ہمارے نظام شمسی میں 8 سیارے ہیں۔ سورج کی طرف سے شروع کے پہلے 4 یعنی عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ وہ سیارے ہیں جو چٹانوں، دھات یا سلیکیٹ سے بنے زمینی سیارے ہیں۔ اس کے بعد اگلے چار یعنی مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون وہ سیارے ہیں جو اندرونی نظام شمسی کی تشکیل کرتے ہیں، اور یہ بنیادی طور پر گیسی مرکب کے حامل ہیں۔
چوں کہ گیس کی کثافت پانی سے کم ہوتی ہے، یعنی ہلکی ہوتی ہے، اس لیے اصولی طور پر تو نظام شمسی کے اندر ہمارے یہ چار بڑے گیسی پڑوسی پانی پر تیرنے کے قابل ہونے چاہیئں، لیکن ایسا نہیں ہے، اور صرف ایک ہی سیارہ اس قابل ہے۔
تو اگر آپ نے گوگل کیا ہے تو یقیناً آپ جان گئے ہوں گے کہ کس سیارے کی باڈی کو یہ خاص امتیاز حاصل ہے؟ لیکن جو لوگ نہیں جانتے ان کے لیے اس کا جواب ہے: زحل (Saturn)۔
اس کے گرد خوب صورت حلقے بنے ہوئے ہیں، اس لیے یہ چھلّوں والی دنیا کہلائی جاتی ہے، اور یہ سورج سے چھٹا، اور نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا سیارہ ہے، یہی وہ واحد سیارہ ہے جو پانی پر تیر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زحل کی کثافت پانی سے کم ہے۔
زحل کی اوسط کثافت 0.7 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے، جب کہ پانی کی کثافت اسی حجم کے لیے 1 گرام ہے۔ سیارہ زحل تقریباً مکمل طور پر گیس سے بنا ہے، خاص طور پر ہائیڈروجن اور ہیلیم، یہ دونوں ہوا سے ہلکے ہیں۔
اگر ایسا کرنا ممکن ہو، کہ نظام شمسی کے تمام ارکان کو ایک کائناتی باتھ ٹب میں ڈالا جائے، تو ان میں سے 7 تو پانی میں ڈوب جائیں گے، جب کہ زحل تیرتا ہوا دکھائی دے گا۔
جہاں تک زحل کے گرد موجود حلقوں کی بات ہے تو یہ ملبے سے بنے ہیں، جس میں چٹانیں اور برفیلے ذرات شامل ہیں۔
واشنگٹن: سیارہ زحل کے چاند ٹائٹن کے خطِ استواپر گزشتہ روز گرد کے طوفان کامشاہدہ کیا گیا، یہ مشاہدہ ناسا کے خلائی جہاز ’کیسینی ‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا کے ذریعے کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ناسا کے کیسینی نامی پروب سے گزشتہ روز موصول ہونے والی تصاویر کے مطابق زحل کے چاند ٹائٹن پر آندھی چل رہی تھی ، کسی سیارے کے چاند پر یہ آندھی کا پہلا مشاہدہ ہے۔
یہ آندھی زحل کے چاند ٹائٹن کے خطِ استوا کے علاقے میں دیکھی گئی ہے- سائنسداں جانتے ہیں کہ ٹائٹن پر آتش فشاں پہاڑ موجود ہیں اور وہاں پر ہائیڈروکاربن سائیکل اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح پانی کا سائیکل زمین پر کام کرتا ہے- جس طرح زمین پر پانی کے سمندروں سے بھاپ اٹھتی ہے، بادل بنتے ہیں، بارش ہوتی ہے، بارش کا پانی ندی نالوں سے دریاؤں اور وہاں سے سمندروں میں جاتا ہے اسی طرح ٹائٹن پر میتھین گیس انتہائی سرد ماحول کی وجہ سے مائع حالت میں موجود ہے۔
یونی ورسٹی آف پیرس کے آسٹرونامر سباسشین روڈریگیوز کا کہنا ہے کہ ٹائٹن ایک انتہائی متحرک چاند ہے اور اس پر آندھی کے مشاہدے کے بعد اب اس کی جیالوجی کا زمین اور مریض کی جیالوجی سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔
میتھین کے سمندروں سے میتھین کے بخارات فضا میں داخل ہوتے ہیں اور بادلوں کو تشکیل دیتے ہیں ، یتھین کے بادل پہاڑوں پر جا کر مائع میتھین بارش کی صورت میں برساتے ہیں، یہ مائع میتھین ندی نالوں اور دریاؤں سے ہوتی واپس سمندر میں پہنچتی ہے۔
یاد رہے کہ ٹائٹن کا محور بھی زمین کی طرح جھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹائٹن پر زمین کی طرح گرمی اور سردی کے موسم ہوتے ہیں۔بہار یا خزاں کے موسم میں سورج ٹائٹن کے خطِ استوا کے عین اوپر ہوتا ہے اور اس علاقے میں شدید جھکڑ پیدا ہوتے ہیں اور آندھیاں چلتی ہیں۔ہمیں ان جھکڑوں کے بارے میں پہلے سے معلوم تھا لیکن ابھی تک گردوغبار سے بھرپور آندھی کا مشاہدہ نہیں ہو پایا تھا- اب کیسینی کی بدولت ٹائٹن پر آندھیوں کا مشاہدہ بھی ہو گیا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ٹائٹن پر بہت سا نامیاتی مواد موجود ہے (میتھین خود ایک نامیاتی یعنی organicمالیکیول ہے) اس لیے اس آندھی میں بھی بہت سا نامیاتی مواد اڑتا ہے اور دور دراز کے علاقوں میں پھیل جاتا ہے- میتھین کی بارشوں سے یہ نامیاتی مواد ٹائٹن کی سطح میں جذب ہو سکتا ہے اور پیچیدہ مالیکیولز میں تبدیل ہو سکتا ہے،گویا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ٹائٹن پر کسی نہ کسی شکل میں زندگی کا امکان بھی موجود ہے۔
پاکستانی نژاد جرمن سائنسداں ڈاکٹر نزیر خواجہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح پاکستان سے دیگر طالب علم بھی اسپیس سائنس کے میدان میں آگے آئیں اور ملک کا نام روشن کریں، ان کی حالیہ تحقیق نے خلائی سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔
حال ہی میں ڈاکٹر نزیر خواجہ اور ان کی ٹیم نے ناسا ، یورپی اور اطالوی خلائی ایجنسی کے انتہائی مہنگے مشن ’کیسینی‘ سے حاصل شدہ ڈیٹا پر ثابت کیا ہے کہ مریخ کے ایک چاند ’انسلیداس ‘ پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی نشونما کے لیے درکار ہیں۔
ان کی اس تحقیق کو تسلیم کرتے ہوئے ناسا نے گزشتہ ماہ اس کا باقاعدہ اعلان کیا جس کے بعد یہ ساری دنیا کے نشریاتی اداروں کی ہیڈلائن بن گئی۔ ڈاکٹر نزیر اور ان کے ساتھی فرینک پوسٹ برگ اس وقت سے ہی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں۔
پاکستان کے لیے فخر کا مقام یہ ہے کہ اس انتہائی بلند پایہ تحقیق کی سربراہی کرنے والے ڈاکٹر نزیر خواجہ پاکستانی شہری ہیں ۔ ان کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیااور پھر وہیں خلائی تحقیق سے وابستہ ہوگئے۔
پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں، اس نیٹ ورک کے قیام کا مقصد اسپیس سائنس میں دلچسی رکھنے والے طلبہ و طالبات کو مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے تربیت یافتہ رضا کار اگلے مرحلےمیں اسکولوں میں جاکر طالب علموں کی رہنمائی کریں گے کہ مروجہ روایتی مضامین سے ہٹ کر بھی طالب علموں کے پاس کئی مواقع موجود ہیں۔
ڈاکٹر نزیر کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن سے حاصل کردہ ڈ یٹا پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ زحل کے چاند پر موجود سمندر میں بالکل ویسے ہی نمکیا ت پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے سمندروں میں موجو د ہیں۔
اے آروائی نیوز کے لیے خصوصی طور پر ریکارڈ کردہ ویڈیو پیغام میں ڈاکٹر نزیر نے اپنی تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے زحل پر کوئی زندگی تلاش کرلی ہے بلکہ ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زحل کے چاند انسلیدس پر وہ تمام عوامل موجود ہیں جو کہ زندگی کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ اور یہ پہلی بار ہے کہ زمین سے باہر کسی مقام پرخلائی تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو زندگی کے لیے سازگار حالات کے اتنے پختہ ثبوت ملے ہوں۔
پاکستانی نژاد جرمن سائنس داں ڈاکٹر نُزیر اوران کےہمراہ سائنسدانوں کی ٹیم نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ سیارہ زحل کے چاند پرزندگی کے آثارموجود ہیں، یہ تحقیق ناسا اوریورپی اسپیس ایجنسی اور اطالوی اسپیس ایجنسی کے مشترکہ مشن ’کیسینی‘ سے موصول ہونے والے ڈیٹا پرکی گئی ہے ۔
سائنس کی دنیا کے موقر ترین جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی تحقیق پاکستانی سائنسداں ڈاکٹرنزیراورڈاکٹر فرینک پوسٹ بر کی سربراہی میں کی گئی ہے جس کے مطابق زحل کے برفیلے چاند’’انسیلیدس‘‘ پر زندگی کےلیے موافق حالات موجودہ ہیں۔
نیچر نامی جریدے کا برقی عکس
ناسا کے خلا کے طویل سفر پر جانے والے ’کیسینی ‘نامی خلائی جہاز کے ذریعے حاصل کردہ ڈیٹا پر تحقیق کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا چاند کی سطح پر’ پیچیدہ مالیکیول‘ تشکیل پارہے ہیں جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سمندر حیات کی ابتدا کے لیے انتہائی ساز گار ماحول رکھتے ہیں۔ تحقیق کے نتیجے میں تشکیل پانے والے مالیکیول اب تک کے سب سے بڑے مالیکیول ثابت ہوئے ہیں۔
یہ تحقیق یونی ورسٹی آف ہائیڈل برگ سے تعلق رکھنے والے نزیرخواجہ اورفرینک پوسٹ برگ کی سربراہی میں یورپین اسپیس ایجنسی میں کی گئی ہے ۔ تحقیق کے مطابق ہائیڈرو تھرمل وینٹس کے خلا میں تیرتے منجمد آمیزے کا جب تجزیہ کیا گیا تو اس میں نامیاتی مالیکیولز کے بڑے ٹکڑے پائے گئے جو کہ ارتقاء کے عمل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ہائیڈرو وینٹس کا عمل
اس حوالے سے ڈاکٹرپوسٹ برگ کا کہنا ہے کہ زحل کے چاند کےسمندروں میں جاری یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہماری زمین پر یہ عمل سمندروں کی تہہ میں جاری رہتا ہے اور اسی عمل کے نتیجے میں کرہ ارض پر اولین حیات کا وجود ہوا تھا۔
ڈاکٹر پوسٹ برگ کی اس تحقیق میں پاکستانی نژاد ڈاکٹر نزیر خواجہ ان کے شریکِ کار تھے اور دونوں ماہرین کے زیرِ نگرانی دنیا بھرکے نامور سائنسدانوں نے یہ تحقیق مرتب کی ہے۔
ڈاکٹرنُزیربطور پاکستانی
ڈاکٹر نزیر خواجہ کا تعلق پاکستان کے ضلع وزیر آباد سے ہے ۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے اسپیس سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، بعد ازاں جرمنی کے نامور تعلیمی ادارے ہائیڈل برگ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔
ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا زیادہ تر حصہ کیسینی نامی خلائی مشن پر کام کرتے گزرا ہے جو کہ خلائی تسخیر کی تاریخ کا اہم ترین مشن سمجھا جاتا ہے اور حالیہ تحقیق میں اس مشن کی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔
اسلام آباد میں ڈاکٹر نزیر خواجہ ایوارڈ وصول کرتے ہوئے
پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے ڈاکٹر نزیر کا تحقیقاتی کام دنیا کے موقر ترین سائنسی جریدوں میں شائع ہوتا رہتا ہے ، اس کے علاوہ وہ خلائی سائنس سے وابستہ اداروں میں جاکر بھی مقالے پڑھا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں
بلکہ وہ وقتاً فوقتاً ا پنےمتعلقہ مضمون سے متعلق پاکستانی طالب علموں کی رہنمائی بھی کیا کرتے ہیں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے آسٹرو بیالوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے نام سے ایک سوسائٹی بھی قائم کررکھی ہے جس کے ذریعے وہ نوجوانوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
کیسینی جہاز کا سفر
خیال رہے کہ کیسینی میں ایسے آلات موجود تھے کہ وہ خلا میں جس شے کا بھی معائنہ کرتا اس کا مکمل ڈیٹا یہاں امریکی خلائی ادارے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کو موصول ہوجاتا تھا ۔ یہ جہاز چار ارب ڈالر کی لاگت سے خلا میں بھیجا گیا تھا جسے زحل تک پہنچنے میں ایک طویل عرصہ لگا۔ اس نے زحل سے کئی کار آمد تصاویر اور ڈیٹا یہاں سائنسدانوں کو فراہم کیا تھا ۔
خلائی جہاز کیسینی
سنہ 2017 میں اس کا رخ زحل کی سطح کی جانب موڑ کر اسے تباہ کردیا گیا تھا ۔سائنس دانوں کے مطابق کیسینی کا مشن پورا ہوچکا تھا، اس کا ایندھن اختتام پر تھا ، جس کے بعد وہ ادھر ادھر بھٹکنے لگتا اس لیے اس جہاز کا تباہ ہونا بہتر تھا چنانچہ اسے زحل کے مدار میں داخل کردیا گیا۔
ناسا کے مطابق اس مشن پر چار ارب ڈالر کی لاگت آئی اور تیرہ برس کاعرصہ لگا، اس کی رفتار ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور اسی رفتار سے یہ زحل کی سطح سے ٹکرانے کے لیے روانہ ہوا۔متوقع وقت پر جہاز کے سگنل آنا بند ہوگئے جس سے سائنس دانوں کو یقین ہوگیا کہ جہاز زحل سیارہ سے ٹکرا کر تباہ ہوچکا ہے۔
خالق کائنات نے صرف ہماری زمین کو ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کو اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اس پر جتنا غور کیا جائے اتنا ہی ہم پر حیرت و فکر کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔
زمین کے نظارے تو خوبصورت ہیں ہی سہی، لیکن زمین کی حدود سے باہر خلا میں بھی ایسے ایسے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر آپ دنگ رہ جائیں۔
آج ہم آپ کو ایسی ہی خلا کی کچھ تصاویر دکھانے جارہے ہیں جنہیں دیکھ کر شاید آپ خلا میں منتقل ہونے کا ارادہ کرلیں۔
سیارہ مشتری پر سورج گرہن کا منظر
مختلف رنگوں کی کہکشائیں
سورج کی بیرونی تہہ میں ہونے والا قدرتی دھماکہ
امریکا کی وسطی و جنوبی ریاستوں میں تباہی مچانے والا طوفان ماریا خلا سے کچھ یوں دکھائی دیتا ہے
خلا میں مصروف عمل چند خلا باز
ستاروں کے درمیان کہکشاں
خلائی جہاز کیسینی کی تباہی سے پہلے سیارہ زحل کی آخری مکمل تصویر
خلا سے زمین کی روشنیاں
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
زمین سے باہر بے کراں خلا اور وسعت بے شمار عجائبات کا نمونہ ہے۔ یہاں ایسی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا تصور ہم یہاں زمین پر بیٹھ کر، کر ہی نہیں سکتے۔
آج ہم آپ کو خلا اور نظام شمسی سے متعلق ایسے ہی کچھ حیرت انگیز مگر نہایت دلچسپ حقائق سے آگاہ کر رہے ہیں۔
ہماری زمین 1 ہزار 29 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کر رہی ہے۔
لیکن ہمارا پورا نظام شمسی بشمول 9 سیارے اور سورج وغیرہ 4 لاکھ 9 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت یا گردش کرتا ہے۔
سورج کی طرف سے دوسرا سیارہ زہرہ (وینس) تمام سیاروں کے برعکس مخالف رخ پر گردش کرتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سورج کی کشش ثقل نے اس کے محور کو 180 ڈگری پر پلٹا دیا ہے۔
نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ مشتری (جوپیٹر) اتنا بڑا ہے کہ یہ سورج کے گرد گردش نہیں کرتا۔ یہ سورج کے محور میں موجود ایک نقطے کو مرکز بنا کر اس کے گرد گردش کرتا ہے۔
خود سورج بھی اسی نقطے کے گرد گردش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ تھوڑا ڈگمگاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
حلقے دار سیارہ زحل (سیچورن) پر ہیروں کی بارش ہوتی ہے۔
دراصل اس سیارے کی فضا میں موجود حرارت اور دباؤ ایسا ہے کہ یہ فضا میں کاربن کے ذرات کو ہیروں میں تبدیل کرسکتا ہے، اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ ہیرے کاربن کی ہی تبدیل شدہ شکل ہیں۔
ہماری کہکشاں میں موجود لاکھوں کروڑوں سیارے اور ستارے مزید ٹوٹ سکتے ہیں۔ ٹوٹنے کے اس عمل سے ہمارا سورج موجودہ مقام سے کسی اور مقام پر منتقل ہوسکتا ہے مگر اس سے زمین پر کوئی تباہی نہیں آئے گی۔
کائنات میں سب سے تیز رفتار شے ایک ٹوٹا ہوا ستارہ ہے جو ایک سیکنڈ میں 716 دفعہ حرکت کرتا ہے۔
خلا میں موجود کچھ بادلوں میں گیلنوں کے حساب سے الکوحل موجود ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس الکوحل کا ذائقہ رس بھری جیسا ہوسکتا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اس موقع پر گوگل نے بھی اس کامیابی کا جشن مناتے ہوئے اپنے ڈوڈل کو اس سفر کے منظر سے سجا دیا۔
کیسینی کا سفر
کیسینی خلائی جہاز کو سنہ 1997 میں زمین سے زحل کی جانب بھیجا گیا تھا اور یہ جولائی 2004 میں وہاں پہنچا تھا۔
گزشتہ 13 سالوں سے یہ خلائی جہاز زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر اس کے بارے میں تحقیق اور تصاویر زمین کی طرف روانہ کر رہا تھا۔
اس دوران اس نے زحل کے گرد قائم دائروں یا حلقوں اور اس کے چاندوں کی تصاویر بھی بھیجی ہیں۔
اس سارے سفر کے دوران کیسینی زحل سے ایک محفوظ فاصلے پر رہا ہے اور اس نے زحل کی فضا یا اس کے حلقوں سے ٹکرانے کی کوشش نہیں کی۔
اب یہ اس کے سفر کا آخری مرحلہ ہے جس میں یہ زحل کی فضا اور اس کے حلقوں کے گرد تقریباً 22 غوطے لگائے گا۔
گزشتہ روز لگایا جانے والا غوطہ سیارہ زحل اور اس کے سب سے قریبی حلقے کے درمیان تھا جو تقریباً 24 سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔
کیسینی کے سفر کی تصوراتی منظر کشی
کیسینی کا یہ سفر ستمبر تک جاری رہے گا جس کے بعد اس میں ایندھن ختم ہوجائے گا اور یہ 15 ستمبر کو زحل کی فضا میں اپنا آخری غوطہ لگا کر فنا ہوجائے گا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔