Tag: SC

  • این اے 75 ڈسکہ کیس : الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار ، پورے حلقے میں ری پولنگ کا حکم

    این اے 75 ڈسکہ کیس : الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار ، پورے حلقے میں ری پولنگ کا حکم

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے این اے 75 ڈسکہ کیس میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پی ٹی آئی امیدوارکی درخواست خارج کردی اور این اے 75 میں پولنگ 10اپریل کو ہی کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ الیکشن کیس کی سماعت ہوئی ، الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا صورتحال سےواضح ہوتاہے الیکشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہوئی، الیکشن ایکٹ کی شقوں پرعملدرآمدنہ ہوتوالیکشن کالعدم تصورہوتاہے۔

    وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ عدالتی ریکارڈ پررکھے گئے نقشے سے واضح ہے ایک بلڈنگ میں متعددپولنگ اسٹیشن تھے، فائرنگ،بدامنی کا اثرایک نہیں 100سے زائد پولنگ اسٹیشنزپرپڑا، صورتحال سے واضح ہے حلقے میں لیول پلیئنگ فیلڈنہیں تھی۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا لیول پلیئنگ فیلڈ سے آپ کی مراد ہے؟ ڈکشنری میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا معنی دیکھیں کیاہے، آپ کے خیال میں ایک فریق کیلئےحالات سازگار ،دوسرے کیلئےنہیں، اگر بدامنی تھی تو دونوں کے حالات ناسازگار تھے، بدامنی کہہ سکتےہیں یہ نہیں کہہ سکتے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں تھی۔

    جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ آپ درست فرما رہےہیں ہو سکتا ہےمیرے الفاظ کااستعمال درست نہ ہو تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا احتیاط کریں ،لیول پلیئنگ فیلڈ جیسے الفاظ استعمال نہ کریں۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس میں کہا قانونی نقاط بیان کریں جو ضروری نوعیت کےہیں، ان دستاویزپر انحصار کریں جن پر کمیشن نے فیصلہ دیا۔

    دوران سماعت لیگی ایم این اے شیزافاطمہ موبائل استعمال کرتی رہیں ، جس پر پولیس اہلکاروں نے شیزا فاطمہ کو موبائل استعمال کرنے سے روک دیا۔

    وکیل الیکشن کمیشن میاں عبدالروف نے بتایا کہ الیکشن کمیشن فیصلے میں منظم دھاندلی کا ذکر نہیں، الیکشن کمیشن نے منظم دھاندلی کا کوئی لفظ نہیں لکھا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ قانون کی خلاف ورزیوں پر تھا۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے کہا الیکشن کمیشن نے انتظامیہ کو سنےبغیر ہی فیصلہ کردیا، حلقے میں حالات خراب تھے یہ حقیقت ہے، یہ درست نہیں پارٹیوں کو مقابلے کیلئےمساوی ماحول نہیں ملا، ووٹرز کیلئےمقابلے کے مساوی ماحول کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔

    الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف کے دلائل مکمل ہونے پر پی ٹی آئی کے وکیل شہزاد شوکت کا جواب الجواب شروع کئے ، شہزاد شوکت نے کہا پریزائیڈنگ افسران کیساتھ پولیس اسکواڈ نہیں تھے، صرف ایک پولیس گارڈ پریزائیڈنگ افسر کیساتھ تھا، نجی طور پر حاصل کی گئی گاڑیوں میں وائرلیس سسٹم نہیں تھا، انتخابی مواد آر او کوپہنچانا اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر کا کام ہے۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پریزائیڈنگ افسران کو کون کہاں لے کر گیا تھا، پریزائیڈنگ افسران کی گمشدگی کےذمہ دار سامنے آنے چاہئیں، جس پر جسٹس عمرعطابندیال نے کہا 20 اسٹیشن پرقانون کی خلاف ورزیاں توہوئی ہیں، 20میں سے14پولنگ اسٹیشن کےنتائج سےنوشین افتخارمطمئن تھیں۔

    شہزاد شوکت نے کہا کل کہا گیا رینجر تعینات نہیں تھی، الیکشن سے14روزقبل رینجرزتعیناتی کا ذکر ہوا، جس پر جسٹس سجادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کےمطابق رینجرزصرف گشت کررہی تھی۔

    ڈی جی لاالیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ 25پولنگ اسٹیشنز پر رینجرز موجود تھی، لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کےپولنگ اسٹیشنز پربھی رینجرزتھی، تو وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے آئی جی کی رپورٹ کوغلط کہا، سمجھ نہیں آ رہا آئی جی کی رپورٹ کوغلط کس بنیاد پر کہا گیا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ فائرنگ سے2افرادقتل اور ایک زخمی ہوا، الیکشن کمیشن ڈسکہ میں مناسب اقدامات میں ناکام رہا، جس پر وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ گوجرانوالہ کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ 47فیصد تھا، ڈسکہ میں ٹرن آؤٹ 46.92 فیصد رہا جسے کہا گیا کم ہے، الیکشن کمیشن کامؤقف غلط ہے کہ لوگ ووٹ ڈالنےنہیں آسکے، این اے75میں2018کےالیکشن میں ٹرن آؤٹ53 فیصد تھا۔

    شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ ڈسکہ سے 2018 میں مسلم لیگ ن کو 24ہزار ووٹ ملے تھے جبکہ ضمنی الیکشن میں ڈسکہ سے ن لیگ کو 21ہزار ووٹ ملے، فائرنگ کے باوجود صرف ن لیگ کو ووٹ پورے ملے۔

    وکیل نے مزید کہا کہ فائرنگ اور قتل و غارت کا فائدہ کس کو ہوا تعین کرنا ہو گا، الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہونے کےبجائے حقائق چھپا رہا ہے، الیکشن کمیشن کا کام تھا آئی جی سمیت دیگر افسران سے تحقیقات کرتا، الیکشن کمیشن میں سماعت کے بعد نوشین افتخار نے بیان حلفی دیا۔

    جس پر جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ ایک بلڈنگ میں10پولنگ اسٹیشنزبھی دکھائے گئے ، الیکشن کمیشن کے کاغذات میں یہ تفصیلات درج ہیں، ووٹرز کے لیے ماحول پرامن ہونا چاہیے۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کیا پہلے بھی کبھی پریزائیڈنگ افسران لاپتہ ہوئے، وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ ممکن ہے ماضی میں ہوتا رہا ہو مجھے معلوم نہیں تو جسٹس عمر عطابندیال نے کہا پریزائیڈنگ افسران پیش ہوئے توگھبرائے ہوئےتھے۔

    جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا متنازع23 پولنگ اسٹیشنز پرگنتی سکتی تھی ، علی اسجد ملہی اپنے علاقے سے جیت رہے تھے، علی اسجد کامیاب ہوئے تو فرشتے پریزائیڈنگ افسران کولےگئے، فائرنگ کےصرف5 مقدمات درج ہوئے ہیں، مقدمات کےمطابق فائرنگ 19پولنگ اسٹیشنزپرہوئی جبکہ 24فروری کودوبارہ پولنگ کابیان حلفی دیاگیا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا 24کوبیان حلفی آیا اور 24 کوفیصلہ ہوگیا، آپ کو بیان حلفی پر دلائل کا موقع نہیں دیاگیا، دوبارہ پولنگ کےنوشین افتخارکےبیان حلفی کاجائزہ نہیں لیں گے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کام ہے شفاف ،منصفانہ انتخابات کرائے، وحیدہ شاہ نے پریزائیڈنگ افسر کوتھپڑ مارا تھا، پریزائیڈنگ افسران جس نےغائب کئے،انتخابی عمل کودھچکا لگا۔

    وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جواب 23 پولنگ اسٹیشنز پر مانگا تھا، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ نتائج متاثر ہوں تو دوبارہ پولنگ ہوسکتی ہے، تو وکیل پی ٹی آئی نے مزید کہا سمری انکوائری میں بھی پولیس ،انتظامیہ کو سننا ضروری تھا، دوبارہ پولنگ کیلئےپی ٹی آئی کو نوٹس کرنا ضروری تھا، ماضی میں بھی سمری انکوائری میں سب کا مؤقف سنا گیا، وکیل پی ٹی آئی

    جس کے بعد سپریم کورٹ نے این اے 75 ڈسکہ کیس پی ٹی آئی امیدوارکی درخواست خارج کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا دوبارہ الیکشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    سپریم کورٹ نے این اے 75 میں پولنگ 10اپریل کو ہی کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا الیکشن پورے حلقے میں ہوگا۔

  • ‘الیکشن کمیشن کے این اے 75 سے متعلق  فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ جائیں گے’

    ‘الیکشن کمیشن کے این اے 75 سے متعلق فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ جائیں گے’

    لاہور : معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو فیصلے کا اختیار ہے، این اے 75 میں ری پولنگ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا وزیر اعظم کا خواب ہے کہ شفاف انتخابات ہوں، قانون کی حکمرانی کے ساتھ جمہوریت آگے بڑھ سکتی ہے۔

    این اے 75 میں ری پولنگ کے فیصلے کے حوالے سے فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو فیصلے کا اختیار ہے، اس کے خلاف اپیل پر جائیں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔

    ان کا کہنا تھا الیکشن میں تشدد سے بچنے کے لئے الیکٹرونک ووٹنگ پر جانا ہوگا، مریم نوازڈسکہ میں قاتل کو شاباش دینے گئی تھیں۔

    گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے این اے 75 ڈسکہ ضمنی انتخاب کالعدم قرار دیے جانے کے الیکشن ‏کمیشن کے فیصلہ کو چیلنج کرنےکی منظوری دیتے ہوئے عثمان ڈار اور قانونی ٹیم کوعدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔

    یاد رہے الیکشن کمیشن نے این اے75 کا ضمنی انتخاب کالعدم قرار دیتے ہوئے 18 مارچ کو تمام پولنگ ‏‏اسٹیشنز پر ری پولنگ کا حکم دیا تھا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حلقے میں شفافیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا، فائرنگ،ہلاکتوں کیساتھ امن ‏‏وامان کی خراب صورتحال رہی، خراب صورتحال کے باعث ووٹرز کیلئے ہراسمنٹ کا ماحول پیداہوا، ‏‏جس سے نتائج کےعمل کومشکوک اورمشتبہ بنایا گیا، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

  • کرک مندر واقعہ : سپریم کورٹ نے چیئرمین متروکہ وقف املاک  کو طلب کرلیا

    کرک مندر واقعہ : سپریم کورٹ نے چیئرمین متروکہ وقف املاک کو طلب کرلیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کرک واقعے سے متعلق کیس چیئرمین متروکہ وقف املاک کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے مندر کی تعمیر کا ٹائم فریم بھی طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں کرک واقعےسےمتعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی
    ، سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کرک مندر کےمعاملےپرذمےداران سے ابھی تک وصولی نہیں ہوئی،کرک مندر کوجن لوگوں نےنقصان پہنچایاان سےوصولی کریں۔

    جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس میں کہا مندر کی تعمیر فوری شروع ہونی چاہیے، جس پراےاےجی کےپی نے بتایا کہ کےپی حکومت نےمندرکی تعمیر کے لیے 3کروڑ 48لاکھ مختص کیےہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کرک واقعہ میں 119 افرادگرفتار ہوئے، نقصان کی رقم وصول کریں، جسٹس اعجاز نے بھی کہا کہ ایک مرتبہ نقصان وصول ہوگا تودوبارہ کوئی ایساکرنے کا سوچے گا نہیں۔

    رمیش کمہار نے عدالت کو بتایا کہ مندر کی تعمیر کا کام ابھی تک شروع نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا متروکہ املاک کی ساری پراپرٹیز لیزپردےدی گئی ہیں، جبکہ کچھ پراپرٹیزپرمستقل طور کسی کو دےدی گئی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ متروکہ املاک کی 14 جائیدادوں پرتاحال غیرقانونی قبضہ ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متروکہ املاک کی جائیداد کسی کو نہیں دی جا سکتی، متروکہ اپنے زمین پر ہاوسنگ سوسائٹیز کیسےبنا سکتی ہے،جسٹس اعجازالااحسن کا کہنا تھا کہ متروکہ وقف املاک کےپاس یہ جائیدادیں امانت ہیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تمام جائیدادوں کی جیو ٹیگنگ کرنامثبت پہلو ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ نے کراچی میں کثیر منزلہ پلازہ گروائے، کثیر منزلہ پلازوں میں بھی متروکہ وقف املاک کی پراپرٹیز تھیں، شعیب سڈل نے بتایا متروکہ وقف املاک ایک رکنی کمیشن سےتعاون نہیں کرتا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا متروکہ املاک کے چئیرمین کوبلا لیتےہیں، سپریم کورٹ نے چیئرمین متروکہ وقف املاک کو طلب کر لیا اور کہا آئندہ سماعت پرپیش ہوں۔

    سپریم کورٹ نے کرک مندر کی تعمیر کاٹائم فریم بھی طلب کرلیا اور پنجاب حکومت کو پرلاب مندرپرہولی تہوارکیلئےسیکورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا چیف سیکریٹری،آئی جی پنجاب تہوار کے انعقاد کامعاملہ خوددیکھیں، چیف جسٹس نے کہا ہولی کا تہوار 28 مارچ کو ہی ہوگا، بعد ازاں کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی۔

  • حکومت کو قانونی محاذ پر بڑی کامیابی مل گئی

    حکومت کو قانونی محاذ پر بڑی کامیابی مل گئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےجی آئی ڈی سی کیخلاف کمپنیوں کی تمام اپیلیں خارج کر دیں، کمپنیوں کو گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں 417 ارب ادا کرنے ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت کوقانونی محاذپربڑی کامیابی مل گئی، سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کیخلاف کمپنیوں کی تمام اپیلیں خارج کر دیں، کمپنیوں کو گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں417 ارب ادا کرنے ہوں گے۔

    سپریم کورٹ کے 3رکنی بینچ نے 2 ایک کی اکثریت سے فروری میں کیا گیا محفوظ فیصلہ سنایا۔

    یاد رہے حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے جی آئی ڈی سی کے 220 ارب معاف کردیے تھے اور اپوزیشن کی تنقید پر حکومت نے آرڈیننس واپس لے لیا تھا۔

    خیال رہے 20 فروری سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا،عدالت نے فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل اجازت دی تھی کہ تمام وکلا 15 روز میں اپنی معروضات تحریر ی طور پر جمع کرا سکتے ہیں۔

    پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی جانب سے وفاق کی گیس انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی حمایت کی گئی تھی جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے مخالفت کی تھی۔

    اس سے قبل ہائی کورٹ نے حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا تھا، اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی کہ جو درخواستیں التوا کا شکار ہیں ان پر جلد فیصلہ کیا جائے کیوں کہ حکومت کو بھاری مالی خسارہ ہورہا ہے۔

  • سپریم کورٹ نے کراچی میں نالوں کی صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کیلئے این ڈی ایم اے کو3ماہ کا وقت دے دیا

    سپریم کورٹ نے کراچی میں نالوں کی صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کیلئے این ڈی ایم اے کو3ماہ کا وقت دے دیا

    کراچی : سپریم کورٹ نے نالوں کی صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کیلئے این ڈی ایم اے کو 3ماہ کا وقت دیتے ہوئے این ڈی ایم اے کارروائی کرکے جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی نالوں پر غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیس کی سماعت  ہوئی، کمشنر کراچی نے بتایا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی میں مزاحمت کا سامنا تھا ، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا نالوں کی صفائی کا کیا ہوا  این ڈی ایم اے بھی کررہی تھی ؟

    کمشنر کراچی نے جواب میں کہا کہ این ڈی ایم اےنے 3بڑے نالے صاف کیئے ہیں ، کراچی میں38 بڑے نالے اور 514چھوٹے نالے ہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کیا این ڈی ایم اے نے شہر کے نالوں کی صفائی کیوں نہیں کی ؟اٹارنی جنرل نے بتایا چیئرمین این ڈی ایم اے 2روز قبل آئے تھے آج نہیں آسکے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ تو صوبائی حکومت کی ناکامی ہے وفاقی حکومت کوآنا پڑا ، لوگوں کےبھی حقوق ہیں مگرشہریوں کو بنیادی حق نہیں دیاجارہا، یہ کیسی طرزحکمرانی ہےکہ صوبے کے لوگوں کا ہی خیال نہیں ؟ ہیلی کاپٹر پر دو چکر لگا کر آکر بیٹھ جائیں گے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ معلوم تھا بارش آرہی ہے کوئی پیشگی اقدامات نہیں کیئے گئے ، جس پر اےجی سندھ نے بتایا کہ تجاوزات کیخلاف کارروائی کرتے ہیں تونقص امن کا مسئلہ ہوجاتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پورا شہر انکروچ ہے، یہ آپکی ناکامی ہے کہ تجاوزات ختم نہیں کرسکے۔

    جسٹس گلزار نے کہا یہاں مافیا آپریٹ کررہے ہیں کوئی قانون کی عمل داری نہیں ، پوری حکومتی مشینری سب ملوث ہیں ، افسر شاہی اب ملے ہوئے ہیں، کروڑوں روپے کما رہے ہیں غیرقانونی دستاویز کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، سب رجسٹرار آفس میں پیسہ چلتا ہے ، معلوم نہیں پراپرٹی کس کےنام پر رجسٹر ہوگئی، جب مر جائے  گا تو بچوں کو پتا چلے گا کہ قبضہ ہوگیا۔

    جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا دنیا بھر میں لوگوں کی حکمرانی ہوتی ہے وہ ووٹ دیتے ہیں ، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کورونا میں سب سے پہلے سب رجسٹرار کا آفس کھول دیا گیا تھا ،آپ لوگوں نے پورے کراچی کو گوٹھ بنادیا ہے۔

    چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کراچی کا پورا شہر غلاظت اور گٹر کے پانی سے بھرا ہوا ہے ، مچھر ، مکھیوں،جراثیم کا ڈھیر ہے ، لوگ پتھروں پر چلتے ہیں ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ دو ماہ میں حاجی لیموں گوٹھ کلیئر ہوجائے گا۔

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کتنے سال ہوگئے آپ کو حکومت کرتے ہوئے ؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا ہماری یہ آپ کے ساتھ کمٹمنٹ ہے ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کی لوگوں کیساتھ کمٹمنٹ ہونی چاہیے مگر لوگوں کے ساتھ کیا کیا ؟ کراچی سے کشمور تک برا حال ہے جہاں جائیں وہی حال ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی وے پر اشتہارات لگے ہیں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ ، یہ کیا ہوتاہے ؟ ایسے کاموں کی اجازت نہیں دے سکتے ، آپ کسی اور کو کیسے کنٹریکٹ دے سکتے ہیں ؟ مکمل تباہی ہے اور سندھ حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے ، صرف حکمران انجوائے کررہے ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے سندھ تو مکمل انار کی والا صوبہ ہوگیا ہے ، کون ٹھیک کرےگا صوبے کو ؟؟؟ کیا وفاق کو کہیں کہ آکر ٹھیک کرے؟ سندھ میں لوگوں کو بنیادی حقوق کون دے گا ؟

    جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ یہاں تو پانی اور بجلی کیلئے لوگوں کو عدالت آنا پڑتا ہے ، میرا تعلق اسی صوبے سے ہے مگر حال دیکھیں یہاں کا ،آپ عوام کے حقوق کو نقصان پہنچا رہے ہیں ، پچھلے چالیس سال میں کراچی کا برا حال کردیا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت میں بیان میں کہا کہ کراچی اس وقت ایک یتیم شہر بنا ہوا ہے ، اگر کراچی تباہ ہوا تو پاکستان تباہ ہو گا ، وفاقی حکومت کراچی کو بچانے کیلئےقانونی وآئینی آپشز سوچ رہی ہے، میں اس وقت یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ کیا اقدامات ہوسکتےہیں ، گزشتہ روز بھی وزیر اعظم سے بات تفصیلی بات ہوئی تھی۔

    جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومت ہی نہیں لوکل گورنمنٹ بھی فیل ہے ،آپ نے کراچی سے کشمور تک کچھ نہیں کیا، پبلک پرائیوٹ پارٹنر  شپ پر سٹرک بنا دیتے ہیں ، صوبائی حکومت لوگوں کو دیکھ کر انجوائے کر رہی ہے ،کہیں قانون کی عمل داری نظر نہیں آ رہی ہے۔

    جسٹس اعجاز الا حسن نے ریمارکس میں کہا کہ یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے ، جعدالت نے ایکشن لیا توتجاوزات ہٹا دیتےہیں میگا سٹی ایسے چلتے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو بجٹ آپ نےمختص کیااس میں ایک پیسہ نہیں لگایاگیا، غیرملکی امداد جو آئی وہ بھی عوام پر خرچ نہیں ہوئی، یہاں 70سال ہو گئے  ابتک کوئی سسٹم نہیں بناسکے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا تجاوزات ختم کرنا ہے تو لوگوں کو متبادل دےکرکریں، سپریم کورٹ کا کندھا کیوں چاہتے ہیں؟

    جسٹس گلزار نے کہا آپ لوگوں نے توکوئی ہاؤسنگ اسکیم نہیں لانچ کی، ہائی وے پر جو زمین مختص کی سب قبضہ ہوگیا ، شہر کو وسعت دینے کےلئے کوئی اسکیم نہیں نکالی، لوگ تو بے یار و مددگار بیٹھے ہیں، پہلے بد امنی والا کیس چلتا رہا اور 10سال سے یہ کیس چل رہاہے ، 10سال میں کچھ نہیں کیا آپ نے ، حکومت کی کیا ذمہ داری ہے ؟

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کے سی آربھی سپریم کورٹ چلائے،سڑکیں بھی ہم بنوائیں ، کچرا بھی اٹھوائیں اور بل بورڈز بھی ہم گرائیں، سنیما کے سامنے بڑے بڑے  اشتہار لگا دیئے ،چورنگی بھردی ، سارے رشتے دار لگے ہوئے ہیں نوکریوں پر ، ڈپٹی کمشنر رجسٹرار وغیرہ سب ایک دوسرے کےرشتےدارہیں۔

    عدالت میں رہائشی خاتون حاجی لیموں گوٹھ نے بتایا کمشنر کراچی مافیا کو سپورٹ کررہے ہیں ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اگر یہ ثابت ہوگیا تو یہ کمشنر فارغ ہوجائیں گے۔

    سپریم کورٹ نےاین ڈی ایم اےکوکراچی بھرکےنالوں کی صفائی کی ہدایت کردی اور نالوں کے اطراف میں قائم تجاوزات بھی فوری ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا متاثرین کی بحالی اورمتبادل کےلئےسندھ حکومت اقدامات کرے۔

    عدالت نے نالوں کی صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کیلئے این ڈی ایم اے کو 3ماہ کا وقت دیتے ہوئے کہا این ڈی ایم اے کارروائی کرکے جامع رپورٹ پیش کرے اور سندھ  حکومت این ڈی ایم اے کی مکمل معاونت کرے۔

    سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو حاجی لیموں گوٹھ کے نالوں سے تجاوزات ختم کرکے متاثرین کی بحالی کا حکم دیتے ہوئے کہا ہم آگے چل کر این ڈی ایم اے کو مزید ذمہ داریاں دیں گے۔

  • سپریم کورٹ میں  سانحہ آرمی پبلک ‌‌اسکول کیس کی سماعت 4 اگست کو ہوگی

    سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک ‌‌اسکول کیس کی سماعت 4 اگست کو ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک ‌‌اسکول کیس کی سماعت 4 اگست کو ہوگی ، چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سانحہ اے پی ایس پشاور کیس سماعت کے لیے مقرر کر دیا، چیف جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ 4 اگست کو سماعت کرے گا۔

    اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے جبکہ سانحہ اے پی ایس میں انکوائری کمیشن اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا چکا ہے۔

    یاد رہے فوکل پرسن اے پی ایس کمیشن کا کہنا تھا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول انکوائری کمیشن کی رپورٹ تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کمیشن کی جانب سے سانحہ میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جبکہ 101 گواہان اور 31 پولیس، آرمی اور دیگر آفیسرز کے بیانات بھی ریکارڈ کئے۔

    خیال رہے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے شہدا کے والدین کی درخواست سال 2018 میں کمیشن قائم کیا گیا تھا، کمیشن کی سربراہی پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد ابراہیم خان کررہے تھے۔

    واضح رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور آرمی پبلک اسکول میں خون کی ہولی کھیلی گئی تھی، دہشت گردوں نےعلم کے پروانوں کے بے گناہ لہو سے وحشت و بربریت کی نئی تاریخ رقم کی تھی۔

    آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے دردناک سانحے اور دہشت گردی کے سفاک حملے میں 147 افراد شہید ہوگئے تھے، جن میں زیادہ تعداد معصوم بچوں کی تھی۔

    پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد پر سات سال سے عائد غیراعلانیہ پابندی ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث کچھ مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جاچکا ہے۔

  • نیب نقائص پر مبنی تحقیقات کو ریفرنس میں بدل دیتا ہے، سپریم کورٹ کا اظہار برہمی

    نیب نقائص پر مبنی تحقیقات کو ریفرنس میں بدل دیتا ہے، سپریم کورٹ کا اظہار برہمی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ایک حکم نامے میں احتساب ادارے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب ریفرنس کے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ نیب خود ہے، نیب نقائص پر مبنی تحقیقات کو ریفرنس میں بدل دیتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیب چیئرمین جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کو احتساب عدالتوں میں کرپشن ریفرنسز کے فیصلوں میں تاخیر سے متعلق وجوہ پیش کیے تھے، اور کہا تھا کہ کرپشن مقدمات پر 30 دن میں فیصلہ ممکن نہیں، موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کے لیے ناکافی ہیں۔

    آج چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد سمیت تین رکنی بینچ نے لاکھڑا پاور پلانٹ تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق کیس میں ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا ہے کہ نیب ریفرنس کے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ نیب خود ہے، نیب کے پاس نہ صلاحیت ہے نہ ہی انکوائری اور تحقیقات کا تجربہ ہے، نیب میں انکوائری کا جائزہ لینے کا کوئی پیمانہ نہیں، نقائص پر مبنی تحقیقات کو ریفرنس میں بدل دیا جاتا ہے۔

    کرپشن مقدمات پر 30دن میں فیصلہ ممکن نہیں، چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کو مرتب ریفرنس کا خود جائزہ لینے کی ضرورت ہے، نیب 30 روز میں ریفرنس پر فیصلے کو یقینی بنائے، فیصلوں میں تاخیر کی وجہ نیب، آفیشل اور پراسیکیوشن ٹیم ہے، چیئرمین اگر سمجھے کہ ان کی ٹیم کے تجربے کا ایشو ہے تو ٹیم کو تبدیل کر دیں۔

    تین صفحات پر مشتمل سپریم کورٹ کے حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیب اپنے رولز مرتب کر کے آئندہ سماعت پر پیش کرے اور چیئرمین نیب آئندہ سماعت پر تحریری جواب دیں۔

    ججز کا کہنا تھا کہ سیکریٹری قانون نے کابینہ سے نئی 120 عدالتوں کی منظوری لے کر ججز کی تعیناتی کا بیان دیا ہے، اب ان نئی احتساب عدالتوں میں ججز نیب ریفرنس پر جلد فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔

  • سپریم کورٹ نے ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس لے لیا

    سپریم کورٹ نے ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس لے لیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس لے لیا، اور حکومت سے ترکی سے ٹڈی دل اسپرے کے لیے جہاز لیز پر لینے اور ٹڈی دل حملوں سےنقصانات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 4رکنی بنچ نے کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل فار پاکستان عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت میں اٹارنی جنرل نے بتایا وفاقی حکومت کوروناتحفظ کےاقدامات کر رہی ہے، وفاقی حکومت اب ایس اوپیزپر عمل درآمد یقینی بنائے گی، جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا حکومت نےتاحال کورونا سےتحفظ کی قانون سازی نہیں کی تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا صوبوں کی جانب سے قانون سازی کی گئی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا قومی سطح پرکوروناسےتحفظ کی کوئی قانون سازی ہونی چاہیے ، قومی سطح پرقانون سازی کا اطلاق پورے ملک پرہوگا، ملک کےتمام ادارے کام کرسکتےہیں توپارلیمنٹ کیوں نہیں، قانونی حوالے سے تاحال کچھ نہیں ہوا،چین نےوباسے نمٹنےکے لیے فوری قانون بنائے۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ نہیں معلوم کورونامریضوں کی تعدادکہاں جاکررکے گی ، کوروناکسی صوبےمیں تفریق نہیں کرتا،لوگوں کوماررہاہے، وفاقی حکومت کواس معاملےپرقائدانہ کرداراداکرناچاہیے، وفاقی حکومت کوروناسےبچاؤکےلیےقانون سازی کرے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے مزید کہا عدالت لوگوں کےحقوق کی بات کررہی ہے، لوگوں کی زندگی کاتحفظ سب سےبڑابنیادی حق ہے، موجودہ حالات میں لوگوں کی زندگیوں کوخطرات ہیں، پریس کانفرنس کےذریعےعوام کاتحفظ نہیں ہوگا، عوام کاتحفظ قانون کےبننےاور اس پرعمل سےہوگا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ وقت سب سےبڑااثاثہ ہے،وقت کسی کاانتظارنہیں کرتا، آپ کےپاس وقت نہیں رہا،ایک لاکھ سے زائد کوروناکیس آگئے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا حکومت کوقانون سازی کی تجویزدوں گا۔

    چیف جسٹس نے کہا ہم توپہلےدن سےفنکشنل ہیں،عدالتیں بندنہیں کرسکتے، ہم بھی کوروناوائرس کی حدت محسوس کررہےہیں، جسٹس اعجازالاحسن کا ریمارکس میں کہنا تھا ڈاکٹروں کوحفاظتی سامان ہرحال میں ملناچاہیے۔

    جسٹس مظاہر علی اکبرنقوی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی ذمےداری بہت زیادہ ہے، کوروناسےتحفظ کاحل قانون سازی ہے، قانون سازی کرناوفاقی حکومت کے حق میں ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا حفاظتی سامان نہ ہونےسےنقصان ہواتوتلافی نہیں ہوگی، ورکرزکی موت پروزیر اعلیٰ جاکرمعاوضےکااعلان کردیتےہیں، عدالت ایسی چیزوں کی صرف نشاندہی کرسکتی ہے، قانون سازی کےاقدامات ہرحال میں حکومت نےکرنےہیں۔

    کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت میں ممبر لیگل این ڈی ایم اے نے بتایا ٹیسٹنگ استعداد30 ہزار سےبڑھ چکی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا 30 ہزار ٹیسٹ تو نہ ہونےکے برابر ہیں ، پاکستان کی آبادی تو 22کروڑ کی ہے۔

    ممبر لیگل این ڈی ایم اے نے کہا کہ ٹیسٹ صلاحیت کوساتھ ساتھ بڑھایاجائے گا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے صوبوں کو ٹیسٹنگ صلاحیت بڑھانے کا کہے تو ممبر لیگل این ڈی ایم اے نے بتایا کہ کورونا مریض ایک لاکھ سے تجاوزکر چکے ہیں، کوورناٹیسٹنگ کی 100لیب قائم کی جاچکی ہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا بائیس کروڑ کے لیے صرف 100 لیب کیسے ، 100لیب صرف کوروناوائرس مریضوں کے لیے ہیں ،کیا باتیں کر رہے ہیں 100لیب سے کیاہو گا ، 100 لیب تو صرف کراچی میں ہونی چاہیے، ابتک کتنے کورونامریضوں کے ٹیسٹ مکمل کیے گئے ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا سینٹری ورکرزگٹرصاف کرتےہیں ان کیلئےحفاظتی اقدامات کیاہیں تو اٹارنی جنرل نے بتایا عید کے موقع کے لئے ہفتہ ،اتوار کو مارکیٹس کھولی گئی تھیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ لوگوں میں تاحال آگاہی نہیں آئی، عید پر لوگوں نے ایس او پیز کو نظر انداز کر دیا، ویکسین کی دریافت سے قبل راستہ احتیاطی تدابیر ہیں، کوروناکا وائرس بہت تیزی سے بڑھ گیا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا پولیس والوں کودکانداروں،خریداروں سےپیسےلینےکی اجازت دیدی گئی ، کس طرح سے ایس او پیز پر عمل ہوگا، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا شہریوں کو بھی ذمہ داری دکھاناہوگی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا ٹڈی دل معاملےپراین ڈی ایم اےنےابتک کیاکیا اور جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ٹڈی دل کےحملےفوڈ سیکیورٹی کو بھی متاثر کریں گے ، جس پر ممبر لیگل این ڈی ایم اے نے بتایا ٹڈی دل اسپرے کیلئے ترکی سے جہاز لیز پر لیاہے۔

    جسٹس گلزار نے کہا کیا پاکستان میں اسپرے کے لئے جہاز لیز پرنہیں مل سکتا، ترکی سے جہاز لیز پر لیتے ہوئےقوائد کی پیروی ہوتی ہے، کیا جہاز لیز پر لینے کے لئے ٹینڈر دیا گیا، جس پر ممبر لیگل این ڈی ایم اے نے بتایا ترکی سے جہاز ایمرجنسی بنیاد پر لیا گیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو سامان منگوایا گیا اسکی دستاویز ریکارڈ پر کیوں نہیں، ایسانہیں ہوسکتاآپ اپنی مرضی سے جوچاہیں کرتے پھریں ، کوروناسےمتعلق تمام خریداری کاآڈٹ کرائیں گے، صوبوں کا بھی ہم آڈٹ کرائیں گے، دیکھتے ہیں کہ کورونا پر کس نے کیا کچھ کیا ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا مرضی سے نہیں قانون سے کام ہوگا، این ڈی ایم اے کو مرضی سے کام کرنےکالائسنس نہیں ملا ہوا، این ڈی ایم اے کی ایک ایک چیز کا آڈٹ کرالیں گے، دیکھیں گے کس نےکوروناوائرس میں کیاکیا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ٹڈی دل پر اسپرے کےلئے4جہاز فعال نہیں ہیں، جہاز کے پائلٹ نہیں تھے تو یہ 4جہاز کہاں سےآگئے، ہمارے اپنے جہاز نہیں چل رہےباہرسےلاکراسپرےکیاجارہا ہے، سکھرمیں ایک جہاز کھڑا ہے تیز ہوا چلی تو وہ جہاز اڑ جائے گا۔

    سپریم کورٹ نے ہفتہ اور اتوار کو مارکیٹیں کھولنے کا حکم واپس لے لیا جبکہ ترکی سے ٹڈی دل اسپرے کے لیے جہاز لیز پر لینے کا ریکارڈ اور حکومت سےٹڈی دل حملوں سےنقصانات کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ٹڈی دل کے حملوں سے فوڈ سیکیورٹی کو کتنانقصان ہوا،نقصان کے نتیجے میں باہر سےفوڈزمنگوانےپرکتنےاخراجات آسکیں گے ، حکومت کورونا کے خاتمے کیلئے قانون سازی معاملے کو سنجیدگی سے دیکھے اور کورونا کے خاتمے کے لیےقانون سازی کویقینی بنائے۔

    سپریم کورٹ نے ہدایت کی تمام حکومتیں سینیٹری ورکرز کو حفاظتی سامان کی فراہمی یقینی بنائیں اور سینیٹری ورکرز کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی جائے۔

    عدات ن این ڈی ایم اے سے طبی سامان کی تیاری کیلئےمشینری امپورٹ کاریکارڈ اور تفصیلات بھی طلب کرلیں، جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس میں کہا کیا حکومت ٹڈی دل سےلڑنےمیں سنجیدہ ہے، کیا پاکستان میں پائلٹ کی کمی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا نہیں معلوم ترکی سے جہاز لیز پر لے کر کس نےفائدہ اٹھایا، کیا پاکستان میں ٹڈی دل نہیں ہے، ٹڈی دل کا ایشو موجود ہے ،کیا این ڈی ایم اے ٹڈی دل کے پیچھے بھاگ رہا ہے، این ڈی ایم اے کو ٹڈی دل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ، ہم نے ٹڈی دل کوبچپن میں دیکھا تھایا اب دیکھ رہے ہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں کوروناازخودنوٹس کیس کی سماعت 2ہفتے کیلئے ملتوی کردی گئی۔

  • کتنا راشن کس کو دیا؟سپریم کورٹ کا سندھ حکومت سے جواب طلب

    کتنا راشن کس کو دیا؟سپریم کورٹ کا سندھ حکومت سے جواب طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے راشن کی تقسیم سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے کہا بتایا جائے راشن کہاں سے اور کتنے میں خریدا گیا جبکہ پنجاب حکومت کی جانب سے بین الصوبائی مشروط سفری پابندی کانوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا ۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کورونا ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا پارلیمان کے اجلاس کے انعقاد سے متعلق بتائیں، یہ پہلی بات تھی تو ہم نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھی۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 7 اپریل کےفیصلے میں عدالت نےحکومت کوبریفنگ کی اجازت دی ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بریفنگ دینے والی کمیٹی سے ہم نے 5 سوال پوچھے ایک کا جواب نہیں ملا، آپ کی ٹیم کیا کام کر رہی ہے ہمیں نہیں معلوم ،حکومت کی معاون خصوصی کی فوج ہے، 50 لوگوں پر مشتمل  بڑی کابینہ ہے، ان 50 لوگوں پرمبینہ طور پر جرائم میں ملوث ہونے کےبھی الزامات ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ریمارکس دینےمیں بہت احتیاط برت رہےہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اس بات کومدنظر رکھے کورونا صورتحال پر کوئی ملک تیار نہیں تھا۔

    جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ ہمارے خدشات بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور استفسار کیا کہ کیا آپ نے سوشل ڈسٹنسنگ کا حال گزشتہ ہفتے دیکھا  تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا 22 کروڑ عوام کا ملک ہے، فوج کے ذریعے بھی 22 کروڑ افراد سے سوشل ڈسٹنسنگ زبرستی نہیں کرائی جاسکتی ، سوشل  ڈسٹنسنگ کیلئے صوبائی حکومتوں کو بھی اپنا کام کرنا ہوگا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا، مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا، جس پر اٹارنی  جنرل کا کہنا  تھا کہ آپ ایسی بات نہ کریں تو جسٹس گلزار نے مزید کہا کہ میں نے مبینہ طورپران کوکرپٹ کہاہے، اس وقت ظفر مرزا کیا ہے اور اس کی کیا صلاحیت ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ہم نےحکم دیاتھاپارلیمنٹ قانون سازی کرے، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کام کررہی ہیں عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب نہیں آئے، ظفرمرزا نے عدالتی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کوروناسےلڑنےمیں وسائل کی کمی کاسامناہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا حکومت نےسماجی فاصلے کے حوالے سے کیا کام کیاہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ سماجی فاصلے قائم رکھوانا مشکل عمل ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس میں طاقت کےاستعمال سے زیادہ عوام کے شعور کا عمل ہے، معذرت کے ساتھ وزیراعظم نے خود کو لوگوں سے دور کیا ہوا ہے، شیروں اور معاونین خصوصی کی ٹیم نے وفاقی کابینہ کو غیر مؤثرکر رکھا ہے، کابینہ کا حجم دیکھیں 49ارکان کی کیا ضرورت ہے۔

    چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ مشیراورمعاونین نے پوری کابینہ پر قبضہ کر رکھا ہے، اتنی کابینہ کا مطلب ہے وزیراعظم کچھ جانتا ہی نہیں ، ہم آپ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کررہے۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا ہم چاہتے ہیں معاملات حل ہوں، ہم بریفنگ میں کہہ چکےتھےکہ ہم مداخلت نہیں کررہے، جسٹس گلزارکا کہنا تھا کہ ہمار ا مقصد آرٹیکل 9کا اطلاق ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے بارے میں تو پارلیمنٹ ہی طےکرےگی، حکومت قانون سازی کےمراحل میں ہے، جس پر چیف جسٹس  نے کہا کہ صوبائی حکومتیں کچھ اورکر رہی ہیں مرکز کچھ اورکام کررہاہے تو اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ایسا 18ویں ترمیم کی وجہ سے ہو رہا ہے، اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کورونا سے مرنے والوں کی تعداد تو آ گئی ، بھوک سے مرنے والوں کی تعداد نہیں بتائی جا رہی، ہم لوگوں کو بھوک سے مرنے نہیں دیں گے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ریاستی مشینری کو اجلاسوں کے علاوہ بھی کام کرنے ہوتے ہیں، کیاملک بندکرنے سے پہلے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، حکومتی  مشیران اوروزرائے مملکت پرکتنی رقم خرچ کی جارہی ہے؟ مشیران ووزرا پر اتنی رقم کیوں خرچ کی جارہی ہے؟

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مشیران اورمعاونین کابینہ پر حاوی ہوتےنظرآرہےہیں، یہ کیا ہو رہا ہے؟ کابینہ کے فوکل پرسن بھی رکھے گئے مشیران ہیں، کیا پارلیمنٹیرینز  پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے گھبرا رہےہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اپنے اپنے راستے ہیں، ہر سیاستدان اپنا الگ بیان دے رہا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت سیاسی لوگوں کےبیانات پرنہ جائے، وفاقی اورصوبائی حکومتیں صلاحیت کےمطابق تدابیر اختیارکر رہی ہیں، چیف جسٹس نے استفسار  کیا پاکستان میں بڑے مینوفیکچررز موجود ہیں کیا وہ حفاظتی کٹس نہیں بنا سکتے؟

    جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ ایشوعوام کی آزادی اورصحت کاہے، اسپتالوں میں ڈاکٹر کو غذا بھی غیرمعیاری فراہم کی جارہی ہے، ویڈیو دیکھی ڈاکٹر کھانے کی بجائے عام آدمی سے حفاظتی کٹس مانگ رہے ہیں۔

    جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے پارلیمنٹ ریاست کی طاقت ہوتی ہے، اس کی نمائندگی کرتی ہے، لوگوں کوگھروں میں بندکر دیا گیا ہے حکومت ان  تک پہنچے، عام بندےکوپولیس پکڑ کر جوتے مار رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا حکومت لوگوں کو سپورٹ کرے تو وہ بات مانیں گے۔

    جسٹس قاضی امین نے مزید کہا کہ لوگ بھوک سے تلملارہےہیں ہم انارکی کی طرف بڑھ رہےہیں ، کورونا سے ہمارے سیاسی نظام کو بھی خطرہ ہے، صدر مملکت  پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس کیوں نہیں بلاتے؟

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے ، اس بات کا وزیر اعظم کو ادراک ہے، اس لیے وزیر اعظم کچھ کاروبار کھولنا چاہتے ہیں، حکومت کورونا سے تحفظ کا آرڈیننس بھی لا رہی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی سندھ نےسنی سنائی باتوں پرکراچی کےکئی علاقےبندکردیے، کل کو پورا کراچی بند کردیں گے، قومی رابطہ کمیٹی کے آج کے اجلاس سے کیا ہوگا، وقت آرہا ہےکراچی میں پولیس اورسرکاری گاڑیوں پر ہجوم حملے کریں گے۔

    ایڈو وکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ حکومت لوگوں کوسماجی فاصلے سے متعلق ہدایات دے سکتی ہے، جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ لوگ سماجی فاصلوں  پر عمل نہ کرے تو اس کا مطلب ہے سرنڈر کردے۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے لاکھوں لوگ بےروزگار ہوگئے،ڈیٹا حکومت کےپاس نہیں، حکومت کو خودعوام تک رسائی یقینی بنانی ہوگی، اسلام آباد میں بیٹھ کراجلاس کرنے سےکچھ نہیں ہوگا، صرف الیکٹرانک ڈیٹا پرہی انحصار نہ کیا جائے۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیامشکل حالات میں حکومت ڈیلیورنہیں کر پائی تو کیا فائدہ؟ میرے گھر پینٹ کرنے والے نے راشن کیلئے مجھے میسج کیا، ایسے دیہاڑی دار طبقے کیلئے حکومت کو عملی کام کرنا ہوگا ، وقت آگیا ہے ڈاکٹروں کو سیلیوٹ کیا جائے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا لاک ڈاؤن کامطلب کرفیوہوتاہے، کیاکراچی کی متاثرہ 11یونین کونسلز کے ہر مکین کا ٹیسٹ ہوگا؟ سیل کی گئی 11یونین کونسلز  کی کتنی آبادی ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا متاثرہ یونین کونسلز کی آبادی کا درست علم نہیں، متاثرہ یونین کونسل میں کھانے پینے کی دکانیں کھلی ہیں۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا جن رہائیشیوں کےپاس وسائل نہیں وہ کیاکریں گے ؟ کل پورا سندھ رو رہا تھا، میرپورخاص، سکھر، تھرپارکر میں چیخ وپکار ہے، سندھ حکومت کے دعووں اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے،کل لائنزایریا کراچی میں بھی حالات بہت خراب تھے۔

    جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کیاسندھ حکومت عوام کےآگے سرنڈرکر رہی ہے؟ لائنز ایریامیں کھانا فراہم کرنے کی کیا منصوبہ بندی ہے؟ لوگ بھوک سےتلملا رہے ہیں کھانا نہ ملا تو خانہ جنگی ہوگی، ہر سیاسی جماعت دوسری کےخلاف پریس کانفرنس کررہی ہے۔

    جسٹس قاضی امین نے کہا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلاکر سیاسی جماعتوں کو ایک ہونا چاہیے، غریب آدمی سڑک پرنکلے تو جوتے مارے جاتے ہیں، کل ایک بڑے صاحب کا جنازہ تھا لوگ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑےتھے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا اب تک کتنے افراد کو راشن ملا؟ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ 4 ہزار افراد کو 12 تاریخ تک راشن فراہم کیا گیا،  تو  جسٹس سجادعلی شاہ نے کہا مقدار کیا تھی؟کہاں سے خریدا؟کس کو دیا؟ کوئی ریکارڈ ہے، کیا اس اصول پر عمل کر رہے ہیں کہ ایک ہاتھ دے تو دوسرے کوپتہ نہ چلے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاوفاق اورصو بوں میں ہم آہنگی ہے؟ سوال صرف سندھ نہیں بلکہ تمام صوبوں سے کر رہےہیں، حکومت چاہے سو دفعہ لاک ڈاؤن کرے عدالت کو کوئی ایشو نہیں ، لاک ڈاؤن لگانے سے پہلےحکومت کے پاس پلان بھی ہوناچاہیے۔

    جسٹس سجادعلی شاہ نے کہا سندھ حکومت نے11یوسیزکوسیل کردیا، ویڈیوز میں پولیس والے راشن کھینچ کھینچ کر لے جارہے ہیں، سندھ حکومت نے 8ارب کا راشن تقسیم کیا لیکن غریب کوپتہ بھی نہیں چلا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا عدالت ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، ہم اپنےعدم اطمینان کو عدالتی حکم نامے میں لکھیں گے ، اٹارنی  جنرل نے کہا آپ یہ معاملہ حکومت پر چھوڑ دیں، جس پر چیف جسٹس نے مزید کہا کہ حکومت کا ایک جز آئین کے مطابق کام نہیں کر رہا ہے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نےڈاکٹرظفر مرزاکوعہدے سےہٹانےکاکہہ دیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت ظفر مرزا کو ہٹایا تو بحران پیدا ہوجائے گا ، اس وقت  ملک میں کورونا کے باعث بحران کی کیفیت ہے

    سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ کاظفر مرزا کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ، اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانا تباہ کن ہوگا، جس  پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ظفرمرزاکیخلاف ایف آئی اے میں جوانکوائری چل رہی ہے وہ کیاہے۔

    اٹارنی جنرل نے جواب میں بتایا کہ کسی شخص نےڈاکٹر ظفرمرزاکیخلاف درخواست دی ہے، ظفرمرزا نے چین کو جو بھی سامان بھیجا حکومت کی اجازت سے بھیجا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ جوبھی کام کرتےہیں حکومت کی اجازت سے کرتےہیں، آپ نے چینی بھی حکومت کی اجازت سے ایکسپورٹ  کی اورآٹابھی ، پھرآٹا چینی امپورٹ بھی حکومت کی اجازت سے ہی کیا۔

    کابینہ میں حالیہ ردوبدل پر چیف جسٹس نے نام لئے بغیر تبصرہ کرتے ہوئے کہا وزیراعظم کابینہ میں مہرے بدل رہا ہے، کرپٹ لوگوں کی نشاندہی کی جائے ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملکی قیادت کا موجودہ حالات میں امتحان ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم عالمی اداروں سےقرضوں کی واپسی کیلئے وقت مانگ رہا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے صرف قرضوں کی بات نہیں کی، دیگر معاملات بھی اٹھائے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت پی پی ای کس ریٹ پر خرید رہی ہے،ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ پی پی ای کے مختلف نرخ ہیں، سندھ میں مقامی طورپر حفاظتی کٹس کی تیاری شروع ہو چکی، مقامی سطح پر روز5ہزار کٹس تیارہو رہی ہیں۔

    جسٹس سجادعلی شاہ نے استفسار کیا سندھ میں لوگوں کی مددکےلیےحکومتی سطح پرکیااقدامات کیے؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سندھ میں 5 لاکھ  سے  زائد لوگوں کو راشن فراہم کیا، جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید استفسار کیا کہاں اور کس کو راشن فراہم کیا۔

    جسٹس سجادعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سندھ پولیس تو جے ڈی سی والوں کو لوٹ رہی ہے ، 10 روپے کی چیزدیکر 4 وزیر تصویر بنوانے کھڑے ہو جاتے ہیں ، سندھ میں گٹر کا ڈھکن لگانے پر 4 لوگ کھڑے ہو کر تصویر بنواتےہیں۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا سندھ میں راشن تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے ؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے راشن تقسیم کیا جاتا ہے، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا راشن دینے کےلیےکیامعیارمقررہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت والےہیں۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ کوئی کلپ ہےکہاں سے راشن خریدا کہاں دیا؟ یا ایک ہاتھ سے لینےدوسرے سےدینے والا کام یہاں بھی کیا ؟ تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا 5 لاکھ 4 ہزار 80 خاندانوں کو15 دن کاراشن دیا، ہر خاندان میں افراد کا تخمینہ لگا کر راشن دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پھر تو ایک من آٹے کی بوری چاہیے ہوگی ایک خاندان کے لیے، آپ نے راشن دینے کا کہہ دیا ہم نے سن لیا، اب دیکھتے ہیں قوم مانتی ہے  یا نہیں، سندھ میں لوگ سڑکوں پر ہیں، سندھ کے لوگ کہہ رہے حکومت نے یک ٹکابھی نہیں دیا۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سوالات صرف سندھ نہیں بلکہ چاروں صوبوں کے لیے ہیں، کے پی توراشن کے بجائے نقد رقم بانٹ رہا ہے، ایک وقت تھا ملکی معیشت کی بنیاد صنعتوں پر تھی، اب صنعتیں گودام بن چکی ہیں، صنعتیں بند ہونےکی پرواہ پارلیمان کو ہے نہ حکومت کو۔

    چیف جسٹس نے کہا نجی سرمایہ کاری نہیں آ رہی تو حکومت خودصنعتیں لگائے، آج وزیراعظم قرض واپسی کیلئے مہلت کی اپیل کر رہےہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نیشنلائزیشن سےصنعتوں کونقصان ہواجوآج بھی بھگت رہےہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ مشیروں اور معاونین کی فوج سے کچھ نہیں ہونا، وزیراعظم کی ایمانداری پر کوئی شک و شبہ نہیں، وزیراعظم کے پاس صلاحیت ہےکہ کام کے 10بندوں کا انتخاب کرسکیں، ذرا سی مشکل آتے ہی ادھر کا مہرا ادھر لگا دیا جاتا، شاید معلوم نہیں کہ اگلا مہرا پہلے ہی لگائے جانےکیلئے تیار بیٹھا ہے۔

    کوروناسےمتعلق ازخودنوٹس کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ زیادہ لوگ اپنا کام کر رہےہیں گندے انڈے تھوڑے ہیں ، سویلین ہو یا فورسز سب اپنی کوشش کر رہےہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے علاوہ سب حکومتوں کی تفصیلات ہمارے پاس ہیں ، کچھ لوگ ایسے حالات میں  بھی پیسہ بنا رہے ہیں، زندگی بچانے کے معاملات میں بھی پیسے کھائیں جائیں تومقصدختم ہوجاتاہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاک ڈاون کے حوالے سے اہم میٹنگ ہے، تمام تحفظات حکومت کے سامنے رکھوں گا۔

    کورونا سے متعلق سماعت میں عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے بین الصوبائی مشروط سفری پابندی کانوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے بین الصوبائی سفر کے لیے کورونا سرٹیفکیٹ کی پابندی کی شرط ختم کردی۔

    عدالت نے کہا اٹارنی جنرل نےکورونا سےنمٹنےکےمؤثراقدامات کی یقین دہانی کرائی، کوشش کی یقین دہانی کرائی کہ کم سے کم لوگ اس وائرس سے متاثر ہوں ،صحت کے ساتھ سوشل سیکٹر پر بھی توجہ دی جائے گی، اورعوام کی فلاح کےلیےہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا وزیراعظم کورونا سے نمٹنے پرآج اجلاس کر رہے ہیں، وزیراعظم صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے ساتھ مؤثرحکمت عملی طے کریں گے اےجی پنجاب نےاسپتالوں کی صورتحال،کوروناسے نمٹنے کےاقدامات سےآگاہ کیا۔

    اسپتالوں میں طبی عملےکےلیےمقامی تیارسامان اورکٹس فراہم کر دی جائیں گی، مقامی طور پر تیار طبی آلات اور وینٹی لیٹرز تیار کیے جارہے ہیں ، مصنوعات معیار پر پورا اتریں تو اسپتالوں کوفراہم کی جائیں گی جبکہ ڈاکٹر ظفرمرزا کو ہٹانے کی آبزرویشن عدالتی حکم میں شامل نہیں کی گئی۔

    عدالت نے حکومت سےآج ہونے والےاعلیٰ سطح اجلاس کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کراچی میں گیارہ یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجہ نہیں بتائی گئی، سندھ حکومت کو سیل یونین کونسلز میں متاثرہ افرادکی تعداد کابھی علم نہیں، سیل یونین کونسلز میں کھانا اور طبی امداد فراہم کرنےکاکوئی منصوبہ نہیں۔

    عدالت نے مزید کہا سندھ حکومت 8ارب کاراشن تقسیم کرنےکےشواہد بھی نہ پیش کرسکی،سندھ حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے، سندھ بھر سے کھانا نہ ملنے کی شکایت پہنچ رہی ہیں۔

    سپریم کورٹ نے سندھ حکومت سے راشن کی تقسیم سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے کہا بتایا جائے راشن کہاں سےاورکتنےمیں خریداگیا، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹروں کی ضروریات پوری کریں۔

    سپریم کورٹ نے ڈاکٹروں کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کے بھی فوری ازالے کا حکم دیتے ہوئے کہا اسلام آبادانتظامیہ اورپنجاب حکومت سے کورونا پر اقدامات اورامدادی کام کی تفصیل طلب کرلی۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں کوروناازخودنوٹس کیس پرسماعت آئندہ پیرتک ملتوی کردی

  • ایئر مارشل ارشد ملک کو بطور سی ای اوپی آئی اے کام جاری رکھنے کی اجازت مل گئی

    ایئر مارشل ارشد ملک کو بطور سی ای اوپی آئی اے کام جاری رکھنے کی اجازت مل گئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ایئرمارشل ارشدملک کو بطور سی ای اوپی آئی اے ایک ماہ تک کام جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے ان کے دیےگئے ٹھیکوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں چیف ایگزیکٹو آفیسر پی آئی اے ایئرمارشل ارشد ملک تعیناتی کیس کی سماعت ہوئی۔

    سپریم کورٹ نے ایئرمارشل ارشدملک کوایک ماہ تک کام جاری رکھنےکی اجازت دے دی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جوچیزپی آئی اے کو نیچے دھکیل رہی ہے وہ ہیومن ریسورس ہے، پی آئی اے میں جہازوں کے تناسب سےزیادہ لوگ کام کررہے ہیں، یہی وجہ ہے پی آئی اے منافع بخش ادارہ نہیں بن سکتا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا پی آئی اےمیں سفار ش اوراقرباپروری پربھرتی کی جاتی ہے، سفارش اور اقربا پروری بھی پی آئی اے کی زبوں حالی کی وجہ ہے، جس کوگلگت گھومنے کا شوق ہوتا ہے، وہ فیملی کو جہاز میں بیٹھا کر لے جاتا ہے، پی آئی اے سے کھلواڑ کرنے والے آج بھی پی آئی اے میں کام کررہے ہیں۔

    عدالت نے پی آئی اےکے تمام کنٹریکٹ ایوارڈ کی تفصیل طلب کرتے ہوئے کہا پی آئی اے بتائے کونسے کنٹریکٹ جاری اور کون سےمنسوخ کرے، ایک ماہ تک موجودہ انتظامیہ کام جاری رکھے اور ایک ماہ کے اندر تفصیلی رپورٹ جمع کرائے۔

    چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار نے کیس میں ریمارکس دئیے کروناوائرس بارڈر اور ایئرپورٹس کےذریعےملک میں آیا، اس وائرس کےتدارک کیلئےاداروں میں بیٹھےلوگوں نےکیاکیا؟کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا ہر برا کام ایئر پورٹس پر جاری ہے، ایئر پورٹس پر کسٹم، ایف آئی اے سمیت تمام ادارے مافیا ہیں، یہ لوگ عوام کی تضحیک کےلئے بیٹھے ہیں،کوئی ایک اچھی چیز بتادیں جوعوام کےحق میں کی گئی ہو۔

    سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت میں ایئر مارشل ارشد ملک اور پی آئی اے یونین کو طلب کرلیا اور پی آئی اے سے ارشد ملک کے دیےگئے ٹھیکوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہ انتظامیہ آگاہ کرے کن ٹھیکوں کا جاری رہنا ضروری ہے۔

    عدالت نےسماعت کے تحریری حکم میں کہا اٹارنی جنرل نے بتایا ادارہ وینٹی لیٹر پر ہے ،ارشد ملک کو کام کرنے دیا جائے، ارشد ملک قابل آدمی ہیں، وہ نتائج دیں گے، بعد ازاں سپریم کورٹ نے سماعت 20 اپریل تک ملتوی کردی۔