Tag: SC

  • سپریم کورٹ نے شاہد مسعود پر 3ماہ کے لئے  پروگرام کرنے پر پابندی عائد کردی

    سپریم کورٹ نے شاہد مسعود پر 3ماہ کے لئے پروگرام کرنے پر پابندی عائد کردی

    اسلام آباد : زینب قتل کیس میں سپریم کورٹ نے شاہد مسعود پر 3ماہ کے لئے  پروگرام کرنے پرپابندی عائد کردی گئی اور غیرمشروط معافی نامہ جمع کرانے کی ہدایت بھی کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب کے قاتل سے متعلق دعوؤں کی سماعت کی، اس موقع پر ڈاکٹرشاہد مسعود بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹرشاہد مسعود پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاہد مسعود کی ہمت کیسے ہوئی سماعت کے بعد پروگرام میں میرے لاء افسر کی تضحیک کرے، ان کے  پروگرام کی ریکارڈنگ چلاتے ہیں، پروجیکٹر لگوائیں، توہین عدالت میں چارج کروں گا، میں نے توہین عدالت میں چارج کرنا ہے تو اسکرین لگوالیتے ہیں۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کتنے دن آپ کا پروگرام چلتا ہے، ہم نے آپ سے محبت کی اسی لیےعزت سے پیش آرہے ہیں، وکیل صاحب انہیں سمجھائیں عزت کرانی بھی پڑتی ہے، ایک آدمی جو جھوٹ بول رہا ہو اور عدالت میں جھوٹ بولے، ایسے شخص کے کیس کو سن لیتے ہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ زینب کے وکیل آج ہائی کورٹ میں ڈی این اے سے متعلق بات کریں گے، جس پر عدالت نے کہا کہ انہوں نے بازو اوپر کرکے بات کی‘ ہم نے پہلے ان کو دیکھنا ہے۔

    سپریم کورٹ  میں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے شاہد مسعود پر 3ماہ کے لئے پروگرام کرنے پر پابندی عائد کردی اور کہا کہ   غیرمشروط معافی مانگنے پر 3ماہ آف ایئر کرنے کی سزا سناتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ شاہد مسعود نے آواز اونچی کرکے کہا تھا غلط ہوا تو پھانسی دی جائے،  چلے ہم  پھانسی نہیں دیتے اپنی سزا آپ خود تجویزکرلیں، جس پر ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ دل سے معافی مانگتا ہوں،ایک ماہ کیلئے آف ایئر ہوجاؤں گا۔

    عدالت نے حکم دیا کہ ایک نہیں تین ماہ کیلئے پروگرام بند ہے، غیرمشروط معافی نامہ جمع کرائیں۔

    گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ میں اینکرپرسن شاہد مسعود کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ شاہد مسعود نے تحریری جواب میں معافی نہیں مانگی، قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔


    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ کا ڈاکٹر شاہد مسعود کیخلاف کیس چلانے کا فیصلہ


    یاد رہے کہ  چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اب معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، وقت گزرچکا۔

    اس سے قبل ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب قتل کیس سے متعلق اپنے لگائے گئے الزامات پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے تحریک جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا۔

    واضح رہے کہ قصور کی ننھی زینب قتل کیس میں اینکر شاہد مسعود کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس کے ملزم عمران 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ عالمی گروہ کا کارندہ ہے، جس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی تھی۔

    یکم مارچ کو ڈاکٹرشاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں میں اینکر کے 18 الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرم کے 37 بینک اکاؤنٹس ثابت نہ ہوسکے اور اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دے دیا

    سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق خفیہ ادارے کی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی. دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل نے  خفیہ ادارے کی 46 صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کی، جسے سپریم کورٹ نے غیرتسلی بخش قرار دے دیا.

    دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کو نہ تو خادم حسین رضوی کے ذریعہ معاش کا علم ہے، نہ ہی اکاؤنٹس کی تعداد کا، اس رپورٹ سے زیادہ معلومات صحافی بتا سکتے ہیں.

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ رپورٹ میں واضح نہیں کہ خادم حسین رضوی نامی یہ آدمی کون ہے، کیا کرتا ہے، اس کا ذریعہ آمدن کیا ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ رپورٹ سے مطمئن ہیں؟ اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئیں، آگ لگانا آسان ہے، تعمیر کرنا بہت مشکل کام ہے.


    فیض آباد انٹرچینج پردھرنا ختم‘ نظامِ زندگی بحال


    جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ آپ کو اس کے اکاؤنٹس تک کا نہیں معلوم۔ اس سے زیادہ تو کوئی صحافی بتا دیتا، خوف آنے لگا ہے کہ ملک کی بڑی ایجنسی کا یہ حال ہے۔ دھرنا از خود نوٹس کیس کی سماعت دو ہفتوں کےلیے ملتوی کر دی گئی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ برس نومبر میں مختلف مذہبی جماعتوں نے خادم حسین رضوی کی سربراہی میں حلف نامے میں ختم نبوت کی شق میں متنازع ترمیم کے خلاف فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا، جو 22  روز جاری رہا۔ اس دوران آپریشن کے دوران شدید کشدیدگی دیکھنے میں آئی اور ملک بھر میں  ٹی وی چینلز کی نشریات بند کر دی گئیں۔ بعد ازاں فوج کی ثالثی کے بعد مظاہرین نے اپنا دھرنا ختم کیا۔


    فیض آباد دھرنا: وزیراعظم کی درخواست پر آرمی چیف نے ثالثی کا کردارادا کی


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر بننے کی اہلیت نہیں‌ رکھتے: سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر بننے کی اہلیت نہیں‌ رکھتے: سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف دائر درخواست میں‌ ان کی اہلیت کو چیلنج کیا گیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق آئینی درخواست میں‌ صادق سنجرانی، سیکریٹری سینیٹ الیکشن کمیشن اوروفاق کو فریق بنایا گیا ہے. درخواست میں‌ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ صدر کی عدم موجودی میں صادق سنجرانی قائم مقام صدر کی اہلیت نہیں رکھتے.

    درخواست گزار کا موقف ہے کہ صادق سنجرانی کی اس وقت عمرلگ بھگ 40 برس ہے، جب کہ آئین میں صدر بننے کے لیے کم از کم عمر 45 سال ہونی چاہیے، صدر پاکستان کی عدم موجودی میں‌ اگر صادق سنجرانی نے حلف اٹھایا، تو آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے. اس لیے صادق سنجرانی کو قائم مقام صدر کی ذمے داریاں نبھانے سے روکنے کا اہتمام کیا جائے.

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت واضح کرے کہ صدرمملکت کی عدم موجودگی میں یہ ذمے داری کون نبھائے گا. آرٹیکل 41 کے تحت چئیرمین سینیٹ کا انتخاب دوبارہ کیا جائے۔


    حکومتی اتحاد کو شکست: میرصادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ، سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین منتخب


    یاد رہے کہ 12 مارچ کو معنقد ہونے والے سینیٹ انتخابات میں میر صادق سنجرانی 57 ووٹ لے کر چیئرمین اور سلیم مانڈوی والا 54 ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے تھے. سینیٹ انتخابات میں حکومتی اتحاد کو شکست سامنا کرنا پڑا تھا۔ صادق سنجرانی کے مقابلے میں راجا ظفر الحق 46 ووٹ لے سکے تھے۔

    واضح رہے کہ میرصادق سنجرانی 14اپریل 1978 کوبلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم نوکنڈی میں حاصل کی، بعد ازاں انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کیا.

    ان کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے فوری بعد ان کی عمر سے متعلق یہ آئینی بحث چھڑ گئی تھی. اب اس ضمن میں‌ درخواست دائر کی گئی ہے، جب میں‌ ان کی اہلیت کو چیلنج کیا گیا ہے.


    میرصادق سنجرانی : شکایات سیل کے سربراہ سے چیئرمین سینیٹ تک


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ہرشخص کوفیصلے پر تنقید کا حق حاصل ہے، نوازشریف نے کوئی حد پار نہیں کی،چیف جسٹس

    ہرشخص کوفیصلے پر تنقید کا حق حاصل ہے، نوازشریف نے کوئی حد پار نہیں کی،چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، سعد رفیق اور دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست خارج کر دی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ہرشخص کو فیصلے پر تنقید کاحق حاصل ہے، نوازشریف نے حد سے تجاوز نہیں کیا مگر کہیں اور حد کراس کی توہم دیکھ لیں گے۔

    تفصیالت کے مطاطق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نوازشریف ، خواجہ سعد رفیق اور دانیال عزیز کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

    سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک سیاسی بیان ہے اور قانون کےمطابق عدالتی فیصلوں پر ہر آدمی کو تبصرہ کرنے کاحق حاصل ہے۔

    درخواست گزار احسن الدین نے کہا کہ عدالتی تحمل کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ درگزر کرنا اور عدالتی تحمل بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ہمارےعدالتی تحمل کی حد آپ سے زیادہ ہے۔

     ،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے جومواد ہمارے سامنے پیش کیا گیا وہ توہین عدالت ہے، اس معاملے میں نےکوئی حدپارنہیں کی، کہیں اور حد کراس کی توہم دیکھ لیں گے، اس لیے توہین عدالت کی درخواست خارج کی جاتی ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ خواجہ سعد رفیق کی تقاریر دیکھ لیں ، انھوں نے کہا کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے، صادق اور امین کا تماشا لگا تو معاملہ بہت دورتک جائیگا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ایسے بیانات کو ہم درگزر کررہے ہیں، کئی چیزیں اس سے بڑی ہوئی ہیں۔

    چیف جسٹس نے نواز شریف خواجہ سعد رفیق کے خلاف توہین عدالت کی تمام درخواستیں خارج کردیں۔

    خیال رہے کہ پاکستان ڈیموکرٹک اینڈجسٹس پارٹی کی جانب سےنوازشریف کےخلاف توہین عدالت کی درخواست دائرکی گئی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دہری شہریت کیس ،5 نو منتخب سینیٹرز کی قسمت کا فیصلہ آج ہوگا

    دہری شہریت کیس ،5 نو منتخب سینیٹرز کی قسمت کا فیصلہ آج ہوگا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں دہری شہریت کیس میں پانچ نو منتخب سینیٹرز کی قسمت کا فیصلہ آج ہوگا، چوہدری سرور اور سعدیہ عباسی سمیت پانچ نو منتخب سینیٹرز کو عدالت نے عارضی ریلیف دے کر کامیابی کا نوٹی فیکیشن جاری کرنے کی اجازت دی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں دہری شہریت کیس کی سماعت آج ہوگی، عدالت پی ٹی آئی کے چوہدری سرور، نون لیگ کے تین سینیٹر ، وزیراعظم کی بہن سعدیہ عباسی، نزہت صادق اور ہارون اختر جبکہ بلوچستان سے منتخب آزاد سینیٹر کہدہ بابر کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔

    گذشتہ دس مارچ کی سماعت پر نو منتخب سینیٹرز کو عارضی ریلیف ملا تھا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو عارضی نوٹی فکیشن جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور اور کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی بنچ تشکیل دیدیا تھا۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار نے چوہدری سرور سے کہا تھا کہ بیان حلفی دیں آپ دوبارہ برطانوی شہریت بحال نہیں کرائیں گے، دوبارہ غیرملکی شہریت بحال کرائی تو نااہلی بنتی ہے۔


    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ کا دوہری شہریت رکھنے والے 5 نومنتخب سینٹرز کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حکم


    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے تھے کہ پانچ سینیٹرز کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی، بعد میں نااہل قرار پائے تو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کا کیا بنے گا؟ جس پر چیف جسٹس نے کہا تھا پیچیدہ آئینی نقطہ ہے، حتمی فیصلہ لارجر بنچ کرے گا۔

    یاد رہے کہ 5 مارچ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سینیٹ کے چار نو منتخب ارکان کی کامیابی کا نوٹی فکیشن نہ جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ کیس کے فیصلے تک الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری نہ کرے۔

    انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ سینیٹرز کو پہلے مطمئن کرنا ہوگا کہ وہ دہری شہریت ترک کر چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ نومنتخب سینیٹرز میں سے چوہدری سرور کا تعلق پاکستان تحریک انصاف جبکہ ہارون اختر، نزہت صادق اور سعدیہ عباسی کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور چاروں افراد پنجاب سے سینیٹرز منتخب ہوئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سرکاری اشتہارات پر سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع نہ کرنے کا حکم

    سرکاری اشتہارات پر سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع نہ کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرا ئےاعلیٰ کی تصویر شائع کرنے سےروک دیا اور سندھ حکومت کو بھی بینظیر بھٹو، وزیراعلیٰ اور بلاول کی تصاویر شائع نہ کرنے کا حکم دیا جبکہ کے پی میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں ایک سال کے اشتہارات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سرکاری اشتہارات ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی، ایڈیشنل اے جی اور سیکرٹری اطلاعات کے پی کے پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے دلچسپ مکالمہ میں کہا کہ منیر ملک اور بابر ستار طریقہ کاروضع کرکے بتائیں ، عوام کے پیسے سے سیاسی جماعتوں کو اپنی تشہیر کی اجازت نہیں دینگے، وزیراعلیٰ نے55 لاکھ روپے جمع کرانے تھے وہ کیوں جمع نہیں کرائے۔

    ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ چیک سائن کردیا،آپ نے تحریری حکم میں پیسے جمع کرانے کا نہیں کہاتھا، چیک سائن ہوا ہے اسکی کاپی میرے پاس موجود ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے بھی دکھائیں چیک پر ان کے دستخط کیسے ہیں۔

    ایڈیشنل اے جی نے کہا کہ یہ رقم پارٹی فنڈنگ سے اداکررہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر الیکشن کمیشن کو کہتے ہیں کہ پارٹی فنڈنگ کو دیکھے، دیکھنا ہوگا تشہیری مہم کی رپورٹ کے مطابق کس سےریکوری کرنی ہے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس ملک میں اب انشااللہ فری اینڈفیئرالیکشن کرانےہیں، 1970 میں آخری شفاف انتخابات ہوئے اور انشااللہ اب ہوں گے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ ٹھیک ہے ٹیکس پیئر کے پیسے سے سیاسی جماعتیں تشہیر کریں، پہلےجو کچھ ہوگیا اب کسی کو بھی تصویر کیساتھ اشتہار شائع کرنےنہیں دینگے، سرکاری وسائل سے ذاتی تشہیرکی اجازت نہیں دے سکتے۔

    چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات کے پی کے سے استفسار کیا کہ کے پی حکومت نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کتنے اشتہارات دیئے؟بتائیں کن اشتہارات پر عمران خان اور پرویز خٹک کی تصاویر ہیں؟

    سیکرٹری اطلاعات کے پی کے نے عدالت کو بتایا کہ 28 فروری 2018تک1ارب 63کروڑ دیئے گئے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ بیان حلفی دے سکتے ہیں، اشتہارات صوبائی حکومت کی تشہیر نہیں؟


    مزید پڑھیں: پہلےلوگ چھپ کرخدمت کرتے تھے اب عوامی پیسوں سےتشہیر کرتے ہیں، چیف جسٹس


    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ جن اخبارات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ غیر معروف ہیں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خواب سچ کر دکھایا،اس اشتہار میں عمران خان ساتھ کھڑے ہیں، بیان حلفی دیں، غلط بیانی کی گئی تو کارروائی کی جائے گی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ غلط بیانی کی صورت میں آپ ذاتی طور پر ذمہ دار ہونگے،ہمیں اور بھی لوگ معلومات دے دیتے ہیں، سیاسی مہم کی اجازت نہیں دینگے، اشتہار دینا ہے اپنی جیب سے دیں۔

    چیف جسٹس نے خیبرپختونخوا کے سیکریٹری اطلاعات سے ایک سال کے اشتہارات کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کل تک عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ، جس پر سیکریٹری اطلاعات کے پی کے نے کہا کہ کل میں 3 ماہ کی تفصیل دوں گا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سیاسی رہنماؤں اور متعلقہ وزرائے اعلیٰ کی تصویر شائع کرنے سے روک دیا اور سندھ حکومت کو بھی بینظیر بھٹو، وزیراعلیٰ اور بلاول کی تصاویر شائع نہ کرنے کا حکم دیا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کی سماعت کل ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے لیپ ٹاپ اسکیم، ہیلتھ کارڈز پرشہبازشریف کی تصاویرشائع کرنے پرازخود نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ وزیراعلی ٰپنجاب کی تصویر ہر جگہ کیوں آجاتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • بادی النظر میں اسحاق ڈار الیکشن لڑنے کے اہل نہیں، چیف جسٹس

    بادی النظر میں اسحاق ڈار الیکشن لڑنے کے اہل نہیں، چیف جسٹس

    اسلام آباد : نومنتخب سینیٹر اسحاق ڈار کے خلاف کیس میں چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ بادی النظر میں اسحاق ڈارالیکشن لڑنے کے اہل نہیں، اسحاق ڈار خود یا وکیل کے ذریعے وضاحت کریں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے نومنتخب سینیٹراسحاق ڈار کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت درخوست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ اسحاق ڈار عدالتی مفرور ہیں ،ایک مفرور شہری الیکشن نہیں لڑ سکتا، اسحاق ڈار کی بطور سینیٹر کامیابی کالعدم قرار دی جائے۔

    چیف جسٹس نے دراخوست گزار سے استفسار کیا کہ مفرورشخص الیکشن نہیں لڑسکتا، ہمیں وہ قانون بتائیں، کیا ہائیکورٹ نے میرٹ کو نہیں دیکھا؟ اشتہاری الیکشن نہیں لڑ سکتا یہ کہاں لکھا ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مفرور شخص کیسے الیکشن لڑ سکتا ہے، اسحاق ڈارمفرور ہیں، ریٹرننگ افسر نے اسحاق ڈار کے کاغذات مسترد کئے تھے۔

    جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی مفرور کس قانون کے تحت الیکشن نہیں لڑ سکتا، کیا کوئی فیصلہ ہے کہ عدالتی مفرور الیکشن نہیں لڑ سکتا؟ تو پڑھ کر سنائیں،ہائیکورٹ نے حق دعویٰ نہ ہونے پر آپ کی درخواست خارج کی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسحاق ڈار کو احتساب عدالت نے اشتہاری قرار دیا، اسحاق ڈار نے اشتہاری ہونے کے حکم کو چیلنج نہیں کیا، اسحاق ڈار کے خلاف اشتہاری ہونے کا حکم حتمی ہوچکا ہے، وہ اس وقت تک اشتہاری ہیں جب تک سرینڈر نہیں کرتے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا بادی النظر میں اسحاق ڈارالیکشن لڑنے کے اہل نہیں، اسحاق ڈار کو ایک عدالت نے مفرور قرار دیا ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے اسحاق ڈار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تفصیلی جواب کیلئے طلب کرلیا اور کہا کہ اسحاق ڈارخود یا وکیل کے ذریعے مؤقف کی وضاحت کریں۔


    مزید پڑھیں : اسحاق ڈار کو سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی


    عدالت نے سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی۔

    3 روز قبل سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے سینیٹ الیکشن کے کاغذات نامزدگی کی منظوری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

    خیال رہے کہ 12 فروری کوالیکشن کمیشن نے سینیٹ انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیے تھے، جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو سینیٹ الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے ریٹرننگ افسر کا اسحاق ڈار کے خلاف دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ کا دوہری شہریت رکھنے والے 5 نومنتخب سینٹرز کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا دوہری شہریت رکھنے والے 5 نومنتخب سینٹرز کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حکم

    لاہور: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو دوہری شہریت رکھنے والے5 نومنتخب سینٹرز کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی اجازت دے دی اور کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی بنچ تشکیل دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور سپریم کورٹ رجسٹری چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دوہری شہریت کیس کی سماعت کی ، چوہدری سرور نے بیان دیا کہ وہ 2013 میں برطانوی شہریت ترک کر چکے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کےبیوی،بچے، دولت برطانیہ میں ہے آپ یہاں کیوں آئے، برطانوی شہریت مکمل طور پر چھوڑی یا عارضی طور پر، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ برطانوی قانون کےمطابق شہریت دوبارہ بحال کی جا سکتی ہے۔

    چیف جسٹس کااستفسار جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ نے یہ شہریت مکمل طور پر ترک کی ہے یا گورنر بننے کے لیے معطل کی تھی کیا آپ سیاسی وقت پورا کرنے کے بعد جا کر کیا دوبارہ شہریت تو نہیں بحال کروا لیں گے، تو نااہلی بنتی ہے، اس حوالے سے اپنا بیان حلفی جمع کروائیں کہ آپ نے برطانوی شہریت مکمل طور پر چھوڑ دی ہے۔

    چوہدری سرور نے کہا کہ مجھے نااہل قرار دینے سے بیرون ملک پاکستانیوں پر برا اثر پڑے گا۔

    جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ان کے لیے سپریم کورٹ موجود ہے، ہم اپنے اختیار سے بڑھ کر ان کے حقوق کا دفاع کر رہے ہیں۔


    مزید پڑھیں : سینیٹرزکی دہری شہریت‘ سماعت 10 مارچ تک ملتوی


    عدالت نے 5 نو منتخب سینیٹرز کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی اجازت دیتے ہوئے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجربینج تشکیل دے دیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا دہری شہریت والے سینیٹرنااہل ٹھہرے تو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کا کیا ہوگا، چیف جسٹس نے جواب دیا یہ پیچیدہ آئینی نقطہ ہے، جس کی وضاحت ضروری ہے، حتمی فیصلہ لارجربینچ کرے گا۔

    یاد رہے کہ 5 مارچ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سینیٹ کے چار نو منتخب ارکان کی کامیابی کا نوٹی فکیشن نہ جاری کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ کیس کے فیصلے تک الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری نہ کرے۔

    انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ سینیٹرز کو پہلے مطمئن کرنا ہوگا کہ وہ دہری شہریت ترک کر چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ نومنتخب سینیٹرز میں سے چوہدری سرور کا تعلق پاکستان تحریک انصاف جبکہ ہارون اختر، نزہت صادق اور سعدیہ عباسی کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور چاروں افراد پنجاب سے سینیٹرز منتخب ہوئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • معافی مانگنے کا وقت گزرچکا، چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کردی

    معافی مانگنے کا وقت گزرچکا، چیف جسٹس نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کردی

    اسلام آباد : زینب قتل کیس میں ٹی وی اینکر کے الزامات پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کی معافی مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، وقت گزرچکا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے زینب کےقاتل سے متعلق دعوؤں کی سماعت ہوئی ، ڈاکٹر شاہد مسعود عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ جےآئی ٹی رپورٹ آگئی بظاہر آپ کے الزامات درست نہیں، کوئی ابہام نہ رہےتوآپ کی سی ڈی دوبارہ دیکھ لیتےہیں ،آپ نےباربارکہادرخواست ہےمعاملےکانوٹس لیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ نےکہابات درست نہ ہوتومجھےپھانسی دےدی جائے، جے آئی ٹی رپورٹ آگئی ذاتی رائے دینا چاہتے یا دفاع کرناچاہتےہیں، جس پر شاہدمسعود کے وکیل شاہد خاور نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ہمیں نہیں ملی، سرگودھا میں ایک واقعہ ہوا تھا اسی تناظرمیں انٹرنیشنل مافیا کی بات کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کی کاپی دیتے ہیں آپ چیلنج کر رہےہیں تو اسکے نتائج بھی ہونگے، سچ تھا یا مبالغہ آرائی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔

    سماعت کے دوران میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ میں معافی مانگتا ہوں، جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں، وقت گزر چکا، عوامی سطح پرتسلیم کریں کہ آپ نےغلطی کی۔

    وکیل شاہ خاور نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہےکہ رپورٹ کوچیلنج کررہےہیں جبکہ شاہد مسعود نے چیف جسٹس کو 4صفحات پرمشتمل دستاویز پیش کی۔

    سپریم کورٹ نے شاہد مسعود کے پروگرام کو نجی ٹی وی کونوٹس جاری کرتے ہوئے شاہد مسعود کو 2روز میں اپنا جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نےکیس کی سماعت 12مارچ تک ملتوی کردی۔


    مزید پڑھیں : زینب قتل کیس: ڈاکٹرشاہد مسعود کےالزامات بے بنیاد قرار


    یاد رہے کہ قصور کی ننھی زینب قتل کیس میں اینکر شاہد مسعود کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھا کہ زینب قتل کیس کے ملزم عمران 37 بینک اکاؤنٹس ہیں اور وہ عالمی گروہ کا کارندہ ہے، جس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی تھی۔

    یکم مارچ کو ڈاکٹرشاہد مسعود کے الزامات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں میں اینکر کے 18 الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

    سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجرم کے 37 بینک اکاؤنٹس ثابت نہ ہوسکے اور اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بنی گالہ غیرقانونی تعمیرات کیس، عمران خان کو جواب کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مل گئی

    بنی گالہ غیرقانونی تعمیرات کیس، عمران خان کو جواب کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مل گئی

    اسلام آباد : بنی گالہ غیرقانونی تعمیرات ازخودنوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو جواب کے لیے ایک ہفتے کاوقت دےدیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بنی گالہ میں تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کی، دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیاپرخبرچل رہی ہےآپ کی دستاویزات جعلی ہیں۔

    عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ریکارڈ نہیں دیکھا دیکھ کر جواب دے سکتا ہوں، ہم نے جو میڈیا پردیکھااس کی تردید کرتےہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اصل ایشو جھیل اورلوگوں کی صحت کا ہے۔

    سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو جواب کیلئے ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔

    وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے راول ڈیم کےگردتعمیرات کی تفصیل مانگی تھی، لیز کی تفصیلات عدالت میں پیش کردیں۔

    ایڈیشنل اے جی نے بتایا کہ سرکاری اراضی کی 8لیزکی منظوری سی ڈی اےنےدی ، یہ ساری لیز2007میں15سال کے لیے دی گئی، ایک ایکڑ کی سال کہ ایک لاکھ20ہزار لیز بنتی ہے، لیز لینے والا کمرشل کاروبار کی آمدن کا 5فیصد سی ڈی اے کو دیتا ہے۔

    چیف جسٹس نے چیئرمین سی ڈی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لیز معاملات کتنے دن میں درست ہونگے، جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ 10دن میں معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ کس قانون کےتحت یہ سرکاری اراضی لیز پر دی گئی، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ یہ لیزز کامران لاشاری کے دور میں دی گئی، جس پر ممبر سی ڈی اے نے کہا کہ 2007 میں قانون میں ترمیم کرکےلیززمین آکشن سےدینےکی شرط ختم کی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے، یہ سرکاری زمین آگے لیز پر دے دی گئی ہو، لیززمین حاصل کرنے والوں کو نوٹس جاری کرتے ہیں ، دیکھتے ہیں لیز زمین پر کیا ہورہا ہے، چیئرمین سی ڈی اے خود جاکر لیز زمین کا جائزہ لیں اور سرکاری اراضی کی راول ڈیم میں لیز ختم کریں۔


    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ کا عمران خان کے بنی گالہ میں مکان کی تعمیر کیلئے فراہم کیے گئے نقشے کی تصدیق کا حکم


    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ سرکاری اراضی کی لیز قانونی طریقہ کار سے نہیں ہوتی، جس پر سپریم کورٹ نے کامران لاشاری کو وضاحت کے لیے آئندہ سماعت پرطلب کرلیا اور کہا کہ راول ڈیم میں سرکاری اراضی کی لیز سابق چیئرمین کامران لاشاری دور میں ہوئیں جبکہ سرکاری زمین لیز پر حاصل کرنے والوں کو بھی نوٹس جاری کردئیے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ لیز پر سرکاری اراضی پر کمرشل سرگرمیوں پرآمدنی سے متعلق بتایا جائے، چیئرمین صاحب یہ سارے کام آپ نے دھیان سے کرنےہیں،میری بات آپ سمجھ رہے ہیں نا۔

    وزیرمملکت کیڈ طارق فضل چوہدری نے بتایا کہ عدالت کی ہدایت پر 14سے16فروری تک بنی گالہ کی جگہوں پر کیمپ لگایا، علاقہ مکینوں سے مسائل کے حوالے سے تجاویز لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ راول ڈیم میں گندہ پانی جارہا، آپ نے آج تک کیا کیا، جو گندے نالے راول ڈیم میں جارہے ہیں، ان کو7 روز میں بند کردینگے۔

    سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایم این ایز کی پرچیوں پرگیس کنکشن دینے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ شکایات موصول ہوئی ہیں ایم این ایزکی چٹ پر کنکشن دیئےجارہےہیں۔

    چیف جسٹس نے وزیر کیڈ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو یہ اختیار ہے پرچی لکھ کربھیجیں، گیس کنکشن دے کرآپ نے ووٹ لینے ہیں، جس پر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ گیس کنکشن وزیراعظم کی ہدایت پردیئےجاتے ہیں، ایم این ایز کے کہنے پر کنکشن نہیں دیئےجاتے۔

    سپریم کورٹ نے محکمہ سوئی گیس سے منگل تک تفصیلات مانگ لیں اور کہا کہ تفصیلات کے ساتھ بیان حلفی جمع کرائیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔