Tag: sc-hears

  • شاہ زیب قتل کیس : شاہ رخ جتوئی کے وکیل کو  صلح نامے کی دستاویزات جمع کرانے کا حکم

    شاہ زیب قتل کیس : شاہ رخ جتوئی کے وکیل کو صلح نامے کی دستاویزات جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں درخواست گزار کے وکیل کو صلح نامے کی دستاویزات ترتیب کے ساتھ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے مقتول شاہ زیب کے ورثا کو بھی نوٹس جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کی عمر قید کے خلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    وکیل شاہ رخ جتوئی نے بتایا کہ فریقین کے درمیان صلح نامے کے بعدسزا ختم ہو جاتی ہے، جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا فریقین کے درمیان ہونے والا صلح نامہ دکھائیں، آپ کی دستاویزمیں کوئی ترتیب نہیں، عدالت میں دستاویز ترتیب کیساتھ دوبارہ جمع کرائیں۔

    عدالت نے درخواست گزار وکیل کو دستاویزترتیب کیساتھ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے شاہ رخ جتوئی کی اپیل پر مقتول شاہ زیب کے ورثا کو بھی نوٹس کردیئے۔

    خیال رہے شاہ رخ جتوئی،سراج تالپور ،غلام مرتضیٰ نے عمر قید کیخلاف اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔

    یاد رہے کہ پچیس دسمبر 2012 کو مقتول شاہ زیب خان کی بہن کے ساتھ شاہ رخ جتوئی اور اور اس کے دوست غلام مرتضیٰ لاشاری کی جانب سے بدسلوکی کی گئی جس پر شاہ زیب مشتعل ہو کر ملزمان سے بھڑگیا تھا، موقع کے وقت معاملے کو رفع دفع کردیا گیا تاہم شاہ رخ جتوئی نے دوستوں کے ساتھ شاہ زیب کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اسے قتل کردیا تھا۔

    واقعے کے بعدشاہ رخ دبئی فرار ہوگیا۔ تفتیش سست روی کا شکار رہی، بالآخرمجرم گرفتار ہوا اور مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا۔

    سات جون دو ہزار تیرہ کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

    بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا جبکہ دوملزمان سجاد تالپوراورغلام مرتضیٰ کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔

  • ای او بی آئی پنشنرز ، عدالت نے بڑا حکم دے دیا

    ای او بی آئی پنشنرز ، عدالت نے بڑا حکم دے دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ای اوبی آئی کی آئینی حیثیت اور پنشن مقدمات کو علیحدہ مقرر کرنے کی حکم  دیتے ہوئے ای اوبی آئی سےمتعلق مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ بھی طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ای او بی آئی پنشنرز سےمتعلق کیس کی سماعت کی، سماعت میں جسٹس منیب اختر نے کہا کیس میں ای اوبی آئی سےمتعلق مختلف ایشوزہیں۔

    جسٹس مشیرعالم کا کہنا تھا کہ جب تک ہرایشوکوعلیحدہ نہیں سنیں گےفیصلہ نہیں ہوگا، کچھ درخواستیں پنشن سےمتعلق بھی ہیں، ڈپٹی اےجی نے بتایا پہلے پنشن کو5250سےبڑھا کر6500 کیااب8500 کردی ہے۔

    وکیل نے کہا حکومت متعددبارمعاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں ہونے کا کہہ کرمہلت لےچکی، اب تک کونسل کاکوئی فیصلہ ریکارڈپرنہیں، جسٹس مشیرعالم کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کافیصلہ منگوالیتے ہیں۔

    عدالت نے ای اوبی آئی کی آئینی حیثیت،پنشن مقدمات کو علیحدہ مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ای اوبی آئی سےمتعلق مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ بھی طلب کرلیا اور ای او بی آئی کی حیثیت سےمتعلق کیس کی سماعت 2ہفتےکیلئےملتوی کردی۔

    یاد رہے گزشتہ روز زلفی بخاری نے ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹس انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی)  پنشن میں 2 ہزار روپے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ای او بی آئی پنشن 6500 سے 8500 کر دی ہے۔

    زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ نئے سال سے کم از کم پنشن 8500 ملے گی، ای او بی آئی پنشن کو 15 ہزار تک لے کر جائیں گے۔ ادارے کے منصوبے آئندہ سال میں مکمل ہو جائیں گے۔

  • سپریم کورٹ نے  آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی توسیع کردی

    سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی توسیع کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی توسیع کردی اور قانون سازی کیلئے معاملہ پارلیمنٹ بھیجنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ ‌نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3سالہ توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس موقع پر سپریم کورٹ کے احاطے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی جبکہ غیر متعلقہ اشخاص کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔

    اٹارنی جنرل انورمنصور، سابق وزیر قانون فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وزیراعظم معاون خصوصی برائےاحتساب شہزاداکبر  بھی عدالت میں موجود تھے۔

    سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے  اٹارنی جنرل انورمنصور سے استفسار کیا جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کےکاغذات اور جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کیسےہوئی کاغذات بھی منگوالیں ، آپ نے کل فرمایا جنرل کبھی ریٹائرڈنہیں ہوتا ، بتایاجائے راحیل شریف نے اپنا عہدہ کیسے چھوڑا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جنرل ریٹائرڈ نہیں ہوتے توانھیں پنشن بھی نہیں ملتی ہوگی، آپ دستاویزات منگوالیں تو15منٹ بعدکیس سن لیتےہیں ، اس دوران ہم دیگرکیسزسن لیتے ہیں۔

    آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سماعت میں 15منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاوہ کاغذات منگوالئےجوہم نے کہے تھے، جس پر ،اٹارنی جنرل انورمنصور نے کہا جی کاغذات سے متعلق بول دیا ہے وہ آرہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نےآرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق نئی سمری پیش کی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے کچھ اور بھی فرمانا ہے یا بس، سوال یہ ہے اب آپ نے جوطریقہ کار اختیار کیا وہ درست یا نہیں ، اب مکمل طریقہ کار تبدیل ہوگیاہے، اب آپ عدالت کومطمئن کریں کہ یہ طریقہ کاردرست ہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس سمری میں آپ عدالت کو کیوں بیچ میں لارہےہیں، یہ تویوں لگ رہا ہے سپریم کورٹ احکامات پریہ سب ہورہاہے، آپ اپنا بوجھ خود اٹھائیں ، عدالت کا کندھا کیوں استعمال کر رہےہیں، یہ آپ کااپنا معاملہ ہے اس میں ہمارا ذکر نہ کریں، ہمارا ذکر اس سمری سے باہر نکالیں۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نے 28 نومبر کی تقرری کردی ہے، آج تو اسامی خالی نہیں ہوئی تو اس پر تقرری کیسےہوگئی، اس طریقہ کار اور آج کی تاریخ میں کوئی  غلطی نہیں ہے، ہمیں نظر آرہا ہے کہ آپ نے کل معاملے پرغورکیاہے ، تقرری ہوتی ہی آئین کےمطابق ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا آپ نے معاملے پر عدالت کا ایڈوائزری رول لکھ دیااسےنکالیں، جب تک صدرخودایڈوائزری رول نہ مانگے عدالت کا کردار نہیں بنتا ، اٹارنی جنرل انورمنصور نے عدالت کو بتایا ستاویزات کچھ دیر میں پہنچ جائیں گی، آرٹیکل243کےتحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی گئی، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟

    اٹارنی جنرل نے بتایا نئی تعیناتی آرٹیکل243 ون بی کے تحت کی گئی ہے،چیف جسٹس نے کہا عدالت کی ایڈوائس والاحصہ سمری سےنکالیں ، صدر اگر ہماری  ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں اس کا جائزہ لیں گے، جسٹس منصورعلی کا کہنا تھا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نےپہلی مرتبہ کوشش کی ہےکہ آئین پرواپس آئیں ، جو چیز آئین وقانون کے مطابق ہو توہمارےہاتھ بھی بندھ جاتےہیں، لیکن سمری میں سپریم کورٹ کا ریفرنس ہمیں نہیں چاہیے، معاملے میں جوبات کھٹک رہی ہےوہ 3 سال کی مدت ہے، آئین کے آرٹیکل 243 میں ایسا کچھ نہیں  لکھا ہے ، آج ہم نے توسیع کردی تو 3 سال کی مدت پرمہرلگ جائے گی، کل آرمی ایکٹ کاجائزہ لیاتوبھارتی،سی آئی اےایجنٹ کہاگیا۔

    اٹارنی جنرل انورمنصور نے کہا ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایاگیا، جس پر ،چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ہمیں ففتھ جنریشن وارکاحصہ ٹھہرایا گیا، وہ ہماراحق ہےکہ سوال پوچھیں جبکہ جسٹس منصور نے کہا اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے ، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں۔

    جسٹس منصور علی شاہ مزید کہا کہآرٹیکل 243 میں مدت ملازمت نہیں ہے ، اپنی سمری کوآرٹیکل 243 کے ضابطے کےاندر لائیں، چیف جسٹس نے کہا  آرٹیکل243کےساتھ آپ نے3 سال لکھ دیا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا الجہاد ٹرسٹ کیس ہمارے سامنےہے۔

    سپریم کورٹ نے جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پرمشروط رضامندی ظاہرکردی ، چیف جسٹس نے کہا آپ نے کہا ہے قانونی  سازی کیلئے 3 ماہ چاہئیں، ہم 3 ماہ کے لئے اس کی توسیع کردیتے ہیں، جنھوں نے ملک کی خدمت کی ان کابہت احترام ہے،ہمیں آئین وقانون کا سب  سے زیادہ احترام ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون سازی کے لیے ہمیں 6ماہ کا وقت دیا جائے۔

    چیف جسٹس نے کہا حکومت پہلی بارآئین پرواپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں، عدالت نےتوسیع کردی تویہ قانونی مثال بن جائے گی، لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نےآرٹیکل 243میں پڑھتے ہوئے اضافہ کردی، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جہاں مدت کاذکرنہ ہو تو حالات کے مطابق مدت مقررہوتی ہے، سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، آپ تین سال کے لیے توسیع دے رہےہیں، کل کوئی قابل جنرل آئے گا تو پھر کیا 30سال کیلئے توسیع دیں گے، جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا پہلے تو کسی کو ایک سال کسی کو 2 سال کی توسیع دی گئی۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائرہوتےہیں، آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج کہہ رہے ہیں کہ ہو رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ کو اس ابہام کو دور کرنا ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ رولز میں ترمیم کرتےرہےہیں، پھر ہم کو ایڈوائزری کردار لکھ دیا، ہم یہ نہیں کہہ رہےکہ ابھی جاکرقانون بناکرآئیں، جوقانون72سال میں نہیں بن سکتا وہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت میرے پاس کوئی قانون نہیں سوائےدستاویزکے، ہم کوشش کررہےہیں کہ معاملے پرکوئی قانون بنائیں۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا قانون بنانے میں کتنا وقت لیں گے،اٹارنی جنرل انورمنصور کا کہنا تھا کہ ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے تو چیف جسٹس نے مزید کہا کہاجاتا ہے کہ عدالت خود نوٹس لے، عدالت ازخود نوٹس کیوں لے؟ ریاض حنیف راہی عدالت میں آئے ہیں، ہم انہیں جانے نہیں دے رہے۔

    آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور توسیع پرفیصلہ آج دوپہرسنائےگی اور اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 4 نکات پر مشتمل تحریری بیان جمع کرائیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سمری سے عدالت کا ذکر ختم کیا جائے، سمری میں مدت ملازمت کا تعین ختم کیا جائے، تنخواہ اور مراعات کے حوالے سےتصحیح کی جائے اور ماہ میں پارلیمنٹ سےقانون سازی کی یقین دہانی کرائی جائے۔

    فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ عدالت کو یقین دلاتا ہوں آرٹیکل243میں بہتری کریں گے ، اس کا بیان حلفی بھی دینے کے لیے تیار ہیں، حلفیہ بیان دیتے ہیں 243میں تنخواہ، الاؤنس اور دیگر چیزیں شامل کریں گے۔

    آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کےمعاملےپرسماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو حکومت  نے عدالت کی جانب سے اٹھائےگئے4نکات پر  بیان حلفی عدالت میں پیش کردیا، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ  نے بیان حلفی کا جائزہ لیا۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نےفیصلہ لکھوانا شروع کردیا ، چیف جسٹس نے کہا 6ماہ کے اندر قانون سازی کی جائے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کریں گے۔

    سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی توسیع کرتے ہوئے حکومت کا نوٹیفکیشن مشروط طور پر منظور کرلیا اور کہا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔

    فیصلے میں کہا گیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع چیلنج کی گئی، حکومت نے یقین دلایا 6 ماہ میں اس معاملےپرقانون سازی ہوگی، حکومت نے 6ماہ میں قانون سازی کی تحریری یقین دہانی کرائی، 6 ماہ بعداس سلسلےمیں کی گئی قانون سازی کاجائزہ لیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس معاملے پرقانون سازی کرناپارلیمنٹ کااختیار ہے ، قانون سازی کے لئے معاملہ پارلیمنٹ بھیجا جائے، تحمل کا مظاہرہ کرکے معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑتے ہیں، پارلیمنٹ آرٹیکل 243 اور ملٹری ریگولیشن 255 کے سقم دور کرے۔

    فیصلے میں کہا گیا آئین میں ایسی کوئی شق نہیں جس میں مدت ملازمت کا تعین ہو، اس دوران پارلیمنٹ قانون میں ترمیم کرے گی ، آرٹیکل 243 کے تحت مدت کا تعین نہیں ہے ، پارلیمنٹ مدت کا تعین اور دیگر قانونی تقاضے پورے کرے گی۔

    عدالت نے کہا ہمارے سامنے جب یہ کیس آیا تو ہم نے جائزہ لیا، قانون کےمطابق مدت ملازمت میں توسیع یادوبارہ تقرری کاذکر نہیں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی توسیع ایک روایت ہے ، آرمی چیف فوج کے انتظامی سربراہ ہوتےہیں اور انتظامی امور اور جنگ کےمعاملات کنٹرول کرتےہیں ، ان کی مدت ملازمت میں توسیع ضرورت،روایت کے تحت کی گئی۔

    فیصلے میں کہا گیا اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی روایت کوحکومت قانون کی شکل دےگی، تحریری بیان کی بنیاد پر حکومت کا جاری نوٹیفکیشن درست قرار  دیتےہیں، چیف آف آرمی اسٹاف قمر جاویدباجوہ اپنی ملازمت جاری رکھیں گے۔

    گذشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے کہا تھا ایسی غلطیاں کی گئیں کہ ہمیں تقرری کوکالعدم قراردینا ہوگا، سمری میں دوبارہ تعیناتی،تقرری،توسیع کانوٹیفکیشن جاری کیا،اب بھی وقت ہے دیکھ لیں، حکومت کل تک اس معاملے کا حل نکالے، پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گا۔

    مزید پڑھیں : حکومت کل تک اس معاملے کا حل نکالے، پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گا، چیف جسٹس

    چیف جسٹس کا کہنا تھا سمری کےمطابق وزیراعظم نےتوسیع کی سفارش ہی نہیں کی، سفارش نئی تقرری کی تھی لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے، کیا کسی نے سمری،نوٹیفکیشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی، کل ہی سمری گئی اور منظور بھی ہو گئی، آرٹیکل243کے تحت تعیناتی ہوتی ہے توسیع نہیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا تھا کہ ترمیم آرمی رول میں کی جو چیف آف آرمی اسٹاف پرلاگو نہیں، آرمی چیف افسران سےاوپرہےایک اسٹاف ہیں، آرمی چیف کمانڈر ہیں،ایک الگ کیٹیگری ہیں، 255 میں آپ نےترمیم کی آرمی چیف اس کیٹیگری میں نہیں آتے، آرمی چیف ریگولیشن میں ذکرنہیں اور جس سیکشن 255میں کل ترمیم کی گئی وہ آرمی چیف سےمتعلق ہی نہیں۔

    بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اہم مشاورتی اجلاس ہوا تھا ،ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں سپریم کورٹ میں زیرسماعت آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق کیس پر مشاورت کی گئی اور عدالتی اعتراضات دورکرنےسے متعلق ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے سرکولیشن سمری کی منظوری دے دی تھی ، سمری میں تقرری کے بجائے توسیع کا لفظ شامل کیا گیا ہے، نئی سمری خصوصی میسنجرکے ذریعے بھجوائی گئی تھی، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد سمری ایوان صدر ارسال کردی گئی تھی ، صدرمملکت آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کی سمری کی منظوری دیں گے۔

    اس سے قبل سماعت میں سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کانوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وزارت دفاع اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیے اور جواب طلب کرلیا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا تھا وزیراعظم کو تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیارنہیں، صرف صدر پاکستان آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا تھا مدت ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی۔

    بعد ازاں وفاقی کابینہ نےملٹری ایکٹ میں ترمیم کرکےنیا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ، ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نیا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نےآرمی چیف کی مدت ملازمت میں3سال کی توسیع کانوٹیفکیشن19اگست کوجاری کیاتھا، نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع خطے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔

    تایا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ملک کی مشرقی سرحد کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر کیا، فیصلہ کرتے ہوئے بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال، خصوصاً افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے حالات کے تناظرمیں کیا گیا۔

    بعد ازاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوبارہ تقرری کے نوٹیفکیشن پر دستخط کر دیے تھے۔

    جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت پاک فوج کے آرمی چیف ہیں، سابقہ وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں 29 نومبر 2016 کو پاکستان کا 16 واں سپہ سالار مقرر کیا تھا اور ان کی مدت ملازمت 29 نومبر 2019 کو ختم ہونا تھی، تاہم اب وہ مزید تین سال آرمی چیف کے عہدے پر رہیں گے۔

  • حکومت کل تک اس معاملے کا حل نکالے، پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گی ، چیف جسٹس کے ریمارکس

    حکومت کل تک اس معاملے کا حل نکالے، پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گی ، چیف جسٹس کے ریمارکس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ، چیف جسٹس نے کہا ایسی غلطیاں کی گئیں کہ ہمیں تقرری کوکالعدم قراردیناہوگا، سمری میں دوبارہ تعیناتی،تقرری،توسیع کانوٹیفکیشن جاری کیا،اب بھی وقت ہے دیکھ لیں، حکومت کل تک اس معاملے کا حل نکالے، پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3سالہ توسیع سے متعلق کیس کی سماعت کی فروغ نسیم آرمی چیف کی جانب سے اور اٹارنی جنرل انورمنصور حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے جبکہ درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور پارلیمانی سیکریٹری ملیکہ بخاری بھی موجود تھے۔

    چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا یہ بات طے ہے، کل جن خامیوں کی نشاندہی کی انھیں تسلیم کیاگیا، خامیاں تسلیم کرنے کےبعد ان کی تصیح کی گئی ، جس پر اٹارنی جنرل نے مؤقف میں کہا خامیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خامیاں تسلیم نہیں کیں توتصحیح کیوں کی گئی۔

    اٹارنی جنرل انورمنصور نے کہا میں اس کی وضاحت کرتا ہوں ، توسیع سےمتعلق قانون کے نہ ہونےکاتاثرغلط ہے، یہ تاثر بھی غلط ہے صرف11ارکان نے ہاں میں جواب دیاتھا ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ باقیوں نےہاں میں جواب دیا تھا توکتنےوقت میں جواب دیاتھایہ بتادیں، کل جو آپ نے دستاویزدیں اس  میں11ارکان نے’’یس‘‘لکھاہواتھا، نئی دستاویز آپ کے پاس آئی ہیں تو دکھائیں۔

    چیف جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کل فیصلہ پیش کی گئی دستاویز کے مطابق لکھوایا تھا، ٹھیک ہے پھرہم کل والی صورتحال پرہی فیصلہ دے دیتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا مجھے پہلے عدالت تفصیل کےساتھ سن لے، تو چیف جسٹس نے کہا کہاں لکھا ہے کابینہ ارکان رائے نہ دیں تو منظور تصور کیا جائے گا۔

    اٹارنی جنرل انورمنصور نے جواب دیا یہ رول19کی ذیلی شق ایک میں لکھا ہے، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اس کیلئے پہلے وقت مقرر کرنا پڑتا پھر 19ایک اپلائی ہوتاہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دستاویز میں غیرحاضر کابینہ ارکان کےسامنے’’انتظار‘‘لکھا ہے ، رول کے مطابق ان کے’’انتظار‘‘کا مطلب ہاں میں ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہ ’’انتظار ‘‘کتنے دن ہوسکتا ہے مجھے بتادیں، جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل243میں تنخواہ، مراعات، تعیناتی ، مدت ملازمت کا ذکر ہے ، کیا چیف آف آرمی اسٹاف حاضر سرونٹ آرمی افسرہونا چاہیے، کیا کوئی ریٹائرڈافسربھی آرمی چیف بن سکتا ہے ، آرمی ریگولیشن  میں ترامیم کی گئی ہے تو کاپی فراہم کریں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ نئی ریگولیشن کس قانون کے تحت بنی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا آرمی رولز کے سیکشن176 کے تحت255 میں ترمیم ہوئی، جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمیں پوری کتاب کودیکھناہےایک مخصوص حصےکونہیں ،آرمی ریگولیشن 255ریٹائرڈ افسرکو دوبارہ  بحال کرکے سزا دینے سے متعلق ہے،از خودنوٹس نہیں لیا، میڈیا کوغلط فہمی ہوئی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا ایک لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمرکتنی ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا لیفٹیننٹ جنرل 57سال کی عمرمیں ریٹائر ہوتا ہے ،  جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کسی لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ سے4دن پہلےترقی ہوتوتوسیع ہوسکتی ہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا یہ وزیراعظم کی صوابدیدہےمگر3سال کس قانون میں لکھاہے، یہ بہت اہم ایشوہےجس پر پہلے کبھی سوال نہیں اٹھایاگیا، ماضی میں جرنیلوں نےخودکو 4،3بار توسیع دی، کسی نے ان جرنیلوں کی توسیع کوچیلنج نہیں کیا، اب یہ معاملہ سامنے آیا ہے تو تفصیل سےدیکھ لیتے ہیں  ، مستقبل کے لئے کوئی اصول قانون طے ہوجائیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا یہ ٹرم3 سال کی ہےکہاں لکھا ہے، چیف جسٹس نے کہا ہمیں اس تناظرمیں دیکھناہے 3 سال بعدکیاہوناہے ، یہ  تو نارمل ریٹائرمنٹ سے متعلق ہے ،اٹارنی جنرل262اےاورسی کوپڑھیں، اس میں آرمی افسران کےرینکس کےتناسب سےلکھاہے۔

    چیف جسٹس نے کہا لیفٹیننٹ جنرل تعیناتی کے4 سال بعدریٹائرڈہوتاہے ، اٹارنی جنرل نے بتایا لیفٹیننٹ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر57لکھی ہے، 4 سال تعیناتی یا57سال عمردونوں میں سے جو پہلے آجائے، چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کاذکرنہیں ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آرمی چیف کی مدت ملازمت کانوٹیفکیشن اس وقت آپ کے پاس ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا اصلی نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش کردیتاہوں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین کون کرتا ہے، مجاز اتھارٹی کون ہے۔

    اٹارنی جنرل انور منصور کا کہنا تھا اس معاملے پر قانون خاموش ہے، چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا آپ نے تو2 مرتبہ تعیناتی کردی ہے، جس کے جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ ہم نے 2 مرتبہ تعیناتی کی ہے ، آرٹیکل 243 اور آرمی ریگولیشن 255دو الگ الگ باتیں ہیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا سوال ہے تعیناتی میں مدت ملازمت کہاں سےآتی ہے، آرٹیکل 243تعیناتی سے متعلق ہے اور رول 255دوبارہ تعیناتی کا ہے اور استفسار کیا کیا248 کے تحت لیفٹیننٹ جنرل کوآرمی چیف بنایاجاسکتاہے، ایک شخص کی مدت ملازمت ختم ہوتوکیااسٹیٹس ہو۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا  چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کےعہدےپرترقی دےکربنایاجاتاہے،  جسٹس کیانی کامعاملہ کچھ اورتھا، جس پر  چیف جسٹس نے کہا   اٹارنی جنرل صاحب جسٹس کیانی نہیں جنرل کیانی تھے، یہ مسئلہ آرٹیکل253 میں حل ہوتاہے ، آرٹیکل 253 کوپڑھ لیتےہیں،  کلاز3کےتحت جنرل کی ریٹائرمنٹ عمریامدت پوری ہونےپرہوتی ہے، وزیراعظم کا اختیار ہے ریٹائرمنٹ کومعطل کرسکتاہے، مگر یہ معطلی ریٹائرمنٹ کے بعد ہوسکتی ہے۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہم آرٹیکل263 پڑھ لیتےہیں ، آرٹیکل 253پورا پڑھ لیں اس میں ریٹائرمنٹ کی پوری اسکیم ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا میں درخواست کروں گاآرٹیکل263مجھے پڑھنےدیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل صاحب آپ جلدی میں تونہیں تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھامیں رات تک کھڑا رکھ سکتاہوں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی کہا ہمیں بھی کوئی جلدی نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ترمیم آرمی رول میں کی جو چیف آف آرمی اسٹاف پرلاگو نہیں، آرمی چیف افسران سےاوپرہےایک اسٹاف ہیں، آرمی چیف کمانڈر  ہیں،ایک الگ کیٹیگری ہیں، 255 میں آپ نےترمیم کی آرمی چیف اس کیٹیگری میں نہیں آتے، آرمی چیف ریگولیشن میں ذکرنہیں اور جس سیکشن 255میں کل ترمیم کی گئی وہ آرمی چیف سےمتعلق ہی نہیں۔آرمی

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایکٹ میں سپہ سالار کی مدت تعیناتی سےمتعلق کچھ نہیں ،آرمی ایکٹ میں مدت تعیناتی نہیں تورولزمیں کیسے ہو سکتی ؟ آرمی ایکٹ میں صرف لکھا ہے آرمی چیف فوج کی کمانڈ کریں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا رولز آرمی ایکٹ کی دفعہ176اے کے تحت بنائےگئے ،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت کوفوج کی کمانڈ، سروس کے حوالے سے رولز بنانے کا اختیار ہے، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا آج184/3کے حوالے سے رولز فل کورٹ اجلاس میں زیر بحث آئیں گے۔

    سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق کیس کی سماعت وقفےکےبعدشروع ہوئی تو جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا آرمی چیف کاتقرروزیراعظم کا اختیار ہے یہ بات واضح ہے، ابہام نہیں کہ وزیراعظم کسی کوبھی آرمی چیف مقررکرسکتےہیں، آپ یہ بتائیں ریٹائرڈ آرمی چیف کو دوبارہ  لگایاجاسکتا ہے یانہیں، اس سوال کا واضح جواب آئے تومسئلہ حل ہوگا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ ہم آپ کو پہلےبات کرنےکاموقع دیتے ہیں، بعد میں آپ کوہمیں پوری قانون کی اسکیم بتاناہوگی، مختصر سوالات کے جوابات سےبات نہیں سمجھ آئےگی، آئین کےآرٹیکل243اورآرمی ایکٹ کاجائزہ لےلیتےہیں، اس کےبعدرولزپربات کرکے معاملے کو سمجھتے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بغیرسمجھےآپ کےدلائل ہمیں سمجھ نہیں آئیں گے، آپ دیکھ لیں پہلےدلائل دیناچاہتے ہیں یاہمیں سمجھاناہے؟ جس پر  اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جیسے عدالت کی مرضی، دوباتیں اہم ہیں، ایک آرمی چیف کی تعیناتی اوردوسرا رینک جوآفیسرنےلگائےرکھےہیں، یہ دونوں باتیں اوورلیپ نہیں ہیں، آرمی چیف آرٹیکل 243کے تحت تعینات ہوتے ہیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا تقرری بہت واضح ہے،وزیراعظم صدرکوسفارش کرتےہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کامعاملہ کہاں آتاہے، کیا ریٹائرڈ آرمی چیف  کو 243کےتحت دوبارہ تعینات کیاجاسکتاہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 243میں مدت ملازمت کاذکر نہیں، 1947 سے آج تک  یہ روایات چلی آرہی ہے، اسے آئینی روایت کہا جاسکتا ہے، جب معاملےکواس تناظرمیں دیکھتےہیں تو مدت کاتعین کیسے ہوگا۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ واضح کردیں عدالت قانون دیکھتی ہےشخصیات بےمعنی ہیں، اگر کوئی شخص قانونی طورپرٹھیک ہےتووہ ٹھیک  ہے، کوئی شخص قانون کے مطابق ٹھیک نہیں تووہ ٹھیک نہیں، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا میں اس بات سےاختلاف کروں گا تو جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ پہلے دیکھ لیتے ہیں پھرآپ کا اختلاف بھی سن لیں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ آرمی ایکٹ سےمتعلق عدالت کوسمجھائیں، ہم آپ کو اجازت دیتےہیں جوبولناچاہتےہیں بولیں، پھر ہم قانونی نکات پر بات کریں گے، ہم آپ کے دلائل کی تعریف کرتے ہیں، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں آپ کےتمام سوالات کےجوابات دیتا رہوں گا، جیساعدالت کہے گی ویسےکریں گے ، چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا ہم ان رولز اور ریگولیشن کو پڑھتے ہیں، پاک آرمی کی تقسیم سے پہلے کے رول کو دیکھتے ہیں، جو کہنا ہےکہیں ایک ایک لفظ نوٹ کررہےہیں۔

    جسٹس منصورعلی نے استفسار کیا آرٹیکل 248 کےتحت ریٹائرڈ جنرل کوآرمی چیف تعینات کیا جاسکتا ہے ؟ اٹارنی جنرل نے بتایا آرمی چیف کی تعیناتی، مدت 1975 کے کنونشن کے تحت ہے، آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی سےمتعلق عدالت کومطمئن کروں گا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ قانون کی  عدالت ہے،ہمارےسامنےقانون ہےشخصیات نہیں، اگرقانون کےمطابق کوئی چیز غلط ہوتواس کوٹھیک نہیں کہہ سکتے، اگر قانون کے مطابق درست نہیں توپھر ہم فیصلہ دیں گے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا میں فوج کےقانون کوپڑھ کر سنانا چاہتا ہوں، ایکٹوسروس سے متعلق سیکشن2پڑھ کر سناؤں گا، اجنرل قوم کا افسر ہوتا ہے، ہمارے سامنے  سوال آرمی چیف کاہےجنرل کانہیں، عدالت کومیں تعیناتی کی دیگرمثالیں بھی پیش کروں گا، قانون کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیےکہ اس میں کوئی لچک نہ ہو، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے قانون سے دلائل کا آغاز کریں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف آرمی کےکمانڈنگ افسرہیں، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا چیف آف آرمی اسٹاف میں اسٹاف کامطلب کیاہے، خالی چیف آف آرمی بھی تو ہوسکتا تھا تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا اس بارے میں مجھے علم نہیں، پڑھ کر بتاسکتا ہوں، کمانڈنگ افسر وہ ہوتاہےجوآرمی کے کسی الگ یونٹ کا سربراہ ہو۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا آرمی ایکٹ ایکسٹینشن کاتصور رکھتا ہے، تمام رولز اپنے اختیار ایکٹ سے لیتے ہیں ، آرمی ایکٹ کو ایک بار پھر دیکھ لیں جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایکسٹینشن سےمتعلق آرمی ایکٹ کی شق آپ نےہمیں نہیں دکھائی۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا مدت کا ذکر ایکٹ میں موجود نہیں ،رولز میں ہے ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تعجب ہورہا ہے ایکٹ میں مدت کا کچھ تو ذکر ہونا چاہیے تھا کیا ایکٹ ایکسٹینشن کے معاملے پر خاموش ہے؟ جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کےسیکشن176کوپڑھیں جس کےتحت آرمی رولز بنائے جاتےہیں، رولزاورریگولیشن ایکٹ سےباہرجارہےہوں تواسی ایکٹ کاحصہ تصور کیاجائے ؟ دوسری یہ کہ جوچیز ایکٹ میں ہے اس لیےرولز بنائےجائیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا آرمی ایکٹ کاہرسیکشن الگ یونٹ پلٹون کوظاہرکرتاہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا وہ جوکہتےہیں فوج میں کمیشن میں گیا تو کیاان کو ذمہ داری ملتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے جواب دیا کمیشن آرٹیکل243 کے تحت ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس میں تولکھاہےجونیئرکمیشنڈافسرکےعلاوہ ہے اٹارنی جنرل نے جواب دیا نہیں ایسا نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ ہمیں جونیئر کمیشنڈ افسر پرکیوں لے گئے تو انور منصور نے کہا جونیئر کمیشنڈ افسر کیپٹن بھی ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کمیشنڈ افسرکی تعریف نہیں، اٹارنی جنرل نے بتایا تعریف ہے، اعلیٰ افسر کمیشنڈ افسرکہلاتےہیں ، جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہیں گربڑ ہے ، ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، اٹارنی جنرل انورمنصور نے مزید کہا ادارے کاایک باقاعدہ نظام ہے، سپاہی کا افسر لانس نائیک  ہوگا، اس طرح پورے ادارےکا نظام ہے، چیف جسٹس نے کہا اگرآپ کی تعریف ختم ہوگئی ہے توآگےبڑھیں۔

    اٹارنی جنرل انورمنصور نے کہا سیکشن16پڑھ کر سناؤں گا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا سیکشن 16 ملازمت سےبرخاستگی سےمتعلق ہے ، اٹارنی جنرل نے مزید کہا آرمی چیف کسی کوبھی نوکری سےنکال سکتےہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کیاوفاقی حکومت بھی کسی کو نوکری سے نکال سکتی ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا آرمی چیف کو محدود مگروفاقی حکومت کومکمل اختیارات ہیں، جونیئراورچھوٹےافسران کوآرمی چیف نکال سکتےہیں، عمر کابھی تعین ہے کہ کون کس عمر میں کیسے ریٹائر ہوگا، سیکشن 176 میں قواعد کےاختیارات موجود ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا وفاقی حکومت آرمی سےمتعلق قواعدوضوابط بناسکتی ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا آرمی کاادارہ پوری دنیامیں کمانڈ کے ذریعے چلتا ہے،  میں آرمی ایکٹ کے چیپٹرون ،ٹو اور تھری کوپڑھوں گا، جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا ہم اس کے بارے میں جانتےہیں۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا آرمی آفیسرکےحلف میں ہےجان دینی پڑی تو دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے، میں خود کو کسی سیاسی سر گرمی  میں ملوث نہیں کروں گا یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہےاگرسیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیاجائے۔

    چیف جسٹس نے کہا فیلڈ مارشل سمیت کسی بھی آرمی افسرکوحکومت ریٹائرکرسکتی ہے، حکومت رضاکارانہ یا پھر جبری طور پرریٹائر کر سکتی ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا اس میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا بار بارمدت کاذکرآرہاہےتو آپ مدت کےبارےمیں بتا دیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ چیف آف آرمی اسٹاف فوجی معاملات پرحکومت کامشیربھی ہوتاہے، فوج کےنظم و نسق کی ذمےداری بھی آرمی  چیف پرعائدہوتی ہے، فوج کی ساری ریگولیشن دیکھ رہے ہیں تاکہ آپ کےدلائل کوسراہ سکیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا جب قانون میں ریٹائرمنٹ لفظ آتاہےتومدت کابھی تعین ہوتاہے، ریٹائرمنٹ کی مدت کے بارے میں بھی بتائیں، اٹارنی جنرل انورمنصور نے جواب میں کہا میں اس کی طرف بھی آؤں گا، جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کیاایکٹ262سی میں ریٹائرمنٹ کاذکرہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا جب سروس کی مزیدضرورت نہیں ہوتی توریٹائرمنٹ ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دیکھناچاہتےہیں جنہوں نےرولزبنائےانکےذہن میں کیااسکیم تھی، اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا میں پہلے آرٹیکل262 سی پڑھنا چاہتا ہوں، ریٹائرمنٹ محدود ہوسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کچھ عرصہ پہلے آپ نے ریٹائرڈ افسران کوسزا دی ، آپ نے پہلےریٹائرڈ افسران کوسروس میں بلایا پھر سزا دی، ہمیں بتائیں کس قانون کے تحت سروس میں بلا کرسزادی۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ان کودوبارہ حاضرسروس کرکے سزا دی گئی ہم سمجھناچاہتےہیں، 255میں ریٹائرمنٹ دےکرواپس سروس میں بلایا جا سکتا  ہے؟ کیوں کہ صرف حاضر سروس کو سزا دی جاسکتی ہے، جن کو سزا ہوئی ان کے بارے میں بتا دیں کافی چیزیں صاف ہوجائیں گی، ہم اس کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس بارے میں بھی عدالت کو آگاہ کروں گا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نارمل ریٹائرمنٹ کب ہوتی ہے، مدت ملازمت  پوری ہو جائے تو کیا ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی؟ جی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے، جسٹس منصور علی نے کہا سروس کی مدت پوری ہوتے ہی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا نوکری سے نکالے جانے پر ڈسچارج یا پھر ریٹائرمنٹ ہوتی ہے؟ ہم سروس ٹرمینیشن سے متعلق پوری اسکیم دیکھ رہے ہیں، نوکری سے برخاستگی  ، ریٹائرمنٹ اورریٹائرمنٹ کی معطلی آتی ہے، جنگ کے دوران عارضی طور پر ریٹائرمنٹ معطل کی جا سکتی ہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا آرمی ایکٹ پر عملدرآمد کےلیے رولز بنائے گئے، جن آرمی افسران کوسزا ہوئی ریکارڈمنگوالیں تاکہ پہلوؤں کاتعین ہو، 255 کی ذیلی شق اےمیں مقررہ مدت پرریٹائرمنٹ کالفظ ہے، ذیلی شق اےمیں مقررہ مدت پرریٹائرمنٹ کالفظ آپکےحق میں نہیں، آرٹیکل 255بی بھی آپ کے حق میں نہیں جا رہا۔

    اٹارنی جنرل انورمنصور کا کہنا تھا کہ ایک جنرل کی ریٹائرمنٹ کی مدت نہیں ہے ، 1970 کے قوانین کے تحت ریٹائرمنٹ کی عمر متعین تھی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا چیف آف آرمی اسٹاف کوکیاوفاقی حکومت مقررکرسکتی ہے،اٹارنی جنرل نے جواب دیا چیف آف آرمی سٹاف کی ریٹائرمنٹ  متعین نہیں ، یہ ایک عہدہ ہے جو جنرل رینک افسر کا ہوتا ہے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا صدر وزیراعظم کی سفارش پرآرمی چیف کوآ ئینی عہدے کیلئےتعینات کرتاہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا عدالت کو آرمی چیف کے جنرل کےعہدے پرغورکرناہوگا تو جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا آرمی چیف اور جنرل کو الگ نہیں کیاجاسکتا، ہمارےسامنےآرمی چیف کا معاملہ ہےکسی جنرل کانہیں، شق255آرمی چیف کو ڈیل نہیں کرتی۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کیا آرمی چیف کی پہلی ٹرم کی تعیناتی میں مدت کاذکرہے، اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا نہیں مدت کا ذکر نہیں ہے ، تو جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا پھر تین سال کی مدت کہاں سےآتی ہے، انور منصور نے بتایا آئینی کنونشن کےتحت 3سے 4سال ہے۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا پھر تو آرمی چیف کوتوسیع چاہیےہی نہیں، پھرانہیں29نومبر کو کیوں ریٹائرڈ کیا جارہاہے، جسٹس منصورعلی شاہ  نے سوال کیا کیا کنونشن کے تحت آرمی چیف 4،3سال بعدریٹائرڈہوجائیں گے تو اٹارنی جنرل نے بتایا عمومی طور پر وہ3سال بعد ریٹائرڈ ہوجاتےہیں، آئین میں آرمی جنرل کی ریٹائرمنٹ کی مدت کاذکرنہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہےجو10سال پہلے ریٹائر ہوئےانہیں دوبارہ لگایاجاسکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا آئین میں اس بات کی کوئی قدغن نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا تاذہ دم ہو کر دلائل سنیں گے،کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے اور استفسار کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت   کب  ختم ہورہی ہے؟فروغ نسیم نے جواب دیا کل رات 12بجے آرمی چیف کی مدت ملازمت ختم ہوجائے گی۔

    چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل توکہتے ہیں جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، فروغ نسیم کے لائسنس معطلی کا بھی مسئلہ ہے، ابھی ہم نے انہیں دلائل کے لیے نہیں  بلایا،پاکستان بارکونسل نےفروغ نسیم کےروسٹرم پرآنے پراعتراض کردیا ہے ، پاکستان بارکونسل کےمؤقف کا احساس ہے، ابھی تو ہم اٹارنی جنرل کو سن  رہے ہیں۔

    درخواست گزار نے مطالبہ کیا میری درخواست اب واپس کردیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیٹھناچاہیں تو آپ کی مرضی نہیں بیٹھنا چاہتےتب بھی آپ کی مرضی،  ہوسکتا ہے اٹارنی جنرل کےدلائل کےبعدآپ کوچیف آف آرمی اسٹاف لگا دیاجائے، ہمیں پاک فوج کا بہت احترام ہے،پاک فوج کو پتا تو ہو ان  کا سربراہ کون ہوگا۔

    جسٹس منصور نے کہا وفاقی حکومت آرمی چیف کی تعیناتی نہیں کرتی توکبھی توسیع کیسےکر سکتی ہے، کیا مدت ختم ہوجائے توریٹائرمنٹ ہو جائے گی ، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ، جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے مزید کہا مطلب ہے کسی ریٹائرجنرل کوبھی آرمی چیف   لگا سکتے ہیں ہیں، اس  میں تو یہ بھی نہیں لکھاکہ آرمی چیف آرمی سےہوگا، ایسے تو آپ کو بھی آرمی چیف بنا سکتے ہیں ۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سےاستفسار کیا آرمی چیف کب ریٹائرہوں گے؟اٹارنی جنرل نے بتایا آرمی چیف کل رات کو ریٹائر ہو جائیں گے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا پھر تو اس کا فوری فیصلہ ہونا چاہیے۔

    آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سےمتعلق دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا 243 کےتحت وزیراعظم تقرری کی سفارش کرتے ہیں،  اس متعلقہ معاملےمیں کیا ہوا، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا وزیر اعظم کی سمری 255اور آرٹیکل 243کا اشتراک ہیں تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا معاملے  میں سفارش نئی تقرری کے لئے کی گئی، نوٹیفکیشن مدت ملازمت میں توسیع کے لئے کیا گیا۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا یہ مذاق کیا جارہا ہے ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسی غلطیاں کی گئیں کہ ہمیں تقرری کوکالعدم قرار دینا ہوگا ، دیکھیں تو صحیح کیا کیا ہے، یہ دکھا رہے ہیں آپ ہمیں ؟ یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے ، آرمی چیف کےمعاملےپراس طرح کی بات توسامنےنہیں چاہیئے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا آرٹیکل243کےتحت کیاریٹائرڈآدمی کودوبارہ تعینات کیاجاسکتاہے، جب تک آرمی چیف دوسرے چیف کو چارج نہیں دیتا تب تک  وہ ریٹائرڈ نہیں ہوتا، جسٹس منصورعلی کا کہنا تھا کہ یہ عہدہ چیف آف آرمی اسٹاف ہے، چیف آف آرمی سروس نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمری میں دوبارہ تعیناتی، تقرری اور توسیع کانوٹیفکیشن جاری کیا، اب بھی وقت ہےدیکھ لیں ، اس معاملے میں سنگین غلطیاں کی گئیں جس پر افسوس ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم نےآرمی چیف کی مدت کم کرکےدوبارہ تعینات کیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کنونشن روایات ہیں جوبرطانوی آئین سےاخذکی گئیں، جب آئین موجودہےتوروایات کی کیاضرورت۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اب آپ نےنئی بات شروع کر دی ہے، اٹارنی جنرل انورمنصور کا کہنا تھا کہ آرمی کو بغیر کمانڈکے نہیں چھوڑاجاسکتا، جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کوئی نہیں چاہتاآرمی کمانڈکےبغیررہے، وزارت قانون کی پوری کوشش ہےآرمی کوبغیرکمانڈرکھاجائے، ایسےتواسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسےآرمی چیف کی ہورہی ہے، آرمی چیف کو شٹل کاک کیوں بنایاگیا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا آرمی بغیر کمانڈ ہوئی تو ذمہ دار کون ہو گا، آج آرمی چیف کیساتھ یہ ہو رہا توکل صدر،وزیراعظم کیساتھ ہوگا، آپ خود کہتے ہیں توسیع اور تعیناتی الگ چیزیں ہیں، نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کرائیں، آئینی اداروں میں روز ایسا ہوتا رہاتومقدمات کی بھرمارہو گی، کل تک کوئی حل نکال لیں،ناجائزکسی کوکچھ نہیں کرنا چاہیے، اگر غیر قانونی ہے تو ہمارا حلف ہے کہ کالعدم قرار دیں، ججز صرف اللہ کو جواب دہ ہیں۔

    اٹارنی جنرل انور منصورکا کہنا تھا کہ کمانڈ کی تبدیلی ضروری تقریب ہے، کمانڈ کی تبدیلی تو ایک رسمی کارروائی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا سمری کےمطابق وزیراعظم نےتوسیع کی سفارش ہی نہیں کی، سفارش نئی تقرری کی تھی لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے، کیا کسی نے سمری،نوٹیفکیشن پڑھنے کی بھی زحمت نہیں کی، کل ہی سمری گئی اور منظور بھی ہو گئی، آرٹیکل243کے تحت تعیناتی ہوتی ہے توسیع نہیں۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا اٹارنی جنرل کہتے ہیں جنرل کبھی ریٹائرنہیں ہوتا، عدالت کے ساتھ ایک اورصاف بات کریں، جو اسٹاف کا حصہ نہیں وہ آرمی چیف کیسےبن سکتا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ دوبارہ تعیناتی کا مطلب ہے پہلےتعیناتی ختم ہوگئی، پاک فوج کا معاشرے میں بہت احترام ہے ، وزارت قانون،کابینہ ڈویژن کم ازکم سمری، نوٹیفکیشن تو پڑھیں، فوجیوں نے خود آ کر تو سمری نہیں ڈرافٹ کرنی، ہمارے سامنے تین ایشوز ہیں، پہلا ایشو تقرری کی لیگل حیثیت کا ہے، دوسرا ایشو تقرری کےطریقہ کار کا ہے ، تیسراایشو تقرری کی وجوہات ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا وزیر اعظم کس کو آرمی چیف لگاتے ہیں یہ ہمارا ایشو نہیں ،کل کے بعد وقت نہیں رہ جائے گا پھرفیصلہ کرنا پڑے گا،حکومت کل تک اس معاملے کا حل نکالے، معاملہ غیر قانونی ہوا تو پھر ذمہ داری ہم پر آ جائے گی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم وکالت لائسنس کا مسئلہ بھی کل حل کر کے آئیں، نہیں چاہتے کل کادن فروغ نسیم کے لائسنس کے معاملے پر نکل جائے، آپ کے لائسنس کامسئلہ حل نہیں ہوتا تو کل کسی کو معاون کے طور پر لے آئیں، یہ ایشو ہم نہیں حل کرسکتے، ہمارے پاس وقت نہیں ملک میں ہیجان برپا ہے۔

    بعد ازاں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز سماعت میں سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کانوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف، وزارت دفاع اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیے اور جواب طلب کرلیا تھا۔

    چیف جسٹس نے کہا تھا وزیراعظم کو تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیارنہیں، صرف صدر پاکستان آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کرسکتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا تھا مدت ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی۔

    مدعی حمید حنیف راہی نے پٹیشن واپس لینے کی درخواست کی تھی ، جس پر سپریم کورٹ نے مدعی کی درخواست واپسی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا درخواست پرسماعت کریں گے، چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعیدکھوسہ نے پہلا ازخود نوٹس لیا تھا۔

    مزید  پڑھیں: سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کردیا

    بعد ازاں وفاقی کابینہ نےملٹری ایکٹ میں ترمیم کرکےنیا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا ، ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نیا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

    کابینہ اجلاس کے بعد وفاقی وزیر ریلوے نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وزیر قانون فروغ نسیم نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، وہ وکیل کی حیثیت سےجنرل باجوہ کاکیس لڑیں گے۔

    واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نےآرمی چیف کی مدت ملازمت میں3سال کی توسیع کانوٹیفکیشن19اگست کوجاری کیاتھا، نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع خطے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں : وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم مستعفی

    بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ ملک کی مشرقی سرحد کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر کیا، فیصلہ کرتے ہوئے بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال، خصوصاً افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے حالات کے تناظرمیں کیا گیا۔

    بعد ازاں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی دوبارہ تقرری کے نوٹیفکیشن پر دستخط کر دیے تھے۔

    جنرل قمر جاوید باجوہ اس وقت پاک فوج کے آرمی چیف ہیں، سابقہ وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں 29 نومبر 2016 کو پاکستان کا 16 واں سپہ سالار مقرر کیا تھا اور ان کی مدت ملازمت 29 نومبر 2019 کو ختم ہونا تھی، تاہم اب وہ مزید تین سال آرمی چیف کے عہدے پر رہیں گے۔

  • سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے  قتل میں ملوث 7 ملزمان کی سزائے موت 10 سال قید میں تبدیل

    سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے قتل میں ملوث 7 ملزمان کی سزائے موت 10 سال قید میں تبدیل

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے قتل میں ملوث 7 ملزمان کی سزائے موت 10سال قید میں تبدیل کر دی، چیف جسٹس نے دوران سماعت ازخودنوٹس کے نقصان گنوائے اور کہا ملزمان کو چھوڑ دیں گے تو لوگوں کو تشدد کا لائسنس مل جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سیالکوٹ میں 2 بھائیوں کے قتل میں ملوث ملزمان کی سزا پراپیل پر سماعت کی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سماعت کے دوران ازخود نوٹس پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کیس میں 2 کہانیاں بنائی گئی ہیں، ایک ایف آئی آرموقع پر درج کی گئی جس کے مطابق 4 افراد زخمی ہوئے، 4 افراد میں سے بلال اور ذیشان کی موت ہو گئی،سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا، دوسری ایف آئی آر سپریم کورٹ ازخود نوٹس کے پانچ دن بعد درج ہوئی، دوسری ایف آئی آرمیں دو قتل ہونے والے اور زخمیوں کے نام ہی نہیں، یہ نقصانات ہوتے ہیں جب از خود نوٹس لیا جائے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھاجب سو موٹو لیا گیا پھردوسری ایف آئی آر دج ہوئی، پھرسب کہتے ہیں سپریم کورٹ نوٹس لے نوٹس لے، جب سپریم کورٹ نوٹس لے تویہ نتیجہ نکلتا ہے۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ نے خودنوٹس لیا تھا یا آپ نے درخواست دی تھی؟ وکیل نے جواب دیا جی بالکل ! سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا تھا۔

    جس پر چیف جسٹس پاکستان بولے پھر مدعی کون ہوا ؟آپ یا سپریم کورٹ؟ سپریم کورٹ وہاں موجود ہی نہیں تھی، پھر اسے کیسے پتہ ہوسکتا ہے کہ کیا ہوا؟وکیل نے بتایا واقع سے 2 پستول اور 10گولیاں بھی برآمد ہوئیں، 2 افراد کو ڈاکو ڈاکو کہہ کر ان پر لوگوں نے حملہ کیا اورمار دیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچپن میں ہم محاوره سنتے تھے وہ اب جا کر سمجھ آ رہا ہے ، جس کا کام اسی کو ساجھےاورکرے تو ڈهنکا باجے، وکیل ملزمان کا کہنا تھا کہ پوسٹ ماٹم میں بھی نا معلوم افراد لکھا گیا ہے، میڈیکل رپورٹ میں بھی زخمیوں کا نام نہیں لکھا گیا، اس کیس میں وجہ عناد بھی ثابت نہیں ہوئی۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا صرف یہ کہا گیا کچھ عرصہ پہلے کرکٹ گراؤنڈ میں جھگڑا ہوا تھا، یہ پہلا واقع دیکھا رہا ہوں جہاں بغیر کسی وجہ لوگ پہلے سے مظاہرہ کر رہے تھے، لوگ کہتے ہیں یہ ڈاکو ہیں اور بس انهیں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا یہ کیسی کہانی بنائی گئی ہے، یہ کہانی بنا کر آپ 7بندوں کو پهانسی چڑھا رہے ہیں، سزا دینے کا اختیار صرف اسٹیٹ کے پاس ہے، لوگوں نے ڈاکوں کو پکڑ بھی لیا تھا پھربھی سزا کا اختیار نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاشرے کو تشدد کی اجازت بالکل نہیں دی جا سکتی، ملزمان کو چھوردیں گے تو لوگوں کو تشدد کالائسنس مل جائے گا، جس پر
    وکیل ملزمان نے کہا اگر ملزمان پر جرم ثابت ہو تو پھر سزا بنتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا ٹرائل کورٹ نے واقعے کی ویڈیو دیکھ کر فیصلہ کیا ہے، وہ ویڈیو مسخ کی گئی تھی اس کا فرانزک بھی نہیں کیا گیا تھا۔

    عدالت نے 7 ملزمان کی سزائے موت 10سال قید میں تبدیل کر دی جبکہ عمر قید کی سزا پانے والے 5 ملزمان کی سزا بھی 10 سال قید میں تبدیل کی۔

    یاد رہے 2010 میں سیالکوٹ میں 2بھائیوں کو قتل کیا گیا تھا ، دونوں کو مشتعل افراد نے بازار میں تشدد کرکے قتل کیا ، جس پر سپریم کورٹ نے دونوں بھائیوں کے قتل پراز خود نوٹس لیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے 7 ملزمان کو سزائے موت اور 6 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ، جس کے بعد 13میں سے 12 ملزمان نے سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

  • کراچی میں 7 شدت کا زلزلہ آیا تو ڈیڑھ کروڑ آبادی ختم ہوجائےگی

    کراچی میں 7 شدت کا زلزلہ آیا تو ڈیڑھ کروڑ آبادی ختم ہوجائےگی

    کراچی : جسٹس گلزار نے سی بریز پلازہ گرانے کے خلاف درخواست پر ریمارکس میں کہا بےشرمی اور بےغیرتی کی انتہا ہے ،عزت بیچی، ضمیر بیچا ،جسم بیچ دیا ، کراچی میں 7 ریکٹر کازلزلہ آگیا توڈیڑھ کروڑکی آبادی ختم ہوجائےگی؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں‌ سی بریز پلازہ گرانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، عدالت نے ڈی جی ایس بی سی اے کی کارکردگی پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا افسران اور ملازمین صرف مفت کی تنخواہ لے رہے ہیں ، عدالت کا کہنا تھا کہ بتائیں کراچی میں کتنی عمارات زیر تعمیر ہیں ؟ جس پر ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا 4پانچ سو عمارتیں زیرتعمیرہوں گی ۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں ؟ ہمیں نہیں معلوم کیاہورہا ہے ؟ آپ کو شرم نہیں آتی کراچی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے،

    جسٹس گلزار نے کہا بےشرمی اور بےغیرتی کی انتہا ہے ،عزت بیچی، ضمیر بیچا ،جسم بیچ دیا ، عدالت کا کہنا تھا کہ زندہ کیسے ہیں؟ ایسے لوگ ہارٹ اٹیک سے مر جاتے ہیں، ہر وقت نشے میں رہتے ہیں، کراچی میں 7 ریکٹر کازلزلہ آگیا تو ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ختم ہو جائےگی؟

    عدالت کا کہنا تھا کہ سی بریز پلازہ بھی خطرناک ہے کسی وقت بھی گر سکتا ہے اور کیس میں چیئرمین نے سپاک اورپاکستان انجنیئرنگ کونسل کے حکام کو 9 اگست کو طلب کرلیا۔

    جسٹس سجادعلی نے کہا دہلی کالونی میں 30 گز پر 11 منزلہ عمارت کی تعمیر کی اجازت دی ، ہائی کورٹ نےگرانے کا حکم دیا تو کہا گیا ہمارے پاس اختیار نہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا سی بریز پلازہ خالی ہے وہاں کوئی آباد نہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کیسے ہوسکتا ہے کوئی عمارت کراچی میں 40سال خالی رہے اور قبضہ نہ ہو ، بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت 9اگست تک ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ کا میئر کے اختیارات اور کراچی کی صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ سے جواب طلب

    سپریم کورٹ کا میئر کے اختیارات اور کراچی کی صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ سے جواب طلب

    کراچی: سپریم کورٹ نے مئیر کراچی کے اختیارات اور کراچی کی صورتحال پر وزیراعلی سندھ سے جواب طلب کر لیا، جسٹس گلزار نے مئیر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مئیر مرضی سے بنے، کام کیا تو کسی پر احسان نہیں کیا، آپ لوگوں کی ضد اور انا میں شہری مارے جا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی میں تجاوزات کےخلاف آپریشن سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سندھ حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی تنبیہ کردی۔

    عدالت نے استفسار کیا وزیراعلی سندھ سے ساڑھے 11بجے تک پوچھ کربتائیں کچھ کررہےہیں یا نہیں؟ عدالت مطمئن نہ ہوئی تو آج توہین عدالت کے نوٹس جاری کر دیں گے۔

    جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا سندھ حکومت اور شہری حکومت مکمل ناکام ہو چکی ہیں ، وفاق نے مداخلت کی تواس کا مطلب سمجھ رہے ہیں آپ لوگ؟ آپ کو اس کی سنجیدگی کا علم نہیں؟

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ بارشوں سےکراچی ڈوب گیا، کچھ لوگ کیفے پیالہ پربیٹھے تھے، میئر صاحب نےتو بارش سے بچنے کے لیے کوٹ بھی پہن رکھا تھا، بارش سے اتنے لوگ مرگئے مگر انہیں کوئی فکر نہیں پڑا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کیفے پیالہ پرمیئر اور گورنر گئے تھے۔

    جسٹس گلزاراحمد نے کہا سندھ حکومت سےتو اتنا بھی نہیں ہوا، بنگلے میں بیٹھ کر ہدایات دے رہے تھے، سندھ حکومت فیل، شہری حکومت فیل، دونوں بلاک ہوگئیں، سنا ہےچند دنوں بعد پھر بارشیں ہیں، کیا ہوگا شہر کا ؟ معذرت کےساتھ عدالتی حکم پر کوئی عمل نہیں کر رہا۔

    جسٹس گلزار کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ کوتوہین عدالت کے نوٹس کے سوائے کوئی چارہ نہیں، اس شہر میں اگلے ہفتے پورا ہفتہ بارش کی پیش گوئی ہے، کوئی ادارہ اپنا کام کرنے تو تیار نہیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی کچھ وقت دیا جائے، جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کتنی مہلت دیں، 2تین سال سےکیس سن رہے ہیں، مزید مہلت نہیں دیں گے، آج ہی کچھ کریں گے۔

    مئیر کراچی کے اختیارات اور شہر کی ابتر صورتحال کا کیس میں ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین نے بتایا وزیراعلیٰ سندھ، وزیراعظم سے ملاقات کیلئےاسلام آبادمیں مصروف ہیں، یقین دلاتاہوں، عدالتی حکم پر بہر صورت عمل کیاجائے گا۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ مئیر کہتے ہیں آپ نے اجلاس میں انہیں نہیں بلایا، شہرکےبارےمیں اجلاس میں مئیرنہیں ہوگا تو کیا فائدہ، سمجھ نہیں آرہا،مئیر صاحب کیسےکہہ رہےہیں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں۔

    سلمان طالب الدین نے کہا چھوٹی چھوٹی کاوشیں کی ہیں اجازت دیں توبتا دیتاہوں، جس پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ابھی چلےجائیں لالو کھیت،نارتھ ناظم آباد، منگھوپیر، کٹی پہاڑی ، ہر جگہ بڑے بڑے مافیاز کام کر رہےہیں، آپ لوگوں کی ضداورانامیں شہری مارے جا رہے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا سڑکوں پر بچے مر رہے ہیں کسی کو پروا نہیں، ماں باپ بچوں کواسکول بھی ڈر اور خوف سے بھیجتے ہیں، میری نواسی اسکول جاتی ہےتو اہلیہ پریشان رہتی ہے۔

    کراچی میں تجاوزات سےمتعلق سماعت میں جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا آپ لوگوں نے بچوں سے سب چھین لیا، پتہ نہیں چڑیا گھر میں جانور بھی ہیں یا نہیں؟ جانوروں کےکھانے کے پیسے بھی افسران کھا جاتے ہوں گے۔

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کیا چڑیا گھر میں گھاس لگی ہے، کے ایم سی افسران نے جواب میں بتایا چڑیا گھر میں گھاس لگائی جا رہی ہے تو جسٹس گلزار احمد نے کہا چڑیا گھر میں گھاس تو بنیادی چیز ہے، چند ٹکوں کی خاطر پورا شہر بیچ ڈالا، بچوں سے ان کی سرگرمیوں کی جگہ چھین لی گئیں، شہری اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی۔

    اےجی سندھ نے بتایا وزیراعلی سندھ خود اجلاسوں کی سربراہی کر رہے ہیں، جس پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ مت سمجھیں کہ لوگ بیوقوف ہیں، سب سمجھ رہے ہیں ،کس کے فائدےکے لیےکیا ہو رہا ہے، ہم اب بھی ابتر صورتحال میں کھڑے ہیں۔

    عدالت نے میئر کے اختیارات، کراچی کی صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ سے جواب طلب کرلیا ، سماعت کے دوران میئرکراچی وسیم اختر اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے درمیان تکرار ہوئی ۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا میئرکراچی کےپاس پیسہ اوراختیارات سب ہیں ، جس پر میئر کراچی نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا سرکاری ملازم ہیں یاسیاستدان، تو سلمان طالب الدین نے جواب دیا میئرکراچی میری ذاتیات پربات کررہےہیں۔

    جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ میئرصاحب، آپ کوعزت دیتےہیں ایسی باتیں مت کریں، میئرمرضی سےبنے،کام کیاتوکسی پراحسان نہیں کیا، تقریرنہیں سنیں گے۔

    عدالت نےوسیم اخترکوبات کرنےسےروک دیا اور کہا 9اگست تک بتائیں کراچی کےمسائل کیسےحل ہوں گے، وزیرعلیٰ سندھ جامع اور تفصیلی جواب جمع کرائیں۔

    دوسری جانب عدالت نے درختوں کی کٹائی کے معاملہ پر ریمارکس دیے کہ صرف امریکی قونصل خانے کی وجہ سے کلفٹن روڈ پر سارے درخت کاٹ دیئے۔ دو دو سو سال پرانے درخت بھی کاٹ دیئے گئے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

  • شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کیس : کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کل طلب

    شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کیس : کمشنر اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کل طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےشیخ رشیدکےخلاف توہین عدالت کیس میں کمشنر اورڈپٹی کمشنرراولپنڈی کوکل طلب کرلیا، عدالت نے ریمارکس دیئے ایک گھنٹے کیلئے جانا تھا،ایک فیتہ کاٹنا تھا، جس کیلئےدیواریں گرادی گئیں،درخت کاٹ دیئےگئے، کیا پنجاب حکومت قبضہ گروپ بن گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔

    دور ان سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ پنجاب حکومت کیا قبضہ گروپ بن گئی ہے؟حکمنامہ تھا کہ کوئی قبضہ نہیں کرےگا، وہاں دیواریں گرا دی گئیں اور درخت کاٹ دئیے گئے۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ 24 گھنٹے میں اس حوالے سے ہدایات لیں، ہمیں دو حکم امتناع دینے کی ضرورت نہیں،اس حکمنامے پر عمل یقینی بنائیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دیوار گرنے سے گرلز گائیڈ کی عمارت عیاں ہوگئی ہے،گرلز گائیڈ کی عمارت میں بچیاں ہیں اور ان کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہمارے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں،ہمارے حفاظت کیلئے پھر کسی اور کو کہنا پڑےگا، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا امید ہے بات یہاں تک نہیں پہنچے گی۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ بات نکلے گی تو بہت دور تک جائےگی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہاکہ جو بھی نقصان ہوا آج سے اس کی مرمت شروع کرا دیں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ایک گھنٹے کیلئے جانا تھا اس کیلئے درخت کاٹ دئیے گئے،وہاں اور کچھ بھی جاتا ہے ایک فیتہ کاٹنا تھا جس کیلئے درخت کاٹ دئیے گئے۔

    عدالت عظمیٰ نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو (آج) بدھ کو طلب کر لیا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل پنجاب کو 24 گھنٹے میں ہدایات لینے کا حکم دیا ۔بعد ازاں کیس کی سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کر دی گئی ۔

  • سپریم کورٹ نے   آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل مسترد کردی، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے گواہوں نے حلف پرغلط بیانی کی جس کی سزا عمرقید ہوسکتی ہے، درخواست گزار ثابت نہ کرسکے کہ فیصلے میں کیا غلطی تھی ۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔

    درخواست گزار قاری اسلام کے وکیل غلام مصطفی نے لارجر بینچ بنانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا معاملہ مسلم امہ کا ہے، عدالت مذہبی سکالر ز کو بھی معاونت کیلئے طلب کرے۔

    قاری اسلام کے وکیل کی لارجر بینچ بنانے کی درخواست

    چیف جسٹس نے استفسار کیا  کیا اسلام کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہونے پر سزا دی جائے، عدالت نے فیصلہ صرف شہادتوں پر دیا ہے، کیا ایسی شہادتیں قابل اعتبار  نہیں، اگر  عدالت نے شہادتوں کا غلط جائزہ لیا تو درستگی کریں گے۔

    کیا اسلام کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہونے پر سزا دی جائے، عدالت نے فیصلہ صرف شہادتوں پر دیا ہے،چیف جسٹس کا استفسار

    وکیل غلام مصطفی کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے فیصلہ کروایا، ثاقب نثار نے کلمہ شہادت کا غلط ترجمہ کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سابق چیف جسٹس اس وقت بینچ کا حصہ نہیں، ثاقب نثار صاحب آپ کی بات کا جواب نہیں دیں گے، لارجر بینچ کاکیس بنتا ہوا تو ضرور بنے گا۔

    وکیل نے مزید دلائل میں کہا یہود و نصاری نے معاہدے کو بنی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب کیا تھا، بنی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بہتان تراشی کی سزا موت ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاہدے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو بنی کریمُ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہو۔

    درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا اقلیتی برداری کا بھی کام ہے قوانین کی پابندی کرے، اسلام اقلیتی برادریوں کوُمکمل تخفظ فراہم کرتا ہے، فیصلے میں قرار دیا گیا بار ثبوت استغاثہ پر ہے۔

    چیف جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس میں کہا بار ثبوت کا اصول 1987 سے طے ہے، نظر ثانی میں ایک نقطے کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتے، اگر جرح میں وکیل سوال نہ پوچھے تو کیا ملزم کو پھانسی لگادیں، جس پر وکیل غلام مصطفی کا کہنا تھا کہ فیصلے میں ایسے معاہدہ کا ذکر آیا جو بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا گیا ،  تمام علماء نے اس معاہدے کو باطل قرار دیا ۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے مزید ریمارکس میں کہا عدالت نے ایک کتاب کے حوالے سے معاہدے کاذکر کیا، اس کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے جتنے ہونے چاہیں تھے،  تفتیشی افسر کہتا ہے کہ خواتین گواہان نے بیان بدلے، تفتیشی افسر اور گواہان کے بیان میں فرق ہے جبکہ فالسہ کھیت کا مالک عدالت میں بیان کے لیئے آیا ہی نہیں۔

    اس کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے جتنے ہونے چاہیں تھے، چیف جسٹس آصف کھوسہ

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون کہتا ہے کہ 342 کا بیان نہیں ریکارڈ کرایا تو بیان کی کوئی حیثیت نہیں،   اللہ تعالی کا حکم ہے سچی گواہی دو چاہیے والدین کے خلاف ہی ہو، قرآن پاک میں حکم ہے یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں،  عدالت نے فیصلے میں کسی کو دوست بنانے کا نہیں کہا،  عدالت نے صرف قانون کی بات کی ہے ، اپ میرے شاگرد رشید ہیں۔

    وکیل  نے کہا شاگرد ہونے کا حق ادا کرنا چاہتا ہوں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا  اصل بات یہ ہے کہ جرم ثابت نہیں ہوا، فالسے کے کھیت میں کتنی خواتین تھیں واضح نہیں ،  آسیہ کھیت میں جلسے سے خطاب تو نہیں کر رہی تھے،  واضح نہیں آسیہ نے کسی کو مخاطب کر کے گفتگو کی، تفتیشی افسر نے کہا خواتین میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا،  گواہ خواتین کو مکمل سچ بولنا چاہیے تھا۔

      اللہ تعالی کا حکم ہے سچی گواہی دو چاہیے والدین کے خلاف ہی ہو، قرآن پاک میں حکم ہے یہود و نصاری تمہارے دوست نہیں،چیف جسٹس کے ریمارکس

     غلام مصطفی کا دلائل میں مزید کہنا تھا کہ  گواہان کے بیانات سے واضح ہے کہ آسیہ نے انہیں مخاطب کیا تھا تو جسٹس آصٖف کھوسہ نے ریمارکس دیئے   ایس پی نے جب تفتیش شروع کی تو تب فالسہ کھیت کا مالک آیا،  تفتیش کے 20 دن بعد یہ میدان میں آیا،  اس کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

    چیف جسٹس  نے استفسار کیا کوئی بات ہم نے ریکارڈ کے خلاف لکھی ہے ؟  مدعی قاری سلام نے اپنے بیانات بدلے، قاری سلام کہتا ہے افضل نے اسے اطلاع دی، افضل حلف اٹھا کر کہتا ہے کہ یہ اس کے گھر آئے،  ہم کچھ نہیں کہتے ہی سب مذہبی لوگ ہیں،  قاری صاحب کہتے ہیں کہ 5 دن غور کرتے رہے،  قانون میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شکوک و شبہات شروع ہوجاتے ہیں۔

    ، وکیل قاری سلام نے کہا مدعیوں کی جانب سے آسیہ کو کسی بدنیتی کی وجہ سے ملوث نہیں کیا گیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  جن خواتین نے ابتدائی الزام لگایا وہ قاری صاحب کی بیگم سے قران پرھتی ہیں،  قاری صاحب ایف آئی آر درج کروانے کے لیے 5 دن کیوں سوچتے رہے،  5 دن میں قاری صاحب  نے ایک وکیل سے درخواست لکھوائی،  قاری صاحب کہتے ہیں کہ وہ وکیل کو نہیں جانتے۔

    چیف جسٹس کا قاری سلام کے وکیل سے مکالمے میں کہنا تھا  کہیں وہ وکیل صاحب آپ ہی تو نہیں تھے،  قاری سلام کے بیان کے مطابق گاؤں والے اکھٹے  ہوئے پھر ایف آئی آر درج ہوئی،  گواہوں کے بیانات میں کہیں مجمع اکھٹا ہونے کا ذکر نہیں ، مجمع اکھٹا ہونے کے بارے میں بہت زیادہ جھوٹ بولا گیا،اگر عام مقدمہ ہوتا تو گواہان کے خلاف مقدمہ درج کرواتے،  ہم نے بہت زیادہ تحمل سے کام لیا۔

    سپریم کورٹ نے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل مسترد کردی اور بریت کافیصلہ برقراررکھا۔

    گواہوں نے حلف پرغلط بیانی کی، سزائےموت کےکیس میں غلط بیانی کرنےوالےکوعمرقیدہوسکتی ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا گواہوں نے حلف پرغلط بیانی کی جس کی سزاعمرقیدہوسکتی ہے، درخواست گزارثابت نہ کرسکےکہ فیصلےمیں کیاغلطی تھی، گواہ اصل واقعات سےلاعلم تھےاورعدالت میں غلط بیانی کی، سزائےموت کےکیس میں غلط بیانی کرنےوالےکوعمرقیدہوسکتی ہے، شہادتوں اورگواہان میں واضح تضادات موجودتھے۔

    یاد رہے توہین مذہب کیس میں آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف مدعی قاری عبدالسلام نے نظر ثانی اپیل دائر کر رکھی ہے ، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ تفتیش کے دوران آسیہ بی بی نے جرم کا اعتراف کیا، اس کے باوجود ملزمہ کو بری کردیا گیا، سپریم کورٹ سے استدعا ہے آسیہ بی بی سے متعلق بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر

    واضح رہے 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کے خلاف آسیہ مسیح کی اپیل پر فیصلہ سناتے چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے آغاز کیا اور لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے آسیہ بی بی کو معصوم اور بے گناہ قرار دیا تھا اور رہائی کا حکم دیا تھا، فیصلے کے بعد آسیہ بی بی کو نو سال بعد ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

    سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ تحریر کیا تھا جبکہ موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے میں اضافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ برداشت اسلام کا بنیادی اصول ہے، مذہب کی آزادی اللہ پاک نے قران میں دے رکھی ہے، قرآن مجید میں اللہ نے اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے پست رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ نے اعلان کررکھا ہے کہ میرے نبی کا دشمن میرا دشمن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی لفظ براہ راست یا بلاواسطہ نہ بولا جاسکتا ہے اور نہ ہی لکھا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

    فیصلے کے مطابق 1923 میں راج پال نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی، غازی علم الدین شہد نے راج پال کوقتل کیا، مسلمان آج بھی غازی علم الدین شہید کو سچا عاشق رسول مانتے ہیں۔ 1996میں ایوب مسیح کو گرفتارکیا گیا ، مقدمہ سپریم کورٹ آیا تو پتہ چلا اس کے پلاٹ پر قبضے کے لیے پھنسایا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے کہا جب تک کوئی شخص گناہ گار ثابت نہ ہو بے گناہ تصور ہوتا ہے، ریاست کسی فرد کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتی، توہین مذہب کا جرم ثابت کرنا یا سزا دینا گروہ یا افراد کا نہیں ریاست کااختیارہے۔