Tag: Sadeeqa khan

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    منتہیٰ گزشتہ دس دن سے ایس ٹی ای کے برین ونگ کارکنان کے ساتھ آزاد کشمیر اور جہلم کے درمیانی علاقے میں اپنے نئےپراجیکٹ پر کام کے آغاز کے لیے پوری طرح سر گرم تھی ۔۔ شدید مصروفیات کے باعث پاؤں کا درد سِوا ہو چکا تھا ۔۔ وہ دردسے نڈھال کمرے میں آکر لیٹی ہی تھی کی سیل تھرتھرایا ۔۔
    تم میڈیسن کب سے نہیں لے رہی ہو۔۔؟؟ کوئی تھا جو اُس کے درد کو بتائے بغیر جاننے لگا تھا ۔۔
    ابھی لی ہیں ۔۔ اُس نے لیٹے لیٹے جواب دیا ۔۔اٹھنے کی ہمت کس میں تھی ۔
    وہ تم نے درد کو انتہا پر پہنچا کر لیں ہیں ۔۔ ارمان کا لہجہ درشت ہوا ۔
    آپ کو کیا پتا ۔۔ آپ کوئی یہاں ہیں۔۔؟؟


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    ’’منتہیٰ بی بی ۔۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اِس وضاحت کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ‘‘۔۔ اُسکا لہجہ برفیلا تھا ۔۔
    ہم مم۔۔ لمبی سی ہم کر کے منتہیٰ نے ارمان کی نقل اتاری۔
    ملو تم مجھے ۔۔ لیتا ہوں میں تمہاری خبر ۔۔۔
    میں ہفتہ دس دن تک نہیں آنے والی ۔۔ منتہیٰ نے اُسےِ چڑایا ۔
    جی نہیں ۔۔ میں نے ونگ کمانڈر آزر کو کہا ہے ۔۔وہ کل تمہیں یہاں پہنچائے گا ۔۔ایس ٹی ای کی میٹنگ میں تمہاری شرکت
    ضروری ہے ۔
    واٹ ۔۔؟؟ ایسی کیا خاص بات ہے ۔۔؟؟
    خاص ہی ہے ۔۔آؤ گی تو پتا لگ جائے گا ۔۔ اور اب آرام کرو سمجھیں ۔۔ وہ ڈانٹ کر کال کاٹ چکا تھا ۔۔ منتہیٰ نے سکون
    سے آنکھیں موندیں ۔۔ اس کی یہ ڈانٹ کتنی اچھی لگتی تھی ۔
    اگلے روز مصروفیت اور موسم کی خرابی کے باعث ۔۔ وہ میٹنگ سے کچھ دیر پہلے چھ بجے ہی ایس ٹی ای آفس پہنچ سکی ۔اُسے
    حیرت ہوئی وہاں کسی فنکشن کی تیاریاں تھیں ۔
    منتہیٰ کی نگاہیں ارمان کی متلاشی تھیں کہ کسی نے پیچھے سے نرمی کیساتھ اسکا ہاتھ تھاما۔
    وہ چونک کر مڑی ۔۔ آپ تو کہہ رہے تھے کہ میٹنگ ہے ۔۔ پر یہاں ۔۔اس نے انتظا مات کی طرف اشارہ کیا
    ہاں یہاں ایک چھوٹی سی تعارفی تقریب ہے ۔!!
    واٹ۔۔؟؟ کس چیز کی ۔۔؟؟ اُس نے مڑ کر سٹیج کی طرف دیکھا ۔۔ بینر لگا تھا
    Cosmology in the light of Holy Quran …. By Muntaha Arman
    ’’ایک تعارف ۔۔ایک جائزہ ‘‘
    منتہیٰ نے مڑ کر خوشگوار حیرت سے ارمان کو دیکھا ۔۔ وہ ہمیشہ ایسی ہی سرپرائز دیتا تھا ۔
    تقریب میں ڈاکٹر یوسف اور ڈاکٹر عبدالحق کے علاوہ کئی نامور شخصیات نے منتہیٰ کی اِس کاوش کو بھرپور سراہا ۔۔ یہ ایک ایسی معلوماتی کتاب تھی ۔۔ جس پر آج تک کسی عالمِ دین ،کسی مولوی نے قلم نہیں اٹھایا تھا ۔۔ مقامی طور پر اِس کتاب کو سیو دی ارتھ پبلکشن ہاؤس نے شائع کیا تھا ۔۔جبکہ اس کا ایک مسودہ۔ ارمان پینگوئن پبلیکیشنز نیو یارک کو بھی بھیج چکا تھا ۔
    ایس ٹی پبلیکیشنز کے تحت ارمان کی اپنی سات سالہ جدوجہد کی داستان The routes I passed by …. بھی جلد ہی منظرِ عام پر آنے والی تھی ۔۔
    تقریب کے بعد ۔۔منتہیٰ ایس ٹی ای کے کارکنان کو اپنے آٹو گراف کے ساتھ بک دیتی رہی ۔
    "آٹو گراف پلیز میم ‘‘۔۔ ارمان نے ایک جلد اُس کی طرف بڑھائی ۔۔ کچھ سوچتے ہوئے منتہیٰ نے لکھنا شروع کیا ۔۔

    Sitting next
    to you …
    Is like
    Taking a sip of eternity
    The sun , the stars , the sky
    Never tasted so good..!!
    (Christy ann martine )

    ************

    تھر اور چولستان میں سیو دی ارتھ کے پراجیکٹس کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کو تھے ۔۔انہوں نے بہت قلیل مدت اور نا کافی ذرائع کے با وجود وہاں قحط ، خشک سالی او روبائی امراض پر قابو پانے کے لئے ہیلتھ سینٹرز کے علاوہ فوڈ اینڈ ڈیزاسٹرسینٹر قائم کیے تھے جبکہ اگلا مرحلہ اسی سٹر ٹیجی کو بلوچستان کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں پر لاگو کرنے کا تھا۔ لیکن انھیں علم تھا کہ بلوچستان ایک اپنے وسیع رقبے اور امن و امان کی خرابصورتحال کے باعث ایک شدید کٹھن ٹاسک تھا۔کئی ماہ کی پلاننگ کے بعد وہ بلوچستان میں ایسی تکنیکس کا آغاز کرنے جا رہے تھے جو جنوبی افریقہ ، ایتھوپیا ، چاڈ ، نائجر ،سوڈان اور مالی وغیرہ میں طویل خشک سالی سے نمٹنے میں کافی کارآمد ثابت ہوچکی ہیں ۔
    بلوچستان اور ان افریقی ممالک میں ایک مشابہت یہ بھی ہے وہاں بھی مقامی افراد کی اکثریت نا خواندہ ہے اور ڈیزاسٹر سے از خود نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔صورتحال کو بگاڑنے میں ایک بڑا ہاتھ مقامی باشندوں کابھی ہے ، بارشوں کے موسم میں پانی کو مستقبل کی بدترین حالات کے لیے ذخیرہ کرنے کے بجائے بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے ۔ خشک سالی عارضی ہو یا طویل المدت ، بہرحال ایک
    نہ ایک دن ختم ہو ہی جاتی ہے اور بارشوں کے موسلا دھار برستے ہی ان علاقوں کے رہائشی اپنی زمینوں اور گھروں کو آباد کرنے کے لیے لوٹ آتے ہیں ۔ مگر سالہا سال کی مشقت اور ، کٹھن اورجان لیوا حالات سے گزرنے کے باوجود پرانی عادتیں بھی ساتھ لوٹ آتی ہیں
    اور اسی وجہ سے حکومتی کوششیں بھی زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔ اگر کمیونٹی کی سطح پر کوششیں جاری رکھتے ہوئے قابل ِکاشت رقبے کو کم کر کے سیب اور خوبانی کی جگہ انار یا کم پانی استعمال کرنے والی فصلیں کاشت کی جائیں۔زمینوں کی حالت کو بہتر بنایا جائے تاکہ برفباری زیرِ زمین پانی کےذخائر کو بڑھانےکا سبب بنے۔ جنگلات کے کٹاؤ کو روک کر زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں اور دیہات میں لکڑی کی جگہ متبادل بہترایندھن استعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں بگڑتے حالات کو ابتدائی سٹیج پر ہی قابو کیا جاسکتا ہے۔
    جبکہ دوسری طرف جہلم کے قریب منتہیٰ کا پراجیکٹ بھی کامیابی کے ساتھ رواں تھا ۔۔ جسے فی الحال پوری طرح خفیہ رکھا گیا تھا۔ کئی ہفتوں کی شدید مصروفیات کے بعد وہ دونوں گھر پر اکھٹے ہوئے تھے ۔۔ رات دیر سے سونے کے باعث ارمان بارہ بجےتک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا ۔۔ اور منتہیٰ کچن میں ممی کے پاس تھی جب ملازم نے اُس کی کسی مہمان کے آنے کی اطلاع
    دی ۔۔ وہ اِس وقت گھر کے سادہ سے کپڑوں میں تھی ۔۔ دوپٹہ درست کرتی ہوئی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے ٹھٹکی ۔
    معقول اسلامی لبادے میں ملبوس وہ لڑکی ۔۔ یقیناًکیلی تھی ۔
    کیلی تم یہاں ۔۔؟؟منتہیٰ خوشگوار حیرت کے ساتھ اُس سے گلے ملی ۔۔
    کیلی نہیں ۔۔’’ آمنہ‘‘ ۔۔ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔۔ اُس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دیا
    ماشاء اللہ ۔۔ لیکن تم یہاں کب آئیں ۔۔ بتایا کیوں نہیں ۔۔؟؟
    میں ایک ہفتہ پہلے لاہور آئی تھی ۔۔ پچھلے دو ماہ سے میں مکہ میں تھی ۔
    ایم سو ہیپی کیلی۔۔ اُوہ سوری آمنہ ۔۔ منتہیٰ ایک دفعہ پھر اس کے گلے لگی ۔
    یُو نو مینا ۔۔ کہ میں نے اپنے لیے یہ نام اِ س لیے منتخب کیا ہے کہ یہ حضرت محمد ﷺ کی والدہ کا نام تھا ۔۔ میں سوچتی ہوں کہ وہ
    ہستی جو سراپا محبت اور کرم تھی ۔ اس کی عظیم ماں کیسی ہوگی۔۔؟؟
    آمنہ کے دل میں ماں کی اولین محبت کا خلا آج بھی باقی تھا ۔۔ آنکھوں کی نمی چھپا کر کر وہ مسکرائی ۔۔
    تم کیسی ہو۔۔؟؟ مجھے نینسی سے تمہارے حادثے اور پھر شادی کا پتا لگا تھا ۔۔تم بہت خوش لگ رہی ہو ۔۔ ارمان کیسا ہے ؟؟
    وہ بہت نائس اور خیال کرنے والا شوہر ہے ۔۔ منتہیٰ کی آنکھوں میں قندیلیں سی روشن تھیں ۔
    تم آرام سے بیٹھو نا ۔۔ میں تمہیں ممی پاپا سے ملواتی ہوں ۔۔ منتہیٰ اٹھی ۔
    پھر دو گھنٹے تک وہ نان سٹاپ باتیں کرتی رہیں ۔۔ منتہیٰ کو ارمان بھی یاد نہیں آیا۔۔ جو سویا پڑا تھا ۔
    تم آج کل کیا کر رہی ہو منتہیٰ ۔۔؟؟ آمنہ نے سرسری اندا ز میں پوچھا ۔۔
    وہ بس ۔۔ارمان کی فاؤنڈیشن کے کچھ پراجیکٹس ہیں ۔۔ اُس نے گول مول جواب دیا
    آمنہ کے چہرے پر گہری مسکراہٹ اتری ۔۔ اُس نے منتہیٰ کے دونوں ہاتھ تھامے ۔یو نوواٹ مینا ۔۔ کہ ہارورڈ میں تمہاری
    بہت ساری سرگرمیوں سے میں واقف تھی ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی ۔اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔اور جو فائلز تم نے میرے لیپ ٹاپ سے کاپی کی تھیں نہ۔ تو وہ میں نے دیکھ لیا تھا ۔۔ منتہیٰ کا رنگ اُڑا ۔اس نے ہاتھ چھڑانے
    کی کوشش کی ۔
    پھر تم مجھ سے دوستی کی کوششیں بڑھاتی گئیں ۔۔ مجھے سب معلوم تھا ۔۔ مگر تم مجھے بہت اچھی لگتی تھیں ۔۔اور اب بھی لگتی ہو ۔۔
    I adore you ..اُس نے مینا کے دونوں ہاتھ ہونٹوں سے لگائے ۔
    تمہارا ساتھ۔۔ تمہاری دوستی نے مجھے زندگی کے ایک نئے مفہوم سے آ شنا کرایا ۔۔میں جو اند رسے ایک مری ہوئی عورت
    تھی ۔ اب دوبارہ جینے لگی ہوں ۔میں جینا چاہتی ہوں ۔۔ زندگی سے اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنا چاہتی ہوں ۔
    منتہیٰ ساکت سی اُسے دیکھے گئی۔۔ وہ پلکیں تک جھپکانا بھول گئی تھی ۔
    میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کرو ں گی ۔۔ میں اِن کاموں میں تمہارا بھرپور ساتھ دوں گی ۔۔ انشا ء اللہ ہم مل کر بہت کچھ کریں گے۔
    انسانیت کی فلاح کے لیے ۔اپنی زمین کے دوام کے لیے ۔۔ اُس کا لہجہ بہت پُر عزم تھا ۔
    اور ہم م لکر تمہارے لیے ایک پیارا سا محبت کرنے والا دولہا بھی ڈھونڈیں گے انشا ء اللہ ۔۔ ارمان کی آواز پر وہ دونوں چونکیں
    جو نہ جانے کب سے پیچھے کھڑا ۔۔دونوں دوستوں کا رومانس دیکھ رہا تھا ۔
    شیور ۔۔ اور وہ بالکل تمہارے جیسا سمارٹ ۔ محبت اور خیال کرنے والا ہونا چاہئے ۔۔ آمنہ چہکی
    یہ تو مشکل ہو جائیگی آمنہ بی بی ۔۔ کیونکہ میرے جیسا کوئی اور پیس نہیں دنیا میں ۔۔ جس کا مقدر ۔یہ آپکی بد لحاظ اور سر پھری
    دوست تھی ۔ منتہیٰ نے اُسے گھورا
    ڈونٹ وری آمنہ تمہیں اِن سے بہت اچھا آئیڈیل سا۔۔ شوہرملے گا ۔
    یا اللہ ۔۔یہ تیرے نا شکرے بندے ۔۔ ارمان ہاتھ اٹھا کر دہائی دینے لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُسے کھینچ کر کشن مارا ۔
    وہ بہت خوش تھی ۔’’کہتے ہیں کہ آپکی نیکی لوٹ کرواپس آپ کے پاس ہی آتی ہے۔‘‘ اُس نے صدقِ دل سے چاہا تھا کہ کیلی
    اِس فرسٹرشن سے باہر نکل آئے ۔۔جس میں وہ بچپن سے مبتلا تھی۔ ان کی ٹیم میں آمنہ جیسی ذہین و فطین اور تجربہ کار انوائرمینٹل سائنٹسٹ کی شمولیت بلا شبہ ایک سنگِ میل تھا ۔

    ************

    "اگر وقت کی روانی کو سمجھنا ہو تو ۔۔ کبھی کسی اُونچی چٹان پر کھڑے ہوکر ۔نیچے ساحل سے ٹکراتی موجوں کو دیکھنا۔۔ وقت بھی
    اِن موجوں کی طرح انسان کی زندگی میں وارد ہوتا ہے ۔۔ کبھی دبے قدموں مسرتوں اور شادمانیوں کے تازہ جھو نکوں کی طرح ۔۔
    کبھی شوریدہ سر موجوں کی صورت میں ۔۔ انسانی ذات کے اندر اور باہر بہت کچھ توڑتا ۔فنا کرتا ہوا ۔ کبھی بے رحم طوفانوں جیسا
    ہر شے تہس نہس کردینے والا ۔۔لیکن اچھا یا برا ۔۔بہرحال وقت کٹ ہی جاتا ہے ۔۔ ساحل پر کس کے نقشِ پا ہمیشہ رہے ہیں مگر
    داعمی حیات اُنہی کو ملتی ہے جودلوں میں زندہ رہتے ہیں ۔”
    وہ ایک دفعہ پھر نیویارک میں تھی ۔۔منتہیٰ ارمان یوسف کو یونیسکو کی تقریب میں شرکت کر کے اپنا "وومن اِن سائنس”
    ایوارڈ وصول کرنا تھا ۔۔وہ نہ صرف ایشیا سے یہ اعزاز پانے والی پہلی خاتون تھی ۔۔ بلکہ اب تک ایوارڈ پانے والیوں میں سب
    سے کم عمر بھی تھی ۔
    وہاں موجود شرکاء اُسے ایک ایسی بہادر لڑکی کے طور پر خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے ۔۔ جو ایک بڑے حادثے سے گزرنے
    اور ایک عالمی اعزاز سے محرومی کے با وجود ہمت نہیں ہاری ۔۔ جس نے اپنی معذوری کو چیلنج سمجھ کے قبول کیا ۔۔اور آج جس کا
    شمار دنیا کے مایہ ناز فزکسٹ اور ٹیکنالوجسٹ میں کیا جا رہا تھا ۔۔ وہ بہت گہری مسکراہٹ کے ساتھ تعریفوں کے یہ سارے ہارگلے میں ڈالتی ہوئی ۔۔ مائیک تک آئی ۔
    "میرا بچپن گورنمنٹ کے طرف سے ملے ہوئے ایک چھوٹے گھر میں گزرا ۔۔ اُس کے کشادہ آنگن میں ایک گھنا نیم کا درخت
    تھا ۔جس پر ایک چڑیا کئی سالوں سے بسیرا کئے ہوئے تھی ۔۔ اُس کے بچوں کی چہچہا ہٹ ہماری زندگی کا ایک حصہ تھی ۔۔ پھر
    یوں ہوا کہ ایک روز بہت زور کی آندھی آئی ۔۔ ایسی کے گھروں کی چھتیں اُڑ گئیں ۔۔اور طوفانی جھکڑ درختوں کو جڑ سے اکھاڑ کر
    لے گئے ۔۔ میری دادی مجھے اور میری چھوٹی بہن کو اپنی گود میں چھپا کر سارا وقت تسبیح کا ورد کرتی رہیں ۔”
    پھر جب طوفان تھما تو میں نے دیکھا کہ ہمارے آنگن کا وہ اکلوتا درخت جڑ سے اکھڑا پڑا تھا ۔۔ اور چڑیا کے گھونسلے کو طوفانی جھکڑ
    اُڑا کر لیجا چکے تھے ۔ میرے ننھے سے ذہن کے لیے یہ زندگی کا پہلا بڑا حادثہ تھا ۔۔ میں ساری رات روتی رہی۔۔کئی روز تک
    میں نے کھانا نہیں کھایا ۔پھر میرے ابو مجھے ہاتھ تھام کر ، سڑک کے پار کچی جھگیوں کی بستی لے کر گئے ۔۔ جہاں طوفان ہر شے کو
    فنا کر چکا تھا ۔۔ اور وہ خانہ بدوش اِدھر اُدھر سے ٹوٹا پھوٹا سامان جمع کر ہے تھے ۔
    "منتہیٰ‘‘۔ تم کئی دن سے روتی رہی ہو کہ تمہاری چڑیا کا گھونسلہ نہیں رہا ۔۔ انہیں دیکھو ۔۔اِن لوگوں کا کُل مال و متاع ۔آندھی اُڑا
    کر لے گئی ہے ۔۔لیکن یہ لوگ رو نہیں رہے ۔۔ کیونکہ ان کا ایمان ہم پکے گھروں میں رہنے والے لوگوں جیسا نہیں ہے ۔
    چڑیا کا آشیانہ ہو ۔۔یا یہ کچی جھگیاں ۔ سب اللہ تعالی کی عطا ہیں انسان کی ملکیت نہیں ۔۔ وہ خدا چڑیا کو دوبارہ گھونسلہ بھی دے گااور اِن خانہ بدوشوں کو بھی کہیں نہ کہیں پناہ مل جائیگی ۔
    میرے ننھے ذہن میں ایک مدت تک کئی سوال کلبلاتے رہے ۔ جب اللہ پاک اتنا رحمن و رحیم ہے تو پھر یہ طوفان آتے ہی کیوں ہیں ۔کیوں زلزلے کی ایک چنگھاڑ شہر کے شہر برباد کر دیتی ہے ۔ کیوں یہ سیلاب بستیوں پر بستیاں اجاڑتے گزرجاتے ہیں ۔؟؟
    مذہب نے مجھے بتایا کہ یہ انسان کے برے اعمال پر اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتے ہیں ۔۔سائنس کہتی تھی کہ انسانی سرگرمیوں نے آئینو سفیئر ہیٹنگ اور گلوبل وارمنگ جیسے امراض کو جنم دیا ۔ جن سے زمین پر آفات کی شرح روز بروزبڑھتی چلی گئی ۔ یعنی مذہب اور سائنس ایک ہی تھیوری کے دو مختلف اندازِ بیاں تھے ۔
    میری تلاش کا سفر سیو دی ارتھ نامی کمپین سے شروع ہوا ۔۔ میری سوچ تھی کہ جہاں انسان تباہی پھیلانے والی ٹیکنالوجی بنا سکتا ہے تو کہیں نہ کہیں فلاح کی ٹیکنالوجی کا سرا بھی ہوگا ۔۔جہاں شر ہو وہاں اللہ تعالیٰ خیر بھی ضرور اتارتا ہے ۔۔ یہ نیکی اور بدی کا ارتقاء ہی ہے جس نے زمین پر زندگی کے پہیے کو رواں رکھا ہوا ہے ۔۔ لیکن انسان کی رغبت ہمیشہ سے شر کی طرف زیادہ رہی ہے ۔۔ کہیں وہ خود حفاظتی کے نام پر نیو کلیئر اور کیمیائی ہتھیار بناتا ہے ۔۔ تو کہیں با یومیڈیکل انجینئرنگ میں ٹیکنالوجی کی انتہا پر پہنچ کر مصنوعی انسانی تخلیق کے تجربات کرتا ہے۔۔ خدا کے وجود کے منکر وں اور ان زمینی نا خداؤں کو اپنی آخری سانس کے ساتھ یہ یقین ضرور آجاتا ہوگا کہ اِس کائنات کا رکھوالا صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ ہے ۔
    میری جدوجہد کا سفر جاری رہا ۔۔ آج میرا ضمیر مطمئن ہے کہ اپنے ہم وطنوں ہی کے لیے نہیں ۔۔انسانیت کی فلاح کے لیے میں جو کچھ کر سکتی تھی ۔۔ میں نے اُس میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں رہنے دی ۔۔ یونیسکو کا یہ وومن اِن سائنس ایوارڈ اور اِس کے ساتھ ملنے والی لاکھوں ڈالر کی رقم میں اپنے ہم وطنوں کے نام کرتی ہوں ۔۔ پاکستان کی اُن پسماندہ خواتین کے نام کرتی ہوں ۔۔جو اکیسویں صدی میں جی کر بھی ٹیکنالوجی کے نام سے بھی ہنوز نا بلدہیں ۔میرا مشن میری آخری سانس تک انشا ء اللہ جاری رہے گا ۔
    دنیا بھرکی نامور شخصیات نیچے حاضرین میں دم بخود بیٹھی اِس دھان پان سی لڑکی کو سن رہی تھیں ۔ جو عزم اور حوصلے کی ایک چٹان
    تھی ۔ انہی حاضرین کی پہلی صف میں ارمان یوسف بھی تھا ۔۔ جس کی گود میں بیٹھی ایک ننھی پری کی ستارہ آنکھیں بہت دیر سے سٹیج پر
    کھڑی اپنی ماں پر مرکوز تھیں ۔۔ یوں جیسے وہ ماں کا ایک ایک لفظ اپنے اندر اتار رہی ہو ۔
    ارمان نے دیکھا ۔۔اُس نے اپنے ننھے ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں یوں پیوست کی ہوئی تھیں جیسے وہ ہاتھ کوئی عہد باندھ رہے ہوں،دس ماہ کی ستارہ آنکھوں اور فراخ پیشانی والی اِس ننھی گڑیا کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک غیرمعمولی صلاحیتوں والی بچی تھی۔جس نے اپنی ماں سے بے پناہ ذہانت اور مضبوط قوتِ ارادی ورثے میں ملی تھی ۔۔ تو باپ سے اُسے وفا ، ایثار اور استقامت جیسی نیک
    صفات پائی تھیں ۔
    "”یہ ننھی پری ۔۔اَمل ارمان تھی۔ بہت جلد عالمی اُفق پر نمودار ہونے والا ۔پاکستان کا ایک درخشندہ ستارا ۔

    ختم شد
    ********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "جنت شاید کوئی ایسی ہی جگہ ہوگی ۔۔۔”
    سوات اور کالام میں ہر سو بکھرے حسن کو دیکھ کر فاریہ بے اختیار بول اٹھی ۔۔
    "لیکن اس جنتِ ارضی کو انسان کس طرح جہنم بنا رہا ہے ۔۔ اِس پر بھی غور کرو”۔۔ منتہیٰ کا مدلل جواب حاضر تھا۔
    "پوائنٹ ٹو بی نوٹڈ”۔۔ فاریہ نے کسی فلاسفر کی طرح سر ہلایا ۔۔
    وہ گزشتہ ایک ہفتے سے دیر ، سوات ، بالا کوٹ اور ملحقہ علاقوں کی خواتین میں اویئرنیس کمپین ( شعور و آ گہی کی مہم )چلانے کے لیےرامین ، پلوشہ ،سنبل غازی ونگ کی کئی اور لڑکیوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں ۔
    اگرچہ وہ غازی ونگ میں نہیں تھیں پر ارمان اور ڈاکٹر عبدالحق کے اسرار پر منتہیٰ کو ساتھ آن پڑا تھا کیونکہ ایس ٹی ای کے خواتین ونگ کی شمالی علاقہ جات کے دور دراز علاقوں میں یہ پہلی کمپٔین تھی۔ان علاقوں کی خواتین شرحِ خواندگی کم ہونے کے باعث زلزلے یا سیلاب کی ہنگامی صورتحال میں احتیاطی تدابیر سے لا علم تھیں،منتہیٰ اور برین ونگ کے چند دیگر کمانڈرزکا آئیڈیا تھا کہ خواتین ممبرز گھر گھر جا کر ان میں آفات سے ازخود نمٹنے کا شعور پیدا کرنےکی کوشش کریں تاکہ وہ بروقت اپنی اور بچوں کی جان بچا سکیں۔ پچھلے تباہ کن زلزلے کے اعداد و شمار کے مطابق اموات میں بچوں اور خواتین کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    وہ گروپس کی صورت میں مختلف علاقوں میں علی الصبح نکل جاتیں اور سارا دن در در کی خاک چھان کر واپس کیمپس لوٹ آتیں۔
    "ہم ایک لا حاصل مقصد کے پیچھے خوار ہو رہے ہیں "۔۔ کمپین کے چھٹے روز تھکی ہاری کیمپ پہنچ کر فاریہ پھٹ پڑی
    "خیریت کیا ہوا ؟؟ "۔ارمان قریب ہی ایک اونچے پتھر پر بیٹھا چائے پی رہا تھا
    "کیا ہوا ؟۔۔یہ پوچھیے کہ کیا نہیں ہوا ۔۔”
    "ہم سارا دن بمشکل پانچ خواتین سے ملاقات کر پائے ۔۔ جس گھر پر دستک دو، وہاں خونخوار سے بڑی بڑی مونچھوں والے آدمی نکل کر ہمیں یوں مشکوک نظروں سے گھورتے ہیں۔۔ جیسے ہم داعش کی نمائندہ ہوں "۔رامین بہت اَپ سیٹ تھی
    "اور جن خواتین سے ہمیں کسی نہ کسی طرح شرفِ ملاقات نصیب ہوا ۔۔ اُن کے پلے ہماری بات نہیں پڑ تی ۔۔۔ پلوشہ نےانہیں مقامی زبان میں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی مگر ہماری باتیں اُن کی سمجھ سے باہر ہیں "۔۔ سنبل نے بھی بھڑاس نکالی
    "تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟؟”۔۔ ارمان نے باری باری اِن سب کے ستے ہوئے چہروں کو دیکھا
    "بس ہم کل سے کمپین پر نہیں جائیں گے "۔۔ رامین نے جیسے فیصلہ صادر کیا
    "گرلز اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھی، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں”۔ ارحم نے دانت نکالے
    "ٹھیک ہے پھر کل سے آپ خود جائیے گا ، دیکھتے ہیں کتنے پانی میں ہیں آپ”۔۔ ہونہہ ۔ فاریہ کا چہرہ غصے اور تھکن سے سرخ تھا۔
    "میں اس وقت گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ہوں آپ لوگ چاہیں تو پیمائش کر سکتی ہیں۔ ارحم نے جو چشمے کے کنارے پانی میں پاؤںمیں ڈالے بیٹھا تھا "۔۔۔ فاریہ اور رامین کو مزید طیش دلایا ۔
    "ہاں ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھے ہیں ، سارا دن گرمی میں خوار ہونے پڑے گا نہ تو نانی یاد آجا ئے گی ۔”
    "نانی اماں میری کب کی جنت کو سدھار چکی ہیں ، مگر یاد کرنے کے لیے کچھ اور لوگ بھی ہیں میری زندگی میں ۔ ارحم نے ایک سردآہ بھری”۔۔ "اس دشت پیمائی میں یونیورسٹی کی’’ راحتیں ‘‘اسے بہت یاد آرہی تھیں۔”
    "بے فکر رہ ! جب تو واپس لوٹے گا نہ تو وہ ساری ۔ کہیں اور بندوبست کر چکی ہوں گی”۔ ارمان نے اس کے قریب جاکر ایک دھپرسید کی۔ اگرچہ منتہیٰ ان سے کچھ فاصلے پر تھی، مگر ان کی نوک جھونک اس تک پہنچ رہی تھی۔
    "تو بھی کچھ لوگوں کی زیادہ فکر مت کیا کر ۔ اب ہم ان کی وجہ سے سقراط تو بننے سے رہے”۔ ارحم نے جھک کر سرگوشی کی۔تو ارمان نےکھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا ۔
    "میم منتہیٰ”۔ "آپ کیا کہتی ہیں اس بارے میں ، کیا اتنی جلدی ہمت ہار بیٹھنا عقل مندوں کا کام ہے”۔ ارحم نے منتہیٰ کو قدرے اونچی آواز میں مخاطب کیا ۔فاریہ کا بس نا چلتا تھا کہ ارحم کا قتل کردے۔اسے معلوم تھا منتہیٰ ہارتی نہیں ہے وہ آخری حد تک جانے والوں میں سے تھی۔
    "ہمارا ٹاسک لا حا صل ہر گز نہیں ہے لیکن قبل از وقت ضرور ہے ‘‘ ۔۔’’یہاں کی عورتوں میں آگاہی اور شعور بیدار کرنے سےپہلے ہمیں اِن کے مردوں کی سوچ تبدیل کرنا ہوگی ۔۔ ورنہ غالب امکان یہ ہے کہ ۔۔ اِس طرح کی کوششوں سے ہم دوست کے بجائے اِنہیں اپنا دشمن بنا لیں گے ۔۔ کیونکہ یہاں کے لوگ بیوی ہی نہیں ماں ، بہن اور بیٹی کی گردنیں بھی گاجر،مولی کی نسبت زیادہ آسانی سے کاٹتا ہے‘‘۔ فاریہ کی توقع کے بر عکس منتہیٰ کا جواب خاصہ مدلل تھا۔
    رامین ، سنبل وغیرہ نے باقاعدہ تالیاں بجا کر منتہیٰ کا پوائنٹ سیلبریٹ کیا ۔
    "چلیں جی ۔ کل سے ایس ٹی ای کے میل کمپین شروع ہوگی اور ہم چشمے کے ٹھنڈے پانیوں کو ناپا کریں گے”۔ فاریہ نے حساب چکتا کیا۔
    ان کی نوک جھونک اب رات تک یونہی چلتی رہنی تھی، سو انہیں نظر انداز کرتا ہوا ارمان، چائے کا مگ ہاتھ میں لیئے منتہیٰ سے کچھفا صلے پر جا کر بیٹھا ۔
    میرے خیال میں ہمیں کچھ دن میل اور فی میل کی مشترکہ مہم چلانی چاہیئے، اس سے ناصرف آپ لوگوں کو تحفظ اور سپورٹ ملے گی بلکہ ہمیں مستقبل میں کمپین کے لیے صحیح آئیڈیا بھی ہو سکے گا ۔
    "جی ۔ لیکن میرے خیال میں اس کے ساتھ یہاں اپنے پہلے ڈیسازٹر سینٹر کا بھی آغاز کر دینا چاہیئے ۔ اس سے ایک تو یہاں کے لوگوں کا ہم پر اعتماد بڑھے گا ، اور دوسرے مقامی افراد کی بھرتی سے ہم گھر گھر جانے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔ لوگوں
    کو ایک جگہ جمع کرکے کینوینس کرنا زیادہ آسان بھی ہے اور فائدہ مند بھی” ۔
    ارمان نے اسکی بات ختم ہوتے ہی اثبات میں سر ہلایا ۔
    ************
    ان کے پاس وقت کم تھا کیونکہ خواتین ممبران کا زیادہ عرصے تک ان علاقوں میں قیام ممکن نہیں تھا ، سو ارمان نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر اگلے تین روز میں کرائے پر ایک نیم خستہ گھر لے کر آفس بنانے کی تیاریاں شروع کیں ۔
    پہلے مرحلے میں انھیں لوگوں کو یہاں جمع کرکے اپنے مقاصد سے آگاہ کرنا تھا جس کے لیے زیادہ دفتری لوازمات کی ضرورت نہیں تھی ۔
    اگلے روز ارمان ناشتے کے بعد اپنا لیپ ٹاپ لیے بیٹھا پریزینٹیشن بنا رہا تھا ۔۔کہ بھاری بھرکم جسامت والا ایک شخص اچانک وارد ہوا ۔ ان کے کچھ ساتھی گروپس کی صورت میں گھر گھر مہم پر روانہ ہوچکے تھے جبکہ باقی ابھی کیمپس میں تھے۔
    "اسلام و علیکم ‘‘۔ "میرا نام خوشحال ہے "۔۔نو وارد نے تعارف کروا کر خوشدلی سے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔ ارمان نے ہاتھ ملاتے ہوئے اسے بغوردیکھااس کا صاف اردو لہجہ چونکا نے والا تھا ۔ کیونکہ وہ دیکھنے میں مقامی لگتا تھا۔
    "کیا مجھے آپ کے اس آفس کے قیام اور مقاصد کے متعلق کچھ معلومات مل سکتی ہیں ؟؟”
    ارمان نے کافی دیر تک پوسٹرز اور لیپ ٹاپ پر سلائیڈز کی مدد سے خوشحال خان کو مکمل بریف کیا ۔ اس کی چھٹی حس جو ہمیشہ سےبہت تیز رہی تھی، ایک دفعہ پھر کہتی تھی یہ بندہ مستقبل میں ان کے بہت کام آنے والا ہے ۔
    "میں اسی علاقے کا رہائشی ہوں لیکن تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں مختلف شہروں میں قیام رہا ہے۔۔گذشتہ ہولناک زلزلے کے بعد میں یہاں لوٹا تو میرے آبائی گھر سمیت سب کچھ فنا ہو چکا تھا ۔ تب سے میں وقتاَ فوقتاَ یہاں آ کر آفت زدہ لٹے پٹے اپنے رشتہ داروں کی کچھ مدد کر جایا کرتا ہوں ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ جو کام ہماری حکومت کرنے میں ناکام رہی ۔ اسےکرنے کا بیڑہ اب عوام نے اٹھایا ہے‘‘۔
    "میرا بھر پور تعاون آپ کے ساتھ ہے”۔۔ اپنا وزیٹنگ کارڈ ارمان کو تھماتا ہوا وہ شخص جا چکا تھا ۔
    ارمان نے کرسی واپس سنبھالتے ہوئے ایک نظر کارڈ پر ڈالی، پھر زور سے اچھلا ۔
    "خوشحال خان‘‘ ۔ "وہ کراچی سٹاک ایکسچینج کا ایک معروف تاجر تھا ۔”
    ************
    شام ڈھلے جب سارے ساتھی تھکے ہارے کیمپس واپس لوٹے تو اس روز چائے کے ساتھ کچھ ہلکے پھلکے لوازمات بھی ان کے تھے ۔
    "یاہو۔۔ ٹریٹ۔۔ "۔فاریہ اور ارحم نے ایک ساتھ نعرہ لگایا
    "ارمان بھائی زندہ باد "۔۔ رامین کب کسی سے پیچھے رہنے والی تھی ۔ جب سے گھر کے عیش و آسائش چھوڑ کر نکلے تھے سادہ کھاناہی مل رہا تھا۔
    "ویسے یہ ٹریٹ ہے کس خوشی میں ۔۔؟؟”۔ صہیب نے پورا سموسہ منہ میں ٹھونستے ہوئے دیدے نچائے، بھوک سے سب کا برا حال تھا ۔
    "یہ ہمارے ایک نئے خیر خواہ کی طرف سے دی گئی ٹریٹ ہے ۔آج رات کے کھانے پر ہم ان کے گھر پر مدعو ہیں "۔ ارمان نے ان کو ساری تفصیل بتائی۔
    فاریہ، رامین اور پلوشہ نے ایک ساتھ زوردار نعرہ لگایا۔ چلو یہاں کوئی کام کا بندہ تو ملا ۔
    "تم لوگوں نے اگر یہی حرکتیں کرنی ہیں تو ہم تمہیں ہر گز ساتھ نہیں لے کر جائیں گے "۔منتہیٰ نے تنبیہی نظروں سے انہیں گھورتے ہوئے ڈانٹا۔
    ارحم اور شہریار نے بمشکل اپنا اونچا قہقہہ ضبط کیا۔۔ ورنہ خدشہ تھا کہ ان کو بھی بین کر دیا جاتا ۔
    "آپی۔ اب کیا ہم خوش بھی نہیں ہوسکتے۔؟ "۔رامین نے منہ بسورا ۔
    "خوش ہونے کا یہ کونسا انداز ہے؟؟ "۔۔”تم لوگ اپنے گھر کے بیڈروم میں نہیں بیٹھی ہوئیں ۔ سمجھیں۔۔”
    ارمان نے دلچسپی سے ساری لڑکیوں کے اترے چہروں کو دیکھا ۔پھر ایک گہری نظر منتہیٰ پر ڈالی۔
    وہ کیمپس کے قریب پہاڑی جھرنے کے ٹھنڈے پانی میں اپنے دود ھیا پاؤں ڈالے بیٹھی تھی ۔۔۔ دن بھر کی کوفت اور تھکن سے اُس کا سپید چہرہ قدرے سرخ تھا ۔۔۔ ارمان اُسے دم بخود دیکھے گیا ۔
    "اور زندگی میں کچھ لمحے آتے نہیں۔۔ بلکہ دلوں پر وارد ہوتے ہیں ۔۔ ایسا ہی ایک لمحہ اُس روز ارمان یوسف کی زندگی میں بھی آیا تھا ۔ وہ جھرنے سے کچھ فاصلے پر ایک اونچے پتھر پر بیٹھا ہوا تھا پھر بھی کوئی پھوار سی اُسے شرابور کرتی چلی گئی تھی۔”
    "وہ بے خبر تھا ۔۔آج جو بیڑیاں اُس نے با خوشی اپنے پاؤں میں بندھوائی ہیں اب اُسے تا عمر ان کا اسیر رہنا تھا ۔”

    تم نے دیکھی نہیں عشق کے قلندر کی دھمال
    پاؤں پتھر پہ بھی پڑ جائے تو دُھول اڑتی ہے

    جاری ہے

    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    بہت سارے دلوں کو توڑتا
    بہت سے اَشکوں کو بہاتا
    لاکھوں گھروں کو تباہ کرتا ۔۔
    ہزاورں جانوں سے کھیلنے کے بعد۔۔
    طوفان تھم چکا ہے ۔۔
    خدا نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا۔۔
    کہ اُس مقام پر جا ؤ۔۔
    اور۔۔
    مصیبت میں گھرے لوگوں کو
    اپنے مضبوط پروں کی پناہ میں لے لو
    تاکہ آفت سے لڑتے لڑتے
    وہ تنہا نہ رہ جائیں ۔۔
    ****************


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    نیا سمسٹر ، نئے سبجیکٹ ،نئے چیلنجز! منتہیٰ اِن سب سے نمٹنے کے لئے بھرپور توانائی کے ساتھ تیار تھی ۔۔ ۔جس کی ابتداریسرچ سینٹر کے ڈسکشن پارٹ ٹو سے ہوئی تھی۔
    ایک دفعہ پھر وہ سب کیل کانٹوں سے لیس ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے ۔سپار کو سینئرز نے بات کا آغاز کرتے ہوئے بال ارمان کے کورٹ میں ڈالی۔ مسٹر ارمان آپ لوگوں کے سمسٹر امتحانات کے باعث یہ عرصہ کچھ طویل ہو گیا ۔ "میرا خیال ہےکہ اب تک اپنے پراجیکٹ کے متعلق آپ کوئی حتمی فیصلہ کر چکے ہوں گے۔۔؟؟؟۔”
    ارمان نے کھنکار کر گلا صاف کیا ، جی سر ہم نے دو ماہ میں ہر زاویئے سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لیا ہے اور اُس کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ارمان نے ایک لمحے کو رک کر سب کے چہروں کو باری باری دیکھا ۔
    "اگر ہم واقعی قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے طور پر ایک کیمپئین کا آغاز کرنا ہوگا ”
    "جہاں حکومتیں نا اہل ہوں وہاں پھر عوام ہی میں سے کچھ لوگ اٹھ کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ ہم کوئی نئی این جی او بنانے نہیں جا رہے بلکہ ہم ایک ایسی تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں جو آج بہت سوں کو ایک دیوانے کی بَڑ معلوم ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری لگن سچی ہے۔ توہم بہت کچھ نہ سہی اپنے عوام کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر لیں گے ‘ ارمان کا لہجہ دھیما مگرپُر عزم تھا ۔
    ڈسکشن روم کے پن ڈراپ سائیلنس کو ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر حیدر خان کی مدہم سی تالیوں کی آواز نے توڑا ۔
    "ویل ڈن بوائے! مجھے آپ سے یہی توقع تھی، آج کا ہر نوجوان اگر انفرادی طور پر اِسی جذبے سے سرشار ہو تو کوئی شک نہیں کہ ہم گورنمنٹ کے تعاون کے بغیر اپنے ہم وطنوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں "۔ ڈاکٹر عبدالحق کے لہجے میں ارمان کے لئے ستائش تھی
    شہریار نے گردن اُونچی کر کے منتہیٰ کو دیکھا ۔۔جو بدستور سپاٹ چہرے کے ساتھ ہاتھ کی انگلیوں میں ڈیٹا ٹر یولر گھما رہی تھی ۔
    "مس دستگیر ۔اب تو آ پ کو ہمارے پراجیکٹ پر کوئی خاص اعتراض نہیں رہا ہوگا ؟؟ "۔۔وہ پو چھے بنا نہ رہ سکا
    "یو نو واٹ مسٹر ، کہ اِس دنیا میں پرفیکٹ صرف خدا کی ذات ہے۔۔ باقی ہر شے میں خامیاں بھی ہیں اور نقائص بھی، پہلے بھی میرا مقصد آپ کے پراجیکٹ میں کیڑے نکالنا یا رخنے ڈالنا ہر گز نہیں تھا ۔میں صرف یہ چاہتی تھی کہ ایک مکمل ریموٹ سینسنگ سسٹم اِس طرز پر تیار کیا گیا ہے تو اِ س سے عوام کو ریلیف بھی ملے "۔۔ منتہیٰ کا لہجہ سخت تھا
    "سر میں نے ایک پریزینٹیشن تیار کی ہے میں آ پ لوگوں کو دکھانا چاہوں گی۔۔ اُس نے اجازت طلب کی
    سیکنڈ سمسٹر کے امتحانات کے بعد منتہیٰ کا سارا ٹائم اسی ریسرچ میں گزر ا تھا ۔ کپمین کے لئے کئی ہفتوں کی محنت سے تیار کی گئی اس کی پریزینٹیشن کا پہلا بنیادی نکتہ تھا ‘ سسٹم کے ذریعے سائنٹیفک بنیادوں پر قدرتی آفات کی زد پر رہنےوالے علاقوں کا مکمل سروے ۔
    نمبردو۔ اِن علاقوں کو لاحق خطرات کی بروقت تشخیص ۔
    نمبر تین ۔ایک ایسی باقاعدہ مہم جس کے ذریعے اِن علاقوں کی عوام کو خطرات سے آگاہ کر کے ڈیسازٹر سے اَزخود نمٹنے کی ٹریننگ دی جائے ۔
    نمبر چار۔ ریسکیو سینٹر ز کا قیام اور ان میں ٹریننگ کے لئے مقامی افراد کی بھرتی۔ جس سے انہیں بڑے پیمانے پر روزگار کی سہولیات دستیاب ہوں گی۔
    نمبر پانچ۔ اِن علاقوں خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں بڑ ھتی ہوئی انتہا پسندی پر قابو۔ کیونکہ ڈیسازسٹر سے نفسیاتی طور پر متاثربے روزگار نوجوانوں کو پاکستانی اور افغان طالبان گروپ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔
    تقریباٌ آدھے گھنٹے کی پریزینٹیشن نے کانفرنس روم میں موجود ہر شخص کو متاثر کیا تھا ۔۔ حتیٰ کے تھوڑی دیر پہلے اُس سے چڑےبیٹھے شہریار نے بھی تالیاں بجا کر بھرپور داد دی تھی ۔
    ویل مس دستگیر۔میں چاہوں گا کہ آپ اِس پریزینٹیشن کی ایک کاپی مجھے اور سپارکو آفیسرز کو بھی دیں ،ارمان نے بات کرنے میں پہل کی ۔
    جی ضرور !مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔ منتہیٰ نے بنا پس و پیش ڈیٹا ٹریولر ارمان کی طرف بڑھایا ۔
    ۔۔۔Guys you are playing well
    ایک ہفتے بعد پھر میٹنگ رکھتے ہیں ۔۔ آفیسرز کو کسی کام سے جانا تھا ۔۔سو وہ تیزی سے الوداعی کلمات کہتے ہوئے جا چکے
    تھے۔۔ ان کے پیچھے منتہیٰ بھی ۔۔اور فاریہ اور ارحم کی توقع کے بر خلاف ۔
    ’’ وہ آج بھی فاتح لوٹی تھی ۔۔۔‘‘
    ****************

    مکمل تیاریوں کے ساتھ ٹھیک دو ہفتے بعد وہ سپارکو کے ریسرچ سینٹر کے پلیٹ فارم سے زمین کو بچاؤ تحریک (Save the earth) کا آ غاز کر رہے تھے جس کا ایجنڈہ اور مقاصد ارمان یوسف نے منتہیٰ کی پریزینٹیشن کی مدد سے خود تحریر کئے تھے ۔
    ابتدائی طور پر اس کمپین میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ریسرچ سینٹر کے آفیسرز اور عملہ ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور پنجاب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اور ٹیچرز شامل تھے ۔۔
    کمپین ہیڈ ارمان یوسف کی ابتدائی تقریر مختصر لیکن مدلل تھی ۔ بے شک وہ ایک اچھا مقرر تھا ۔
    ’’لگ بھگ چھ ماہ پہلے جب ہم نے ریموٹ سینسنگ پر اپنے پرا جیکٹ کا آغاز کیا تھا ۔۔تو ہمارا مقصد صرف اور صرف سمیسٹر کاپراجیکٹ پورا کرنا تھا ۔۔ ۔لیکن اس دوران اکتوبر میں آنے والے ایک خوفناک زلزلے نے ہماری توجہ ڈیسازسٹر مینجمنٹ کے طرف مبذول کروائی ۔”
    "کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ کی نیت صاف ہو تو پھر راستے کے پتھر کچھ معنی نہیں رکھتے "۔ اللہ پاک کی بھر پور مدد ہمارے ساتھ تھی سو چند ہی ماہ میں ہمارے پراجیکٹ کو لمس سے سپارکو تک بوسٹ ملا ۔۔میں سپارکو کے سینئر آفیسرزاور مس منتہیٰ دستگیر کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک رفاحی تحریک کی جانب ہماری راہنمائی کی ۔
    "ہمیں بخوبی علم ہے کہ جو کام ہم شروع کرنے جا رہے ہیں وہ قطعاٌ آسان نہیں ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور مسائل بے پناہ ۔۔
    "لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آج تک وہی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جن کی ابتداء چھوٹے پیمانے پر بہت کم وسائل کے ساتھ کی گئی ۔۔فائیوسٹار ہوٹلوں میں سیاستدانوں اور بزنس مینز کے آشیرواد سے جنم لینے والی این جی اوز صرف فائلوں یا بینک اکاؤنٹس تک محدود رہتی ہیں۔۔ جن کے اکاؤنٹس میں جمع کی جانے والی چیریٹی دراصل وہ کالا دھن ہے جو ہمارے سیا ستدان عوام کا خون چوس کر حا صل کرتے ہیں۔ ان این جی اوز کے سائے تلے جو گھناؤنے کھیل ۔۔کھیلے جارہے ہیں وہ اب عوام کی نظروںسے پوشیدہ نہیں رہے ۔”
    "کسی بھی ڈیساسٹر سے نمٹنے کے لئے اپنی شرائط پر امریکہ اور یورپ سے ملنے والی گرانٹ دراصل بھیک کے وہ ٹکڑے ہیں جو عیاش اپنی من مانیاں جاری رکھنے کے لیے انہیں مہیا کی جاتی ہیں ۔ اور ہمارے بے ضمیر ، ننگِ انسانیت حکمران اسے من و سلویٰ سمجھ کے قبول کرتے ہیں۔”
    ارمان کی تقریر کے بعد ریسرچ سینٹر کے سینئر آفیسر ڈاکٹر عبدالحق نے اپنی مختصر تقریر میں پچھلے دو تین ماہ میں ان سب، خاص کر ارمان اور منتہیٰ کی کارکردگی کو بھرپور سراہتے ہوئے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
    "ہمیں یقین ہے کہ آپ نوجوان نیک نیتی سے جو بیج بو رہے ہیں وہ چند برس یا ایک عشرے بعد تناور درخت بن چکے ہونگے، جن کی گھنی ، میٹھی چھاؤں سے آنے والی نسل مستفید ہوگی”۔
    میں سیو دی ارتھ کے بورڈ آف گورنرز کے لیے ڈاکٹر حیدر اور ڈاکٹر عقیل احمدکے نام تجویز کرہا ہوں۔ جبکہ باقی عہدیداروں کے انتخاب کے لیے آپ سٹوڈنٹس آزاد ہیں ۔ مگر کچھ پوائنٹس میں یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
    رفاحی کاموں کو تیزی سے زیادہ نیک نیتی ، ان تھک محنت اور استقامت کامیاب بناتی ہے۔بے شک آپ کو آگے بڑھنے کے لیئے ایک کثیر سرمائے کی ضرورت ہوگی، مگر خدمتِ خلق سے وابستہ افراد تب ہی آپ کی مالی مدد کریں گے جب آپ شب و روز محنت سے اپنا ایک معیار بنائیں گے۔ انشاء اللہ آہستہ آہستہ یوتھ آپ کے ساتھ شامل ہوتی جائے گی ۔بلاشبہ کسی بھی قوم کی اصل قوت اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے۔ ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں ۔”

    جاری ہے
    ****************

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    "جی مجھے یاد آیا کچھ عرصے پہلے تک آپ لوگوں سے فیس بک پر طویل مباحثے ہوا کرتے تھے ۔۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی”۔
    "کہیے یہاں کیسے آنا ہوا ؟؟ "۔۔ارمان نے خوش اخلاقی سے جواب دیا
    "ہم یہاں کنٹیسٹ کے لیے منتہیٰ کی پینٹنگ جمع کروانے آئے تھے "۔۔ فاریہ نے مڑ کر دیکھا منتہیٰ باہر جاچکی تھی ۔۔
    "آج تیری خیر نہیں بچو "۔۔۔ اُس نے اب منتہیٰ کا فل ریکارڈ لگانا تھا ۔۔
    "ہم بھی ارمان کی پینٹنگ جمع کروانے آئے تھے "۔۔۔ "یہ ارحم تنویر تھا "۔۔ فاریہ کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی
    "اوہ ریئلی پھر تو زبردست کنٹسیٹ رہے گا "۔۔فاریہ حسبِ عادت منٹوں میں ایکسائٹڈ ہوئی ۔۔
    "آپ لوگ کیا کپمیٹیشن کے لیے لاہور آ ئی ہیں ۔۔ ارحم نے دریافت کیا ‘ فاریہ کی طرح اسے بھی فرینک ہونے میں دیر نہیں لگتی تھی”۔ جبکہ ارمان ریزرو تھا۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "نہیں ہم تو اب یہیں پائے جاتے ہیں پنجاب یونیورسٹی میں ۔۔ آپ کے پاپا سر یوسف بہت ہی متاثرکُن شخصیت رکھتے ہیں "۔۔اب کے اُس کا مخاطب ارمان تھا ۔
    "تھینکس ۔اینڈ وش یو بیسٹ آف لک ۔۔ ”
    فاریہ کو ایک دم منتہیٰ یاد آ ئی ۔۔ تیزی سے شکریہ اور الوداعی کلمات کہتے ہوئے اُس نے باہر دوڑ لگائی ۔
    حسبِ توقع مینا عریب قریب کہیں بھی نہ تھی ۔۔ فل سپیڈ میں بھاگ کر فاریہ مین انٹرینس تک پہنچی ۔منتہی گیٹ سے باہر ایک طرف جاتی نظر آ ئی۔۔
    "ایک تو تم انتہائی فضول لڑکی ہو فاریہ نے پھولی سانس کو بمشکل ہموار کیا ۔۔۔ ”
    "تم سے کم "۔۔ سپاٹ چہرے کے ساتھ مختصر جواب آ یا
    "خوش فہمی ہے تمہاری ہونہہ ۔۔۔۔ تم پانچ منٹ انتظار نہیں کر سکتی تھیں ۔۔؟؟”
    "پانچ منٹ انتظار میں نے کیا تھا فاریہ بی بی” ۔۔ مینا نے اُسے جتایا ۔۔
    وہ مجھے پتا ہے کہ تم وہاں کیوں رکی تھیں ۔۔ ویسے تمہاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ فاریہ تو ارمان یوسف کو بھول گئی تھی لیکن منتہیٰ دستگیر اُسے سیکنڈوں میں یاد آئی ۔۔فاریہ نے شرارت سے دیدے نچائے ۔۔
    کیا۔۔۔ تم نے اُسے میرے بارے میں بتایا ؟؟ منتہیٰ کا پارہ آسمان کو پہنچا
    ہاں تو اِس کیا حرج تھا ۔۔ فیس بک پر تو وہ تمہیں جانتا ہی تھا نہ ۔۔تم فیک نہیں جو میں چھپاتی ۔۔۔
    اُف۔۔ فاریہ تم انتہائی درجے کی احمق اور ڈفر لڑکی ہو ۔۔ مینا کا بس نہیں چل رہا تھا کی فاریہ کو کچا چبا جائے۔۔
    "اچھا چلو غصہ تھوک دو ۔۔۔ آ ؤ تمہیں یہاں مزیدار آئس کریم کھلاتی ہوں "۔۔فاریہ پر مینا کی ڈانٹ پھٹکار کا کچھ خاص
    اثر نہیں ہوتا تھا۔
    سو وہ اسے کھینچتی ہوئی میٹرو سٹیشن کی جانب چل دی

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ویک اینڈ پر شام پانچ بجے وہ الحمرا ء ہال میں پہنچیں تو ہال بھانت بھانت کے لوگوں سے اٹا اٹ بھرا ہوا تھا ، جن میں سے
    کوئی بھی ان کا شناسا نہ تھا ، سو ایک اِدھر اُدھر مٹر گشت کرتی ہال کی سیر کرتی رہی۔
    فاریہ بہت ایکسائیٹڈ تھی جبکہ منتہیٰ کو کچھ زیادہ پرامید نہیں تھی ، پینٹنگ ہمیشہ سے اس کا شوق رہا تھا ، مگر وہ بہرحال پروفیشنل پینٹرنہ تھی ، اس لیے جب رزلٹ اناؤنس ہوا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا ۔
    "فرسٹ پرائز "۔ فاریہ کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ خوشی سے نعرے لگائے ۔۔۔اُس کی ایکسائٹمنٹ دیکھ کر اب منتہیٰ جلدی یہاںسے نکلنے کے چکر میں تھی۔۔۔کہ پیچھے سے آتی آواز نے اُن کے قدم روکے۔
    "ہیلو مس فاریہ ۔۔ یہ ارحم تنویر تھا ۔۔ کیسی ہیں آپ لوگ ؟؟ ”
    "ارے آپ لوگ فرسٹ پرائز جیت کر بھی اتنی جلدی جا رہی ہیں ۔۔غالباٌآپ لوگوں کے علم میں نہیں کہ یہاں لوگ منہ مانگے داموں پینٹنگز خرید لیا کرتے ہیں "۔ اَرحم نے انہیں آگاہ کرنا ضروریسمجھا۔
    اور منتہیٰ کے تو پاؤں کو لگی سر تک جا پہنچی ۔۔
    "مسٹر ایکس وائی زیڈ ۔۔ہمارا اپنی پینٹنگ سیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔”
    "”دنیا میں ہر چیزبکنے کے لیے نہیں ہوتی ۔۔ کچھ چیزیں اَن مول ہوتی ہیں ۔۔
    درشتی سے اَرحم کو جھڑکتی وہ آگے بڑھ چکی تھی ۔۔
    پلیز آپ مائنڈ مت کیجیے گا یہ میری فرینڈ خاصی بد لحاظ ہے ۔۔ فاریہ نے ایکسکیوز کی ۔
    "اِٹس اُوکے ۔۔ میرے پاس مائنڈ ہی نہیں”۔ اَرحم نے دانت نکالے۔۔
    "اچھا پھر تو آپ ہمارے ہی قبیلے سے ہیں۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی ۔ "آج آ پ کے دوست ساتھ نظر نہیں آ رہے ۔۔؟؟
    "ارمان ۔۔وہ ابھی تو یہیں تھا "۔۔ اَرحم نے اِدھرُ ادھر نظر دوڑائی ۔۔
    ویسے آپکی دوست کی پینٹنگ تھی بہت زبردست اِنھیں پروفیشنلی اِس طرف آنا چا ہیئے ۔۔
    "یہ جو میری دوست منتہیٰ ہے نہ۔۔اللہ نے اِسے ٹھونس ٹھونس کے صلاحیتیں دی ہیں ماشاء اللہ ۔۔”
    اُوہ آئی سی ۔۔
    Then  she  really  deserve  such  flatulence
    اَرحم نے دانت نکالے ۔۔ٹھیک اُسی وقت فاریہ کے سیل پر مینا کا ٹیکسٹ آ یا ۔
    "اب اگر میں اکیلی چلی گئی تو تمہیں ٹریٹ سے ہاتھ دھونے پڑیں گی "۔۔ اور فاریہ نے اللہ حافظ کہتے ہوئے باہر دوڑ لگائی ۔۔
    "اُن کی شرط لگی تھی کہ جیتنے پر مینا ٹریٹ دے گی” ۔ اور اسے پتا تھا دو سیکنڈ بھی لیٹ ہوئی تو منتہیٰ بی بی نے ارادہ بدل دینا ہے۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    پہلے سمسٹر میں فور پوائنٹ زیرو جی پی اے کے ساتھ منتہیٰ کی کلاس میں پوزیشن کچھ اور مستحکم ہو چکی تھی ۔۔۔سو ایک نئے جوش کے ساتھ دوسرے سمسٹر کے آغازکے لیے منتہیٰ مستعد تھی ، اس دفعہ کچھ اور لائق اساتذہ نے کلاسز لینی تھیں جن میں ڈاکٹر یوسف بھی شامل تھے۔

    "آپ میں سے کوئی جانتا ہے کہ کائنات کی حقیقت کی بارے میں آئن سٹا ئن کا مشہور قول کون سا ہے؟”
    سر یوسف نے ساری کلاس کی طرف استفہامیہ انداز میں دیکھا ۔۔ پہلا بلند ہونے والا ہاتھ حسبِ سابق منتہیٰ کا تھا ۔۔ "یس۔ یُو۔ مِس۔”سر نے اُسے اشارہ کیا ۔
    "سر آ ئن سٹائن کا کہنا تھا کہ کائنات کی سب سے بڑی قابلِ فہم حقیقت یہ ہے کہ۔ یہ نا قابلِ فہم ہے ۔۔”
    "رائٹ یو نو واٹ کہ آئن سٹا ئن نے صرف ۲۶ برس کی عمر میں اپنا وہ پہلا ریسرچ پیپر لکھا تھا جو بالاخر کوانٹم فزکس اور آسٹرونامی کی بنیاد بنا ۔۔ حالانکہ اُس وقت نہ تو ٹیکنالوجی کی اتنی سہولیات میسر تھیں نا ہی اُس کے پاس کوئی باقاعدہ لیبارٹری تھی ۔۔ اِس کے با وجودآئن سٹائن کی تھیوریز ا س حد تک درست ہیں کہ آج "ہبل اور کیک "جیسی پاورفل ٹیلی سکوپس کے ذریعے ہونے والی تحقیقات سے اِن تھیوریز کی تصدیق ہو رہی ہے جس کی تازہ ترین مثال "لیگو پراجیکٹ”ہے جس میں خوش قسمتی سے ہمارے دو ہم وطن بھی شامل تھے۔
    Sir!  Would  you  further  explain  Einstein  Gravitational  waves??
    سر نے منتہیٰ کی پسند کا موضوع چھیڑا تھا سو اُس کی دلچسپی عروج پر تھی ۔
    شیور ۔۔ ایسا ہے کہ لیگو کی ٹیم نے کئی برس کی اَن تھک محنت کے بعد دو انتہائی زیادہ ماس والے بلیک ہولزدریافت کیے جو آپس میں مدغم ہورہے تھے اِس سے جو گریویٹیشنل ویوز ڈیٹیکٹ کی گئی اِن سے نا صرف آئن سٹائن کی تھیوریز کی تصدیق ہوئی بلکہ ِ انہوں نے آسٹرونامی میں ایک نئی جہت متعارف کروائی۔
    "اِن موجوں کے ذریعے پہلی تصدیق تو یہ ہوئی کہ کائنات کی ابتدا سنگولیریٹی یعنی بگ بینگ سے ہوئی ۔۔مزید یہ کہ ہم انِ موجوں کے ذریعے ماضی میں جا سکتے ہیں اور اپنے سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں کہ کا ئنات کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی ؟؟”
    "یہ وہ سوال ہے جس نے ماہرِ فلکیات ہی نہیں ہر اُس شخص کے دماغ کو جکڑا ہوا ہے جو صرف کھانے، پینے ، سونے جاگنے اور ز ندگی سے لطف اٹھانے کے لیے نہیں جیتا بلکہ اُس کا ذہن اپنے ماحول ، خدا کی اِس وسیع کائنات ، اجرامِ فلکی غرض یہ کہ ہر شے کی حقیقتکو سمجھنے کی جستجوکرتا ہے ۔”
    "عموماًسائنس اور مذہب دو بالکل الگ تھلگ ایسے آ پشنز تصور کیے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔حا لانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ آ پ قرآن پڑھیے ۔۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ جس کائناتی مظہر پر غور و فکر کے بارے میں کہا ہے وہ اجرامِ فلکی ہیں ، بار بار ایک ہی سورت میں ۔۔ کچھ سورتوں بعد لوٹ کر پھر انہی چاند، سورج ، ستاروں کا ذکر آ جا تا ہے۔میں مذ ہبی آدمی ہر گز نہیں ہوں اور نہ ہی میں نے فزکس کو اسلام سے ریلیٹ کر کے پڑھنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ کیو نکہ عموماٌآسٹرونامی کو ما بعد الطبعیات ۔۔حقیقت سے ما وراء علوم میں شمار کیا جاتا ہے ۔۔”
    سر کیا میں مداخلت کر سکتا ہوں ؟؟ یہ فواد تھا
    "یس یو کین "۔۔ سر نے خوش دلی سے اجازت دی
    "سر ایسا ہے کہ جب ہم سائنس کو اسلام سے ریلیٹ کر کے پڑھتے ہیں تو یو نو واٹ کہ یہ مطالعہ ہمیں دہریت کی طرف
    لیکر جاتا ہے کیونکہ آسٹرو فز کس خدا کے وجود کا انکاری ہے ۔۔”
    Good  point  you raise …
    سر کے لہجے میں ستائش تھی ۔۔ لیکن میں چاہوں گا کہ اِس کا جواب اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق آپ لوگ خود سوچیں "یہ آ پ لوگوں کی کل کی اسائنمنٹ ہے انشاء اللہ کل اِس کو ڈسکس کریں گے "۔۔ سر یوسف نے مسکراتے ہوئے پوری کلاس کے فق چہروں کو دیکھا ۔۔”لیکن اِن میں ایک چہرہ بالکل پر سکون تھا ۔۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    چند ماہ بعد۔۔ اُن کا تیسرا ٹا کرہ یونیورسٹی آف پنجاب کے سٹیلائٹ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر کی ایک ورک شاپ میں ہوا ۔۔”
    سپارکویہ سینٹر پنجاب میں سپیس سے متعلق واحد سورس ہے جو سپارکو کے تعاون سے قائم کیا گیا ہے۔۔ چند دن پہلے ان
    کے آفیشل فیس بک پیج پر قدرتی آ فات میں کارگر ریموٹ سینسنگ کی تککنیکس پر ہونے والی ایک ورک شاپ کا ایونٹ منتہی ٰ کی نظر سے گزرا تھا ۔ اس کا ایک بڑا مسئلہ ٹا ئمنگ تھا وہ سب پیریڈز چھوڑ سکتی تھی لیکن سر یوسف کا پیریڈ ۔۔۔ نا ممکن۔۔ ۔۔۔ اب تو کسی صورت بھی نہیں جب سر نے اتنے دلچسپ موضوع پر اسائنمنٹ دی ہوئی تھی ۔
    ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر وہ سب سے الگ بیٹھی اِسی اُدھیڑ بن میں لگی ہوئی تھی جبکہ فاریہ ، انعم ، سمین او ر باقی کلاس فیلوز فضول گپیں ہانک رہے تھے۔
    "مسٹر فواد۔ کیا آپ ہمیں اپنا پوائنٹ آ ف ویو بتانا پسند کریں گے تاکہ ہم بھی اسائنمنٹ بنا سکیں "۔۔ یہ انعم تھی
    "بالکل نہیں مفت میں تو میں کسی کو پانی بھی نہیں پلاتا "۔۔ فواد نے دانت نکالے
    "چل اوئے! تجھے ہر وقت کھانے پینے کی پڑی رہتی ہے تجھے کہا کس نے تھا سر سے یہ سوال پوچھنے کو؟ "منیب نے فواد کو ایک دھپرسید کی۔۔۔
    "لو کہنا کس نے تھا ۔۔ تم لوگ خود کبھی کورس کے علاوہ فزکس سے متعلق کچھ پڑھ لیا کرو "۔۔ فواد نے برا سا منہ بنایا
    "اُف۔۔ کورس کی بکس کیا کم ہیں دماغ کی چولیں ہلانے کو ۔۔ میں تو اُس وقت کو کوستی ہوں جب بی ایس میں فزکس رکھاتھا ۔۔” بھلا فاریہ کب کسی سے پیچھے رہنے والی تھی ۔
    اور اِن سب کی فضول بکواس سے لا تعلق بیٹھی منتہیٰ جو گوتم بدھ کی طرح گہری سوچ میں غرق تھی یکدم چونک کر اٹھی
    "اے مینا تم کہاں چلیں فاریہ نے پیچھے سے آواز لگائی "۔۔
    "میں ذرا ڈیپارٹمنٹ لائبریری تک جا رہی ہوں تم لوگ باتیں کرو "۔مڑے بغیر جواب دیکر منتہیٰ نے قدم بڑھائے ۔
    یار فاریہ تو منتہیٰ سے پوچھ نہ اُ س کو لازمی جواب کا آتاہوگا ۔۔ سمین نے فاریہ کے کان میں سرگوشی کی
    "پتا تو ضرور ہوگا میری جان پر وہ گھُنی بتائے گی کب ۔۔ ”
    تم رات کو اُس کی اسائنمنٹ پار کرکے نوٹس لے لینا، پھر فرسٹ پیریڈ ڈراپ ۔۔ ہم کچھ نا کچھ بنا ہی لیں گے ۔۔ سمین نے اسےراہ دکھائی ۔۔۔
    "بی بی سمین ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی اتنی جلدی قتل ہونے کا میرا کوئی ارادہ نہیں "۔۔ فاریہ نے صاف انکار کیا ۔۔ وہ منتہیٰ کی رگ رگ سے واقف تھی ۔
    ویسے یار سر یوسف اتنے زِیرک ہیں کہ چیٹنگ پکڑ ہی لیں گے ۔۔ بہتر ہے کہ ہم اپنے ننھے منے دماغوں پر کچھ زور ڈالیں ۔تھوڑی مدد گوگل انکل کر دیں گے ۔۔ انعم نے جیسے فیصلہ صادر کیا۔
    چلو آ ؤ کچھ پیٹ پوجا کریں تاکہ دماغ کچھ سوچنے کے قابل ہوں اور سب کینٹین کی طرف چل دیں۔۔
    ٹھیک اسی وقت منتہیٰ نے سر یوسف کے آفس میں داخل ہونے کی اجازت مانگی۔
    "سر کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟؟”
    سر یوسف جو اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھے ۔۔ انہوں نے چونک کر سر اٹھایا ۔ "یس پلیز ”
    سر مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔ میں آپ کا زیادہ ٹائم نہیں لوں گی۔۔ جسٹ فائیو منٹس پلیز ۔۔
    ۔۔سر نے خوش دلی سے کہا
    Okay Go ahead
    "سر کل سپارکو کے ریسرچ سینٹر میں ایک ورک شاپ یونیورسٹی ٹائمنگ میں ہے ۔ میں آ پ کا پیریڈ ہر گز مس نہیں کرنا چاہتی اورجو اسائنمنٹ آپ نے دی ہے اُس کے بعد تو کسی صو رت بھی نہیں ۔۔ لیکن میں ورکشاپ بھی اٹینڈ کرنا چاہتی ہوں ۔”
    "اِٹس اے نائس چانس فار می”۔۔وہ ایک لمحے کو توقف کے لیے تھمی اور سر کو دیکھا جو پوری طرح اسی کی طرف متوجہ تھے۔
    "سر کیا آپ یہ ڈسکشن ایک دن کے لیے ملتوی کر سکتے ہیں ؟؟ اب کے لہجے میں قدرے گھبراہٹ تھی۔”
    اور ڈاکٹر یوسف کے لبوں پر بے اختیار ایک گہری مسکراہٹ آئی تھی ۔
    ایسے سٹوڈنٹس ہمیشہ سے اُن کی خاص توجہ کا مرکز ہوتے تھے جو لرننگ کا ایک چھوٹا سا موقع بھی ضائع نہیں جانے دیتے ۔ایک بہترین استاد جانتا ہے کہ اُس کی کلاس میں کتنے طلبہ ایسے ہیں جو ڈگری کے لیے پڑھ رہے ہیں جن کی تعداد عموماٌزیادہ ہوتی ہے ، اِن سے کچھ کم، شوق اور لگن کے ساتھ اپنے سبجیکٹ سے اٹیجڈ ہو کرپڑھتے ہیں۔ جن کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی ڈگری جو نا صرف ان کے مستقبل کو تابناک بنانے میں کارگو ثابت ہو ،بلکہ جس سے اُن کے دل و دماغ پر آگاہی کے نئے دَر بھی واہوں جبکہ ایسے سر پھرے سٹوڈنٹس کی تعدادآ ٹے میں نمک کے برابرہوتی ہے جو صرف اور صرف اپنی علم کی پیاس بجھانے کےلیے پڑھتے ہیں ۔۔وہ ڈگریوں اورسرٹیفیکیٹس کے انبار میں بھی خود کو بحرِ علم کے کنارے کھڑا پیاسا ہی تصور کرتے ہیں ۔۔اور منتہی ٰکی صورت میں سر یوسف کو بھی ایک ایسا ہی نادر شاگرد نظر آ رہاتھا ۔
    yes, I can but on a condition ..!!
    اُن کی گہری نظریں منتہیٰ کے چہرے پر تھیں ۔۔ اُوکے تھینک یو سر۔ آ ئی ول ٹرائی مائی بیسٹ ۔۔
    سر یوسف نے ایک سادہ کاغذ اور پین اسکے سامنے رکھتے ہوئے کہا ۔۔ آپ کے پاس پانچ منٹ ہیں آ پ کو اسائنمنٹ کا مختصرلیکن مدلل جواب ابھی یہیں میرے سامنے لکھنا ہے ۔ سر یوسف نے اپنی رسٹ واچ دیکھی۔
    بغیر کسی گھبراہٹ کے منتہیٰ نے کاغذ اپنے سامنے گھسیٹا ۔۔ اور پورے ۴۰ سیکنڈ کے بعد وہ جواب لکھ کر سر کے سامنے رکھ چکی تھی۔
    ’’ "ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں قطعاٌ ضرورت نہیں کہ ہم سائنس کی مدد سے مذہب کی منزل تلاش کریں۔ بلکہ ہمارے پاس قرآن ہے جس کو سمجھ کر ہم سائنس کی نئی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔ خدا کے وجود سے انکار کسی صورت بھی ممکن نہیں ۔ "

    جاری ہے

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    (دوسری قسط)

    "مسز مریم یوسف کا معمول تھا کہ وہ روز رات کو سونے سے پہلے گھر کے سارے دروازے چیک کرکے ایک آخری چکر ارمان کے کمرے کا لگایا کرتی تھیں جو دیر سے سونے کا عادی تھا اور عموماٌ لیپ ٹاپ یا اپنے سمارٹ فون پردوستوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہوتا تھا "۔ مگر بی ایس ٹیلی کام انجینئرنگ میں آتے ہی ارمان میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں ، وہ جو باپ کے غصے اور ماں کی ڈانٹ پھٹکار کے بعد بمشکل کتابوں کو ہاتھ لگایا کرتا تھا ،اب لیٹ نائٹ سٹڈی کا عادی ہو گیا تھا ۔ "ارمان کا شمار اُن ذہین طالبعلوں میں ہوتا تھا جو سٹڈی کو ٹف ٹائم دیئے بغیر بھی اے گریڈ لاتے ہیں ، یوسف صاحب اپنے بیٹے کی صلا حیتوں سے بخوبی واقف تھے ، اگرچہ اسکا اے گریڈ ہمیشہ انکی ا میدوں پر پانی پھیر دیا کرتا تھا ، مگر وہ ان باپوں میں سےنہیں تھے جوزبردستی اپنے فیصلے بچوں پر ٹھو نس کر انکا مستقبل برباد کر دیتے ہیں "۔

    "آج کل نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی شدت، انتہا پسندی اور مختلف طرح کی ایڈکشنزکی ایک بڑی وجہ والدین کا غیر دوستانہ رویہ،اور ان کے مستقبل کے فیصلوں میں من مانی ہے۔ یہ نئی نسل پابندیاں برداشت نہیں کرتی ، آ پ اِنہیں رسی سے باندھیں یہ اُسے توڑ بھا گیں گے ، اِنہیں زنجیروں میں جکڑیں یہ اِن سے فرار کا وہ راستہ اختیار کریں گے کہ آپ کو جوان اولاد سے عمر بھر کے لیے ہاتھ دھونے پڑیں گے” ۔ یہ وہ نوجوان نہیں ہے کہ آرمی یا ائیر فورس کا خواب ، مستقبل کی اپنی منصوبہ بندیوں کو منوں مٹی تلے سلا کر والدین کے فیصلے پر چپ چاپ ان کی پسند کی فیلڈاختیار کر لیا کرتی تھی”۔”آج کی نسل مستقبل کے فیصلوں پر اپنا حق چاہتی ہے” ۔ "سو ایک جہاندیدہ پروفیسر ہونے کے باعث اپنی اکلوتی اولاد کو ایک حد تک آزادی دیکر رسی کا دوسرا سرا بہر حال اپنے ہاتھ ہی میں رکھا تھا "۔ "اب ہر سمیسٹر میں ارمان کا پہلے سے زیادہ جی پی اے اُن کو یہ باور کرانے کے لیے کافی تھا کہ بیٹاصحیح سمت میں چل پڑا ہے ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


    اسی ناول کی پہلی قسط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    "مشرق کی بیٹی چاہی کتنی ہی پڑھ لکھ جائے شادی بیاہ کے معاملے میں براہِ راست باپ سے بات میں ایک حجاب حائل رہتا ہے ، رات جب وہ بلاوے پر ابو کے کمرے میں گئی تو ذہن جیسے کوری سلیٹ تھا "۔ دو دن میں محنت سے تیارکیے تمام دلائل اڑن چُھو ہو چکے تھے ۔”اوپر سے عاصمہ کی تیز برماتی ، آنکھیں بیٹی کی سرکشی کو لگام ڈالنے کو پوری طرح مستعد تھیں” ۔ ملک غلام فاروق دستگیر نے صورتحا ل کی نزاکت کو بھا نپتے ہوئے عاصمہ کو وہاں سے جانے کا کہا تو وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتی منتہیٰ کو سرزنش میں آنکھیں دکھاتی، چپل گھسیٹتی وہ کمرے سے نکلی تو ضرور ۔۔مگر باہر جانے کے بجائے دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہو گئیں، ان کے پیچھے لاؤنج کے پردے کے پیچھے چھپی ارسہ اور رامین نے سر پیٹا ۔ "دھت تیرے کی ۔ امی کو بھی یہیں کھڑا ہونا تھا "۔ "منتہیٰ بیٹا آپ یقیناٌ جانتی ہیں کہ میں نے آپ کو کس لیے بلایا ہے سو بغیر کسی جھجک کے اپنا فیصلہ بتایئے "۔ فاروق صاحب کے دوستانہ لہجے سے منتہیٰ کی ٹوٹتی ہمت کچھ واپس آ ئی ۔۔ کمرے میں کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی ۔ منتہیٰ نظریں جھکائے کارپٹ کے ڈیزائن کی بھول بھلیوں میں اپنا مستقبل تلاش رہی اور بلاآخر اُسے راستہ مل ہی گیا ۔۔ "ابو۔میرے مستقبل کا فیصلہ یقیناٌ آپ ہی نے کرنا ہے لیکن فی الحال میری خواہش ہے کہ مجھے آگے پڑھنے دیا جائے "۔۔ اور فاروق جو بہت دیر سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ بے اختیار مسکرا اٹھے ۔ "مجھے اپنی بیٹی سے ایسے ہی جواب کی توقع تھی ،تم میرا فخر بھی ہو اور مان بھی ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم میرے سارے خواب سچ کر دکھا ؤ گی "۔ "تیزی سے امڈتے آ نسوؤں کو پونچھتے ہو ئے وہ باپ کے گلے لگی "۔ "لیکن ابو ۔۔ دادی اور پھپو”۔۔۔۔ بہت سے خدشات نے سر ابھارا ۔۔؟؟ میری جان ۔”تم اُ ن کی فکر مت کرو ، یہ یاد رکھو کہ اگر تم کچھ غیر معمولی کر کے دکھانا چاہتی ہو تو تمہیں بہت سی رکاوٹیں عبور کرنا ہوں گی، بہت سے عزیز رشتوں کا دل توڑ کر اُنکی خفگی مول لینا پڑے گی "۔ "لیکن یہ ناراضگیاں عارضی ہوا کرتی ہیں ۔۔ ایک وقت آتا ہے جب یہی لوگ آپ کی کامیابیوں پر سب سے زیادہ خوش بھی ہوتے ہیں اور دعاگو بھی کیونکہ خون کے رشتے کبھی نہیں ٹوٹاکرتے”۔ منتہیٰ جو اندیشوں اور خدشوں میں گھری کمرے میں داخل ہوئی تھی شاداں و فرحاں وہاں سے نکلی ، تو عاصمہ ماتھے پر تیوریاں چڑھائے سامنے تخت پر موجود تھیں مگر وہ سر جھکائے تیزی سے ان کے سامنے سے گزرتی چلی گئی ۔جبکہ پردے کی پیچھے چھپی ارسہ اور رامین پہلے ہی رفو چکر ہو چکی تھیں "۔ اگلے روز شام کو مہرالنساء کو گھر میں موجود پاکر فاروق صاحب کو صورتحا ل سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی ۔

    صبح جاتے وقت وہ ماں اور بیوی کواپنے فیصلے سے آگاہ کر گئے تھے۔ "فی الحال وہ منتہیٰ کو ماسٹرز کے لیئے لاہور بھیج رہے ہیں "۔ اُنک ا خیال تھا کہ عاصمہ خوش اسلوبی سے بات سنبھال لیں گی مگر یہاں تو الٹا محاذ کھلا ہوا تھا ۔ "بھا ئی مجھے آپ سے ایسی توقع ہر گز نہیں تھی "۔۔ "آخر کیا کمی ہے میرے چاند سے بیٹے میں ماشاء اللہ بینک کی جاب ہے۔۔؟” "جی پھپو”۔”بس آپ کے چاند میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تاریکی چھائی رہتی ہے "۔ رامین نے ارسہ کے کان میں سرگوشی کی جو پور ی توجہ سے دوسری طرف کی بات سننے میں مصروف تھی ۔۔ مہرالنساء۔ "میں نے انکار ہر گز نہیں کیا میں منگنی کرنے کو تیار ہوں لیکن شادی منتہیٰ کے ماسٹرز کے بعد ہی ہوگی "۔

    فاروق صاحب نے بات سنبھالنے کی آخری کوشش کی ۔ "بھائی انکار اور کیسا ہوتا ہے ؟ آپ جوان بیٹی کو لاہور ہاسٹل بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔”غضب خدا کا۔ میرا تو پورا سسرال ایسی لڑکی کو کبھی قبول نہیں کرے گا "۔ "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہوں "۔مہرالنساء کی قینچی جیسی چلتی زبان رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔۔وہ سوچ کر آئی تھیں کہ ہاں کروا کر ہی جائیں گی۔ سو فاروق صاحب کو مداخلت کرنا پڑی۔ "آپ سب لوگ سن لیں کہ میں کوئی ایسا فیصلہ ہر گز نہیں کروں گا جس سے میری بیٹی کا مستقبل داؤ پر لگ جائے” ۔ پہلے تو میں منگنی کرنے پر تیار تھا لیکن اب میری طرف سے صاف انکار ہے ۔

    "میں اپنی بیٹی ایسے لوگوں میں قطعاٌ نہیں دوں گا جن کے لیئے اعلیٰ تعلیم باعثِ فخر نہیں بلکہ قابلِ ندامت ہے” ۔ فاروق فیصلہ سنا کر اپنے کمرے میں جا چکے تھے اور پورے گھرمیں قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ "اور منتہیٰ اپنے کمرے میں بیڈ پر سر جھکائے گہری سوچوں میں غرق تھی "۔

    "کاش ہر مشرقی لڑکی کا باپ بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ اپنی مجبوریاں سامنے رکھ کر کرنا چھوڑ دے ۔۔ لڑکی کے ماں باپ لڑکے اور اس کے گھر والوں کے دسیوں عیبوں کو نظر انداز کر تے ہوئے جب ہاں کرتے ہیں تو اُن کے پیشِ نظر صرف ایک یقین ہوتا ہے کہ اُن کی بیٹی ہر دکھ جھیل کر ان کا سر جھکنے نہیں دیگی ۔۔بیٹیاں نہ زحمت ہوتی ہیں نہ بوجھ پھر بھی ناجانے کیوں ماں باپ انکی خواہشوں، امنگوں اور سب سے بڑھ کر اُن کی صلاحیتوں کے بر خلاف جلد بازی میں فیصلے کر کے اِنہیں عمر بھر کا وہ روگ لگا دیتے ہیں جو لا علاج ہے ۔ وہ سسکتی ، بلکتی ، رلتی کولہو کا بیل بن کر گھر ، شوہر ، اولاد اور سسرال کی خدمتوں میں ساری عمر بتا دیتی ہیں پھر بھی سسرال میں کوئی عزت و قد ر نہیں ہوتی ، شوہر کی محبت اور توجہ کو ترستی بلآخر قبرمیں جا سوتی ہیں”۔ "ہمارے معاشرے کی یہ بے جوڑ شادیاں دراصل وہ پنجر ہ ہیں جن میں ایک دفعہ قید ہوجانے والی معصوم لڑ کی کا پروا نۂ آزادی پھر موت ہی لیکر آ تی ہے "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ارمان یوسف کی مردانہ وجاہت اور گریس فل شخصیت اسے ہر جگہ صنفِ نازک کی توجہ کا مرکز بنا دیتی تھی ۔۔ لیکن اِس حوالے اُس کا کیریئر بے داغ تھا ۔ حسن اُسے اَٹریکٹ ضرور کرتا تھا لیکن اُس سے بڑھ کر اسے مخالف صنف کی ذہانت اور کیریکٹراپیل کرتا تھا ۔ وہ پریوں کے ہجوم میں گھرا ہوا وہ شہزادہ تھا جس کے من کو کوئی بھا تی ہی نہ تھی ۔۔ یونیورسٹی کی الٹرا ماڈرن لڑکیاں تو اسے چلتا پھرتا شادی کا اشتہار لگا کرتی تھیں جو ہر اُس لڑکے کے ساتھ دوستی ، افیئر اور ڈیٹنگ پر آ مادہ تھیں جس کے پاس وہ نیوماڈل کی کار ، گلیکسی ایس ۷ یا آئی کور ۹ جیسے سیل فونز اور کریڈٹ کارڈز سے بھرے ہوئی والٹ دیکھ لیتی تھیں ۔ منتہیٰ کے فیس بک گروپ میں ارمان کو کسی فرینڈ آف فرینڈ نے ایڈ کیا تھا ، اُس کی دوستوں کا خیال تھا کہ جس کسی نے بھی کیا ،،کارِ خیرکیا ۔۔۔

    "اس قدر ڈیشنگ سا بندہ ہے ، یار منتہیٰ تیرے پاس تو دل ہی نہیں ہے۔” "یمنیٰ ڈیئر دل ، گردے ، کلیجی ، پھیپڑے وغیرہ الحمداللہ سب موجود ہیں "۔ "لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا دل پمپنگ کا وہی مخصوص کام کرتا ہے جس کے لیئے خدا نے اِسے بنایا ہے اور تم دیکھنا کہ اِس کی لائف ٹائم تم سب کے دلوں سے زیادہ ہوگی کیونکہ یہ فضول کاموں میں پڑ کر اپنی انرجی ضائع نہیں کرتا "۔ ہمیشہ کی طرح لوجیکل اورٹو دی پوائنٹ جواب حاضر تھا۔۔ جس پراُس کی فرینڈز سر پیٹ لیا کرتی تھی ۔۔ "یار مینا بندے کو اتنا بھی پریکٹیکل نہیں ہونا چاہیے کہ عین جوانی میں ساٹھ سال کا کوئی خبطی پروفیسر لگنے لگے "۔۔ ہونہہ

    "یہ فاریہ تھی منتہیٰ کی بیسٹ فرینڈ ۔” ارے ہاں۔ "خبطی پروفیسر سے یاد آیا کہ یہ جو ارمان یوسف ہے نہ اس کے والدِ بزرگوار پنجاب یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں سینئر پروفیسر ہیں "۔ اور منتہی ٰ جو لائبریری جانے کے لیے اٹھنے ہی لگی تھی چند لمحوں کے لیئے اپنی جگہ منجمد ہوئی۔ "پنجاب یونیورسٹی اُس کی اگلی منزل”ارے واہ۔ "یہ تو کمال ہو گیا” ۔ چلو دیکھیں گے یہ تمہارے شہزادۂ گلفام کتنے پانی میں ہیں ، یہ ڈی پی کسی کی اُڑا کر نہ لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا ۔۔ منتہیٰ نے مضحکہ اُڑایا۔۔ ۔۔مینا "پہلی بات تو یہ کہ اُس بندے کی پروفائل ہرگز فیک نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ اُس نے ہمارے گروپ میں جگہ اپنی ذہانت سے بنائی ہے ورنہ تم جیسی خبطی ، سڑیل ایڈمن کب کی اسے کک آ ؤٹ کر چکی ہوتیں "۔۔ فاریہ نے اسے آئینہ دکھا یا ۔۔ لیکن فی الحال وہ کوئی آ ئینہ دیکھنے کے موڈ میں نہیں تھی سو برے برے منہ بناتی ہوئے لا ئبریری کی طرف قدم بڑھا دیئے ۔۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ٹاپ۔ ۱۲۰ آ ئی کیو رکھنے والی منتہیٰ دستگیر کے لیے کچھ غیر معمولی نہ تھا ۔۔ اگرچہ یہاں گزارے ہوئے چار سال اس کی زندگی کے بہترین سالوں میں سے تھے ۔۔ یہاں وہ سب کچھ سیکھنے کو ملا تھا جو ایک مضبوط عمارت کی بنیاد کے لیئے اشد ضروری ہوتا ہے ۔ "پاکستان کا تعلیمی نظام عموماٌ تنقید کی ضد میں رہتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ وہ کالی بھیڑیں ہیں جو ہر شعبۂ زندگی کی طرح تعلیم جیسے مقدس پیشے کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ” ۔”جن کا مقصدِ حیات نوجوان نسل کی اعلیٰ پیمانے پر تربیت کے بجائے صرف لوٹو، اور بینک بیلنس بناؤ ہے” ۔اِس کے با وجود دیکھنے میں آ یا ہے کہ "جو جینیئس مائنڈ ز دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے ہیں اُن کا تعلق معاشرے کے نچلے طبقے سے تھا "۔۔ "جنھیں ابتدائی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر میسر تھی لیکن ٹیلنٹ اپنی جگہ اور پہچان ہمیشہ خود بناتا ہے۔یہ گدڑی میں چھپے ہوئے وہ لال تھے جنھوں نے نا مساعد حالات کے باوجود ساری دنیا میں ملک و قوم کا نام روشن کیا ۔ اور پاکستان کے افق پر طلوع ہونے والے ’’ نیبیولہ‘‘ میں ایک ستارہ منتہیٰ دستگیر بھی تھی "۔ فاریہ کے بر عکس منتہیٰ پنجاب یونیورسٹی میں بھی وہ پہلے جیسی پر سکون ہی تھی ۔۔ اُسے نہ کلاسز شیڈول دردِ سر لگا تھا نہ لاہور کی شدید گرمی نے اُسم کے اوسان خطا کیئے تھے ۔۔حتیٰ کے ہوسٹل کے میس کا بیکار سا کھانا بھی وہ مطمئن ہوکر کھا لیا کرتی تھی ۔۔۔ جبکہ فاریہ کی سارا دن کمنٹری جاری رہتی تھی ، کبھی گھر کا کھانا ، کبھی آرام ، کبھی گھر والے حتیٰ کی اپنی پالتو بلی ’’میشا ‘‘بھی اُسے دن میں پچاس دفعہ یاد آتی اورہر دفعہ وفورِ جذ بات سے آنکھیں بھر آیا کرتی تھیں "۔

    جنھیں اب مینا مینڈک کے آ نسو ؤ ں سے تشبیہ دیاکرتی تھی، ہر وقت ٹر ٹر کرنے والی فاریہ کسی مینڈک سے کم بھی نہ تھی ۔۔ سکائپ اور واٹس اپ کے ذریعے گھر والوں سے مستقل رابطہ رہتا تھا ۔ منتہیٰ ہمیشہ سے کم گو رہی تھی مگر پہلی دفعہ گھر سے دوری پر اسے سب ہی بہت یاد آیا کرتے تھے۔ رات میں ابو بھی اُس سے تفصیلاٌ حال چال پوچھا کرتے تھے ۔۔ نئی جگہ پر جو بھی مسائل پیش آرہے تھے ابو کے پاس اُن کا فوری حل موجود ہوتا تھا ۔۔ فاروق صاحب نے اُسے ہاسٹل چھوڑتے وقت کوئی بہت لمبے لیکچرز نہیں دیئے تھے۔ مگر کچھ باتیں انہیں نے اس کے ذہن میں بٹھانا ضروری سمجھا تھا ۔

    "بیٹیاں ماں باپ کا مان بھی ہوتی ہیں اور فخر بھی ۔۔ یہی بیٹی اپنی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے قدموں کو بہکنے سے بچاتی ہے” ۔۔ "ہمیشہ یہ یاد رکھنا کہ عورت کردار کے بغیر باسی روٹی کی طرح ہوتی ہے جسے ہر کوئی چھان بورے میں ڈال دیتا ہے ہر لڑکی کے لیے سب سے اہم اُسکا وقار ہے "۔ "عورت ذات کو اللہ تعالیٰ نے چھٹی حس اتنی تیز دی ہے کہ وہ کسی بھی مرد کی نظروں سے اپنے بارے میں اس کی نیت کو جان لیتی ہے یہ صلاحیت اللہ نے اُسے اِس لیے دی ہے کہ وہ جان سکے کہ کون اس کے لیے اچھا ہے اور کون برا ۔میں تمہارا باپ اپنی معصوم کلیوں کے لیے آخری حد تک حساس ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہاری منزل بہت آگے ہے۔ا ب تمہیں اپنی اور اپنے باپ کی عزت کی حفاظت اَز خود کرنی ہے ۔بہت سی رکاوٹیں تمہارے راستے میں آ ئیں گی، قدم قدم پر بھیڑیے تمہیں راستہ روکے ملیں گے ۔ لیکن ” میری جان ۔ "جو صرف اللہ پرکامل بھروسہ رکھتا ہے تو میرا رب اس کی ہر مشکل کو آسانی میں بدلنے کی قدرت رکھتا ہے۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "صدیوں پہلے جب نیوٹن نے یہ ثابت کیا تھا کہ حسابی مساواتوں کو حیرت انگیزطور پر اجسام کے زمین اور خلا میں باہمی تعلق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو یہ امید ہو چلی تھی کہ مستقبل قریب میں کسی نئی سپیشل تھیوری اور انتہائی طاقتور اعداد و شمار کی صلاحیت کے ذریعے کائنات کے مستقبل کو آشکار کرنا ممکن ہوگا ۔وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ نئی تھیوریز سامنے آتی چلی گئیں اور آج انسان ٹیکنالوجیکل میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے "نا نو ٹیکنالوجی "اور "آرٹیفیشل انٹیلیجنس” نے جیسے وقت کو انسان کی مٹھی میں قید کر دیا ہے "۔۔۔ اچانک منتہیٰ کی آواز آئی ’’ سر کیا میں بیچ میں بول سکتی ہوں؟؟‘‘ سر انور نے اپنی ناک پر ٹکی عینک کے پیچھے سے منتہیٰ کو گھورا۔۔ اپنی سخت طبیعت کی وجہ سے وہ سر ہٹلر کے نام سے مشہورتھے کسی کی مجال نہیں تھی کہ لیکچر کے دوران مداخلت کرے، "مگر وہ منتہیٰ ہی کیا جو کسی کا رعب قبول کر لے”۔۔

    "وہ تم پہلے ہی کرچکی ہو ، آگے بولو "۔ انور سر کا پارہ بس چڑھنے کو تھا ۔ مگر منتہی ٰپر ان کی ناگواری کا کچھ خاص اثر نہیں ہوا تھا ۔۔ سر جیسا کہ آپ نے کہا۔ "کہ نئی تھیوریز اور ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی بھی حتمی طور پر انسان کو اُس کے مستقبل کے بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہے "۔۔ میرا سوال یہ ہے کہ۔ "کیا ہم نے اپنا ماضی کو پوری طرح کھوج لیا ہے؟ ؟کیا انسان نے اپنے حال کو مکمل محفوظ اور پائیدار بنا لیا ہے؟؟ "

    "کیونکہ مستقبل پر کمندیں ڈالنے کا حق تو وہی رکھتے ہیں جن کی بھرپور نظراور گرفت اپنے ماضی وحال پر ہو” ۔۔ سر انور نے کچھ غور سے اِس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا ۔۔ "یس آج کا انسان اپنے ماضی سے کافی حد تک آگاہی حاصل کر چکا ہے ۔ یہاں تک کے وہ اُس سادہ ترین خلیے کی سا خت تک سے واقف ہے جس سے زمین پر زندگی کی ابتد ہوئی "۔۔ منتہا پھر بولی ۔۔ اور حال کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماضی اور مستقبل کو جاننے کی جستجو میں انسان اپنے حال سے غافل ہو گیا ہے؟؟؟ "اسے اپنے ارد گردبھوک ، جہالت اور پسماندگی کی نچلی ترین سطح پر جیتے زمین کے باسی نظر نہیں آ تے ۔۔وہ اربوں ڈالراُس ماضی کی کھوج لگانے پر اُڑا رہا ہے۔۔ جس کی ایک جھلک وہ افریقہ میں ٹیکنالوجی کے نام سے نا بلد وحشی قبائل میں با آسانی دیکھ سکتا ہے "۔۔ "اِس سے پہلے کے ڈسکشن آگے بڑھتی پیریڈ ختم ہو چکا تھا "۔۔ لیکن کلاس سے جاتے ہوئے سر انور نے ایک گہری ستائشی نظر منتہیٰ پر ڈالی تھی ۔۔ ایک سو بیس کا آئی کیو رکھنے والی یہ لڑ کی ابتدا ہی سے سب اساتذہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا چکی تھی ۔جس طرح وہ لیکچر روم میں ہی نہیں مختلف سیمینارز اور ورک شاپس میں پوائنٹ اٹھایا کرتی تھی وہ سبجیکٹس پر اسکی گہری دسترس کی غماز تھی، ورنہ عموما ََ عسٹوڈنٹس اہم موضوعات کو سطحی طور پر سمجھ لیا کرتے ہیں لیکن منتہیٰ ہر چیز کو اس کی بنیاد سے سمجھنے کے لیے بلا جھجک سوال کیاکرتی تھی۔ "یار مینا کبھی اِن کتابوں کی بھی جان چھوڑ دیا کر”۔۔ "یہ دیکھ الحمراء میں سٹوڈنٹس کے آرٹس اور پینٹنگ کا مقابلہ ہو رہا ہے ۔اورانرولمنٹمیں صرف دو دن باقی ہیں "۔ لیکن جواب ندارد منتہیٰ اُسی تندہی سے اپنی اسائنمنٹ مکمل کرنے میں لگی رہی ۔۔ سو فاریہ کے پاس پلان ٹو تیار تھا ، مینا کی یونیورسٹی اور پرسنل ای میلز اُسکے علم میں تھیں۔۔ "چند ہی منٹ میں وہ منتہیٰ کی انرولمنٹ کروا کر چپس ٹھونگتے ہوئے الحمراء ایڈونچر کے تھرل کے بارے میں سوچ رہی تھی "۔۔ دو دن بعد ہاسٹل واپسی پر بڑا سا پارسل منتہیٰ کا منتظر تھا ۔

    وارڈن سے پارسل لیکر وہ یہ سوچ کر کمرے میں اٹھا لائی کے ارسہ اور رامین نے شائد کوئی گفٹ بھیجا ہو ۔ لیکن ۔ "اندر تو اس کی کچھ پینٹنگز تھیں جو وہ گھر پر فارغ وقت میں بنا یا کرتی تھی”۔ اگلے لمحے وہ تکیہ اٹھا کر فاریہ پر پل پڑی ۔۔” کمینی مجھے بتائے بغیر۔۔” "لینگویج پلیز میڈم "۔۔ فاریہ بگڑی ۔۔ "آپ کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ ما بدولت نے آپ کا قیمتی وقت بچاتے ہوئے یہ کارخیر سر انجام دیا "۔۔۔ہونہہ "ما بدولت کی بچی "۔۔ ‘اب تم الحمراء جانے کا کارِ خیر بھی خود ہی کر لینا سمجھیں ‘۔۔ میناکا تھکن سے برا حال تھا ۔۔ چند ہی منٹ بعد وہ گہری نیند میں تھی ۔ اور فاریہ پارسل کھول کر پینٹنگز کا جائزہ لینے میں مصروف تھی ۔ ایگزیبیشن کے لیے پینٹنگ جمع کروانے کا اگلے روز آخری دن تھا ۔۔ وہ پیریڈڈراپ کر کے الحمراء پہنچی۔۔ تو اُن کی توقع کے عین مطابق ریسیپشن پر خاصہ رش تھا ۔۔۔ مینا کو کوفت ہوئی۔ "فاریہ بس واپس چلتے ہیں بھاڑ میں جائے کمپی ٹیشن "۔۔ "اُف منتہیٰ تھوڑی سی دیر کی بات ہے ۔۔” کوئی آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد خیر سے اُن کی باری آئی ۔۔ پینٹنگ جمع کروا کر مینا اب تیزی سے نکلنے کو تھی کہ فاریہ کے قدم کچھ فاصلے پر کھڑے دو لڑکوں کو دیکھ کر تھمے۔ منتہیٰ نے اُسے غصے سے کھینچا ۔۔”فاریہ جلدی نکلو یہاں سے ۔۔” "مینا یار رک "۔۔وہ دیکھ سامنے جو بوائز کھڑے ہیں اُن میں سے ایک ارمان یوسف لگتا ہے ۔۔۔؟؟ "شٹ اپ "فاریہ ایک تو تم سارے مینرز بھلا کر بوائز کو اِس طرح گھور رہی ہو ۔۔ ارمان یا جاپان یوسف جو بھی ہو ۔ "جہنم میں ڈالو اور نکلو یہاں سے” ۔۔۔ مینا نے اُسے بری طرح گھرکا ۔۔

    منتہیٰ بی بی آ پ کو یاد ہے ایک دفعہ یو نیورسٹی میں آ پ نے کہا تھا ، "اگر یہ ڈی پی اِس نے کسی کی اڑا کر نا لگائی ہو تو میرا نام بدل دینا” ۔ مینا نے فاریہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا ۔” ایک تو تمہیں پتا نہیں کب کب کی باتیں یاد رہتی ہیں ۔۔ ہونہہ ۔۔”تم چل رہی ہو یا میں اکیلی چلی جاؤں ۔۔؟؟ "تم باہر پانچ منٹ میرا انتظار کرو میں آتی ہوں”۔۔ اِس سے پہلی کہ منتہیٰ اُسے مزید گُھرکتی۔۔ فاریہ اعتماد سے قدم اٹھاتی اُن دولڑکوں کی طرف بڑھ چکی تھی جو اُن سے بے نیاز گفتگو میں مصروف تھے ۔۔ اور منتہی سینے پر ہاتھ باندھے محوِ تماشہ تھی۔۔ "اُسے سو فیصد یقین تھا کہ فاریہ کے ساتھ بہت بری ہونے والی ہے "۔۔۔ "ایکسکیوز می "۔۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو آپ ارمان یوسف ہیں ؟؟ کچھ حیرت سے فاریہ کو دیکھتے ہوئے اُس لڑکے نے اثبات میں سر ہلایا "جی میں ارمان ہی ہوں”۔ سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں کیا ہم پہلے کہیں مل چکے ہیں؟؟ "ہم”۔۔۔ لمبی سی ہم کرتے ہوئے فاریہ نے دور کھڑی محوِ تماشہ مینا کو معنی خیز مسکراہٹ سے نوازا۔۔ ایکچولی۔ بالواستہ تو یہ ہماری پہلی ملاقات ہے لیکن فیس بک پر ہم ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے ہیں ۔۔”میں فاریہ انعام ہوں”۔۔ ارمان نے دماغ پر زور ڈالا ۔۔ "یہ نام۔۔ فاریہ انعام "۔۔؟؟ "اور وہ جو کچھ فاصلے پر ایک لڑکی کھڑی ہے نہ وہ میری بیسٹ فرینڈ منتہیٰ دستگیر ہے "۔ اُسے سوچتا دیکھ کر فاریہ نے تیر چھوڑا۔ اور پھر لمحے ہی تو لگے تھے ارمان کو بوجھنے میں۔۔ اُس نے تیزی سے مڑ کراِس لڑکی کو دیکھا جو بظاہر دوسری طرف متوجہ تھی۔۔

    جاری ہے

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • سال 2017 آسمان پرقیامتیں ڈھانے والا ہے

    سال 2017 آسمان پرقیامتیں ڈھانے والا ہے

    انسان زمین پر اپنے ابتدائی ادوار سے ہی آسمان کی وسعتوں کا مشاہدہ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے‘ رات میں آنکھوں کو خیرہ کردینے والے یہ اجرامِ فلکی تمام تر تاریخِ انسانی میں انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں اور اکثر تو ان کی پرستش بھی کی جاتی رہی ہے۔ سال 2017 میں آسمان میں انتہائی دلچسپ تبدیلیاں پیش آنے والی ہیں جن کا مشاہدہ یقیناً آپ کو لطف دے گا۔

    کبھی کوئی تارہ تیزی سے ٹوٹتا ، مدہم پڑتا آپکی نگاہوں کے سامنے سے اوجھل ہوا ہو ،رات کی تاریکی اور گہرے سکوت میں یہ اجرامِ فلکی اکساتے،ہمارا تجسس بڑھاتے ہیں کہ ہم آسمانوں کی وہ ان کہی داستانیں جان سکیں جو اس لا متناہی کائنات میں جا بجا بکھری پڑی ہیں

    مزید پڑھیں: طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    ایک نظرڈالتے ہیں 2017 میں وقوع پذیر ہونے والے ان اہم فلکیاتی واقعات پرجو جلد ہی دنیا بھر کے لوگوں کے تجسس کو بڑھائیں گے۔

    دم دار ستارہ 45 پی کا نظارہ ۔( 11 فروری 2017)۔


    دم دار ستارہ 45 پی جسے کوسٹ ہونڈا ایم آر کوز کا نام دیا گیا ہے 2017 کے آغاز ہی سے سائنسدانوں اور فلکیات کے شائقین کی توجہ کا مرکزہے۔ یہ دمدار ستارہ یکم جنوری کو غروبِ آفتاب کے بعد چاند کے بے حد قریب دیکھا گیا تھا ۔ لیکن یہ اتنا مدہم تھا کہ ٹیلی سکوپ کے بغیراس کا مشاہدہ کرنا مشکل تھا ، لیکن اگر آپ یکم جنوری کو اسے دیکھنےمیں ناکام رہے تھے تو مایوسی کی قطعاَ کوئی بات نہیں، گیارہ فروری کو قدرت ایک دفعہ پھر آپ کو یہ نادر موقع فراہم کرنے والی ہے ۔ اس روز دنیا بھر سے فلکیات کی شیدائی اس ستارے کا ایک دفعہ پھر مشاہدہ کرسکیں گے اور اس دفعہ اتنا زیادہ روشن اور واضح دکھائی دے گا۔

    comet-post-1

    سورج گرہن۔ کلر آف فائر ۔( 26 فروری 2017)۔


    اس برس کی پہلی سہ ماہی میں ہی آنے والا دوسرا بڑا ایونٹ سورج گرہن ہے ، جسے اینیولر سورج گرہن کہا جاتا ہے‘ اس کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ چاند گردش کرتا ہوا ، زمین اور سورج کے درمیان حائل ہوتا ہے تو کچھ لمحوں کے لیئے یہ نظارہ بلکل ڈائمنڈ رنگ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ جسے ” کلر آف فائر ” کہا جاتا ہے، دنیا بھر سے آسٹرونامی کے شیدائی اس نادر لمحے کو اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے کے لیئے گھنٹوں انتظار کرتے ہیں ۔ 2017 میں رونماہونے والے اس کلرآف فائر سےسدرن ہیمی سفئیر کے با شندے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ یہ ساؤتھ پیسیفک اوشین سے شروع ہوتا ہوا ساؤتھ امریکہ سے گزرے گا، جبکہ اس کا اختتام برِاعظم افریقہ میں ہوگا ، یعنی ایک وسیع علاقے کے رہائشی اس دفعہ اس خوبصورت منظر کا بھرپورنظارہ کرسکیں گے۔

    annual-solar

    مشتری، مریخ اور چاند کی مثلث ۔(29 مارچ 2017)۔


    سال 2017 کو اگر بہترین اور شاذو نادر وقوع پذیر ہونے والے اجرامِ فلکی کے واقعات کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پہلی سہ ماہی میں ہی آنے ولا ایک اوردلکش ایونٹ مشتری، مریخ اورچاند مثلث بنائے گا، مگر زمین سے اس کا مشاہدہ کرنا مشکل ہے ، کیونکہ زمین ، مشتری کی نسبت سائز میں بہت چھوٹی ہے اور سورج کی چکا چوند کی زد پر ہونے کی وجہ سے یہ سیارہ یہاں سے صحیح طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ۔ مگر 29 مارچ کو یہ زمین سے دیکھنے پر سورج سے دور ترین مقام پر ہوگا۔

    مزید پڑھیں: سیارہ مشتری کا عظیم طوفان

    moons-join-jupiter

    چاند اور عطارد کا ملاپ ۔( 10 اپریل 2017)۔


    عطارد کو ہمارے نظامِ شمسی کا ” بادشاہ” سیارہ کہا جاتا ہے، سو یہ کیونکر ممکن تھا کہ جب سورج، چاند اور دیگر سیارے اپنے نئے روپ دکھلانے چلیں ہوں تو عطارد اُن سے پیچھے رہ جاتا ، 2017 اس لحاظ سے بھی منفرد ٹہرا کہ اس برس عطارد ” سپائیکا”نامی ایک ایسے ستارے کے ساتھ جوڑا بنائیگا جسے ” ورگو” کے ستاروں کے جھرمٹ میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اور اسی پر بس نہیں اس سال اپریل میں دنیا بھر سے شائقین اس منفرد سیارے کو چاند کے ساتھ اکھٹا نمودار ہوتا دیکھ سکیں گے۔ اس روز غروبِ آفتاب کے فوراَ بعد چاند اور عطارد ایک دوسرے کے بہت قریب دیکھے جا سکیں گے جس میں عطارد معمول سے زیادہ روشن اور بڑا دکھائی دیگا ۔ چاند اور عطارد کا یہ ملاپ اس کے بعد پھر کب ، کسی کو دیکھنا نصیب ہوگا ؟ کوئی نہیں جانتاسوابھی سے اپنے ٹا ئمرز سیٹ کر لیجیئے تاکہ یہ نادر موقع آپ کے ہاتھ سے ضائع نہ ہو جائے۔

    مزید پڑھیں: ہزاروں سال بعد چاند کی شکل تبدیل

    mercury-moon-post

    مکمل سورج گرہن۔(21 اگست 2017)۔


    مکمل سورج گرہن میں چاند کچھ لمحوں کے لیئے زمین اور سورج کے درمیان مکمل حائل ہو کر دن میں رات کا سماں باندھ دیتا ہے۔ 2017 نارتھ امریکہ کے رہائشیوں کے لیئے ایک بڑی خبر لیکر آیا ہے۔ اس برس 21 اگست کو امریکہ کے ساحلوں پراوریگن سے لیکر نارتھ کیرولینا تک ایک ایسا مکمل سورج گرہن رونما ہونے والا ہے جو اس سے پہلے 1979 میں دیکھا گیا تھا اور اب دوبارہ 2024 میں دیکھا جاسکے گا ۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس مکمل سورج گرہن سے لطف اندوز ہونے کے لیئے اس روز دور دراز کے علاقوں اور اور دیگر ریاستوں سے بڑی تعداد میں شائقین امریکی ساحلوں کا رخ کرکے اس گرہن کا نظارہ کرینگے۔ جبکہ جزوی سورج گرہن پورے برِاعظم امریکہ میں با آسانی مشاہدہ کیا جا سکے گا۔

    total-solar-post

    زہرہ اور عطارد کا ملاپ۔( 13 نومبر 2017)۔


    یہ برس جاتے جاتے بھی فلکیات کے شیدائیوں کو ایک خوبصورت تحفہ دے جائیگا اور وہ ہے اس نظامِ شمسی کے دو بڑے اور اہم ترین سیاروں زہرہ اور عطارد کا ملاپ، تیرہ نومبر کی شام کو مغرب کی جانب یہ دونوں سیارے بہت کم بلندی پر ایک دوسرے کے بہت قریب دیکھے جا سکیں گے۔ اس روز اِن کے درمیان فاصلہ گھٹ کر محض اٹھارہ آرک منٹ رہ جائیگا ، واضح رہے کے ایک آرک منٹ علمِ فلکیات میں ایک بہت بڑی مقدار شمار کی جاتی ہے۔اس سے قبل جون 2015 میں اس خوبصورت ایونٹ کا نظارہ کیا گیا تھا ۔ لیکن اس دفعہ یہ ملاپ چونکہ افق پر بہت کم بلندی پر وقوع پزیر ہوگا ، لہذا صرف آنکھ سے مشاہدہ کرنا ممکن نہیں ہوگا ، سو آسٹرونامی کے شیدائی اس روز اپنی ٹیلی سکوپ اور دو چشم( بانوکیولر) تیار رکھیں۔

    mercury-conj-jan-21_edited-1

    شہابِ ثاقب کی برسات ۔(13 دسمبر 2017)۔


    ہر برس دسمبر میں فلکیات کے شائقین شہابِ ثاقب یا ٹوٹتے تاروں کی برسات کا کا نظارہ بصد شوق کرتے ہی ہیں مگر اس منفرد برس یہ برسات بھی اپنے جوبن پر ہوگی۔ 2016 میں تیرہ دسمبر کو دنیا بھر سے لوگوں نے ان ٹوٹتے تاروں کو سپر مون کی غیر معمولی چکا چوند میں دیکھا تھا، اس دفعہ سپرمون تو میسر نہ ہوگا البتہ شہابِ ثاقب کے گرنے کی رفتار کافی تیز ہوگی۔ سائنسدانوں کے ایک عمومی اندازے کے مطابق تیرہ دسمبر کو اپنے عروج پر ان کے گرنے کی رفتار ساٹھ سے ایک سو بیس شوٹنگ سٹار فی گھنٹہ ہوگی۔ مگر اس کا مشاہدہ کرنے کا بہتری وقت چودہ دسمبر کی علی الصبح کا ہوگا جب نئے نوزائیدہ چاند اپنی چھب دکھلانےلگے گا۔،

    annual-meteor-shower