Tag: sahiwal

  • ساہیوال اسپتال میں پانچ نہیں تین بچے جاں بحق ہوئے، ترجمان وزارت صحت پنجاب

    ساہیوال اسپتال میں پانچ نہیں تین بچے جاں بحق ہوئے، ترجمان وزارت صحت پنجاب

    لاہور : وزارت صحت پنجاب نے وضاحت کی ہے کہ ساہیوال اسپتال کے چلڈرن وارڈ میں صرف تین بچے جاں بحق ہوئے، ایئر کنڈیشنر کے بند ہونے اور انتظامیہ کی مبینہ غفلت سے پانچ بچوں کی ہلاکت کی اطلاع بے بنیاد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ساہیوال کے ڈی ایچ کیو  اسپتال کے چلڈرن وارڈ میں بچوں کی ہلاکت کا معاملہ پر وزارت صحت پنجاب نے پانچ بچوں کے جاں بحق ہونے کی تردید کردی۔

    اس حوالے سے ترجمان وزارت صحت کے مطابق ڈسٹرکٹ اسپتال میں چلڈرن وارڈ کے ایئرکنڈیشنر کے بند ہونے اور انتظامیہ کی مبینہ غفلت سے پانچ بچوں کی ہلاکت کی اطلاع بے بنیاد ہے۔

    میڈیا پر خبر نشر ہونے کے فوری بعد واقعے کی مکمل تحقیقات کیلئے ایڈیشنل سیکریٹری صحت کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی ساہیوال بھیجی گئی۔ خصوصی تحقیقاتی کمیٹی نے مبینہ واقعے کی مکمل تحقیقات کر کے ابتدائی رپورٹ وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد کوپیش کردی۔

    رپورٹ کے مطابق جاں بحق بچوں کی تعداد تین ہے، دو بچے نجی اسپتال سے انتہائی نازک حالت میں ساہیوال ڈسٹرکٹ اسپتال کی ایمرجنسی میں لائے گئےتھے۔ دونوں بچوں کی ہلاکت ایمرجنسی وارڈ جبکہ ایک نومولود بچے کی ہلاکت بچہ وارڈ میں ہوئی۔

    جس کی حالت گزشتہ روز سے تشویشناک تھی۔ ایئرکنڈیشنر کے نہ چلنے سے ہلاکت کی خبر بے بنیاد ہے۔ واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہے۔

    مزید پڑھیں: ساہیوال کے سرکاری اسپتال میں مبینہ طور پر  24 گھنٹے میں 8 بچے جاں بحق

    واضح رہے کہ ساہیوال کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں ابتدائی اطلاع کے مطابق چوبیس گھنٹے میں مبینہ طور پر8 نومولود بچے جاں بحق ہوئے تھے۔

    بعدا زاں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری صحت اور کمشنر ساہیوال ڈویژن سے رپورٹ طلب کی انہوں نے واقعے کی جامع تحقیقات کرکے مفصل رپورٹ پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

  • سانحہ ساہیوال کے ملزمان پر آج فرد جرم عائد ہونے کا امکان

    سانحہ ساہیوال کے ملزمان پر آج فرد جرم عائد ہونے کا امکان

    لاہور: انسداد دہشت گردی عدالت میں آج سانحہ ساہیوال کے 6 ملزمان پر فرد جرم عائد ہونے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو آج انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا جہاں ان پر فرد جرم عائد کیے جانے کا امکان ہے۔

    انسداد دہشت گردی عدالت میں گزشتہ پیشی پر ملزمان کے وکیل کی غیرحاضری کے سبب فرد جرم عائد نہیں ہوسکی تھی۔

    یاد رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بنایات میں واضح تضادات تھا۔

    سانحہ ساہیوال: گرفتار سی ٹی ڈی اہلکاروں کا 4افراد کو قتل کرنے سے انکار

    وزیراعظم نے ساہیوال واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تحقیقات کرکے واقعے کے ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جبکہ وزیراعظم کی ہدایت پر فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا اور محکمہ داخلہ پنجاب نے تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنا دی تھی۔

    سانحہ ساہیوال: پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات، مقتولین کو قریب سے نشانہ بنایا گیا

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

    بعد ازاں سانحہ ساہیوال میں ہلاک ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم اور زخمیوں کی میڈیکل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا چاروں افراد کو بہت قریب سے گولیاں ماری گئیں، قریب سے گولیاں مارنے سے چاروں افراد کی جلد مختلف جگہ سے جل گئی، 13 سال کی اریبہ کو 6 گولیاں لگیں، جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں تھیں۔

  • سانحہ ساہیوال: جے آئی ٹی رپورٹ میں خلیل اور اہل خانہ بے گناہ قرار

    سانحہ ساہیوال: جے آئی ٹی رپورٹ میں خلیل اور اہل خانہ بے گناہ قرار

    لاہور:سانحہ ساہیوال پرجےآئی ٹی رپورٹ مکمل کرلی گئی ہے ، سانحے میں ماری جانے والے مقتول خلیل اور ا س کے اہل خانہ کو بے گناہ قرار دے دیا گیا،مقدمے میں زیرِحراست 6 ملزمان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں تیرہ سالہ بچی سمیت چار افراد کے قتل پر بننے وا لی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ مرتب کرلی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں سی ٹی ڈی کو اختیارات سے تجاوز کا قصور وار قرار دیا گیا ہے۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں خلیل فیملی کوبے گناہ قرادیاگیا ہے جبکہ ذیشان کو مشکوک سرگرمیوں ملوث قرار دیا گیا ہے۔ذیشان کےفون پرمشکوک افرادسےرابطوں کےدرجنوں پیغامات ملے ہیں۔

    یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ذیشان کےبھائی احتشام نےمشکوک افرادکےگھرآنےکی تصدیق کی ہے ۔ ذیشان مشکوک افرادکوگھرمیں پناہ دیتاتھا۔

    سی ٹی ڈی کو ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹ بھی ذیشان سے متعلق تھی ۔ کارروائی میں خلیل اور اس کے اہل خانہ کو بچایا جاسکتا تھا لیکن سی ٹی ڈی نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔

    رپورٹ کے مطابق مقدمے میں زیرِ حراست چھ اہلکار ہی فائرنگ میں ملوث تھے ، گاڑی کے اندر سے فائرنگ کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

    دریں اثنا ء سانحہ ساہیوال کے مقدمے میں گرفتاہ شدہ 6ملزمان کوعدالت میں پیش کیا گیا ۔ عدالت نے ملزمان کو 14 روز ہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجتے ہوئے 7 مارچ کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔د

    دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار شمیم نے بھی رواں مہینے کے وسط میں جے آئی ٹی کی اب تک کی کارروائی پر سماعت کرتے ہوئے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا حکم حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے ساہیوال معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30 دن میں پیش کی جائے۔

  • چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کا حکم

    لاہور : لاہورہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کاحکم دے دیا اور ہدایت کی متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30دن میں پیش کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال کے حوالے سے کیس کی سماعت کی،جےآئی ٹی کے سربراہ اعجازشاہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مقتولین کے ورثا اور وکلا بھی موجود ہیں۔

    سماعت میں جےآئی ٹی کی جانب سےپیشرفت رپورٹ پیش کردی، سرکاری وکیل نے کہا جےآئی ٹی نے7عینی شاہدین کےبیانات ریکارڈکیے، جس پر عدالت کا کہنا تھا ہم نےگواہوں کےبیانات ریکارڈکرنےکی فہرست دی تھی، کیاجےآئی ٹی نےان افرادکےبیانات ریکارڈکیے۔

    چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے استفسار کیا اعجازشاہ صاحب بتائیں آپ کیاکررہےہیں، جسٹس صداقت علی کا کہنا تھا آپ کی تمام کارروائی لکھی پڑھی ہوتی ہےوہ بتائیں، آپ جس طرح کام کررہےہیں اس پرافسوس ہے۔

    چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے استفسار کیا کیاعدالتی احکامات پراس طرح عمل کیاجاتاہے، آپ نےعینی شاہدین کے بیانات ریکارڈنہیں کیے، یہ بتائیں ایساکس قانون کےتحت کیاگیا۔

    [bs-quote quote=”چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا جے آئی ٹی سربراہ اعجاز شاہ پراظہار برہمی” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    مقتول ذیشان کے بھائی احتشام کے وکیل نے کہا لوگوں نے سوشل میڈیا پر فوٹیجز اپ لوڈ کیں کہ بیانات ریکارڈ نہیں ہوئے، عدالت کے حکم پر عینی شاہدین کے بیان ریکارڈ کیےگئے۔

    لاہورہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کاحکم دیتے ہوئے کہا متعلقہ سیشن جج جوڈیشل مجسٹریٹ سے ساہیوال معاملے کی انکوائری کرائیں اور جوڈیشل انکوائری رپورٹ 30 دن میں پیش کی جائے۔

    چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ نےتفتیش کے متعلق تسلی بخش جواب نہ دینے پر اعجاز شاہ پراظہار برہمی کرتے   کہا کیوں نا آپ کودرست کام نہ کرنے پر نوٹس جاری کیا جائے۔

    بعد ازاں لاہورہائی کورٹ نےسانحہ ساہیوال کیس کی سماعت28 فروری تک ملتوی کردی۔ْ

    مزید پڑھیں : چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے مقتولین کے ورثاء کو سیشن جج سے معاملے کی جوڈیشل انکوائری کروانے کی بھی پیشکش کی تھی جبکہ جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ کو رپورٹ سمیت پیش ہونے اور حکومت  کو جوڈیشل کمیشن سےمتعلق ایک ہفتےمیں آگاہ  کرنے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل 4 فروری کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کی تھی اور آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ بھی طلب کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل، جے آئی ٹی رپورٹ 20 فروری تک آنے کا امکان

    سانحہ ساہیوال کی تفتیش مکمل، جے آئی ٹی رپورٹ 20 فروری تک آنے کا امکان

    لاہور: سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی تفتیش مکمل کرلی۔

    ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی سربراہ اور ایڈیشنل آئی جی پنجاب اعجاز شاہ کی زیر صدارت تفتیشی ٹیم کا اجلاس ہوا جس میں اب تک ہونے والی تفتیش اور تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ تفتیش مکمل ہونے کے بعد رپورٹ کی تیاری کے لیے یہ پہلا اجلاس تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے 20 فروری تک رپورٹ پیش کیےجانےکاامکان ہے کیونکہ کسی بھی سانحے کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے ٹیم کو ایک ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔

    یہ بھی یاد رہے کہ حکومت نےخلیل کےلواحقین کوچودہ فروری تک رپورٹ کی یقین دہانی کرائی تھی البتہ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک تفتیشی ٹیم نے صرف شواہد اکٹھے اور عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے اور رپورٹ کی تیاری کا عمل شروع نہیں‌کیا۔

    مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: سی ٹی ڈی کی فرانزک لیبارٹری کو دھوکا دینے کی کوشش

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔ جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

    سانحے کے عینی شاہد اور چشم دید گواہ عمیر نے جے آئی ٹی کو بیان قلمبند کروایا تھا کہ گاڑی یاموٹرسائیکل سے پولیس موبائل پر کوئی فائرنگ نہیں کی گئی، پولیس نے فائرنگ کی تو پاپا نے منیبہ اور ماما نے مجھے اور حادیہ کو چھپا لیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں: گاڑی یاموٹرسائیکل سےکوئی فائرنہیں ہوا،پولیس جھوٹ کہتی ہے، سانحہ ساہیوال کےچشم دید گواہ عمیر

    دوسری جانب ایک اور انکشاف سامنے آیا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے دورانِ تفتیش فرانزک لیبارٹری کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔ اہلکاروں نے سانحہ ساہیوال میں استعمال ہونے والا اسلحہ اور پولیس موبائل تبدیل کر کے پیش کی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ تبدیل شدہ موبائل کو کھڑا کرکے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، جائے وقوع سے 100 کے قریب گولیوں کے خول ملے۔

  • ساہیوال: دریائے راوی میں پھنسی کشتی بڑے حادثے سے بچ گئی

    ساہیوال: دریائے راوی میں پھنسی کشتی بڑے حادثے سے بچ گئی

    ساہیوال: ریسکیو ٹیم کی مسلسل کوششوں سے دریائے راوی میں پھنسی کشتی بڑے حادثے سے بچ گئی.

    تفصیلات کے مطابق دریائے روای میں  سفر کرنے والی کشتی میں سوراخ ہوگیا تھا، جس کے باعث اس میں پانی بھرنے لگا۔

    کشتی میں 21 افراد سوار تھے، کشتی میں دو بھینسیں اور 7 موٹر سائیکلیں بھی موجود تھیں، حادثے کے باعث تمام افراد کی ہلاکت کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

    واقعے کی خبر ملتے ہی ریسکیو ٹیم فوری حرکت میں‌ آگئی، آپریشن کے بعد تمام افراد کو زندہ بچا لیا گیا، مسافروں میں پانچ خواتین بھی موجود تھیں.

    مزید پڑھیں: گوادرمیں رائج کشتی سازی کا قدیم طریقہ

    مزید پڑھیں: سانگھڑ: مسافروین اورویگو گاڑی میں تصادم‘ 3 افراد جاں بحق

    یاد رہے کہ آج صوبہ سندھ کے شہر سانگھڑ میں بڑا حادثہ پیش آیا تھا، نوابشاہ روڈ پر مسافروین اورویگو گاڑی میں تصادم کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    خیال رہے کہ پاکستان میں بحری سفر کرنے والے افراد کے لیے موثر اور منظم ریسیکیو نظام کا فقدان ہے، ساتھ ہی ذرائع مواصلات کی جانچ پڑتال کی ضمن بھی غفلت برتی جاتی ہے۔

  • گاڑی یاموٹرسائیکل سےکوئی فائرنہیں ہوا،پولیس جھوٹ کہتی ہے، سانحہ ساہیوال کےچشم دید گواہ عمیر

    گاڑی یاموٹرسائیکل سےکوئی فائرنہیں ہوا،پولیس جھوٹ کہتی ہے، سانحہ ساہیوال کےچشم دید گواہ عمیر

    ساہیوال : سانحہ ساہیوال کےچشم دید گواہ عمیر نے بیان میں کہا ہے کہ گاڑی یاموٹرسائیکل سے کوئی فائرنہیں ہوا،پولیس جھوٹ کہتی ہے، پاپا نے مرنے سے پہلے منیبہ کو اور ماما نے مجھے اور حادیہ کوچھپایا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال کےچشم دید گواہ اور مقتول خلیل کے بیٹے عمیر کا بیان سامنے آگیا ، مقتول خلیل کے بیٹے بتایا کہ امی ابو، بہن اریبہ، منیبہ ،حادیہ کیساتھ صبح آٹھ بجےگھر سے نکلے،گاڑی قادر آباد پہنچی تو پیچھے سے کسی نے فائر کیا، فائرنگ کے بعد گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرا کر رک گئی تو پولیس کے دو ڈالے تیزی سےگاڑی کے قریب آئے اور نقاب پوش اہلکاروں نے فائرنگ کر کے انکل ذیشان کو مار دیا۔

    عمیرنے بتایا پولیس اہلکاروں نے فائرنگ روک کرفون پر بات شروع کی، ابو نے کہا جو چاہے لے لو مگر ہمیں نہ مارو، معاف کردو لیکن فون بند ہونے کے بعد اہلکار نے ساتھیوں کو دوبارہ فائرنگ کا کہا، جن کی فائرنگ سے ابو، ماما، بہن جاں بحق ہوگئے، فائرنگ کے دوران پاپا نے مرنے سے پہلے منیبہ کو، ماما نے مجھے اور حادیہ کو چھپایا۔

    ابو نے کہا جو چاہے لے لو مگرہمیں نہ مارو، معاف کردو، عمیر کا بیان

    سانحہ ساہیوال کےچشم دید گواہ کا کہنا تھا کہ اہلکاروں نے مجھے، دونوں بہنوں کونکال کر دوبارہ گاڑی پرفائرنگ کی، فائرنگ کے بعد پولیس والے ہم تینوں کو ویرانے میں پھینک گئے، میں اور منیبہ گولی لگنے کے درد سےکراہتے رہے، ایک انکل نے ہمیں اٹھا کر پٹرول پمپ پر چھوڑ دیا، جس کے بعد پولیس والے واپس آئے ، ہمیں گاڑی میں بٹھایا اور اسپتال چھوڑا۔

    نہتے بابا ،ماما اور بہن کو مار کر پولیس والوں نے زیادتی کی ہے

    عمیرکاکہناہےکہ گاڑی یاموٹرسائیکل سےکوئی فائرنہیں ہوا،پولیس جھوٹ کہتی ہے اور یہ بھی جھوٹ ہےکہ گاڑی میں دہشت گردی کاسامان تھا، نہتے بابا ، ماما اور بہن کو مار کر پولیس والوں نے زیادتی کی ہے جبکہ فائرنگ کاحکم دینے والے فائرنگ کرنے والوں سے رابطہ میں تھے۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال: مقتولین کے لواحقین نے جے آئی ٹی کا بائیکاٹ ختم کر دیا، بیانات قلم بند

    یاد رہے دو روز قبل سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے لواحقین نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کا بائیکاٹ ختم کرکے  جے آئی ٹی کو بیانات ریکارڈ کرا یا تھا۔

    وکیل نے کہا تھا کہ اگر آئندہ 7 روز میں انصاف نہیں ملا تو وہ عدالت میں جائیں گے۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور  خاتون سمیت  4 افراد مارے گئے  تھے جبکہ ایک بچہ اور دو بچیاں بچ گئی تھیں، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش

    لاہور :  لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی انکوائری سیشن جج سےکرانے کی پیشکش  کردی جبکہ  حکومت  کو جوڈیشل کمیشن سےمتعلق ایک ہفتےمیں آگاہ  کرنے  اور عینی شاہدین کوطلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنےکا بھی حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال پرجوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پرسماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا حکومت چاہے توسیشن جج سےانکوائری کراسکتےہیں۔

    عدالت نے عینی شاہدین کو طلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنے اور ایک ہفتے میں حکومت کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق آگاہ کرنے کا بھی حکم دیا۔

    سرکاری وکیل نے بتایا کہ سانحہ ساہیوال کےتمام ملزمان جسمانی ریمانڈپرہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا وقوعہ کی تاریخ بتائیں، یہ ہوا میں لکھتے ہیں سب کچھ ہورہاہے لیکن کاغذمیں کچھ نہیں ہوتا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا اے ایس آئی محمد عباس کابیان ریکارڈ کیا۔

    حکومت چاہےتوسیشن جج سےانکوائری کراسکتےہیں، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ

    چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے استفسار کیا آپ کاکوئی گواہ موجودہے؟ جس پر وکیل جلیل نے بتایا عمیرخلیل ہمارااہم گواہ ہے، ابھی اس کابیان جمع کرارہے ہیں، تو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیا آج ہی عمیر کا بیان ریکارڈ کرائیں۔

    وفاق کے وکیل نے کہا وزیراعظم نے پنجاب حکومت سے سانحے پر رپورٹ مانگی ہے، اے اے جی نے بتایا متاثرہ فریقین نے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے استدعا نہیں کی، جس پر عدالت نے کہا یہ بتائیں ضروری ہے کوئی متاثرہ فریق ہی درخواست دے؟

    اے اے جی نے کہا ضروری نہیں جوڈیشل کمیشن کیلئے متاثرہ فریق درخواست دے، جس پر چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ کا کہنا تھا موقع کے جو بھی گواہ ہیں جے آئی ٹی کو دیں، سرکاری وکیل نے بتایا جے آئی ٹی جائے وقوعہ کا با ربار دورہ کررہی ہے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کن کے بیانات ریکارڈ کئےگئے ہیں؟ چشم دیدگواہان کے بیانات سے متعلق بتائیں، تو سرکاری وکیل کا کہنا تھا ابھی تک چشم دیدگواہ کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس نے خلیل کے وکیل سےاستفسار کیا عینی شاہدین کے نام دیں، آپ ان پر بھروسہ کریں گے تو کیس خراب ہوجائے گا، جس پر سرکاری وکیل نے کہا سی سی ٹی وی فوٹیج اورخول لیب بھجوادیئےہیں۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    چیف جسٹس نے جلیل کے وکیل سے مکالمے میں کہا آپ کہیں تو جوڈیشل انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں، جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کوآپ کیس کا حصہ نہیں بناسکیں گے، مجسٹریٹ سے جوڈیشل انکوائری کی جائے تو وہ کیس کاحصہ بن سکےگا۔

    جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور بیانات ریکارڈ کرے

    جلیل کے وکیل نےجوڈیشل انکوائری کیلئےمہلت دینےکی استدعاکردی جبکہ ذیشان کے وکیل نے موقع کےگواہ 3افراد کی فہرست پیش کی ، جس پر عدالت نے حکم دیا جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور بیانات ریکارڈ کرے۔

    یاد رہے4 فروری کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کر لی، عدالت نے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کاریکارڈ طلب کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ریکارڈ تبدیل کیا تو سب نتائج بھگتیں گے، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

  • سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج

    سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج

    لاہور :مقتول ذیشان کے بھائی نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کا اقدام عدالت میں چیلنج کردیا اور استدعاکی اس کا بھائی ذیشان بے گناہ تھا، قاتلوں کو سخت سزا دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق مقتول خلیل کے ورثا کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کئے گئے ذیشان کے بھائی نے بھی لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل نہ دینے کا اقدام کیخلاف اپیل دائر کردی۔

    درخواست گزار احتشام نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ میرے بھائی کو دہشت گرد قرار دیاگیا، میرا بھائی دہشت گردنہیں شریف انسان تھا، ہمیں کسی امداد کی ضرورت نہیں، صرف انصاف چاہیئے۔

    ذیشان کے بھائی نے عدالت سے استدعا کی اس کے بھائی ذیشان کے قاتلوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے سخت سزا دی جائے اور سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔

    یاد رہے چند روز قبل سانحہ ساہیوال میں قتل ہونے والے خلیل کے بھائی نے لاہور ہائی کورٹ سے درخواست دائر کی تھی ، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کالعدم قرار دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔

    مزید پڑھیں : سانحہ ساہیوال، جے آئی ٹی کالعدم قرار دے کر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے: ہائی کورٹ میں‌ درخواست دائر

    بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن کے فوری قیام کا مطالبہ مسترد کردیا تھا۔

    واضح رہے کہ 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور  خاتون سمیت  4 افراد مارے گئے  تھے، عینی شاہدین اور سی ٹی ڈی اہل کاروں‌ کے بیانات میں واضح تضاد تھا۔

    واقعے پر ملک بھر سے شدید ردعمل آیا، جس پر وزیر اعظم نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

    جی آئی ٹی نے خلیل اور اس کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی افسران کو ٹھہرایا تھا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

  • سانحہ ساہیوال : 6 نامزد ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور

    سانحہ ساہیوال : 6 نامزد ملزمان کا جسمانی ریمانڈ منظور

    لاہور: سانحہ ساہیوال کے 6 نامزد ملزمان کو 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سانحہ ساہیوال سے متعلق قائم ہونے والی جے آئی ٹی (جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور وہاں سے معلومات اکھٹی کیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کا اہم اجلاس کل یعنی جمعرات کو پولیس ریسٹ ہاؤس میں ہوگا جس میں تمام صورتحال پر غور کیا جائے گا کیونکہ مدعا عالہیان تفتیشی ٹیم سے تعاون نہیں کررہے۔

    دوسری جانب سانحہ ساہیوال میں ملوث 6 نامزد ملزمان کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا۔

    مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: متاثرین نے جے آئی ٹی کو بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کر دیا

    یاد رہے کہ گزشتہ روزسانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے سلسلے میں بننے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے کیس کے مدعی جلیل اور اہلِ خانہ سمیت ذیشان کے بھائیوں سے ملاقات کی تھی جس میں تفتیشی ٹیم کے سربراہ اعجاز شاہ نے متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی تھی، ملاقات کے دوران خلیل کے اہل خانہ کی جانب سے نامزد وکیل بیرسٹر احتشام بھی موجود تھے۔

    جے آئی ٹی کے سربراہ نے مقتول کے بھائی جلیل سے سانحہ ساہیوال کے مقدمے میں تعاون کی درخواست کرتے ہوئے بیانات کے لیے مقتولین کے بھائیوں کو پولیس کلب طلب کیا تاہم متاثرین نے بیان ریکارڈ کرانے سے صاف انکار کردیا۔

    مدعی جلیل نے میڈیا کو بتایا تھا کہ جے آئی ٹی نے ملزمان کی گرفتاری اور انصاف کی یقین دہانی کرائی مگر ہم سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن بنائے جانے کے مطالبے پر قائم ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب

    یہ بھی یاد رہے کہ دو روز قبل لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ساہیوال میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے آپریشن کا حکم دینے والےافسر کا ریکارڈ طلب کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے تھے اگر ریکارڈ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو سب کو نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار شمیم خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی تھی جس میں جے آئی ٹی کے سربراہ اعجاز شاہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے۔

    عدالت نے تفتیشی رپورٹ اور آئی جی پنجاب کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب آئی جی پنجاب کو بلایا تو وہ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ عدالت نے حکم دیا تھا کہ آئندہ کوئی جعلی پولیس مقابلہ نہیں ہو مگر عدالتی حکم  کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔