Tag: Saudi Arabia

اردو زبان میں سعودی عرب سے تازہ ترین خبریں اور معلومات

Saudi Arabia News In Urdu by ARY News

  • یمن: میزائل بیس پرفضائی حملے میں 7 افراد جاں بحق

    یمن: میزائل بیس پرفضائی حملے میں 7 افراد جاں بحق

    صنعا: یمن میں ہونے والے تازہ فضائی حملے میں اسکڈ میزائل بیس کو نشانہ بنایا گیا حملے کے سبب بیس پر بڑا دھماکہ ہوا جس سے سات افراد جاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔

    یمن کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق دھماکے کے میں درجنوں افراد مارے گئے جبکہ سیکنڑوں زخمی ہوئے ہیں۔

    سعودی عرب تقریباً ایک ماہ سے اپنئ اتحادیوں کے ہمراہ یمن میں تبدیلی کے خواہاں حوثی قبائل کے ٹھکانوں پر بمباری کررہا ہے جس کے نتیجے میں اب تک سینکڑوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ میزائل بیس جسے نشانہ بنایا گیا ضلع ہدا کے فجاتان پہاڑ پر واقع ہے اس ضلع میں صدارتی محل اور بہت سے سفارت خانے بھی واقع ہیں۔

  • یمنی حکومت نے ایران کا امن منصوبہ مسترد کردیا

    یمنی حکومت نے ایران کا امن منصوبہ مسترد کردیا

    عدن: یمنی حکومت نے ایران کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا چار نکاتی امن منصوبہ مسترد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایران کے چار نکاتی منصوبے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ یمن میں فوری جنگ بندی کرائی جائے، بیرونی افواج کی جانب سے حملے بند کئے جائیں، قومی مذاکرات کا آغاز کیا جائے اورایک متحد قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

    یمنی حکومت کے ترجمان نے قطر کے دارالحکومت دوحا میں برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم ایران کی جانب سے اٹھائے گئے قدم کو مسترد کرتے ہیں‘‘، ان اقدامات کا مقصد صرف سیاسی فوائد حاصل کرنا ہے‘‘۔

    یمن کی موجودہ حکومت اور اس کے مرکزی اتحادی سعودی عرب کا ایران پر الزام ہے کہ ’’ایران خطے میں برتری حاصل کرنے کے لئے یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہاہے‘‘، دوسری جانب ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

    ایران نے یمن میں حکومت کے خلاف لڑنے والے شیعہ حوثی قبائل کی براہ راست فوجی مدد کےالزام کو بھی مسترد کردیا ہے۔؎

    سعودی عرب اور اس کے سنی عرب اتحادی ممالک گزشتہ تین ہفتوں سے یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی قبائل پر بمباری کررہے ہیں کہ باغیوں کو ملک پر مکمل قبضہ اختیار کرنے سے روکا جاسکے۔

  • ایرانی عازمینِ عمرہ سے زیادتی کرنے والی سعودی پولیس اہلکارگرفتار

    ایرانی عازمینِ عمرہ سے زیادتی کرنے والی سعودی پولیس اہلکارگرفتار

     

    جدہ : سعودی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایران سے تعلق رکھنے والے دو کم عمر ’’عمرہ زائرین‘‘ کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں۔

    سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کی جانب سے وزارتِ داخلہ کا بیان سامنے آیا ہے جس کے مطابق جدہ ایئرپورٹ پر ’’ایران سے تعلق کم عمرلڑکوں کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا ہے‘‘۔

    ملزمان کو تحقیقات اور دیگر قانونی ضابطے پورا کرنے کے لئے پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے اور تہران کے سفیر کو اس ساری کاروائی سے آگاہ کردیا ہے‘‘۔

    یہ واقع عین اس موقع پر پیش آیا ہے جب سعودی عرب اور ایران کے درمیان یمن کے موضوع پر تلخی عروج پر ہے۔

    واضح رہے کہ گذشتہ روز پیش آنے والے اس واقعے کے ردعمل میں ایران نے سعودی عرب سے شدید احتجاج کرتے ہوئے عمرہ پروازایں بند کردی تھیں اور سعودی عرب سے واقعے کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

    ایران سے ہر سال 5 لاکھ سےزائد زائرین عمرے کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب جاتے ہیں۔

  • سعودیہ یمن میں مجرمانہ اقدامات بند کرے، خامنہ ای

    سعودیہ یمن میں مجرمانہ اقدامات بند کرے، خامنہ ای

    تہران: ایران کے روحانی لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے یمن میں شیعہ قبائل کے خلاف جاری سعودیہ اور اس کے اتحادی ممالک کے حملوں کو مجرمانہ فعل قراردے دیا۔

    ایرانی لیڈر نے اپنی ویب سائٹ پر سعودی حکومت کے نام جاری کردہ پیغام میں کہا ہے کہ ’’ خطے میں اس قسم کی حرکت برداشت نہیں کی جائے گی اورہم خبردار کرتے ہیں یمن میں مجرمانہ کاروائیاں فی الفور روکی جائیں‘‘۔

    انہوں نے کہا کہ ’’ سعودی حکومت اپنے تباہ کن جرائم جلد از جلد بند کرے‘‘۔

    واضح رہے کہ سعودیہ کی سربراہی میں عرب ممالک اورامریکہ نے یمن میں 26 مارچ سے فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔

    یمن کے باغیوں نے ایک بڑے حصے پر قبضہ کررکھا ہے جس میں دارالحکومت صنعاء بھی شامل ہے اور حوثی قبائل کی ان کاروائیوں کے نتیجے میں یمنی صدر نے بھاگ کر عدن میں پناہ لے رکھی ہے۔

    خامنہ ای نے مزید کہا کہ ’’سعودی حکومت یمن میں جو کچھ کررہی ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا صیہونی غزہ میں کرتے ہیں‘‘۔

    انہوں نے یمن میں بچوں کی ہلاکت، گھروں کی تباہی ، انفرا اسٹرکچر اور دولت کے نقصان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ قتلِ عام ہے، نسل کشی ہےاورعالمی سطح پر قابلِ تعزیرہے‘‘۔

  • ایران کے ساتھ حتمی معاہدہ امن کو فروغ دے گا، شاہ سلمان

    ایران کے ساتھ حتمی معاہدہ امن کو فروغ دے گا، شاہ سلمان

    ریاض: سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے امریکی صدر باراک اوبامہ سے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان حتمی نیوکلیئر سمجھوتے سے خطے اور عالمی امن کو استحکام ملے گا۔

    سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی صدر اور سعودی فرمانروا کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں ایران اور مغرب کے درمیان ہونے والے معاہدے پر گفتگو کی گئی۔

    ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے طویل مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر ایک حتمی معاہدہ تشکیل پا گیا ہے جس کے تحت ایران نیوکلئیر ہتھیارنہیں بنائے گا۔ گزشتہ 12 سال میں میں ایران اور مغرب کے درمیان پہلی بار یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔

    ایران اور سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ میں ایک دوسرے کے سب سے بڑے حریف ہیں اور ان دونوں کے درمیان تعلقات شام کے مسئلے پر کافی کشیدہ ہیں جنہیں حالیہ یمنی بحران سے ہوا ملی ہے۔

    سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس چیف ترکی الفیصل نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ جس قسم کا معاہدہ ایران کے ساتھ ہو ویسا ہی سعودی عرب کے ساتھ بھی ہونا چاہیے تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہے۔۔

    ایک مغربی ملک کے سفیر کا کہنا ہے کہ سعودیہ سب سے پہلے تو امریکہ سمیت ایران سےمذاکرات کرنے والی طاقتوں سے یقین دہانی چاہے گا اور اگر اس سے بھی بات نہیں بنی تو سعودی عرب پاکستان سے نیوکلیائی ہتھیاروں کے سلسلے میں مدد لے سکتا ہے۔

  • پاک بحریہ کا جہاز کل یمن سے 150 پاکستانیوں لیکر کراچی آئے گا

    پاک بحریہ کا جہاز کل یمن سے 150 پاکستانیوں لیکر کراچی آئے گا

    کراچی: پاک بحریہ کا جہاز کل یمن سے تقریباً ایک سو پچاس پاکستانیوں کو کراچی لے کر آئے گا، پی آئی اے کی خصوصی پروازآج جبوتی پہنچے گی۔

    یمن میں محصورسینکڑوں پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لئے ریسکیوآپریشن جاری ہے،عدن میں موجود 215 پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لئے چین کے بحری جہازوں کے ذریعے جبوتی منتقلی کے انتظامات مکمل ہوگئے ہیں۔

     ایتھوپیا میں پاکستان کے سفیر نے جبوتی میں پاکستانیوں کے قیام، امیگریشن اور وطن واپسی کیلئےانتظامات کئے ہیں، پاکستانیوں کے جبوتی پہنچنے کے بعد کراچی سے پی آئی اے کی خصوصی پرواز انہیں وطن واپس لائے گی۔

     دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا ہے کہ یمن کے شہرمکلا اور صنعا میں اب بھی درجنوں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں، پاک بحریہ کا جہاز مکلا سے تقریباً 150 پاکستانیوں کو کراچی لے کر آئے گا، صنعا میں اب بھی 70 سے 90 پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جو 2 روز قبل حدیدہ جانے والے قافلے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ سعودی حکام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ’ نو فلائی زون‘سے استثنیٰ دے۔

  • تاریخِ یمن: اقتدار سے انتشار تک

    تاریخِ یمن: اقتدار سے انتشار تک

    تحقیق: فیض اللہ خان/مہتاب عزیز

    یمن کے دالحکومت صنعاءپرقبضے اور پھر سعودیہ کے جانب سے فضائی حملوں کے آغاز کے بعد یمن کا حوثی قبیلہ دنیا بھرمیں موضوع بحث بنا ہوا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ عوام تو عوام ہمارے خاصے صاحب علم افراد کے پاس بھی حوثی قبیلے کی تاریخ اور مذہب کے بارے میں مستند معلومات نہیں ہیں۔ اہل صحافت خصوصا ٹی وی اینکرز اس بارے میں عجیب و غریب خود ساختہ حقائق پھیلا کر لوگوں کو مزید کنفیوز کر رہے ہیں۔ حوثیوں کے بارے میں عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ یہ شعیہ مذہب کے زیدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات ماضی کے حوالے سے ٹھیک ہے لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ آگے بڑنے سے پہلے ایک نظر زیدی فرقے کے مذہبی عقائد پر ڈال لیتے ہیں۔ زیدی شیعہ عقائد کے اعتبار سے اثنا عشری (بارہ امامی) اور اسماعیلی شیعوں سے مختلف ہیں۔ اثنا عشری اور اسماعیلی شیعہ امامت پر نص کے اصول کے قائل ہیں۔ جس کے مطابق امام کے انتخاب کا حق اُمت کی بجائے خدا کو حاصل ہے۔ جبکہ زیدی شیعوں کا ماننا ہے کہ امامت اگرچہ اہل بیعت اور اولاد فاطمہ میں ہے تاہم اُمت اہل بیعت میں سے کسی بھی ایسے راہنما کو امام مان سکتی ہے جس کا عدل مشہور ہو اور جو ظلم کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے۔ فقہی اعتبار سے بھی زیدی شیعہ حنفی اور مالکی سنی مکاتب فکر سے قریب ہے۔ معاملات کو سمجھنے کے لیے ہم یمن کی پچھلی ایک دو صدیوں کی تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے شمالی یمن زیدی شیعہ اکثریتی علاقہ رہا ہے۔ زیدی شیعوں کے سیاسی برتری کی تاریخ شمالی یمن میں کوئی ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ایسے ادوار بھی ہیں جن میں یہ تسلط شمالی یمن سے بڑھ کے تقریباً پورے یمن میں موجود رہا ہے۔ اس کے برعکس جنوبی یمن جس کا سیاسی دارالحکومت بالعموم عدن کی بندرگاہ ہے تاریخی اعتبار سے سنیوں کے شافعی مکتبہ فکر کی اکثریت کا گہوارا رہا ہے۔ عدن کی بندرگاہ اور جنوبی یمن کے اکثر حصے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں پہلے سلطنت عثمانیہ اور بعد میں براہ راست برطانوی سلطنت کے زیر اختیار چلے گئے تھے۔ تاہم شمالی یمن میں دو صدیوں سے قائم شیعہ زیدی امامت میں کسی نہ کسی طرح 1962ء تک اپنی سلطنت کو برقرار رکھا اگرچہ اُس کی حیثیت کئی ادوار میں علامتی ہی تھی۔ 1962ء میں مشرقِ وسطیٰ میں جاری عرب سوشلسٹ نیشنلسٹ تحریک کے نتیجے میں مصر کے جمال عبدالناصر کے حامی فوجی افسران نے شمالی یمن میں شیعہ زیدی امامت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اس موقعہ پر سعودی عرب کی حکومت نے زیدی امام کا ساتھ دیا تھا جبکہ باغیوں کی امداد کے لئے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے مصری فوج اور بڑی مقدار میں اسلحہ یمن بھیجا تھا۔ یمن کی یہ خانہ جنگی 5 سال تک جاری رہی۔ 1967ء میں اسرائیل جنگ میں بدترین شکست کے نتیجے میں جمال عبدالناصر شمالی یمن سے مصری افواج کے انخلا پر مجبور ہوگیا تھا۔ یوں سعودی عرب اور مصر کے درمیان ایک مفاہمت کے نتیجے میں یمن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔ ایک طرف شمال میں جمہوریۂ یمن معرض وجود میں آیا تو دوسری طرف جنوبی یمن میں جاری نیشنلسٹ سوشلسٹ گوریلا تحریک کے نتیجے میں برطانیہ کا عدن اور جنوبی یمن کی دوسری نوآبادیوں سے انخلا عمل میں آیا۔ جس کی بدولت عوامی جمہوریۂ یمن یا سوشلسٹ یمن کا قیام عمل میں آیا جو سرد جنگ کے زمانے میں عرب دنیا کی واحد سوشلسٹ جمہوریہ تھی۔ 1990 میں ایک معاہدے کے تحت شمالی اور جنوبی یمن میں اتحاد ہو گیا یوں 22 مئی 1990 کو علی عبداللہ الصالح متحدہ یمن کا پہلا صدر بن گیا۔

    22مئی 1990 سے 27 فروری 2012 تک یمن پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے علی عبداللہ صالح کا تعلق متحدہ یمن کے دارلحکومت صنعا کے نواع میں مقیم احمر قبلے سے ہے جس کی اکثریت مذہباً زیدی شعیہ ہے۔ خود عبداللہ کا تعلق بھی اسی مذہب ہے۔ عبداللہ الصالح کی متحدہ یمن پر حکومت کے قیام کو چند ماہ بعد ہی گزرے تھے کہ اگست 1990ء میں کویت پر عراق نے قبضہ کر لیا۔ جس کے بعد عرب کی تمام ریاستوں نے صدام حسین کی عراقی حکومت کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ لیکن یمن کا عمومی جھکاو عراق کی جانب تھا۔ جس کی وجہ سے یمن اور دیگر خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ خصوصا خلیج کی دوسری جنگ کے موقعہ پر یمن نے کھل کر اپنا وزن عرب اتحاد کے مخالف پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ یمن کی خارجہ پالیسی کے رد عمل میں سعودی عرب، کویت اور دیگر خلیجی ممالک کی عاقبت نااندیش قیادت نے اپنے ہاں سے بڑی تعداد میں یمنی شہریوں کو نکال دیا۔ یاد رہے کہ اس جنگ سے پہلے کویت اور سعودی عرب سمیت دیگر تیل پیدا کرنے والی ریاستوں کی یمن اور یمنیوں پر بڑی عنایات تھیں۔ تعلیم، صحت، اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں یمن کو ان ریاستوں سے بڑے پیمانے پر تعاوّن ملتا تھا۔ ان ملکوں میں یمنیوں کو کام کرنے اور رہنے کے لئے غیر معمولی سہولیات میسر تھیں۔ خلیجی ممالک سے بڑے پیمانے پر انخلاء کی وجہ سے یمن میں عوام بہت زیادہ معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے، خصوصا یمن میں بے روز گاری میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ اس معاشی ناگفتہ بہ صورت حال میں یمن کی عوام میں عرب حکومتوں کے خلاف جذبات کا پیدا ہونا فطری عمل تھا، جس کا فائدہ ایران نے اٹھایا۔ اگرچہ 1960ء کی دہائی میں شیعہ زیدی امامت کے خاتمے کے بعد سے ہی شیعہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ حالات سے ناخوش تھا۔ تاہم 1990 میں عرب ممالک کی جانب سے یمن کی اقتصادی امداد کی کٹوتی اور عمومی سرد مہری کے رجحان سے فائدہ اٹھانے کے لئے حسین بدرالدین حوثی نے ایران کے تعاون سے نے ’شباب المومنین‘ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ حسین ایک زبردست خطیب اور اپنے ساتھ لوگوں کو لے کر چلنے میں ماہر تھا۔ اس نے سب سے پہلے نوجوانوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ ایران کی امداد سے شیعہ اکثریتی علاقوں میں اسپتال، سکولز اور سوشل ویلفیئر کے دوسرے منصوبے شروع کیے۔ ان تمام اداروں میں خاص طور پر "امامی شیعہ دینیات” کے پڑھنے اور پڑھانے کا نظام قائم کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں زیدی شعیوں کو امامی یا اثناء عشری بنانے کا آغاز ہوا۔

    ’شباب المومنین‘ کے زیر اہتمام طلبہ اور طالبات کو بڑی تعداد میں ایرانی یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوایا گیا۔ جو ایران سے عمومی تعلیم کے علاوہ مالی تعاون عسکری تربیت بھی حاصل کرتے تھے۔ یوں وہ ایران سے شیعہ انقلاب اور خیمنی کے سپاہی بن کر یمن واپس آتے تھے۔ حسین بدر الدین حوثی نے اپنی خطیبانہ مہارت اور انقلابی نعروں سے اور ایرانی پیسے کی مدد سے حوثی قبیلے کے شیعہ قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کرلیا۔ بہت سے فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا۔ 14 سال کی محنت اور ایران سے آنے والے بے پناہ وسائل کی بدولت بدالدین نے اتنی عسکری قوت مہیا کی کہ اُس نے 2004ء میں یمن پر قبضہ کرنے کے لئے بغاوت کر دی۔ یہ پہلی حوثی بغاوت کہلاتی ہے جو شمالی یمن کے سعودی سرحد سے متصل صوبے سعداء میں واقع ہوئی تھی۔ حوثیوں کی یہ بغاوت بُری طرح ناکام ہو گئی تھی جس میں شباب المومنین کا بانی حسین بدرالدین اور اُس کے بہت سے اہم رفقاء یمنی فوج کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ خیال رہے کہ اس وقت یمن پر زیدی مذہب سے تعلق رکھنے والے علی عبداللہ الصالح کی حکومت تھی۔ حسین بدر الدین کے مارے جانے کے بعد تحریک کی قیادت اُس کے بھائی عبدالمالک الحوثی کے پاس آگئی۔ عبدالمالک الحوثی نے قیادت سنبھالتے ہی زیدی شعیوں سے تعلق مکمل طور پر ختم کر دیا۔ شباب المومنین کی تنظیم کو تحلیل کر کے اس کی جگہ نئی تنظیم انصار اللہ قائم کی جسے عرف عام میں الحوثی تحریک کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں صرف اور صرف اثناء عشری مذہب اختیار کرنے والوں کو شامل کیا گیا جن میں اکثریت حوثی قبیلے کے افراد کی ہے۔ عبدالمالک الحوثی کی خوش قسمتی تھی کہ جب اُس کے پاس قیادت آئی تو اُس وقت امریکہ اور مغربی ممالک یمن میں القاعدہ کے فروغ اور استحکام سے سخت پریشان تھے۔ امریکہ اور نیٹو نے القاعدہ کے یمن میں روز بروز فروغ پانے والے اثر و رسوخ کے سامنے بند باندھنے کے لئے حوثی تحریک کا انتخاب کیا۔ یوں اسے بیک وقت ایران اور مغربی ممالک کا مالی اور عسکری تعاون حاصل ہو گیا۔ جبکہ امریکہ کی سرپرستی کی وجہ سے سعویوں اور دیگر خلیجی حکومتوں نے بھی اس کی سرگرمیوں سے چشم پوشی اختیار کر لی۔

    امریکہ، مغربی طاقتوں اور اُن کے خلیجی اتحادیوں کے نزدیک یمن میں طاقتور ہوتی ہوئی القائدہ کی مقامی شاخ انصارالشریعہ القاعدہ کے دیگر گروپوں کی نسبت بہت زیادہ خطرناک تھی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ان طاقتوں نے دو دھاری پالیسی کی بنیاد رکھی۔ ایک طرف یمن کے حکمران علی عبداللہ الصالح کی وفادار فوج ری پبلکن گارڈز (جس کی قیادت علی عبداللہ الصالح کے بیٹے احمد علی الصالح کے پاس تھی) کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ 2004 سے لے کر 2011تک یمنی ری پبلکن گارڈز کو امریکہ کی جانب سے 326 ملین ڈالر سے زائد مالیت کا اسلحہ اور نقد رقوم مہیا کی گئیں، اسی عرصے میں اس کے فوجی کمانڈروں کی تربیت کے کئی پروگرامات پایہ تکمیل تک پہنچ چکے تھے۔ "انسدادِ دہشت گردی” سلسلے میں 2004 کی بغاوت کے وقت سے معتوب چلی آنے والی حوثی تحریک کی حکومت سے صلح کرائی گئی۔ 2008 میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت بغاوت کے جرم میں قید تمام حوثی قائدین کو نہ صرف رہا کر دیا گیا، بلکہ ان کا تمام ضبط شدہ اسلحہ اور گولہ بارود واپس کر دیا گیا۔ اور ایران سے ملنے والی عسکری امداد پر بھی آنکھیں بند کر لی گئیں، جس کا امریکی حکام یہ جواز پیش کرتے تھے کہ اگر انہیں ایران سے امداد مل رہی ہے تو یہ القاعدہ سے لڑ بھی رہے ہیں۔ دوسری جانب القاعدہ کے خلاف یمنی فوج اور امریکہ نے براہ راست جنگ کا بھی آغاز کر دیا۔ یمنی فوج زمینی کاروائیوں کی ذمہ دار تھی جبکہ اسے سعودیہ کی سرزمین سے پرواز کرنے والے امریکی ڈرون طیاروں کے زریعے فضائی امداد مہیا کی جاتی تھی۔ امریکی ڈرون طیاروں کی ان کاروائیوں کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان، عراق اور صومالیہ کی نسبت کہیں زیادہ ڈراون حملے یمن پر کیے۔ بظاہر یہ ڈراون حملے اور زمینی عسکری کاروائیاں القاعدہ اور اس سے تعاون کرنے والوں پر کیے جاتے تھے، لیکن عملا ان کے نتیجے میں یمن کے تمام ہی سنّی قبائل کی عسکری قوت کو کمزور کر دیا گیا کیوں کہ مغربی طاقتوں کا خیال تھا کہ القاعدہ کو سنّی قبائل سے اجتماعی یا انفرادی طور پر تعاوّن ملتا ہے۔ یمن کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی اُس وقت رونما ہوئی جب تیونس، مصر اور لیبیا میں عرب بہار کی کامیابی کے بعد یمن کے دارلحکومت صنعاء اور دوسرے شہروں میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ حکومت نے مظاہرین سے سختی سے نپٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ 22 ہزار شدید زخمی ہوئے، جبکہ 7 ہزار افراد جیلوں میں قید کردیے گئے۔ علی عبداللہ الصالح کی ری پبلکن گارڈز کی جانب سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مظاہریں ڈٹے رہے۔ امریکہ اور اُس کے یورپی و خلیجی اتحادیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ افراتفری کے اس ماحول سے القاعدہ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ لہذا پُرامن انتقال اقتدار کا ایک فارمولہ تیار کیا گیا، جس کے تحت علی عبداللہ الصالح کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور یمن کے تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ نئی قائم ہونے والی حکومت کا صدر "عبد ربہ منصور ہادی” مسلک کے اعتبار سے شافعی تھا، جبکہ اس حکومت میں وزیر اعظم کا عہدہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنی مضبوط سیاسی پوزیشن کی وجہ سے اخوان المسلمون کی یمنی شاخ جماعت الاصلاح کے پاس آگیا۔ یہاں حالات نے ایک اور کروٹ لی، عرب حکومتیں القاعدہ سے خائف تو تھیں، لیکن وہ یمن میں اخوان کے نظریات رکھنے والے کسی شخص کو ملک کے اعلیٰ عہدے پر برداشت کرنے کو بھی تیار نہیں تھیں۔ لہذا اس حکومت کے ساتھ ان کا رویہ ابتداء ہی سے بہت سرد مہری کا تھا۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں نے بھی اس حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی یمن کو دی جانے والی ہر قسم کی امداد بند کر دی۔ دوسری طرف علی عبد اللہ الصالح نے اقتدار سے اعلیحدگی کے بعد یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ 1911 میں یمن سے خلافت عثمانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر متحدہ یمن کے اقتدار پر اہل سنّت کا قبضہ ہو گیا ہے۔ اس نعرے کو اہل تشیع میں پپذیرائی حاصل ہوئی، یمن کے شعیہ اکثریتی علاقوں میں اہل تشیع کے اقتدار کی بحالی کے نعرے بلند ہونا شروع ہو ئے۔ علی عبداللہ الصالح کے تعاون، عبد المالک حوثی کی قیادت اور ایرانی عسکری ماہرین کی رہنمائی میں حوثی قبائل کی فوجوں نے پیش قدمی کرنا شروع کر دی۔ دلچسب حقیقت یہ ہے کہ حوثیوں کی پیش قدمی کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں میں سب سے نمایاں نام سابق صدر علی عبداللہ کے زیدی مذہب کے حامل قبیلے الاحمر کا ہے۔ جس کے مسلح نوجوانوں نے جنرل علی محسن الاحمر کی زیر قیادت 6 مختلف مقامات پر حوثیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لیکن اس موقع پر 30 سال سے زیادہ عرصے تک یمن کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے علی عبداللہ الصالح کی وفادار ری پبلکن کارڈز (جسے نئی حکومت نے بحیثیت ادارہ تحلیل کر دیا تھا) اور دیگر سرکاری عہدے داروں نے حوثیوں کا ساتھ دیا اور وہ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے دارلحکومت صنعاء پر قابض ہو گئے۔ جہاں اںہوں نے سب سے پہلے طاقت کے بل بوتے پر "جماعت الاصلاح” کے وزیراعظم "سلیم باسندوا” کو برطرف کر دیا۔ "جماعت الاصلاح” کی قیادت اور کارکنوں کو چُن چُن کر قتل کیا گیا۔ یہاں تک سب کچھ پلان کے مطابق تھا اسی لئے یورپی اور خلیجی حکومتوں نے حوثیوں کے دارلحکومت صنعاء پر قبضے پر بھی کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔

    صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی تب ہوئی جب سعودی عرب نے حوثی باغیوں کیخلاف کاروائی کا فیصلہ کیا شاہ سلمان نے اس سے قبل ترکی کے ساتھ تلخ ہوتے تعلقات ٹهیک کئے کیونکہ اخوان المسلمون کی حکومت کے خاتمے میں تعاون کے باعث ترکی سعودی عرب تعلقات انتہائی خراب ہوچکے تهے اسی معاملے پر قطر سے بهی اختلافات تهے لیکن یمن پر حملے سے قبل سعودی عرب نے تمام خطے کے اہم اسلامی ممالک سے روابط مزید مستحکم کئے یہی وجہ تهی کہ ترکی و قطر نے بهی سعودی حملوں کی حمایت کی اور اس سلسلے میں پاکستان نے بهی بیان دیا کہ سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت کو خطرہ ہوا تو کاروائی کریں گے واضح رہے کہ اس سے قبل ایران کی پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی عراق و شام میں اپنے دستوں کے ہمراہ موجود ہیں اور وہاں بشار الاسد کیخلاف لڑنے والے گروہ داعش سے جنگ کررہے ہیں اور اسمیں انہیں لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بهی حاصل هے سعودی حملوں کو امریکی تائید بهی حاصل ہوچکی پاکستان چونکہ جوہری طاقت ہے اور اہم اسلامی ملک ہے اسی لئے یہاں موجود سیاسی و مذہبی قیادت جس میں عمران خان سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن شامل ہیں، نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان اور ترکی ملکر اس معاملے کا مذاکراتی راستہ تلاش کریں لیکن بظاہر لگتا ہے کہ اب قدرے تاخیر ہوچکی هے اور جنگ کا میدان سج چکا البتہ اخلاص نیت ہو تو مذاکرات کا انعقاد ناممکن نہیں۔

  • ریاض: پاکستانی اور سعودی شہری کا سرقلم

    ریاض: پاکستانی اور سعودی شہری کا سرقلم

    ریاض: سعودی عرب میں رواں سال سزائے موت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، قتل کے مجرم سعودی شہری اورمنشیات کی اسمگلنگ میں ملوث پاکستانی شہری کی سزائے موت پرعمل درآمد کردیا گیا۔

    وزارتِ داخلہ کے مطابق نادربن موسیٰ الہربی نامی سعودی شہری کو ایک ہم وطن بندر بن محیاالہربی کے قتل کے جرم میں ہیل نامی شہرمیں سزا دی گئی۔

    پاکستانی شہری بن یامین علی احمد کو پیٹ میں منشیات بھرکراسمگل کرنے کی کوشش میں گرفتارکیا گیا اوراسے جدہ میں سزا دی گئی۔

    حالیہ سزاؤں کے بعد رواں سال سعودی عرب میں دی جانے والی سزائے موت کی تعداد 53 ہوچکی ہے جبکہ گذشتہ برس سعودی عرب میں کل 87 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی۔

    سعودی عرب میں 2011 سے 80 کے لگ بھگ پھانسیاں دی جاتی ہیں۔

    سعودی عرب کے برعکس ایران میں گزشتہ سال جنوری سے اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کوسزائے موت دی گئی۔

  • سعودی عرب میں قتل کے مجرم کوسزائے موت

    سعودی عرب میں قتل کے مجرم کوسزائے موت

    ریاض: سعودی عرب کے دارالحکومت میں قتل کے مجرم کا سرقلم کردیا گیا، سعودیہ میں اس سال سزائے موت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

    سعودی شہری سعد بن عبداللہ کو ایک اورشہری عبداللہ بن فرج الگاتھانی کے قتل کے جرم میں سزائے موت کی سزا دی۔ رواں برس سعودیہ میں 45 مجرموں کو سزائے موت دی جاچکی ہے۔

    سزائے موت کی تصدیق سرکاری خبررساں ایجنسی نے وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان نشر کرتے ہوئے کی۔

    انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سعودی عرب میں ہر سال سزائے موت کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔

    سال 2011کے بعد سے اب تک لگ بھگ سالانہ 80 مجرموں کو سزائے موت دی جارہی ہے اور گزشتہ سال 87 افراد کو سزائے موت دی گئی۔

    سعودی عرب میں قتل، منشیات فروشی ، ڈکیتی سمیت دیگر سنگین جرائم کی سزا موت ہے۔

  • جرمنی نے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کردی

    جرمنی نے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کردی

    برلن: جرمنی نے مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے باعث سعودی عرب کو مزید اسلحہ فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    جرمنی کے مقامی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب سے موصول ہونے والے اسلحے کے آرڈرز یا تو مسترد کردیے گئے ہیں یا پھر انہیں مزید غوقر کرنے کے لئے فی الحال ملتوی کیا گیا ہے۔

    اخبار نے مزید کہا ہے کہ یہ فیصلہ حکومتی ادارے نیشنل سیکیورٹی کونسل نے لیا ہے جس میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل، وائس چانسلر سگمار گیبرئیل اور سات دیگر وزراء شامل ہیں، کونسل کےاجلاس میں کہا گیا کہ جرمن حکومت کے ذرائع کے مطابق ’’ خطے کی صورتحال عدم استحکام کا شکار ہے لہذا وہاں مزید اسلحہ بھیجنا مناسب نہیں ہے۔‘‘

    سعودی عرب عالم اسلام میں ایک اہم حیثیت کا حامل ہے اوراسی سبب عالمی برادری بھی سعودی عرب کو خصوصی اہمیت دیتی ہے جس کا اظہارسابق فرمانروا شاہ عبداللہ کے انتقال پرہوا جس میں انکی آخری رسومات اورتعزیت کے لئے پاکستانی اوربرطانوی وزیراعظم، فرانسیسی صدر اور ترکی کے صدرسمیت اہم ممالک کے رہنماوٗں نے شرکت کی۔

    جرمنی کی نمائندگی سابق صدر کرسچین وولف نے کی۔

    سعودی عرب جرمن ساختہ اسلحے کا سب سے اہم خریدار ہے جس نے سال 2013 میں جرمنی سے 400 ملین ڈالر کے اسلحے کی خریداری کی تھی۔

    جرمنی کے اخبار کی جانب سے منعقد کیے گئے سروے میں 78 فیصد جرمن شہریوں کا خیال ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے باعث سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند کردینی چاہئے۔