Tag: salaried class

  • ایک تو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دیا اوپر سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد زبیر کی حکومت پر کڑی تنقید

    ایک تو تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دیا اوپر سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد زبیر کی حکومت پر کڑی تنقید

    کراچی : سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ حالیہ بجٹ میں نئے ٹیکس لگنے سے سب سے برا حال تنخواہ دار طبقے کا ہوا ہے۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

    انہوں نے کہا کہ سب پر برابر کا ٹیکس لگتا تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، تنخواہ دار طبقے پر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس لگایا گیا ہے۔

    محمد زبیر نے کہا کہ ایک تو ٹیکس لگا دیا اوپر سے سرچارج بھی لگا دیا گیا، ٹیکس پر سرچارج ہی لگانا تھا تو براہ راست ٹیکس ہی بڑھا دیتے، ایگری کلچر ٹیکس کیوں نہیں لگ سکتا؟۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار یا مڈل کلاس طبقہ موجودہ حکومت کو پسند نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر تنخواہ دار یا مڈل کلاس لوگ پی پی اور ن لیگ کو پسند نہیں کرتے۔

    بجلی کی قیمتوں سے متعلق انہوں نے بتایا کہ بجلی کی قیمتوں میں20فیصد مزید اضافہ ہوگا، آج100روپے کا بل آتا ہے تو مطلب پھر120روپے کا بل آئے گا، لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آرہا کہ بلوں میں کس مد میں اضافہ ہوتا ہی چلا جارہا ہے۔
    ،
    ان کہنا تھا کہ جس قسم کے ٹیکسز لگائے گئے ہیں میں ان کی مخالفت کرتا ہوں، ٹیکسز کی بھرمار کے بعد بھی ریونیو ویسا ہی ہے تو پھر ان کا کیا فائدہ ہے۔

    سابق گورنر سندھ نے کہا کہ یہ اس حکومت کا تیسرا بجٹ ہے، حکومت نے اپنے اخراجات کم ہی نہیں کیے اور ٹیکسز کی بھرمار کردی۔

    اصلاحات کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریفارمز کہاں ہیں، توانائی ریفارمز کہاں ہیں،اداروں کی نجکاری کے معاملات کہاں ہیں، موجودہ حکومت نے جو اپنا کام کرنا تھا وہ کہاں ہے؟

    محمد زبیر نے بتایا کہ دوسال پہلے ڈسٹری بیوشن کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں لوگوں کو لگایا گیا، ایک سال بعد پتہ چلا کہ اداروں نے مزید خسارہ کردیا ہے۔

    اب یہ کہہ رہے ہیں کہ جو بورڈ لگائے تھے اس کو تبدیل کریں گے، دوسال پہلے بورڈ لگاتے وقت میرٹ کی دھجیاں اڑا رہے تھے، جو اقدام دو سال پہلے کیا گیا آج اس کو تبدیل کررہے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟

    سابق گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کی سیاسی ترجیحات ہیں اسی لیے ایسے اقدامات کیے گئے جو نقصان کاباعث بنے، اقدامات ایسے کررہے ہیں جیسےابھی حکومت ملی ہے اوراقدامات کرینگے۔

    محمدزبیر نے وزیر اعظم شہبا شریف کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں شبانہ روزمحنت کرکے آگےبڑھیں گے، شبانہ روز محنت سے پہلے ایسے اقدامات اٹھاتے کہ عوام پربوجھ کم ہوتا۔

    گزشتہ دور حکومت کی بات کرتے ہوئے ان کہنا تھا کہ عوام پر دو سال پہلے2022کے بجٹ میں بھی بوجھ ڈالا گیا اور کہا کہ ایک سال کی بات ہے، اب سال2023کے بجٹ میں بھی کہا گیا کہ ایک سال کی بات ہے حالت بہتر ہوجائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اب2024کے بجٹ میں بوجھ ڈال رہے ہیں جبکہ معیشت کی گروتھ نہیں ہے، مڈل کلاس کی قوت خرید تو بالکل ختم ہوگئی ہے، ساڑھے10کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں اور تعداد مزید بڑھ رہی ہے۔

  • بجٹ : فائدے میں کون رہا اور نقصان کس کا ہوا؟

    بجٹ : فائدے میں کون رہا اور نقصان کس کا ہوا؟

    حکومت نے وفاقی بجٹ پیش کردیا، اس حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس بار تنخواہ دار طبقے پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا لیکن اس کے برعکس ہوا۔

    بجٹ پیش کرنے سے قبل یہ حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جارہی تھی کہ ٹیکس صرف ان پر لگے گا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے لیکن بد قسمتی سےان پر ہی مزید بوجھ ڈال دیا گیا جو پہلے سے ہی ٹیکس کی ادائیگی کررہے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے اس سارے معاملے پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ملک میں ٹیکس کون دیتا ہے؟ اور موجیں کس کی ہیں؟

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال تنخواہ دار طبقے نے 234 ارب روپے ٹیکس دیا، اس کے مقابلے میں ریئل اسٹیٹ نے صرف 8 ارب روپے جبکہ زرعی شعبے نے بھی 8 ارب روپے ادا ئیگی کی۔

    اس کے علاوہ ریٹیلرز اور ایکسپورٹرز نے کُل ملا کر 175 ارب روپے ٹیکس دیا جس سے یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ ان سب کو ملاکر بھی دیکھا جائے تو تنخواہ دار طبقہ ان سے زیادہ ٹیکس ادا کررہا ہے۔

    حالیہ بجٹ میں قوی امید تھی کہ بہت سخت قسم کے ٹیکس عائد کیے جائیں گے آیئے ان ٹیکسز پر نظر ڈالتے ہیں۔

    موجودہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر کم سے کم اور 5 اور زیادہ سے زیادہ 35 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس طبقے پر 75 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔

    رئیل اسٹیٹ پر 5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی لگائی گئی ہے جبکہ ٹریڈرز پر صرف 1 فیصد سے سوا دو فیصد لگایا گیا اور ایگریکلچر پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بجٹ میں فائدے میں کون ہے اور نقصان کس کا ہوا؟ سب سے پہلے سرکاری ملازمین بہت فائدے میں ہیں ان کی تنخواہ 25فیصد بڑھی ہے۔ پینشنرز کی پینشن میں بھی 15 فیصد اضافہ کیا گیا، ٹریڈرز بھی بہت فائدے میں رہے۔

    اس بجٹ سے نقصان میں کون ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو نجی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، ان کا ٹیکس سلیب بڑھا دیا گیا ہے، اب کم از کم 50 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ لینے والے کو ٹیکس دینا ہوگا۔

    ماریہ میمن نے انکشاف کیا کہ جو لوگ بجٹ بناتے ہیں ان کو تین مہینے کی اضافی تنخواہ ادا کی جاتی ہے، اس موقع پر انہوں نے تیمور سلیم جھگڑا کا ایک بیان بھی نشر کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ فنانس ڈویژن کے 5ہزار ملازمین کو اضافی تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ کام صرف 10 سے 12لوگ کرتے ہیں۔

  • تنخواہ دار طبقے کا گلا گھونٹنے کی تیاریاں

    تنخواہ دار طبقے کا گلا گھونٹنے کی تیاریاں

    حکومت نے اس ہوشربا مہنگائی کے عالم میں تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کی تیاریاں کرلی ہیں، ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے تنخواہ دار ملازمین کو قربانی کا بکرا بنالیا گیا۔

    اس حوالے سے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر معاشیات خرم شہزاد نے خصوصی گفتگو کی اور ناظرین کو دیگر تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کی غلطیوں کا پورا خمیازہ ہمیشہ عوام ہی بھگتتی ہے اور سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے سیاسی غلطیوں کا سارا ملبہ عوام اور کارپوریٹ سیکٹر پر آرہا ہے کیونکہ وہ فیصلے نہیں ہوئے جو ہونے چاہیے تھے۔

    خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا مسئلہ سنجیدہ تو ہے لیکن وہ یہ نہیں کہتا کہ غریب عوام اور کارپویٹ سکیٹر سے ناانصافی کریں وہ تو کہتا ہے صرف آپ کے فنانس کے معاملات ٹھیک کرنے کی بات کرتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ صرف سیلری کلاس پر ہی بوجھ ڈٖال دیا جائے یا پھر صرف عوام یا کارپوریٹ سیکٹر جو پہلے ہی ٹیکس دیتے ہیں انہیں ہی تختہ مشق بنالیں۔

    ماہر معاشیات نے بتایا کہ تنخوادار طبقے کی 40 سے 45 فیصد رقم ٹیکسز کی مد میں خرچ ہوتی ہے۔ کیونکہ جب ہم بینک سے سیلری نکالتے ہیں تو وہاں بھی ٹیکس کٹوتی کی جاتی ہے، اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی میں بھی ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور جب بازار سے سودا سلف لائیں تو 18 فیصد جی ایس ٹی وہاں بھی دینا ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے شہریوں کو اس کے بدلے میں مل کچھ نہیں رہا بلکہ باقی اسی کمائی میں سے سیکیورٹی، بچوں کی تعلیم، صحت کے مسائل بھی حل کرنا ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت ہماری بنیادی ضروریات اور سہولیات ہی فراہم نہیں کرپا رہی تو ہم ٹیکس کیوں دیں؟

  • حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا

    حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا

    اسلام آباد : تیرہ جماعتی اتحاد نے عوام پر یلغار کردی۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار نے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس کے بوجھ تلے دبا دیا، ملک میں پہلی بار چھوٹا دکاندار بھی ٹیکس کی زد میں آگیا۔

    حکومت نے نئے بجٹ کے ذریعے تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس کے بوجھ تلے دبا دیا۔ ٹیکس سلیب بارہ سے کم کرکے آٹھ کر دیئےگئے۔

    بجٹ اعداو شمار کے مطابق بارہ لاکھ سے چوبیس لاکھ سالانہ آمدنی پر سات فیصد ٹیکس عائد کردیا گیا۔ 24 سے 36 لاکھ سالانہ پر84 ہزار فکسڈ ٹیکس کے ساتھ ساڑھے بارہ فیصد انکم ٹیکس بھی لیا جائے گا۔

    سالانہ 36 سے60 لاکھ آمدن پر2لاکھ 34 ہزارکے علاوہ ساڑھے سترہ فیصد ٹیکس لگے گا۔ 60 لاکھ سے ایک کروڑ20لاکھ آمدن پر6 لاکھ 54 ہزار ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔

    ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد آمدنی پر20 لاکھ 4 ہزار ٹیکس کی تجویزدی گئی ہے، چھوٹے دکانداروں پر تین ہزار سے دس ہزار روپے فکس ٹیکس لگادیا گیا جو بجلی کے بلوں میں لگ کر آئے گا۔

    بیس ہزار تک بجلی کے بل پر پانچ فیصد ٹیکس ہوگا۔ پچیس ہزار روپے تک بجلی کے بل پر ساڑھے سات فیصد اور پچیس ہزار سے تیس ہزار تک کے بجلی کے بل پر تین ہزار ٹیکس لیا جائے گا۔

    تیس ہزارسے پچاس ہزارتک کے بل پرپانچ ہزاراور پچاس ہزار سے زیادہ بجلی کے بل پر ریٹیلر کو دس ہزار روپے ٹیکس ادا کرناہوگا۔

    عام آدمی کے لیے اب امپورٹڈ موبائل فون رکھنا بھی آسان نہیں رہا، بجٹ دستاویز کے مطابق30 ڈالر کے فون پر سو روپے،31ڈالر سے سو ڈالر کے موبائل فون پردو سو روپے لیوی عائد کی گئی ہے۔

    دو سو ڈالر کے موبائل فون پر600، ساڑھے تین سو ڈالر کے فون پر1800 روپے لیوی ادا کرنی ہوگی۔ سات سو اور پانچ سو ڈالر کے موبائل فون پرآٹھ ہزار روپے۔

    بجٹ دستاویز کے مطابق سات سو ایک ڈالر یا اس سے زیادہ مالیت کے موبائل فون پرسولہ ہزار روپے لیوی وصول کی جائے گی۔

  • حکومت کا تنخواہ دار طبقے کیلئے ایک اور سہولت کا اعلان

    حکومت کا تنخواہ دار طبقے کیلئے ایک اور سہولت کا اعلان

    اسلام آباد : حکومت نے تنخواہ دار طبقے کیلئے ایک اور سہولت کا اعلان کرتے ہوئے تنخواہ دار افراد ٹیکس آڈٹ سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت نے ٹیکس فری آمدنی کی حد میں اضافہ کے بعد تنخواہ دار طبقے کیلئے ایک اور سہولت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تنخواہ دار افراد کا ٹیکس آڈٹ نہیں ہوگا۔

    اس کے علاوہ ایک مرتبہ آڈٹ کیلئے منتخب ہونے والوں کواگلے دو سال تک اور فائنل ٹیکس دینے والوں کو بھی آڈٹ سے چھوٹ دے دی گئی ہے۔

    ایف بی آر نے 44 ہزار 8 سو38 ٹیکس دہندگان کو ٹیکس سال دوہزار سولہ کے آڈٹ کیلئے منتخب کر لیا گیا ہے، آڈٹ کیلئے انکم ٹیکس کارپوریٹ کے چودہ سو ننانوے، انکم ٹیکس نان کارپوریٹ کے چونتیس ہزار پانچ سو پندرہ اور فیڈرل ایکسائز کے بیس ٹیکس دہندگان کا آڈٹ کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ وزارت خزانہ زرائع کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے تنخواہ دار طبقے کیلئے سرسٹھ ارب کا ٹیکس ریلیف متوقع ہے جبکہ انکم ٹیکس سے مستثنی آمدنی کی سالانہ کو حد چار لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ کیے جانے کا امکان ہے۔

    تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح کو بیس فیصد کیے جانے کا امکان ہے۔

    معاشی ماہرین کے مطابق ٹیکس ریلیف سے کم آمدنی والے افراد پر ٹیکس کا بوجھ نوے فیصد جبکہ زائد آمدن والے افراد پر ٹیکس ریٹ میں تینتالیس فیصد کمی
    ہوگی۔

    واضح رہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ امور مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال کا بجٹ 27 اپریل کو پیش کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت کی مدت 31 مئی کو ختم ہو جائے گی ، اس لئے حکومت کی کوشش ہے کہ وفاقی بجٹ جلد پیش کرکے اپنی ہی دور حکومت میں منظور کروالیا جائے۔

    خیال رہے کہ یہ ن لیگ حکومت کا آخری بجٹ ہے ، اس لئے امید کی جارہی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • آئندہ مالی سال تنخواہ دارطبقےکو67ارب ٹیکس ریلیف دینے کا امکان

    آئندہ مالی سال تنخواہ دارطبقےکو67ارب ٹیکس ریلیف دینے کا امکان

    اسلام آباد : آئندہ مالی سال بجٹ میں تنخواہ دار  طبقے کیلئے سرسٹھ ارب روپے کا ریلیف دیئے جانے کا امکان ہے جبکہ بجٹ میں انکم ٹیکس کی شرح میں کمی متوقع ہے۔

    وزارت خزانہ زرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے تنخواہ دار طبقے کیلئے سرسٹھ ارب کا ٹیکس ریلیف متوقع ہے جبکہ انکم ٹیکس سے مستثنی آمدنی کی سالانہ کو حد چار لاکھ روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ کیے جانے کا امکان ہے۔

    تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح کو بیس فیصد کیے جانے کا امکان ہے۔

    معاشی ماہرین کے مطابق ٹیکس ریلیف سے کم آمدنی والے افراد پر ٹیکس کا بوجھ نوے فیصد جبکہ زائد آمدن والے افراد پر ٹیکس ریٹ میں تینتالیس فیصد کمی ہوگی۔

    ٹیکس ریلیف وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہدایت پر کی جائے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم تنخواہ دارطبقےکو100 ارب تک کاٹیکس ریلیف دینا چاہتے ہیں جبکہ مشیرخزانہ اورایف بی آرحکام ٹیکس ریٹ میں زائد کمی کے حق میں نہیں۔


    مزید پڑھیں:  آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لیے خوشخبری


    اس سے قبل وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا تھا کہ آئندہ بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد ایڈ ہاک ریلیف، الاﺅنس اور پنشن میں 20 فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔ سرکاری ملازمین کا لیٹ سٹنگ اور میڈیکل الاﺅنس بھی بڑھانے کی تجویز زیر غور ہے۔

    یاد رہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ امور مفتاح اسماعیل نے آئندہ مالی سال کا بجٹ 27 اپریل کو پیش کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت کی مدت 31 مئی کو ختم ہو جائے گی ، اس لئے حکومت کی کوشش ہے کہ وفاقی بجٹ جلد پیش کرکے اپنی ہی دور حکومت میں منظور کروالیا جائے۔

    خیال رہے کہ یہ ن لیگ حکومت کا آخری بجٹ ہے ، اس لئے امید کی جارہی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔