمجید جائی اور نسیم الحق زاہدی کی معاونت حاصل رہی ہے اور اِسے اُردو سخن ڈاٹ کام پاکستان نے جون ۲۰۱۶ میں شائع کیا جبکہ دیدہ زیب سرورق کے لئے ناصر ملک نے اپنے پیشہ وارانہ جوہر خوب دیکھائے ہیں ۔

    سمیع نے انتساب میں اِس کاوش کو پرنسپل محترمہ عفت معین صاحبہ کے نام کیا ہے۔میانوالی سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان عصرِحاضر کے نامور لکھاریوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں،انہیں کالم نگاری، فیجر نگاری، افسانہ نگاری اور طنزومزاح کے حوالے سے خاص مقام حاصل ہے،انگلش میں ماسٹر کر رہے ہیں۔انہوں نے قلمی سفر کا آغاز اگست ۲۰۱۰ میں روزنامہ جناح کے ادارتی صفحہ سے کیا، بعنوان’’اُفقِ گفتگو‘‘اِنکے کالم کئی اخبارات، جریدوں،آن لائن میگزینز میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔پاکستان ادب پبلشرز کے لئے ڈائریکٹر کی خدمات بھی باخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔روزنامہ اوصاف، روزنامہ منصف انڈیا، ہلال میگزین اور ماہنا مہ ادب دوست کیلئے انکی قلمی خدمات کو میدانِ ادب و صحافت میں خوب سراہا جاتا ہے۔پی ایف یو سی کے لئے سیکرٹری پروگرام کی ذمہ داریاں بھی باحسن انداز سنبھالے ہوئے ہیں۔انکے نادر کالموں کا مجموعہ ’’اُفقِ گفتگو‘‘زیر طبع ہے۔

    ’’صدائے علم ‘‘درحقیقت ایک خزانہ علم ہے، جس میں واحدانیت، رسالتﷺ، آل محمدﷺ،آخرت، حقوق العباد، مذہب کیساتھ ساتھ ادب ،انسانیت،تعلیم، پاکستان و پاکستانیت،حکمرانوں کے ظالمانہ رویوں، وطن کے خلاف ہونے والی اندرونی و بیرونی سازشوں،عالم اسلام، اقوام عالم،خواتین سمیت کسی بھی اہم موضوع کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔۔اِن کی اِس کاوش پر ادب و صحافت کی نامور شخصیات نے اپنے خوبصورت آرا کا بھی اظہار کیا ہے۔

    اجمل نیازی لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتاب میرے اِس جملے کی تائید کرتی ہے کہ کالم نگاری سالم نگاری ہے،یہ ایک اچھی کاوش ہے، اپنی کتاب کا نام صدائے علم رکھ رک اپنی علمی وابستگیوں کو ثابت کیا ہے‘‘۔۔یوسف عالمگیر ین اپنا اظہار خیال کچھ یوں کرتے ہیں کہ ’’سمیع اللہ خان کا وطن عزیز سے بھرپور محبت کرنے والے ہنرمند نوجوانوں میں ہوتا ہے،انکا موقف ہے کہ تعلیم میں ترقی کے بغیر ملک کسی شعبہ میں بھی ترقی نہیں کر سکتا یہ وجہ ہے کہ زیرنظر کتاب میں نوجوانوں لکھاریوں کی مختلف موضوعات پر تحریریں ہیں جبکہ شعبہ تعلیم کو بھی خصوصی جگہ دی گئی ہے۔انہوں نے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کر کے لکھاریوں سے الفت کی دلیل بھی پیش کی ہے۔‘‘ڈاکٹر ارشد اقبال(مراد آباد،انڈیا)کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے اپنی رائے میں کہتے ہیں کہ’’ سمیع اللہ خان کی ترتیب شدہ کتاب اس حوالے سے اہم ہے کہ اس میں نو آموز ابھرتے ہوئے کالم نگاروں کو موقع فراہم کیا گیا ہے۔اردو صحافت کے حوالے سے میں سمیع اللہ خان کی اس بے لوث کاوش کو سراہتا ہوں اور اس کارواں میں شامل تمام شرکاء کے لئے دعاگوہ ہوں جو اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں‘‘۔

    سمیع اپنے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ ’’صدائے علم میں اکثریت نو آموز لکھاریوں کی ہے مگر اسی طبقے کے کچھ سینئر حضرات کی تحریریں بھی شامل ہیں تا کہ طفلِ مکتب اپنی تحریروں کا تقابل کر کے فائدہ اُٹھا سکیں،وطنِ عزیز جس نازک دور سے گزر رہا ہے ایسے لمحات میں جس زمین کو نوجوان لکھاری میسر ہوں اور ان میں سے اکثر کا موضوع تعلیم ہو تو اُسے کسی صورت ناامید نہیں ہونا چاہیے،قوی امید ہے کہ اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے اس میں شامل نئے لکھاریوں کے حوصلے بلند ہوں گے ،ان کی تخلیقات کو جلا ملے اور نئے لکھاریوں کی تحریروں پر مشتمل انتخاب چھاپنے کی روایت مستحکم ہوگی۔نئے تخلیق کاروں کو مستقل مزاجی ملے گی اور ایسی کلیاں جو کھلنے کو تیار ہیں انہیں جوبن نصیب ہو گا، جوان نسل اور معصوم تخریب کے بجائے تخلیق کا راستہ اختیار کریں گے‘‘۔۔سمیع اللہ اپنے محسنوں اور دوستوں کو بھی نہیں بھولے اور ناصر ملک، مبشرالماس، حافظ شفیق الرحمن، اشرف سہیل،امجد رانا، بشیرہمدانی، عبدالماجد ملک، فرخ شہبازو ڑائچ،ساجد خان، احمد علی کیف، فرحان نذیر، عبدالستار اعوان، نسیم الحق زاہدی، عبدالمجید جائی، اختر سردار چوہدری ،ذیشان انصاری اور سید بدر سعید سے بھی خوبصور ت اندازو بیان میں اظہار تشکر کیا ہے۔

    معروف کالم نگاروں اعجاز حفیظ خان نے اپنے مضمون بعنوان’’سمیع اللہ خان کی کاوش،،صدائے علم ‘‘اور سلمان عابد نے بھی اپنی تحریر بعنوان’’نوجوان لکھاریوں کا مقدمہ‘‘میں سمیع کی اِس ادبی کاوش پر بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ کتاب صحرا میں پھول کھلانے کے مترادف ہے۔اور یہ کتاب ایک بہتر قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنے گی‘‘۔

    ۱۹۶ صفحات پر مشتمل ’’صدائے علم‘‘ میں موجود ۴۵ مضامین ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔جیسا کے پہلے ذکر کیا ہے کہ اکثر لکھاریوں نے تعلیم کو اپنا موضوع بنایا ہے۔’’کتاب اپنی طرف پھر بلا رہی ہے(عبدالستار اعوان)، بلوچستان میں تعلیم کو فروغ اور تقاضے (زرداد کاکڑ)، ایجوکیشن ریفارمز(شہزاد سلیم عباسی)،نظام تعلیم کی خرابیاں اور تدراک کیسے ممکن ہے(محمد شاہد یوسف خان)،کوالٹی ایجوکیشن کا حصول(ایم اکرم ریاض)،بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی زبوں حالی(دوست محمد جمالی)،ہم صورت گر کچھ خوابوں کے(سید ناصر احمد شاہ)،آخر تعلیم کی ذمہ دار کیوں(شہزاد سلیم عباسی)،فاصلاتی نظامِ تعلیم وقت کی ضرورت مگر؟(سمیع اللہ خان)، تعلیم اور آج کا معاشرہ(ملک این اے کاوش)،طبقات میں بٹا نظام تعلیم(ثقلین رضا)‘‘اِن مضامین میں لکھاریوں نے بڑی نفاست سے پاکستان میں تعلیم کی اہمیت، نظامِ تعلیم میں جدت پسندی کے رحجانات کو فروغ دینے، مساوی نظامِ تعلیم، پسماندہ علاقوں میں تعلیم پر خصوصی توجہ کے حوالے سے اپنی قلمی ذمہ داریوں کو نبھا یا ہے ۔’’حضرت مست توکلی، بلوچی صوفی اور رومانی شاعر(،مہ جبین ملک)،منفرد وممتاز گیت نگار و شاعر۔تنویرشاہد محمد زئی(عبداللہ نظامی)،ارشدملک کی زندگی کا بھرپور عکاس شعری مجموعہ(ریاض ندیم نیازی)‘‘ جیسے مضامین بھی اِس کتاب میں خوب ادبی رنگ بھرتے دیکھائی دے رہے ۔اسلامی مضامین’’ مخلوق اللہ کا کنبہ(اختر سردار چوہدری)، خلوص(شہزاد اسلم راجہ)، انسانیت کی فلاح کے لئے(اختر سردار چوہدری)،افسوس کے ہم مر جائیں گے(اخترسردار چوہدری)،اسلام میں جھوٹ کی ممانعت(خواجہ وجاہت صدیقی)‘‘انسانیت،زندگی ،موت اور بعداز موت زندگی،اصلاح معاشرے،اخلاص و اخلاق کا بہت خوبصورتی سے درس دے رہے ہیں۔’’باپ زندگی کا انمول تحفہ(میاں نصیر احمد)، کر بھلا ہو بھلا(علی حسنین تابش) ‘‘میں اِس بے رواروی کی دنیامیں حقوق و فرائض پر اسلامی نقطہ نظر کے مطابق ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔معاشرے میں مساوات کی اہمیت کو ’’طبقاتی تقسیم مگر کیوں(محمد ذوالفقار جٹ)‘‘میں اجاگر کیا گیاہے۔نام نہاد صحافیوں کی یلغار کو ’’فیس بک کے صحافی (تجمل محمود جنجوعہ)‘‘ میں بے نقاب کیا گیا ہے۔رسالتﷺ واحدانیت ، آل محمد ﷺ کے حوالے سے ’’قائد انسانیت حضرت محمدﷺ(نسیم الحق زاہدی)، دنیا کو آج تیری ضرورت ہے یا حسینؓ(سید اسد عباس)’’ روح پرور مضامین کی برکت سے ہی کتاب کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ کیونکر نہ ہو۔’’حج،قربانی اور عید(سہیل احمد مراد پوری) ‘‘حج کی فرضیت، قربانی کے مسائل اور عید کی خوشیوں کوایک دوسرے سے شرعی احکامات کے مطابق منسلک کر کے بڑی روانی سے قلم بند کیا گیا ہے۔’’اے حلب! ہم مجرم ہیں (حیات عبداللہ)،سعودیہ عرب میں بیس اسلامی ملکوں کی فوجی مشقیں(محمد شاہد محمود)‘‘میں عالم اسلام پر کفار کی نظرِبد ،اُن کے ناپاک ارادوں سمیت مسلم ممالک کی یک جہتی بارے بڑی دلیر ی سے قلمی جہاد کیا گیا ہے۔دشمنانِ پاکستان کے عزائم ،سازشوں سے اندرونی اور سرحدوں پر خلفشار کو’’بھارتی جنگی جنون اور انسانیت کی تذلیل(محمد عتیق الرحمن)، آزادی کے ۶۸ سال(محمد ذوالفقار)‘‘میں بڑی بے باکی سے بیان کر کے محبت وطنی کا حق خوب ادا کیا ہے۔’’اس بار کون عید منائے گا (مجید احمد جائی)، انقلاب کا سبز باغ اور حبُ عاجلہ(عاکف غنی)، برائے فروخت(افتخار خان)، چوکیدار صحافی(تجمل محمود جنجوعہ)،امن کے دشمنوں کا یونیورسٹی حملہ(محمد شاہد محمود)،تبلیغی جماعت اور دہشت گردی(عبدالقادرسہیل)،اہداف کچھ پورے،کچھ ادھورے۔منزل کب ملے گی(رشید فراز)،میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں(سید ناصر احمد شاہ)،رمضان المبارک اور ہمارے منافقانہ رویے(ڈاکٹر عبدالباسط)‘‘اِن فکرانگیز تخلیقات میں پاکستان کے اندرونی حالات،انتشار و غیر یقینی صورتحال، دہشت گردیاں، تخریب کاریاں اور ہماری حکمت عملی،حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور اُن سے حاصل نتائج اورہمارے منفی رویوں کو بیان کیا گیاہے ۔’’مارٹن لوتھر کنگ کی بات بیول قصبہ والے سمجھ گے (ضیغم سہیل وارثی)،بچوں کے حقوق کا عالمی دن(ابوبکر بلوچ)ناکامیوں سے کامرانی تک(قاری احمد ہاشمی)عورت آج بھی ونی کی جاتی ہے(مقدس فاروق اعوان)‘‘تحریریں بھی پڑھنے کے قابل ہیں ۔میر ی نظر میں کوئی ایسی تحریر نہیں گزری جس میں کچھ نئا نہ ہویا کچھ پُرانا نئے انداز اور نئی سوچ و فکر کے ساتھ نہ ہو۔تحریروں میں جہاں تنقیدہے وہاں برائے اصلاح کا عنصر بہت نمایاں ہے۔میں اِس صدائے علم کو خزانہِ علم ہی لکھوں گا۔

    تحریر: حسیب اعجازعاشر