Tag: Sanctions

  • میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام، جرنل سمیت اعلیٰ افسران پر پابندی عائد

    میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام، جرنل سمیت اعلیٰ افسران پر پابندی عائد

    پیرس: پورپی یونین نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث میانمار کے فوجی جرنل سمیت سات اعلیٰ افسران پر پابندی عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے اعلیٰ افسران پر سفری پابندی عائد کرتے ہوئے اثاثے بھی منجمد کردیے گئے ہیں جس کے بعد اب مذکورہ افسران یورپ نہیں جاسکیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورپی یونین نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی وجہ سے میانمار کے اعلیٰ فوجی اہلکاروں پر پابندیاں عائد کی ہیں، ان میں ایک ایسا فوجی جنرل شامل ہے، جو میانمار کی ریاست راکھین میں ملکی فوج کے آپریشن کا سربراہ تھا۔

    ملٹری آپریشن کے نام پر میانمار فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کی وجہ سے متعدد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے جبکہ سات لاکھ سے زائد روہنگیا اپنی جانیں بچانے کے لیے فرار ہو کر ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔


    بنگلہ دیش: شدید بارشیں اور لینڈ سلائیڈنگ، 12 روہنگیا مہاجرین جاں بحق


    یورپی یونین کی جانب سے پابندی کے اعلان کے بعد میانمار حکام نے ان فوجی اعلیٰ افسران کو عہدے سے برطرف کردیا جن پر یورپی یونین نے پابندی عائد کی ہے۔

    خیال رہے کہ دفاعی حوالے سے اس پابندی کی وجہ سے یورپی یونین نے میانمار کی فوج کے ساتھ کسی بھی اشتراک عمل اور تربیتی پروگرام کو قانوناﹰ ممنوع قرار دے رکھا ہے۔


    سلامتی کونسل کا میانمار کو جلد روہنگیا مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایت


    خیال رہے کہ گذشتہ سال اگست میں برما کی ریاست رکھائن میں ملٹری آپریشن کے نام پر برمی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی تھی جس کے باعث مجبوراً لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کر گئے تھے۔

    علاوہ ازیں رواں سال 9 مئی کو بنگلہ دیش کے دار الحکومت ڈھاکہ میں اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا 45 واں اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں مسلم ممالک کے رہنماؤں نے روہنگیا بحران کو مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکا کی ایران پر پابندیاں برقرار، یورپی یونین نے خود کو استثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ کردیا

    امریکا کی ایران پر پابندیاں برقرار، یورپی یونین نے خود کو استثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ کردیا

    واشنگٹن: امریکا کی جانب سے ایران پر اقتصادی پابندیاں برقرار ہیں تو دوسری جانب یورپی یونین نے خود کو ان پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران جوہری معاہدے سے دست برداری کے بعد ایران پر پرانی اقتصادی پابندیاں بحال کردی ہیں جس کے باعث یورپی یونین کو شدید تشویش ہے کہ ایران میں کام کرنے والی یورپی کمپنیاں ان پابندیوں سے متاثر ہوں گی۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ فیدریکا موگیرینی کی جانب سے امریکی حکام کو خط لکھا گیا ہے جس میں یہ مطالبہ درج ہے کہ امریکی صدر ایران پر اقتصادی پابندیوں کی صورت میں یورپی یونین کو اس سے مستثنیٰ قرار دے۔


    ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنا گمراہ کن اور سنگین غلطی ہے، بارک اوباما


    امریکی میڈیا کے مطابق یورپی یونین کی جانب سے لکھے گئے خط میں تمام یورپی یونین ممالک کی حمایت حاصل ہے جبکہ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ اور وزرائے خزانہ کے دست خط بھی شامل ہیں۔

    خیال رہے کہ یورپی یونین اپنی ان کمپنیوں کو پابندیوں سے بچانا چاہتی ہے جو ایران میں کام کررہی ہیں، قبل ازیں امریکا نے یورپی کمپنیوں کو ایران نہ چھوڑنے کی صورت میں پابندیوں کی دھمکی دی تھی۔


    ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ برقرار رکھیں گے، یورپی رہنماؤں کا عزم


    واضح رہے کہ گذشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا بعد ازاں انہوں نے ایران پر اقتصادی پابندیوں کو سلسلہ بھی شروع کردیا ہے، جبکہ دوسری جانب ان پابندیوں سے یورپی یونین کے ایران میں جاری کاروبار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پاکستان نے بھی امریکی سفارت کاروں پرجوابی پابندیاں عائد کردیں

    پاکستان نے بھی امریکی سفارت کاروں پرجوابی پابندیاں عائد کردیں

    اسلام آباد : پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکی سفارت کاروں پر  پابندی عائد کردی ہے جس کے بعد امریکی سفارت کاروں کی رہائش گاہوں پر ریڈیو کمیونیکیشن کی تنصیب این او سی کے بغیر نہیں ہوگی، سفارتکاروں کو دی جانے والی کچھ سہولیات بھی واپس لینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں پاکستانی سفارت کاروں پر سفری پابندی کے بعد حکومت نے  بھی پاکستان میں تعینات امریکی سفارت کاروں پر جوابی سفارتی پابندی عائد کردی ہے۔

    مذکورہ پابندی کے بعد امریکی سفارت کاروں کو  محدود نقل و حرکت کی اجازت ہوگی اور  ان کو نقل و حرکت سے پہلے دفتر خارجہ سے اجازت لینا ہوگی جس کا اطلاق آج 11مئی سے ہی ہوگا۔

    وزارت خارجہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق امریکی کارگو اسکیننگ کے بغیر نہیں جانے دیا جائے گا، ایئر پورٹس پر بھی  سفاتر کاروں کو کارگو سے متعلق کوئی استثنیٰ نہیں دیا جائے گا۔

    وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی سفارت کاروں کی گاڑیوں کے کالے شیشے ممنوع ہوں گے اور نان ڈپلو میٹک نمبر پلیٹ لگانے پر بھی پابندی ہوگی۔

    وزارت خارجہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق امریکی سفارت کاروں کو  موبائل سم کارڈ  نکلوانے کے لیے بائیو میٹرک تصدیق کروانا بھی ضروری ہوگی۔

    نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت کار ایک سے زائد پاسپورٹ نہیں رکھ سکیں گے اور ان کا قیام جاری ہونے والے ویزے کی مدت کے مطابق ہوگا جبکہ کرائےکی گاڑیوں پر ڈپلومیٹک نمبر پلیٹ استعمال نہیں کی جائےگی۔

    وزارت خارجہ کے مطابق رہائش گاہوں پر ریڈیو کمیونیکیشن کی تنصیب این اوسی کے بغیر نہیں ہوگی اور امریکی سفارت کار این او سی کے بغیر کرائے پر کوئی بھی جگہ نہیں لے سکیں گے۔

    پاکستانی وزارت خارجہ نے امریکی سفارت کاروں پر عائد کردہ پابندی کے حوالے سے امریکی سفارت خانے کوآگاہ کردیا ہے  اور اب پاکستانی ایئر پورٹس پر امریکی سفارتخانے کے سامان کی ترسیل کو ویانا کنونشن کے مطابق ڈیل کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ دنوں امریکا نے پاکستان کے سفارت کاروں پر پابندیاں عائد کی تھیں جس کی تصدیق گزشتہ روز دفتر خارجہ کے ترجمان نے کی تھی۔

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستانی عملے کی نقل و حرکت پر پابندیوں کا اطلاق 11 مئی سے ہوگا، پاکستان نے بھی جوابی ردعمل میں امریکی سفارتی عملے پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

     ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ 11 مئی سے امریکا میں تعینات سفارتی عملے پر پابندیاں عائد ہوں گی جس کے بعد عملہ سفارت خانے سے  40 کلومیٹر  حدود کے دائرے سے باہر نہیں جاسکے گا، اسی طرح کی پابندیاں پاکستان نے بھی امریکی سفارتی عملے پر عائد کردیں۔

    مزید پڑھیں: سفارتی پابندیوں کے بعد پاکستان کا سپر پاور کو کرارا جواب

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ سفری پابندیاں باہمی دوطرفہ سطح پر نافذ ہوں گی، اگر سفارتی عملے  کےکا رکن کسی بھی علاقے میں جانا چاہیے گا تو اُسے امریکی وزارتِ داخلہ سے پیشگی اجازت لینی ہو گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • امریکی حکومت نے ایران پر پابندیوں کا آغاز کردیا

    امریکی حکومت نے ایران پر پابندیوں کا آغاز کردیا

    واشنگٹن : امریکا نے ایران کی سپاہ پاسداران کے ساتھ تعاون کرنے شبے میں چھ ایرانی باشندوں اور تین کمپنیوں پر یواےای کی مدد سے پابندیاں عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے میں امریکا کے نکل جانے اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کے کرنے کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی مزید بڑھنے لگی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ امریکا کی انتظامیہ نے 6 ایرانی باشندوں اور تین کمپنیوں پر ایران کی سپاہ پاسداران سے روابط کے الزام پر پابندیاں لگادی ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خزانہ اسٹون مونچن کا کہنا تھا کہ امریکا نے حالیہ عائد کی پابندیوں میں ان افراد کو ہدف بنایا ہے جو ایران کو ڈالرز کی صورت میں رقم فراہم کرتے ہیں، جس کا استعمال سپاہ پاسداران امریکا اور اس کے حامیوں کے خلاف کرتا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر خزانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران کا سرکاری بینک بھی سپاہ پاسداران کی ڈالرز تک رسائی حاصل کرنے میں تعاون فراہم کررہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ خزانہ نے ان افراد کے نام بتانے سے انکار کردیا البتہ ان کا کہنا تھا کہ جن افراد پر پابندی عائد کی گی ہے وہ سب ایرانی ہیں۔

    امریکا کی وزیر خزانہ اسٹون مونچن کا کہنا تھا کہ مذکورہ کمپنیوں اور افراد پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر پابندی عائد کی گئی ہے جس کے بعد کسی بھی کمپنی یا ملک کو جرت نہیں ہوگی کہ وہ ایران کے ساتھ تعلق رکھے۔

    امریکی وزیر خزانہ کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ ایرانی حکومت اور ایران کے سرکاری بینک نے متحدہ عرب امارات کے اداروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ سپاہ پاسداران اور خطے میں منفی سرگرمیاں انجام دینے والے ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو ڈالرز اور اسلحے کی صورت میں مدد پہنچائی جاسکے۔

    اسٹون مونچن کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کی سپاہ پاسداران کے تمام ذرائع آمدنی بند کردے گا جس کے ذریعے پاسداران کا مالی استحصال کیا جائے گا۔

    ایران کی سپاہ پاسداران

    یاد رہے کہ سنہ 1979 میں انقلاب اسلامی کے وقوع پذیر ہونے کے بعد سپاہ پاسداران کو وجود میں لایا گیا تھا تاکہ اسلامی نظام، مقدسات اور اقدار کا کسی بھی جگہ تحفظ کیا جاسکے، سپاہ پاسداران ایران کی بڑی سیاسی اور اقتصادی قوت بھی ہے۔

    خیال رہے کہ ایران کی سپاہ پاسداران بہت مضبوط ہے اور ملک کی قومی سلامتی کو خطرہ درپیش ہوتو پولیس اور خفیہ ادارے اس کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن اگر صورت حال بہت کشیدہ ہوجائے حکومت اور سیکیورٹی ادارے معاملات سپاہ پاسداران کے حوالے کردیتے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا مقصد بھی سپاہ پاسداران اور اس کے خصوصی دستے القدس بریگیڈ کو کمزور کرنا ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپاہ پاسداران پر ’بدعنوان دہشت گرد فورس قرار دیا تھا‘ اور گذشتہ برس اکتوبر میں پابندیوں کے ذریعے مذکورہ مسلح گروہ کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیا تھا۔

    یاد رہے کہ ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کا دوبارہ اطلاق امریکی صدر نے جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بعد ہوا ہے۔

    خیال رہے کہ امریکا نے سنہ 2015 میں طے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان رواں ماہ مئی میں کیا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ ’امریکا نے ایٹمی سے علیحدگی اختیار کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار

    واشنگٹن : امریکی صدر نے جے پی او سی کے اجلاس میں باقاعدہ ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا، جس کے بعد سنہ 2015 سے قبل عائد پابندیاں دوبارہ نافذ کردی جائیں گی.

    تفصیلات کے مطابق سنہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج جے سی او پی کے ساتھ امریکی تعاون کو ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے اس فیصلے کی رو سے ایران پر سنہ 2015 سے پہلے عائد پابندیوں کا دوبارہ اطلاق ہوجائے گا جو ایٹمی معاہدے کے باعث ختم کی گئی تھی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد کرنے کے لیے امریکی محکمہ خزانہ کا دفتر برائے بیرونی اثاثہ جات اس حوالے سے فوری اقدمات کررہا ہے۔

    امریکی خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ کچھ پابندیاں تین ماہ کے اندر لاگو کردی جائیں گی جبکہ کچھ پابندیوں 6 ماہ کے اندر اندر نافذ العمل کیا جائے گا، اس دوران ایران کے ساتھ تجارت کرنے والے تمام کمپنیاں اپنے آپریشن بند کردیں ورنہ ان پر بھی سختی کی جائے گی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں میں پرائمری اور ثانوی دونوں نوعیت کی پانبدیاں شامل ہیں، او ایف اے سی نے اپنی دیب سایٹ پر امریکی صدر ٹرمپ سے کیے گئے سوالات کو شائع کیا ہے جس میں لگائی گئی پابندیوں کی تفصیلات واضح ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مذکورہ فیصلے پر وزیر خزانہ اسٹیون ٹی کا کہنا ہے کہ ’صدر ٹرمپ حلف لینے کے بعد سے متواتر کہتے آئے ہیں کہ موجودہ انتظامیہ ایران کی جانب سے پیدا کی گئی عدم استحکام کی سرگرمیوں کو مکمل طور ہر حل کرنے کےلیے پُر عزم ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بہترین منصوبہ سازی کے ذریعے ایسا لائحہ عمل معاہدہ تیار کریں گے جو ہماری قومی سلامتی کے مفاد میں ہوگا۔

    اسٹیون ٹی کا کہنا تھا کہ ’امریکا ایران کی جانب سے کی جانے والی ضرر رساں سرگرمیوں کے لیے درکار سرمائے تک رسائی کو سرے سے ختم کردے گا، کیوں کہ ایران دہشت گردوں کا سب سے بڑی پشت پناہی کرنے والی ریاست ہے‘۔

    امریکی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ایران کی جانب سے کی جانے والی ضرر رساں سرگرمیوں امریکا کے اتحادیوں و حامیوں کے خلاف استعمال ہونے والے بیلسٹک میزائل، شامی صدر بشار الااسد کی حمایت اور اپنے ہی عوام کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور بین الااقوامی مالیاتی نظام کا استعمال شامل ہے‘۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے، خطاب کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں میں امریکا کے ساتھ ہیں، سعودی عرب

    ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں میں امریکا کے ساتھ ہیں، سعودی عرب

    ریاض : سعودی حکومت نے جاری بیان میں کہا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدے کا استعمال کرتے ہوئے خطے میں سرگرم دہشت گردوں کو بیلسٹک میزائل فراہم کرے تاکہ وہ سعودی شہریوں کو نشانہ بناسکیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے گذشتہ روز سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی پر اسرائیل کے بعد سعودی عرب نے بھی امریکا کی حمایت کردی۔ ریاض سے جاری سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب ایران پر عائد کردہ اقتصادی پابندیوں پر امریکا کی حمایت کرتا ہے۔

    حکام نے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’سعودی عرب نے چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین ہونے والے معاہدے کی حمایت اس لیے کی تھی تاکہ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام قائم ہوسکے۔

    سعودی حکام کی جانب سے جاری سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے جوہری معاہدے کی حمایت اس بھروسے پر کی تھی کہ عالمی سطح پر تباہی پھیلانے والے خطرناک ہتھیاروں اور ایٹمی منصوبوں کو محدود کیا جاسکے۔

    ریاض حکومت کا کہنا تھا کہ ایرانی رجیم نے ایٹمی معاہدے کا استعمال کرتے ہوئے بیلسٹک میزائلوں کی تیاری اور حوثی ملیشیا و حزب اللہ کو میزائلوں کی فراہمی سے خطے کے امن و استحکام کو مزید خطرے میں ڈال دیا تھا۔

    ایران کی جانب سے دہشت گرد گروپوں کو فراہم کردہ خطرناک ہتھیاروں کا استعمال حوثیوں نے سعودی شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سخت خلاف ورزی ہے۔

    سعودی حکام کا بیان میں کہنا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے حوالے سے پیش کردہ حکمت عملی کا خیر مقدم کرتے ہیں اور بھرپور حمایت کے لیے تیار ہیں۔ سعودیہ نے عالمی برادری سے بھی امید ظاہر کی ہے کہ ایران اور خطے میں سرگرم دہشت گرد تنظیمیں حزب اللہ اور حوثی ملیشیا سمیت دیگر گروہوں کی حمایت کے خلاف ایک مؤقف اختیار کریں گے۔

    واضح رہے کہ اسرائیل اور سعودی پہلے سے عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کی مخالفت میں امریکا کے ساتھ تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری، اقوام متحدہ کا اظہار تشویش

    ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری، اقوام متحدہ کا اظہار تشویش

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران کے ساتھ جوہرے معاہدے سے دستبرداری کے بعد اقوام متحدہ نے شدید تشویش کا اظہار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے سابق صدر کی جانب سے کئے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد اقوام متحدہ سمیت دیگر مغربی طاقتوں کی جانب سے بھی امریکی صدر کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتریس نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ امریکا کی ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی پر ہمیں تشویش ہے، جس سے عالمی سطح پر دیگر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، تاہم ایرانی جوہری معاہدے کے دیگر فریق اس معاہدے کی پاسداری کریں۔

    امریکی صدر ٹرمپ کا ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان

    ان کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے کو جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے اہم کامیابی سمجھتے تھے لیکن امریکا کی جانب سے ایسے اقدام سے خطرات جنم لے سکتے ہیں، ایرانی جوہری معاہدے کا عالمی امن و سلامتی پر مثبت اثر ہوا ہے۔

    دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے بھی اظہار افسوس کیا ہے، سابق امریکی صدر باراک اوباما کا اس اہم فیصلے سے متعلق کہنا تھا کہ ایرانی جوہری معاہدے سے دستبرداری ٹرمپ کی سنجیدہ غلطی ہے، جوہری معاہدے سے علیحدگی کے اعلان کو گمراہ کن سمجھتا ہوں۔

    جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے نتائج عالمی امن کے لیے خطرہ ہوں گے، انتونیو گتریس

    خیال رہے کہ آج وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا ہے، خطاب کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ہونے والے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بال ٹیمپرنگ میں ملوث اسٹیون اسمتھ کا پابندی کےخلاف اپیل نہ کرنےکااعلان

    بال ٹیمپرنگ میں ملوث اسٹیون اسمتھ کا پابندی کےخلاف اپیل نہ کرنےکااعلان

    سڈنی : بال ٹیمپرنگ میں ملوث سابق آسٹریلوی کپتان اسٹیون اسمتھ کا کہنا ہے کہ کرکٹ آسٹریلیا کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کے خلاف اپیل نہیں کروں گا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق آسٹریلوی کپتان اسٹیون اسمتھ جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان جاری تیسرے ٹیسٹ کے دوران آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بینکرافٹ کی جانب سے بال ٹیمپرنگ کرنے کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔

    اسٹیون اسمتھ نے کہا کہ کرکٹ آسٹریلیا نے پابندی لگا کرسب کوپیغام دیا ہے، میں نے پابندی کو تسلیم کیا ہے۔

    خیال رہے کہ 24 مارچ کو کیپ ٹاؤن میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے جانے والے تیسرے ٹیسٹ میچ کے دوران آسٹریلوی ٹیم کے کپتان اسٹیون اسمتھ، نائب کپتان ڈیوڈوارنر اور بلے باز کیمرون بینکرافٹ بال ٹمپرنگ کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔

    بال ٹیمپرنگ،اسٹیون اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 28 مارچ کو آسٹریلیوی ٹیم کے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پر جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں بال ٹمپرنگ کرنے کے جرم میں ایک سال کے لیے کرکٹ کھیلنے کی پابندی عائد کی تھی۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز بال ٹیمپرنگ اسکینڈل میں سزا پانے والے 3 آسٹریلوی کرکٹرز کی سزا کے خلاف آسٹریلین کرکٹ ایسوسی ایشن نے سزا میں نرمی کا مطالبہ کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مذاکرات سے قبل شمالی کوریا پر پابندیاں جاری رہیں گی، ڈونلڈ ٹرمپ

    مذاکرات سے قبل شمالی کوریا پر پابندیاں جاری رہیں گی، ڈونلڈ ٹرمپ

    واشنگٹن: چین اور شمالی کوریا کے سربراہوں کے بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کم جونگ آن سے مئی میں ہونے والی مُلاقات سے قبل شمالی کوریا پر پابندی اور دباؤ جاری رہے گا۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کے دوراہ چین اور صدر شی جن پنگ سے ہونے والی ملاقات پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پرٹویٹ کیا ہے کہ سربراہ شمالی کوریا کا دوراہ چین ’بہت اچھا رہا‘ اب وہ بھی ان سے ملنا چاہتے ہیں۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہنا تھا کہ مئی میں ہونے والی ملاقات سے قبل شمالی کوریا پر پابندی اور دباؤ جاری رہے گا، اور اب شمالی کوریا کے جوہری ہیتھاروں میں بھی تخفیف کی جاسکتی ہے۔

    بدھ کے روز کیے گئے ٹویٹ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے آنے والی خبروں کا خیر مقدم کیا ہے۔

     

    صدر ٹرمپ کا ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’یہ اچھا موقع ہے کہ کم جونگ ان وہ کریں جو شمالی کوریا کے شہریوں اور انسانیت کے لیے درست ہے۔ ’مسٹر کم جونگ میرے ساتھ ملاقات کے بھی منتظر ہیں‘۔

    امریکی صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ ‘شمالی کوریا کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر کام جاری ہے، اس معاہدے کی تکمیل دنیا کے لیے بہت اچھی ثابت ہوگی۔ ملاقات کے وقت اور جگہ کا انتخاب بعد میں ہوگا۔

    یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ دنوں شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان کی جانب سے ملاقات کی پیش کش کو قبول کیا ہے اور دونوں رہنما اگلے مہینے مئی میں ملاقات کریں گے۔

    امریکی صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان نے 2011 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر چین گئے اور چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات بھی کی ہے۔

    امریکا اور شمالی کوریا کے سربراہان کی ملاقات کے حوالے سے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ امید ہے امریکا اور کوریا کے مذاکرات کامیاب ہوں وگرنہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات مزید خراب ہوجائے گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • جوہری عدم پھیلاؤ سےمتعلق پاکستان کی کوششیں دنیا کےسامنے ہیں‘ ڈاکٹرمحمد فیصل

    جوہری عدم پھیلاؤ سےمتعلق پاکستان کی کوششیں دنیا کےسامنے ہیں‘ ڈاکٹرمحمد فیصل

    اسلام آباد: ترجمان دفترخارجہ ڈاکٹرمحمد فیصل کا کہنا ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ اور کنٹرول کے علاوہ جوہری تحفظ اور سیکورٹی کے لیے کی جانے والی کوششوں سے پوری دنیا آگاہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹرمحمد فیصل نے امریکہ کے پاکستانی کمپنیوں کو پابندی کی فہرست میں شامل کرنےکے معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی 7 کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے رپورٹس دیکھی ہیں اور اس حوالے سے امریکہ کی جانب سے مزید معلومات کا انتظارہے۔

    ڈاکٹرمحمد فیصل نے کہ امریکہ کی جانب سے جن کمپنیوں پرپابندی لگائی ہے وہ نجی شعبے کی ہیں۔

    ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ ہم اس مسئلے کو غیرضروری طورپرسیاسی رنگ دینے اور ان فہرستوں کی بنیاد پرپاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے عزم پرالزامات لگانے کی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔

    ڈاکٹرمحمد فیصل نے کہا کہ ایسی کوششوں اور اقدامات کے وقت سے شکوک وشبہات بڑھ جاتے ہیں اور ان کو سیاسی اقدامات سمجھا جائے گا۔

    ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ برآمدی کنٹرول، جوہری عدم پھیلاؤ سمیت ایٹمی تحفظ وسلامتی کے لیے پاکستان کی کاوششوں سے سب واقف ہیں اور ان شعبوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کی ایک تاریخ ہے۔

    جوہری تجارت کا الزام، امریکہ نے سات پاکستانی کمپنیوں پر پابندی لگادی

    واضح رہے کہ امریکہ نے سات پاکستانی کمپنیوں پر پابندی لگا دی اور ان کمپنیوں کی سرگرمیوں کو امریکی پالیسی سے متصادم اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔