Tag: SC

  • ‘ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں’، صدارتی ریفرنس پر جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس

    ‘ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں’، صدارتی ریفرنس پر جسٹس اعجاز الاحسن کے ریمارکس

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ممکن ہےکہ ریفرنس واپس بھیج دیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    آج اٹارنی جنرل نے صدارتی ریفرنس سے متعلق اپنے دلائل دئیے اس دوران انہیں ججز صاحبان کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا، جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63اے نشست خالی ہونےکاجواز فراہم کرتا ہے، کیا آرٹیکل 63اے سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف لگےگا؟

    جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ کوئی رکن ووٹ ڈالنےکےبعد استعفیٰ دیدے تو کیاہوگا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت میں ایک رکن نےپارٹی کےخلاف ووٹ دیکراستعفیٰ دیاتھا، بھارتی عدالتوں نے مستعفی رکن کو منحرف قرار دیاتھا، پارٹی سےانحراف پر کسی کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔

    جسٹس جمال خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لوٹوں کی سپورٹ کرنےوالا میں آخری شخص ہوں گا، پارٹی سےانحراف کرنے والےکےخلاف الیکشن کمیشن موجودہے،کوئی چوری کرنے والےکا ساتھ جائےتو کیاہوگا؟صدر مملکت کو ایسا مسئلہ کیاہےجو رائےمانگ رہےہیں؟ صدر کے سامنے ایسا کونسا مواد ہےجس پر سوال پوچھے؟۔

     

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ صدر پاکستان نےآئین کی تشریح کا کہا ہے، تشریح سےادھر ادھر نہیں جاسکتے، ممکن ہے کہ ریفرنس واپس بھیج دیں، بعد ازاں کیس کی سماعت پیر کی دوپہر 1 بجے تک ملتوی کردی گئی، اٹارنی جنرل پیر کو اپنے دلائل مکمل کرلیں گے۔

    اٹارنی جنرل کے دلائل اور معزز ججز صاحبان کے ریمارکس

      اس سے قبل سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ  پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پرملتی ہیں، ان ارکان نے عوام سے ووٹ نہیں لیا ہوتا۔

    اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفاداررہنا ہے یا نہیں تاہم خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپکے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں، کیا کوئی رکن ڈیکلریشن دیتا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کاپابند رہے گا؟۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کیاممبر شپ فارم میں رکن ڈیکلریشن دیتاہےکہ ڈسپلن کا پابند رہےگا، اگرپارٹی ممبر شپ میں ایسی یقین دہانی ہےتوخلاف ورزی خیانت ہوگی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہیں واضح نہیں کہ پارٹی سے وفادار رہناہےیا نہیں لیکن خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے اور اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا گیا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم نےاپنےعہدےکاحلف اٹھایاہوتاہے، کیا کوئی رکن وزیراعظم پرعدم اعتمادکا اظہارکرسکتا ہے؟ اگروزیر اعظم آئین کی خلاف ورزی کرے تو کیا رکن قومی اسمبلی پھرساتھ دینےکاپابندہے؟

    جس پر اٹارنی جنرل نے ریمارکس دئیے کہ پارٹی ٹکٹ ایک سرٹیفیکٹ ہے جس پر انتحابی نشان ملتا ہے جبکہ وزیراعظم اور رکن اسمبلی کے حلف میں فرق ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ ووٹرانتخابی نشان پرمہرلگاتےہیں کسی کےنام پرنہیں، پارٹی نشان پر الیکشن لڑنےوالےجماعتی ڈسپلن کےپابند ہوتے ہیں۔

  • گھر کی بات گھرمیں ہی رہنی چاہیے، چیف جسٹس

    گھر کی بات گھرمیں ہی رہنی چاہیے، چیف جسٹس

    اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے، ہم تو برادری کی بات بھی باہر نہیں کرتے، میں چند دنوں کا مہمان ہوں میں نے بھی چلےجانا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطابندیال نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فروری اور مارچ میں سپریم کورٹ 4ہزار مقدمات کا فیصلہ کرچکی ہے، عدالت عظمیٰ میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد میں ایک ہزار تک کمی آئی، زیرالتواء مقدمات نمٹانے پر ساتھی ججز اوروکلا کا مشکور ہوں،انشاءاللہ عدالت اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس قاضی امین نے فوجداری مقدمات میں تاریخی فیصلے دیئے، جسٹس قاضی امین نے گواہان کے تحفظ کی ریاستی ذمہ داری کو فیصلوں میں اجاگر کیا، معزز جج نے کبھی تکنیکی نکات کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کیلئے جسٹس قاضی امین نے تاریخی فیصلے دئیے۔

    فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے عمومی الزامات لگاکرججز کو سرکاری ملازم کہا، سپریم کورٹ میں ججز انتہائی قابل اور پروفیشنل ہیں، ججز کو سرکاری ملازم کہنا انتہائی غیرمناسب بات ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کیلئے قابلیت،رویے،بہترین ساکھ اوربغیر خوف و لالچ کامعیار رکھا ہے، اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں ہم سب اللہ کو جواب دہ ہیں،وکلاکیس تیاری کیے بغیر عدالت سے رحم کی توقع رکھیں تو ایسا نہیں ہو سکتا، ججز عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد کئی گھنٹے تک مقدمات سنتے ہیں۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عوام میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ صرف میڈیا کیلئے ہے، کسی جج کو بغیر ثبوت کے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا ، بنچ تشکیل دینے کا اختیار ہمیشہ سے چیف جسٹس کا رہا ہے، بیس سال سے بنچز چیف جسٹس ہی بناتے ہیں احسن بھون کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟ ۔

    فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رجسٹرار کی تعیناتی بہترین افسران میں سے کی گئی ہے،رجسٹرار کو قانون کا بھی علم ہے اور انتظامی کام بھی جانتے ہیں،بلاوجہ اعتراضات کیوں کیے جاتے ہیں ؟ کیا آپ چاہتے ہیں انتظامی کام بھی میں کروں؟، کونسا مقدمہ مقرر اور کس بنچ میں ہوناہے یہ فیصلہ میں کرتا ہوں۔

    معزز چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ مجھ سے کسی کو تکلیف ہے تو آ کر بات کریں، ادارے کی باتیں باہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی،ہم تو برادری کی بات بھی باہر نہیں کرتے، میں چند دنوں کا مہمان ہوں میں نے بھی چلےجانا ہے، مگر یاد رکھیں کہ ہم ججز نے بھی اپنے حلف کی پاسداری کرنی ہے،ججز خود پر لگے الزامات کا جواب نہیں دے سکتے، فیصلوں پر تنقید کریں ججز کی ذات پر نہیں ۔

  • سپریم کورٹ کا  آرٹیکل63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ

    سپریم کورٹ کا آرٹیکل63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے۔

    تفصیلات کے مطابق سسپریم کورٹ میں اسلام آباد میں جلسے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ بارکے وکیل منصورعثمانی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا ریکوزیشن کے بعد 14روز کے اندر اجلاس بلانے کا کہتا ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم پروسیجر کے اندرنہیں جائیں گے ، ہم پارلیمانی پروسیجنگ کے اندر مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔

    وکیل منصورعثمانی نے بتایا کہ 8 مارچ کو ریکوزیشن جمع کرائی، ریکوزیشن کے اندر تحریک عدم اعتماد بھی جمع کرائی، تحریک عدم اعتماد پر نوٹس بھی جاری ہوچکا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی 14 دن کے اندر اجلاس بلانے کا پابند ہے، 22 مارچ کو 14روز مکمل ہوتے ہیں، موجودہ حالات میں مروجہ طریقہ کارپرعمل نہیں ہو رہا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اجلاس 22مارچ کی جگہ 25 مارچ کو بلایا گیا ہے، جس پر وکیل نے کہا عدم اعتماد اجلاس میں پیش ہونے کے 3 دن بعد اور 7 روز سے قبل ووٹنگ ہونی ہے، تمام اراکین کونوٹس جاری ہونےہیں، اسمبلی اجلاس عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ اسمبلی کااندرونی معاملہ ہے،آپ یہ معاملہ اسمبلی کےاندرلڑیں، عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، عدالت صرف چاہتی ہے کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نقاط اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔

    فاروق نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کر دیا اور کہا اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی ، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جن پر آرٹیکل 6لگا ہے پہلے ان پر عمل کرا لیں۔

    آرٹیکل 6 سے متعلق فاروق ایچ نائیک کی بات چیف جسٹس مسکرا دیئے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، آرٹیکل 17کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں اور آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 95 ٹو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ نواز شریف ، بینظیربھٹو کیس میں عدالت آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہیے ووٹ ڈالے، بار زیادہ تفصیلات میں گئی توجسٹس منیب اخترکی آبزرویشن رکاوٹ بنےگی، سوال یہی ہے ذاتی چوائس پارٹی مؤقف سے مختلف ہو سکتی ہے یا نہیں؟

    وکیل سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پرووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہا آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے، جس پر وکیل سپریم کورٹ بار نے مزید بتایا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر و دیگرعہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں، جسٹس منیب اختر نے پھر سوال کیا سپریم کورٹ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ توبتا دیں؟

    وکیل سپریم کورٹ بار کی جانب سے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا ، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ آرٹیکل 66 تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے، ارٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت اسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اپ تو بار کے وکیل ہیں آپکا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے، جس پر وکیل سپریم کورٹ بار نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ آئین کے تحت سب سے مرکزی ادارہ ہے، پارلیمنٹ کا کام آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے، پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، آرٹیکل 63 اے پارٹیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، کسی کو ووٹ دینے سے روکا نہیں جاسکتا اور عوامی مفاد میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے،عوام کا کاروبار زندگی بھی کسی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ تحریک عدم اعتماد سے بار کو کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس منیب اختر نے بھی استفسار کیا کیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے؟

    سندھ ہاؤس سے متعلق چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا بار بارپوچھ رہےہیں سندھ ہاؤس میں کیاہوا؟ عدالت نے صرف آئین پر عمل کرانا ہے؟ سپریم کورٹ بار کے وکیل تیاری سے نہیں آئے، بار کو سندھ ہاؤس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بار کو تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں،بار کے وکیل کو سن چکے ہیں اب آئی جی اسلام آباد کو سنیں گے، آئی جی اسلام آباد صاحب کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے۔

    آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، ریڈ زون کےاطراف دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا
    رپورٹ کےمطابق5.42 بجے 35سے40 مظاہرین سندھ ہاؤس پہنچے تو آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ مظاہرین جتھے کی صورت میں نہیں آئے تھے، 2 اراکین اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

    آئی جی اسلام آباد نے مزید بتایا کہ جے یو آئی نے بھی سندھ ہاؤس جانے کی کوشش کی، بلوچستان ہاؤس کے قریب جے یو آئی کارکنان کو روکا گیا، سندھ ہاؤس واقعہ پر شرمندہ ہیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا۔

    چیف جسٹس کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پرماضی قریب میں کچھ ہوا تھاجس کے تاثرات سامنےآئے، ہفتےکو کیس سننے کا مقصد سب کوآئین کےمطابق کام کرنے کا کہنا تھا۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت میں یقین دہانی کرائی کہ کوئی رکن پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ ڈالنے جائے تو اسے روکا نہیں جائے گا اور قومی اسمبلی اجلاس میں کوئی بھی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ، تمام اجلاسوں کوبھی بلارکاوٹ کراناوفاق کی ذمہ داری ہے، سیاسی بیانات اپنی جگہ مگرعملی طورپرکوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہوگی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 254 کو شاید غلط انداز میں لیا گیا ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارلیمانی کارروائی پرعدالت بات نہیں کررہی ورنہ تاخیرکی وجہ بتاتا، بارنےتمام اداروں کوقانون کےمطابق اقدامات کی استدعا کی ہے، بارکی دوسری استدعا امن و امان اور جلسے جلوس کےحوالے سے ہے۔

    اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہوگا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، کئی سیاسی جماعتوں نے بیانات دیے ہیں، پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کردیے ہیں، عوام کواسمبلی اجلاس کے دوران ریڈزون میں داخلےکی اجازت نہیں ہو گی، سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں۔

    عدالت نے سوال کیا کہ کوئی جماعت اجلاس میں مداخلت سے روکے اور اسکا رکن چلا جائے تو کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کوروکا نہیں جاسکتا، اس نکتے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پرآرٹیکل 63 اے کی کارروائی ہوگی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نےسیاسی قیادت میں ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے، حساس وقت میں مصلحت کے لیے کیس سن رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا سندھ ہاؤس پرحملےکا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا، وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جس کو شکایت ہےمتعلقہ فورم سےرجوع کرے، سندھ ہاوس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کروں گا، اپنے عہدے کے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھا ہے، او ائی سی کانفرنس کی وجہ سے ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے۔

    عدالت نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پرلارجربینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا صدارتی ریفرنس پر سماعت 24 مارچ کو کریں گے۔

  • کے پی بلدیاتی الیکشن: سپریم کورٹ نے اہم ترین فیصلہ سنادیا

    کے پی بلدیاتی الیکشن: سپریم کورٹ نے اہم ترین فیصلہ سنادیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے کے پی میں بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے انعقاد سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ سنادیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کے پی بلدیاتی الیکشن دوسرے مرحلے میں کرانے کےفیصلے پر سماعت ہوئی، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔

    فریقین کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے ہیں۔

    فیصلے سے قبل وکیل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پشاورہائیکورٹ ایبٹ آباد بنچ نےالیکشن کمیشن کو نہیں سنا، عدالت نے ہمیں سنےبغیر بلدیاتی انتخابات کاشیڈول مؤخرکیا۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے آگاہ کیا کہ یکم فروری کی سماعت کا نوٹس 2 فروری کوموصول ہوا،نوٹس ملنےتک پشاورہائیکورٹ بلدیاتی انتخابات مؤخر کرچکی تھی، پانچ اضلاع کے شیڈول مؤخر کرنےکی درخواست پر 18اضلاع کا الیکشن مؤخر کیا گیا۔

    اس موقع پر وکیل شکایت کنندگان نے عدالت کو بتایا کہ موسمی حالات کے پیش نظر 27 مارچ کو انتخابات نہیں ہو سکتے۔

    بینچ میں شامل جسٹس عائشہ ملک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہائیکورٹ کو فیصلے سے پہلےالیکشن کمیشن کا مؤقف سنناچاہیے تھا جبکہ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تصدیق نہیں ہوئی کہ موسمی حالات الیکشن میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ محکمہ موسمیات کی رپورٹ کو الیکشن کمیشن نے دیکھنا تھا عدالت نے نہیں ، ہائیکورٹ کو فیصلہ دینے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ بعد ازاں سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

  • سپریم کورٹ میں زیادتی کے ملزم کی ضمانت کالعدم، ملزم دوبارہ گرفتار

    سپریم کورٹ میں زیادتی کے ملزم کی ضمانت کالعدم، ملزم دوبارہ گرفتار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے زیادتی کے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر لڑکی ہوٹل میں گئی تو اس کا مطلب ہے کہ زیادتی کر کے تصاویر بنا لی جائیں؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں زیادتی کیس کی سماعت ہوئی، درخواست گزار خاتون نے ملزم فرحان پر تھانہ صادق آباد میں زیادتی کا مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔

    دوران سماعت عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ملزم اور تفتیشی افسر نے مل کر تمام شواہد ضائع کر دیے، متاثرہ لڑکی کا اب تک میڈیکل ہو سکا نہ ہی بیان ریکارڈ کیا گیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا حقائق کی موجودگی میں ملزم کو ضمانت دینا حیران کن ہے، تفتیش کے لیے کسی خاتون افسر کو ٹیم کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا؟

    سی پی او راولپنڈی نے بھی تفتیشی افسر کی جانب سے شواہد ضائع کرنے کا اعتراف کرلیا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ لڑکی کے مطابق تفتیشی افسر بھی رات کو بلا کر ہراساں کرتا رہا۔

    سی پی او نے کہا کہ از سر نو تحقیقات میں لڑکی کے الزامات درست ثابت ہوئے، تفتیشی افسر شہزاد انور کی تنزلی کی جاچکی ہے اور اس کی سزا میں اضافے کی سفارش بھی کردی گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ از سر نو تحقیقات کے بعد چالان جمع کروا دیا ہے۔

    دوران سماعت ملزم کے وکیل نے کہا کہ خاتون خود لڑکے کے ساتھ ہوٹل میں گئی جس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ ہوٹل میں جانے کا کیا مطلب ہے زیادتی کر کے تصاویر بنائی جائیں؟

    ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ لڑکی کا ملتان میں نکاح ہو چکا ہے جس پر بینچ میں شامل جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا شادی شدہ ہونا زیادتی کا لائسنس دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ملزم پولیس پر اثر انداز ہو سکتا ہے وہ متاثرہ لڑکی پر کیسے نہیں ہوگا۔

    عدالت نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، ضمانت منسوخ ہونے پر راولپنڈی پولیس نے ملزم فرحان کو گرفتار کر لیا۔

  • راؤ انوار کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست خارج

    راؤ انوار کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست خارج

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سابق ایس ایس پی راؤانوار کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست خارج کرتے ہوئے متعلقہ فورم سے رجوع کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق ایس ایس پی راؤانوار کے خلاف 444 ماورائے عدالت قتل کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    وکیل راؤانوار نے کہا راؤانوار کا کیس ٹرائل کورٹ میں زیرالتوا ہے اور ٹرائل کورٹ نے راؤانوار کو ضمانت دے رکھی ہے ، وہ ہر پیشی پرپیش ہورہے ہیں
    لہذا ان کا نام ای سی ایل سے نکالا جائے۔

    عدالت نے راؤانوار کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے درخواست خارج کردی اور کہا ای سی ایل سےنام نکالنے کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے کہنے پر تاحکم ثانی نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ، کوئی ریلیف لینا ہو تو نئی درخواست دائر کریں۔

    یاد رہے جنوری 2019 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلہ کا دعویٰ‌ کیا تھا، ٹیم کا مؤقف تھا کہ خطرناک دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے اس کارروائی میں‌ پولیس نے جوابی فائرنگ کرتے ہوئے چار ملزمان کو ہلاک کیا تھا، ہلاک ہونے والوں میں نوجوان نقیب اللہ بھی شامل تھا۔

    سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے بعد اس واقعے کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں‌ پولیس مقابلے کی تحقیقات شروع ہوئیں، ایس ایس پی رائو انوار کو عہدے سے معطل کرکے مقابلہ کو جعلی قرار دے گیا تھا۔

    نقیب قتل کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے راؤ انوار کو نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا تھا، بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو رہا کردیا تھا۔

  • سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی پر درخواست  اعتراض لگا کر واپس کردی

    سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی پر درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی پر درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی اور کہا معاملے پرایک بار فیصلہ ہوجائے تو نئی درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر احسن بھون کی جانب سے تاحیات نااہلی پر درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی۔

    رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا معاملے پر سپریم کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے اور تاحیات نااہلی کےمعاملے پر نظر ثانی درخواستیں بھی مستردکی جاچکی ہیں۔

    رجسٹرار کا کہنا تھا کہ ایک بار جب سپریم کورٹ کسی معاملے پر فیصلہ دے دیتی ہے تو نئی درخواست دائر نہیں کی جاسکتی۔

    یاد رہے سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے نے تاحیات نااہلی کیخلاف آئینی درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ تاحیات نااہلی کا اطلاق صرف انتخابی تنازعات میں استعمال کیاجائے، آرٹیکل 184تھری کےتحت سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ کے امورانجام نہیں دے سکتی۔

    دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 184کی شق 3کے تحت عدالتی فیصلے کےخلاف اپیل کا حق نہیں ملتا، عدالتی فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہ ملنا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے ، سپریم کورٹ نےفیصلوں میں آرٹیکل62 ون ایف کے اطلاق کے پیرامیٹرزطے کئے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت جو الیکشن چیلنج ہوا صرف اس کو کالعدم کیا جائے۔

  • سپریم کورٹ نے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بحالی کا عبوری حکم واپس لے لیا

    سپریم کورٹ نے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بحالی کا عبوری حکم واپس لے لیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےراوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بحالی کاعبوری حکم واپس لے لیا اور کہا ہائیکورٹ کا حتمی فیصلہ آنے کے بعد عبوری حکم کیخلاف اپیلیں غیرموثر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بحالی کا عبوری حکم واپس لیتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے عبوری حکم کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔

    عدالت نے کہا راوی اربن منصوبہ کیس میں ہائی کورٹ کا حتمی فیصلہ آچکا ہے، پنجاب حکومت چاہے تو ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کرسکتی ہے۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عبوری حکم قانون کے تحت حتمی فیصلےمیں ضم ہوچکاہے، حتمی فیصلہ آنے کے بعد عبوری حکم کیخلاف اپیلیں غیر موثر ہیں۔

    وکیل روڈا نے کہا 2 ہفتے کا وقت دیں ہائیکورٹ احکامات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ آچکا ہے اپیلوں کو لٹکانے کا کوئی فائدہ نہیں، کوئی قانونی نقاط اٹھانا چاہتے ہیں توفیصلے کیخلاف اپیل میں اٹھا دیں۔

    خیال رہے پنجاب حکومت نے روڈا کو کام سے روکنے کا لاہور ہائیکورٹ کا عبوری حکم چیلنج کیا تھا۔

    یاد رہے گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے راوی اربن پراجیکٹ کے لئے سیکشن چار کے تحت زمین کا حصول غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا ماسٹر پلان کے بغیربنائی گئی اسکیمیں غیرقانونی ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ترمیمی آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 120 کے خلاف ہے، راوی پراجیکٹ میں ماحولیاتی قوانین کو نظرانداز کیا گیا اور پراجیکٹ کےلئے قرضے غیرقانونی طریقہ سے حاصل کئے گئے۔

  • کرپٹو کرنسی کے نام پر فراڈ کرنے والے ملزم کی درخواست ضمانت خارج

    کرپٹو کرنسی کے نام پر فراڈ کرنے والے ملزم کی درخواست ضمانت خارج

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کرپٹو کرنسی کے نام پر فراڈ کرنے والے ملزم کی درخواست ضمانت خارج کردی اور نیب کو ملزم کے خلاف جلد ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کرپٹو کرنسی کے نام پر فراڈ کرنے والے ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی ، عدالت نے ریفرنس دائر کرنے میں تاخیر پر نیب کی سرزنش کی۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا کہ 2،2سال ریفرنس دائر نہ کرنا نیب کی مجرمانہ غفلت ہے، نیب ریفرنس دائر نہیں کرتا اور الزام عدالتوں پرآ جاتا ہے۔

    جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزم وسیم زیب نےشہریوں سے1 ارب 70 کروڑ وصول کئے،ن شہریوں سے پیسہ وصول کرکے کرپٹو کرنسی اکاؤنٹس میں ڈالا گیا۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ کرپٹو کرنسی اور بٹ کوائن کا سنا ہے یہ کیا ہوتا ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب میں کہا کہ شہریوں کو پیسے کے عوض ڈیجیٹل کوئن دیا جاتا ہے۔

    جسٹس قاضی امین نے ریمارکس میں کہا نیب نے ملزم کے اثاثوں کا سراغ کیوں نہیں لگایا؟ میگا اسکینڈل میں بھی تفتیش کا یہ حال ہے بنیادی معلومات نہیں۔

    وکیل ملزم نے بتایا پیسے لینے کا الزام ہے کوئی رسید سامنے نہیں آئی،تو جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ رسید کے بغیر پیسہ لینا ہی تو ملزم کا اصل کمال ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کیخلاف سیکڑوں متاثرین نے بیانات ریکارڈ کرائے ، جس پر سپریم کورٹ نے نیب کو ملزم کے خلاف جلد ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کر دی، ملزم وسیم زیب کیخلاف نیب پشاور تحقیقات کر رہا ہے۔

  • بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کیخلاف حکومتی اپیل ، شہباز شریف کو نوٹس جاری

    بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کیخلاف حکومتی اپیل ، شہباز شریف کو نوٹس جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بیرون ملک جانے کی اجازت کیخلاف حکومتی اپیل پر شہباز شریف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے لاہورہائی کورٹ سے کیس کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کےبیرون ملک جانےکی اجازت کیخلاف حکومتی اپیل پرسماعت ہوئی ، جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کیاکوئی میڈیکل ایمرجنسی تھی جوجلدسماعت ہوئی؟ جس پراٹارنی جنرل نے بتایا شہباز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت مسترد ہوئی تھی،ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ شہبازشریف کوایمرجنسی تھی۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے تو وفاق کا مؤقف بھی نہیں سنا، یکطرفہ حکم دے کر عملدرآمد کےلئےبھی زور دیا گیا، شہباز شریف قابل احترام ہیں مگرانصاف قانون کےمطابق ہوناچاہیے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا شہباز شریف رکن پارلیمان اوراپوزیشن لیڈر ہیں، کیا ضمانت کےدوران بیرون ملک جانےپرپابندی ہے؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ
    شہباز شریف کی ضمانت طبی بنیاد پر نہیں ہوئی تھی، قانونی پابندی نہ ہوتوکیاجیل سےسیدھاایئرپورٹ جایاجاسکتا ہے ، شہباز شریف کےبقول ان کانام بلیک لسٹ میں تھا، وفاق کا مؤقف سنا جاتا تو آگاہ کرتےکہ نام بلیک لسٹ میں نہیں، اٹشہباز شریف کا نام اب ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کیس واپس لینےپرتوہین عدالت کارروائی کیسےہوسکتی؟ اب تو بیرون ملک جانے کا سوال ختم ہوچکا تو اٹارنی جنرل نے کہا توہین عدالت کےحوالے سے حتمی عدالتی نظیرموجودنہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے ایف آئی اے سمیت سب کو عدالتی حکم کا علم تھا مگرعمل نہ کیاگیا۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نیب میں کیسز چل رہے لیکن اسے فریق نہیں بنایا گیا، اعدالت پراسیکیوٹر جنرل نیب کو بھی نوٹس جاری کرے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کیس ریکارڈ آ جائےپھرنیب کو نوٹس کامعاملہ دیکھیں گے۔

    سپریم کورٹ نے شہباز شریف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے لاہورہائیکورٹ سےکیس کاتمام ریکارڈ طلب کر لیا اور پٹیشن کب دائر ہوئی، کب مقرر ہوئی تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نےکیس کی سماعت آئندہ ہفتےبدھ تک ملتوی کردی۔