Tag: sc-directs

  • جج مبینہ ویڈیو کیس :سپریم کورٹ کا ایف آئی اے کو  3ہفتوں میں رپورٹ تیار کرنے کا حکم

    جج مبینہ ویڈیو کیس :سپریم کورٹ کا ایف آئی اے کو 3ہفتوں میں رپورٹ تیار کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو جج بلیک میلنگ کیس کی رپورٹ تین ہفتے میں تیارکرنےکاحکم دے دیا، چیف جسٹس نےکہا کسی کے کہنے پر اندھیرےمیں چھلانگ نہیں لگائیں گے،جج ارشدملک کے معاملے کونظراندازنہیں کریں گے اور جج کے ضابطے پر تو خود فیصلہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جج بلیک میلنگ اسکینڈل کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سےگفتگو کرتے ہوئے کہا گزشتہ سماعت پر آپ ہیگ میں تھے، تجویز دیں عدالت کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا درخواستوں میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعاکی گئی ہے، ایک استدعاجج ارشد ملک کے خلاف کارروائی کی بھی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا تمام حقائق عدالت کے سامنے آچکے ہیں، جج ارشدملک بیان حلفی بھی جمع کراچکےہیں اور ایف آئی اے کو شکایت بھی جمع کرا رکھی ہے، الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت شکایت درج کرائی گئی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا ایف آئی اے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرچکی، ایکٹ کے تحت 3سال قید 10لاکھ جرمانہ ہوسکتاہے، فحش ویڈیو یا تصویر بنا کر بلیک  میلنگ پر 5سال قیداورجرمانہ ہے، دفعہ13 کے تحت جعل سازی پر3 سال سزا اور ڈھائی لاکھ جرمانہ ہے۔

    سماعت میں اے جی نے کہا ایف آئی آرکے بعد ملزم طارق محمود کوگرفتار کیاگیا ہے اور 2 مرتبہ ریمانڈ لے کر ملزم کو جیل بھیج چکی ہے، میاں طارق محمود سے لینڈ کروزر برآمد ہوئی ہے، میاں طارق نے لینڈ کروزر ان سے لی جن کوجج کی ویڈیو دی تھی، اسے چیک دیاگیا جو کیش نہیں ہوسکا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا میاں طارق کے پاس جج ارشد ملک کی کافی ویڈیوز موجود ہیں، میاں سلیم رضا نامی شخص کومیاں طارق نے ویڈیوز فروخت کیں، سلیم رضا نے ویڈیوز ناصر بٹ کو بھی فراہم کیں، ناصر بٹ پاکستان سے باہر جاچکا ہے تحقیقات جاری ہیں، ایف آئی اے ملزمان تک پہنچ رہی ہے، یوایس بی میں موجود ویڈیوز حاصل کرلی گئی ہیں، میاں طارق سے برآمد ویڈیو بلیک میلنگ کیلئے استعمال ہوئی۔

    چیف جسٹس نے کہا ویڈیو سے جج کے مؤقف کا ایک حصہ درست ثابت ہوگیا، ویڈیوز میں ایسا کیا ہے ہم نہیں جانتے، ایک ویڈیوکی تصدیق کرائی گئی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا پاکستان میں کوئی لیبارٹری ویڈیوکی فرانزک نہیں کرسکتی، ایف آئی اے نے اپنے طور پر فرانزک ضرور کیا ہے، آئی ایس او کی تصدیق شدہ لیبارٹری پاکستان میں نہیں۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا 2000سے 2003کے درمیان ویڈیوز بنائی گئی ہیں، اصل ویڈیوکیسٹ میں تھی ریکوری یوایس بی سے ہوئی ، میاں طارق کی نشاندہی پر بیڈ کی ٹیبل سے ویڈیو برآمد ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا جج نے ایسی حرکت کی تھی تب ہی وہ بلیک میل ہوا، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا بطور جج ارشد ملک کو ایسا نہیں کرناچاہیے تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا ایک ویڈیو وہ بھی ہے، جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی تو اے جی کا کہنا تھا جج نے پریس کانفرنس والی ویڈیو کے بعض حصوں کی تردید کی، ایک پہلو جج کی نوکری پر رہنے اور دوسرا العزیزیہ کیس کے فیصلے کا ہے۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا جج کےمطابق نوازشریف سےملاقات اپریل میں ہوئی، نوازشریف نےاپیل کب دائرکی تھی، نوازشریف کی اپیل بروقت دائر ہوئی  تھی، پہلی بروقت دائرہوئی توجج نےاپریل میں اس کاجائزہ کیسےلیا، دیکھناہوگاجج نے اپنا مؤقف ایمانداری سے دیا یا نہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا جائزہ لیناہوگاجج کامؤقف کس حدتک درست ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا آڈیواورویڈیوکی ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی تھی، پریس کانفرنس میں آڈیواورویڈیوکوجوڑکردکھایاگیا، آڈیو ویڈیو مکس کرنے کا مطلب ہے اصل موادنہیں دکھایاگیا، جس پر اے جی نے بتایا پریس کانفرنس والی اصل ویڈیو کوریکورکرنےکی کوشش کررہے ہیں۔

    دوران سماعت حکومت نےبلیک میلنگ اسکینڈل پردائردرخواستوں کی مخالفت کردی ، اٹارنی جنرل نے کہا قانونی فورم دستیاب ہیں تو کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں، نواز شریف کو سزا دسمبر 2018میں ہوئی تھی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کیسےممکن ہے6 اپریل2019تک اپیل دائرنہ ہوئی ہو۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس میں کہا بیان حلفی کے مطابق جج پر ویڈیو پیغام کیلئے دباؤ ڈالا گیا، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا 26مارچ کو نواز شریف ضمانت پر  رہا ہوئے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا ناصربٹ اپیل میں شائدنئےنکات شامل کراناچاہتاتھا، بیان حلفی میں نہیں کہاگیااپیل دائرنہیں ہوئی، اٹارنی جنرل نے بتایا جج نے دستیاب  قانونی فورم سےرجوع کر رکھاہے، جج کےپاس دوسراراستہ توہین عدالت،نیب قانون کی دفعہ16بی ہے، جس پر عدالت نے کہا نیب قانون کی دفعہ16بی کے تحت صرف سزاکااختیارعدالت کودیاگیا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا پیمراقانون کی دفعہ20کےتحت بھی کارروائی ہوسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا پیمراقانون کااطلاق توٹی وی چینلزپرہوتاہے۔

    جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ عدالت نےتمام الزامات کی سچائی کاجائزہ لیناہے۔

    چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو جج بلیک میلنگ کیس کی رپورٹ تین ہفتے میں تیار کرنے کاحکم دیتے ہوئے کہا کسی کےکہنے پر اندھیرے میں چھلانگ نہیں لگائیں گے، جج ارشدملک کےمعاملے کو نظراندازنہیں کریں گے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا آج میں حکومت کی نمائندگی نہیں عدالت کی معاونت کررہاہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا یہاں ایک آپشن آپ نےایف آئی اے، دوسرا نیب  قانون  کا دیا، تیسرا آپشن تعزیرات پاکستان اور چوتھا پیمراقانون کادیاہے، پانچواں آپشن حکومتی کمیشن اور چھٹا جوڈیشل کمیشن کا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ایک آپشن یہ بھی ہےتمام درخواستیں خارج کردیں، آخری اپشن یہ ہےکہ عدالت خود فیصلہ کرے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا درخواستوں پرکارروائی سے ہائی کورٹ میں اپیل متاثرہوگی۔

    عدالت نے کہا کوئی کمیشن یا پیمرا احتساب عدالت کا فیصلہ نہیں ختم کرسکتا، شواہد کا جائزہ لے کر ہائی کورٹ ہی نواز شریف کو ریلیف دے سکتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن صرف رائے دے سکتا ہے فیصلہ نہیں، ہائی کورٹ شواہد کا جائزہ لے کر خود بھی فیصلہ کرسکتی ہے، سپریم کورٹ کی مداخلت کافائدہ ہوگا یا صرف خبریں بنیں گی۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا ہائی کورٹ میں ابھی تک کسی فریق نے درخواست نہیں دی،جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا اسکینڈل کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا جج کے ضابطہ اخلاق کا خود جائزہ لیں گے، کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کےگھر جانا درست ہے، کیا مجرم کے رشتے داروں، دوستوں سےگھر، حرم میں ملنا درست ہے، فکرنہ کریں جج کے ضابطے پر خود فیصلہ کریں گے۔

    جسٹس عظمت سعیدشیخ کا کہنا تھا تمام کارروائی متعلقہ فورم پرہو نی چاہیے، کسی فریق کو اعتراض ہو تو ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں جج بلیک میلنگ اسکینڈل کی سماعت3ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔

  • سپریم کورٹ کا رائل پام کلب پاکستان ریلوے کے حوالے کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا رائل پام کلب پاکستان ریلوے کے حوالے کرنے کا حکم

    لاہور: سپریم کورٹ نے لاہور میں واقع رائل پام کلب پاکستان ریلوے کے حوالے کرتے ہوئے رائل پام انتظامیہ کا ریلوے کے ساتھ معاہدہ کالعدم قرار دے دیا جبکہ رائل پام کے لیے تین ماہ میں نیا ٹینڈر جاری کرنے کا حکم دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے رائل پام سے متعلق کیس کی سماعت کی ، مقدمے میں ریلوےکی جانب سے ابوذر سلمان نیازی اورسلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ رائل پام کی طرف سے اعتزازاحسن ، علی ظفر اور مخدوم علی خان نے پیروی کی۔

    جسٹس عظمت سعید اورجسٹس اعجاز الاحسن نےسپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں مقدمے کا فیصلہ سنایا ، فیصلے میں حکم دیا کہ رائل پام کنٹری کلب کے تمام معاملات ریلوے انتظامیہ کے ذمہ ہوں گے اور پاکستان ریلوے رائل پام کے تمام انتظامات کو بہترین طریقے سے چلائے گی۔

    عدالت نے حکم دیا کہ تین ماہ میں رائل پام کے انتظامات کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے جائیں ۔

    عدالت نے قرار دیا کہ شیخ رشید نے بیان دیا کہ کئی غیر ملکی کمپنیاں رائل پام کا ٹھیکہ مہنگے داموں لینے میں دلچسپی لے رہی ہیں لہذا اس حوالے سے تین ماہ میں نیا ٹینڈر جاری کیا جائے اور اس میں غیر ملکی کمپنیوں کو قانون کے مطابق شامل کیا جائے ۔

    عدالت نے ٹینڈر کی نگرانی کے لیے جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل عمل درآمد بنچ بھی تشکیل دے دیا جبکہ حکم دیا کہ اس دوران رائل پام میں ہونے والی تقریبات کو متاثر نہ کیا جائے ۔

    سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ احتساب عدالت اس معاملے پر قانون کے مطابق اپنی کارروائی جاری رکھے ۔

    خیال رہے 27 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے رائل پام انتظامیہ تحلیل کر دی تھی اور 11 اپریل کو معاہدہ غیر قانونی قرار دے کر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

    رائل پام سے متعلق نیب انکوائری نیب راولپنڈی میں زیر تفتیش ہے ، نیب کے مطابق 2001 میں تجارتی مقاصد کے لیے ریلوے گالف کلب کی 49 سالہ لیز اور  140 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر دے جس کی وجہ سے قومی خزانے کو2 ارب 20 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔

  • سپریم کورٹ نے تھر کول منصوبہ نیب کوبھجوادیا، ثمرمبارک مند کے خلاف کارروائی کا حکم

    سپریم کورٹ نے تھر کول منصوبہ نیب کوبھجوادیا، ثمرمبارک مند کے خلاف کارروائی کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تھرکول منصوبہ نیب کو بھجواتے ہوئے ثمرمبارک مند کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے کہا ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا تھا بجلی سے ملک کومالا مال کردوں گا، لیکن منصوبے کی جگہ سے لوگ سامان بھی اٹھا کرلے گئے، منصوبے پراربوں روپے لگے ان کا حساب کون دے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی پینچ نے تھر کول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی ، سماعت میں عدالت نے تھر کول منصوبہ نیب کوبھجوادیا۔

    عدالت نے نیب آڈٹ رپورٹ کی روشنی میں ثمرمبارک مند کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا 2017کےبعدرقم کس کے کہنے پر جاری ہوئی تھی، قومی خزانے سے منصوبے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا۔

    [bs-quote quote=”جواربوں روپے لگے، ان کا حساب کون دے گا” style=”style-6″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس کے ریمارکس "][/bs-quote]

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آڈیٹر جنرل نے حتمی رپورٹ پیش کر دی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ثمرمبارک مند نے کہا تھا بجلی سے ملک کو مالا مال کردوں گا، جواربوں روپے لگے، ان کا حساب کون دے گا۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا ہ اب تک 4 ارب 69 کروڑ خرچ ہوئے، پونے 5 ارب خرچ ہوئے لیکن بجلی پیدا نہیں ہوئی،،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تھرکول منصوبے کی جگہ سے لوگ سامان بھی اٹھا کرلے گئے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے تھر کول منصوبے سے متعلق سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے گزشتہ سماعت میں تھر کول پاور پراجیکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے آڈیٹر جنرل کو فرانزک آڈٹ کا حکم دیتے ہوئے 15 روز میں رپورٹ طلب کی تھی، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کہاں گئے ڈاکٹر ثمر مند مبارک کے دعوے؟ کیا معاملہ ایف آئی اے کو نہ بھیج دیں یا اس کی نئے سرے سے تحقیقات کروائی جائیں۔

    مزید پڑھیں : عدالت کا تھر کول پاور پراجیکٹ کے فرانزک آڈٹ کا حکم

    ڈاکٹر ثمر مبارک کا کہنا تھا کہ منصوبے میں کوئی ماحولیاتی آلودگی نہیں ہوئی، وکیل اس منصوبے کے بارے میں نہیں بتا سکتے۔ آسٹریلیا کی کمپنی بھی زیر زمین گیسی فکیشن کر رہی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ مجھے پتہ تھا یہی کہیں گے۔ عدالت نے منصوبے کی تحقیقات نیب کے سپرد کردیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ثمر مبارک نے دعوے کیے تو رومانس ہوگیا، کہا گیا کہ مفت بجلی ملے گی، 4 ارب کا نقصان کردیا گیا۔ پہلے اس منصوبے کا آڈٹ کروا لیتے ہیں۔

    اس سے قبل بھی سپریم کورٹ میں تھر کول منصوبے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ منصوبہ مکمل ناکام ہوا، عوامی پیسے کا ضیاع ہوا۔