Tag: sawal ye hai

  • آنے والا بجٹ کیسا ہوگا؟ شبر زیدی نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    آنے والا بجٹ کیسا ہوگا؟ شبر زیدی نے خطرے کی گھنٹی بجادی

    آئی ایم ایف کی جانب سے وفاقی حکومت سے سرکاری ملازمین کی پنشن اور مراعات سے متعلق قوانین میں ترامیم اور دیگر مطالبات کے بعد آئندہ بجٹ کیسا ہوگا؟

    وفاقی حکومت متعدد معاشی چیلنجز کے درمیان مالی سال 2024-25کے لیے اپنے پہلے بجٹ کا اعلان اگلے ماہ جون میں کرنے جا رہی ہے۔

    سالانہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 سے 15 فیصد تک اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم حتمی فیصلہ حکومت وزارت خزانہ کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جائے گا۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگائے جائیں گے؟ اس حوالے سے سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اہم انکشافات کیے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شبر زیدی نے بتایا کہ اگر آئی ایم ایف نے ہم سے کہا کہ آپ بڑی مالیت کا ٹیکس اکٹھا کریں تو یہ یقیناً تباہی کا راستہ ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آج جو لوگ بھی پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہے ہیں ان کی یا چیئرمین ایف بی آر کی ہمت نہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے کسی فیگر کو ٹچ کرسکیں۔

    پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق شبر زیدی نے بتایا کہ خریداری میں جن 7پارٹیوں نے حصہ لیا ان میں کوئی بھی انٹرنیشنل پارٹی نہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ ان سات میں سے کوئی بھی خریداری میں سنجیدہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بجٹ آنے میں محض کچھ دن رہ گئے اور تعجب کی بات ہے کہ جو ایڈوائزری کونسل بنائی گئی اس میں وزیر خزانہ ہی موجود نہیں تو پھر گھوڑے کی لگام کس کے ہاتھ میں ہے۔

    بجٹ میں نئے ٹیکسز سے متعلق سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے پر تو اتنا ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا تاہم قوی امکان ہے کہ امپورٹ پر ٹیکس بڑھا دیا جائے گا جس کا براہ راست نقصان انڈسٹریز کو ہوگا۔

  • ’’وزیر اعظم ن لیگ کا تھا بھی تو حکومت اس کی نہیں تھی‘‘

    ’’وزیر اعظم ن لیگ کا تھا بھی تو حکومت اس کی نہیں تھی‘‘

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ن لیگ کی حکومت 2018 کے بعد آج تک نہیں آئی۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ

    اگر کسی وزیراعظم کا تعلق ن لیگ سے تھا بھی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اسی کی حکومت تھی، پی ڈی ایم حکومت میں 13جماعتیں شامل تھیں سب فیصلوں میں شریک رہتے تھے، اتحادی حکومت میں دیگر لوگ بھی اہم عہدوں پر فائز تھے۔

    سینیٹرعرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ انتخابات کے وقت سب اپنے منشور کے ساتھ میدان میں آتے ہیں، اتحادی حکومت ساتھ ہی قانون سازی کرتی رہی ہے، گزشتہ اقدامات سے لاتعلقی کرنا کوئی انوکھی بات نہیں، انتخابی ماحول میں سب ایسی باتیں کرتے ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آج جو ملکی معاشی حالات ہیں اس کے ذمہ دار وہ ہیں جو4سال حکومت میں رہے، عوام ان کا گریبان میں پکڑیں جنہوں نے4سال میں بجلی پیدا نہیں کی، 4سالہ دور میں گردشی قرضے بڑھے، ایک میگاواٹ بھی بجلی پیدا نہیں ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ ہم ڈیڑھ سال کے دوران فائر فائٹنگ کرتے رہے،جو گزشتہ 4سال میں کیا گیا ہم تو ان ہی مسائل سے لڑتے رہے، 16ماہ کارکردگی دکھانے کیلئے نہیں فائرفائٹنگ کے تھے،

    ن لیگ کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ لوگ بنگلادیش کی مثال دیتے ہیں تو وہاں حسینہ واجد15سال سے بیٹھی ہیں، ان کو 15سال سے کسی نے نہیں ہٹایا، اگر بھارت کی مثال دیتے ہیں تو مودی 8سال سے وہاں بیٹھا ہے۔

    انتخابات کے انعقاد پر ان کا مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن 90دن میں انتخابات کرا سکتا ہے ضرورکرائے، 90دن کا تقاضہ آئینی ہے جسے ہم بھی مانتے ہیں، آئین یہ بھی کہتا ہے کہ مردم شماری منظوری کے بعد حلقہ بندیاں ہوں اور حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن نہیں ہوسکتا حلقہ بندیاں بھی اسی آئین میں لکھی ہیں جہاں 90دن لکھا ہے۔

  • ’اسحاق ڈار کو پہلے ہی قوم کو سچ بتا دینا چاہیے تھا‘

    ’اسحاق ڈار کو پہلے ہی قوم کو سچ بتا دینا چاہیے تھا‘

    اسلام آباد : ماہر معیشت عذیر یونس نے کہا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے دن ہی قوم کے سامنے سچائی رکھ دیتے۔

    ان خیالات کا اظہار معروف ماہر معاشیات عذیر یونس نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

    انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کو شروع سے ہی قوم کو سچائی بتانے کی ضرورت تھی، اب نئی جو بھی حکومت آئے گی اس کو منی بجٹ دینا ضروری ہوگا۔

    عذیر یونس کا کہنا تھا کہ نئے آئی ایم ایف پروگرام کیلئے منی بجٹ دینا ہوگا اور کوئی راستہ نہیں، آئی ایم ایف پروگرام برقرار رکھا جاتا تو شاید اتنے نقصانات نہ ہوتے۔

    ماہرمعیشت نے بتایا کہ اس دلدل سے نکلنے کیلئے پاکستانی قوم کو مزید قیمت ادا کرنا ہوگی جو وقت ضائع کیا گیا اس نقصان سے نکلنے کیلئے بہت عرصہ درکار ہوگا۔

    آئی ایم ایف سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کئی مرتبہ غلط بیانی کی اب تک آئی ایم ایف سے بات طے نہیں ہوسکی، آئی ایم ایف کے آئندہ ایجنڈے پر پاکستان سے مذاکرات کا ذکر نہیں ہے۔

    عذیر یونس نے کہا کہ اکنامکس میں ہے کہ کمپنیوں کو زیادہ فائدہ دیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار دے سکیں، سپر ٹیکس جیسی چیزیں لگائیں گے تو کمپنی ایک حد سے زیادہ منافع نہیں کمائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ کمپنیز کو محدود کریں گے انہیں آگے نہیں بڑھنے دینگے تو روزگار بھی محدود ہی رہے گا، سپرٹیکس جیسے اقدامات سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جیو پالیٹکس ہر دور میں ہوتی ہے اور یہ عالمی مسئلہ ہے، ہر ملک اپنے مفاد کو دیکھتا ہے کاؤنٹر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

  • وفاقی حکومت میں ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے، سائرہ بانو

    وفاقی حکومت میں ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے، سائرہ بانو

    اسلام آباد : گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو نے حکومت کے خلاف بیان دیا ہے ضرور کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کے حکومت مخالف بیان کے بعد جو کھچڑی پکائی جارہی ہے اس کا پتہ ڈھکن کھلنے کے بعد ہی چلے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ میں ایوان میں مثبت بات کرنے کی کوشش کرتی ہوں، اسپیکر صاحب نے مجھے کہا کہ تقریر کرکے چلی جائیں،5ارکان بیٹھے ہوتے ہیں تو بلز پاس کردیے جاتے ہیں۔

    سائرہ بانو کا کہنا تھا کہ اس وقت افراتفری کا عالم ہے، پتہ نہیں چل رہا کون کہاں جارہا ہے،
    اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ آئندہ ٹکٹ ن لیگ سے لینے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آتا ایسی اپوزیشن کہاں ہوتی ہے؟

    جی ڈی اے رہنما نے بتایا کہ اس وقت تو سب کو ترقیاتی فنڈز کی فکر لگی ہوئی ہے، مجھے بھی ترقیاتی فنڈ کا کہا گیا لیکن میں نے انکار کردیا، پیپلزپارٹی کے لیے ماحول تو بنا ہوا ہے اصل مسئلہ اس وقت ن لیگ کو درپیش ہے۔

    استحکام پاکستان پارٹی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں سائرہ بانو نے کہا کہ ابھی یہ نہیں معلوم کہ آئی پی پی کس کے پلڑے میں بیٹھتی ہے، حالانکہ پاور سیکٹر کی آئی پی پی نے تو ملک کو نقصان ہی پہنچایا ہے اور گرشی قرضے بڑھ گئے ہیں۔

  • سب کو اقتدار کی فکر ہے، عوام کی نہیں، مصطفیٰ نواز کھوکھر

    سب کو اقتدار کی فکر ہے، عوام کی نہیں، مصطفیٰ نواز کھوکھر

    پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے سیاستدانوں کا نظریہ صرف اقتدار ہے عوام کی فکر کسی کو نہیں ہوتی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نظریات اور آئیڈیالوجی ہے ہی نہیں بس اقتدار کا حصول سب کی اولین ترجیح ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کچھ دوستوں نے بتایا تھا کہ مذاکرات میں بہت قریب تھے لیکن عمران خان نے اسے ویٹو کردیا، عمران خان کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ وہ کسی سیاسی فریق سے بات نہیں کرتے جبکہ شہید بےنظیر بھٹو کی خوبی یہ تھی کہ وہ سب سے بات کرتی تھیں۔

    مصطفیٰ نوازکھوکھر کا کہنا تھا کہ عمران خان میں بات کرنے کی لچک نہیں جس کی قیمت وہ ادا کررہے ہیں، ان کے پاس بہت اسپیس تھی لیکن9مئی کے واقعات نے سب کچھ بدل دیا۔

    سابق پی پی رہنما نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو3بحرانوں کا سامنا ہے، معاشی، آئینی اور سیاسی بحرانوں نے پاکستان کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے، ہمیں ان تینوں بحرانوں پر کھل کر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے لیکن نو مئی کے واقعات کے بعد ان بحرانوں پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔

    ملکی معیشت کے حوالے سے مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ چھوٹے صوبوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں، پاکستان میں سری لنکا سمیت پورے ایشیاء سے زیادہ مہنگائی ہے، آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید ہوگی جس سے ملک کو بہت نقصان ہوگا۔

    موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی پارٹی کو سیاسی موت مرنا چاہیے لیکن جو آج کل ہورہا ہے وہ کسی طور بھی درست نہیں،

    آئندہ الیکشن میں مجھے آزاد لوگ زیادہ نظر آئیں گے کیونکہ الیکشن میں عوام شخصیات کو ترجیح دینگے، قومی سیاست بحران کا شکار ہے، اور کسی کے پاس کوئی بیانیہ نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے طویل رفاقت کے بعد گزشتہ سال دسمبر کے وسط میں باضابطہ طور پر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا۔

    مصطفیٰ نوازکھوکھر 2018 میں پیپلزپارٹی کی نشست پر سندھ سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے 10 نومبر 2022 کو اپنے نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

  • پارٹی چھوڑ کر جانے والوں پر شدید دباؤ ہے، عمر ایوب

    پارٹی چھوڑ کر جانے والوں پر شدید دباؤ ہے، عمر ایوب

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمر ایوب خان نے کہا ہے کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں پر شدید دباؤ ہے، عمران خان نے بھی کہا ہے کہ ان پر تنقید نہ کریں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام اعتراض ہے میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکنان آج بھی پارٹی کے نظریے پر کھڑے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ جو لوگ پارٹی کو چھوڑ کر جارہے ہیں ان پر شدید دباؤ ہے، عمران خان نے بھی کہا ہے کہ پارٹی چھوڑنے والوں پر تنقید نہ کریں، مختلف رہنما مجبوری اور دباؤ کے تحت پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں الیکشن ضرور ہونے ہیں، تاہم الیکشن کب ہوں گے یہ دیکھنا ہوگا، بطور سیاسی کارکن ناامید نہیں ہوتا۔ اس وقت جو معاشی صورتحال ہے عوام انتخابات میں پی ڈی ایم رہنماؤں کو اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔

    صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق عمر ایوب نے کہا کہ اسمبلیاں اس لیے تحلیل کی تھیں تاکہ ملک میں انتخابات ہوں، اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا ہمارا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔

    پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم قومی اسمبلی میں واپس جانا چاہتے ہیں لیکن حکومت کی نیت خراب ہے، ہماری اسمبلی میں واپسی پر حکومت ضرور رکاوٹ بنے گی، حکومت نے عدالت کے پہلے کون سے فیصلے مانے ہیں جو یہ فیصلہ مانے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرکے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، عمران خان کا گرفتاری کا خدشہ ہمیشہ درست ثابت ہوا، ان کو پہلے بھی ڈھونگ رچا کر گرفتار کیا گیا تھا، وزیر داخلہ، سیکریٹری داخلہ اور چیئرمین نیب استعفیٰ دیں یا قوم سے معافی مانگیں۔

    تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے حوالے سے عمر ایوب نے کہا کہ قمر باجوہ نے سرعام تسلیم کیا کہ ان کے کہنے پر ہی عمران خان کی حکومت گرائی گئی، امریکا کے انڈر سیکریٹری نے سائفر دیا تھا، سلامتی کمیٹی میں بحث ہوئی تھی، امریکا کی جانب سے آنے والا سائفر حقیقت ہے، پی ڈی ایم نے سازش کرکے عمران خان کی حکومت گرائی۔

    نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے سے متعلق انہوں نے بتایا کہ نوازشریف جب زیرعلاج تھے ان کی رپورٹس تبدیل کی گئی تھیں، عمران خان نے ان رپورٹس اور انسانی حقوق کی بنیاد پر نوازشریف کو باہر جانے دیا۔

  • انتخابات کا التواء آئین کی تضحیک ہے، لطیف کھوسہ

    انتخابات کا التواء آئین کی تضحیک ہے، لطیف کھوسہ

    پیپلزپارٹی کے رہنما اور ممتاز قانون دان سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے  صوبہ پنجاب کے انتخابات کو ملتوی کرنے کے فیصلے کی سختی سے مخالفت کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے گفتگو کرتے ہوئے سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب کے الیکشن ملتوی کرکے آئین کی تضحیک کی ہے، میری نظر میں اس سے زیادہ آئین کی تضحیک نہیں ہوسکتی۔

    انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین سے ماورا کام کیا جو سیدھا آرٹیکل سکس کے زمرے میں آتا ہے، الیکشن کمیشن نے وہی کام کردیا جو پی ڈی ایم چاہتی تھی، سپریم کورٹ کا بڑا واضح فیصلہ ہے جس کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آئین کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے فیصلہ دیا تھا، معلوم نہیں الیکشن کمیشن نے کس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا۔

    پی پی رہنما نے کہا کہ نگراں حکومت90دن کی ہے اور90دن کے بعد کوئی نگراں حکومت نہیں ہوگی، حکومت پی ڈی ایم کی ہے اور پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کا حصہ نہیں ہے، اتحاد ہونا الگ بات ہے۔

    لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کا بنیادی فیصلہ الیکشن کمیشن کا کام ہے لیکن اس کو انتخابات ملتوی کرانے کا کوئی اختیار نہیں ہے، حکومت نے انتخابات ملتوی کرائے ہیں تو پی پی ساتھ نہیں دے سکتی، سی ای سی کا اجلاس ہوا تو مؤقف ہوگا کہ حکومت سے الگ ہوجانا چاہیے۔

  • کراچی میں عدم استحکام کا اثر پورے ملک پر ہوگا، فاروق ستار

    کراچی : تنظیم بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ایم کیوایم میں انتشار کو پُر نہ کیا گیا تو کراچی میں عدم استحکام ہوگا۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں عدم استحکام نہ ہوا تو اس کا اثر پورے ملک پر ہوگا۔

    فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیوایم کو جوڑنے کی کوشش میں نے دو سال پہلے شروع کی تھی،میں نے کسی کو آج تک غدار یا ملک دشمن نہیں کہا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے کامران ٹیسوری کی و جہ سے ہٹایا گیا تھا اب انہیں بھی واپس لے لیا گیا بلکہ ان کو تو آج گورنر کے عہدے سے بھی نوازا گیا ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آج وہی کامران ٹیسوری ایم کیوایم پاکستان کو جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں، ایم کیوایم میں انتشارکا نقصان سب نے دیکھ لیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کراچی کا آج کیا حشر ہوگیا ہے وہ سب نے دیکھ لیا ہے شہر کا بہت نقصان ہوا ہے، کامران ٹیسوری نے بھی آج اپنا وزن میری کوششوں میں ڈال دیا ہے، ہم سندھ کے شہری علاقوں کی آواز اٹھارہے ہیں سب کو جوڑ رہے ہیں۔

  • نواز شریف واپس نہیں آئیں گے انہوں نے پہلی بار تو فراڈ نہیں کیا، فواد چوہدری

    نواز شریف واپس نہیں آئیں گے انہوں نے پہلی بار تو فراڈ نہیں کیا، فواد چوہدری

    اسلام آباد : وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پہلے کہہ دیا تھا کہ نواز شریف واپس نہیں آئیں گے، شریف فیملی نے پہلی مرتبہ تو فراڈ نہیں کیا، فضل الرحمان حلوہ اور ن لیگ کھچڑی بناکر بیٹھی ہوئی ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف جب پاکستان میں تھے تو کہہ رہے تھے کہ مجھے باہر جانے دیں، ان سے متعلق میں نے جب ہی کہہ دیا تھا کہ یہ واپس نہیں آئیں گے۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ سیاسی اخلاقیات ہے نہیں کہتے ہیں کہ نوازشریف واپس نہیں آئیں گے، پاکستان میں شور کیاہوا تھا نوازشریف کی صحت تشویشناک ہے، باہر گئے تو نوازشریف چہل قدمی کررہے ہیں اور تصاویر بھیج رہے ہیں،یہ کیسا مذاق ہے کہ پاکستان کے قانونی نظام پر منہ چڑھایا جارہاہے، اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کیسا ٹیسٹ ہے جو جہاز میں قدم رکھتے ہی تبدیل ہوگیا، پاکستان میں ٹیسٹ رپورٹس تشویشناک آرہی تھیں وہاں ٹھیک ہیں، پنجاب کابینہ میں آواز اٹھنی چاہیے، ٹیسٹ رپورٹ تبدیل کیسے ہوگئیں، تحقیقات ہونگی تو پتہ چلے گا نوازشریف کی صحت کا اصل معاملہ کیا ہے۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ پنجاب حکومت کے ساتھ بنیادی طور پر فراڈ ہوا ہے، شریف فیملی نے پہلی مرتبہ تو فراڈ نہیں کیا یہ ہمیشہ کرتے رہتے ہیں، مسلم لیگ ن اپوزیشن میں بڑا کردارادا نہیں کرسکتی کیونکہ ان میں کلیئر ہی نہیں لیڈر شپ کس کے پاس ہے،
    لیڈر شپ کا پتہ چلے گا تو ن لیگ کی اپنی وقعت ہوگی اور فیصلہ ہوگا۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ فضل الرحمان حلوہ بنا کر بیٹھے ہیں اور ن لیگ کھچڑی بنا کر بیٹھی ہے، نواز شریف وطن واپس نہیں آئیں گے تو مسلم لیگ ن کا ہی نقصان ہوگا، ن لیگی کارکن بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت جاتے ہی باہر چلے جاتے ہیں، جب لیڈرشپ کا یہ حال ہے تو کارکن مایوس ہی ہوگا اور صدا بلند کرے گا۔

    انہوں نے کہا کہ قانونی طور پر نوازشریف مجرم ہیں اور عدالتی ضمانت پر باہر گئے ہیں، عدالت سے ایک درخواست جائے گی اور برطانوی حکومت اقدام اٹھائے گی۔

    ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ آئندہ کابینہ اجلاس میں ذکر کروں گا کراچی کیلئے فنڈز کیسےجائیں گے، کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرارہے ہیں، کسانوں کیلئے مختلف پروجیکٹ پرکام کررہے ہیں جلد منصوبے آئیں گے،.

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان معمول کی فصلیں فروخت کرکے اپنے خسارے پورے نہیں کرسکتا، ہمیں ایسی فصلوں کی طرف جانا ہوگا جس سے انکم بڑھے، ہمیں ایگری کلچر میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا۔

  • مولانا فضل الرحمان نے سولو فلائٹ کا ٹھیک فیصلہ کیا ہے،  قمر زمان کائرہ

    مولانا فضل الرحمان نے سولو فلائٹ کا ٹھیک فیصلہ کیا ہے، قمر زمان کائرہ

    لاہور : پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما قمرزمان کائرہ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے سولو فلائٹ کا فیصلہ کیا ہے، اے پی سی کی روشنی میں مولانا کا فیصلہ ٹھیک ہے، پیپلزپارٹی سندھ سے دوبارہ جلسوں کا آغاز کرے گی۔

    ان خیالات کا ظہار انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ حکومت کیخلاف احتجاج کا تمام اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا لیکن اپوزیشن نے مشترکہ اور متفقہ فیصلہ نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے سولو فلائٹ کا فیصلہ کیا ہے، اے پی سی کی روشنی میں مولانا کا فیصلہ ٹھیک ہے، پیپلزپارٹی خود بھی رواں ماہ سے مارچ کا سلسلہ شروع کر رہی ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں قمرزمان کائرہ نے کہا کہ جے یو آئی کے مارچ میں بھی شامل ہوسکتے ہیں، تاہم پیپلزپارٹی دھرنے کے خلاف ہے کیونکہ یہ ملک دھرنوں سے ڈسا ہوا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی مذہبی ایشوز کو سیاست کیلئے استعمال نہیں کرے گی، ہم مذہب کارڈ کے استعمال کے خلاف ہیں، پیپلزپارٹی رواں ماہ ہی سندھ سے مارچ کا آغاز کرے گی۔

    مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شرکت کا فیصلہ

    واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمن نے ماہ اکتوبر میں آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے، ن لیگ کے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کے اکتوبر میں اعلان کردہ آزادی مارچ میں شرکت کا فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ مارچ میں عملی شرکت کیلئے جے یو آئی ف سے مشاورت کریں گے، تاہم آزادی مارچ میں شرکت کا حتمی فیصلہ نوازشریف سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔