Tag: Saudi women’s

  • سعودی عرب میں خواتین ملازمین کے لیے بڑی خوشخبری

    سعودی عرب میں خواتین ملازمین کے لیے بڑی خوشخبری

    سعودی عرب میں خواتین ملازمین کے لیے خوشی کی خبر سامنے آگئی، سوشل انشورنس کے جنرل ادارے کی جانب سے حکومتی اور نجی شعبے میں ملازم خواتین کو زچگی کے موقع پر بیمہ پالیسی کے تحت تین ماہ کی تنخواہ ادا کیے جانے کے قانون پر یکم جولائی سے عمل درآمد کردیا گیا۔

    عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق سوشل سکیورٹی انشورنس پالیسی کے حوالے سے شاہی قانون کی منظوری دو جولائی 2024 کو دی گئی تھی۔

    رپورٹس کے مطابق سوشل سکیورٹی ادارے کی جانب سے بیمہ پالیسی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ خواتین جنہوں نے کام کا آغاز 3 جولائی 2024 کے بعد کیا تھا اور وہ اس سے قبل سوشل بیمہ پالیسی میں شامل نہیں، انہیں اس سکیم کے تحت الاؤنس جاری کیا جائے گا۔

    رپورٹس کے مطابق سعودی اورغیرملکی ملازم خواتین کے لیے زچگی الاؤنس برابر ہوگا جنہوں نے سعودی عرب میں اس تاریخ کے بعد ملازمت کا آغاز کیا ہے۔

    زچگی الاونس قانون کی شرائط کے مطابق ولادت کے فوری بعد سے تین ماہ تک ادا کیا جائے گا جو 100 فیصدہ ماہانہ اجرت کے برابر ہوگا، الاؤنس میں ایک ماہ کے لیے مشروط اضافہ ممکن ہے اگر نومولود بیمار یا معذور ہو۔

    بیمہ الاؤنس کا مقصد فریقین یعنی آجر و اجیر کے حقوق کا تحفظ ہے تاکہ کسی کوئی ایک زیر بار نہ ہو اور کارکن خواتین بھی اضافے دباؤ میں نہ آئیں۔

    سماجی بیمہ سکیم کے لیے تین بنیادی شرائط جاری کی گئی ہیں جن میں بنیادی شرط ہے کہ خاتون برسرروزگار ہو۔

    پالیسی میں شمولیت کا دورانیہ کم از کم 12 ماہ پرمشتمل ہو۔ پالیسی میں شمولیت سے لے کر زچگی تک کا دورانیہ 6 ماہ سے کم نہ ہو۔

    دبئی میں مردوں سے زیادہ خواتین کے ڈرائیونگ لائسنس

    رپورٹس کے مطابق بیمہ پریمیم یا الاؤنس کے لیے کسی قسم کی کاغذی یا ڈیجیٹل درخواست جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    سماجی بیمہ پالیسی کے مطابق زچہ کے کیس کی فائل براہ راست وزارت صحت سے بیمہ پالیسی کو ارسال کی جائے جس کی اطلاع کارکن خاتون اور آجر کو دی جائے۔

  • سعودیہ میں قید انسانی حقوق کی علمبردار تین خواتین عارضی طور پر رہا

    سعودیہ میں قید انسانی حقوق کی علمبردار تین خواتین عارضی طور پر رہا

    ریاض : سعودی حکام نے انسانی حقوق کی علمبردار اور حقوق نسواں کیلئے جدوجہد کرنے والی تین خواتین رضاکاروں کو عارضی طور پر رہا کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب نے انسانی حقوق کی علمبردار متعدد خواتین رضاکاروں کو ایک برس قبل سعودی حکومت کے خلاف اور خواتین کی آزادی کےلیے آواز اٹھانے پر گرفتار کیا تھا جن میں سے تین رضاکار خواتین کو عدالت نے عارضی طور پر رہا کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی حکام کی جانب سے اتوار تک مزید خواتین کی رہائی متوقع ہے، جنہیں غیر ملکیوں سے رابطوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

    برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی سعودی تنظیم اے ایل کیو ایس ٹی کا کہنا ہے کہ رہائی پانے والی خواتین میں ایمان الفجان، عزیزہ یوسف اور رقیہ المحارب شامل ہیں۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ترجمان لین مالوف نے خواتین رضاکاروں کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ رہائی مستقل ہونی چاہیے کیونکہ ان خواتین کو حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں قید کیا گیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ خواتین صرف پُر طریقوں سے حقوق نسواں کےلیے جدوجہد کررہی تھیں جس کی پاداش میں انہیں اپنے عزیزوں سے دور کرکے ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ترجمان نے سعودی حکام سے مطالبہ کیا کہ رہائی پانے والی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی دیگر خواتین پر عائد الزامات ختم کرکے انہیں بھی غیر مشروط رہائی دے۔

    خیال رہے کہ انسانی حقوق اور حقوق نسواں کےلیے کوششیں کرنے والی گیارہ خواتین کو گزشتہ برس جون میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی گئی تھی۔

    مزید پڑھیں : سعودیہ میں‌ قید خواتین رضاکار ایک مرتبہ پھر عدالت میں پیش

    یاد رہے کہ کچھ ماہ قبل برطانیہ کی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سعودی عرب سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے صوبے جدہ کی دھابن جیل میں قید انسانی حقوق کی عملبردار خواتین کو دوران تفتیش جنسی زیادتی، تشدد اور دیگر ہولناک زیادتیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں : سعودیہ میں قید خواتین رضاکاروں کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

    ایمنسٹی انٹرنینشل نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گرفتار خواتین رضاکاروں کو دوران تفتیش بجلی کے جھٹکے لگائے گئے اور اس قدر کوڑے مارے گئے ہیں کہ متاثرہ خواتین کھڑی ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں۔

    جاری رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تفتیش کاروں نے کم از کم 10 خواتین کو ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تفتیش کاروں نے جبراً ایک دوسرے کو بوسہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

  • سعودی عرب : ’رونالڈو کی مداح ہوں انہیں دیکھنے آئی تھی‘

    سعودی عرب : ’رونالڈو کی مداح ہوں انہیں دیکھنے آئی تھی‘

    ریاض: سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقد ہونے والے عالمی فٹبال میچ کو دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں خواتین اسٹیڈیم پہنچیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی حکومت کی جانب سے دو برس قبل خواتین کے اسٹیڈیم جاکر میچ دیکھنے پر پابندی ختم کی گئی تھی جس کے بعد انہوں نے پہلی بار 2017 میں اپنے محرم کے ساتھ مقامی ٹیموں کے مابین کھیلا جانے والا میچ گراؤنڈ میں جاکر دیکھا تھا۔

    سعودی گزیٹ کی رپورٹ کے مطابق جدہ کے کنگ عبداللہ اسٹیڈیم میں عالمی ٹیموں کے مابین فٹبال میچ کا انعقاد بدھ کے روز کیا گیا جس کو دیکھنے کے لیے 15 ہزار سے زائد خواتین گراؤنڈ پہنچیں اور انہوں نے انگلوژر میں بیٹھ کر میچ دیکھا۔

    سپر کراؤن کپ کے سلسلے میں اٹلی اور میلان کی ٹیموں کے مابین میچ کھیلا گیا جس میں بین الاقوامی شہرت یافتہ فٹبالرز نے حصہ لیا، سعودی عرب کی تاریخ میں عالمی مقابلے کا انعقاد  کیا گیا۔ میچ کا واحد گول نامور فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو نے 61 ویں منٹ میں کیا۔

    مزید پڑھیں: سعودی حکام نے سرکاری ٹی وی پر خاتون نیوز کاسٹر متعارف کروا دی

    سعودی میڈیا کے مطابق خواتین کی اسٹیڈیم آمد پر انتظامیہ کی جانب سے محرم یا پردے کی شرط عائد نہیں کی گئی تھی، ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے فٹبال میچ دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔

    جدہ میں منعقد ہونے والے سپر کپ فٹ بال کے فائنل میچ میں 62ہزار تماشائی اسٹیڈیم میں موجود تھے جن میں 15ہزار سے زائد خواتین بھی شامل تھیں۔

    خواتین شرکاء نے بین الاقوامی فٹبال میچ دیکھنے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اس روز کو اپنے لیے تاریخی قرار دیا۔ عرب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 20 سالہ ایدہ کا کہنا تھا کہ ’یہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ ہے کہ میں اپنی بہنوں کے ساتھ اسٹیڈیم میں بیٹھ کر میچ دیکھ رہی ہوں‘۔

    عقیلہ الحمادی نامی خاتون کا کہناتھا کہ وہ صرف رونالڈو کی بہت بڑی مداح ہیں اور انہیں ہی دیکھنے کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ اسٹیڈیم آئیں تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’کرسٹیانو کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، یہ میرا ایک خواب تھا جو حقیقت میں تبدیل ہوگیا‘۔

    یہ بھی پڑھیں: اٹھارہ سالہ تلیدہ تمر سعودی عرب کی پہلی سپر ماڈل

    یاد رہے کہ سعودی حکومت وژن 2025 کے تحت مسلسل روشن خیالی کی طرف گامزن ہے، اس ضمن میں خواتین کو نہ صرف خود مختار بنایا جارہا ہے بلکہ انہیں ملازمتوں کے مواقع بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔

    یہ بھی یاد رہے سعودی فرماں رواں شاہ سلمان بن عبد العزیز نے ایک سال قبل خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دی تھی جس کے بعد بڑی تعداد میں خواتین نے ڈرائیونگ لائسنس بھی بنوایا۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس 5 اکتوبر میں سعودی حکومت نے روشن خیالی میں ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہوئے سرکاری چینل پر میوزک کنسرٹ نشر کیا تھا جبکہ دسمبر 2018 میں پہلی بار سعودی عرب میں میوزیکل کنسرٹ کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔

  • گاڑی کے بعد سعودی خواتین کی موٹر سائیکل چلانے کی تیاریاں

    گاڑی کے بعد سعودی خواتین کی موٹر سائیکل چلانے کی تیاریاں

    ریاض: سعودی حکومت کی جانب سے گاڑی چلانے کی اجازت ملنے بعد اب خواتین موٹر سائیکل چلانے کی تیاریاں کرنے لگی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق گاڑی چلانے کے انسٹیٹیوٹ کھلنے کے بعد اب خواتین نے ریاض میں قائم ایک انسٹیٹیوٹ میں موٹر سائیکل چلانے کی تربیت حاصل کرنا شروع کردی ہے۔

    موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دینے والے انسٹیٹیوٹ میں کافی تعداد میں خواتین موجود ہیں جو 24 جون کو پابندی ختم ہونے کے بعد موٹر سائیکل چلانے کے لیے خاصی پرجوش دکھائی دیتی ہیں۔

    موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دینے والی ایک انسٹرکٹر کا کہنا تھا کہ انہوں نے فروری میں خواتین کو موٹرسائیکل چلانے کی تربیت دینا شروع کی تھی اور تب سے اب تک چار شوقین خواتین داخلہ لے چکی ہیں جن میں زیادہ سعودی خواتین ہیں۔

    موٹر سائیکل چلانے کی تربیت حاصل کرنے کے لیے 1500 ریال فیس مقرر کی گئی ہے، خاتون انسٹرکٹر کے مطابق زیادہ خواتین کے داخلہ نہ لینے کی وجہ شاید ان کے خاندان کی جانب سے رکاوٹ ہو۔

    سعودی حکومت کی جانب سے اب تک قوانین وضع نہیں ہیں کہ خواتین گاڑی کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل بھی سڑکوں پر دوڑا سکیں گی یا نہیں۔

    واضح رہے کہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے 26 ستمبر 2017 کوشاہی فرمان میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا حکم دیا تھا اور سعودی حکومت کی جانب سے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت کے فیصلے کو بہت سراہا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔