کراچی: ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک عنایت حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کے سونے کے ذخائر 3 ارب 80 کروڑ ڈالر ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے سونے کے ذخائر کے حوالے سے ڈپٹی گورنر ایس بی پی عنایت حسین کا کہنا ہے کہ یہ ذخائر غیر ملکی زر مبادلہ 9.3 ارب ڈالر کے علاوہ ہیں، ابھی وہ حالات نہیں کہ ہم سونے کے ذخائر کو کیش کرا لیں۔
انھوں نے کہا پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 9 ارب 30 کروڑ ڈالر کے ہیں، یہ ذخائر بہت اچھے نہیں، انھیں 3 ماہ کی درآمدت کے برابر ہونا چاہیے، مگر یہ اتنے برے بھی نہیں کہ ہم پریشان ہوں۔
ان کا کہنا تھا رواں سال ہمیں جتنے ڈالرز کی ضرورت ہے وہ ہم آسانی سے پورا کر لیں گے۔
ڈپٹی گورنر کے مطابق دسمبر سے تاحال روپے کی قدر میں 18 فی صد کمی ہوئی، جب کہ 12 فی صد کمی عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں اضافے سے ہوئی ہے، ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے بھی روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔
عنایت حسین نے کہا گیس اور آئل کی ایل سیز کنفرم نہ ہونے کی شکایت آئیں تھی مگراب وہ ختم ہو چکی ہیں، نیز آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدے کے بعد انٹرنیشنل بینکوں کی طرف سے کوئی شکایت نہیں آئی۔
کراچی: قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید نے پاکستان کو معاشی طور پر کم زور ملک ہونے کی سوچ رکھنے والوں کو مسترد کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک مرتضیٰ سید کہتے ہیں کہ آئندہ 12 مہینے عالمی معیشت کے لیے بہت مشکل ہوں گے، کرونا کی وجہ سے گلوبل کموڈیٹیز کے قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے، لیکن جن ممالک کے پاس آئی ایم ایف پروگرام ہے وہ معاشی بحران سے بچیں رہیں گے۔
انھوں نے کہا پاکستان ابھی اتنا کمزور ملک نہیں جتنا لوگ سمجھ رہے ہیں، پاکستان کے ڈیٹ ٹو جی ڈی پی تناسب 70 فی صد ہے، پاکستان کا غیر ملکی قرضہ جی ڈی پی کا 40 فی صد ہے۔
مرتضیٰ سید نے کہا کہ ہمارے اندرونی قرضے زیادہ ہیں جن کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے، پاکستان نے صرف 20 فی صد غیر ملکی قرضے کمرشل ٹرم پر لیے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے قرضوں کے اشاریے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہتر ہیں۔
کراچی: اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا عہدہ سنبھال لیا، سابق گورنر ڈاکٹر رضا باقر کی مدت 4 مئی کو ختم ہوگئی تھی۔
تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کا عہدہ سنبھال لیا، مرتضیٰ سید کو 27 جنوری 2020 کو 3 سال کے لیے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک مقرر کیا گیا تھا۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر سید میکروا کنامک ریسرچ اور پالیسی سازی میں 20 سال کا تجربہ رکھتے ہیں، انہوں نے 16 سال تک آئی ایم ایف کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق سابق گورنر ڈاکٹر رضا باقر کی مدت 4 مئی کو ختم ہوگئی تھی۔
خیال رہے کہ مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گورنر اسٹیٹ بینک کو تبدیل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے لیے رضا باقر کی خدمات پر شکریہ ادا کرتا ہوں، رضا باقر قابل آدمی ہیں۔
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے کوئی بڑی رقم نہیں نکلوائی گئی۔
تفصیلات کے مطابق روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے بڑی مقدار میں رقوم نکلوانے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بڑی مقدار میں رقوم نکلوانے کی خبر فیک قرار دے دی ہے۔
#SBP rebuts fake news on social media about large withdrawals from #RoshanDigitalAccount and slowdown in inflows. So far in April, inflows are very strong at around $86 mn & there are no abnormal outflows. Total inflows have now surpassed $4bn.
اسٹیٹ بینک کے مطابق روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے رقوم نکلوانے کی خبر درست نہیں ہے، اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ صرف اپریل میں پاکستان میں مزید 86 ملین ڈالرز کی ترسیلاتِ زر کی گئیں جب کہ رواں مالی سال کے دوران کل ترسیلاتِ زر 4 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ سے کوئی غیر معمولی اخراج نہیں ہوا، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کے ڈپازٹ 4 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔
ایس بی پی کا کہنا ہے کہ اپریل کے 11 دنوں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے مزید 8 کروڑ 60 لاکھ ڈالر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں جمع کرائے ہیں جس سے آر ڈی اے کھاتوں میں جمع کرایا گیا زر مبادلہ چار ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی ٹوئٹ میں سوشل میڈیا پر روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے رقوم نکلوائے جانے کی خبروں کو جعلی قرار دیا ہے اور کہا آر ڈی اے کھاتوں سے غیر معمولی رقوم نکلوانے کے شواہد نہیں ملے۔
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے وقت سے پہلے ہی نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک نے وقت سے پہلے نئی مانیٹری پالیسی جاری کرتے ہوئے شرح سود میں 250 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا ہے۔
ایس بی پی کا کہنا ہے کہ پالیسی ریٹ 250 بیسس پوائنٹس بڑھنے سے 12.25 فی صد ہو گیا، شرح سود میں یہ اضافہ مانیٹری پالیسی کے ہنگامی اجلاس میں کیاگیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ زری پالیسی کمیٹی کے پچھلے اجلاس کے بعد سے مہنگائی کا منظرنامہ مزید بگڑ گیا ہے اور بیرونی استحکام کو درپیش خطرات بڑھ گئے ہیں، امکان ہے کہ اجناس کی عالمی قیمتیں بشمول تیل طویل تر عرصے تک بلند رہیں گی۔
پالیسی میں کہا گیا ہے کہ امکان ہے کہ فیڈرل ریزرو اس سے بھی زیادہ تیزی سے شرح سود میں اضافہ کرے جتنا پہلے سمجھا گیا تھا، مارچ میں مہنگائی کے اعداد و شمار میں غیر متوقع طور پر اضافہ دیکھا گیا۔
مضبوط برآمدات اور ترسیلات زر سمیت بروقت طلب کو معتدل کرنے والے اقدامات کے باعث فروری میں جاری کھاتے کا خسارہ سکڑ کر زیرو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر رہ گیا جو اس مالی سال کی پست ترین سطح ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق اوسط مہنگائی مالی سال 2022 میں 11 فی صد سے تھوڑی اوپر ہو گی اور مالی سال 2023 میں معتدل ہو جائے گی، رواں مالی میں جاری کھاتے کا خسارہ جی ڈی پی کے لگ بھگ 4 فی صد رہنے کا امکان ہے۔
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے فرد سے فرد مفت رقم منتقلی کے اسٹیٹ بینک کے فوری نظامِ ادائیگی ’راست‘کا افتتاح کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے ملک کے فوری پیمنٹ سسٹم ’راست‘ کے دوسرے مرحلے کا بھی آغاز ہو گیا، اس میں فرد سے فرد کو فوری ادائیگی کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
’راست‘ بینک دولت پاکستان کا ایک نمایاں اقدام ہے جو مختلف اسٹیک ہولڈرز مثلاً اداروں، کاروباری اداروں اور افراد کے درمیان کئی اقسام کے لین دین کو ممکن بنانے والے نظامِ ادائیگی کا ایک پلیٹ فارم ہے، جس کا مقصد ملک میں ڈیجیٹائزیشن اور مالی شمولیت کو فروغ دینا ہے۔
جنوری 2021 میں شروع کیے گئے’راست‘ کے پہلے مرحلے میں اداروں سے افراد کو کی جانے والی ادائیگی ممکن بنائی گئی تھی، جسے بڑے پیمانے کی ادائیگی (Bulk Payments) کہا جاتا ہے، جب کہ دوسرا مرحلہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ’راست‘ کے تحت فرد سے فرد کو (پرسن ٹو پرسن) رقم کے لین دین میں سہولت دی جائے گی۔
وزیر اعظم نے دوسرے مرحلے کی کامیاب تکمیل پر گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر اور ان کی ٹیم کو مبارک باد دی، اور کہا معیشت کی ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے 220 ملین سے زائد آبادی کی مالی شمولیت کو یقینی بنا کر اسے ایک اثاثے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
وزیر خزانہ و محصولات شوکت ترین نے کہا کہ’راست‘ کے اگلے مراحل، دکان داروں کو ادائیگی سمیت عوام کو ان کے مالی لین دین میں سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
خصوصیات
اسٹیٹ بینک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر نے کہا لوگ لین دین میں اس پلیٹ فارم کو نقد رقم کی طرح استعمال کر سکتے ہیں اور ادائیگی کے اس نظام کے استعمال پر کوئی فیس یا چارجز ادا نہیں کرنے پڑیں گے، ’راست‘ محفوظ اور آسان ہے اور رقم کے مقابلے میں خطرات سے بھی پاک ہے، کیوں کہ یہ بینک اکاؤنٹ کو صارف کے موبائل فون نمبر سے منسلک کرتا ہے، جسے ’راست‘ شناخت (آئی ڈی) کہا جاتا ہے۔
یہ سہولت بینکوں کی موبائل ایپ اور انٹرنیٹ بینکاری پورٹل پر استعمال کی جا سکے گی، جن لوگوں کے پاس موبائل فون یا انٹرنیٹ بینکاری کی سہولت نہیں ہے ان کے لیے بھی بینک برانچوں میں فرد سے فرد کو (پی ٹو پی) خدمات دستیاب ہیں۔
’راست‘ سے فائدہ اٹھانے کے لیے صارفین کو اسٹیٹ بینک کا ’راست‘ لینڈنگ پیج چیک کرنا چاہیے، کہ آیا اُن کا بینک پہلے ہی ’راست‘ پیش کر رہا ہے، اور انھیں خدمات حاصل کرنے کے لیے اپنے بینک کی موبائل ایپ میں انٹرنیٹ بینکاری کے ذریعے یا بینک کی برانچ جا کر ایک بار رجسٹریشن کرانی ہوگی۔
فی الحال 18 سے زائد بینک اکثر ریٹیل ادائیگی کے لین دین پر کارروائی کرتے ہوئے ’راست‘ خدمات پیش کر رہے ہیں، آنے والے ہفتوں میں باقی بینکوں کے بھی ’راست‘ پر آنے کی امید ہے۔
’راست‘ کے آغاز سے پاکستان اب اُن گنے چُنے ملکوں میں شامل ہوگیا ہے جو جدید ترین فوری ادائیگی کے نظام کے مالک ہیں۔
واضح رہے کہ مالی سال 2021 کے دوران ریٹیل ای بینکنگ کے ذریعے 500 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی 1.2 ارب ٹرانزیکشنز پراسیس کی گئیں، اس طرح حجم کے لحاظ سے 30.6 فی صد کی سال بسال نمو ظاہر ہوتی ہے، جب کہ مالیت کے لحاظ سے 31.1 فی صد نمو کا اظہار ہوتا ہے۔
کراچی:اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا، شرح سود میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق اسٹیٹ بینک نے شرح سود 75۔9 فی صد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ شرح سود اس وقت جہاں ہے وہ مناسب سطح پر ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس سال کی جی ڈی پی گروتھ 5۔4 فی صد رہنے کی توقع ہے، فنانس سپلیمنٹری بل پاس کیا ہے، شرح سود جس جگہ ہے وہ ہماری معیشت کے لیے بہتر ہے۔
رضا باقر نے کہا مانیٹری پالیسی ڈیمانڈ کو کنٹرول کرنے کا ٹول ہے، ہم نے کسی بینک کو کوئی ہدایات نہیں دیں، مہنگائی کم ہونا مالیاتی استحکام ہوتا ہے، مہنگائی کی بڑی وجہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بہت زیادہ ہیں، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایڈمنسٹریٹو اقدامات بہت ضروری ہیں۔
انھوں نے کہا مانئٹری پالیسی پیش کرنے کے حوالے سے واضح ڈسکشن ہوتی ہے، شرح سود میں اضافہ کیا گیا، اور کیش ریزرو کو بڑھایا گیا، ان تمام اقدامات کا مقصد مہنگائی کو کنٹرول کرنا تھا، لیکن کرونا جب آیا تو شرح سود میں کمی کی گئی، مانیٹری پالیسی ہمیشہ بہت زیادہ ٹائٹ نہیں ہوتی۔
گورنر ایس بی پی کے مطابق رواں مالی سال کے دوران شرح سود میں 75۔2 فی صد اضافہ ہوا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ توقعات سے 13 سے 14 ارب ڈالر ہے، مہنگائی میں کمی آئے گی اور معاشی نمو پائیدار رہے گی، جی ڈی پی نمو 4 سے 5 فی صد رہے گی۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ مہنگائی کی شرح اس وقت زیادہ ہے لیکن اگلے برس مہنگائی کی شرح میں کمی آئے گی، تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا تھا لیکن اب مزید نہیں بڑھا اور یہ 1.9 بلین ڈالر پر موجود ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ اگلے ماہ فروری میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا مگر آہستہ آہستہ استحکام آ جائے گا، تاہم اگلے سال تک مہنگائی میں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔
کراچی : اسٹیٹ بینک آج بینکوں کے لئے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرے گا، جس میں شرح سود موجودہ سطح پر برقرار رہنے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے آج بینکوں کے لیے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا ، جس میں توقع کی جا رہی ہے کہ اسٹیٹ بینک موجودہ شرح سود کو برقرار رکھے گا۔
اسٹیٹ بینک کا بینکوں کیلئے موجودہ شرح سود 9.75 فیصد ہے ، تایم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار بھی اسٹیٹ بینک پچیس سے پچاس بیسسز پوانٹس تک کا اضافہ کر سکتاہے۔
خیال رہے سال 2022 کے پہلے ہاف میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 275 بیسسز پوانٹس کا اضافہ کر چکا ہے، اس وقت موجودہ شرح سود9.7 پانچ ہے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ شرح سود بڑھانے کا فیصلہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال 19 نومبر کو اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود ڈیڑھ فی صد اضافے سے 8 اعشاریہ سات پانچ فی صد کی تھی۔
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈیجیٹل بینکاری کے لیے لائسنس کا اجرا کرنے جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈیجیٹل ریٹیل بینک اور ڈیجیٹل فُل بینک (ڈی ایف بی) کے لائسنس جاری کیے جائیں گے۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ڈی ایف بی ریٹیل صارفین ، کاروباری اور کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ کام کر سکتا ہے، ڈی ایف بی نیا اکاؤنٹ، ڈپازٹ، قرض سمیت بینکاری خدمات فراہم کرے گا۔
ایس بی پی کے مطابق ڈی آر بی اور ڈی ایف بی کے تحت اسلامی بینکاری کی خدمات بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔
ڈی آر بی کے قیام کی کم از کم سرمائے کی شرط 1.5 ارب روپے رکھی گئی ہے، یہ سرمایہ تین سالوں میں 4 ارب روپے کرنا ہوگا، ڈیجیٹل بینک کو 2 سالوں کے بعد ڈیجیٹل فُل بینک بنانے کی اجازت ہوگی۔
ابتدا میں 5 ڈیجیٹل بینکوں کو لائسنس جاری ہوں گے، لائسنسنگ کے لیے درخواستیں رواں سال مارچ تک جمع کرائی جا سکیں گی۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ نئے لائسنس کے ذریعے ڈیجیٹل بینکاری کے دور کا آغاز کر رہے ہیں، یہ مکمل ڈیجیٹل بینک متعارف کرانے کی جانب پہلا قدم ہے۔
بینک کے مطابق صارفین کو بذات خود کسی برانچ جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے دیگر اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں، سستی، کم لاگت ڈیجیٹل مالی خدمات بڑھانا ایس بی پی کے فریم ورک کا بنیادی مقصد ہے۔
کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں ایک فیصد کا اضافہ کر دیا، جس کے بعد شرح سود 8.75 فی صد سے بڑھ کر 9.75 فی صد ہو گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق شرح سود بڑھانے کا فیصلہ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کیا گیا ہے، اگلی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس 24 جنوری کو ہوگا، یاد رہے کہ 19 نومبر کو اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود ڈیڑھ فی صد اضافے سے 8 اعشاریہ سات پانچ فی صد کی تھی۔
زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے اپنے آج کے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 100 بیسس پوائنٹس بڑھا کر 9.75 فی صد کرنے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کا مقصد مہنگائی کے دباؤ سے نمٹنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ نمو پائیدار رہے۔
زری پالیسی رپورٹ کے مطابق 19 نومبر 2021 کو پچھلے اجلاس کے بعد سے سرگرمی کے اظہاریے مستحکم رہے ہیں، جب کہ مہنگائی اور تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا ہے، جس کا سبب بلند عالمی قیمتیں اور ملکی معاشی نمو ہے۔
نومبر میں عمومی مہنگائی بڑھ کر 11.5 فیصد (سال بسال) ہوگئی، شہری اور دیہی علاقوں میں بنیادی مہنگائی بھی بڑھ کر بالترتیب 7.6 فیصد اور 8.2 فیصد ہوگئی، جس سے ملکی طلب کی نمو کی عکاسی ہوتی ہے۔
بیرونی شعبے میں ریکارڈ برآمدات کے باوجود اجناس کی بلند عالمی قیمتوں نے درآمدی بل میں خاصا اضافہ کرنے میں کردار ادا کیا، نتیجے کے طور پر پی بی ایس اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 5 ارب ڈالر ہوگیا۔