Tag: SC to hear

  • قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر بحال ہوں گے یا نہیں؟ درخواست سماعت کیلئے مقرر

    قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر بحال ہوں گے یا نہیں؟ درخواست سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی حلقہ این اے 265 پر دوبارہ انتخابات کے حکم کیخلاف اپیل پر سماعت 7 اکتوبر کو ہوگی ، الیکشن تربیونل نے قاسم سوری کا الیکشن کالعدم قرار دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی رہنما قاسم سوری کی الیکشن ٹربیونل کے حلقہ این اے 265 پر دوبارہ انتخابات کے حکم کیخلاف اپیل سماعت کیلئے مقررکردی گئی، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ 7 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔

    یاد رہے الیکشن ٹربیونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 سے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی کامیابی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا، الیکشن کالعدم ہونے پر قاسم سوری اسمبلی رکنیت اور ڈپٹی سپیکرشپ سے فارغ ہوچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں : قاسم سوری نے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    بعد ازاں سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے الیکشن ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹریبونل کے شواہد کا جائزہ نہیں لیا گیا، انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں سے میرے موکل سے منسوب نہیں ہو سکتی۔

    دائر درخواست میں استدعا کی تھی الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور اپیل کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

    خیال رہے قاسم سوری کی انتخابی کامیابی کو بی این پی کے نوابزادہ لشکر رئیسانی نے چیلنج کیا تھا اور 2018 انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

    لشکر رئیسانی ان 5 امیدواروں میں سے ایک تھے جنہوں نے این اے 265 سے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن انہیں قاسم سوری سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

  • نوازشریف کی ضمانت کی درخواست 19 مارچ کو چیف جسٹس خود سنیں گے

    نوازشریف کی ضمانت کی درخواست 19 مارچ کو چیف جسٹس خود سنیں گے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت سماعت کے لئے مقرر کردی گئی ، نوازشریف کی ضمانت کی درخواست 19 مارچ کوچیف جسٹس آصف کھوسہ خود سنیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آصف کھوسہ نے نواز شریف کی جلد سماعت کی درخواست پر منظوری دیتے ہوئے درخواست آئندہ ہفتےسماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت سماعت کے لئے مقرر کردی گئی، چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ 19 مارچ کو نوازشریف کی درخواست کی سماعت کرے گا، جسٹس سجادعلی شاہ اورجسٹس یحیٰ آفریدی بینچ میں شامل ہوں گے۔

    یاد رہے نوازشریف کی جانب سے صحت کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست دائرکی گئی تھی جبکہ درخواست ضمانت کی جلدسماعت کی الگ درخواست دائر کی تھی۔

    نواز شریف نے مؤقف اختیار کیا تھا کیس کی جلدسماعت کیلئے پہلے بھی درخواست دائر کی گئی تھی، پہلی درخواست میں 6 مارچ کو کیس مقرر کرنے کی استدعا کی گئی، عدالت میری 6مارچ کو کیس مقرر کرنے کی استدعا مسترد کرچکی ہے۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف نے درخواست ضمانت پر جلد سماعت کے لئے نئی درخواست دائرکردی

    درخواست میں کہا گیا تھا نوازشریف کی صحت پہلے سے خراب ہوچکی ہے، استدعا ہے کیس کو رواں ہفتے ہی سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔

    اس سے قبل 4 مارچ کو سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا تھا درخواست ضمانت کو اپنی باری پر سماعت کیلئے مقرر کیا جائےگا۔

    خیال رہے یکم مارچ کو سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی تھی۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • سپریم کورٹ میں  دیامربھاشااورمہمندڈیم  کیس کی سماعت  27فروری  کو ہوگی

    سپریم کورٹ میں دیامربھاشااورمہمندڈیم کیس کی سماعت 27فروری کو ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعیدکی سربراہی میں 5 رکنی خصوصی بنچ دیامربھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیس کی سماعت 27 فروری کو کرے گا، اٹارنی جنرل، چیئرمین ایف بی آر کو نوٹس جاری کردیےگئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں دیامربھاشااورمہمندڈیم تعمیر کیس سماعت کیلئےمقرر کردیا گیا ، جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں5رکنی خصوصی بنچ 27 فروری کو کیس کی سماعت کرے گا۔

    اٹارنی جنرل،چیئرمین ایف بی آرکونوٹس جاری کردیےگئے جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک، سیکریٹری خزانہ اور اطلاعات کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔

    یاد رہے 7 جنوری کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے دیامر بھاشا،مہمندڈیم کیس میں واپڈا سے ڈیم کی تعمیرکاحتمی شیڈول تحریری طورپرطلب کرلیا تھا اور گورنراسٹیٹ بینک کوڈونرزکی مشکلات حل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا وزارت آبی وسائل یاواپڈانہیں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ڈیم بنےگا۔

    مزید پڑھیں :وزارت آبی وسائل یاواپڈا نہیں سپریم کورٹ کی نگرانی میں ڈیم بنےگا، ‌‌‌‌چیف جسٹس

    چیئرمین واپڈا نے بتایا تھا جس تیزی سےکام ہورہا ہے مطمئن ہوں، 2024 میں بننے والا ڈیم2023 میں مکمل کریں گے، مارچ کے وسط تک ٹھیکیدار اپنا کام شروع کر دے گا، علاقہ عمائدین کے تعاون سے زمین میں کوئی مشکل نہیں، زمین کے حصول کے لئے 684 ملین روپے ادا کرچکے ہیں۔

    عالمی ماہرین نے دیامیر بھاشا ڈیم کی سائٹ تعمیر کے لیے کلیئر قرار دے دیا ہے، ڈیم کی تعمیر کا آغاز آئندہ سال جون سے ہوگا۔

    واضح رہے کہ 6 جولائی کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے احکامات اور فنڈز قائم کرنے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔

    جس کے بعد دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیموں کی تعمیر کے لیے کھولے جانے والے فنڈز میں پاکستانیوں کی جانب سے عطیات دینے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔

  • جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، آصف زرداری، فریال تالپور اور مراد علی شاہ کی نظرثانی درخواستیں خارج

    جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، آصف زرداری، فریال تالپور اور مراد علی شاہ کی نظرثانی درخواستیں خارج

    اسلام آباد :سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور اور مرادعلی شاہ کی نظرثانی درخواستیں خارج کردیں جبکہ بلاول بھٹوکونظرثانی کی اپیل دائرکرنےکی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی نظر ثانی کی درخواستوں پر سماعت کی۔

    سماعت میں آصف زرداری کےوکیل لطیف کھوسہ نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا فل کورٹ ریفرنس میں آپ نے تاریخی جملے ادا کیےتھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا فل کورٹ ریفرنس کی تقریرعدالتی مثال نہیں ہوتی، یہ مقدمے کی دوبارہ سماعت یا اپیل کی سماعت نہیں ہے۔

    فیصلےمیں کیاغلطی ہےبراہ راست اس کی نشاندہی کریں، جسٹس اعجازالاحسن کا لطیف کھوسہ سے مکالمہ

    جسٹس اعجازالاحسن نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ میں کہا فیصلےمیں کیاغلطی ہےبراہ راست اس کی نشاندہی کریں، نظرثانی کادائرہ ذہن میں رکھیں، نظر ثانی کے دائرے پر 50 سے زائد عدالتی فیصلے موجودہیں ، جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کسی بھی مقدمےمیں درجہ بدرجہ نچلی عدالت سے مقدمہ اوپر آتا ہے، اسلامی تصور بھی ہے کہ اپیل کاحق ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا نیب کےسامنےساراموادرکھاگیا، کہاگیا ریفرنس بنتا ہے تو بنائیں نہیں بنتا تو نہ بنائیں، ہم اس معاملے میں مداخلت کیوں کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا اس مقدمےمیں عدالت نےکوئی فیصلہ نہیں دیا، ہم نےتوصرف متعلقہ اداروں کوتفتیش کےلیےکہا، اس سے آپ کا اپیل کاحق کیسے متاثرہوا اور لطیف کھوسہ کو ہدایت کی کہ آپ اپنے قانونی نکات دیں، جائزہ لیں گے قانونی نکات نظرثانی کے دائرہ کار میں آتے ہیں یا نہیں۔

    لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا عام مقدمات میں سائلین کوقانونی راستہ کےتمام حق ملتےہیں، عام مقدمات میں نچلی عدالتوں کےفیصلوں کیخلاف اپیل کاحق ہوتاہے، اسلامی قانون میں بھی اپیل کاحق ہوتا ہے، عدالت  آرٹیکل 184/3 کے اطلاق پیرا میٹرز کا جائزہ لے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت کےسامنےایک معاملہ آیاجو متعلقہ فورم کو بھجوادیاگیا، عدالت نے اب کیا کر دیا جوآپ اپیل کاحق مانگ رہے ہیں،  جس پر  لطیف کھوسہ نے کہا فیصلےمیں کہاگیاسندھ حکومت جےآئی ٹی سےتعاون نہیں کررہی، تو  چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں توتفتیشی افسران کو سیکیورٹی دیناپڑی، جس خاتون کےنام پرجعلی اکاؤنٹ کھولاساری رات تھانےمیں رکھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ہم نےکہاگواہان کوہراساں نہ کیاجائے، رینجرزکی سیکیورٹی بھی مہیاکی گئی، تو لطیف کھوسہ نے سوال کیا کیاایف آئی اےتفتیش میں سست روی پرسوموٹولیاجاسکتاہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اربوں روپےکامعاملہ ہے، قلفی والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں برآمد ہو رہے ہیں، آپ عدالتی مؤقف سے متفق نہیں تویہ نظرثانی کی وجہ نہیں۔

      اربوں روپےکامعاملہ ہے، قلفی والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں برآمد ہو رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن 

    چیف جسٹس نے کہا نیب قانون کے مطابق مقدمے کی منتقلی کی درخواست دے سکتے ہیں، فیصلے میں جو لکھاہےاس کا پس منظر ہے، خطرے کے پیش نظر جے آئی ٹی اور گواہان کوسیکیورٹی کا حکم دیا،کیس کی منتقلی کے بعد بھی آپ کے پاس متعلقہ فورم موجود ہے، جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی افسران نے ہراساں کرنے کی شکایت نہیں کی، لاکھوں انکوائریاں زیرالتوا ہیں انہیں نہیں چھیڑا گیا اور عدالت نے بلاول کا نام جے آئی ٹی سے نکالنے کاحکم دیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا بینچ کے کسی ممبرکی یہ آبزرویشن ہوسکتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اعتراض تو فالودہ والے کو کرنا چاہیے، اعتراض کرنا چاہیے کہ میرے پیسوں کیخلاف کیوں تحقیقات کررہے ہیں، آپ تو اکاؤنٹس کی ملکیت سے انکار کررہے ہیں۔

    لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا نیب اور ایف آئی اے متوازی تحقیقات کررہے ہیں ، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا جعلی اکاؤنٹس میں ملٹی پل ٹرانزیکشن ہوئیں، ایک حدتک معاملہ نیب کو  بھجوا دیا ہے، ایف آئی اے تحقیقات باقی معاملے پر روک تو نہیں سکتا، آپ بری ہوگئے تو خوشی خوشی جائیں، پورا ملک مطمئن ہو جائے گا۔

    آپ تمام کیسوں میں سست روی کانوٹس لیں تو مجھےاعتراض نہیں،لطیف کھوسہ

    آصف زرداری کےوکیل کا کہنا تھا کہ آپ تمام کیسوں میں سست روی کا نوٹس لیں تو مجھے اعتراض نہیں ، جس پر چیف جسٹس نے کہا اس سوال پر تفصیل سے بحث ہوچکی ہے، آپ کے خلاف ابھی ریفرنس فائل نہیں ہوا تو لطیف کھوسہ نے کہا زرداری صاحب کی بہن کو روز اسلام آباد طلب کیا جاتا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کے مؤکل کو ریکارڈ مہیا کرنے کیلئے سیکڑوں خط لکھےگئے، آپ کے مؤکل نے ریکارڈ مہیا نہیں کیا، لطیف کھوسہ کا کہنا تھا جہانگیر ترین نے مانا نوکروں کے نام پر اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے اس کامطلب ہے غلطی کو چلنے دیا جائے۔

    لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب نے بینکنگ کورٹ کو مقدمے کی منتقلی کی درخواست کی ، آپ کے آرڈر سے میرے لیے تمام دروازے بند ہوگئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا نیب قانون کے تحت مقدمہ دوسری جگہ منتقل ہوسکتا ہے، آپ کے موکل ابھی ملزم ہیں پتہ نہیں کیوں یہ دلائل دے رہے ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا یہ وائٹ کالر کرائم کا مقدمہ ہے کوئی فوجداری مقدمہ نہیں، جب آپ کہتے ہیں اکاؤنٹ آپ کے مؤکل کے نہیں تو کیا پریشانی ہے، لطیف کھوسہ کا کہنا تھا میرے مؤکل کے سارے خاندان کو ہراساں کیا جارہاہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ای سی ایل سے متعلق یہ متعلقہ فورم نہیں، اربوں روپے ادھر ادھر ہوگئے کسی کو تو تفتیش کرنی ہے، اس لیے ہم نے معاملہ نیب کے سپرد کیا ہے۔

    فریال تالپورکے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل


    فریال تالپورکے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا ہمیں توقع ہے کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نیا ہوگا، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا  تھا کہ 7 جنوری کا فیصلہ عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے، متفق ہوں نظر ثانی میں دائرہ محدود ہوتا ہے، غلطی کی نشاندہی کروں گا، جو معاملے میں سطح کے اوپر ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کیا جے آئی ٹی کو منی ٹریل کی کھوج لگانے سے منع کر دیاجاتا؟ غیر قانونی رقم کو مختلف ذرائع سےجائز پیسہ بنانے کی کوشش کی گئی، غیرقانونی پیسے سے جائیدادیں، شیئرز اور بہت کچھ خریدا گیا، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا میں جے آئی ٹی کے اختیار پر بحث کرنا چاہتا ہوں،  جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید کہا جے آئی ٹی کو صرف جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش کے لیے کہاگیا تھا، شاید آپ نے سردار لطیف کھوسہ کے دلائل کی نقل کی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فاروق ایچ نائیک صاحب مجھے بڑی حیرانی ہے، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلے میں کیس کے میرٹس  پر تو بحث کی ہی نہیں،  تمام فریقین متفق تھے معاملہ نیب کو بھجوایا جائے، جسٹس فیصل عرب  نے کہا  ہم نے صرف یہ کہا معاملے کی تفتیش کی جائے۔

    فاروق نائیک نے کہا کراچی سے مقدمہ راولپنڈی منتقل کیوں کیاگیا وجہ سمجھ نہیں آرہی، وقوعہ کراچی کا ہے تو تفتیش وہیں ہونی چاہیے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے فیصلے میں کہاگیا ہے اسلام آباد میں بھی تفتیش ہوسکتی ہے، ایک تھانیدار اپنے تھانے میں کہیں بھی بیٹھ کر تفتیش کرسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا نیب کے اختیارات پورے ملک میں ہیں، ہم نے کہا کہ اسلام آباد سمیت کہیں بھی تفتیش ہوسکتی ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ   آپ اس مقدمے کو سندھ سے کیوں نکال کرلے آئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا جو آپ کی پریشانی ہے وہ اس فیصلے میں نہیں۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا  ملزم تو عدالت کا لاڈلہ بچہ ہوتاہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ یہاں تو ضدی بچہ بناہوا ہے، ابھی تو آپ ملزم بنے ہی نہیں۔

    سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری، فریال تالپور،مرادعلی شاہ ، سندھ حکومت اور اومنی گروپ کی نظرثانی درخواستیں خارج کردیں جبکہ بلاول بھٹوکو نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کی اجازت دے دی۔

    چیف جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے 99.9 فیصددرخواستیں مستقبل کے خدشات پرمبنی ہیں، ہم سےوہ باتیں منسوب کی گئیں جوہم نےنہیں کیں۔

    یاد رہے 28 جنوری کو ججعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی تھی ۔

    مزید پڑھیں : جعلی اکاؤنٹس کیس ، آصف زرداری، فریال تالپور نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا

    جس میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے بینکنگ کورٹ میں حتمی چالان داخل کرنےمیں ناکام رہا، قانون کی عدم موجودگی میں مختلف اداروں کی جےآئی ٹی نہیں بنائی جاسکتی، لہذا سپریم کورٹ 7جنوری کے فیصلے کو ری وزٹ اور نظر ثانی کرے اور حکم نامے پر حکم امتناع جاری کرے۔

    بعد ازاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کی تھی، بلاول بھٹو نے  اپیل  میں جےآئی ٹی کی تشکیل،حساس اداروں کے ممبران کی شمولیت پر اعتراضات اور سپریم کورٹ کے صوابدیدی اختیار پر بھی سوال اٹھایا تھا۔

    واضح رہے 7 جنوری کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں چیف جسٹس نے جعلی بینک اکاؤنٹس کامعاملہ نیب کو بھجواتے ہوئے مراد علی شاہ اور بلاول بھٹو کا نام جے آئی ٹی رپورٹ اورای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔

    خیال رہے جعلی بینک اکاؤنٹ کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ میں بلاول ہاؤس اور زرداری خاندان کے دیگر اخراجات سے متعلق انتہائی اہم اور ہوشربا انکشافات سامنے آئے تھے کہ زرداری خاندان اخراجات کے لیے جعلی اکاؤنٹس سے رقم حاصل کرتا رہا۔

  • سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا

    سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا ، چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں، پاکستان، مسلح افواج، آئین اور عوام اتنے کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا 8 سال سے یہ کیس التوا کا شکار ہے، درخواست گزارکہاں ہیں، درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں۔

    درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں، چیف جسٹس کے ریمارکس

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کیس پڑھ کرحیرت ہوئی،حسین حقانی کی گرفتاری یاحوالگی ریاستی معاملہ ہے، سپریم کورٹ کاکیس سےاب کوئی تعلق نہیں رہا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت نےاس کیس میں ایف آئی آردرج کی تھی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا تواب یہ ریاست کاکام ہے، ایف آئی آر کے مطابق کام کرے، آرٹیکل6 کا مقدمہ چلاناہے تو چلائیں، سپریم کورٹ کیس میں کہاں آتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی کا کہنا تھا کہ عدالت سےاتفاق کرتاہوں ریمارکس کیساتھ کیس نمٹادیں ۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ  قوم، حکومت اورفوج اتنی کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائیں، افواج پاکستان، جمہوریت اور آئین بہت مضبوط ہیں، اس قسم کے میموز سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    پاکستان، مسلح افواج، آئین اور عوام اتنے کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میموسےمتعلق درخواستیں عجلت میں دائرکی گئیں، حسین حقانی کی گرفتاری اورٹرائل ریاست کامعاملہ ہے، ریاست چاہے تو حسین حقانی کیخلاف کاروائی کرسکتی ہے، اس معاملےمیں ایف آئی آردرج ہوچکی ہے اور ایک کمیشن2012میں معاملےکی رپورٹ دےچکاہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا کیا ریاست اب بھی میموسے خوف محسوس کرتی ہے، حسین حقانی پر کچھ اور الزامات بھی ہیں ، گزشتہ سماعت پرنیب کو حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئےکہاگیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے میموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹا دیا۔

    یاد رہے 9 فروری کو سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا تھا اور اٹارنی جنرل، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کئے گئے تھے۔

    واضح رہے فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس میں ملوث امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے جبکہ حسین حقانی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا

    خیال رہے میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    حسین حقانی میمو گیٹ کے مرکزی ملزم ہیں اور پیپلز پارٹی کر دور حکومت میں امریکن سفیر رہے چکے ہیں۔

    حسین حقانی پرالزام ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

    جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا، رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔

  • سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر سماعت 29 جنوری کو ہوگی

    سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل پر سماعت 29 جنوری کو ہوگی

    اسلام آباد:سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی اپیل سماعت کے لیے مقرر کرلی، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 29جنوری کو نظرثانی درخواست کی سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی سزاکالعدم کرنے کے خلاف اپیل سماعت کے لیے مقرر کردی اور تین رکنی خصوصی بنچ تشکیل دے دیا، سپریم کورٹ کےفیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل پرسماعت انتیس جنوری کو ہوگی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 29جنوری کو نظرثانی درخواست کی سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہیں۔

    یاد رہے نومبر 2018 میں سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے خلاف توہین مذہب کیس کے مدعی قاری عبدالسلام نے نظرثانی درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تفتیش کے دوران آسیہ بی بی نے جرم کا اعتراف کیا، اس کے باوجود ملزمہ کو بری کردیا گیا، سپریم کورٹ سے استدعا ہے آسیہ بی بی سے متعلق بریت کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر

    واضح رہے 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت کے خلاف آسیہ مسیح کی اپیل پر فیصلہ سناتے چیف جسٹس نے کلمہ شہادت سے آغاز کیا اور لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے آسیہ مسیح کوبری کردیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ برداشت اسلام کا بنیادی اصول ہے، مذہب کی آزادی اللہ پاک نے قران میں دے رکھی ہے، قرآن مجید میں اللہ نے اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے پست رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ نے اعلان کررکھا ہے کہ میرے نبی کا دشمن میرا دشمن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی لفظ براہ راست یا بلاواسطہ نہ بولا جاسکتا ہے اور نہ ہی لکھا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بری کردیا

    فیصلے کے مطابق 1923 میں راج پال نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی، غازی علم الدین شہد نے راج پال کوقتل کیا، مسلمان آج بھی غازی علم الدین شہید کو سچا عاشق رسول مانتے ہیں۔ 1996میں ایوب مسیح کو گرفتارکیا گیا ، مقدمہ سپریم کورٹ آیا تو پتہ چلا اس کے پلاٹ پر قبضے کے لیے پھنسایا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ نے کہا جب تک کوئی شخص گناہ گار ثابت نہ ہو بے گناہ تصور ہوتا ہے، ریاست کسی فرد کوقانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے سکتی، توہین مذہب کا جرم ثابت کرنا یا سزا دینا گروہ یا افراد کا نہیں ریاست کااختیارہے۔

  • ایون فیلڈریفرنس:  نوازشریف ،مریم نواز کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل مسترد

    ایون فیلڈریفرنس: نوازشریف ،مریم نواز کی سزا معطلی کیخلاف نیب کی اپیل مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ایون فیلڈریفرنس میں نوازشریف ،مریم نوازکی ضمانت اورسزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم صادر کردیا، جسٹس آصف سعید نے کہا ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے پر نیب نے دوبارہ اپیل کی تو دیکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور صفدر کی ایوان فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت کی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا آپ ضمانت منسوخ کرانے کیلئے آئے ہیں، وہ نکات بتائیں جن کی بنیاد پر ضمانت منسوخ کرانا چاہتے ہیں، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کیا معطلی کے معاملے میں میرٹ پر بات نہیں ہوسکتی۔

    [bs-quote quote=” وہ نکات بتائیں جن کی بنیادپرضمانت منسوخ کراناچاہتےہیں؟” style=”style-7″ align=”left” author_name=”چیف جسٹس کا نیب پراسیکیوٹرسےاستفسار”][/bs-quote]

    جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے ہائی کورٹ کافیصلہ سزا معطلی اورضمانت پر ہے، ضروری  نہیں کہ ہائی کورٹ کافیصلہ اپیل پر بھی اثرانداز ہو، جہاں تک میرٹ کی بات ہے وہ ہم دیکھ لیں گے ، آپ بتائے ضمانت منسوخی کن نکات پر کی جائے۔

    پراسیکیوٹر نیب نے کہا ضمانت صرف سخت حالات کے باعث ہوسکتی ہے ، ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں سخت حالات کا ذکر نہیں کیا، جس پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس دیے مسئلہ کیا ہے ، کیا نواز شریف کو بری کردیا گیا ہے، وکیل نیب کا کہنا تھا کہ فیصلہ تقریبا بری کیے جانے کے مترادف ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہہ چکے ہیں عبوری حکم کی آبزرویشنزکا اصل اپیل پر اطلاق نہیں ہوتا ، جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا ایک فریق تواس وقت بھی جیل میں ہے، دوسرے فریق نے ضمانت کو کیسے غلط استعمال کیا بتادیں، آپ کےمؤقف کے مطابق ہائی کورٹ نے فیصلہ غلط دیاہے، آپ  وہی غلطی ہم سے کراناچاہتے ہیں۔

    عدالت نے کہا ضمانت ہوجائےاور سپریم کورٹ اتفاق نہ بھی کرتی ہوتو وہ مداخلت نہیں کرتی،چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے ضمانت دینے کے اصول الگ اور ضمانت منسوخ کے الگ ہیں، اگر سمجھتے ہیں ضمانت منسوخ کی جائے تو واضح اصولوں پر بتادیں۔

    سپریم کورٹ نے نیب کی اپیل مسترد کرتے ہوئے نوازشریف،مریم،کیپٹن صفدرکی ضمانت،سزامعطلی کا ہائی کورٹ کافیصلہ برقرار رکھا ، جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں عدالتی آبزرویشن اور عبوری حکم فیصلے پر اثرانداز نہیں ہوتی، ضروری نہیں عدالتی آبزرویشن حتمی فیصلے میں بھی شامل ہو۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا کہنا تھا کہ ضمانت میں ہائی کورٹ کے اختیار کا کیا غلط استعمال ہوا بتائیں،ضمانت دیتےوقت اختیارات کاناجائزاستعمال نہیں ہوا، شفاف ٹرائل کابنیادی حق یقینی بنائیں گے، وائٹ کالرکرائم کے خلاف ہی نیب کا قانون بنایاگیا تھا۔

    [bs-quote quote=”ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے پر نیب نے دوبارہ اپیل کی تو دیکھیں گے” style=”style-7″ align=”left” author_name=”جسٹس آصف سعیدکھوسہ”][/bs-quote]

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے  وائٹ کالرکرائم کی روک تھام کیلئےالگ قانون بناناہوگا، حکومت نےوائٹ کالرکرائم کی روک تھام کیلئےکوئی کام نہیں کیا۔

    جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا کہ وائٹ کالرکرائم کےسدباب کیلئےہی نیب قانون بناتھا، نیب کےقانون پرسختی سےعملدرآمدکراناہوگا، چین میں کرپشن پر سزائے موت دی جاتی ہے، چین میں سمری ٹرائل کےبعدفائرنگ اسکواڈکےسامنےکھڑاکیاجاتاہے۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے ریمارکس میں کہا اسلام آبادہائی کورٹ کافیصلہ عبوری تھا، ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آنے پر نیب نے دوبارہ اپیل کی تو دیکھیں گے۔

    مزید پڑھیں : ایوان فیلڈ ریفرنس میں نوازشریف، مریم اور صفدرکی سزامعطلی، نیب اپیل سماعت کیلئے مقرر

    یاد رہے 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    جس کے بعد نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انیس ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی ، جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

    اپیل میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ہی حکم نامے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی، لندن فلیٹس کی مالیت کے تخمینے کے حوالے سے ہائی کورٹ کی آبزرویشنز حقائق کے منافی ہیں، ہائی کورٹ نے لندن فلیٹس کی مالیت سے متعلق سوال ہی نہیں کیا۔

    واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو10 مریم نواز کو7 اور کیپٹن رصفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

    ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • نوازشریف اورمریم نواز کی سزامعطلی کے خلاف نیب کی اپیلیں قابل سماعت قرار

    نوازشریف اورمریم نواز کی سزامعطلی کے خلاف نیب کی اپیلیں قابل سماعت قرار

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے نوازشریف اورمریم نوازکی سزامعطلی کے خلاف نیب کی اپیلوں کو قابل سماعت قراردے دیا اور فریقین کو وکلا معروضات آج ہی جمع کرانے کی ہدایت کردی ، چیف جسٹس نے کہا دیکھیں گے کہ ان اپیلوں پر سماعت کے لیے کیا کوئی لارجر بینچ دیاجائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے نوازشریف،مریم نوازاور صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیلوں پرسماعت کی، سماعت میں عدالت نے نیب کی اپیلوں کو قابل سماعت قرار دے دیا، چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا آپ کی ضمانت والافیصلہ قائم رکھتے ہیں، درخواست قابل سماعت قرار دے کر ضمانت برقراررکھیں تو سزا معطلی دیکھ لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا دیکھ لیتے ہیں معاملے پر لارجربینچ بنانا ہے یا نہیں، سوال ہے کہ معاملہ صرف ضمانت کا نہیں بلکہ سزا معطلی کا بھی ہے، دیکھنا ہے سماعت سے پہلے سزا معطلی سے کیس کا میرٹ تو متاثر تو نہیں ہوگا،ابھی ہم نے نیب کولیو گرانٹ نہیں کی۔

    [bs-quote quote=”دیکھیں گے کہ ان اپیلوں پر سماعت کے لیے کیا کوئی لارجر بینچ دیاجائے.” style=”default” align=”left” author_name=”چیف جسٹس”][/bs-quote]

    جسٹس میاں ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ خواجہ حارث کا جواب کافی مفصل ہے، دیکھیں گے ان اپیلوں پر سماعت کے لیے کیا کوئی لارجر بینچ دیاجائے، دونوں فریقین کے وکلا معروضات آج ہی عدالت میں جمع کرائے۔

    چیف جسٹس نےخواجہ حارث سےسوال کیا کہ آپ جسٹس آصف سعید کے فیصلے پر  انحصار کر رہے ہیں، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میں صرف حوالہ دے رہا ہو انحصار نہیں کر رہا ہوں، جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا اگر جسٹس آصف سعیدکولارجر بینچ میں شامل کریں تو اعتراض تو نہیں ہوگا۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ قانونی نکات طے کرنے کی حدتک کوئی اعتراض نہیں، جسٹس کھوسہ ریمارکس دےچکےہیں اس حوالے سے اعتراض ہوسکتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا جسٹس کھوسہ سے توابھی پوچھیں گے بینچ میں شامل ہوناچاہتےہیں یانہیں، یہ بھی دیکھناہے لارجربینچ بنتا ہے یا نہیں فیصلہ تو بعد میں کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا سامنے آپ آتے ہیں تو ڈاکٹرکے مطابق دھڑکن تیز ہوجاتی ہے، فی الحال برطانیہ جارہا ہوں واپسی تک کچھ طبیعت بھی بہتر ہوجائے گی، واپس آکرکیس تسلی سے سنیں گے،عدلیہ سے متعلق منفی رائے درست نہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نوازشریف،مریم نواز اور صفدر کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیلوں پرسماعت 12 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے دو روز قبل سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز نے ایون فیلڈریفرنس کیس میں ضمانت پر رہائی کے فیصلے سے متعلق تحریری جواب عدالت میں جمع کرادیا ، جس میں نیب کی ضمانت منسوخی کی اپیل کومسترد کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

    نوازشریف کا جواب میں کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ کےفیصلےمیں حقائق کو مدنظرنہیں رکھا گیا، فیصلےمیں شواہدکےبغیرنوازشریف کولندن فلیٹس کامالک ٹھہرایا، بیٹوں کے زیر کفالت ہوتے ہوئے فلیٹس خریدنے کا الزام اخذ کیا گیا اور نیب نےبیٹوں کے زیر کفالت ہونےکےشواہدپیش نہیں کیے گئے۔

    مزید پڑھیں : ایون فیلڈریفرنس میں سزامعطلی ،نواز شریف اور مریم نواز کا تفصیلی جواب سپریم کورٹ میں جمع

    دوسری جانب مریم نواز نے جواب میں کہا تھا کہ لندن فلیٹس سےمتعلق میرےخلاف شواہدنہیں ، لندن فلیٹس کی ملکیت ثابت کیے بغیر مجھ پرارتکاب جرم کاسوال نہیں اٹھتا، ملکیت ثابت ہوبھی جائےتب بھی جرم ثابت کرنےکیلئےتقاضےنامکمل ہیں۔

    گزشتہ سماعت پر اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اثاثے درختوں پر اگے تھے یا من وسلویٰ اترا تھا ،پاناما اسکینڈل کو ٹرائل کورٹ میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، کیا ضمانت دینے کا فیصلہ ایسے ہوتا ہے؟ بظاہر ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

    اس سے قبل سماعت میں عدالت نےنوازشریف اورمریم نوازکونوٹس جاری کیاتھا، چیف جسٹس نے کہا تھا کیپٹن ریٹائر صفدر کو نوٹس جاری نہیں کررہے، ہائی کورٹ نےاپنے فیصلے میں غلطی کی ہے،سزا کی معطلی کا فیصلہ دو سے تین صفحات پر ہوتا ہے ، تینتالیس صفحات کا فیصلہ لکھ کر پورے کیس پر رائے کا اظہار کیا گیا۔

    مزید پڑھیں :  شریف خاندان کی سزائیں معطلی کیس میں ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، چیف جسٹس

    نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے انیس ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ، جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

    خیال رہے 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کےدو رکنی بینچ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے مختصر فیصلے میں نوازشریف، مریم اور صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو دس مریم نواز کو سات اور کیپٹن ر صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔

    ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔