Tag: Sahiwal incident

  • سانحہ ساہیوال : بچوں کو گاڑی سے اتار کر دوبارہ فائر کئے گئے، جے آئی ٹی رپورٹ

    سانحہ ساہیوال : بچوں کو گاڑی سے اتار کر دوبارہ فائر کئے گئے، جے آئی ٹی رپورٹ

    لاہور : سانحہ ساہیوال کی جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وقوعہ کے روز گاڑی سے فائرنگ نہیں کی گئی بلکہ بچوں کو گاڑی سے اتار کر اہلکاروں نے دوبارہ گولیاں چلائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال پر جاری جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ گاڑی یا موٹر سائیکل سواروں کی جانب سے اہلکاروں پر فائرنگ نہیں ہوئی بلکہ بچوں کو گاڑی سے اتار کر گاڑی پر دوبارہ فائر کئے گئے۔

    جے آئی ٹی رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے واقعے کے بعد حالات پر اثرانداز ہونے اور شواہد کے اکٹھا کرنے پر تاخیر حربے استعمال کیے۔

    لاہور سے اے آر وائی نیوز کے نمائندے خواجہ نصیر کی رپورٹ کے مطابق مقتول خلیل کے اہلخانہ کے ہمراہ ترجمان حکومت پنجاب نے  پریس کانفرنس کی۔

     ترجمان حکومت پنجاب شہباز گل  نے بتایا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مقتول خلیل کا خاندان معصوم جبکہ ذیشان مقتول کے دہشت گردوں کے ساتھ رابطوں کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں تاہم مقتول خلیل کی گاڑی سے سی ٹی ڈی اہلکاروں پر کسی قسم کی فائرنگ نہیں کی گئی۔

    مقتول خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی قانونی اور دیگر امداد کو سراہتے ہیں تاہم ان کا کا مطالبہ ہے کہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔

    \مزید پڑھیں: ساہیوال واقعہ، ڈولفن فورس سے منسلک ذیشان کا بھائی مشکوک قرار

    مدعی کے وکیل کا کہنا تھا کہ مقتول کے اہلخانہ رپورٹ کے80 فیصد حصوں سے متفق ہیں تاہم فائرنگ کس کے کہنے پر کی گئی اس کا جواب رپورٹ میں نہیں دیا گیا۔

  • سانحہ ساہیوال: سینئرسول جج کی جانب سے فریقین کونوٹسزجاری

    سانحہ ساہیوال: سینئرسول جج کی جانب سے فریقین کونوٹسزجاری

    لاہور: سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرنے والے سینئر سول جج نے فریقین کو 18 فروری کو طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کی عدالتی انکوائری کے لیے شکیل گورایہ کوسینئرسول جج مقررکیا گیا ہے، سول جج شکیل گورایہ ایک ماہ میں انکوائری رپورٹ پیش کریں گے۔

    سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرنے والے سینئرسول جج شکیل گورایہ نے فریقین کو 18 فروری کو طلب کرلیا۔

    خیال رہے کہ دو روز قبل چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ اعجازشاہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مقتولین کے ورثا اور وکلا بھی موجود تھے۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

    لاہورہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے ساہیوال معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30 دن میں پیش کی جائے۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نے تفتیش کے متعلق تسلی بخش جواب نہ دینے پر اعجاز شاہ پراظہار برہمی کرتے کہا تھا کیوں نا آپ کو درست کام نہ کرنے پرنوٹس جاری کیا جائے۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

    لاہور : لاہورہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کاحکم دے دیا اور ہدایت کی متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30دن میں پیش کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے کیس کی سماعت کی،جےآئی ٹی کے سربراہ اعجازشاہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مقتولین کے ورثا اور وکلا بھی موجود ہیں۔

    سماعت میں جےآئی ٹی کی جانب سےپیشرفت رپورٹ پیش کردی، سرکاری وکیل نے کہا جےآئی ٹی نے7عینی شاہدین کےبیانات ریکارڈکیے، جس پر عدالت کا کہنا تھا ہم نےگواہوں کےبیانات ریکارڈکرنےکی فہرست دی تھی، کیاجےآئی ٹی نےان افرادکےبیانات ریکارڈکیے۔

    چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے استفسار کیا اعجازشاہ صاحب بتائیں آپ کیاکررہےہیں، جسٹس صداقت علی کا کہنا تھا آپ کی تمام کارروائی لکھی پڑھی ہوتی ہےوہ بتائیں، آپ جس طرح کام کررہےہیں اس پرافسوس ہے۔

    چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے استفسار کیا کیاعدالتی احکامات پراس طرح عمل کیاجاتاہے، آپ نےعینی شاہدین کے بیانات ریکارڈنہیں کیے، یہ بتائیں ایساکس قانون کےتحت کیاگیا۔

    [bs-quote quote=”چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا جے آئی ٹی سربراہ اعجاز شاہ پراظہار برہمی” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    مقتول ذیشان کے بھائی احتشام کے وکیل نے کہا لوگوں نے سوشل میڈیا پر فوٹیجز اپ لوڈ کیں کہ بیانات ریکارڈ نہیں ہوئے، عدالت کے حکم پر عینی شاہدین کے بیان ریکارڈ کیےگئے۔

    لاہورہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کاحکم دیتے ہوئے کہا متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے ساہیوال معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30 دن میں پیش کی جائے۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نےتفتیش کے متعلق تسلی بخش جواب نہ دینے پر اعجاز شاہ پراظہار برہمی کرتے   کہا کیوں نا آپ کودرست کام نہ کرنے پر نوٹس جاری کیا جائے۔

    بعد ازاں لاہورہائی کورٹ نےسانحہ ساہیوال کیس کی سماعت28 فروری تک ملتوی کردی۔ْ

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے مقتولین کے ورثاء کو سیشن جج سے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کروانے کی بھی پیشکش کی تھی جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ کو رپورٹ سمیت پیش ہونے اور حکومت  کو جوڈیشل کمیشن سےمتعلق ایک ہفتےمیں آگاہ  کرنے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل 4 فروری کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی اور آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ بھی طلب کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • سانحہ ساہیوال کیس کی اہم سماعت آج لاہور ہائی کورٹ میں ہوگی

    سانحہ ساہیوال کیس کی اہم سماعت آج لاہور ہائی کورٹ میں ہوگی

    لاہور : سانحہ ساہیوال کے حوالے سے کیس کی سماعت آج لاہور ہائی کورٹ میں ہوگی، جے آئی ٹی کے سربراہعدالت میں اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال سے متعلق کیس کی اہمسماعت آج لاہور ہائیکورٹ میں ہوگی، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم خان کی سربراہی میں دورکنی بنچ سانحہ ساہیوال کیس کی سماعت کرے گا۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ عدالت میں اپنی تفصیلیرپورٹ پیش کریں گے، عدالت نے گزشتہ سماعت میں جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ کو رپورٹ سمیت پیشہونے کا حکم دیا تھا۔

    گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے مقتولین کے ورثاء کو سیشن جج سے معاملے کی جوڈیشلانکوائری کروانے کی بھی پیشکش کی تھی جس پرجواب کے لیے وکلاء نے مہلت کی استدعا کی تھی۔

    مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل، جے آئی ٹی رپورٹ 20 فروری تک آنے کا امکان

    مقتول خلیلکے بھائی جلیل اور ذیشان کے بھائی احتشام نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینےکے لیے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

  • سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل، جے آئی ٹی رپورٹ 20 فروری تک آنے کا امکان

    سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل، جے آئی ٹی رپورٹ 20 فروری تک آنے کا امکان

    لاہور: سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی تفتیش مکمل کرلی۔

    ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی سربراہ اور ایڈیشنل آئی جی پنجاب اعجاز شاہ کی زیر صدارت تفتیشی ٹیم کا اجلاس ہوا جس میں اب تک ہونے والی تفتیش اور تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ تفتیش مکمل ہونے کے بعد رپورٹ کی تیاری کے لیے یہ پہلا اجلاس تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے 20 فروری تک رپورٹ پیش کیےجانےکاامکان ہے کیونکہ کسی بھی سانحے کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے ٹیم کو ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔

    یہ بھی یاد رہے کہ حکومت نےخلیل کےلواحقین کوچودہ فروری تک رپورٹ کی یقین دہانی کرائی تھی البتہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک تفتیشی ٹیم نے صرف شواہد اکٹھے اور عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے اور رپورٹ کی تیاری کا عمل شروع نہیں‌کیا۔

    مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: سی ٹی ڈی کی فرانزک لیبارٹری کو دھوکا دینے کی کوشش

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

    سانحے کے عینی شاہد اور چشم دید گواہ عمیر نے جے آئی ٹی کو بیان قلمبند کروایا تھا کہ گاڑی یاموٹرسائیکل سے پولیس موبائل پر کوئی فائرنگ نہیں کی گئی، پولیس نے فائرنگ کی تو پاپا نے منیبہ اور ماما نے مجھے اور حادیہ کو چھپا لیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: گاڑی یاموٹرسائیکل سےکوئی فائرنہیں ہوا،پولیس جھوٹ کہتی ہے، سانحہ ساہیوال کےچشم دید گواہ عمیر

    دوسری جانب ایک اور انکشاف سامنے آیا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دورانِ تفتیش فرانزک لیبارٹری کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔ اہلکاروں نے سانحہ ساہیوال میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور پولیس موبائل تبدیل کر کے پیش کی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ تبدیل شدہ موبائل کو کھڑا کرکے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جائے وقوع سے 100 کے قریب گولیوں کے خول ملے۔

  • سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج

    سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج

    لاہور :مقتول ذیشان کے بھائی نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج کردیا اور استدعاکی اس کا بھائی ذیشان بے گناہ تھا، قاتلوں کو سخت سزا دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق مقتول خلیل کے ورثا کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کئے گئے ذیشان کے بھائی نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل نہ دینے کا اقدام کیخلاف اپیل دائر کردی۔

    درخواست گزار احتشام نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ میرے بھائی کو دہشت گرد قرار دیاگیا، میرا بھائی دہشت گردنہیں شریف انسان تھا، ہمیں کسی امداد کی ضرورت نہیں، صرف انصاف چاہیئے۔

    ذیشان کے بھائی نے عدالت سے استدعا کی اس کے بھائی ذیشان کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے سخت سزا دی جائے اور سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

    یاد رہے چند روز قبل سانحہ ساہیوال میں قتل ہونے والے خلیل کے بھائی نے لاہور ہائی کورٹ سے درخواست دائر کی تھی ، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کالعدم قرار دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال، جے آئی ٹی کالعدم قرار دے کر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے: ہائی کورٹ میں‌ درخواست دائر

    بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن کے فوری قیام کا مطالبہ مسترد کردیا تھا۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور  خاتون سمیت  4 افراد مارے گئے  تھے، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • سانحہ ساہیوال : 6 نامزد ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور

    سانحہ ساہیوال : 6 نامزد ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور

    لاہور: سانحہ ساہیوال کے 6 نامزد ملزمان کو 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال سے متعلق قائم ہونے والی جے آئی ٹی (جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور وہاں سے معلومات اکھٹی کیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کا اہم اجلاس کل یعنی جمعرات کو پولیس ریسٹ ہاؤس میں ہوگا جس میں تمام صورتحال پر غور کیا جائے گا کیونکہ مدعا عالہیان تفتیشی ٹیم سے تعاون نہیں کررہے۔

    دوسری جانب سانحہ ساہیوال میں ملوث 6 نامزد ملزمان کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

    مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: متاثرین نے جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا

    یاد رہے کہ گزشتہ روزسانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے سلسلے میں بننے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے کیس کے مدعی جلیل اور اہلِ خانہ سمیت ذیشان کے بھائیوں سے ملاقات کی تھی جس میں تفتیشی ٹیم کے سربراہ اعجاز شاہ نے متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی، ملاقات کے دوران خلیل کے اہل خانہ کی جانب سے نامزد وکیل بیرسٹر احتشام بھی موجود تھے۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ نے مقتول کے بھائی جلیل سے سانحہ ساہیوال کے مقدمے میں تعاون کی درخواست کرتے ہوئے بیانات کے لیے مقتولین کے بھائیوں کو پولیس کلب طلب کیا تاہم متاثرین نے بیان ریکارڈ کرانے سے صاف انکار کردیا۔

    مدعی جلیل نے میڈیا کو بتایا تھا کہ جے آئی ٹی نے ملزمان کی گرفتاری اور انصاف کی یقین دہانی کرائی مگر ہم سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن بنائے جانے کے مطالبے پر قائم ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    یہ بھی یاد رہے کہ دو روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کا ریکارڈ طلب کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے اگر ریکارڈ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو سب کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار شمیم خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی تھی جس میں جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے۔

    عدالت نے تفتیشی رپورٹ اور آئی جی پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب آئی جی پنجاب کو بلایا تو وہ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ عدالت نے حکم دیا تھا کہ آئندہ کوئی جعلی پولیس مقابلہ نہیں ہو مگر عدالتی حکم  کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔

  • سانحہ ساہیوال پر  جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی، عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے۔

    تفصہلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار شمیم خان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے تفتیشی رپورٹ اور آئی جی پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا، عدالت نے قرار دیا کہ جب آئی جی پنجاب کو بلایا تو وہ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ حکم دیا تھا کہ آئندہ ساہیوال کی طرح پولیس مقابلہ نہیں ہو گا۔

    سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صوبے بھر کے آر پی اوز کو اس حوالے سے ہدایات جاری کر دی ہیں، جس پر عدالت نے حکم دیا کہ ہمیں وہ تحریری نوٹیفیکیشن دیا جائے جو عدالتی احکامات کے بعد جاری ہوا۔

    بتایا جائے کون سے افسر نے اہلکاروں کو اس آپریشن کا حکم دیا تھا، عدالت کا استفسار

    سرکاری وکیل عدالت کو مزید آگاہ کیا کہ خلیل کے بھائی کو بار بار بلایا مگر وہ شامل تفتیش نہیں ہو رہے جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور گواہان کی شہادتوں سے تفتیش آگے بڑھ رہی ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ایسی سی سی ٹی وی فوٹیج کا کیا فائدہ جس میں ملزمان کی نشاندہی نہ ہو، بتایا جائے کون سے افسر نے اہلکاروں کو اس آپریشن کا حکم دیا تھا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی جواد قمر نے آپریشن کا حکم دیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کس کس کو آپریشن کے لیے بھجوایا تھا، جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایس پی جواد قمر کو معطل کیا جا چکا ہے۔

    آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب

    عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر تے ہوئے ریمارکس دیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے۔

    سرکاری وکیل نے کہا خلیل کے بھائی کو بار بار بلایا مگر وہ شامل تفتیش نہیں ہو رہے، خلیل کے بھائی جلیل کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس شناخت پریڈ کا نہیں ہے،جس پر عدالت نے جے آئی ٹی کو مدعیوں اور گواہوں کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر طرح کی شہادتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیتے ہوئے کارکردگی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

    وکیل شہبازبخاری نے بتایا سی ٹی ڈی افسران دھمکیاں دے رہےہیں اورہراساں کررہےہیں، خلیل کے ورثا پر دباؤ ڈال کر بیانات تبدیل کرائےگئے، ہراساں کیے جانےکی وجہ سے مجبوراً پیچھے ہٹنا پڑا۔

    ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گےچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

    عدالت نے مدعی سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس جو شواہد تھے تو کیوں نہیں دیئے تاکہ ملزمان کی شناخت ہو سکتی، مدعی شہادتیں لائیں، اگر جے آئی ٹی نہیں لیتی تو عدالت میں جمع کروائیں۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ جن اہلکاروں نے آپریشن کیا وہ گرفتار ہیں، جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ہمیں وہ ریکارڈ دیا جائے جس میں سی ٹی ڈی کے اعلی افسر نے آپریشن کی اجازت دی۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وارننگ دی کہ اگر ریکارڈ میں ردو بدل کیا گیا تو آپ سب نتائج کے ذمہ دار ہوں گے، ایف آئی آر میں پانچ اہلکار نامزد ہیں جبکہ مدعی کہتے ہیں وہ 16 اہلکار تھے۔

    عدالت نے کیس کی سماعت 7 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر تے وہوئے کہا معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے، بعد ازاں سماعت سات فروری تک ملتوی کر دی۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ آئی جی پنجاب آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کروائیں اور وقوعہ کے تمام گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے اورانہیں تحفظ فراہم کرنے کی بھی ہدایت کردی تھی۔

  • وزیراعظم کی ہدایت ، وزیراعلیٰ پنجاب مقتول خلیل کے اہلخانہ سے آج ملاقات کریں گے

    وزیراعظم کی ہدایت ، وزیراعلیٰ پنجاب مقتول خلیل کے اہلخانہ سے آج ملاقات کریں گے

    لاہور: وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے اہلخانہ سے آج ملاقات کریں گے، مقتول خلیل کے اہلخانہ نے جوڈیشل کمیشن بنانے کامطالبہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کےاہلخانہ سےآج ملاقات کریں گے، جس میں متاثرین کے مطالبات پر غور کیا جائے گا۔

    گذشتہ روز وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات میں پیش رفت سے متعلق بریفنگ دی تھی۔

    جس کے بعد عمران خان نے وزیراعلیٰ کو کل متاثرہ خاندان سے ملنے کی ہدایت کی اور اہلخانہ کے ساتھ پولیس کے رویے کی نگرانی کرنے کا حکم بھی دیا جبکہ متاثرہ فیملی میں ایک کینسر کے مریض کے علاج کی بھی ہدایت کی تھی۔

    مزید پڑھیں : وزیراعظم کی وزیراعلیٰ پنجاب کو سانحہ ساہیوال کی متاثرہ فیملی سے ملاقات کی ہدایت

    وزیر اعظم کی موجودگی کے دوران ہی خلیل کے اہل خانہ بورے والہ روڈ پر سراپا احتجاج بنے رہے، مظاہرین نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ دہرایا اور متاثرہ خاندان نے وزیراعلیٰ اور وزیر اعظم سے وعدے کے مطابق انصاف دلانے کی اپیل بھی کی۔

    ورثا کا کہنا تھا کہ انہیں جے آئی ٹی پر اعتماد نہیں جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اگر جوڈیشل کمیشن نہیں بنایاگیاتو وہ سڑکوں پر آ کراحتجاج پر مجبور ہوں گے۔

    مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیاکے ذریعے پتہ چلا کہ جوڈیشل کمیشن بنایاجارہاہے، کہا جارہا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کل ہم سے ملنے آئیں گے، جلد جوڈیشل کمیشن بنائیں اور ہمیں انصاف فراہم کریں۔

    جلیل کا کہنا تھا کہ ہمیں کہاجاتاہےآئیں اورشناخت کریں،انہیں نہیں معلوم کہ مارنےوالےکون تھے، جےآئی ٹی میں خودمارنےوالےلوگ شامل ہیں اور مطالبہ کیا ہم جےآئی ٹی سےمطمئن نہیں ہیں،جوڈیشل کمیشن بنایاجائے۔

    مزید پڑھیں : جے آئی ٹی میں خود مارنے والے لوگ شامل ہیں: بھائی خلیل

    خیال رہے 31 جنوری کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے فوری قیام کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا تھا تحقیقات شفاف انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔

    عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرچکے ہیں، 2 افسران کے خلاف معطلی کے بعد انضباطی کارروائی ہورہی ہے، جے آئی ٹی کی تحقیقات میں مسئلہ ہوا تو پھر جوڈیشل کمیشن کے معاملے کو دیکھیں گے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا تھا کہ واقعے میں ملوث ہر شخص کے خلاف کارروائی ہورہی ہے، سانحہ ساہیوال سے متعلق 2 روز میں دوبارہ بریفنگ لوں گا، لواحقین کو 2 کروڑ روپے کی رقم دیں گے۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

    بعد ازاں جے آئی ٹی سے تفیش کے دوران سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کرکے چار افراد کو قتل کرنے سے انکار کردیا تھا، سی ٹی ڈی اہلکاروں کا کہنا تھا کہ نہ گاڑی پر فائرنگ کی نہ ہی کہیں سے فائرنگ کا حکم ملا، چاروں افراد موٹر سائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔

  • سانحہ ساہیوال:  گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں کا 4افراد کو قتل کرنے سے انکار

    سانحہ ساہیوال: گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں کا 4افراد کو قتل کرنے سے انکار

    ساہیوال : سانحہ ساہیوال میں گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کرکے چار افراد کو قتل کرنے سے انکار کردیا اور کہا نہ گاڑی پر فائرنگ کی نہ ہی کہیں سے فائرنگ کا حکم ملا، چاروں افراد موٹرسائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے، انھوں نے تو صرف جوابی فائرنگ کی۔

    تفصیلات کے مطابق جے آئی ٹی کی سی ٹی ڈی کے گرفتار اہلکاروں صفدر، رمضان، سیف اللہ اور حسنین سے تفتیش کے ابتدائی نکات سامنے آگئے، دوران تفتیش جے آئی ٹی نے ملزمان سے سوال کیا کہ فائرنگ کس نے کی تو سی ٹی ڈی اہلکاروں نے جواب دیا کہ فائرنگ ہم نے نہیں کی تھی۔

    جے آئی ٹی نے پوچھا کار سوار کیسے ہلاک ہوئے؟ تو اہلکاروں نے بتایاچاروں افرادموٹرسائیکل سوار ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے گئے۔

    جے آئی ٹی نے ملزمان سے سوال کیا گولی چلانے کا حکم کس نے دیا ؟ ملزمان کا کہنا تھا کہ ہمیں کسی نے حکم نہیں دیا، ہشتگردوں کی فائرنگ کے جواب میں فائرنگ کی تھی۔

    اس سے قبل آج سانحہ ساہیوال کے مدعی جلیل نے جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کااظہارکرتے ہوئے دو ٹوک کہا کہ جےآئی ٹی کونہیں مانتا، شناخت پریڈ میں نہیں آؤں گا، بلاجواز عینی شاہدین کوتنگ کیا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: جےآئی ٹی کونہیں مانتا، شناخت پریڈ میں نہیں آؤں گا، مقتول خلیل کے بھائی کادوٹوک جواب

    گذشتہ روز سانحہ ساہیوال کے مقدمے کے مدعی مقتول خلیل کے بھائی جلیل نے ملزمان کی شناخت پریڈ کرنے سے انکار کردیا تھا، جلیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو نہیں مانتے کیوں کہ جے آئی ٹی ان کا کیس خراب کررہی ہے اور جب تک تمام ملزمان نہیں پکڑتے جاتے شناخت پریڈ کیسے ہوگی اور ویسے بھی پولیس اور جے آئی ٹی کو پتا ہے کہ ان کے مقتولین کے قاتل کون ہیں۔

    سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا تھا کہ ذیشان، خلیل کی گاڑی پر فائرنگ کا حکم ایس ایس پی جواد قمر نے دیا تھا، سی ٹی ڈی ذیشان کو زندہ پکڑنا ہی نہیں چاہتی تھی، کارمیں سوار افراد کو گولی مارنے کا حکم ایس ایس پی جواد قمر نے دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال میں فائرنگ کا حکم کس نے دیا؟ اہم انکشاف سامنے آگیا

    اس سے قبل جے آئی ٹی اہل کاروں نے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے اہل کاروں سے پوچھ گچھ کی تھی ، جس میں اہل کار جے آئی ٹی کو شواہد اور انٹیلی جنس رپورٹ کی معلومات نہ دے سکے تھے اور سی ٹی ڈی ٹیم کے صفدر حسین سمیت 7 اہل کاروں کے بیانات میں تضاد پایا گیا جبکہ انکوائری میں عینی شاہدین نے سی ٹی ڈی اہل کاروں کو قاتل قرار  دیا تھا۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بنایات میں واضح تضادات تھا۔

    وزیراعظم نے ساہیوال واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تحقیقات کرکے واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جبکہ وزیراعظم کی ہدایت پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور محکمہ داخلہ پنجاب نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی تھی۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال: پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات، مقتولین کو قریب سے نشانہ بنایا گیا

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

    بعد ازاں سانحہ ساہیوال میں ہلاک ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم اور  زخمیوں کی میڈیکل رپورٹ  میں انکشاف کیا گیا تھا چاروں افراد کو بہت قریب سے گولیاں ماری گئیں، قریب سے گولیاں مارنے سے چاروں افراد کی جلد مختلف جگہ سے جل گئی، 13 سال کی اریبہ کو 6 گولیاں لگیں، جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں تھیں۔