Tag: sc rejects

  • جسٹس قاضی فائز کیس: سماعت کی براہ راست کوریج سے متعلق سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا

    جسٹس قاضی فائز کیس: سماعت کی براہ راست کوریج سے متعلق سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا

    اسلام آباد: جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی براہ راست کوریج کی درخواست پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی براہ راست کوریج کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا ہے، جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا، جسٹس عمر عطابندیال نے کیس کا مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا، دس میں سے چار ججز نے نظرثانی درخواست کے فیصلے سے اختلاف کیا۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی براہ راست کوریج کی درخواست کو مسترد کردیا، عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری مختصر فیصلے میں کہا گیا کہ معلومات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہے، معلومات تک کس انداز میں رسائی دینی ہے یہ انتظامی معاملہ ہے۔

    اس موقع پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ فیصلے تحریر اور اختلاف کرنیوالےججز کےنام جانناچاہتاہوں، جس پر جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ فیصلہ پڑھیں گےتوآپ کو ناموں کا اندازہ ہوجائےگا۔

    چار ججز کی جانب سے اختلافی نوٹ لکھا گیا، اختلافی نوٹ میں براہ راست نشریات کی استدعا منظور کی گئی اور کہا گیا کہ عوامی مفاد کا کیس ہے، ویب سائٹ پربراہ راست دکھایا جائے، اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عدالتی کارروائی کی آڈیو ریکارڈنگ ویب سائٹ پر ڈالی جائے، بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس نظرثانی درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک ، جسٹس مظہر عالم میاں خیل ،جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

    مختصر فیصلے کے بعد کمرہ عدالت میں اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ یہاں ایک وزیر اعظم خط نہ لکھنے پر نااہل ہو جاتا ہے، ایک وزیر کو تو عدالت کا نوٹس بھی نہیں دیا جاتا، فواد چوہدری نے ایک جج کی توہین کی مگرنوٹس نہیں لیا گیا۔

    جس پر جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آپ کی دو درخواستیں ہمارے سامنے فکس نہیں ہوئیں، جس پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ د رخواستیں اب تک کیوں سماعت کیلئےمقرر نہیں ہوئیں؟ کیا ججز رجسٹرار کے تابع ہیں؟ رجسٹرار کے خلاف میں نے حلفیہ الزامات عائد کئے ہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ ماہ اٹھارہ مارچ کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی درخواست کی سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی براہ راست نشریات سے متعلق مختصر فیصلہ دیا جائے گا۔

  • سپریم کورٹ نے وزیراعظم کےمعاونین خصوصی کی تعیناتی کیخلاف دائراپیل مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے وزیراعظم کےمعاونین خصوصی کی تعیناتی کیخلاف دائراپیل مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے وزیراعظم کےمعاونین خصوصی کی تعیناتی کیخلاف دائراپیل مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ برقراررکھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے وزیراعظم کےمعاونین خصوصی کی تعیناتی کیخلاف دائراپیل پر سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے وزیراعظم کےمعاونین خصوصی کی تعیناتی کیخلاف دائراپیل مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کافیصلہ برقراررکھا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ معاونین خصوصی کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زلفی بخاری کیس میں سپریم کورٹ فیصلہ دےچکی ہے ، وزیراعظم کسی بھی ماہرکی معاونت حاصل کرسکتےہیں۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ معاون خصوصی سروس آف پاکستان کےتحت نہیں آتے، کابینہ میں وزرا اور 5 مشیر رکھنے کی اجازت ہے۔

    جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہائیکورٹ میں آپ نےصرف دہری شہریت کانقطہ اٹھایاتھا، دہری شہریت والوں کی وفاداری پر شک نہیں کیاجاسکتا، آئین اورقانون معاونین خصوصی کی تعیناتی سےنہیں روکتا، جس کام پرپابندی نہ ہواس کےکرنےکی ممانعت نہیں ہوتی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاون خصوصی کاذکرآئین اوررولزدونوں میں موجودہے ، اپیل خارج کرنے کی وجوہات فیصلے میں جاری کی جائیں گی۔ رولز آف بزنس میں لکھا ہوا ہے کہ دہری شہریت والا معاون خصوصی بن سکتا ہے۔

  • کراچی میں نالوں کی صفائی این ڈی ایم اے سے سندھ حکومت کو دینے کی استدعا مسترد

    کراچی میں نالوں کی صفائی این ڈی ایم اے سے سندھ حکومت کو دینے کی استدعا مسترد

    کراچی : سپریم کورٹ نے کراچی میں نالوں کی صفائی این ڈی ایم اے سے سندھ حکومت کو دینے کی استدعامسترد کردی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 3،2نالے صاف کرکے آپ کہتے ہیں کراچی کا مسئلہ حل ہوگیا ؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی کے نالوں کی صفائی سے متعلق معاملے کی سماعت ہوئی، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ 30 اگست تک موقع دیں نالوں کی صفائی کا کام جاری ہے، ہم ریکارڈ لے آئے ہیں، نالوں کی صفائی کا کام جاری ہے۔

    سیکریٹری بلدیات نے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی، جس میں بتایا گیا گجر نالے میں 50فیصد ،سی بی ایم میں20فیصدصفائی ہوچکی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر صفائی ہوگئی تھی تو پانی کیسے آیا ؟جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ بارش ہوتی ہے تو پانی تو آتا ہے توچیف جسٹس نے کہا یہ تو ایسا ہی کام ہوتا ہے جیسا ہر جگہ ہوتا ہے ۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے کہا ورلڈ بینک کے تعاون سے اچھا کام ہورہا ہے ، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ مطلب ورلڈ بینک کا پیسہ بھی گیا ، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ تصاویر 3اگست تک کی ہیں رپورٹ 11اگست تک ، سی ایم نے یقین دلایا 30اگست تک صفائی مکمل ہوجائے گی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا تو آپ این ڈی ایم اے سےملکرکام کرلیں کیامسئلہ ہے ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ سندھ حکومت کام کررہی ہے 30اگست تک کام مکمل ہوگا ، ایم ڈی ایم اے مشینری بھی ہماری استعمال کرے گی، ایڈ ووکیٹ جلیبر بھی ہماری، ان کا صرف سپروائزر کھڑا ہوگا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ رپورٹ لے کر آئےہیں اس کا مطلب کچھ ہوا ہے کل ، اصل مسئلہ یہ ہے ورلڈ بینک کی فنڈنگ خطرے میں پڑ گئی ہے ،کل ورلڈ بینک پوچھ لے کہ یہ این ڈی ایم اے کون ہے ؟ آپ بتائیں اس سے پہلے کون سا فنڈ صحیح استعمال ہوا ہے ؟ 5تصویریں پیش کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ کراچی کی ساڑھے 3کروڑ کی آبادی ہے ، 3،2نالے صاف کرکے آپ کہتے ہیں کراچی کا مسئلہ حل ہوگیا ؟ آپ چاہتے ہیں این ڈی ایم اے کو روک دیا جائے ؟ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا صرف 30اگست تک موقع دیں سی ایم نے یقین دلایا ہے کہ ہوجائے گا۔

    سپریم کورٹ نے کراچی میں نالوں کی صفائی این ڈی ایم اے سے سندھ حکومت کو دینے کی استدعامسترد کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

  • توہین عدالت کیس میں طلال چوہدری کی نظرثانی درخواست مسترد

    توہین عدالت کیس میں طلال چوہدری کی نظرثانی درخواست مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی نظرثانی درخواست مسترد کردی، عدالت نے طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے  پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کی سزا کے خلاف نظر ثانی درخواست پر سماعت کی، جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس سجاد علی اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل تھے۔

    سپریم کورٹ نےتوہین عدالت کیس میں طلال چوہدری کی درخواست مسترد کردی۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنائی گئی اور پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دیا گیا جبکہ ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : طلال چوہدری کی سزا کے خلاف نظرثانی درخواست سماعت کے لیے مقرر

    سابق وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے عدالت میں 2 گھنٹے 5 منٹ قید کی سزا کاٹی تھی ، بعد ازاں طلال چوہدری نے اپنی نااہلی کے فیصلے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالتی فیصلہ قانون کی نظر میں درست نہیں اسے کالعدم قرار دیا جائے، شواہد کا درست انداز میں جائزہ نہیں لیا گیا۔ استغاثہ کے مؤقف کو اہمیت دی گئی لیکن دفاع کو نظر انداز کیا گیا۔

    درخواست میں مزید کہا تھا کہ استغاثہ کے خلاف مواد کے باوجود درخواست گزار کو شک کا فائدہ نہیں دیا گیا، الزام ثابت کیے بغیر سزا دی گئی۔ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لیے بے قاعدگیاں اور خلاف قانون پہلو موجود ہے۔

  • عدلیہ مخالف نعرے، چیف جسٹس نے ن لیگی رہنماؤں کی معافی مسترد کردی

    عدلیہ مخالف نعرے، چیف جسٹس نے ن لیگی رہنماؤں کی معافی مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کیس میں ن لیگ کے سابق ایم این اے شیخ وسیم اختر اور مقامی رہنما احمد لطیف کی غیر مشروط معافی مسترد کر دی ، چیف جسٹس نے کہا یہ وتیرہ بن گیا ہے پہلے گالیاں دوپھرمعافی مانگ لو۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بینچ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور عدلیہ کے خلاف نعرے لگانے سے متعلق توہین عدالت کیس کی سماعت کی ۔

    عدالت نے سپریم کورٹ نے (ن )لیگ کے سابق ایم این اے شیخ وسیم اختر کی توہین عدالت سزا کے خلاف اپیل اور قصور کے مقامی لیگی رہنما احمد لطیف کی اپیل خارج کر دی ۔

    دونوں لیگی رہنما عدالت سے معافی مانگتے رہے، عدالت نے دونوں رہنماؤں کی غیر مشروط معافی مسترد کردی اور توہین عدالت کی سزا اور نااہلی برقرار رکھی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غیر مشروط معافی پر سزا 6 ماہ سے ایک ماہ کردی، ججز اور عدلیہ کے خلاف نعرے لگائے گئے، دونوں رہنما ان پڑھ نہیں، بڑی ذمہ دار شخصیات تھیں، کیوں نہ دونوں شخصیات کی سزا بڑھا دیں ؟

    چیف جسٹس نے کہاکہہ وطیرہ بن گیا ہے پہلے گالیاں دو پھر معافی مانگ لو۔

    دونوں رہنما ان پڑھ نہیں، بڑی ذمہ دار شخصیات تھیں، کیوں نہ دونوں  کی سزا بڑھا دیں، چیف جسٹس

    کیل نے کہاکہ ہم نے پہلے بھی معافی مانگی اب بھی غیر مشروط معافی مانگتے ہیں، عدالت نے غیر مشروط معافی قبول کرنے کی استدعا مسترد کردی، دونوں رہنما اپنی ایک ماہ قید کی سزا پوری کرچکے ہیں۔

    عدالت نے کہاکہ سیاسی جماعت کے لیڈر کی نااہلی پر عدلیہ اور ججز کے خلاف نعرے لگائے گئے، ہائی کورٹ نے معافی کی وجہ سے ایک ماہ کی سزا دی ، ہائی کورٹ کے فیصلے میں ہماری مداخلت کی ضرورت نہیں۔

    واضح رہے کہ قصور میں مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی اور کارکنان کی جانب سے عدلیہ مخالف ریلی نکالی اور ٹائر جلائے، ریلی میں اعلیٰ عدلیہ اور ججوں کے اہل خانہ کے خلاف نازیبا اور غیراخلاقی زبان کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر گالیاں دی گئیں۔

    اس ریلی کی قیادت مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی وسیم اختر، رکن پنجاب اسمبلی نعیم صفدر اور ناصر محمود نے کی تھی۔

  • سپریم کورٹ نے نوازشریف کی درخواست ضمانت جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے نوازشریف کی درخواست ضمانت جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کردی ، نوازشریف نے میڈیکل گراؤنڈ کی بنیاد پر درخواست ضمانت دائر کر رکھی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا درخواست ضمانت کو اپنی باری پر سماعت کیلئے مقرر کیا جائےگا۔

    نواز شریف نے 6 مارچ کو درخواست ضمانت مقرر کرنے کی استدعا کی تھی، نوازشریف نے میڈیکل گراؤنڈ کی بنیاد پر درخواست ضمانت دائر کر رکھی ہے۔

    یاد رہے یکم مارچ کو سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی تھی، درخواست میں  موقف اختیار کیا گیا نوازشریف جیل میں قید ہیں، سنجیدہ نوعیت کی بیماریاں ہیں، میڈیکل بورڈ کے ذریعے نوازشریف کے کئی ٹیسٹ کرائے گئے۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کا سزامعطلی اور ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع

    درخواست میں کہا گیا تھا ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے طے کردہ پیرامیٹرکا غلط اطلاق کیا، ہائی کورٹ نے ضمانت کے اصولوں کومدنظر نہیں رکھا، عدالت نے فرض کرلیا نوازشریف کواسپتال میں علاج کی سہولتیں میسرہیں۔

    دائر درخواست کے مطابق درحقیقت نوازشریف کودرکارٹریٹمنٹ شروع بھی نہیں ہوئی، نوازشریف کوفوری علاج کی ضرورت ہے، علاج نہ کیا گیا تو صحت کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    خیال رہے 25 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پرضمانت پررہائی سے متعلق فیصلہ سنایا تھا، فیصلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • جہانگیرترین کی نظرثانی کی درخواست مسترد، نااہلی برقرار

    جہانگیرترین کی نظرثانی کی درخواست مسترد، نااہلی برقرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جہانگیرترین کی نظرثانی کی درخواست مسترد کردی اور نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا, چیف جسٹس نےکہاجودستاویزآپ سےپہلےمانگ رہےتھے، وہ بعدمیں ملی توکیانظرثانی کا جوازہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں جہانگیرترین نااہلی پر نظرثانی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا یہ دستاویزات پہلے کہاں تھے، ٹرسٹ ڈیڈ بھی آپ نے کیس کے آخری لمحے میں دی تھی۔

    وکیل جہانگیر ترین نے کہا دستاویزات ٹرسٹ کے تھے اور ٹرسٹی کے قبضےمیں تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس کی آرائش آُپ نے کی، سب کچھ آپ نے کیا تھا، آپ کے پاس 20 منٹ ہیں، جہانگیرترین کے وکیل کا کہنا تھا کہ دستاویزات عدالت میں پیش کررہاہو۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے جعلی قسم کی کمپنیاں بنالی اورلوگوں کو جھانسہ دیا، ایچ ایس بی سی کس نے بنائی، وکیل جہانگیرترین نے جواب دیا 2011ایچ ایس بی سی انٹرنیشنل ٹرسٹی نے بنائی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا سارا کا سارا فراڈ ہے ، آپ پبلک آفس ہولڈر تھے، آپ نے پیسے باہربھیج دئیے، جہانگیر ترین کے وکیل نے بتایا کہ سارا کا سارا پیسہ صاف اور ظاہری بھیجا گیا، لیگل چینل سے پیسہ باہر بھیجنا کوئی جرم نہیں، میرے موکل نے ٹرسٹ سے متعلق دستاویزات دی ہیں۔

    چیف جسٹس نے جہانگیر ترین کے وکیل سے مکالمہ میں کہا ہم مقدمے کو ازسرنونہیں سن رہے، مہربانی کرکے ازسرنومقدمہ نہ لڑیں اجازت نہیں ملے گی، پیسے چھپوانے کی ڈیوائس بنالی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا باہر فلیٹ آپ نے بنائے، تعمیر خود کرائی،رہتے وہاں ہیں، آپ نے ظاہری شناخت چھپا کر تفصیلات ظاہرنہیں کیں، ہم جہانگیر ترین کی ٹرسٹ ڈیڈ کو درست تسلیم نہیں کررہے۔

    چیف جسٹس نے واضح کیا کہ یادرکھیں ہم مقدمہ ازسرنو نہیں سن رہے، نئے دستاویزات نظرثانی میں دائر نہیں کیے جاسکتے، اب آپ جھانسہ دے رہے ہیں، کمپنی جہانگیرترین نے بنائی، کیا لندن فلیٹس کی آف شور کمپنی فرشتے بنا کر چلے گئے، ہم نے دستاویزات دینے کے لیے کئی مواقع فراہم کیے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے آپ خود اپنے دلائل میں واضح نہیں ہیں، کمپنی کس نے بنائی،ایچ ایس بی سی نے آف شورکمپنی بنائی، کمپنی کیسے بنتی ہے، اس کا پہلے بھی پوچھا تھا، ایک آفس ہولڈر نے دھوکا دہی کرکے پیسہ باہربھجوایا۔

    جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ پہلے آپ نے کہا تھا آپ کونہیں پتا، جس پر وکیل جہانگیرترین نے کہا ابھی میرے ذہن میں نام آیا توجسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے زیادہ پرجوش نہ ہوں، ایک بڑی رقم کو پاکستان سے باہر لے جایا گیا، عام شخص کی حیثیت سےآف شورکمپنی کےاثرات مختلف تھے،عدالت
    ایک آفس ہولڈر کے لیے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہے۔

    سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کی نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    جہانگیرترین کےوکیل نے ٹرسٹ ڈیڈ عدالت میں پیش کردی ، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہم یہ دستاویزآپ سےپہلےمانگ رہے تھے، جس پر وکیل جہانگیرترین کا کہنا تھا کہ ہم یہ دستاویزپہلے فراہم نہیں کرسکے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا محاورہ ہے جوتھپڑ لڑائی کے بعد یاد آئے وہ کسے مارنا چاہیے، دستاویز آپ کو بعد میں ملی تو کیا نظر ثانی کا جوازہے؟

    مزید پڑھیں : جہانگیرترین کی نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر

    یاد رہے 15 دسمبر 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ کوئی عوامی عہدہ یا پھر اسمبلی رکنیت رکھنے کے مجاز نہیں رہے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ جہانگیرترین کو دو نکات پر نااہل کیا گیا ہے، انہوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے جھوٹ بولا۔

    بعد ازاں جہانگیرترین نے نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائرکردی، جہانگیر ترین نے بیان حلفی بھی جمع کرایا تھا، جس میں موقف اختیار کیا تھا کہ کاغذات نامزدگی میں جان کراثاثے چھپانےکی کوشش نہیں کی۔ ٹرسٹ کے قیام کا مقصد بچوں کوبرطانیہ میں گھر کی فراہمی تھا۔

  • سپریم کورٹ نے عائشہ گلالئی کی نااہلی سے متعلق عمران خان کی درخواست مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے عائشہ گلالئی کی نااہلی سے متعلق عمران خان کی درخواست مسترد کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے عائشہ گلالئی کی نااہلی سے متعلق عمران خان کی درخواست مسترد کردی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی لوگ ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے عائشہ گلالئی کی نااہلی سے متعلق عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ بتائیں نااہلی کس بنیاد پر چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ عائشہ گلالئی نےپارٹی ہدایت کےباوجودووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کیا پارٹی چیئر مین نے ووٹنگ میں حصہ لیا؟

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا عائشہ گلالئی نے استعفی دے دیا ہے؟ جس کے جواب میں عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ نہیں، عائشہ گلالئی نے ایک پریس کانفرنس میں پارٹی چھوڑنے کا کہا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عائشہ گلالئی نے تحریری استعفیٰ نہیں دیا، سیاسی لوگ ایسے بیانات دیتے رہتے ہیں۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے عائشہ گلالئی کی نااہلی سے متعلق عمران خان کی درخواست مسترد کردی۔

    یاد رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔


    مزید پڑھیں :  عائشہ گلالئی کی نااہلی کے لیے عمران خان کی درخواست مسترد


    بعد ازاں عائشہ گلالئی کے وکیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نےعمران خان کاریفرنس خارج کردیا ہے اور الیکشن کمیشن کے فیصلےکو برقرار رکھا ہے۔

    وکیل عائشہ گلالئی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں کہا تھا 10اگست کونوٹس بھیجا تھا، نوٹس پر17اگست کوجواب دینا تھا جبکہ عمران خان نے نوٹس 18اگست کوعائشہ گلالئی کو بھیجا تھا۔

    انکا کہنا تھا کہ عمران خان نےکہا عائشہ گلالئی کاجواب نہیں ملا جوکہ جھوٹ تھا، کوئی صادق اورامین شخص اتنا جھوٹ نہیں بولے گا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں عائشہ گلالئی کو نا اہل کرنے سے متعلق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسترد کردی تھی۔


    مزید پڑھیں : تحریک انصاف میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں، عائشہ گلالئی


    واضح رہے کہ یکم اگست 2017 کو عائشہ گلالئی نے پریس کانفرنس کے دوران پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان پرسنگین الزمات عائد کیے تھے۔

    جس کے بعد 28 اگست کو پاکستان تحریک انصاف نے عائشہ گلالئی کی پارٹی رکنیت منسوخ کردی تھی جبکہ انہیں ڈی سیٹ کرانے کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔