Tag: SC restrains

  • سپریم کورٹ نے میشاء شفیع اورعلی ظفرکو غیر ضروری درخواستیں دائر کرنے سے روک دیا

    سپریم کورٹ نے میشاء شفیع اورعلی ظفرکو غیر ضروری درخواستیں دائر کرنے سے روک دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے گواہان پر بیان کے فوری بعدجرح کرنے کا ڈسٹرکٹ کورٹ کا حکم کالعدم قراردیتے ہوئے میشاء شفیع اورعلی ظفرکو غیر ضروری درخواستیں دائر کرنے سے روک دیا، عدالت نے ٹرائل کورٹ کوہدایت کی غیر ضروری التواء نہ دیتے ہوئے ٹرائل جلد مکمل کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ماڈل میشا شفیع بنام ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لاہور کیس کی سماعت ہوئی، سماعت کورٹ روم نمبر تین میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے کی۔

    دور ان سماعت وکیل میشا شفیع نے کہا کہ میشاءشفیع علی ظفر کے تمام گواہان کو نہیں جانتی، گواہان علی ظفر کے ملازمین ہیں، جس پر وکیل علی ظفر سبطین ہاشمی نے کہاکہ کوئی گواہ علی ظفر کا ملازم نہیں۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا علی ظفر کا میشاء شفیع کی درخواست پر بنیادی اعتراض کیا ہے؟ جس پر وکیل علی ظفر نے کہاکہ قانون کے مطابق گواہ کا بیان اور جرح ایک ہی دن ہوتی ہے۔

    جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ بیان اور جرح ایک دن ہونے کا اختیار عدالت کا ہے تو وکیل میشا شفیع نے کہا کہ گواہان کی لسٹ مل جائے تو ایک دن میں جرح کر لیں‌ گے ۔

    دور ان سماعت عدالت عظمیٰ نے میشا شفیع کی درخواست پر گواہان پر بیان کے فوری بعد جرح کرنے کا ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے علی ظفر کو سات دن میں گواہان کے بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ میشاء شفیع کے وکیل گواہان پر جرح کی تیاری سات روز میں مکمل کریں، تیاری کے بعد ایک ہی روز گواہان پر جرح مکمل کرنے کی کوشش کی جائے۔

    سپریم کورٹ نے میشاء شفیع اور علی ظفر کو غیر ضروری درخواستیں دائر کرنے سے روک دیا اور ریمارکس میں کہا ٹرائل کورٹ غیر ضروری التواءنہ دیتے ہوئے ٹرائل جلد مکمل کرے، سپریم کورٹ کا حکم فریقین کی رضامندی سے جاری کیا گیا ۔بعد ازاں عدالت نے درخواست نمٹا دی۔

  • سپریم کورٹ نے ریاستی اداروں کوممکنہ غیرآئینی اقدام سے روک دیا

    سپریم کورٹ نے ریاستی اداروں کوممکنہ غیرآئینی اقدام سے روک دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تمام ریاستی اداروں یا افراد کو موجودہ سیاسی صورتحال میں کسی بھی قسم کاغیرآئینی اقدام کرنے سے باز رہنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

    چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس ناصر الملک پر مشتمل چار رکنی بینچ نے سپریم کورٹ بار کے صدر کامران مرتضٰی کی درخواست کی سماعت کی، اس موقع پر عدالت کے نوٹس پر اٹارنی جنرل بھی موجود تھے۔

    کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ایک سیاسی جماعت انتخابات مین مبینہ دھاندلی کی بنیاد پر غیر آئینی مطالبات کر رہے ہیں اور لانگ مارچ اور دھرنے کی آڑھ میں غیر آئینی اقدامات کا بھی خدشہ ہے، اس لئے انہیں اور کسی بھی ریاستی ادارے کو ممکنہ ماورائے آئین ا قدام کرنے سے روکا جائے۔

    جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس موقع پر کہا کہ راستے بند کرنا کنٹینرز لگانااور احتجاج اور جائز مطالبات سے روکنا بھی تو بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ یہ اقدامات ان رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات سے پیدا ہونے والی صورت حال اور غیر آئینی مطالبات کئے پیش نظر عوام کی حفاظت کے لئے کئے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی کشیدگی کے باعث پہلے ہی تین اعشاریہ دو بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کن ممکنہ اقدامات کی بات کر رہے ہیں، واضح کریں آپ کی درخواست میں ابہام ہے جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ انہوں نے کور کمانڈرز کانفرنس میں سیاست پر ہونیو الی گفتگو پٹیشن میں اس ادارے کے حترام میں شامل نہیں کی اور اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ آئین کا احترام کریں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کامران مرتضیٰ ماضی کے تجربات کے پیش نظر بغاوت یا تین نومبر جیسے اقدام کے خدشے کی بات کر رہے ہیں، درخواست گزار نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس ضمن میں کوئی پیشگی حکم امتناعی جاری کرے۔

    جس پر عدالت نے اپنے مختصر حکم میں کہا کہ عدالت کسی بھی ادارے یا فرد کو حکم دیتی ہے کہ وہ موجودہ #صورت حال کو جواز بنا کر تمام ادراے یا افراد کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے باز رہیں اور تمام ادارے سندھ ہائی کورٹ کے تیرہ جولائی کے فیصلے کی روشنی میں اپنے فرائض ادا کریں، عدالت نے اٹارنی جنرل اور وفاق کہ نوٹس جاری کرکے مزید سماعت اٹھارہ اگست تک لے لئے ملتوی کر دی ہے۔