Tag: schoolgirl

  • جب خفیہ امریکی دستاویزات ایک اسکول طالبہ کے ہاتھ لگ گئیں

    واشنگٹن: ان دنوں امریکا میں موجودہ اور سابق صدور اور نائب صدور کے گھروں سے کلاسیفائیڈ دستاویزات برآمد ہونے کا ایک سلسلہ جاری ہے، ایسے میں آپ کے لیے یہ خبر بھی حیران کن ہوگی کہ ایک بار اسی طرح کی خفیہ امریکی دستاویزات کا ایک پلندہ ایک اسکول طالبہ کے ہاتھ لگ گیا تھا۔

    خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق یہ 1984 میں موسم سرما کا ایک دن تھا، جب پٹسبرگ کی ایک عمارت میں خفیہ سرکاری دستاویزات سے بھرا ایک بریف کیس دکھایا گیا، جو ایک ایسے شخص نے اٹھا رکھا تھا جس کے پاس یہ یقینی طور پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔

    یہ شخص دراصل ایک 13 سالہ طالبہ کرسٹن پریبل تھی، آٹھویں جماعت کی یہ طالبہ اپنے اسکول پریزنٹیشن کے لیے یہ خفیہ سرکاری دستاویزات اسکول لے کر گئیں تو سب حیران رہ گئے، طالبہ نے اپنے ’شو اینڈ ٹیل‘ پروجیکٹ کے لیے ان کاغذات کو بنیاد بنایا۔ اس پروجیکٹ میں طلبہ کو اپنی مرضی سے کسی چیز کا انتخاب کر کے اس کے متعلق بتانا ہوتا ہے۔

    معلوم ہوا کہ کرسٹن پریبل کے والد نے یہ کاغذات کئی سال پہلے اپنے کلیولینڈ ہوٹل کے کمرے میں پائے تھے، اور وہ انھیں ایک یادگار کے طور پر گھر لے گئے تھے۔

    اے پی نیوز نے موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اب ٹرمپ اور بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایک اور طرح کا ’شو اینڈ ٹیل‘ سامنے آیا ہے، جس میں ریاستی رازوں کو غلط طریقے سے استعمال کیا گیا، جس سے چار دہائیوں قبل کی اسکول طالبہ کے واقعے کی یاد تازہ ہو گئی ہے، اور جس سے پتا چلتا ہے کہ دوسرے صدور نے بھی ’محفوظ معلومات‘ کو کس طرح پھیلنے دیا ہے۔

    گریڈ 8 کی طالبہ کے اس واقعے میں جو دستاویزات استعمال ہوئی تھیں، ان کا تعلق امریکی ڈیموکریٹ صدر جمی کارٹر سے تھا، ان کا ایک اور ایسا واقعہ ’ڈبیٹ گیٹ‘ کے نام سے بھی مشہور ہوا، دونوں واقعات میں خفیہ دستاویزات کے ساتھ لاپرواہی برتی گئی تھی۔ ’ڈبیٹ گیٹ‘ کے کاغذات وہ تھے جو جمی کارٹر نے 28 اکتوبر 1980 کو کلیولینڈ میں ریپبلکن حریف رونالڈ ریگن کے ساتھ مباحثے کے لیے تیار کیے تھے۔

  • اسکول کی طالبہ کا پرنسپل پر تیزدھار آلے سے حملہ

    اسکول کی طالبہ کا پرنسپل پر تیزدھار آلے سے حملہ

    جہلم: گورنمنٹ گرلزہائی اسکول کی طالبہ نے والدین سے شکایت کرنے پر پرنسپل پر تیزدھار آلے سے حملہ کردیا، طالبہ کے بیگ سے سگریٹ کا پیکٹ برآمد ہونے پر ٹیچر نے اسکول سےنکال دیاتھا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کے شہر جہلم میں افسوسناک واقعہ پیش آیا ، جہاں گورنمنٹ گرلزہائی اسکول کی طالبہ نے پرنسپل پرتیزدھارآلے سے حملہ کردیا ، سی ای او کا کہنا ہے کہ والدین کوبتانےکی رنجش پرطالبہ نے پرنسپل پرحملہ کیا، طالبہ موقع سےفرارہو گئی تھی تاہم قانونی کارروائی کریں گے۔

    انتظامیہ نے مزید کہا کہ طالبہ کےبیگ سے سگریٹ کاپیکٹ برآمد ہونے پر ٹیچرنےاسکول سے نکال دیا تھا اور پہلےبھی اسکول انتظامیہ نےوالدین کوصورتحال سےآگاہ کیاتھا۔

    سی ای او کے مطابق طالبہ نے جاتے جاتے ٹیچرز کو دوبارہ دھمکیاں دیں۔

    یاد رہے دو سال قبل نویں جماعت کے طالب علم نے والدین سے شکایت کرنے پر اسکول پرنسپل کو قتل او اس کی بہن کو زخمی کردیا تھا،تاہم بعد ازاں پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا۔

    ملتان روڈ لاہور کے علاقہ سندر میں اسکول پرنسپل شگفتہ نے ناجائز تعلقات کے شبہ میں نویں جماعت کے طالب علم رضوان اور ٹیچر کو اسکول سے نکال دیا تھا جس کا ملزم کو شدید صدمہ تھا۔

  • چارجنگ کے دوران موبائل فون کا استعمال لڑکی کی جان لے گیا

    چارجنگ کے دوران موبائل فون کا استعمال لڑکی کی جان لے گیا

    بنکاک: تھائی لینڈ میں چارجنگ کے دوران موبائل فون کا استعمال کرنے والی لڑکی ہلاک ہوگئی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شمال مشرقی تھائی لینڈ میں موبائل فون چارجنگ پر لگا کر موسیقی سننے والی 16 سالہ طالبہ کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوگئی۔

    یہ افسوس ناک واقعہ 10 ستمبر کو تھائی لینڈ کے شہر روئی ایٹ میں پیش آیا، لڑکی کی شناخت تھانالک فائی فداسری کے نام سے ہوئی۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ طالبہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہیڈ فون سے موسیقی سن رہی تھی اس دوران موبائل فون چارج پر لگا رہا اور کرنٹ لگنے سے اس کی موت واقع ہوگئی۔

    Thanyaluck Fai Phadasri, 16, was electrocuted in Thailand as she listened to music on her phone with headphones while it was plugged in an charging

    تھانالک کے والدین کا کہنا ہے کہ بیٹی کو رات کے کھانے کے لیے کمرے میں بلانے کے لیے گئے تو لاش پڑی تھی، اس کے ہاتھ میں فون تھا، گلے اور بازو پر جلنے کے نشانات موجود تھے۔

    لڑکی کے 39 سالہ والد نے بتایا کہ اسے اسکول جانا بہت پسند تھا وہ اسکول سے گھر آتے ہی روزانہ ہوم ورک کرنے کے لیے اپنے کمرے میں جاتی تھی۔

    تھانالک کے 65 سالہ دادا کے مطابق وہ گھر آئی اور رات کا کھانا پکانا شروع کردیا تھا، اس کے بعد کمرے میں چلی گئی اور جب کھانے لیے بلایا گیا تو کوئی جواب نہ ملنے پر کمرے میں داخل ہوئے تو اسے مردہ حالت میں پایا، وہ ہمیں تنہا کرگئی اور ہم اس کے لیے کچھ نہ کرسکے۔

    پولیس نے ابتدائی تحقیق میں لڑکی کی موت کی وجہ موبائل فون سے کرنٹ لگنا قرار دیا جبکہ ہلاک ہونے والی لڑکی کی آخری رسومات ادا کردی گئیں۔

  • داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی برطانوی لڑکی ، گھر لوٹنے کی خواہش مند

    داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی برطانوی لڑکی ، گھر لوٹنے کی خواہش مند

    لندن/دمشق : داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی برطانوی دوشیزہ نے کہا ہے کہ ’مجھے اپنے کیے پر کوئی افسوس نہیں لیکن میں برطانیہ واپس جانا چاہتی ہوں‘۔

    تفصیلات کے مطابق شام و عراق میں دہشتگردانہ کارروائیاں کرنے والی تنظیم داعش میں 2015 کے دوران یورپی یونین سے تعلق والی ہزاروں خواتین داعشی دہشت گرودں سے شادی کےلیے شام گئی تھیں اور اب آہستہ آہستہ کرکے وہ واپس اپنے ممالک جانا چاہتے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ تین سال قبل میں اپنے والدین نے جھوٹ بول کر کہ دو دوستوں کے ہمراہ ترکی کے سیاحتی سفر پر جارہی ہوں اور جہاں وہ بغیر بتائے شام روانہ ہوگئی تھی۔

    برطانوی خاتون نے بتایا کہ میں فروری 2015 اپنی دو سہلیوں 15 سالہ امیرہ عباسی، اور 16 سالہ خدیجہ سلطانہ کے ہمراہ گھر والوں سے جھوٹ کہہ کر لندن کے گیٹ وک ایئرپورٹ سے ترکی کے دارالحکومت استنبول پہنچی تھی جہاں سے وہ تینوں سہلیاں داعش میں شمولیت کے لیے شام چلی گئی تھیں۔

    شمیمہ بیگم، امیرہ عباسی، خدیجہ سلطانہ

    شمیمہ بیگم نے بتایا کہ شامہ شہر رقہ پہنچنے کے بعد ہم تینوں کو ایک گھر میں رکھا گیا جہاں شادی کےلیے آنے والے لڑکیوں کو ٹہرایا گیا تھا۔

    مذکورہ لڑکی کا کہنا تھا کہ ’میں درخواست کی میں 20 سے 25 سالہ انگریزی بولنے والے جوان سے شادی کرنا چاہتی ہوں، جس کے دس دن بعد میری شادی 27 سالہ ڈچ شہری سے کردی گئی جس نے کچھ وقت پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق خاتون نے اپنے شوہر کے ہمراہ دو ہفتے قبل ہی داعش کے زیر قبضہ آخری علاقے کو چھوڑ کر شمالی شام کے پناہ گزین کیمپ میں منتقل ہوئی ہے جہاں مزید 39 ہزار افراد موجود ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے 19 سالہ شمیمہ بیگم کا کہنا تھا کہ میں نے کوڑے میں سربریدہ لاشوں کے سر پڑے ہوئے دیکھے لیکن وہ مجھے بے سکون یا خوفزدہ نہیں کرسکے۔

    پناہ گزین کیمپ میں مقیم دہشت گرد خاتون نے صحافی کو تبایا کہ وہ حاملہ ہے اور اپنی اولاد کی خاطر واپس اپنے گھر برطانیہ جانا چاہتی ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مذکورہ لڑکی کے دو بچے اور تھے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اور میرے ساتھ شام آنے والی ایک لڑکی بمباری میں ہلاک ہوچکی ہے جبکہ دوسری کا کچھ پتہ نہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق خدیجہ سلطانہ کے اہل خانہ کے وکیل کا خیال ہے کہ 2016 میں خدیجہ روسی جنگی طیاروں کی بمباری میں ہلاک ہوک ہوچکی ہے۔