Tag: saghar siddique

  • لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    اردو ادب کے عظیم فقیر منش شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے 45 برس بیت گئے لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے‘ ساغر 19 جولائی 1974 کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
    منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
    منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

    اردوزبان کو لطافت بخشنے والے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو اہل ذوق آج ان کی رحلت کے چالیس سال بعد بھی یاد کررہے ہیں ۔ ساغر صدیقی سنہ 1928میں بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔

    ان کا اصل نام محمد اختر تھا اورآپ چودہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے، ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔

    ساغر بقدرِ ظرف لٹاتا ہوں نقد ِ ہوش
    ساقی سے میں ادھار کا قائل نہیں ہوں دوست

    Related image

    ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں بڑے پیمانے پر ایک مشاعرے کے انعقاد کا اعلان ہوا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ ’’لڑکا‘‘ (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔

    مجھ کو خزاں کی ایک لٹی رات سے ہے پیار
    میں موسمِ بہار کا قائل نہیں ہوں دوست

    اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں ساغرکی مانگ بڑھ‍ گئی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔

    یہ جو دیوانے سے دوچار نظر آتے ہیں
    ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

    سنہ 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ ‍ لیا۔ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ فلم بنانے والوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی اور اس میں انہیں بے مثال کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔

    اس زمانے میں ان کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغرسے لکھوائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔عشق مجازی عشق حقیقی ،جدوجہد، لگن اور آوارگی ساغر صدیقی کی شاعری کا موضوع بنے‘ ساغر کی آواز میں سوز اور کلام میں آفاقی پیغام تھا‘ دنیا سے متعدد بار دھوکے اٹھانے کے بعد ساغرنے نشے میں چھپنا چاہا ‘ جس کے سبب وہ ہر شے سے بے خبر ہوکر سڑکوں پر آبیٹھے۔

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    غربت اور نشے کی لت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور وہ شراب کے بعد بھنگ اور مارفین جیسے گھٹیا اقسام کے نشے بھی استعمال کرنے لگے جس کے سبب ان کی صحت دن بدن جواب دیتی چلی گئی‘ اس دور میں بھی ان کی شاعری کمال کی تھی۔ ساغر کوا ن کے اپنے دوستوں نے لوٹا اور ایک چرس کی سگریٹ کے عوض ان سے فلمی گیت اور غزلیں لکھوائیں اور اپنے نام سے شائع کرائیں۔

    کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے‘ کچھ ماضی کے عیار سجن
    احباب کی چاہت کیا کہیے ‘ کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

    جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
    اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

    ساغر نشے کی آغوش میں جانے سے قبل ایک نامور شاعر تھے اسی سبب ان کا کلام ناشروں نے ان کے نام سے چھاپا اور یہ گوہرِ نایاب ضائع ہونے سے بچ گیا‘ وفات تک ان کے کل چھ مجموعے غم بہار‘ زہر آرزو (1946ء)‘ لوح جنوں (1971ء)‘ سبز گنبد اور شبِ آگہی منظرِ عام پر آچکے تھے۔ ساغر نے غزل ‘ نظم‘ قطعہ‘ رباعی ‘ نعت ‘ گیت الغرض ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا مجموعہ کلام کلیاتِ ساغر کے نام سے شائع ہوچکا ہے

    آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    انیس جولائی انیس سو چوہتر کی صبح جب لوگ بیدار ہوئے تودیکھا کہ سڑک کنارے ایک سیاہ گٹھری سی پڑی ہے ‘ قریب آئے تو معلوم ہوا کہ اپنے وقت کا نابغہ ٔ روزگار شاعر’ساغر صدیقی ‘ اس جہان فانی سے رخصت ہوچکا ہے ، آپ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں‘ ہر سال آپ کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے، انہیں درویش یا فقیر منش شاعر اور ولی تصور کیا جاتا ہے ، ان کی لوح مزار پر ان کا ایک لقب سراغ رسانِ اولیا ء بھی درج ہے۔

    محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
    ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

    چلو تم بھی سفر اچھا رہے گا
    ذرااجڑے دیاروں تک چلیں گے

  • میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست

    میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست
    سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست

    مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار
    میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست

    ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو
    اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست

    دوچار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات
    دوچار دن کے پیار کا قائل نہیں ہُوں دوست

    جس کی جھلک سے ماند ہو اشکوں کی آبُرو
    اس موتیوں کے ہار کا قائل نہیں ہُوں دوست

    لایا ہُوں بے حساب گناہوں کی ایک فرد
    محبوب ہُوں شمار کا قائل نہیں ہُوں دوست

    ساغر بقدرِ ظرف لُٹاتا ہُوں نقدِ ہوش
    ساقی سے میں ادُھار کا قائل نہیں ہوں دوست

    *********

  • یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں

    یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
    اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

    تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
    ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

    دُور تک کوئی سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو
    مرگِ اُمّید کے آثار نظر آتے ہیں

    میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ نہیں
    آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

    کل جنہیں چُھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
    آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

    حشر میں کون گواہی مِری دے گا ساغر
    سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

    *********

  • ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں​

    ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں​
    میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں​

    ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو​
    ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں​

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے​
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں​

    میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے​
    میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں​

    کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں​
    کیسے تھرائی چراغوں کی ضیاءیاد نہیں​

    صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے​
    کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے خفا یاد نہیں​

    آﺅ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں​
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں​

    **********

  • ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں

    ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
    مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں

    تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
    تصور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں

    قرار دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
    سہارے دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں

    تری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
    بنام ہوش مدہوشی کے عنواں لڑکھڑاتے ہیں

    سنو! اے عشق میں توقیر ہستی ڈھونڈنے والو
    یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں

    تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
    تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں

    کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
    کہ جن کی جنبشِ ابرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں

    یقیناً حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
    قدم ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں​

    ***********

  • کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا

    کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا
    میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا

    ہر چیز زمانے کی آئینہ دل ہوتی
    خاموش محبت کا اتنا تو صلہ ہوتا

    تم حالِ پریشاں کی پرسش کے لیے آتے
    صحرائے تمنا میں میلہ سا لگا ہوتا

    ہر گام پہ کام آتے زلفوں کے تری سائے
    یہ قافلۂ ہستی بے راہنما ہوتا

    احساس کی ڈالی پر اک پھول مہکتا ہے
    زلفوں کے لیے تم نے اک روز چنا ہوتا

    *********

  • تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا

    تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
    افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا

    جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
    وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا

    شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
    اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا

    یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
    اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا

    تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
    وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا

    افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
    اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے لیا

    بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
    ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا

    **********

  • اس درجہ عشق موجبِ رسوائی بن گیا

    اس درجہ عشق موجبِ رسوائی بن گیا
    میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا

    دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر
    تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا

    بزم وفا میں آپ سے اک پل کا سامنا
    یاد آ گیا تو عہد شناسائی بن گیا

    بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
    آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

    دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موج زندگی
    میرا خیال وقت کی شہنائی بن گیا

    **********

  • فقیر شاعر ساغر صدیقی کو گزرے 43 برس بیت گئے

    فقیر شاعر ساغر صدیقی کو گزرے 43 برس بیت گئے

    لاہور: اردو ادب کے عظیم فقیر منش شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے تینتالیس برس بیت گئے لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے‘ ساغر 19 جولائی  1974  کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
    منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
    منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

    اردوزبان کو لطافت بخشنے والے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو اہل ذوق آج ان کی رحلت کے چالیس سال بعد بھی یاد کررہے ہیں ۔ ساغر صدیقی سنہ 1928میں بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔

    ان کا اصل نام محمد اختر تھا اورآپ چودہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے، ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔

    ساغر بقدرِ ظرف لٹاتا ہوں نقد ِ ہوش
    ساقی سے میں ادھار کا قائل نہیں ہوں دوست

    ساغر کی اصل شہرت 1944ء میں ہوئی۔ اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے پر مشاعرہ قرار پایا۔ اس میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ ’’لڑکا‘‘ (ساغر صدیقی) بھی شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر اسے مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا اور وہ ترنم میں پڑھنے میں جواب نہیں رکھتا تھا۔ بس پھر کیا تھا، اس شب اس نے صحیح معنوں میں مشاعرہ لوٹ لیا۔

    مجھ کو خزاں کی ایک لٹی رات سے ہے پیار
    میں موسمِ بہار کا قائل نہیں ہوں دوست

    اس کے بعد امرتسر اور لاہور کے مشاعروں میں ساغرکی مانگ بڑھ‍ گئی۔ مشاعروں میں شرکت کے باعث اتنی یافت ہو جاتی تھی کہ انہیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے مزید تگ و دو کی ضرورت نہ رہی۔ کلام پر اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری مرحوم کا انتخاب کیا اور ان سے بہت فیض اٹھایا۔

    یہ جو دیوانے سے دوچار نظر آتے ہیں
    ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

    سنہ 1947ء میں پاکستان بنا تو وہ امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں دوستوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ‍ لیا۔ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ فلم بنانے والوں نے ان سے گیتوں کی فرمائش کی اور اس میں انہیں بے مثال کامیابی ہوئی۔ اس دور کی متعدد فلموں کے گیت ساغر کے لکھے ہوئے ہیں۔


    اردو کے 100 مشہور اشعار


     اس زمانے میں ان کے سب سے بڑے سرپرست انور کمال پاشا (ابن حکیم احمد شجاع مرحوم) تھے۔ جو پاکستان میں فلم سازی کی صنعت کے بانیوں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر فلموں کے گانے ساغرسے لکھوائے جو بہت مقبول ہوئے۔

    وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔عشق مجازی عشق حقیقی ،جدوجہد، لگن اور آوارگی ساغر صدیقی کی شاعری کا موضوع بنے‘ ساغر کی آواز میں سوز اور کلام میں آفاقی پیغام تھا‘ دنیا سے متعدد بار دھوکے اٹھانے کے بعد ساگر نے نشے میں چھپنا چاہا ‘ جس کے سبب وہ ہر شے سے بے خبر ہوکر سڑکوں پر آبیٹھے۔

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    غربت اور نشے کی لت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا اور وہ شراب کے بعد بھنگ اور مارفین جیسے گھٹیا اقسام کے نشے بھی استعمال کرنے لگے جس کے سبب ان کی صحت دن بدن جواب دیتی چلی گئی‘ اس دور میں بھی ان کی شاعری کمال کی تھی۔ ساغر کوا ن کے اپنے دوستوں نے لوٹا اور ایک چرس کی سگریٹ کے عوض ان سے فلمی گیت اور غزلیں لکھوائیں اور اپنے نام سے شائع کرائیں۔

    کچھ حال کے اندھے ساتھی تھے‘ کچھ ماضی کے عیار سجن
    احباب کی چاہت کیا کہیے ‘ کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے

    جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
    اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

    ساغر نشے کی آغوش میں جانے سے قبل ایک نامور شاعر تھے اسی سبب ان کا کلام ناشروں نے ان کے نام سے چھاپا اور یہ گوہرِ نایاب ضائع ہونے سے بچ گیا‘ وفات تک ان کے کل چھ مجموعے غم بہار‘ زہر آرزو (1946ء)‘ لوح جنوں (1971ء)‘ سبز گنبد اور شبِ آگہی منظرِ عام پر آچکے تھے۔ ساغر نے غزل ‘ نظم‘ قطعہ‘ رباعی ‘ نعت ‘ گیت الغرض ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے

    آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

    انیس جولائی انیس سو چوہتر کی صبح جب لوگ بیدار ہوئے تودیکھا کہ سڑک کنارے ایک سیاہ گٹھری سی پڑی ہے ‘ قریب آئے تو معلوم ہوا کہ اپنے وقت کا نابغہ ٔ روزگار شاعر’ساغر صدیقی ‘ اس جہان فانی سے رخصت ہوچکا ہے ، آپ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں‘ ہر سال آپ کے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔

    محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
    ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

    چلو تم بھی سفر اچھا رہے گا
    ذرااجڑے دیاروں تک چلیں گے


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • عظیم شاعر ساغر صدیقی کو رخصت ہوئے چالیس برس بیت گئے

    عظیم شاعر ساغر صدیقی کو رخصت ہوئے چالیس برس بیت گئے

    اردو ادب کے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے  چالیس برس بیت گئے لیکن  ان کا کلام آج بھی زندہ ہے۔

    بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
    منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
    منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے

    اردوزبان کو لطافت بخشنے والے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو اہل ذوق آج ان کی رحلت کے چالیس سال بعد بھی یاد کررہے ہیں ۔ ساغر صدیقی انیس سو اٹھائیس کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد اختر تھا اورآپ چودہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے، ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص  سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔

    ساغر بقدرِ ظرف لٹاتا ہوں نقد ِ ہوش
    ساقی سے میں ادھار کا قائل نہیں ہوں دوست
    قیام پاکستان کے بعد ساغر صدیقی امرتسر سے لاہور منتقل ہوگئے پھر یہیں کے ہورہے۔ وہ ایک درویش صفت شاعر  تھے۔عشق مجازی عشق حقیقی ،جدوجہد، لگن اور آوارگی ساغر صدیقی کی شاعری کا موضوع بنے۔

    انیس جولائی انیس سو چوہتر کو  ساغر اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ، ساغر صدیقی میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ہر سال آپکے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔

    محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
    ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا