Tag: Sahiwal JIT

  • سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل، جے آئی ٹی رپورٹ 20 فروری تک آنے کا امکان

    سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل، جے آئی ٹی رپورٹ 20 فروری تک آنے کا امکان

    لاہور: سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی تفتیش مکمل کرلی۔

    ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی سربراہ اور ایڈیشنل آئی جی پنجاب اعجاز شاہ کی زیر صدارت تفتیشی ٹیم کا اجلاس ہوا جس میں اب تک ہونے والی تفتیش اور تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ تفتیش مکمل ہونے کے بعد رپورٹ کی تیاری کے لیے یہ پہلا اجلاس تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے 20 فروری تک رپورٹ پیش کیےجانےکاامکان ہے کیونکہ کسی بھی سانحے کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے ٹیم کو ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔

    یہ بھی یاد رہے کہ حکومت نےخلیل کےلواحقین کوچودہ فروری تک رپورٹ کی یقین دہانی کرائی تھی البتہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک تفتیشی ٹیم نے صرف شواہد اکٹھے اور عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے اور رپورٹ کی تیاری کا عمل شروع نہیں‌کیا۔

    مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: سی ٹی ڈی کی فرانزک لیبارٹری کو دھوکا دینے کی کوشش

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

    سانحے کے عینی شاہد اور چشم دید گواہ عمیر نے جے آئی ٹی کو بیان قلمبند کروایا تھا کہ گاڑی یاموٹرسائیکل سے پولیس موبائل پر کوئی فائرنگ نہیں کی گئی، پولیس نے فائرنگ کی تو پاپا نے منیبہ اور ماما نے مجھے اور حادیہ کو چھپا لیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: گاڑی یاموٹرسائیکل سےکوئی فائرنہیں ہوا،پولیس جھوٹ کہتی ہے، سانحہ ساہیوال کےچشم دید گواہ عمیر

    دوسری جانب ایک اور انکشاف سامنے آیا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دورانِ تفتیش فرانزک لیبارٹری کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔ اہلکاروں نے سانحہ ساہیوال میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور پولیس موبائل تبدیل کر کے پیش کی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ تبدیل شدہ موبائل کو کھڑا کرکے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جائے وقوع سے 100 کے قریب گولیوں کے خول ملے۔

  • سانحہ ساہیوال:عینی شاہدین ٹھوس ثبوت اور ویڈیو کلپس کے ساتھ آج بیانات ریکارٖڈ کرائیں، جے آئی ٹی کی ہدایت

    سانحہ ساہیوال:عینی شاہدین ٹھوس ثبوت اور ویڈیو کلپس کے ساتھ آج بیانات ریکارٖڈ کرائیں، جے آئی ٹی کی ہدایت

    لاہور: سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی عینی شاہدین کے بیانات آج ریکارڈ کرے گی، عینی شاہدین کو ٹھوس ثبوت ، شہادتیں اور ویڈیو کلپس ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کے لیے شہریوں سے مدد لینےکا فیصلہ کرلیا گیا ہے، پولیس کی جانب سے  جے آئی ٹی کو بیانات قلمبند کرانے کے لیےسوشل اور پرنٹ میڈیاپر اشتہار جاری کردیئے گئے ۔

    [bs-quote quote=”جے آئی ٹی کو بیانات قلمبند کرانے کے لیےسوشل اور پرنٹ میڈیاپر اشتہار جاری” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    جے آئی ٹی دن 11 بجے تھانہ یوسف والا ساہیوال پہنچے گی، جہاں آٹھویں روز عینی شاہدین کے بیانات لیے جائیں گے جبکہ جے آئی ٹی ارکان نے عینی شاہدین کو ٹھوس ثبوت ، شہادتیں اور ویڈیو کلپس ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔

    گذشتہ روز میڈیا سے بچا کر اتوار کی چھٹی کے روز سانحہ ساہیوال کے نامزدچھ ملزمان کو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے لایا گیا، سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے کی ایف آئی آر میں نامزد اہلکاروں کو ڈیوٹی مجسٹریٹ نے شناخت پریڈ کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا تھا۔

    سات دن کی تحقیقات کے بعد صفدر حسین، احسن خان، محمد رمضان، سیف اللہ، حسنین اکبر اور ناصر نواز کو ڈیوٹی مجسٹریٹ اقرا رحمان کی عدالت میں پیش کیا گیاتھا۔

    یاد رہے 24 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ آئی جی پنجاب آئندہ سماعت پر جے آئی ٹی کے سربراہ کے ہمراہ پیش ہو کر رپورٹ جمع کروائیں۔

    واضح رہے 19 جنوری کو ہونے والے سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے میں 13 سالہ بچی کو ماں سمیت 4 معصوم شہریوں کو انتہائی بیدردی اور سفاکانہ طریقے سے گولیوں سے چھلنی کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    بعد ازاں ساہیوال واقعے پروزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب کو تحقیقات کرکے واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جبکہ وزیراعظم کی ہدایت پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور محکمہ داخلہ پنجاب نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی تھی۔

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

    ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ نے کہا تھا، ذیشان جاوید داعش کے عبد الرحمان گروپ کا سہولت کار تھا اور اسی گروپ نے ریٹائرڈ بریگیڈیئر طاہر مسعود اور علی حیدر گیلانی کو بھی اغوا کیا تھا۔