Tag: SC

  • سپریم کورٹ کا بڑا قدم، اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم، شہری شکایات کیسے درج کریں؟

    سپریم کورٹ کا بڑا قدم، اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم، شہری شکایات کیسے درج کریں؟

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کر دی ہے، جس کا مقصد عدالتی احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔

    سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ نے اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کی ہے، جس پر کوئی بھی شہری شکایت درج کرا سکتا ہے، شکایت کنندہ کی شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھی جائے گی۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ درج ہونے والی شکایات کی نگرانی غیر جانب دار افسران کریں گے، اور تمام شکایات براہ راست چیف جسٹس کو پیش کی جائیں گی، اس سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے عدالتی پالیسی پر ایک اہم بیان بھی جاری کیا ہے۔


    چیف جسٹس نے عوام سے کہا میں رشوت اور سفارش کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں، کوئی بھی شخص مقدمہ مقرر کرانے کے لیے رشوت طلب کرے تو آگاہ کریں، رشوت کی شکایت پر فوری عمل اور شکایت کرنے والے کا نام صیغہ راز رکھا جائے گا، رشوت کی شکایت واٹس ایپ 444244-0326 پر کی جا سکتی ہے۔


    چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہمیں عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، اور فیصلے صرف قانون کے مطابق ہوں گے، زیر التوا مقدمات جلد نمٹانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا عوام کو فوری اور شفاف انصاف فراہم کرنا ہماری ترجیح ہے، بدعنوانی، اقربا پروری اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف فوری کارروائی ہوگی۔


    سپریم کورٹ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں میں شفافیت اور غیر جانب داری کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا، اور ہر شکایت کو مکمل طور پر ٹریک کیا جائے گا، سادہ مقدمات 30 دن اور پیچیدہ مقدمات 60 دن میں حل ہوں گے، جب کہ شکایت کنندگان کو اپنے کیس کی پیش رفت سے مسلسل آگاہ رکھا جائے گا۔


    اعلامیہ کے مطابق اینٹی کرپشن ہاٹ لائن سے عدالتی ادارے میں اصلاحات ممکن ہوں گی، یہ اقدام عدلیہ پر عوامی اعتماد کو مزید مضبوط کرے گا، عدلیہ میں غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے عوام تعاون کریں۔


    ہاٹ لائن پر فون، آن لائن پورٹل، ای میل، ٹیکسٹ میسج سے شکایات درج ہو سکتی ہیں، شکایات درج کرنے کے لیے اردو اور انگریزی میں سہولت دستیاب ہے، یہ ہاٹ لائن 24 گھنٹے کام کرے گی اور کسی بھی وقت شکایت درج کرائی جا سکے گی۔


    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس بد عنوانی سے پاک ماحول اور احتساب اور انصاف کے اصولوں کی پاس داری کے لیے پر عزم ہیں، سپریم کورٹ میں 7633 فوجداری اور 11792 سول مقدمات زیر التوا ہیں، چیف جسٹس نے کہا مقدمات کی جلد سماعت کے لیے مؤثر نظام لا رہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا ماتحت عدلیہ کو بھی تیزی سے مقدمات نمٹانے کی ہدایت کی ہے، سول مقدمات کا 30 دن اور فوجداری کیسز کا فیصلہ 60 دن میں ہونا چاہیے، انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے، وکلا اور سائلین بھی مقدمات میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں، تاہم عدالتی اصلاحات کے بغیر تیز انصاف ممکن نہیں ہے۔

  • سپریم کورٹ نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ نے ریکوڈک صدارتی ریفرنس کا فیصلہ سنا دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نئے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دے دیا، عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ریکوڈک معاہدہ سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کے خلاف نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ریکوڈک صدارتی ریفرنس میں 5 رکنی بنچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، فیصلے میں نئے ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دے دیا گیا۔

    اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کیس میں بین الاقوامی ماہرین نے عدالت کی معاونت کی، معدنی وسائل کی ترقی کے لیے سندھ اور خیبر پختونخواہ کی حکومت قانون بنا چکی ہے۔ صوبے معدنیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی کر سکتے ہیں، ریکوڈک معاہدہ سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کے خلاف نہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ماہرین کی رائے لے کر ہی وفاقی و صوبائی حکومت نے معاہدہ کیا، بلوچستان اسمبلی کو معاہدے پر اعتماد میں لیا گیا تھا، منتخب عوامی نمائندوں نے معاہدے پر کوئی اعتراض نہیں کیا، نئے ریکوڈک معاہدے میں کوئی غیر قانونی بات نہیں۔

    فیصلے کے مطابق ریکوڈک معاہدہ ماحولیاتی حوالے سے بھی درست ہے، کمپنی نے یقین دلایا کہ مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے گا، ریکوڈک منصوبے سے سماجی منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائے گی۔ وکیل نے یقین دہانی کروائی کہ اسکل ڈویلپمنٹ کے لیے منصوبے شروع کیے جائیں گے، بیرک کمپنی نے یقین دلایا ہے کہ تنخواہوں کے قانون پر مکمل عمل ہوگا۔

    اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ معاہدے میں کوئی غیر قانونی شق نہیں، فارن انویسٹمنٹ بل صرف بیرک گولڈ کے لیے نہیں ہے، بل ہر اس کمپنی کے لیے ہے جو 500 ملین ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کرے گی۔

  • معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر ہے، چیف جسٹس کے  ریمارکس

    معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عطا بندیال نے نیب قوانین میں ترمیم کےخلاف عمران خان کی درخواست پر ریمارکس دیئے کہ معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر ہے، عدالت نے مفادعامہ کو بھی دیکھنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی ، وفاقی حکومت نے سینئر وکیل مخدوم علی خان کی خدمات حاصل کر لیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا نیب میں مزید کوئی ترامیم بھی ہوئی ہیں؟ جس پر وکیل عمران خان نے بتایا کہ کل نیب قانون میں مزید ترامیم کی گئی ہیں، نیب اہم فریق ہے اس کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نئی ترامیم کا مسودہ کل عدالت میں جمع کرا دیا ہے، نیب قانون میں کل ہونے والی ترامیم بھی چیلنج کریں گے ، جس پر جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ نئی ترامیم چیلنج کرنے کیلئے درخواست میں ترامیم کرنا ہوگی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نئی ترامیم قانون بن جائیں تو ہی چیلنج کریں گے، کیس کی بنیاد وہی رہے گی اپنے دلائل کا آغاز کر دوں گا۔

    چیف جسٹس نے استفسر کیا کہ کیا وفاقی حکومت تحریری جواب جمع کرائے گی؟ جس پر وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے بتایا کہ عدالت حکم دے تو جواب ضرور جمع کرائیں گے، نئی ترامیم ابھی تک قانون کا حصہ نہیں بنیں، نئی ترامیم جب تک قانون نہ بنے کوئی مؤقف نہیں دے سکتا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا نیب کے نمائندےکدھر ہیں، جس پر وکیل نیب نے بتایا کہ نیب کیس میں اٹارنی جنرل کے دلائل کو فالو کرے گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا نیب کا پراسیکیوٹر جنرل ہے وہ دلائل دیں تو مناسب نہ ہوگا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ٹھیک ہے نیب ترامیم پر اپنا تحریری جواب دے دیں، نیب قانون میں بہت ساری ترامیم کی گئی ہیں، نیب قانون میں کی گئی ترامیم اچھی بھی ہے، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ موجودہ ترامیم آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ انتخابات بھی احتساب کی ایک شکل ہے، الیکشن میں ووٹر اپنے نمائندوں کا احتساب کرتے ہیں تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عدالت بنیادی ڈھانچہ سے متصادم ہونے پر کالعدم ہوسکتی ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ آزاد عدلیہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں شامل ہے، نیب ترامیم سے عدلیہ کا کون سا اختیار کم کیا گیا۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ گڈ گورننس کے لئے احتساب ضروری ہے، احتساب کے بغیر گڈ گورننس کا تصور نہیں ہوسکتا، جس پرجسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہاں مقدمہ قانون میں متعارف ترامیم کاہے، سوال یہ اٹھا گیا ترامیم اپ ٹو دی مارک نہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کس نے چیلنج کیں؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ہائی کورٹ میں نیب ترامیم اسلام آباد بار نے چیلنج کی ہیں۔

    وکیل وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ معزز ججز کو معلوم ہے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں کیا ہوتا ہے، سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے تیسرے چیمبر میں تبدیل کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔

    وکیل مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ کیایہ سمجھیں 1999 سے پہلےملک کرپشن میں ڈوباہوا تھا اور ترقی نہیں ہو رہی تھی، آج سرمایہ کار سرمایہ کاری نہیں کر رہے، معیشیت مشکل میں ہے، صدر نے نیب ترامیم کی منظوری کے بجائے تجویز کا خط وزیراعظم کو لکھا، صدر کا وزیراعظم کو خفیہ خط بھی عمران خان کی درخواست کاحصہ ہے۔

    وکیل نے سوال کیا عمران خان سے پوچھاجائے پہلے ترامیم کے حق میں کیوں اوراب مخالفت کیوں ؟ عمران خان کی یہ سیاسی حکمت عملی ہےتوعدالت کے بجائے کسی اور فورم کا استعمال کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ کس نے نیب ترامیم کیں ،صرف بنیادی حقوق کی خلاف ورزی دیکھیں گے ، یہ بھی بتائیں کہ نیب نے ملکی معیشت میں کیا حصہ ڈالا؟

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہماری معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر ہے، عدالت نے مفاد عامہ کو بھی دیکھنا ہے۔

    سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر نیب سے جواب طلب کر لیا، آئندہ سماعت اگست کے تیسرے ہفتے میں ہوگی۔

  • پنجاب کی وزارت اعلیٰ: آج بڑے سیاسی رہنما سپریم کورٹ میں موجود ہوں گے

    پنجاب کی وزارت اعلیٰ: آج بڑے سیاسی رہنما سپریم کورٹ میں موجود ہوں گے

    اسلام آباد: پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے متعلق اہم کیس کی سماعت کے سلسلے میں آج بڑے سیاسی رہنما سپریم کورٹ میں موجود ہوں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آج سپریم کورٹ میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے متعلق قانونی دنگل سجے گا، کیس کی سماعت آج دوپہر ایک بجے ہوگی۔

    مختلف سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں نے عدالت میں حاضری کا فیصلہ کیا ہے، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، عمر ایوب، بابر اعوان، پرویز خٹک اور عامر کیانی سپریم کورٹ آئیں گے۔

    ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی، خرم دستگیر، رانا ثنا اللہ کی بھی سپریم کورٹ آمد کا امکان ہے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، احسن اقبال، سعد رفیق اور امیر مقام، ایاز صادق، عطا تارڑ، اور ملک احمد خان بھی عدالت آئیں گے۔

    پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جے یو آئی رہنما فضل الرحمان، مولانا اسعد، ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی، عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی بھی عدالت آئیں گے۔

    بی این پی کے اختر مینگل، اسلم بھوتانی کی بھی سپریم کورٹ آمد کا امکان ہے، جب کہ ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین، سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ بھی عدالت آئیں گے۔

    چوہدری شجاعت کی سپریم کورٹ آمد کے سلسلے میں سیکیورٹی کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے، وہ عدالت میں اپنے خط کی تصدیق کریں گے، اس موقع پر سپریم کورٹ کے اندر اور باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے جائیں گے۔

    جے یو آئی، چوہدری شجاعت، پی پی پی، اور ایم کیو ایم نے بھی اکھاڑے میں اترنے کا اعلان کیا ہے، تمام جماعتوں کی جانب سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی جائے گی۔ فیصلہ یہ ہونا ہے کہ پالیسی پارلیمانی پارٹی کی چلے گی یا پارٹی کے سربراہ کی، یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کے طور پر کام کرنے اجازت دی تھی۔

  • پی ٹی آئی دھرنا، آئی جی اسلام آباد نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی

    پی ٹی آئی دھرنا، آئی جی اسلام آباد نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی

    اسلام آباد: آئی جی اسلام آباد نے پی ٹی آئی دھرنےکی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی اسلام آباد نے پی ٹی آئی کے مارچ سے متعلق سپریم کورٹ میں مفصل رپورٹ جمع کرائی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ پی ٹی آئی نے تئیس مئی کو مقامی انتظامیہ کو سری نگر ہائی وے پر احتجاج کرنے کی درخواست دی، اسلام آباد انتظامیہ نے سپریم کورٹ کےفیصلےپر من و عمل کیا اور تحفظ کےلیے ریڈ زون جانےوالےراستےبند کردیئےگئے۔

    سپریم کورٹ کےحکم کے بعد پولیس،رینجرز ،ایف سی کو ایکشن سےروکاگیا جس کے بعد مظاہرین نے ڈی چوک کی جانب جانا شروع کردیا، مظاہرین کو قیادت کیجانب سےرکاوٹیں ہٹانے اور مزاحمت کی ترغیب دی گئی، مظاہرین مسلح تھے جنہوں نے پولیس اوررینجرز پر پتھراؤ بھی کیا۔

    آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈی چوک پہنچنے کے لیے فواد ، سیف نیازی اور زرتاج گل نے کارکنان کو اکسایا اسی دوران عمران اسماعیل، سیف اللہ نیازی دیگر کی قیادت میں دو ہزار مظاہرین رکاوٹیں ہٹا کر ریڈ زون میں داخل ہوئے کارکنوں کو پیغام دیا گیا کہ کپتان ڈی چوک آچکے، ان کا بھرپور استقبال کیا جائے۔Imageآئی جی اسلام آباد کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مظاہرین قیادت کی ہدایت کے تحت منظم انداز میں ریڈ زون داخل ہوئے، مظاہرین کیجانب سےکنٹینرز ہٹانےکیلئے مشینری کا استعمال بھی کیا گیا جبکہ مظاہرین کی جانب سے درختوں کو جلایا گیا، مظاہرین کو ہٹانے کےلیے پولیس نےآنسو گیس کا استعمال کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: عدالت نے پولیس کو فواد چوہدری، قاسم سوری، حلیم عادل کی گرفتاری سے روک دیا

    سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ انتظامیہ کیجانب سے اعلانات کیے گئےکہ مظاہرین ریڈ زون سے دور رہیں تاہم وہ باز نہ آئے جس پر ریڈ زون میں داخلےکی کوششوں کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے گئے، پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال سے ہر حد تک گریز کیا گیا تاہم مظاہرین کیجانب سے پتھراؤ کے باعث تئیس سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔

    رپورٹ میں بتایا گیا کہ 200 سے300 مظاہرین کنٹینرز ہٹاکر ریڈ زون میں داخل ہوئے جبکہ جی نائین اور ایچ نائین کےدرمیان جلسہ گاہ پہنچنےکےلیے کوئی رکاوٹ نہ تھی، مظاہرین ڈی چوک جانے والی رکاوٹوں کو عبور کر کے ریڈ زون داخل ہوئے، مظاہرین میں سے کوئی بھی مختص کردہ جلسہ گاہ نہ پہنچا، پولیس نے ستتر لوگوں کو 19 مختلف مقدمات میں گرفتار کیاگیا،خدشات بڑھنےپر آرٹیکل 245کے تحت فوج کو طلب کیا گیا۔

  • "حکومت  نیک، ایماندار اور قابل شخص کو چیئرمین نیب لگائے”

    "حکومت نیک، ایماندار اور قابل شخص کو چیئرمین نیب لگائے”

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ای سی ایل ترامیم کو قانونی دائرہ میں لانے کیلئے حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ہائی پروفائل مقدمات میں حکومتی مداخلت پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

    دورانِ سماعت چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی پروفائل کیسز میں تفتیشی افسران تبدیل نہ کرنے کا عدالت کا حکم بر قرار ہے، چیئرمین نیب کے تقرر کے لیے نظام سے باہر کسی کی رائے سے متاثر نہ ہوں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیب کی تقرری سے متعلق احتیاط سے سوچ سمجھ کر اقدام کریں، نیب کسی پر بے بنیاد مقدمہ بنانے سے متعلق دباؤ قبول نہ کرے، اگرنیب پر دباؤ ڈالا جائے تو ہمیں چِٹھی لکھیں، اٹارنی جنرل کو مشورہ دیا کہ چیئرمین نیب قابل اور دیانتدار شخص کو ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ ایسے پرانے مقدمات جن میں سزا نہیں ہوسکتی نیب خود جائزہ لے کر فیصلہ کرے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس کیس کو چاہیں اٹھا کر پھینک دیں، ایک منشیات کا کیس تھا جس کی ہیڈ لائن لگی تھی، تفتیشی افسر سے پوچھا تو اس نے کہا یہ بوگس کیس تھا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈی جی ایف آئی اے اور پراسیکیوٹر نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات کی نقول سربمہر کر کے ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ اس لیے ہے کہ اگر اداروں سے ریکارڈ غائب ہو تو سپریم کورٹ سے مل جائے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو تشویش آزادانہ تفتیش اور ٹرائل کے حوالے سے ہے، نظام انصاف کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، یہ کہنا درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 128 ویں نمبر پر ہے، پاکستان کی رینکنگ ڈیٹا نہیں بلکہ تاثر کی بنیاد پر کی گئی۔

    بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس کی مزید سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔

  • ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب

    ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تحقیقاتی اداروں میں مبینہ مداخلت اور ایگزٹ کنٹرو لسٹ سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب کر لیں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق تحقیقاتی اداروں میں حکومت کی مبینہ مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ رولز کے مطابق کرپشن، دہشتگردی، ٹیکس نادہندہ اور لون ڈیفالٹر ملک سے باہر نہیں جا سکتے لیکن کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟ کیا وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟

    یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ریٹائرڈ جج کے بجائے ریٹائرڈ بیورو کریٹ کو چیئرمین نیب لگانے کا فیصلہ

    اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس پیش کردوں گا،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کہ کیا ایک سو بیس دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟ ، جس پر اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بتایا کہ ایک سو بیس دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہوگا۔

    جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے ،کابینہ ارکان اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کر سکتے؟

    اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کے مطابق ہماری بغیر مشاورت کے ایک سو چوہتر افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا اس کا مطلب ہے اعظم نذ یر تارڑ جس کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا.

    عدالت عظمیٰ میں وزیر اعظم اور وزیراعلی پنجاب کے کیس میں ایف آئی اے افسران کے تبادلے سے متعلق ایف آئی رپورٹ پر بحث ہوئی، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا۔

    وزارت قانون نے تیرہ مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو معطل کیا، بظاہر ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نا ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا ہے، کیا آپ نے پراسکیوٹرز کو یہ کہا کہ آپ پیش ہو نا ہوں آپ فارغ ہیں؟ پراسکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، انویسٹیگیشن آفیسر کو بھی بیماری کی وجہ سے تبدیل کیا گیا، حالانکہ وہ تبدیل ہونے کے ایک مہینہ بعد بیمار ہوا۔

    جسٹس منیب اختر نے بھی کہا کہ کیا جن سماعتوں پر پیش نہ ہونے پر پراسکیوٹرزکو معطل کیا گیا وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کی تھیں؟،چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے پراسکیوشن ٹیم بظاہر مقدمہ کی کارروائی رکوانے کیلئے تبدیل کی گئی، آرٹیکل 248 وزراء کو فوجداری کارروائی سے استثنی نہیں دیتا، وفاقی وزراء کیخلاف فوجداری کارروائی چلتی رہنی چاہیے، فوجداری نظام سب کیلئے یکساں ہونا چاہیے۔

    سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لاء آپریشنز ایف آئی اے عثمان گوندل کو ریکارڈ سمیت طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

  • ‘سپریم کورٹ عمران خان، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو گرفتار کرنے کا حکم دے’

    ‘سپریم کورٹ عمران خان، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو گرفتار کرنے کا حکم دے’

    نائب صدر مسلم لیگ مریم نواز نے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر سپریم کورٹ سے بڑا مطالبہ کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ مریم نواز نے لکھا کہ قومی اسمبلی میں ہونے والے تماشے پر سپریم کورٹ اپنے احکامات کی صریح خلاف ورزی کافوری نوٹس لے۔

    مریم نواز نے لکھا کہ سپریم کورٹ عمران خان، اسپیکر او رڈپٹی اسپیکر کو گرفتار کرنےکا حکم دے، ان کی فوری گرفتاریوں کا حکم دیا جائے اس سے قبل وہ سب کچھ اڑاکر رکھ دیں۔

    لیگی نائب صدر نے مزید لکھا کہ بیوروکریسی، انتظامیہ حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کرے۔

    ادھر قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس جاری ہے جہاں آج چوتھی بار وقفہ کیا گیا ہے، اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔

    جبکہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کا کہنا ہے کہ آج ہر صورت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے گی۔

     

  • سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے، اور اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسپیکر رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کا آج دوسرا دن تھا، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے، پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیے، دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے اچھے اور ٹو دی پوائنٹ دلائل دیے ہیں، ہمیں یہی توقع تھی۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا آئین میں وزیر اعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار درج ہے، وزیر اعظم استعفیٰ دے سکتے ہیں، اکثریت کھو دیں تو عدم اعتماد پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے، جب قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیر اعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتا۔

    رضا ربانی نے کہا درپیش صورت حال میں وزیر اعظم اسمبلی نہیں توڑ سکتے تھے، عدالت ڈپلومیٹک کیبل کو طلب کرے، عدالت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس بھی طلب کر کے حقائق جانچے، اس طرح اسمبلی توڑنے کی کارروائی ابتدا سے ہی کالعدم ہے۔

    رضا ربانی نے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کرے۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عدالت نے رولنگ درست قرار دی تو آئندہ تحریک عدم اعتماد نہیں آ سکے گی، آئین کی خلاف ورزی ہو تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے، آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، اسپیکر کارروائی چلانے کے لیے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا، لیکن آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں تعلق نہیں بنتا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کر کے ارکان پر اطلاق کر دیا، اس لیے اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95 (2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا عدم اعتماد پر ووٹنگ روکی نہیں جا سکتی تھی، عدم اعتماد مسترد کر کے ووٹنگ نہ کرا کر رولز 37 کی خلاف ورزی کی گئی، طریقہ کار کی خلاف ورزی پر اسمبلی کارروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی، حالات دیکھتے ہوئے صدر کو سمری واپس بھیج کر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا تھا، پارلیمانی نظام حکومت میں اسپیکر اکثریتی جماعت کا ہوتا ہے، رولز اسپیکر کو عدم اعتماد کی قرارداد ختم کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے، تحریک کے بعد اس پر ووٹنگ مکمل ہونے تک اجلاس ملتوی نہیں ہو سکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نے اچھے اور ٹو دی پوائنٹ دلائل دیئے ہمیں یہی توقع تھی، رضا ربانی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا، جو متحدہ اپوزیشن کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    آرٹیکل 6

    رضا ربانی نے پیپلز پارٹی کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا تو آرٹیکل 6 کی بات کر دی، انھوں نے کہا چیف الیکشن کمشنر نے کہا 90 دن میں الیکشن کے لیے تیار نہیں، ان حالات میں ضروری ہے کہ آج ہی شارٹ آرڈر دے دیں۔

    رضا ربانی نے کہا یہ جو ہوا ہے یہ سویلین کُو (بغاوت) ہے، پہلی بد نیتی یہ کہ 7 مارچ کو یہ خبر سامنے آئی، خبر سامنےآنے کے باوجود سینئر آفیشلز کو پروٹوکول دیتے رہے، دوسری بد نیتی یہ ہے کہ اجلاس بلانے میں ٹال مٹول کی گئی، 3 مارچ کو اجلاس ووٹنگ کے لیے بلایا گیا، لیکن وزیر قانون نے قرار داد پیش کی اور اجلاس ملتوی کر دیا گیا، یہ ایک اور بد نیتی تھی۔

    رضا ربانی نے کہا 28 مارچ کو عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی، ڈپٹی اسپیکر نے ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا، ڈپٹی اسپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا، ڈپٹی اسپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی انکوائری رپورٹ، عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے، رضا ربانی نے کہا سسٹم نے از خود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیر آئینی ہے، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد مسترد کیے جانے میں بدنیتی پر مبنی 10 اقدامات کی نشان دہی کی، انھوں نے کہا اسپیکر قومی اسمبلی نے چیمبر میں رولنگ لکھ کر رکھ لی تھی، وفاقی وزیر نے بغیر کسی شہادت یا دستاویزی سپورٹ قرارداد پیش کی، اس طرح تحریک مسترد کرنے کا سارا عمل ابتدا سے ہی کالعدم قرار دیا جانا چاہیے، وزیر اعظم نے اسمبلی توڑنے کی سمری بھیجی جسے صدر نے سوچے سمجھے بغیر منظور کر لیا، عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیر اعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے، صدر مملکت از خود بھی وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہ سکتے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیر اعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے۔

    افشاں غضنفر کی انٹری

    دوران سماعت افشاں غضنفر ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ اس کیس میں انھیں بھی فریق بنایا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم یہاں فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے، افشاں غضنفر نے کہا سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بنا اس کو بلایا جائے۔

    افشاں نے کہا اسد مجید جس نے لیٹر لکھا اس کو بلائیں، چیف جسٹس نے کہا بیٹھ جائیں ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننا ہے، دوران سماعت ذوالفقار بھٹہ نے کیس کی سماعت سے پہلے لیٹر گیٹ کی تحقیقات کی استدعا کی، جس پر عدالت نے ذوالفقار بھٹہ کو بھی روسٹرم چھوڑنے کی ہدایت کر دی۔

  • چیف جسٹس نے موجودہ صورت حال کا نوٹس لے لیا

    چیف جسٹس نے موجودہ صورت حال کا نوٹس لے لیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے موجودہ صورت حال کا نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لے لیا۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا، اٹارنی جنرل بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی تجویز پر صدر مملکت عارف علوی قومی اسمبلی تحلیل کر چکے ہیں، اس سے قبل ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دی تھی۔

    ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں کہا قرارداد آئین کے آرٹیکل 5 اے کے منافی ہے، یہ عالمی سازش کے تحت لائی جا رہی ہے، کسی غیر ملکی طاقت کو حق نہیں کہ منتخب حکومت سازش کے تحت گرائے۔

    بعد ازاں، وزیر اعظم عمران خان کی سفارش پر صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دے دی، صدر نے اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری آئین کے آرٹیکل اٹھاون ون اور اڑتالیس ون کے تحت دی۔

    وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے غیر ملکی ایجنڈا تھا، ملک کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے، بیرونی قوت یا کرپٹ لوگوں نے نہیں، قوم انتخابات کی تیاری کرے۔

    دوسری طرف اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کی کارروائی پر چیف جسٹس کو خط لکھ دیا تھا، جس میں انھوں نے اسمبلی کارروائی سے آگاہ کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نوٹ پر چیف جسٹس نے ساتھی جج سے مشاورت کی۔