Tag: SC

  • کل عمارت گرنے سے جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس

    کل عمارت گرنے سے جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے؟ چیف جسٹس کے ریمارکس

    کراچی: چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں تجاوزات سےمتعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ اداروں میں صفایا کرنا ہوگا یہ ایسےٹھیک نہیں ہوں گے، کل جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے بلڈنگ گرگئی، آپ سب سکون سےسوئےہیں ، کس کے کان پر جوں تک رینگی ؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری چیف جسٹس گلزار احمد کی سر براہی میں3رکنی بینچ کراچی میں تجاوزات سے  متعلق کیسز کی سماعت کررہا ہے ، اٹارنی جنرل خالد جاوید ،ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا ایڈووکیٹ جنرل صاحب سرکلرریلوےپرپیشرفت سےآگاہ کریں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نےسرکلرریلوے سے متعلق سپریم کورٹ کافیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا بتانا چاہتا ہوں کہ پیش رفت ہوئی ہے۔

    سلمان طالب الدین کا کہنا تھا کہ کراچی ماس ٹرانزٹ پلان ترتیب دےدیا گیاہے، گرین لائن،اورنج لائن مکمل کی جا چکی ہیں، ورلڈ بینک ،بینکوں کی مددسےدیگرمنصوبوں پربھی کام جاری ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کراچی ماس ٹرانزٹ کے نقشے پر عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے کہا اس نقشے میں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا، جس طرح کا نقشہ ہے اسی طرح کے کام ہیں، کوئی کام نہیں ہو رہا، جو کام کیا وہ بھی پیسےکی خواہش کی وجہ سےکیاگیا۔

    چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمے میں کہا آپ کیوں نہیں سمجھ رہے کراچی کو کس طرح کام کی ضرورت ہے، کراچی کو مربوط منصوبے کی ضرورت ہے، ٹرانسپورٹ نہیں اسی لیے لاکھوں موٹر سائیکل ہیں، اےجی صاحب، معذرت کےساتھ کوئی کام نہیں ہو رہا، گرین، اورنج لائن پر سٹرک تیار ہے تو پھر بسیں چلا دیں، چیف جسٹس

    جسٹس سجاد علی نے کہا آپ شام کو گاڑی میں جائیں دیکھیں ناظم آباد کاکیا حال ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 1955 والی بسیں کراچی میں چل رہی ہیں، سارے پاکستان کی کچرا بسیں کراچی میں چل رہی ہیں، جنگ اول کے زمانے کی بسیں کراچی میں چلا رہے ہیں۔

    اےجی سندھ سلمان طالب الدین نے کہا 2سال میں کام کر کے دکھائیں گے، تسلیم کرتاہوں، افسران کے اپنےایجنڈا ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سلمان صاحب،اداروں میں صفایا کرنا ہوگا یہ ایسےٹھیک نہیں ہوں گے، ریونیو ڈیپارٹمنٹ بہت بڑا چور ڈیپارٹمنٹ ہے، ایس بی سی اے، کے ایم سی،واٹربورڈ کس کس کی بات کریں، سب ادارے ہی چور ہیں کوئی کام نہیں کر رہے۔

    سانحہ گلبہار سے متعلق چیف جسٹس پاکستان کا اظہار افسوس

    دوران سماعت کراچی میں عمارت گرنے کاواقعے پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کل عمارت گری 14لوگ مرے، سب آرام سےسوئےرہے، کسی پر کوئی جو تک نہیں رینگی، آپ سمجھتے ہیں نا کہ جو رینگنا کسے کہتے ہیں، ،ابھی تومرنے کی گنتی شروع ہو ئی ہے، جس طرح کراچی میں تعمیرات ہوئیں بہت بڑا رسک بنا دیا گیا، خدانخواستہ کراچی پورا ہی نہ گر جائے۔

    سانحہ گلبہار سے متعلق چیف جسٹس پاکستان نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کل جو لوگ مرے، ان کا ذمہ دار کون ہے،کسی کو احساس بھی ہے لوگ مر رہے ہیں، نیوزی لینڈ میں واقعہ ہوا تو وزیراعظم تک کو صدمہ تھا ، نیوزی لینڈکی وزیراعظم ایک ہفتہ تک نہیں سوئی تھی۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس میں کہا چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر اونچی عمارتیں بنا دیتے ہیں ، ایڈوکیٹ جنرل کا کہنا تھا ہم نے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کی ہے تو جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا یہ سب دکھاوے کیلئے کارروائی کی گئی ہے ، ہم نے کہا تھا غیرقانونی تعمیرات کا مکمل ریکارڈ دیں اس کاکیاہوا ،ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ رپورٹ تیار کرلی ہے ۔

    چیف جسٹس کا حکام پر برہمی پر اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا جب تک اوپر سے ڈنڈا نہ ہو کوئی کام نہیں کرتا، آپ لوگوں کو کراچی کاکچھ پتہ ہی نہیں، کیماڑی کا پل گرنے والا ہے، کچھ احساس ہے، اگر کیماڑی پل گر گیا تو کراچی سے تعلق ہی ختم ہو جائے گا۔

    اے جی سندھ نے بتایا کراچی ماس ٹرانزٹ سے ٹرانسپورٹ مسائل حل ہوجائیں گے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا بتائیں، گرین لائن پر کا م کب شروع کیا، حکام نے عدالت کو بتایا 3سال پہلے شروع کیا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا 3سال میں تو پورے ایشیا کے منصوبے مکمل ہو جائیں، یہ مہینوں کا کام ہے، کیا رکاوٹ ہے جو کام وقت پر نہیں ہوتا۔

    حکام کا کہنا تھا کہ اگلے سال گرین لائن مکمل ہو جائے گی، چیف جسٹس نے پوچھا اگلے سال کیوں، اس سال کیوں نہیں، ابھی چلے جائیں ،کوئی کام نہیں ہورہا، ٹھیکیدار کو پیسہ اس وقت دیتے ہیں جب آپ کاکمیشن ملتا ہے، ابھی جائیں ناظم آباد دیکھیں کوئی کام نہیں ہورہا، سب سمجھتے ہیں آپ کے معاملات ٹھیک نہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا لوگوں کو خواب دکھاتے ہیں، دھول مٹی ہےہر جگہ، کوئی انسانیت والاعمل ہے،کیا ملک سےمحبت ہےآپ لوگوں کو، آپ بین اور بانسری بجارہے ہیں، سلمان صاحب آپ ایماندار آدمی ہیں، مگرکام نہیں لےسکتے، یہ پورا گینگ کام کر رہاہے،کام صرف پیپرزمیں ہے، چشہید ملت روڈ، کشمیر روڑ، ناظم آباد کا کیا حال کر دیا، یونیورسٹی روڈتباہ کر دیا،خوبصورت ترین روڑ تباہ کر دیے۔

    سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب آپ بتائیں وفاقی حکومت کیاکر رہی ہے، اٹارنی جنرل پاکستان نے بتایا سی پیک کے تحت منصوبوں پر کام جاری ہے، وفاقی حکومت چاہتی ہے کچھ وقت دیا جائے، ایک منصوبہ مکمل ہوا توباقی بھی ہو جائیں گے، میری درخواست ہے کہ ہمیں کچھ وقت دیاجائے۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا چیف سیکریٹری کہاں ہیں، بہت اچھےایماندارآدمی ہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سبھی اچھے افسران ہیں۔

    دوران سماعت سرکلرے ریلوے کی زمین سے متعلق وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا سرکلرے ریلوے کی زمین پرکسی کو متبادل جگہ نہیں دی گئی سیکڑوں لوگوں کوہٹایا گیا مگر متبادل کچھ نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ بتائیں جن کو ہٹایا کیا وہ غیر قانونی قابضین نہیں تھے،یہ تو حکومت کا کام ہے کہ متاثرین کو کیسے آباد کرنا ہے۔

    فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا صرف غریبوں کےگھروں کومسمار کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کراچی میں 90 فیصد لوگ غریب ہیں، عدالت نےتوسب کیخلاف بلا امتیاز کارروائی کاحکم دےرکھا ہے، آپ اندازہ کریں کہ یہ لوگ کتنے ظالم لوگ ہیں، لوگوں نے اپنے ابا کی زمین سمجھ کرعمارتیں بنادیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے غیرقانونی تعمیرات کرنیوالوں کو معلوم ہوتاہے کہ غیر قانونی ہے، بطوروکیل ریلوے زمین پر قابضین کا مقدمہ لینےسےانکار کلرتاتھا، ہم تو غیر قانونی قبضہ کرنے والوں کو بھگا دیتے تھے، آپ لوگ تو ریلوے کی پٹڑی پر بیٹھے ہیں، کسی کونہیں چھوڑیں گے،سبھی کیخلاف کارروائی ہوگی، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہناتھا کہ 10 منزلہ عمارت کے برابر میں جھگی ہوتوپہلےکسے ختم کریں، تو چیف جسٹس نے کہا آپ تسلی رکھیں کوئی نہیں بچے گا، سب کو گرائیں گے۔

    رائل پارک کیس : ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز سے متعلق درخواست مسترد

    سپریم کورٹ میں الہ دین پارک کے برابرعمارت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، رائل پارک اپارٹمنٹس کے وکیل نے دلائل میں کہا ناصر حسین لوتھا دبئی کے حکمران طبقے سےہیں، ناصرحسین لوتھااب تک پانچ ارب روپے لگاچکے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر کوئی دبئی کا حکمران ہے تو ہم کیاکریں،ہمیں تو قانون دیکھنا ہے، قانونی حیثیت ثابت کردیں ہمیں کسی سےکیا لینادینا۔ہم بھی اسی شہر میں رہتے ہیں، بلڈرزکیاکھیل کھیلتےہیں،معلوم ہے۔

    رائل پارک متاثرین کے وکیل صلاح الدین کا کہنا تھا کہ بلڈرز نے ہم سے اربوں روپے کما لیے، متاثرین کہاں جائیں ، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا بلڈرز سے پیسے کماتے ہیں تو وکیل صلاح الدین کا مزید کہنا تھا کہ یہی ہم کہہ رہے ہیں بلڈرزنےکمالیا،ہم کہاں جائیں۔

    وکیل رائل پارک نے کہا رائل پارک کی منظوری قانون کے مطابق ہوئی، ناصر حسین لوتھا نے قانون کے مطابق زمین خریدی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پڑھیں دستاویز، سروے نمبرہےہی نہیں آپ کےپاس، 2010 میں زمین ایک دم سےآپکومل گئی،سروےنمبربھی نہیں

    عدالت نے ناصر حسین لوتھا کی عمارت کی قانونی لیز سے متعلق درخواست مسترد کردی اور کہا متاثرین کی درخواست وقفے کے بعد سنیں گے۔

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے لئے بڑی خبر ، چیف جسٹس نے اہم حکم دے دیا

    سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کے لئے بڑی خبر ، چیف جسٹس نے اہم حکم دے دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی نئی جے آئی ٹی کو کام سے روکنے کا لاہور ہائی کورٹ کا عبوری حکم معطل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے جے آئی ٹی سے متعلق تین ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ہائی کورٹ فیصلہ جلد کرے تاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن منطقی انجام کوپہنچے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس گلزاراحمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سانحہ ماڈل ٹائون میں لوگوں کی زندگیاں گئیں، فیصلہ جلد از جلد آنا چاہیے۔

    متاثرین کے وکیل علی ظفرنے دلائل دیئے کہ 80 فیصد گواہان کے بیانات مکمل ہوچکے ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دی، ایسا کرنا بدنیتی پرمبنی ہوگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا نئی جےآئی ٹی کیلئےلواحقین کی طرف سے درخواست دی گئی تھی، درخواست گزارکوبھی نوٹس دیا جواسوقت پیش نہیں ہوئے اور پنجاب نے خود نئی جے آئی ٹی بنانےپررضامندی ظاہرکی۔

    فریقین کے اتفاق رائے سےدرخواست نمٹائی ، درخواست نمٹانےکےبعدپنجاب حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دی ، عدالتی حکم غیرمؤثرکرنےکیلئےدرخواست گزار ہائیکورٹ گئے، ہائیکورٹ سپریم کورٹ کا حکم کیسے غیرمؤثر کرسکتی ہے۔

    وکیل خرم علی کا کہنا تھا نئی جےآئی ٹی کاسپریم کورٹ نےکوئی حکم نہیں دیاتھا، پنجاب حکومت کی جے آئی ٹی کوہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا 3 رکنی بینچ کیسے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے سکتا ؟ پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں نئی جے آئی ٹی بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی اور پرانی جے آئی ٹی نے متاثرین کے بیان ریکارڈنہیں کیے، نئی جے آئی ٹی کے خلاف کچھ لوگوں نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور حکم امتناع کے بعد لاہور ہائی کورٹ سے التواء لیا جاتا رہا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نئی جے آئی ٹی بنانا کون چاہتا ہے؟؟جے آئی ٹی بنائی کس نے تھی، کوئی بھی مقدمے کے میرٹ کے خلاف نہیں جا سکتا، ٹرائل چل رہا ہے تو جے آئی ٹی کیا کرے گی۔

    سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی لاہور ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کیخلاف استدعامسترد کرتے ہوئے نئی جے آئی ٹی کو روکے کا لاہور ہائی کورٹ کا عبوری حکم برقرار رکھا اور ہدایت کی ہائیکورٹ درخواستوں کا فیصلہ 3ماہ میں کرے، سپریم کورٹ کاآرڈر ہائی کورٹ کو دیا جائے تاکہ مقدمے کیلئے بنچ تشکیل دیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا ہائیکورٹ فیصلہ جلد کرے تاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن منطقی انجام کوپہنچے، جس کے بعد عدالت نے متاثرین کی درخواستیں نمٹا دی۔

  • کراچی کے شہریوں کے لئے بڑی خبر، چیف جسٹس نے ڈیڈ لائن دے دی

    کراچی کے شہریوں کے لئے بڑی خبر، چیف جسٹس نے ڈیڈ لائن دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کا آپریشن شروع کرنے کے لئے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دے دی، چیف جسٹس پاکستان نے حکم میں کہا وفاق سرکلر ریلوے سندھ حکومت کو نہ دے، اپنے پاس رکھے اور دن رات کام کرائے، لوگ سرکلرریلوے بحالی کا انتظارکررہے ہیں، یہ وقت کچھ ڈلیورکرنےکا ہے، معاملہ سندھ حکومت پرچھوڑا تو سرکلرریلوے نہیں چل سکےگی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس  گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستان ریلوے میں خسارہ کیس کی سماعت ہوئی ، وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت میں شیخ رشید نے کہا میں آپ کا شکرگزار ہوں 12 دن میں بہت کام ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اورپوری قوم آپ کی شکرگزار ہے, یہ قوم کا پراجیکٹ ہے کسی کی ذات کےلئے نہیں۔

    وزیر ریلوے نے بتایا رات کوبھی آپریشن کیا ہے، سرکلرریلوےمیں بہت مزاحمت سامنےآرہی تو چیف جسٹس نے کہا آپ لاہور یا کراچی میں 5 ،4 ریلوے کی پراپرٹیز بیچ دیں تو تمام کام ہوسکتے ہیں، جس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کراچی کی ایک پراپرٹی بیچنے سے بھی کام ہوسکتا ہے ، ہمیں سپریم کورٹ نے بیچنے سے روک رکھا ہے۔

    دوران سماعت اسد عمر نے کہا ایم ایل ون کا پی سی ون اسی ماہ کے آخر تک ریلوے کودے دیں گے ، ایم این ون 9 بلین ڈالرز کا پراجیکٹ ہے، 15اپریل تک ایکنک ایم ایل ون کی منظوری دےگی اور انشااللہ ایم ایل ون کا کام شیخ رشید کے ہاتھوں ہو گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا بزنس پلان پر عمل کیسے اور کب ہوگا،جس پر شیخ رشید نے جواب میں کہا 5سال میں ایم ایل ون مکمل ہو جائے گا، کراچی سرکلر ریلوے کیلئےگزشتہ رات بھی عمارتیں گرائی ہیں، سرکلرریلوے پرسندھ حکومت بھی تعاون کرر ہی ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے سندھ حکومت کوکیوں دے رہے ہیں، کراچی سرکلر کا حال بھی کراچی ٹرانسپورٹ جیسا ہو جائےگا، ہم توچاہ رہے تھے سرکلر ریلوے کے بعد کراچی ٹرام بھی چلائیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے شیخ رشید سے مکالمے میں کہاشیخ صاحب آپ کی رپورٹ جمع ہو گئی ہے، سرکلر ریلوے کی تکمیل کے وقت کے علاوہ رپورٹ میں سب کچھ ہے، آپ نے نہیں بتایا کب تک کراچی سرکلر ریلوے مکمل کریں گے۔

    سپریم کورٹ نے کے سی آر کی باقی5 کلومیٹر زمین ایک ماہ میں خالی کرانے اور اگلے ایک ماہ میں کے سی آر آپریشن شروع کرنےکاحکم دیتے ہوئے 3ماہ کے اندر کے سی آر آپریشن مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔

    وفاقی وزیر اسدعمر کا کہنا تھا کہ 3ماہ میں یہ نہیں ہوسکے گا، اس میں سندھ حکومت کو شامل کرنا پڑے گا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا سندھ حکومت کچھ نہیں کرےگی، معاملہ سندھ حکومت پر چھوڑا تو پھر کے سی آر نہیں چل سکےگی۔

    جسٹس سجادعلی نے کہا آپ زمین خالی کرا کر چھوڑ دیں گے تو دوبارہ قبضہ ہوجائےگا،چیف جسٹس نے اسد عمر سے مکالمے میں کہا آپ کا ایک بیک گراؤنڈ ہے، آپ کوکام کرکے دکھانا ہے، لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ حکومت کام کرے ، یہ وقت کچھ ڈلیور کرنے کا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ریلوے وفاق کے ماتحت ہے آپ اسے خود ٹیک اوور کرکے چلائیں اور ہدایت کی سندھ پر چھوڑ کر غیرآئینی کام نہ کریں، جس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ 3ماہ میں سرکلر ریلوے مکمل نہیں ہو سکتا۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ آپ نہ ہونے والی بات کر رہے ہیں، آپ نہ سوئیں ہم بھی نہیں سو رہے، اپنے بندوں سے دن رات کام کرائیں، کام مکمل نہ کیا تو منصوبہ ردی میں چلاجائے گا، لوگ سرکلر ریلوے بحالی کا انتظار کر رہے ہیں، یہ منصوبہ آپ ہی چلائیں گے اور کوئی نہیں چلاسکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا سندھ حکومت سے کوئی کام نہیں ہوگا، سرکلر ریلوے سندھ حکومت کو نہ دیں اپنے پاس رکھیں، کراچی سرکلر کو سی پیک میں شامل کیوں کیا گیا، جس پر اسد عمر نے بتایا معاشی صورتحال کی وجہ سےسی پیک میں شامل کیا گیا۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کراچی سرکلر کیلئے تو چین سے مہنگا قرض ملے گا اور ریلوے خسارہ کیس کی سماعت 2ماہ کے لئے ملتوی کرتے ہوئے سندھ حکومت سے جواب طلب کرلیا۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے وزیر ریلوے شیخ رشید اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو طلبی کے نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا جبکہ سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، اٹارنی جنرل پاکستان اور سیکریٹری پلاننگ، چیف سیکریٹری سندھ، چیئرمین،سی ای او ریلوے و دیگر کو بھی نوٹس جاری کئے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں : ریلوے خسارہ کیس : شیخ رشید اور اسد عمر کوذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم

    سپریم کورٹ نے ریلوے سے بزنس پلان اور سرکلر ریلوے پر عملدرآمدرپورٹ طلب کر رکھا تھا جبکہ وزیرمنصوبہ بندی اسدعمر سے ایم ایل ون کے ٹینڈر میں تاخیر پر جواب طلب کیا گیا تھا۔

    یاد رہے 28 جنوری کو ہونے والے سماعت میں سپریم کورٹ نے ایم ایل ون کی منظوری ترجیحی بنیادوں پر دینے کا حکم دیتے ہوئے شیخ رشید سے ریلوے کا بزنس پلان طلب کرتے ہوئے کہا تھا پلان پرعمل نہ کیا توتوہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔

    عدالت نے کہا تھا سرکلر ریلوے ٹریک کی بحالی کیلئے مزید وقت نہیں دیا جائے گا، سرکلر ریلوےسے بے گھر ہونیوالوں کی بحالی ریلوے کی ذمہ داری ہوگی۔

    سپریم کورٹ نے وزارت منصوبہ بندی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پروزیرمنصوبہ بندی اورپلاننگ کمیشن حکام کو طلب کرلیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم

    کراچی: سپریم کورٹ نے کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسےبنایا جا سکتا ہے جبکہ سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانزسےمددحاصل کرنے کی ہدایت کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے دہلی کالونی اورپنجاب کالونی میں تجاوزات سےمتعلق سماعت کی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا ان علاقوں میں تعمیرات کیسےہو رہی ہیں، کنٹونمنٹ بورڈ حکام نے بتایا ہم نےایکشن لیا ہے،کارروائی کررہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا یہ بتائیں،یہ تعمیرات ہوئیں کیسے، اجازت کس نےدی، اٹارنی جنرل صاحب،کنٹونمنٹ بورڈمیں ایسی تعمیرات کی اجازت کون دےرہاہے، 9، 9 منزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، ان سب کوگرائیں، ان علاقوں میں بھی عمارتوں کوگراناپڑےگا۔

    پنجاب کالونی،دہلی کالونی،پی این ٹی میں غیر قانونی تعمیرات گرانے اور گزری روڑپربھی غیرقانونی عمارتیں گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا پی این ٹی کالونی میں بلندعمارتیں غیرقانونی بن رہی ہیں، وفاقی ملازمین کےکوارٹرزکی جگہ عمارتوں کی اجازت کون دےرہاہے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا بہت سےمقدمات زیرسماعت ہیں حکم امتناع تک کیسےگراسکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا یہ توایسےہی چلتارہےگاآپ کوسخت ایکشن لیناہوگا، اےجی صاحب پوری کالونی ہی میں غیرقانونی تعمیرات ہورہی ہیں۔

    چیف جسٹس نے حکم دیا آپ بلندوبالاعمارتیں گرائیں اورپارک بنادیں، پولیس والوں کی گاڑی کھڑی کرکےسب بن جان جاتاہے، چلیں، آپ صرف سرکاری کوارٹرز رہنے دیں، باقی سب گرائیں۔

    ،اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان بلندوبالاعمارتوں کوحکومت استعمال کرسکتی ہےتو چیف جسٹس نے کہا نہیں اٹارنی جنرل صاحب،یہ سب غیرقانونی ہے،سب گرائیں۔

    عدالت نےدہلی،پنجاب کالونی پرکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈسےجواب طلب کر لیا، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈحکام نے بتایا دہلی اورپنجاب کالونی وفاقی حکومت کی زمین ہے، جس پرجسٹس سجادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ بورڈہرقسم کی عمارتوں کی اجازت دےرہاہے، 60 گز کے اوپر9، 10منزلہ عمارت بنانے کی اجازت دی جارہی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا ایسا نہیں کہ کنٹونمنٹ بورڈجس طرح چاہےعمارتوں کی اجازت دے ، کیا آپ کی حکومت چل رہی ہےجواپنی مرضی سےکام کریں، جس ہر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا کہنا تھا کہہم نے بہت سی عمارتیں گرائی ہیں، رہائشی پلاٹ پرگراؤنڈپلس ٹوکی اجازت ہے، کمرشل پلاٹس پر5منزلہ عمارت کی اجازت دےرہےہیں۔

    چیف جسٹس نے کونسل کنٹونمنٹ بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کس دنیا میں رہ رہے ہیں، آپ انگریزی بول کر ہمارا کچھ نہیں کرسکتے، کیا ہمیں معلوم نہیں کیا حقیقت ہے، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کیا اپنی پوزیشن واضح کر سکتاہے، 5 ،5 کروڑ کے فلیٹ بک رہے ہیں، آپ لوگوں نے خزانے بھرلئے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ لوگوں سے پیسے لے لے کر اپنے خزانے بھررہے ہیں، آپ کےدفترکی ناک کےنیچےیہ سب ہورہاہے، عدالت نے ڈائریکٹر لینڈ کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس نے کہا یہ کوثرمیڈیکل اور اس کےبرابرمیں کیسےبڑی عمارتیں بن گئیں، آخرکنٹونمنٹ بورڈمیں کس کی اجازت سےسب ہورہا ہے، ڈائریکٹرکلفٹن کنٹونمنٹ بورڈز نے تسلیم کیا کہ بہت سی عمارتیں غیر قانونی ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سرکاری زمین آپ پربھروسہ کرکےدی گئیں،کرکیارہےہیں، وہاں کنٹونمنٹ تونہیں رہااب وہاں تواورہی کچھ بن گیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب آپ کی سٹرکیں ختم ہورہی ہیں، گلیوں میں آدمی نہیں گزرسکتا، کررہے ہیں، طارق روڑ دیکھا ہے ،اب کیا حال ہوچکا، عمارتیں ضرور بنائیں مگرکوئی پلاننگ توکریں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا یہ اب آپ لوگوں کےبس کی بات نہیں، اس کے لیے دنیا سے ماہرین منگوانا پڑیں گے، لائنز ایریا دیکھا ہے، مزار قائد کے اطراف کیا ہو رہا ہے، خدادادکالونی دیکھ لیں،مزارقائدکےماتھےکاجھومربناکررکھاہواہے، مزار قائد کے سامنے فلائی اوور کیسے بنادیا، مزار قائد چھپ کر رہ گیا، عمارتیں بنا ڈالیں، شاہراہ قائدین کانام کچھ اور ہی رکھ دیں وہ قائدین کی نہیں ہو سکتی۔

    جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا ملائشیا فارمولہ سنا ہے آپ نے، کوالالمپور کو کیسے صاف کیا،ذرا اس پرریسرچ کریں، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا ہم ملائشیا فارمولے پر ہی کام کر رہےہیں، مجھے تھوڑاسا وقت دیں، وفاق،سندھ حکومت آپس میں بات کرسکتی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا شہری حکومت کام کر رہی ہے نہ صوبائی نہ وفاقی، کراچی کیلئےپھرکس کوبلائیں جب کوئی حکومت کام ہی نہیں کررہی، کراچی ایک میگا پرابلم سٹی بن چکا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ پلان کرنےکی ضرورت ہے، تھوڑا ساوقت دیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا متاثرین کو جس طرح پیسےدیئےجاتےہیں وہ بھی ہمیں پتہ ہے، جس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے بتایا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لوں گا، حل ضرور نکال لیں گے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کا کوئی وژن نہیں، کیا کرنا ہے کسی کو معلوم نہیں۔

    عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو شہر کا جامع پلان بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کیسے کچی آبادیوں کو جدید طرز پر بنایا جا سکتا ہے، وفاق اور صوبائی حکومت ماہرین سےمشاورت کرکے پلان ترتیب دے۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا اجازت دیں تو ایک پلان دینا چاہتا ہوں، جتنے ادارے ہیں انہوں نے شہر کو جنگل بنا دیا، سرکاری افسران سے صحیح بات عدالت نےکبھی نہیں آئےگی، اس لیےایک اعلیٰ اختیاری کمیٹی تشکیل دےدی جائے۔

    اےجی سندھ کہا عدالت ماہرین پرمشتمل اعلیٰ اختیاری کمیٹی بنادی جائے، چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا یہ بتائیں، کمیٹی کرے گی ، اینٹی انکروچمنٹ سیل ہے تو صحیح۔

    جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اےمیں خالی گھر کے باہر اینٹ رکھ دیں تودیکھیں کیسےپہنچتےہیں، ڈی ایچ اے ،کنٹونمنٹ  بورڈز نے اختیارات اپنے پاس رکھے ،یہ جسےچاہتے ہیں زمین دیتے اور جسےنہ چاہیں نہیں دیتے، کنٹونمنٹ بورڈز ،ڈی ایچ  اے میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔

    دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے ہی صوبائی اداروں پرعدم اعتماد کرتے ہوئے کہا سندھ حکومت پر بھروسہ کیا تو کچھ نہیں ہوپائےگا، متعلقہ ادارے سب اچھا ہی کی رپورٹس دیتے رہیں گے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ اگلا ڈی جی ایس بی سی اے لگائیں گےوہ اور 2 ہاتھ آگے ہوگا، ایڈووکیٹ جنرل صاحب، دیکھ لیں یہ سب کوئی باہرسےنہیں کر رہا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کمیٹی بنانا ہمارا کام نہیں، حکومت چاہے تو خود کمیٹی بنادے، یہ سارے کام تو خود حکومت کے ہیں، اے جی سندھ کا کہنا تھا احساس دلانا پڑےگا،کوئی نہیں کررہا ، محسوس کرےتوعدالت یہ کام کرے۔

    جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کنٹونمنٹ بورڈمیں گزری کاحال دیکھاہے،ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ یہی حالات رہے تو پھر  ادارے سمندر سے آگے بھی تعمیرات کرڈالیں گے، عدالت کو مداخلت کرنا پڑے گی کوئی کام نہیں کررہا، اچھے لوگ بھی ضرور ہیں،  اس لیے آپ کوئی بڑاحکم دیں، ایک شخص پیسےجمع کرکےفلیٹ خریدے توکیسےتوڑ دیں، فلیٹ میں رہنے والا کہاں جائے گا یہ انسانی معاملہ ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ نہیں چاہتے ہمارےمنہ سے ایسے الفاظ نکلیں توکسی کیلئےنقصان دہ ہو، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی ادارہ  ٹھیک نہیں، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا جی آپ درست کہہ رہے ہیں، ادارہ کوئی ٹھیک نہیں تو چیف جسٹس نے کہا آپ ووٹ لینےکی نظر سے معاملات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

    سلمان طالب الدین نے بتایا ریلوے نے غریب 6ہزارلوگوں کوبےگھر دیا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا سلمان صاحب ، انہیں  بیٹھایاکس نے تھا ، آپ کے پاس وسائل ہیں، سب کر سکتے ہیں مگر کریں گے نہیں تو سلمان طالب الدین کا کہنا تھا وفاق نے 100 ارب دینے ہیں، وسائل نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 100 ارب مل بھی جائیں تو کیا ہوگا، ایک پائی لوگوں پر نہیں لگےگی ، 105 ارب روپے پہلےبھی ملےمگر ایک پائی نہیں لگی، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس میں کہا میں اس شہر میں پیدا ہوا،بتائیں کون سی جگہ خالی چھوڑی ہے، پولیس اسٹیشن تک کرائے پر لے رکھےہیں، سب بیچ ڈالا، ہمیں تکلیف اس لیے ہے آپ نے کچھ نہیں چھوڑا۔

    اےجی سندھ کا کہنا تھا کہ مجھے اور انور منصور کو بھی یہی تکلیف ہے، آخراس شہر کاکیاہوگا، افسران کوکہانیاں سناکر چلے جاتے ہیں،  سارے معاملے کو روکنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا، جسٹس فیصل عرب نے کہا کوئی گراؤنڈ چھوڑا نہ ہی کوئی اسپتال کی جگہ۔

    سپریم کورٹ نے شہرقائدکا ازسرنو جائزہ لینے کے معاملے پر کراچی شہر کا دوبارہ ڈیزائن بنانے کا حکم دیتے ہوئے کہا بتایا جائے کراچی کوجدید ترین شہرکیسےبنایا جا سکتا ہے اور سول انجینئرز،ماہرین اور ٹاؤن پلانزسےمددحاصل کریں۔

    سپریم کورٹ نے آگاہی مہم چلانے کا بھی حکم دیا کہ اخبارات،ٹی وی پر لوگوں کوبتایا جائے کراچی کیسے بہتر ہوگا، آئندہ سیشن میں سندھ حکومت کی تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا۔

    اےجی سندھ سلمان طالب الدین کا کہناتھا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ اچھی تجویز دیں گے، ایک کمیٹی بنائی گئی ہےمیں خود اس پربریف کردوں گا، خود بتاؤں گا کراچی کے مستقبل کے لیے کیا حتمی پلان ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا پتہ نہیں چل رہا کہ کس پربھروسہ کریں۔

  • سرکاری گھروں میں رہائش پذیر افراد کے لیے بڑی خبر آگئی

    سرکاری گھروں میں رہائش پذیر افراد کے لیے بڑی خبر آگئی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سرکاری گھروں میں رہائش پذیر افسران کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سرکاری گھر کرائے پر دینے والے افسران کیخلاف کریمنل کارروائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سرکاری گھروں ک خلاف قانون الاٹمنٹ پرازخودنوٹس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت عدالت نے سرکاری گھروں میں رہائش پذیرافسران کی تفصیلات طلب کرلیں اور کہا اسلام آباد کے کتنے سرکاری گھروں پر قبضہ ہےآگاہ کیا جائے۔

    سپریم کورٹ نے سرکاری گھرکرائے پر دینے والے افسران کیخلاف کریمنل کارروائی کا بھی حکم دیتے ہوئے کہا فراڈ کرنیوالے 50لوگ فارغ نہ کئےتو بہتری نہیں آئے گی، 80 فیصد افسران نے سرکاری گھر کرائے پر دے رکھے ہیں، افسران نے گھر بنا لئے مگر سرکاری گھر چھوڑنے کو تیار نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سرکاری گھروں پرزبردستی قابض افسران بے ایمان ہیں، کیا سرکاری گھرکرائے پر دینے والے نوکری پر رہنے کےقابل ہیں؟

    جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری ہاؤسنگ سے مکالمے میں کہا سرکاری افسران کو گھر دینا ہی بندکردیں، جس پر سیکریٹری ہاؤسنگ نے جواب دیا سرکاری گھروں کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، سرکاری گھروں کی کل تعداد28ہزارہے، اسلام آباد میں 17ہزار 800سرکاری گھر ہیں، جن میں سے 1517سرکاری گھروں سے قبضہ واگزار کرالیا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا قبضہ کرنے والے افسران کیخلاف کیا کارروائی ہو رہی ہے؟ سرکاری افسران کیخلاف آپ کی کارروائی کا بھی الٹا ہی نتیجہ نکل رہاہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت دو ہفتے کیلئے ملتوی کردی۔

  • وفاقی حکومت کا سندھ کا بلدیاتی نظام سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

    وفاقی حکومت کا سندھ کا بلدیاتی نظام سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے سندھ کا بلدیاتی نظام چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا، وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ سندھ میں مقامی حکومت کا موجودہ نظام عوام کو بااختیار نہیں بناتا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمرنے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا سپریم کورٹ میں سندھ کےمقامی حکومت کےنظام کیخلاف اپیل دائرکریں گے ، فیصلہ کل وزیراعظم کی سربراہی میں پی ٹی آئی کورکمیٹی اجلاس میں کیا گیا۔

    اسدعمر کا کہنا تھا کہ سندھ میں مقامی حکومت کا موجودہ نظام عوام کو بااختیارنہیں بناتا، یہ قانون آئین کےمطابق عوام کو سیاسی، انتظامی، مالی با اختیار نہیں کرتا۔

    یاد رہے چند روز قبل شہر قائد سے متعلق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ جو حق دہائیوں سے نہیں ملا وہ دلانا ہے، مشترکہ جدوجہد ہے، کوشش ہے ساتھ مل کر کراچی کے لیے کام کریں، فروری کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم کراچی آئیں گے اور منصوبوں کا افتتاح کریں گے، کراچی کے چھوٹے ترقیاتی منصوبے تو جاری ہیں، بڑے ترقیاتی منصوبے جلد شروع ہوں گے۔

    ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اسد عمر کا کہنا تھا کہ کراچی میں انشا اللہ 162 ارب روپے سے زائد کے منصوبے ہوں گے، پانی کا منصوبہ کےفور تاخیر کا شکار ہوا، سندھ حکومت جیسے ہی کےفور پر رپورٹ مرتب کرے گی کابینہ سے منظور کرائیں گے۔

    انھوں نے کہا تھا کہ منصوبے کی لاگت کم سے کم دو گنا بڑھ چکی ہے، لاگت بڑھنے کے باوجود وفاقی حکومت کے فور منصوبے میں تعاون جاری رکھے گی، کراچی کے سب سے بڑے 2مسائل پانی اور ٹرانسپورٹ ہیں۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے جو وعدے کیے تھے ان پر لگن سے کام جاری ہے، وزیراعظم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ نوکریاں صرف سرکار دے گی، نوکریاں سرکار میں بھی آتی ہیں اور پرائیوٹ سیکٹر میں بھی آتی ہیں۔

  • پنجاب کی 56 کمپنیوں میں سے ایک کمپنی بھی نہیں بچے گی، چیف جسٹس

    پنجاب کی 56 کمپنیوں میں سے ایک کمپنی بھی نہیں بچے گی، چیف جسٹس

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے لاہورٹرانسپورٹ کمپنی کے ڈپٹی جنرل منیجرکی نوکری پربحالی کی درخواست مسترد کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے پنجاب کی 56کمپنیوں میں سےایک کمپنی بھی نہیں بچے گی، یہ ساری ختم ہوجائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈپٹی جنرل منیجرلاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کی نوکری پر بحالی کی درخواست پر سماعت کی۔

    درخواست گزار نے کہا بطور ڈپٹی منیجر کام کر رہا تھا، مجھے رول کے برخلاف نکال دیا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا جس عہدے پر کام کر رہے تھے ، وہ عہدہ ہی ختم ہوگیا، درخواست گزار صرف مالی نقصانات کا تقاضا کرسکتا ہے۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نوکری کاصرف ایک سال رہ گیا ہے، لاہورٹرانسپورٹ کمپنی پنجاب حکومت کی 56کمپنیوں میں سے ایک ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے پنجاب کی ان 56کمپنیوں میں سےاب ایک کمپنی بھی نہیں بچےگی، یہ ساری کمپنیاں ختم ہو جائیں گی، ان کمپنیوں کے سب لوگ گھرجائیں گے۔

    درخواست گزارمحمد حنیف سپریم کورٹ میں جذباتی ہوگئے اور کہا کوئی کرپشن نہیں کی کوئی چوری نہیں کی، آپ کو اللہ کاواسطہ ہےمیری بیٹیاں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت میں جذباتی باتوں کافائدہ نہیں،کوئی اورکام ڈھونڈلیں۔

    سپریم کورٹ نے ڈپٹی جنرل منیجرلاہورٹرانسپورٹ کمپنی کی نوکری پربحالی کی درخواست خارج کرتے ہوئے لاہورٹرانسپورٹ کمپنی کی ذیلی کمیٹی کوکیس دوبارہ دیکھنے کی ہدایت کردی۔

  • چین نے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر اٹھا دیا

    چین نے سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر اٹھا دیا

    نیویارک: پاکستان کے مطالبے پر چین نے آج پھر سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر اٹھا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چین نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خط کو بنیاد بناکر سلامتی کونسل میں کشمیر پر تفصیلی بریفنگ طلب کرلی، سلامتی کونسل میں بھارتی جارحیت پر تبادلہ خیال ہوگا۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق سلامتی کونسل میں بریفنگ لائن آف کنٹرول کی نگرانی کرنے والا اقوام متحدہ کا مبصر مشن دے گا، چین نے پاکستانی وزیر خارجہ کے خط کو بنیاد بناکر سلامتی کونسل میں کشمیر پر تفصیلی بریفنگ طلب کی ہے۔

    ادھر پاکستان کا کہنا ہے کہ ایل او سی کی نگرانی بڑھائی جائے تاکہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو روکا جاسکے، حالیہ دنوں میں ایل او سی پر جارحانہ بھارتی اقدامات سے امن کو خطرات ہیں۔

    وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت نے کشمیر میں 4ماہ سے ظلم وبربریت کا نیاباب رقم کیا ہے، سلامتی کونسل کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے میں کردار ادا کرے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری بھارتی جارحیت کو روکے۔

    مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور ظلم وبربریت کا سلسلہ تھم نہ سکا، وادی میں کرفیو اور لاک ڈاؤن 136ویں روز میں داخل ہوگیا۔ مقبوضہ کشمیر میں دکانیں، کاروبار، تعلیمی مراکز بند ہیں اور لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں نام نہاد سرچ آپریشن کی آڑ میں مظلوم اور نہتے کشمیریوں کے قتل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    مقبوضہ کشمیر میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات معطل ہیں۔ مقبوضہ وادی میں کھانے پینے کی اشیا اور دواؤں کی قلت ہے، جامع مسجد کے اطراف رکاوٹیں لگائی گئی ہیں۔

  • نیب کا مریم نواز کی ضمانت منسوخی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع

    نیب کا مریم نواز کی ضمانت منسوخی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع

    اسلام آباد : قومی احتساب بیورو ( نیب) نے چوہدری شوگرملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی ضمانت منسوخی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ، جس میں استدعا کی عدالت لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو ( نیب) کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی ضمانت منسوخی کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر کردی۔

    اپیل میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے احکامات کے برخلاف فیصلہ دیا اور ضمانت کے کیس میں شواہد پر آبزرویشنز دیں، ہائی کورٹ کی آبزرویشنز سے ٹرائل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    نیب نے استدعا کی عدالت لاہورہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے، مریم نواز 2008 میں چوہدری شوگر ملز کی 47 فیصد شیئرز ہولڈر رہیں، وہ چوہدری شوگرملز کی سب سے بڑی شیئر ہولڈر رہیں، لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کے بعد بہت سے قانونی سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔

    مزید پڑھیں : چوہدری شوگر ملز کیس ، مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ مل گیا

    یاد رہے لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے مریم نواز کو پاسپورٹ کے ساتھ بطور ضمانت7 کروڑ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

    بعد ازاں عدالتی حکم پر سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کا پاسپورٹ اور سات کروڑ کی رقم ہائی کورٹ میں جمع کروا دی گئی تھی۔

    بعد ازاں احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کو ریفرنس جلد دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • اپوزیشن چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ سپریم کورٹ لے گئی

    اپوزیشن چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ سپریم کورٹ لے گئی

    اسلام آباد : اپوزیشن چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ سپریم کورٹ لے گئی ، درخواست میں کہا گیا سپریم کورٹ ممکنہ آئینی بحران حل کرنے کیلئے مناسب فیصلہ کرے، ارکان کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ناموں پر غور و فکر کے بعد ختم ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ اپوزیشن کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملے پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ، درخواست پر11ارکان کے دستخط ہیں اور الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق نہ ہونےکےبعدآرٹیکل213خاموش ہے، آرٹیکل 213کی خاموشی سے آئینی بحران پیدا ہوجائےگا، چیف الیکشن کمشنر5 دسمبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔

    درخواست میں کہا گیا ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن غیر فعال ہو جائے گا، کمیٹی میں اتفاق رائےنہ ہونےپرواحدراستہ سپریم کورٹ ہے، الیکشن کمیشن کےباقی 2ممبران بھی جنوری میں ریٹائرہوجائیں گے، سپریم کورٹ ممکنہ آئینی بحران حل کرنے کیلئے مناسب فیصلہ کرے۔

    یاد رہے چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ میں ایک دن باقی رہ گیا ہے ، ارکان کےناموں پرحکومت اوراپوزیشن میں اتفاق نہ ہوسکا، پارلیمانی کمیٹی میں آج بھی سندھ اور بلوچستان کی دو نشستوں پر بارہ نام زیر غور آئے، شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنرکی سبکدوشی کےبعدتینوں ارکان کے تقرر کا فیصلہ کیاجائےگا۔

    یاد رہے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے چیف الیکشن کمشنرکےتقررکیلئے3نام وزیراعظم عمران خان کوبھجوائے تھے، جس میں ناصرمحمودکھوسہ،جلیل عباس جیلانی اور اخلاق احمد تارڑ کے نام شامل ہیں۔

    خیال رہے چیف الیکشن کمشنرسردار رضا چھ دسمبر کو ریٹائرڈ ہوجائیں گے ، لیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن غیر فعال ہوجائے گا، سرداررضا نے 6 دسمبر2014 کو عہدہ سنبھالا تھا۔