Tag: SC

  • سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    کراچی : سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے  اور ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنےکا حکم دے دیا اور  سڑکوں پرپولیس اور رینجرز کی چوکیاں بنانےپر  برہم ہوتے ہوئے آئی جی اور ڈی جی رینجرز کونوٹس جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں کراچی میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی ، اٹارنی جنرل کی پیش رپورٹ پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا، جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا دستخط کیا کسی پٹے والے کے ہیں، سیکریٹری  دفاع دستاویزات پر دستخط کریں، سیکریٹری دفاع نے دستاویزات پردستخط کردیے۔

    جسٹس گلزار نے استفسار کیا عدالتی احکامات پرعمل کیوں نہیں ہوا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا سپریم کورٹ کا حکم ہے، مجھے وضاحت کا موقع دیا جائے، آپ ہمیں وقت دیں سروے کروالیتے ہیں تو جسٹس گلزاراحمد نے کہا حکومت کام کرنا چاہے تو 5 منٹ لگتے ہیں۔

    جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس میں کہا شادی ہال چل رہے ہیں، نہیں ہٹائیں گے تو دوسرے کیسے عمل کریں گے، وزیر بلدیات کہتے ہیں میں عدالتی حکم پر عمل نہیں کروں گا، یہ لوگ عدالت سے جنگ کرناچاہتے ہیں، کہاں ہیں وہ بلدیاتی وزیر جو کہتے ہیں ایک عمارت نہیں گرائیں گے، مئیر کراچی بھی کہتے پھر  رہےہیں ہم عمارتیں نہیں گرائیں گے۔

    کہاں ہیں وہ بلدیاتی وزیرجوکہتےہیں ایک عمارت نہیں گرائیں گے، جسٹس گلزار

    دوران سماعت سینئیر وکیل رشید اے رضوی اور بینچ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، رشید اے رضوی کا کہنا تھا 72 سالہ تاریخ میں تو کسی نے نہیں پوچھا،  جسٹس گلزاراحمد نے کہا چلیں آج تاریخ بدلتے ہیں،رشید اے رضوی نے سوال کیا واٹر بورڈ اپنی زمین کیسے کسی کو فروخت کرسکتاہے؟ جس پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا زمین خود حکومت نے دی ہے، ہرادارے نے اپنی زمین ملازمین کو بانٹ دی ہیں۔

    ملٹری لینڈاور کنٹونمنٹس سےتجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ نے ملٹری لینڈ پر شادی ہالز اور تجارتی سرگرمیوں پرسیکر یٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کردی اور ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹس سے تجارتی سرگرمیاں ختم کرنے کا حکم دیا اور شادی ہالزاور تجارتی مراکز گرانے کے حکم پر فوری عمل کا بھی حکم دیا۔

    کالا پل پر گلوبل مارکی اور واٹر بورڈ آفیسرز کلب کے انہدام پر درخواستیں بھی مسترد کردیں اور ناقص رپورٹ پر سپریم کورٹ کی سیکریٹری دفاع کی سرزنش کی۔

    سعیدغنی کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری

    ،تجاوزات کے خلاف آپریشن سےمتعلق بیان دینے پر عدالت وزیر بلدیات اورمیئرکراچی پر برہم کا اظہار کیا ، جسٹس گلزار احمدنےصوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کی تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے سعید غنی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا، محمود اختر نقوی نے ریمارکس میں کہا سعید غنی نے عدالتی حکم کے خلاف  تقریر کی، عملدرآمد نہ کرنے کا اعلان کیا۔

    کراچی میں سترفیصدتعمیرات غیر قانونی ہیں، جسٹس گلزار

    ،جسٹس گلزار نے اپنے ریمارکس میں کہا کراچی میں ستر فیصد تعمیرات غیر قانونی ہیں، کراچی کے جتنے پارکس تھے شہیدوں کے نام کردیئے گئے ، جس پر  اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا شہید کا تو بڑا رتبہ ہوتا ہے ،شہید کےلیےتو بڑی سخت شرائط ہیں تو جسٹس گلزار نے کہا شہدا کا بڑا رتبہ ہوتا ہے اللہ کرے ہم بھی ہو جائیں ، آپ کا مطلب میں مارا جاؤں توشہید نہیں ہوں گا ؟

    یونیورسٹی روڈ کی کھدائی پر سپریم کورٹ نے اظہار برہمی

    سماعت میں یونیورسٹی روڈ کی کھدائی پر سپریم کورٹ نے اظہار برہمی کیا، جسٹس گلزار احمد نے کہا ایک سال پہلے کارپٹنگ ہوئی تھی دوبارہ کیوں اکھاڑ  دیا، آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے، روڈ توڑنے سے لاکھوں شہری متاثر ہورہے ہیں۔

    وکیل میونسپل سروسز نے بتایا کےالیکٹرک کی زیر زمین کیبل بچھائی جارہی ہے، جس پرجسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے پہلے کے الیکڑک کو کیوں خیال نہیں آیا، الٰہ دین پارک کے ساتھ پلازہ کس کا اور کس کی زمین پر بن رہا ہے، کتنے پلازے بن رہے ہیں اور بنے ہی جارہے ہیں، الٰہ دین پارک کا کمرشل استعمال کیا جارہا ہے۔

    جسٹس گلزار نے ڈی جی کے ڈی اے سے استفسار کیا اسکے پاس سے گزریں تو کراہیت آتی ہے، ڈرائیو ان سینما ختم کردیا گیا آپ نے نہیں روکا، اس جگہ پر اتنا بڑا پلازہ بن گا کہ اب سانس لینا بھی مشکل ہے۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا مئیر صاحب آگے آجائیں، مئیر کراچی نے بتایا جوہر میں مال میں آگ لگی رہائشی علاقہ ہونے سے مشکلات ہوئی، مجھے بھی ایسی مشکلات کا سامنا ہے، جس پر جسٹس گلزار کا کہنا تھا جب ہی آپ نے اپنا سیاسی جنازہ نکال لیا ہے۔

    جسٹس گلزار کا ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا ملیر روڈ کو آپ نے کیا بنایا کیا کیا اسکا؟ آپ نے پورا شہر بیچ دیا کتنا پیسہ چاہیے؟ دبئی لندن میں پراپرٹی بنالی نہ وہاں رہ سکتے ہو، نہ کھا سکتے ہو، نہ وہاں کا موسم یہاں لاسکتے ہیں، آپ نے طارق روڈ دیکھا،ساراکچراوہاں ڈمپ ہورہاہے، کسی پلازے والے نے پارکنگ ایریا نہیں بنایا۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا شہر سے باہر نکلنے میں 3 گھنٹے لگتے ہیں، کراچی میگا سٹی کے معیار پر نہیں اترتا، روڈ سسٹم تباہ ہوگیا ہے، 1950 سے اب تک کے تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں۔

    تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں

    وسیم اختر نے اظہار بے بسی کرتے ہوئے کہا میرے پاس کوئی ماسٹر پلان نہیں، ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا ہمارے پاس ماسٹر پلان ہے، جس پر جسٹس  گلزار احمد نے کہا تمام ماسٹر پلان پیش کیے جائیں اور یہ بھی بتائیں کس ماسٹر پلان میں کس کی ہدایت پر کب تبدیلی کی گئی، یہ بھی بتائیں کون سی رہائشی عمارت کو کب ، کس کےکہنے پرکمرشل کیا۔

    جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا حکومت نے ملیر ندی پر متبادل سڑک بنانے کا اعلان کیا تھا؟ جس پراٹارنی جنرل نے بتایا ملیرندی پرسڑک ایسی نہیں ہوگی جیسے لیاری ایکسپریس وے بنایا گیا ہے۔

    جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا سپریم کورٹ نے لیاری ایکسپریس وے بنانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا، لیاری ایکسپریس وے کا بھی ٹھیک سے استعمال نہیں ہورہا، جتنا خرچہ لیاری ایکسپریس وے پر ہوا اتنا اس سےفائدہ نہیں ہورہا، میں بھی اکثر وہیں سے گزرتا ہوں،سڑک پرہرطرف سناٹاہوتاہے، اب تو لیاری ایکسپریس وے کی زمین پر بھی قبضہ ہورہا ہے۔

    تجاوزات کےخاتمےسےمتعلق سماعت میں جسٹس گلزار احمد نے سیکریٹری دفاع سے استفسار کیا آپ کو انگریزی نہیں آتی؟ سیکریٹری دفاع نے جواب دیا جی سر انگریزی سمجھتاہوں، تو جسٹس گلزاراحمد نے کہا رپورٹ پر دستخط کیوں نہیں کیے؟ ابھی دستخط کریں، عدالت کےحکم پرسیکریٹری دفا ع نےدستخط کردیں۔

    جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس میں کہا رپورٹ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے، توہین عدالت کی کارروائی کیلئے آرٹیکل 204 موجود ہے رشید اے رضوی نے کہا ، میری بھی درخواستیں ہیں وہ سن لیں، جس پر جسٹس گلزاراحمد کا کہنا تھا آپ خاموش ہوجائیں پہلےاٹارنی جنرل سےبات کرنے دیں۔

    جسٹس گلزاراوررشیدرضوی کےدرمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا،جسٹس گلزار نے کہا آپ لوگوں نے اپنا گھر بھی اسٹیک پر لگا دیا ہے ، میں تو کہیں بھی چھپرا ڈال کررہ لوں گا اپنی سوچیں۔

    کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے کا حکم

    دوران سماعت سپریم کورٹ نے سیکریٹری ریلوے کو کراچی سرکلر ریلوے ایک ماہ میں چلانے اور ریلوے اراضی سےہر حال میں 2ہفتے میں تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیا، عدالت نے سوال کیا آپ کو معلوم نہیں ہمارا کیا حکم تھا ؟ابھی تک عمل کیوں نہیں ہوا، چیف سیکریٹری کو میئر کراچی اور دیگر حکام کے ساتھ مل کر آپریشن کرنے کا حکم دیا۔

    :تجاوزات کیس میں جسٹس گلزار نے استفسار کیا لائنز ایریا پراجیکٹ والے کیا کررہے ہیں ؟ آپ نے حالت دیکھی ہے کیا حشر کیا ہے، یونیورسٹی روڈ اور سوک  سینٹر کی کیا حالت ہے ، ڈی جی لائنز ایریا نے بتایا مالی معاملات کے باعث پریشانی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا فالتو ملازم بھرتی کیےان کو کم کریں مسئلہ حل ہو جائے گا، حسن اسکوائر کےسامنے دیوارگرادی توایمبولینس کھڑی کردی گئی، جس پر ڈی جی لائنز ایریا نے کہا سر ہٹانے کی کوشش کریں گے ،ڈی جی لائنز ایریا

    عدالت نے ریمارکس دیے سرکاری اداروں کے حالت بری ہے ، سرکاری افسرگاؤ تکیےاور پاندان لے کر آرام کرہے ہوتے ہیں ، جو آتا ہے وہ تکیےکے نیچے کچھ رکھ دیتا ہے کام ہوجاتا ہے ، میں نے یہ حالت ان کے ٹیکس آفس میں دیکھی ہے ، تب سے انکم ٹیکس کا کیس نہیں لیا، آباد نے تو شہر کوبرباد کیا۔

    سڑکوں پر پولیس اوررینجرز کی چوکیاں اور تجاوزات قائم، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو نوٹس جاری

    دو تلوار کے نزدیک ملٹری لینڈ پر کمرشل تعمیرات سے متعلق درخواست پر اہل علاقہ نے کہا دو ایکڑ رہائشی زمین کوتجارتی مقاصد کیلئے الاٹ کردیا گیا، جس پر عدالت نےاٹارنی جنرل سے کل رپورٹ طلب کرلی، جسٹس گلزاراحمد نے کہا اوشین ٹاوربھی غلط بناہے،پہلےرہائشئ عمارت تھی، کمرشل عمارت پی ایس اوپمپ کے سامنے عمارت بن رہی ہے۔

    تجاوزات کےخاتمےسےمتعلق کیس میں سڑکوں پر پولیس اوررینجرز کی چوکیاں اور تجاوزات قائم کرنے پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ڈی جی رینجرز اور آئی  جی سندھ کو نوٹس جاری کردیا اور رینجرز، پولیس اور دیگر اداروں سے مکمل رپورٹ طلب کرلی۔

    سماعت میں کراچی پیکیج کےتحت منصوبوں کیلئےکے آئی ڈی سی ایل کمپنی کے قیام پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کراچی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے قیام کی کیوں ضرورت پیش آئی؟

    سی ای او کے آئی ڈی سی ایل نے بتایا منصوبے کی تکمیل کے لیے وفاقی حکومت نے کمپنی کی بنیاد رکھی، کمپنی نے سرجانی سے گرومندر تک گرین لائن بس کا منصوبہ مکمل کردیا ہے، گرین لائن بس منصوبےپرمزید کام جاری ہے، کراچی کا بنیادی انفراسٹرکچر بنانے کی ذمہ داری تو مقامی حکومت کی ہے۔

  • سپریم کورٹ نے اصغرخان کیس میں وزارت دفاع کی رپورٹ مستردکردی

    سپریم کورٹ نے اصغرخان کیس میں وزارت دفاع کی رپورٹ مستردکردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اصغرخان کیس میں وزارت دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے چار ہفتے میں نئی رپورٹ طلب کرلی۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا ایک فریق رقم لینے سے انکار کر رہا ہے تو کیا کیس ختم کر دیں؟ ایف آئی اے نے پھر اصغرخان عملدرآمد کیس بندکرنےکی استدعا کی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعیدکی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے اصغرخان کیس کی سماعت کی، وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے ایک بار پھر اصغرخان کیس بندکرنےکی استدعاکردی۔

    ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں موقف اختیارکیا ہے کہ ناکافی ثبوت کی بنیادپرکیس کسی بھی عدالت میں کیسے چلایاجائے؟ بےنامی بینک اکاونٹس کی تحقیقات اوراہم گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے۔

    ایف آئی اے کا کہنا ہے کیس آگے بڑھانے اور مزید ٹرائل کےلیےخاطر خواہ ثبوت نہیں مل سکے، مناسب ثبوت نہ ملنےکےباعث کیس کسی بھی عدالت میں چلانا ممکن نہیں۔

    اصغر خان عملدرآمد کیس میں وزارت دفاع نے سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرادی ، رپورٹ میں کہا گیا وزارت دفاع کی جانب سے کورٹ آف انکوائری بنائی گئی ، انکوائری نے 6 گواہوں کا بیان ریکارڈ کیے ، مزید گواہوں کو تلاش کرنے کی کوشش جاری ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کورٹ آف انکوائری نے تما م شواہد کا جائزہ لیا ، معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کاوشیں جاری ہیں۔

    سپریم کورٹ نےاصغرخان کیس میں وزارت دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے چارہفتےمیں نئی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا چاہیں تورپورٹ سربمہرلفافےمیں جمع کرادیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا ایک فریق رقم لینے سے انکار کررہا ہے تو کیا کیس ختم کردیں، جوبیان حلفی جمع کرائےگئے ہیں کیا وہ جھوٹے ہیں، بیان حلفی جھوٹے ہیں یاسچے ان کا تجزیہ کیا جائےگا۔

    جسٹس عظمت کا کہنا تھا انکوائری میں کیایہ سوال کیاگیارقم کس کےذریعےدی گئی، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا یہ سوال نہیں ہوا، عدالت کا کہنا تھا رپورٹ مکمل اور دوبارہ جمع کرائی جائے، ہماری عدالت کافیصلہ جس پرعملدرآمد ضرور کرائیں گے۔

    گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے ضمنی رپورٹ طلب کی تھی ، عدالت نے حکم دیا تھا نشاندہی کی جائے کہ بینک اکاؤنٹس کون چلا رہا تھا، رپورٹ میں بتایا جائے کہ جو ریکارڈ نہیں ملا وہ کس کے پاس ہونا چاہیے۔

    مزید پڑھیں : اصغر خان کیس : سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے ضمنی رپورٹ طلب کرلی

    یاد رہے 11 فروری کو اصغر خان کیس میں جسٹس گلزار نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا ایسا معلوم ہوتا ہے ایف آئی اے ہاتھ اٹھاناچاہتی ہے، اس کیس میں پبلک منی کا معاملہ ہے، اٹارنی جنرل بتائیں کورٹ مارشل کی بجائے تفتیش کیوں ہورہی ہے؟

    اس سے قبل ایف آئی اے نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ سے مدد مانگی تھی ، ایف آئی اے نے رپورٹ میں کہا تھا کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کی تحقیقات میں کسر نہ چھوڑی، رقوم تقسیم کرنے والے افسران کے نام ظاہر نہیں کیےگئے، کسی نے پیسوں کی تقسیم قبول نہیں کی جبکہ رقوم کی تقسیم میں ملوث اہلکاروں سے متعلق نہیں بتایاگیا۔

    ایف آئی اے نے استدعا کی تھی کیس کی تحقیقات بند گلی میں داخل ہوگئی ہے ، عدالت رہنمائی کرے۔

    واضح رہے 11 جنوری کو سپریم کورٹ نے اصغرخان کیس بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا تھا کہ اصغرخان نے اتنی بڑی کوشش کی تھی، ہم ان کی محبت اورکوشش رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

    جس کے بعد 18 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کاعبوری تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں سیکرٹری دفاع کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ایف آئی اے ایک ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    عبوری تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا ایف آئی اے کے دلائل سے مطمئن نہیں ہیں، ہمارےخیال کے مطابق کچھ چیزوں سےمتعلق تفتیش کی ضرورت ہے۔

  • اصغر خان کیس : سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے ضمنی رپورٹ طلب کرلی

    اصغر خان کیس : سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے ضمنی رپورٹ طلب کرلی

    اسلام آباد : اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے ضمنی رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے حکم دیا نشاندہی کی جائے کہ بینک اکاؤنٹس کون چلا رہا تھا، رپورٹ میں بتایا جائے کہ جو ریکارڈ نہیں ملا وہ کس کے پاس ہونا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس عظمت سعیدشیخ کی سربراہی میں2رکنی بنچ نے اصغرخان کیس کی سماعت کی ، عدالت نے ایف آئی اےسےضمنی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا بینک اکاؤنٹس کون چلا رہا تھا اس کی نشاندہی کریں، رپورٹ میں نشاندہی کریں کون ساریکارڈموجودنہیں، پیسےلینےوالوں سےمتعلق شواہد یا شکوک سے آگاہ کریں۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا رپورٹ میں بتایا جائے جو ریکارڈ ملا نہیں وہ کس کے پاس ہوناچاہیے، رقم لینے سے انکار کرنے والوں کا نام بھی رپورٹ میں شامل کیا جائے۔

    جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا ہم نے رپورٹ طلب کی تھی کیا آپ نے جمع کرادی، جس پر نمائندہ وزارت دفاع نے بتایا ہم نے16مارچ کو رپورٹ جمع کرا دی تھی، جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا رپورٹ ریکارڈ پر موجود نہیں، دوبارہ جمع کرائیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا میراخیال ہے رقم لینے والوں کا پتا چل جائےگا، ایف آئی اے جس راستے پر لے جاناچاہتی ہے، اس پر نہیں جائیں گے، ہم کیس بند کرنے نہیں جارہے، جس پر سلمان اکرم کا کہنا تھا کچھ لوگوں نے اپنے رول کو تسلیم کیا کارروائی ہونی چاہیے۔

    عدالت کا کہنا تھا مرحلہ وار کیس کو لے کرچلیں گے اور نظر رکھنی ہے جہاں پہنچنا ہے بعد ازاں کیس کی سماعت22اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

    مزید پڑھیں : معلوم ہوتا ہے اصغرخان کیس میں ایف آئی اے ہاتھ اٹھانا چاہتی ہے،جسٹس گلزار کے ریمارکس

    یاد رہے 11 فروری کو  اصغر خان کیس میں جسٹس گلزار  نے  اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا  تھا ایسا معلوم ہوتا ہے ایف آئی اے ہاتھ اٹھاناچاہتی ہے، اس کیس میں پبلک منی کا معاملہ ہے، اٹارنی جنرل بتائیں کورٹ مارشل کی بجائے تفتیش کیوں ہورہی ہے؟

    اس سے قبل ایف آئی اے نے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ سے مدد مانگی تھی ، ایف آئی اے نے رپورٹ میں کہا تھا کہ سیاستدانوں میں رقوم کی تقسیم کی تحقیقات میں کسر نہ چھوڑی، رقوم تقسیم کرنے والے افسران کے نام ظاہر نہیں کیےگئے، کسی نے پیسوں کی تقسیم قبول نہیں کی جبکہ رقوم کی تقسیم میں ملوث اہلکاروں سے متعلق نہیں بتایاگیا۔

    ایف آئی اے نے استدعا کی تھی کیس کی تحقیقات بند گلی میں داخل ہوگئی ہے ، عدالت رہنمائی کرے۔

    واضح رہے 11 جنوری کو سپریم کورٹ نے اصغرخان کیس بند نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا تھا کہ اصغرخان نے اتنی بڑی کوشش کی تھی، ہم ان کی محبت اورکوشش رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔

    جس کے بعد 18 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کاعبوری تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں سیکرٹری دفاع کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ایف آئی اے ایک ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    عبوری تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا ایف آئی اے کے دلائل سے مطمئن نہیں ہیں، ہمارےخیال کے مطابق کچھ چیزوں سےمتعلق تفتیش کی ضرورت ہے۔

  • اگر پرویز مشرف 2 مئی کو  نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ

    اگر پرویز مشرف 2 مئی کو نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے ،سپریم کورٹ کا فیصلہ

    اسلام آباد: :سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کے ٹرائل سےمتعلق فیصلہ سناتے ہوئے کہا 2مئی کومشرف نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے ، اور حکم دیا ٹرائل کورٹ ان کی غیرموجودگی میں ٹرائل مکمل کرکے حتمی فیصلہ جاری کردے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت کی ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ملزم پرویز مشرف 2مئی کو عدالت میں پیش ہوں گے ؟ جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے کہا میں نے یہی مشورہ دیا ہے کہ پیش ہوں، یقین سے نہیں کہہ سکتا ،ان کی صحت کا معاملہ ہے، ہفتے میں دو مرتبہ انکی کیموتھراپی ہوتی ہے، کیموتھراپی کا عمل مکمل ہوا تو ضرور حاضر ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا سیشن کورٹ ایکٹ کی دفعہ 9کیا کہتی ہے ؟ وکیل استغاثہ نے کہا پرویز مشرف شروع میں عدالت میں پیش ہوئے، پرویزمشرف نےفردجرم سنی اورانکار کیا، پھر استثنیٰ کی درخواست دی اوروعدہ کیا ضرورت ہوگی پیش ہوں گے۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا اب وہ دانستہ طور پر غیر حاضرہیں، غیرحاضری میں ٹرائل اوردانستہ غیر حاضرہونا2مختلف باتیں ہیں، غیرحاضری میں ٹرائل ہوناآئینی طورپردرست نہیں، دانستہ طور پر غیر حاضرہونامختلف معاملہ ہے ، دانستہ طور پرغٖیر حاضری کافائدہ ملزم کو نہیں دیا جاسکتاہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اس مرحلے پر ہمیں کوئی فیصلہ نہیں دینا چاہیے، ہوسکتا ہےہمارے سامنے اپیل میں دوبارہ یہ نقطہ اٹھایاجائے، وفقے کے بعد اس پر مزید غورکریں گے کیا کرنا چاہیے۔

    سپریم کورٹ نے پرویزمشرف کےٹرائل سے متعلق فیصلہ سنادیا، جس میں کہا گیا اگر 2 مئی کومشرف نہیں آتے تو دفاع کےحق سےمحروم ہوجائیں گے ، ایسی صورت میں ٹرائل کورٹ استغاثہ کےدلائل سن کر حتمی حکم جاری کردے۔

    فیصلہ میں کہا گیا جو ملزم غیر حاضرہوجائے اس کے حقوق معطل ہوجاتے ہیں، دفعہ 342 ملزم کو اپنےدفاع کا موقع فراہم کرتی ہے ، ملزم یہ موقع ہی حاصل نہیں کرنا چاہتاتوپھر اسےدفاع کاحق نہیں رہتا ، دانستہ غیر حاضری کی صورت میں گواہ پیش کرنے کابھی حق نہیں رہتا۔

    چیف جسٹس نے کہا اگر پرویز مشرف 2مئی آجاتے ہیں تو سارے حقوق بحال ہوں گے، نہیں آتے توچاہےوجہ کچھ ہو، استغاثہ کوسن کر حتمی حکم جاری کیاجائے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔

    مزید پڑھیں : پرویزمشرف کا مئی میں وطن واپسی کا عندیہ

    یاد رہے 28 مارچ کوسابق صدر جنرل ( ر) پرویز مشرف کے وکیل نے خصوصی عدالت میں عندیہ دیا ہے کہ ان کے موکل 13 مئی کو وطن واپس آکر عدالت کے روبرو پیش ہوسکتے ہیں۔

    گذشتہ سماعت میں سپریم کورٹ  نے پرویز مشرف کے سامنے تین آپشنز رکھے تھے،  پہلا آپشن پرویز مشرف آئندہ سماعت پر ہوکر بیان ریکارڈ کروائیں، دوسرا آپشن اگر  نہیں پیش ہوتے تو اسکائپ پر بیان ریکارڈ کروائیں اور تیسرا آپشن اگر وہ اسکائپ پر بھی بیان ریکارڈ نہیں کرواتے تو ان کے وکیل بیان ریکارڈ کروائیں۔

    عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سےالتواکی درخواست بھی مسترد کردی  تھی،  چیف جسٹس نے کہا تھا پرویزمشرف تو مکے شکے دکھاتے تھے، یہ ناہوعدالت کو مکے دکھانا شروع کردیں۔

  • سپریم کورٹ کا پرویزمشرف کےخلاف آئین شکنی کیس میں تاخیر کا نوٹس ، رپورٹ 15 میں پیش کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا پرویزمشرف کےخلاف آئین شکنی کیس میں تاخیر کا نوٹس ، رپورٹ 15 میں پیش کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےسابق صدر پرویزمشرف کےخلاف آئین شکنی کیس میں تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے خصوصی عدالت سے  رپورٹ پندرہ دن میں  طلب کرلی، چیف جسٹس نے کہاملزم دانستہ طور پر پیش نہیں ہورہاتو کیا عدالت بے بس ہوجائے؟۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پرویزمشرف کےخلاف آرٹیکل چھ کیس کی سماعت میں تاخیر سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، سپریم کورٹ نے رجسٹرار خصوصی عدالت سے پندرہ روز میں رپورٹ طلب مانگ لی۔

    چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے حکم دیا کہ بتایا جائے کیس میں تاخیرکی کیاوجہ ہے؟ ملزم دانستہ طور پر پیش نہیں ہو رہا تو کیا عدالت بے بس ہوجائے؟ ملزم کا عدالت میں بیان اس کو دی جانے والی رعایت ہے۔

    اعلی عدالت نے کہا تین سو بیالیس کے بیان میں ملزم سے پوچھا جاتاہے کیاشہادتوں سے متفق ہے یا انکاری؟ ملزم پیش نہیں ہورہا تو عدالت جواب میں انکار لکھے اور کارروائی آگے بڑھائے، کسی ملزم کی دانستہ غیرحاضری کی وجہ سے عدالت بے بس نہیں ہوسکتی۔

    دوران سماعت لاہور بار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ٹرائل ملزم کے بیرون ملک جاکر بیٹھ جانے سے رکاہوا ہے، جس پر سپریم کورٹ نے وفاق، پرویزمشرف اور رجسٹرارخصوصی عدالت کونوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت پچیس مارچ تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے گذشتہ سال اکتوبر میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت میں عدالت نے سابق صدر کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل مذکورہ کیس میں سیکریٹری داخلہ نے بتایا تھا کہ ہم نے مشرف کو لانے کے لیے انٹر پول کو خط لکھا تھا لیکن انٹر پول نے معذرت کرلی کہ سیاسی مقدمات ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

    مزید پڑھیں : سابق صدر پرویز مشرف جان لیوا مرض میں مبتلا ہو گئے، میڈیکل رپورٹ

    خیال رہے پرویز مشرف کی تازہ میڈیکل رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ پرویز مشرف کو ایک جان لیوا بیماری کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو ’امیلوئی ڈوسس‘ نامی خطرناک بیماری لاحق ہے، ان کا علاج برطانیہ کے 2 معروف اسپتالوں کے ساتھ مل کر کیا جا رہا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر علاج نہ ہونے سے مشرف کو جان کا خطرہ ہے، پرویز مشرف دل اور بلڈ پریشر کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔

  • گواہی میں تضادات پر قتل کے ملزمان 12 سال بعد بری

    گواہی میں تضادات پر قتل کے ملزمان 12 سال بعد بری

    اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قتل کے 2 ملزمان کو گواہی میں تضاد کے باعث بری کرنے کا حکم دے دیا، ملزمان کو عمر قید سنائی جاچکی تھی اور وہ 12 سال سے قید میں تھے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سنہ 2007 میں ہونے والے قتل کے کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت میں 12 سال سے قید ملزمان عبد اللہ ناصر اور طاہر عبد اللہ کو پیش کیا گیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مرنے والا اور مارنے والا سب فارغ ہوجائیں گے، قصور عدالت کا نہیں گواہ کا ہوگا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ گواہی میں اتنا جھوٹ شامل تھا کہ یقین کرنا مشکل تھا، زخمی گواہ عبد المجید کے مطابق وہ آدھا گھنٹہ زمین پر پڑا رہا، اس بات پر یقین کرنا ناممکن ہے۔

    انہوں نے کہا کہ عدالت میں عبد المجید نے کچھ اور بیان دیا، بتایا گیا کہ قتل کا محرک زمین تھی۔ ریکارڈ سے قتل کا محرک واضح نہیں۔

    عدالت کے مطابق عبد اللہ ناصر اور طاہر عبد اللہ پر 2007 میں قتل کا الزام تھا، واقعے کے دوران گواہ عبد المجید زخمی ہوا۔ ٹرائل کورٹ نے عبد اللہ ناصر اور طاہر عبد اللہ کو سزائے موت سنای تاہم ہائیکورٹ نے سزا عمر قید میں بدل دی تھی۔

    چیف جسٹس نے گواہ اور تفتیشی افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ملزمان کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔

    خیال رہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ منصف اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پرانے کیسز کے حوالے سے خاصے متحرک ہیں۔ چیف جسٹس نے جھوٹی گواہی دینے والے افراد کے خلاف بھی سزاؤں کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

  • سپریم کورٹ نے ’مرغی چور‘ کی ضمانت مسترد کردی

    سپریم کورٹ نے ’مرغی چور‘ کی ضمانت مسترد کردی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں چوری کے الزام میں گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کردی، ملزم پہلے بھی سزا یافتہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ملزم زاہد کی درخواست ضمانت کی سماعت کی، ملزم کو اخباروں نے ’مرغی چور‘ قرار دیا تھا۔

    سماعت کےدوران ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ملزم 4مقدمات میں سزایافتہ ہے، اس کی تحویل سےڈسپنسر،ایل سی ڈی،کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،جیولری اور دیگر کئی اشیا برآمدہوئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ملزم کے پاس سے نقب زنی کےآلات بھی برآمدہوئے ہیں۔

    مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ملزم کے وکیل سے استفار کیا کہ آپ کا موکل کیا کرتا ہے تو وکیل نے کہا کہ مزدور پیشہ ہے۔

    وکیل کے جواب پر عدالت نے سوال کیا کہ پو پولیس کوآپ کےموکل سے ایسی کیانفرت تھی جو اسے بلا سبب نامزد کردیا گیا،کیاپولیس نے یہ سب چیزیں بازارسے خریدکربرآمدکرائیں۔ اس دوران تفتیشی افسر نے اپنے بیان میں بتایا کہ ملزم کےگھرسےچوری کےمال کاآدھاٹرک برآمدکیاگیا۔

    پولیس کے موقف پر عدالت نے کہا کہ اخبارمیں خبرتوصرف مرغی چوری کی لگوائی گئی تھی اور ملزم کےگھرسےتوچوری کےمال کاآدھاٹرک برآمدہوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے یہ بھی کہا کہ اخبارمیں ایسی چیزیں دیکھ کر لوگ چونک جاتےہیں،جب کیس سامنےآتاہےتوحقیقت کاپتہ چلتاہے۔

    دو رکنی بنچ نے ملزم کے وکیل کی جانب سے دائر کردہ ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئےٹرائل کورٹ کومعاملےکا3ماہ میں فیصلہ کرنےکاحکم صادر کردیا۔

  • نوازشریف کا ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

    نوازشریف کا ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنےکافیصلہ کرلیا، نواز شریف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سےانصاف کی توقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ کا درخواست ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، نواز شریف کے وکیل نے ہائی کورٹ سے فیصلےکی اصل کاپی حاصل کرلی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ حارث دو تین دن میں درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائیں گے، درخواست کے متن میں کہا گیا سپریم کورٹ سےانصاف کی توقع ہے، سپریم کورٹ اسلام آبادہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردے۔

    یاد رہے 25 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پرضمانت پررہائی سے متعلق فیصلہ سنایا تھا، فیصلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی سزا معطلی کے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ ، یہ کیس غیرمعمولی نوعیت کانہیں،سپریم کورٹ کےحالیہ فیصلوں کےنتیجےمیں ضمانت نہیں دی جاسکتی، انھیں علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں۔

    فیصلہ میں کہا گیا تھا جیل سپرنٹنڈنٹ کااخیارہےقیدی کواسپتال منتقل کرےیانہیں، نوازشریف کوقانون کےمطابق جب ضرورت پڑی اسپتال منتقل کیاگیا، عدالتی نظیریں ہیں قیدی کا علاج ہو رہا ہو تو وہ ضمانت کاحقدارنہیں۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • نواز شریف کے وکلا کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

    نواز شریف کے وکلا کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت مسترد کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکلا نے درخواست ضمانت مسترد ہونے پر سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے، وکلا کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی سزامعطلی اورضمانت کی درخواست مسترد کردی، عدالت نے قراردیاکہ نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے، طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست ناقابل سماعت ہے۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

    العزیزیہ ریفرنس میں سزا یافتہ مجرم نوازشریف نے طبی بنیادوں پرضمانت کی درخواست کی تھی اور جسٹس عامرفاروق اورجسٹس محسن کیانی پرمشتمل دو رکنی بیبنچ نے دلائل کے بعدفیصلہ بیس فروری کو محفوظ کیاتھا۔

    نیب نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پررہائی کی مخالفت کی تھی۔

    خیال رہے نواز شریف العزیزیہ کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں اور اپنی بیماری کے سبب لاہور کے جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں ، میڈیکل بورڈ نے سفارشات محمکہ داخلہ کو بجھوادیں ہیں ، جس میں انجیو گرافی تجویز کی گئی ہے۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • جھوٹی گواہی دینے والا کانسٹیبل عدالت میں طلب

    جھوٹی گواہی دینے والا کانسٹیبل عدالت میں طلب

    اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی دینے والے کانسٹیبل کو عدالت میں طلب کرلیا۔ اس سے پہلے بھی ایک شہری کو جھوٹی گواہی دینے پر عدالت میں طلب کیا جاچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی کا نوٹس لیتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے والے کانسٹیبل خضر حیات کو طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو حکم دیا ہے کہ خضر حیات کو 4 مارچ کو پیش کیا جائے۔ جھوٹی گواہی کا نوٹس قتل کے ملزم محمد الیاس کی سزا کے خلاف اپیل پر لیا گیا۔ ملزم محمد الیاس عدم شواہد کی بنیاد پر کیس سے بری ہوگیا تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کو جھوٹی گواہی دے کر خراب کر دیا گیا، جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔

    خیال رہے کہ چیف جسٹس نے جھوٹی گواہی کے خلاف پہلی کارروائی چند روز قبل کی تھی جب انہوں نے جھوٹی گواہی دینے پر ساہیوال کے رہائشی ارشد کو 22 فروری کو طلب کیا تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رات کو 3 بجے کا واقعہ ہے کسی نے لائٹ نہیں دیکھی، ٹرائل کورٹ کی ہمت ہے انہوں نے سزائے موت دی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ ہائیکورٹ نے بھی عمر قید کی سزا سنائی حالانکہ تمام گواہان کہہ رہے تھے کہ انہوں نے فائر ہوتے نہیں دیکھا، ’یہ سب کچھ نچلی عدالتوں کو کیوں نظر نہیں آتا‘۔

    چیف جسٹس نے کہا تھا کہ جس طرح رضا کارانہ گواہ بنا، اسی طرح رضا کارانہ جیل بھی جانا چاہیئے، ٹرائل کورٹ نے جھوٹی گواہی پر سزائے موت دی اور ہائیکورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی۔