Tag: Science

  • بگ بینگ کی دریافت کے بعد کیا ہوا؟ ماہرین نے کھوج لگالیا

    بگ بینگ کی دریافت کے بعد کیا ہوا؟ ماہرین نے کھوج لگالیا

    سائنسی ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے بِگ بینگ کے کچھ عرصے بعد وجود میں آنے والے بلیک ہول کے آثار دریافت کرلئے ہیں۔

    ماہرینِ فلکیات کا ماننا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے ‘سُپر میسو بلیک ہول’ کے آثار کی شناخت کی ہے جو تقریبا تیرہ ارب اسی کروڑ سال قبل ہونے والے بِگ بینگ کے تھوڑے عرصے بعد ہی معرض وجود میں آگیا تھا۔

    یہ تحقیق ماہرین کی بین الاقوامی ٹیم کی جانب سے کی گئی جس رہنمائی نیل بوہر انسٹیٹیوٹ، یونیورسٹی آف کوپن ہیگن اور ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈینمارک کے آسٹرو فزسٹس نے کی۔

    یہ بھی پڑھیں: کیا سب بڑا دم دار ستارہ زمین سے ٹکرانے والا ہے؟

    خلاء میں دور کہیں موجود اس شے کو ہبل خلائی ٹیلی اسکوپ نے دریافت کیا، سِمیولیشنز نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ ایسی اشیاء وجود رکھتی ہوں گی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی حقیقی دریافت ہے۔

    یہ نو دریافت شدہ شے جسے زیڈ این ذی سیون کیو کا نام دیا گیا ہے، بِگ بینگ کے 75 کروڑ سال بعد وجود میں آئی،بگ بینگ کے عمل کو کائنات کی ابتداء کے سبب کے طور پر جانا جاتا ہے۔

  • زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا: سینیٹ قائمہ کمیٹی

    زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا: سینیٹ قائمہ کمیٹی

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں کہا گیا کہ کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو فوری اس پر کام کرنا چاہیئے تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین مشتاق احمد کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں کراچی کے علاقے کیماڑی میں زہریلی گیس پھیلنے کا معاملہ زیر بحث آیا۔

    چیئرمین کمیٹی مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ زہریلی گیس کی تحقیق کرنا سائنس دانوں کا کام تھا، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو مسئلے پر فوری طور پر کام کرنا چاہیئے تھا۔

    اجلاس میں وزارت سائنس کی جانب سے کمیٹی کو سائنس ٹیلنٹ فارمنگ اسکیم پر بریفنگ دی گئی۔ چیئرمین کا کہنا تھا کہ ٹیلنٹ فارمنگ منصوبے میں دور دراز علاقوں کے طلبا کو تربیت دی جائے، یقینی بنایا جائے کہ منصوبے میں نجی اسکولوں کو شامل نہ کیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ نجی اسکولوں کو دیگر بہت سے مواقع اور مراعات حاصل ہیں، اس کے برعکس سرکاری اسکولوں کے طلبا کو بہت کم مواقع حاصل ہوتے ہیں۔

    اپنی بریفنگ میں حکام نے پاکستان یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجی کے منصوبے کے حوالے سے بتایا۔ حکام کے مطابق وزیر اعظم ہاؤس کے عقب میں سائنس اینڈ انجینیئرنگ یونیورسٹی بنائی جائے گی۔

    بریفنگ میں بتایا گیا کہ پہلے سے موجود یونیورسٹیز کی استعداد کار میں اضافہ کیا جائے، یونیورسٹیاں مالی خسارے کا شکار ہیں۔ پہلے سے موجود سیٹ اپ کو مزید پائیدار کرنا زیادہ فائدہ مند ہوگا۔

  • مارچ کرنےوالوں کا ایل اوسی کی طرف جاناہمارے لیے چیلنج ہے، فواد چوہدری

    مارچ کرنےوالوں کا ایل اوسی کی طرف جاناہمارے لیے چیلنج ہے، فواد چوہدری

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ مارچ کرنےوالوں کا ایل اوسی کی طرف جاناہمارے لیے چیلنج ہے، اقوام متحدہ کو آگے بڑھنا ہوگا۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ آزادکشمیرمیں لوگوں کےجذبات بہت بھڑکےہوئےہیں،وزیراعظم عمران خا ن نےکشمیرمعاملےسےجڑےخطرات سےاقوام متحدہ کوآگاہ کیا ہے ۔

    انہوں نے کہا کہ مارچ کرنےوالوں سے گزارش ہےامن کا موقع ہاتھ سےنہ جانیں دیں، ایل اوسی پارکرنانئےوارزون میں داخل ہونےجیسےہوگا ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ معاملہ ہاتھ سے نکلا جا رہاہے ،اقوام متحدہ کوآگےبڑھناہوگا۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے لیکن مودی کی حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے۔دلی کی لائن فالوکرنےوالےسیاستدان بھی جیلوں میں ہیں۔

    مولانا فضل الرحمن کے دھرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ،پی پی کاایک مطالبہ ہےنواز،زرداری کوپلی بارگین کےبغیررہاکریں۔نواز،زرداری کےشطرنج کےکھیل میں مولاناپیادےکاکرداراداکررہےہیں۔

    فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ،پیپلز پارٹی کےپاس اپنے لوگ نہیں ہیں لیکن جے یو آئی کےپاس مدارس کےلوگ ہیں۔پیپلزپارٹی اورن لیگ کوعوامی مسائل سےکوئی سروکارنہیں،فضل الرحمان مدرسوں کےطلباکوچارےکی طرح استعمال کرناچاہتےہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواہش ہےکہ مولانا فضل الرحمان دھرنےکی تاریخ پرقائم نہ رہیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی اورن لیگ بغیرپیسہ دیےقیادت کی رہائی چاہتی ہیں،ہم تو آج بھی کہتے ہیں کہ پیسے دواور ابولو، اپوزیشن کےلوگوں کےخلاف کیسز ہمارے دور میں نہیں بنائےگئے۔

    فواد چوہدری نے یہ بھی کہا کہ اپنی وزارت کی کارکردگی پر اعتماد میں لیناچاہتاہوں،پہلےہم نےرویت ہلال کاقمری کیلنڈرجاری کیاتھا،وہ تصویریں جاری کیں جس میں گوادرکےقریب چانددیکھاجاسکتاہے۔

    باشعورطبقےکوبتاناچاہتاہوں عقل اورعلم ہی ہمیں آگےلےجاسکتاہے،دوربین سےچانددیکھناغلط ہے تو پھرعینک بھی پہنناغلط ہے۔شرعی طورپر رویت ہلال کمیٹی کومعافی مانگنی چاہیے۔

    منسٹری آف سائنس اینڈٹیکنالوجی میں بڑی اصلاحات لے کرآیا ہوں ،جہلم میں بائیوٹیکنالوجی کابڑا پراجیکٹ بنارہے ہیں،ہم نے ایک بیٹری پراجیکٹ پرکام شروع کیاہے۔پاکستان کامستقبل بیٹری پرہے۔

  • سائنس سے فیضیاب ہونا ہر انسان کا حق

    سائنس سے فیضیاب ہونا ہر انسان کا حق

    دنیا بھر میں آج سائنس کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں سائنسی تعلیم کا رجحان بہت کم ہے اور یہ دنیا میں سب سے کم سائنسی تخلیقات کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے اس دن کو منانے کا مقصد سائنس کے فیوض و برکات کا اعتراف کرنا اور دنیا بھر کو اس کے مثبت اثرات سے آگاہی دینا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے، ’سائنس ۔ ایک انسانی حق‘۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ وہ سائنس سے مستفید ہونے کے لیے اس کو استعمال کرسکے اور سائنسی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔

    بعض افراد سائنس کو برا کہتے ہیں اور اس ضمن میں سب سے پہلا نام اسلحے اور جان لیوا ایجادت جیسے جنگی ہتھیاروں کا لیتے ہیں۔

    سائنس دراصل بذات خود بری یا اچھی شے نہیں۔ یہ اس کے استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اسے نسل انسانی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں یا دنیا کو تباہی و بربادی کی طرف دھکیلنے کے لیے۔

    مزید پڑھیں: زندگی بدل دینے والی 17 حیران کن ایجادات

    دنیا کو فائدہ پہنچانے والی سائنسی ایجادات کرنے والے سائنس دان انسایت کے محسن کہلائے، جیسے جان لیوا امراض سے بچاؤ کی دوائیں یا ایسی ایجادات جس سے انسان تکلیف اور جہالت سے گزر کر آسانی اور روشنی میں آپہنچا۔

    دوسری جانب پاکستان میں سائنسی تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ گلوبل انوویشن انڈیکس کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں دنیا کی سب سے کم سائنسی ایجادات تخلیق کی جاتی ہیں۔

    اس فہرست میں پاکستان سے نیچے صرف تنازعوں اور خانہ جنگیوں کا شکار اور غیر ترقی یافتہ ممالک جیسے برکینا فاسو، نائیجریا اور یمن ہی شامل ہیں۔

    فہرست میں پاکستان 109 ویں نمبر پر موجود ہے جبکہ فہرست کے مطابق سوئٹزر لینڈ دنیا کا سب سے زیادہ سائنسی تخلیقات کرنے والا ملک ہے۔ دوسرے نمبر پر نیدر لینڈز، تیسرے پر سوئیڈن جبکہ چوتھے پر برطانیہ موجود ہے۔

    پاکستان سائنس کے شعبہ میں ایک قابل فخر نام پیدا کرنے کا اعزاز ضرور رکھتا ہے جن کی ذہانت کا اعتراف دنیا بھر نے کیا۔ فزکس کے شعبہ میں اہم تحقیق کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام پہلے پاکستانی ہیں جن کی خدمات کے اعتراف میں انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

    ایک اور نام پاکستانی نژاد نرگس ماولہ والا کا ہے جو عالمی سائنسدانوں کی اس ٹیم کا حصہ رہیں جنہوں نے کشش ثقل کی لہروں کی نشاندہی کے منصوبے پر کام کیا۔

    جیسے جیسے وقت کی چال میں تبدیلی آرہی ہے، ویسے ویسے تعلیمی رجحانات بھی بدلتے جارہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی نوجوان نسل کی بڑی تعداد سائنسی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔

    یہ نوجوان نہایت ذہین اور غیر معمولی صلاحیتوں سے بھرپور ہیں جن کا ثبوت دنیا بھر سے انہیں ملنے والے مختلف اعزازات ہیں۔

    ایسی ہی ایک مثال فخر پاکستان ارفع کریم کی بھی ہے جس نے صرف 9 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائڈ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی نوجوان صلاحیتوں سے بھرپور ہیں تاہم وسائل اور مواقعوں کی کمی ان کے آڑے آجاتی ہے۔

  • میلنڈا گیٹس سائنس کے شعبے میں خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں

    میلنڈا گیٹس سائنس کے شعبے میں خواتین کی ترقی کے لیے کوشاں

    ایک طویل عرصے سے اس بات پر بحث جاری ہے کہ سائنس کے شعبے میں خواتین کی تعداد کم کیوں ہے؟ اس شعبے میں مہارت رکھنے والی خواتین یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے خواتین سائنس سے دور ہیں۔

    مائیکرو سافٹ کمپنی کے بانی بل گیٹس کی اہلیہ میلنڈا گیٹس اس بارے میں کہتی ہیں کہ خواتین کے معاملے میں یہ شعبہ دقیانوسیت کا شکار ہے، ’اس شعبے میں خواتین کو عموماً خوش آمدید نہیں کہا جاتا‘۔

    میلنڈا گیٹس بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی بانی ہیں جو دنیا بھر میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔

    وہ خود کمپیوٹر سائنس، معاشیات اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری رکھتی ہیں جبکہ انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مائیکرو سافٹ کمپنی میں ایک دہائی تک کام کیا ہے۔

    ایک انٹرویو میں میلنڈا نے بتایا کہ انہوں نے وکالت اور طب کے شعبے میں بے تحاشہ خواتین کو دیکھا ہے، لیکن ایس ٹی ای ایم یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور میتھامیٹکس کے شعبوں میں صورتحال مختلف ہے۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جب میں کالج میں تھی اس وقت لڑکیوں کی سائنس پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس وقت خواتین سائنس گریجویٹس کا تناسب 37 فیصد تھا جو اب کم ہو کر 18 فیصد پر آگیا ہے‘۔

    میلنڈا اب فلاحی کاموں کے ساتھ سائنس کے شعبوں میں صنفی برابری کے فروغ کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’ہمیں سائنس کی خواتین پروفیسرز کی بھی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں سائنس پڑھنے کی طرف راغب ہوں، سائنسی مباحثوں اور فیصلوں میں خواتین کی شمولیت بھی ازحد ضروری ہے‘۔

  • نوجوانوں کے نزدیک فیس بک قابل بھروسہ نہیں رہا، رپورٹ

    نوجوانوں کے نزدیک فیس بک قابل بھروسہ نہیں رہا، رپورٹ

    سانسس فرانسسکو: امریکی تحقیقاتی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد سماجی رابطے کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک سے اکتا گئی  جس کی وجہ سے وہ اب دیگر سوشل سائٹس استعمال کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں کی گئی حالیہ تحقیق میں حیران کُن انکشاف اُس وقت سامنے آیا کہ جب سوشل میڈیا استعمال کرنے کے حوالے سے اعداد و شمار کی رپورٹ مرتب کی گئی۔

    تحقیق میں انکشاف ہوا کہ سن 2015 کے مقابلے میں نوجوان فیس بک استعمال کرنے میں عدم دلچپسی ظاہر کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب اُن کی تعداد میں 20 فیصد نمایاں کمی واقع ہوئی۔

    نجی تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے جاری کردہ سروے رپورٹ کے مطابق تین سال کے تقابلی جائزے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ فیس بک پر نوجوان صارفین کی تعداد 71 فیصد سے کم ہوکر 51 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ سوشل میڈیا کی دیگر ایپس انسٹاگرام اور اسنیپ چیٹ کی مقبولیت میں بالترتیب 72 اور 69 فیصد اضافہ ہوا۔

    مزید پڑھیں: فیس بک اور واٹس ایپ کے استعمال پر ٹیکس عائد

    رپورٹ کے مطابق 12 سال سے 17 برس کی عمر کے صارفین جن میں لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں انہوں نے فیس بک کا استعمال ڈیٹا لیک ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر چھوڑا جبکہ یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھنے میں اُن کی دلچسپی خاصی حد تک بڑھ گئی۔

    تحقیقاتی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر نوجوانوں کی بڑی تعداد اتنی ہی تیزی کے ساتھ فیس بک کو خیرباد کہتی رہی تو ایک برس بعد سوشل میڈیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ کے 20 لاکھ سے زائد صارفین کم ہونے کا خدشہ ہے۔

    واضح رہے کہ تحقیقاتی رپورٹ صرف امریکا کے نوجوانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کی گئی ہے، ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے بعد فیس بک کو جن الزامات کا سامنا کرنا پڑا اور اُس کے بانی نے خود بھی صارفین کے ڈیٹا کے استعمال کا انکشاف کی اُس کے بعد لوگوں نے اس فارم پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: فیس بک نے ٹرینڈنگ فیچر ختم کرنے کا اعلان کردیا

    دوسری جانب حیران کُن طور پر ان دو سالوں کے درمیان یوٹیوب، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور ٹویٹر کے صارفین کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی بنیاد پر ماہرین کہتے ہیں کہ اب صارف فیس بک کے علاوہ دوسرے پلیٹ فارم کے استعمال کو فوقیت دیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اقوام متحدہ کا چار مسلم ممالک کے لیےنئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان

    اقوام متحدہ کا چار مسلم ممالک کے لیےنئے منصوبے شروع کرنے کا اعلان

    نیویارک : اقوام متحدہ نے براعظم افریقہ کے چار مسلم ممالک اردن، تیونس، مراکش، اور لیبیا کے نوجوانوں  کے لیے تعلیم، سانئس، ثقافت اور میڈیا میں معاونت کا منصوبہ شروع کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ نے بر اعظم افریقہ میں تعلیم، سانئس، ثقافت اور میڈیا پر کام کرنے والے نوجوانوں کی تربیت کا منصوبہ متعارف کروایا ہے۔

    اقوام متحدہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ولادی میر ورونکو کی یو این کی ثقافتی ایجنسی کے سربراہ اودرے زولے سے جمعرات کے روز پیرس میں ملاقات کے بعد مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

    اقوام متحدہ کے جاری اعلامیے میں ولادی میر ورنوکو کا کہنا ہے کہ  نوجوانوں کو بااختیار  بنانے کے بعد ہی اردن، لیبیا، موروکو اور تیونس میں تشدد اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ’نوجوانوں کے ساتھ مل کر مقامی سطح پر کام کرنے سے ہی تشدد اور انتہا پسندی کو روک کر عوام کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ منصوبے کے تحت ذمہ دار مرد و خواتین کو مدد فراہم کی جائے۔ جو انتہا پسندی، تشدد اور بد سلوکی کے خلاف آواز اٹھاتے ہوں۔

    ولادی میر ورنوکو نے نوجوان قیادت میں چلنے والے امن پروگرامز اور دنیا کو بہتر بنانے کے لیے ان کے آئیڈیاز کی قدر کرنے پر زور دیا۔

    اقوام متحدہ کے شعبہ تعلیم، سانئس اور ثقافت کے ڈائریکٹر ازولے کا کہنا تھا کہ ’اقوام متحدہ نوجوانوں کے ساتھ کام کرکے ہی امن کے مقاصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    منتہیٰ ڈورم میں ہاتھ میں کافی کا مگ لیے انتہائی دلچسپی سے سٹیفن ہاکنگ کے نئے کارنامے پڑھنے میں مصروف تھی جبکہ ساتھ والے بیڈ پر کیلی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔ کیلی ہاروورڈ سے انوائرمینٹل سائنسز میں پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ یہاں آنے سے پہلے وہ یونیورسٹی آف الاسکا میں اسسٹنٹ پروفیسر تھی۔۔ بنیادی طور پر وہ ایک گونگی عورت تھی۔۔ جسے شاذو نادر ہی مسکراتے دیکھا گیا تھا۔

    منتہی سے لاتعلق کیلی اپنا کام کرنے میں مصروف تھی کہ اس کا سیل تھرتھرایا ۔ دوسری طرف کی بات سن کر وہ لیپ ٹاپ سائڈ پر ڈال کر تیزی سے باہر لپکی۔۔ منتہیٰ نے کچھ خاص تردد کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔ اسے پتا تھا۔۔۔ جواب نہیں ملنا۔ کیلی جلدی میں لیپ ٹاپ اس طرح پھینک کر گئی تھی کہ اس کی سکرین منتہیٰ کی جانب تھی ۔۔اگرچہ یہ غیر اخلاقی تھا۔۔ مگر کبھی کبھی ہر بندے کو کچھ غیر اخلاقی کام کرنے ہی پڑتے ہیں ۔۔ سکرین پر جو فائل کھلی ہوئی تھی اُسے دیکھ کر منتہیٰ کے چودہ طبق روشن ہوئے۔۔ہارپ اینڈ الاسکا یونیورسٹی ۔۔جوائنٹ وینچر ۔۔ چند منٹوں میں وہ فائل منتہیٰ کی یو ایس بی میں کاپی ہوچکی تھیں ۔۔ جب پانچ منٹ بعد کیلی ہانپتی ہوئی واپس لوٹی ۔۔تو منتہیٰ اُسی طرح بیٹھی کافی کی چسکیاں لے رہی تھی۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    اگلے رو ز کیمبرج لائبریری کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھ کر منتہیٰ نے وہ فائل کھنگالی تھی ۔۔ اور پھر ہر آ تے دن کے ساتھ کیلی سے قریب ہونے کی اس کی کوششیں بڑھتی گئیں۔ بعض اوقات کسی کا اعتماد جیتنے کے لیے آپ کو ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور کیلی کے ساتھ الاسکا میں گزاری  گئی اس کی چھٹیاں یقیناًرائیگاں نہیں گئیں تھی۔

    **********

    ارمان فجر کی نماز کے بعد ۔ چائے کے دو کپ لے کر کمرے میں واپس آیا تو توقع کے عین مطابق منتہیٰ آتشدان کے پاس بیٹھی آگ سینک رہی تھی۔۔ ارمان نے ساتھ بیٹھ کر ایک کپ اسے تھمایا ۔۔ وہ ساری رات جاگا تھا ۔۔ اور منتہیٰ اسے جگا کر مزے سے سوتی رہی تھی۔۔ وہ عادی تھا ۔۔اس کی اِن عادتوں کا۔۔ وہ اب بھی ویسی ہی تھی۔

    دوسروں کو جگا کر ۔۔خوب سوئیں آپ ۔۔ارمان نے چائے کا گھونٹ بھرا
    میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ آپ ایک ہی شفٹ میں پزل حل کریں۔ سو جاتے آپ۔
    ارمان نے ہنس کر عادتاً اپنا بازو اُس کے کندھے پر پھیلایا ۔۔ مجھے صرف ایک سوال پوچھنا ہے۔۔ جواب دینا پسند کریں گی آپ۔۔؟؟
    نہیں ۔۔ میں نہیں رہتی تو پھر کس سے پوچھتے ۔ وہ پہلی جیسی بد لحاظ منتہیٰ بنی ہوئی تھی ۔۔ ارمان جانتا تھا وہ اُسے آزما رہی تھی
    تم نہ رہتیں ۔۔ تو اِس سے بڑے سوالیہ نشان میری زندگی میں در آتے ۔۔ میں خود کیسے جیتا ۔۔ وہ جذباتی ہوا۔
    جی لیتے ۔۔ منتہیٰ کی نظریں آتشدان کے لپکتے شعلوں پر تھیں۔
    تمہیں میری محبت پر شک ہے۔۔ ارمان نے سختی سے اُس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔۔
    نہیں ۔۔ مجھے آپ کی محبت پر فخر ہے ۔۔ اس نے ارمان کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ہر لفظ ٹہر ٹہر کر ادا کیا۔ ’محبت یہ نہیں ہوتی کہ آپ کسی کے نہ ملنے پر ۔یا ہمیشہ کے لیے کھو جانے پر دنیا تیاگ کر بیٹھ جائیں ۔ کیا ہوا کہ آپ کا دل ہی نہیں روح بھی زخمی ہے ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کی آنکھوں کے دیپ بجھ چکے ہیں ۔۔ کیا ہوا کہ آپ کے ہونٹ مسکرانے کو ترس گئے ہیں ۔۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں آپ سے بھی زیادہ دکھی ہیں ۔۔آپ اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ بہت سے دوسروں کا سہارا بن سکتے ہیں ۔۔ بہت سے بکھرے ہوؤں کو اپنی آغوش میں پناہ دے سکتے ہیں ۔۔ محبت کا اصل مفہوم انسان اُسی وقت سمجھتا ہے جب وہ اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر ۔۔اوروں کے لیے جینا شروع کرتا ہے ۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرا ارمان بھی میرے بغیر جی سکتا ہے‘ ۔۔

    ارمان اپنی جگہ ساکت تھا ۔۔ یہ لڑکی جو اَب اُس کی بیوی تھی ۔۔ گزشتہ سات سال سے اُس کے ساتھ تھی ۔۔ ہر دفعہ ۔۔ ہر نئے موڑ پر وہ اُسے زندگی کے نئے مفہوم سے آشنا کراتی تھی ۔۔ وہ آل راؤنڈر تھی ۔۔ ہر دفعہ جیت جاتی تھی ۔۔
    ارمان نے جھک کراُس کی فراخ پیشانی کو چوما ۔۔ لیکن اِس بوسے میں محبت کم تھی ۔۔ احترام تھا ۔۔ عقیدت تھی ۔۔
    پھر اس نے ساتھ دھرے ہوئے لکڑی کے باکس سے ۔۔ پلاٹینم رِنگ نکال کر منتہیٰ کی طرف بڑھائی۔۔ جس میں اوپر سات آٹھ آرٹیفیشل ڈائمنڈ لگے ہوئے تھے ۔۔ جن کے نیچے مائیکرو یو ایس بی ڈرائیو کی پن تھی۔۔
    اگر تم ایک سو بیس کا آئی کیو رکھتی ہو تو ایک سو اٹھارہ سے کم میں بھی نہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کے اس فلیش ڈرائیو میں کیا کچھ ہے لیکن تم نے کیلی سے روابط کیوں بڑھائے ۔۔ تم الاسکا کیا کچھ کرنے گئیں۔۔ میرے علم میں ہے ۔۔ ہارورڈ اور ایم آئی ٹی میں بھی دو چار ٹیکنیکل سیکرٹس پر تم نے ہاتھ ضرور صاف کیے ہوں گے ۔۔
    لیکن مجھے صرف ایک چیز پریشان کر رہی ہے ۔۔ ؟؟ وہ ایک لمحے کو رکا ۔۔
    وہ کیا ۔۔؟؟ منتہیٰ چونکی
    تمہارا یہ پیرا گلائیڈنگ کا حادثہ۔۔ منتہیٰ کو ارمان کی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی ۔۔ کانوں میں سیٹیاں سی گونجیں ۔۔
    تو اعتراف کا وقت ۔۔آ ہی گیا تھا ۔۔
    منتہیٰ۔ ارمان نے اُس کے جھکے چہرے کو تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر اوپر اٹھایا ۔۔
    کیا یہ حادثہ پہلے سے طے شدہ کوئی منصوبہ تھا ؟؟
    ہاں ۔۔ بہت دیر بعد ۔۔اُس کی آواز بمشکل نکل پائی ۔۔ حلق میں آنسوؤں کا گولا سا اٹکا تھا۔
    ارمان نے آنکھیں سختی سے بھینچ کر گہرا سانس لیا ۔۔ تو اس کے خدشات درست تھے
    اگر ایسا تھا اور تمہاری سرگرمیاں کسی کی نظر میں آچکی تھیں ۔۔تو انہوں نے تمہیں زندہ کیوں چھوڑا ۔۔ تمہیں پاکستان کیوں کر آنے دیا ۔۔ کیا تم اس کی کوئی قیمت ادا کر کے آئی ہو ۔۔؟؟ اس کی گہری کھوجتی آنکھیں منتہیٰ کے چہرے کو ٹٹول رہی تھیں۔
    ایسا کچھ نہیں ہوا ارمان ۔۔ منتہیٰ نے اسے سختی سے گھورا
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم نے ابھی کہا کہ یہ حادثہ پری پلانڈ تھا ۔۔پھر ۔۔؟؟
    ہاں یہ حادثہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا ۔۔ لیکن کسی اور کا نہیں ۔۔ ارمان کو اُس کا چہرہ ایک لمحے کو چٹخا ہوا لگا تھا ۔۔ یہ میرا اپنا پری پلانڈ تھا ۔۔ پیرا شوٹ میں وہ خرابی ۔۔ٹریننگ کے آخری مرحلے سے ایک رات قبل ،میں نے خود پیدا کی تھی۔
    اور ارمان کو لگا تھا کہ بہت زور کا زلزلہ آیا ہو ۔۔ دیواریں ، چھت ۔۔ ریسٹ ہاؤس کی ایک ایک چیز ۔۔اس پر گر رہی تھی ۔۔
    اور اس ملبے کے نیچے وہ فنا ہوتا جا رہا تھا ۔۔

    ***********

    رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ڈاکٹر یوسف اپنی سٹڈی میں دم بخود بیٹھے ۔اِس لڑکی کو سن رہے تھے جس کے بارے میں
    انہیں گمان تھا کہ وہ اسے دنیامیں سب سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ مگر نہیں، اس ویڈیو کو دیکھ کر انہیں لگا تھا ۔۔ منتہیٰ دستگیر سے ان کا اصل تعارف آج ہوا ہے۔۔
    گزشتہ روز ارمان کے ساتھ مری روانہ ہونے سے پہلے منتہیٰ انہیں ایک فلیش ڈرائیو دے کر گئی تھی ۔۔اور اب وہ اِسی ڈرائیو میں سیو ویڈیو دیکھ رہے تھے جو اُس نے سیلفی کیمرے سے شاید کچھ دن پہلے ہی بنائی تھی۔

    اسلام و علیکم پاپا۔ اس ویڈیو کے ساتھ کچھ فائلز منسلک ہیں جن کے متعلق آپ نے استفسار کیا تھا ۔۔ مجھے معلوم ہے کہ میری اِن تمام سرگرمیوں کا ادراک آپ اور ارمان سمیت میری ذ ات سے وابستہ بہت سے لوگوں کا تھا ۔۔ لیکن ایک بڑی حقیقت اب تک آپ سب کی نظر سے پوشیدہ ہے ۔۔ اور وہ میری زندگی کا یہ اندوہناک حادثہ ہے جو مجھے تحفے میں یہ مفلوج ٹانگ دے کر گیا ہے ۔۔لیکن مجھے کچھ افسوس نہیں ۔ کیونکہ زندگی کی ہمیشہ سے یہی ریت رہی ہے کہ ہار کے بعد جیت مقدر بنتی ہے۔

    دنیا بھر میں ایک معتبر ادارہ سمجھا جانے والا ناسا ۔۔ اندرونِ خانہ ایک گورکھ دھندہ ہے ۔۔دنیا نہیں جانتی کہ اربوں ، کھربوں ڈالرز چاند ، مریخ اور انٹر نیشنل سپیس سٹیشن کے جن مشنز پر جھونکے جارہے ہیں اُن میں سے کتنے انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں ۔۔ وہ تمام انسانی سرگرمیاں جو موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سبب بنی ہیں ۔۔ ناسا اُن سے کئی عشروں سے واقف ہے ۔۔وہ الینز تو ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔ مریخ پر پانی بھی تلاش کر ہے ہیں ۔۔ زحل کے لیے کیسینی جیسے مشن پر دو دہائیوں سے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ لیکن اس سیارۂ زمین کے استحکام کے لیے۔ ان کا کوئی خاص مشن اب تک سامنے نہیں آسکا۔
    میری بے پناہ صلاحیتیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔۔وہ میرے لیے ایک خاص مشن تشکیل دینے لگے تھے۔۔
    ڈاکٹر یوسف چونک کر سیدھے ہوئے۔۔ ’مجھے پیگی وٹسن کے بعد انٹرنیشنل سپیس سٹیشن میں ایک طویل عرصہ گزارنا تھا اور ناسا کے ایسٹرو بائیو لوجسٹ میرے ذریعے خلا میں پریگ نینسی ٹیسٹ کا ارادہ رکھتے تھے ۔۔ اگر میں شرعی شادی پر بضد رہتی تو میرے ساتھ ارمان کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ ان کے کسی بھی ایسے مشن کا حصہ بننے کے بعد میری ہی نہیں ارمان کی حیثیت بھی ایک ناکارہ پرزے کی ہوتی۔ یا ایک ایسا آلہ جس پر وہ دل کھول کر تجربات کر سکیں۔۔
    دو چار مشنز کے بعد جن کا مقدر سی آئی اے کے ہاتھوں کسی اندھیری سڑک ۔۔کسی گمنام ہوٹل میں خاموش موت ہوتا ۔۔ یا پھر عمر قید ۔۔ ہمیں ساری عمر اُن کی نگرانی میں کاٹنی پڑتی ۔۔ اور اپنے ہم وطنوں کے لیے جو کچھ کرنے کا عزم ہم دونوں رکھتے تھے جس کے لیے ارمان ییل یونیورسٹی میں بھی دن رات ایک کیے ہوئے تھے ۔۔ہمارے وہ خواب ادھورے رہ جاتے ۔

    زندگی کی بساط پر شہہ ہے یا مات ۔۔سو میں نے بھی ایک داؤ کھیلا تھا ۔۔ اگر میرے اللہ کو مجھ سے انسانیت کی فلاح کے لیے کچھ کروانا منظور ہے ۔۔ تو وہ مجھے کسی بھی طرح بچا لے گا ۔۔جس طرح اس نے ارمان کو بچایا تھا ۔۔ یہ حادثہ میرا اپنا منصوبہ تھا کیونکہ ناسا کا آلہ کار بننا میری انا کو قبول نہ تھا ۔۔اور فرار کے سب راستے مسدود ہو چکے تھے۔۔

    پاپا۔۔ میری یہ اعلیٰ صلاحیتیں ۔۔ یہ غیر معمولی ذہانت ۔۔ میرا پاس میرے خدا کی ا مانت ہیں۔۔ جن کے لیے میں اپنے رب کو جواب دہ ہوں کہ میں نے اس کی ان بے پایاں نوازشات کہاں اور کس مقصد کے لیئے استعمال کیا ۔۔؟؟ میرے وطن ہی نہیں دنیا بھر میں غربت، افلاس ، امراض اور آفات سے سسکتے بلکتے لوگوں کے لیئے میں کیا کچھ کر سکی ۔۔؟؟
    میں ایک عام لڑکی نہیں تھی ۔۔ میں منتہیٰ دستگیر تھی ۔۔ اگر ناسا مجھے ڈسکور کرسکتا تھا ۔۔ تو میں خود کیوں نہیں۔۔

    ڈاکٹر یوسف سانس روکے ۔۔ سب سنتے رہے ۔۔ یہ لڑکی جو کبھی ان کی شاگرد رہی تھی ۔۔آج انہیں وفا ،ایثار اور حب الوطنی کا ایک انوکھادرس دے گئی تھی۔۔۔

    ایک ایسی ہی ویڈیو چند روز قبل ڈاکٹر عبدالحق کو بھی ملی تھی ۔۔ اور اب وہ بے چینی کے ساتھ اِس دھان پان سی لڑکی کی اسلام آباد آمد کے منتظر تھے جو پاکستان کا سرمایۂ افتخار تھی ۔۔ جو آج کی یوتھ کا ایک انمول ستارہ تھی ۔۔

    دنیا بھر میں پاکستانی نوجوان ایم آئی ٹی سے ورلڈ بینک تک اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوا رہے ہیں ۔لیکن باہر کی چمک دمک نے انہیں اپنے مٹی کی مہک ہی نہیں ۔۔وہ قرض بھی بھلا دیا ہے جو اُن پر تا عمر واجب ہے ۔ وہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیز اور نامور اداروں میں جو کچھ بھی ہیں اِس وطنِ عزیز کی وجہ سے ہیں ۔۔ مگر صد حیف کے آج کی اس نوجوان نسل نے تو ماں باپ کی ان قبروں کو بھی یکسر فراموش کر دیا ہے ۔جو انکی راہ تکتیں ہیں۔ کہ کسی عید ، کسی بقر عید ، کسی شبِ برات پر۔۔کوئی اُن پر بھی فاتحہ کے دو بول پڑھنے کو لوٹے گا’۔

    ***********

    ’میری پیدائش سے قبل میری ماں اپنے ماڈلنگ کیریئر کے عروج پر تھی ۔۔اگر اُسے ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ میری پیدائش کے بعد اُس کا جسم جس کی نمائش کر کے اسے پیسا ملا کرتا تھا دوسروں کے لیے وقعت کھو دیگا ۔۔ تو وہ مجھے اِس دنیا میں ہر گز نہ آنے دیتی‘۔ کیلی کی مضطرب انگلیوں میں جلتا ہوا سگریٹ ختم ہونے کو تھا ۔۔

    وہ آئی وی یارڈ کے باہر کشادہ لان میں بیٹھی تھیں ۔۔ اور ہلکی بوند اباندی ہو رہی تھی ۔۔ میری ماں نے مجھے ابتدا سے ہی نظر انداز کیا۔جیسے ہی اس کا ماڈلنگ کیرئیر ڈوبا وہ خود کو ڈرگز اور الکوحل کے نشے میں غرق کرتی چلی گئی ۔۔ یو نو۔ مینا کہ یہاں امریکہ اور یورپ میں مجھ سمیت ہر تیسرا شخص اس فرسٹریشن کا شکار ہے کہ جب اُسے ماں باپ ہی پیار نہیں دے سکے ۔ تو کوئی اور کس طرح اس سے سچا پیار کر سکتا ہے ۔یہ خوف اب مجھے کسی سے گھلنے ملنے نہیں دیتا۔ کیلی نے کسی احساس کے زیرِ اثر نفرت
    سے ادھ بجھا سگریٹ دور اچھالا۔

    منتہیٰ کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ہم مسلمان اور ایشیائی بندوں کی اکثریت کو آنکھ کھولتے ہی ماں کی آغوش میسر آتی ہے باپ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے ۔۔ جہاں والدین جوانی تک اولاد کے لیے گھنی چھاؤں ہوتے ہیں ۔۔مگر ہم اِن مہربان رشتوں کی قدر نہیں کرتے ۔۔ اِن کی اصل قدر کیلی جیسے بے انتہا ذہین اور با صلاحیت لوگوں کے ہاں تھی جو زندگی کے ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر بھی ۔۔ماں باپ کی اولین توجہ اور پیار کو ترستے تھے۔ جہاں سچے پیار کو بہت عرصے پہلے دیس نکالا مل چکا تھا ۔۔

    منتہیٰ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ۔۔کیلی تک آئی جو ہاتھ میں بلیک کافی کا مگ لیئے ایک درخت سے ٹیک لگائے۔ کہیں کسی
    دوسرے جہان میں گُم تھی ۔اس نے آہستہ سے کیلی کا ہاتھ تھاما ۔۔ میں نہیں جانتی کہ تمہیں سچا پیار ۔ کب اور کہاں ملے گا ؟؟
    لیکن میں ایک ایسی جگہ سے واقف ہوں جہاں تمہاری اِس بے چین روح کو سکون ضرور مل جا ئیگا ۔۔
    so tell me where is that meena..??
    کیلی نے تیزی سے اُس کی طرف رخ موڑا ۔
    یہ سکون تمہیں ۔۔میرے پیارے مذہب اِسلام اور سوہنے رب کی کتاب قرآن پاک میں ملے گا۔۔ جس میں ہر مضطرب دل اور بے چین روح کے لیے ابدی سکون ہے ۔۔ میں تمہاری ہر طرح کی مدد اور راہنمائی کے لیے ہمیشہ حاضر ہوں ۔۔ منتہیٰ نے ہاتھ بڑھا کر اُسے گلے لگایا ۔۔ یہ ہارورڈ چھوڑنے سے پہلے اُنکی آخری ملاقات تھی ۔

    ***********

    I am speechless my child .. you are our true asset.. dnt worry every
    wound you suffered.. will be soon heal …!!
    وہ ارمان کے ساتھ ڈاکٹر عبدالحق کی سٹڈی میں تھی ۔۔ جنھوں نے اُسے پورا ٹری بیوٹ دیا تھا ۔
    تھینک یو سر ۔۔ ہم اور سیو دی ارتھ آج جہاں کہیں بھی ہیں ۔۔آپ کی وجہ سے ہیں۔۔ اور میں چاہوں گی کے سپارکو کی طرح پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا پلیٹ فارم بھی آج کی یوتھ کو میسرہو۔۔
    ارمان نے چونک کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ وہ پچھلے روز سے مسلسل گُم صُم تھا ۔۔
    منتہیٰ فی الحال یہ ممکن نہیں ہو سکے گا ۔۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں ابھی پسِ منظر میں رہتے ہوئے اِن ٹیکنالوجیز پر کام کریں جن سے بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں کا کسی حد تک سدِ باب کیا جاسکے ۔ ڈاکٹر عبدالحق ایک جہاندیدہ سائنسدان تھے ۔ وہ ایک ساتھ بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے ۔۔
    ایگزیکٹلی سر ۔۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں کسی ایسی موزوں جگہ کی ضرورت ہے جہاں ہماری سرگرمیاں۔۔ امریکی سیٹیلائٹس سے پوشیدہ رہ سکیں ۔۔
    ہوں ۔۔ انہوں نے ہنکارا بھرا ۔۔ کوئی ایسی جگہ ہے تمہاری نظر میں ۔۔؟؟
    سر بلوچستان میں چاغی کے پہاڑی سلسلے ایک بہترین جگہ تھے ۔۔ لیکن وہاں سٹیلائٹس مانیٹرنگ کا خطرہ بھی زیادہ ہے ۔۔ میں نے کچھ علاقوں کی نشاندہی کی ہے ۔ اُس نے اپنے ساتھ لایا ہوا پاکستان کا نقشہ پھیلایا ۔
    اُن کی دو ڈھائی گھنٹے کی میٹنگ میں ارمان صرف دو چار دفعہ ہی بولا تھا ۔۔ اور اب واپسی کے سفر پر بھی وہ خاموش تھا
    منتہیٰ نے ایک ترچھی نظر اُس پر ڈالی ۔۔ یہ چپ کا روزہ کب افطار کرنا ہے ۔۔؟؟
    تم نے کچھ بولنے کے قابل کب چھوڑا ہے ۔۔ وہ بدستور ونڈ سکرین کے پار دیکھتا رہا
    ویل۔۔ اب ساری عمر کیا یونہی چپ رہنا ہے ۔۔؟؟
    جی ۔۔ بالکل ۔۔ دل کرتا ہے کہ آپ بولتی رہیں ۔۔ میں سنتا رہوں ۔۔ وہ جذباتی ہوا
    جی ۔۔ سال ، دو سال بعد آپ فرمائیں گے ۔۔اُف کتنا بولتی ہو تم ۔۔ ہونہہ
    اگر ایسا نہ ہوا تو ۔۔؟؟ ارمان نے ہنستے ہوئے اُسکا ہاتھ تھاما
    تو پھر آپ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنے کے قوی امکانات ہیں۔ برسوں تک لگاتار بیوی کو سنتے رہنے کا عالمی ریکارڈ ۔
    ارمان کا زندگی سے بھرپور اونچا قہقہہ گونجا ۔۔۔ وہ ایک نیا دور شروع کرنے جا رہے تھے ۔۔ جو پہلے سے زیادہ پُرخطر بھی تھا اور سنگین بھی ۔۔۔ لیکن انہیں یہ جوا بھی ہر حال میں کھیلنا تھا ۔۔ ’ہم غازی رہیں گے یا شہید ۔۔ لیکن ہم میدان چھوڑ کر ہر گز نہیں بھاگیں گے‘ ۔۔

    جاری ہے

    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    سلور کام والا وائٹ شرارہ اور موتیوں کے زیورات ۔۔ منتہیٰ کسی ریاست کی راج کماری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔ سارا وقت وہ سٹیج پر رشتے داروں اور دوستوں میں گھری اکیلی ہی بیٹھی رہی ۔۔ ارمان کے مہمان بہت تھے وہ صرف ایک دفعہ اپنے ییل یونیورسٹی کے ساتھی انجینئرز کو منتہیٰ سے ملوانے سٹیج پر آیا تھا ۔۔بلیک سوٹ ہمیشہ سے ہی اُس پر بہت ججتا تھا ۔۔ پر آج اس کی سج دھج ہی نرالی تھی ۔
    رات گھر پہنچ کر وہ منتہیٰ کو سہارا دے کر اندر کمرے تک لایا تھا ۔۔ اتنا بھاری شرارہ سوٹ اور پھر اس کی لرزتی بائیں ٹانگ۔۔وہ کہیں گر ہی پڑتی ۔
    میرا خیال ہے کہ ممی کو آپ کے لیے اِس بھاری شرارے کے بجائے خلا بازی کا لباس بنوانا چاہئے تھا ۔۔ تاکہ آپ آرام دہ
    محسوس کرتیں۔۔ ارمان نے اس کی کوفت دیکھ کر چھیڑا ۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    منتہیٰ برا سا منہ بنا کر دھپ سے بیڈ پر بیٹھی ۔۔ بہت سا درد دانتوں تلے دبایا ۔۔ اُس کی بائیں ٹانگ بری طرح دُکھ رہی تھی ۔
    ارمان نے اُس کے ساتھ اپنی کچھ سیلفیز بنائیں۔۔ تو منتہیٰ مزیدکوفت سے پیچھے ہٹی ۔
    یار۔۔ اپنے لیے بنا رہا ہوں ۔۔ آخر اتنے سارے دن مجھے اب اپنی وائف کے بغیر جو رہنا ہے ۔
    کیا مطلب ۔۔ منتہیٰ نے تیزی سے رخ اس کی طرف پھیرا ۔۔بایاں پاؤں مڑا ۔
    منتہیٰ مجھے کل شام مائیکل، سٹیون اور ان کی ٹیم کے ساتھ ۔۔تھر کے لیئے روانہ ہونا ہے ۔۔ارمان نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی۔
    کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا ۔۔ وہ یقیناً اَپ سیٹ تھا ۔
    اور منتہیٰ کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ ٹیسیں بائیں پاؤں سے اٹھی ہیں یا دل ۔۔سے ۔۔
    کتنے دن کے لیے جانا ہے ۔۔؟؟ بمشکل حلق سے آواز نکلی
    شاید ایک ماہ ۔۔ یا اُس سے کچھ کم ۔۔ ابھی کہہ نہیں سکتا ۔۔ارمان نے بیڈ پر پاؤں پھیلا کر پیچھے ٹیک لگایا ۔۔پھر اپنی جگہ گُم صُم
    بیٹھی منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ ناراض ہو ۔۔؟؟
    منتہیٰ نے صرف نفی میں سر ہلایا ۔۔ بہت سے آنسوؤں پر بند باندھ کر خود کو نارمل کیا ۔
    ارمان نے اُس کے ہاتھ تھا مے ۔۔ آئی نو کہ یہ بہت تکلیف دہ ہے ۔۔ مگر مجبوری ہے ، ہماری شادی کچھ اتنی جلدی میں ہوئی۔
    یہ سب تو کافی عرصے سے طے تھا ۔
    اِٹس اُوکے ۔۔خود کو سنبھال کر اُس نے ہاتھ چھڑایا ۔اور اٹھی ۔۔ بھاری کپڑے اور زیورات اُسے عذاب لگ رہے تھے۔
    دو قدم چل کر ہی شرارے میں پھنس کر گری۔۔ بائیں ٹانگ بری طرح مڑی تھی ۔۔ وہ درد سے بلبلائی ۔۔بہت سارے رکے
    ہوئے آنسوؤں نے ایک ساتھ باہر کا راستہ دیکھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے اٹھ کر اُسے سنبھالا ۔۔
    اور ارمان کے سینے سے لگی ۔۔وہ روتے روتے کب سو گئی ۔۔اُسے کچھ خبر نہیں تھی۔

    *********

    منتہیٰ نے کھڑکی کا پردہ سرکایا ۔۔ رات کی بارش کے بعد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی کئی ماہ کی دھند چھٹی تھی ۔۔اور بہت نکھرا
    اجالا پھیلا ہوا تھا۔
    ڈاکٹر یوسف اور مر یم لان میں چیئرز ڈالے دھوپ سینکنے میں مصروف تھے اور ارمان کل شام ہی جاچکا تھا ۔منتہیٰ چھوٹے چھوٹے
    قدم دھرتی لاؤنج عبور کر کے لان تک آئی۔
    آؤ بیٹا ۔۔ بیٹھو۔۔ اُسے آتے دیکھ کر وہ دونوں خوش ہوئے ۔۔ ڈاکٹر یوسف نے اپنے ساتھ والی چیئر کی طرف اشارہ کیا
    کیسی نیند آئی بیٹے ۔۔طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔۔؟؟ مریم ارمان کے یوں چلے جانے پر خاصی خفا تھیں ۔۔ لیکن۔
    ممی میں ٹھیک ہوں ۔۔ڈونٹ وری ۔۔۔منتہیٰ نے سامنے ٹیبل پڑا اخبار اٹھایا ۔۔ وہی سیاستدانوں کے کارنامے ، دہشت گردی اور لوٹ مار کی خبریں ۔
    اچھا میں تمہارے لیے ناشتہ یہیں بھجواتی ہوں ۔۔ اُس کے منع کرنے کے باوجود مریم اندر جا چکی تھیں ۔
    منتہیٰ نے اپنی بائیں ٹانگ سیدھی کر کے پھیلائی ۔۔ دھوپ پڑتے ہی سنسناہٹ جاگی تھی ۔۔ درد۔ رات سے کچھ کم تھا۔
    اس پاؤں کی کنڈیشن کیا ہے بیٹے ۔۔؟؟ ڈاکٹر یوسف کا دھیان بھی اِدھر ہی تھا۔
    پاپا۔۔ تھوڑی ریکوری ہے ۔۔ ٹائم تو لگے گا ۔۔اُس نے گول مول جواب دیا ۔۔ پتا نہیں ارمان نے انہیں کتنا بتایا تھا
    ہم۔۔ ڈاکٹر ہوسف نے ہنکارا بھرا ۔۔’’ یعنی بیٹا اور بہو میں پکی دوستی ہو چکی ہے‘‘ ۔۔ وہ مسکرائے ۔
    ایک بات پو چھوں منتہیٰ۔۔؟؟
    جی پاپا ۔۔ ضرور ۔۔اجازت کی ضرورت ہی نہیں ۔
    تم ہارورڈ ۔ ایم آئی ٹی اور الاسکا یونیورسٹی میں بہت کچھ کرتی رہی تھیں ۔۔ وہ سب کچھ گنوا آئی ہو۔۔یاتمہارےمنصوبےاور ترجیحات اب بدل گئی ہیں ۔۔؟؟ انکی گہری کھوجتی نظریں اُس کے چہرے پر تھی۔۔
    نہیں پاپا ۔۔ نہ میں بدلی ہوں نہ میرے منصوبے ۔۔
    شئیر کرنا پسند کرو گی ۔۔؟
    منتہیٰ نے چونک کر اپنے باپ جیسے عزیز استاد کو دیکھا ۔۔ آنکھوں میں کرچیاں سے اُتریں ۔۔اُسی وقت ملازمہ ناشتے کی ٹرے لے کر نمودار ہوئی ۔۔ چلو تم ناشتہ کرو ۔۔ ڈاکٹر یوسف شفقت سے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُٹھے۔۔ انہیں یقین تھا ۔۔ منتہیٰ اب کبھی انہیں مایوس نہیں کریگی ۔
    دو روز بعد وہ امی کی طرف گئی تو دادی ارمان پر بہت برہم تھیں ۔’’یہ کوئی طریقہ ہے کہ ولیمے کے اگلے روز اپنی دلہن کو چھوڑ کر چلاگیا
    ارے دادی ۔۔ باہر سے انجینئرز کی ٹیم آئی ہوئی تھی نہ ۔۔ آجائیں گے کچھ دن میں ۔۔ بہت سا درد اندر دبا کر دادی کے گلے
    میں بانہیں ڈال کر وہ مسکرائی۔
    اور یہ تم کیوں سادہ جھاڑ منہ لیے پھر رہی ہو۔۔؟؟ یہ سونی کلا ئیاں، کاٹن کا سوٹ ۔۔ارمان کو چھوڑکر ۔اب اُن کی توپوں کا
    رُخ منتہیٰ کی طرف تھا ۔
    ’’دادی نہیں پہنا جاتا مجھ سے یہ سب‘‘ ۔۔ہونہہ۔۔اُسے کوفت ہوئی
    اے لو ۔۔لڑکی پہلے کی بات اور تھی ۔۔اب ماشاء االلہ تم بیاہتا ہو ، خبردار جو اگلی دفعہ تم میرے سامنے اِس طرح آئیں ۔
    عاصمہ ۔۔او عاصمہ ۔۔انہوں نے آوازیں لگائیں ۔۔ اور پھر انہوں نے اُسے سب کچھ پہنا کر دم لیا ۔
    منتہیٰ نے آئینے میں خود کو دیکھا ۔۔ سی گرین ہلکے کام والا سوٹ ۔۔ کانوں میں ٹاپس اور اور ڈھیر ساری چوڑیاں ۔۔ آئینے میں کسی کا عکس ۔۔ کسی کی پُر اشتیاق نگاہیں اُبھریں ۔ اُس نے سر جھٹکا ۔۔ اور کچن میں امی کے پاس آ گئی ۔
    اب اُسے کسی کے لیئے تھوڑی کوکنگ بھی سیکھنا تھی۔۔امی کے منع کرنے با وجود اُس نے زندگی میں پہلی دفعہ کھانا خود بنایا ۔
    ارمان چائنیز شوق سے کھاتا تھا ۔۔وہ ممی سے تھوڑی سن گن لے چکی تھی ۔
    کھانے سے فارغ ہوکر وہ اپنے روم میں سب بلاؤں سے نجات کا سوچ ہی رہی تھی کہ سکائپ پر ارمان کی کال آئی۔
    اُس نے جھٹ لیپ ٹاپ آن کیا ۔۔ دو دن بعد یاد آئی تھی جناب کو ۔
    سوری منتہیٰ یار ۔میں رابطہ نہیں کر سکا ۔۔ایکچولی ریموٹ ایریا سے دور سگنل پرابلم تھی ۔۔ارمان نے فوراً ایکسکیوز کی۔
    اِٹس اوکے ۔۔۔ میں بھی بزی تھی ۔۔ منتہیٰ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    اچھا واقعی۔۔کہاں بزی تھیں آپ ۔۔؟؟ ارمان نے ہنس کر پیچھے چیئر کی پشت سے سر ٹکایا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    بہت سے کام ہوتے ہیں مجھے ۔۔ میں آپ کی طرح فارغ نہیں ہوتی ۔
    وقت نے چال بدل لی تھی ۔ اُن کے مدار الٹ گئے تھے ۔۔ ایک دور تھا جب منتہیٰ کے پاس خود اپنے لیے بھی ٹائم نہیں تھا ۔
    جی بالکل ۔۔ ویسے یہ آپ کہیں جا رہی تھیں کیا ۔۔؟؟ ارمان نے اس کی سج دھج نوٹ کی
    نہیں تو اِس وقت میں نے کہاں جانا ہے ۔۔؟؟
    تو پھر یہ تیاریاں ۔۔ اُس نے شرارت سے تیاریاں کو خوب کھینچ کر لمبا کیا ۔۔ یہ سب تو مجھے دادی نے بہت ڈانٹ ڈپٹ کر
    پہنایا ہے ۔۔ منتہیٰ نے کوفت سے منہ بنایا ۔
    اچھا ۔۔ ویسے آپ اتنی فرمانبردار پوتی تھیں تو نہیں ۔۔ارمان نے چھیڑا
    اب بن گئی ہوں۔۔ ٹھوکریں کھا کر ۔۔ زخمی مسکراہٹ کے ساتھ جواب آیا
    اوہ کم آن ۔۔منتہیٰ ۔۔ زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے ۔۔ دنیا میں آج تک کوئی ایسا کامیاب انسان نہیں گزرا جس نے و قت یا زمانے کے ہاتھوں ٹھوکریں نا کھائی ہوں ۔
    منتہیٰ جھکی نگاہوں کے ساتھ انگلی میں پہنا رنگ گھماتی رہی ۔۔جوارمان نے اُسے شادی کی رات پہنایا تھا ۔
    اچھا جب میں آؤں گا تب بھی پہنو گی نہ یہ سب ۔۔۔ ارمان نے اس کا موڈ بدلنے کی سعی کی ۔
    سوچوں گی ۔
    واٹ۔۔؟؟ کیا سوچو گی ۔۔ وہ حیران ہوا
    یہی کہ یہ سب پہنوں یا نہیں ۔۔ کیونکہ ۔۔ وہ ایک لمحے کو رکی۔
    کیونکہ میں اچھی بیٹی اور پوتی تو بن گئی ہوں ۔۔ لیکن۔۔
    لیکن کیا ۔۔ وہ بے صبرا ہوا ۔۔
    لیکن ۔۔ میرا ابھی فرمانبردار بیوی بننے کا کوئی خاص ارادہ نہیں ۔ شرارت سے کہہ کر اُس نے سکائپ آف کرکے لیپ ٹاپ
    کی سکرین فولڈ کی۔۔ ارمان اُسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا ۔
    اگلے روز صبح اُس نے میسا چوسسٹس سے ساتھ لایا ہوا سامان سٹور سے نکالا ۔۔ جو اَب تک یونہی پڑا تھا ۔۔ اسے وقت ہی نہیں
    ملا تھا ۔۔وہ سامان الگ کرتی گئی ۔۔ کچھ ساتھ گھر لیکر جانا تھا ۔۔ اس میں لکڑی کے نفیس نقش و نگار والا وہ باکس بھی تھا ۔۔ جو
    جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے ۔۔اُس نے نینسی کے پاس اما نت رکھوایا تھا ۔۔ اسے نینسی یاد آئی ۔۔ ۔ جسے ارمان نے
    خاص طور پر شادی پر انوائٹ کیا تھا ۔۔ کتنے گُھنے تھے یہ سب ۔
    اب اسے جلدی جلدی کچھ اور اہم کام نمٹانے تھے ۔۔ وہ کمرا بند کر کے شام تک لگی رہی۔۔ پھر تھک کر سو گئی ۔
    وقت آگیا تھا ۔۔ ۔ پنڈورابکس جلد کھلنے والا تھا ۔

    ***********

    فروری کے اوائل کے باوجود تھر میں دن کا درجۂ حرارت اُن سب کے لیے نا قابلِ برداشت تھا ۔۔ ارمان اگرچہ لاہور کی شدید
    گرمی کا عادی تھا ۔۔ پھر بھی یہاں اُس کے دماغ کی دہی بنی ہوئی تھی ۔۔ جبکہ مائیکل اور اس کی ٹیم کا پہلی دفعہ اس قدر شدید موسم
    سے واسطہ پڑا تھا ۔۔اِس کے باوجود وہ سب ہی اس صحرا کو گل و گلزار کرنے اور اور یہاں کے مکینوں کی انتظار سے پتھرائی آنکھوں
    میں امید کے نئے دیپ روشن کرنے کے لیے پوری طرح سرگرم بھی تھے اور پُر عزم بھی ۔
    ارمان لنچ کے بعد ٹھنڈی چھا چھ کا پورا جگ چڑھا کر سستانے کو لیٹا ہی تھا کہ سیل تھرتھرایا
    ہیلو شہری ۔۔ کیا حال ہے یار ؟؟ شدید مصروفیت کے باعث اس کا کئی روز سے کسی سے بھی رابطہ نہیں تھا
    ٹھیک ٹھاک ۔۔ تو سنا ۔۔ زندہ ہے ؟؟۔
    بس یار جی رہا ہوں ۔۔ ارمان نے ٹھنڈی آہیں بھریں ۔۔ صحرا کی گرمی آج تک صرف سنی ہی تھی ۔۔ پہلی دفعہ پتا لگا کہ صحرا
    میں سفر کیا چیز ہوتا ہے ۔
    ہاں۔۔ اور وہ بھی جب بندہ اپنا دلِ بے قرار کہیں اور بھول آیاہو ۔قسم سے پورا صحرائی اونٹ لگ رہا ہے تو ۔ شہری نے پھبتی کسی ۔
    اڑالے مذاق بیٹا ۔۔ ہونہہ ۔۔ اچھا یہ بتا۔ زید کیسا ہے۔۔؟؟ شہریار کے ڈیڑھ سالہ بیٹے میں ارمان کی جان تھی
    ٹھیک ہے ۔۔کل لے کر گیا تھا ۔اُسے بھابی کے پاس ۔آنٹی پسند آگئی ہے اُسے ۔۔ اب تیری چھٹی ۔۔ وہ ہنسا
    وہ ہے ہی ایسی جادوگرنی ۔۔ ارمان کی آنکھوں کے سامنے اُس پری وش کا سراپا لہرایا ۔
    ہم مم۔۔ خیر تیری جادوگرنی کا کام کر آیا ہوں میں ۔۔
    کام۔۔؟؟ کیسا کام ۔۔؟؟ ارمان الرٹ ہوا ۔
    اوہ تجھے نہیں بتایا بھابھی نے ۔۔ انہوں نے خود بلایا تھا ۔۔ ایک پیکٹ دیا تھا کہ یہ کانفیڈینشل ہے۔۔ اسے بہت احتیاط سےڈاکٹر عبدالحق کو اسلام آباد پہنچانا ہے ۔۔ میں ابھی وہی نمٹا کر آیا ہوں ۔۔ شہریار نے پوری بات بتائی
    ڈاکٹر عبدالحق ۔۔ارمان چونک کر سیدھا ہوا
    تو منتہیٰ بی بی فارم میں واپس لوٹنے کو ہیں ۔۔۔’’ ویلکم بیک مسز ارمان ‘‘۔

    ***********

    ارمان کو گئے تیسرا ہفتہ تھا ۔۔ وہ پاپا کے ساتھ اسپتال سے پاؤں کی تھراپی کروا کے لوٹی تھی ۔ درد کچھ اور بڑھ گیا تھا ۔۔اوراحساسِ تنہائی بھی ۔۔ رات دو بجے کا وقت تھا ۔۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔۔تبھی اچانک باہر کچھ کھٹکا سنائی دیا ۔پھرکھڑکی کے پاس سے سایہ گزرا ۔۔ منتہیٰ کو الرٹ ہونے میں سیکنڈ لگے تھے ۔۔ وہ تیزی سے بستر سے نکلی ۔۔ باہر جو کوئی بھی تھا وہ اب اندر آچکا تھا ۔۔ ڈورلاک میں چابی گھمانے کی آواز آئی ۔۔ تب تک منتہیٰ بھاری گلدان ہاتھ میں لیے دروازے کےپیچھے پہنچ چکی تھی ۔۔آنے والا ناب گھما کر احتیاط سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا ۔
    ون،ٹو۔۔تھری ۔۔منتہیٰ نے پوری طاقت سے گلدان کا بھرپور وار کیا ۔۔ مگر آنے والا الرٹ تھا ۔۔جھکائی دے گیا۔
    منتہیٰ گلدان سمیت لڑھکی ۔۔ پاؤں کادرد کچھ اور سِوا ہوا ۔پھر آنے والے نے اُسے اپنے بازوؤں میں سنبھالا ۔۔ وہ ارمان تھا
    اُس کا لمس وہ اب پہچاننے لگی تھی ۔
    اٹھیے میڈم ہلاکو خانم ! پتا تھا مجھے کہ وائف ہماری کتنی بہادر اور الرٹ ہیں ۔۔ارمان نے اسے سہارا دے کر بیڈ پر بٹھایا ۔
    یہ کوئی طریقہ ہے چوروں کی طرح اپنے گھر آنے کا ۔۔منتہیٰ کا چہرہ شدتِ درد سے لال ہو رہا تھا
    لیجئے جناب ۔۔ایک تو آپ سب کی نیند کا خیال کیا ۔۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ۔۔ارمان نے افسوس سے سر ہلایا
    تو آپ بتا نہیں سکتے تھے کہ آپ آرہے ہیں ۔۔ابھی جو گلدان آپ کو لگ جاتا ۔۔اپنا درد بھول کر اسے فکر ستائی۔
    تو پتا ہے کیا ہوتا ۔۔ارمان نے ڈرامائی انداز میں کارپٹ پر پڑاگلدان اٹھایا۔
    ’’یہ مجھ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ۔۔ تجربہ کر کے دیکھ سکتی ہیں آپ ۔۔ارمان نے منتہیٰ کو آفر کی جو بگڑے تیوروں کے ساتھ اسے گھور رہی تھی۔ پھر وہ واش روم کی طرف جاتے ہوئے چونک کر پلٹا۔
    اُوہ میں تمہیں ایک بہت ضروری بات تو بتانا بھول ہی گیا ۔
    کیا۔۔؟؟ سب خیریت ہے نہ ۔۔ پراجیکٹ میں تو کوئی مسئلہ نہیں ۔۔ منتہیٰ اُس کے اس طرح واپس آنے پر ویسے ہی چونکی تھی
    ارمان نے سر کو پیچھے جھٹکا دے کر ایک لمحے کو آنکھیں زور سے بھینچی۔۔ یہ بیویاں بھی نہ ۔
    پھر منتہیٰ کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اُس کے ہاتھ تھامے ۔ ’’مجھے یہ بتانا تھا کہ میں نے اِن تین ہفتوں میں تمہیں بے انتہامس
    کیا ۔۔بے انتہا ۔
    بعض اوقات محبت کے اظہار کے لیے الفاظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ۔۔محبت تو یہی ہے کہ بن کہے محسوس کی جائے ۔۔
    کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ۔۔ لفظوں میں ڈھل کر جذبے اپنی وقعت کھو دیتے ہیں ۔ اُس نے جھک کر منتہیٰ کی پیشانی چومی اور واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔
    صبح وہ ممی پاپا سے مل کر دوبارہ سو گیا ۔۔ کسی نے اُسے ڈسٹرب نہیں کیا ۔۔وہ خاصہ تھکا ہوا لگ رہا تھا
    دوپہر کے وقت آہٹ سے ارمان کی آنکھ کھلی ۔۔ُ اس نے کمبل سے منہ نکال کر دیکھا ۔۔منتہیٰ اس کا سفری بیگ کھول کر ۔اِس میں
    کپڑے نکال رہی تھی ۔۔ وہ یک ٹک اُسے دیکھے گیا ۔۔’’ آئرن لیڈی کا گرہستن پارٹ‘‘۔
    پھر کچھ سوچتے ہوئے ایک دم سے اٹھا ۔۔ارے ۔ارے یہ کیا کر رہی ہو ۔۔؟؟
    کیوں۔۔کیا ہوا ۔۔؟؟ کپڑے ہی تو نکال رہی ہوں۔۔ منتہیٰ نے حیرت سے اسے دیکھا
    یار مت نکالو ۔۔میں پھر یہی بیگ لے جاؤں گا ۔
    کیا مطلب۔۔؟؟ پھر جانا ہے ۔۔کب۔۔؟؟
    کل ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    تو آئے ہی کیوں تھے ،، منتہیٰ نے غصے سے شرٹ واپس بیگ میں پھینکی ۔۔وہ رو دینے کو تھی
    ارمان دوسری سائڈ سے گھوم کر اس کے ساتھ آکر بیٹھا ۔۔پھر اُس کی طرف جھک کر سرگوشی کی ۔۔’’تمہیں لینے ‘‘۔
    موسم انگڑائی لے رہا تھا ۔۔ مری کی برف اب پگھلنے کوتھیں ۔۔وہ گزشتہ دوروزسے مری میں تھے ۔۔ارمان کے ساتھی انجینئرز
    نے اسے زبردستی واپس بھیج دیا تھا ۔
    منتہیٰ ایک اونچے پتھر پر بیٹھی تھی اورارد گرد بہت چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی ۔۔ لیکن مری کے بے ایمان موسم کا کچھ پتا نہیں ہوتا
    کب کس لمحے بادل نمودار ہو کر برسنے لگیں ۔۔ کسی کی نگاہوں کی تپش پر وہ چونکی۔۔ارمان اس کے قریب بیٹھا بہت غور سے۔
    اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔۔بے شک وہ دل جیتنے والی پرسنالٹی رکھتا تھا۔
    ایسے کیا دیکھ رہے ہیں۔۔؟؟ منتہیٰ خجل ہوئی
    منتہیٰ بی بی ۔ کوئی چار ہفتے پہلے آپ کے جملہ حقوق میرے نام لکھ دیئے گئے ہیں ۔۔میں ایسے دیکھوں یا ویسے۔۔ میری
    پراپرٹی ہے میری مرضی ۔۔ ارمان بہت اچھے موڈ میں تھا ۔
    پھر سوچ لیجئے ۔۔آپ کے رائٹس بھی میرے نام ہیں ۔۔منتہیٰ نے جواباًچوٹ کی
    اچھا۔۔تو زیادہ سے زیادہ آپ اِس خاکسار کے ساتھ کیا کر لیں گی ۔۔؟؟؟ وہ اُس کی طرف شرارت سے جھکا
    بہت کچھ ۔۔منتہیٰ نے تیزی سے پیچھے ہٹ کر اسے آنکھیں دکھائیں ۔۔ شکر تھا اس جگہ وہ اکیلے تھے۔
    ہم مم۔۔ارمان کی لمبی سی ہم پر اسے فاریہ یاد آئی تھی ۔۔ جس کے پاس ا سلام آباد انہیں اب جانا تھا ۔
    کس سوچ میں گم ہو گئیں ۔۔؟؟ارمان نے اُس کی آنکھوں سے سامنے ہاتھ لہرایا ۔
    کچھ نہیں بس یونہی ۔۔ آئیں واپس چلتے ہیں ۔۔ڈھلتی شام کے ساتھ خنکی بڑھنے لگی تھی ۔
    مگر اٹھنے کے بجائے ۔۔ارمان نے ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بٹھایا۔ منتہیٰ۔ میں چاہتا ہوں کہ مکمل صحت یاب ہونے کے بعد تم
    واپس جاکر اپنا ناسا کا مشن مکمل کرو ۔
    اور منتہیٰ کو لگا تھا جیسے کسی نے اُسکی سماعت پر بم پھوڑا ہو ۔۔ ارمان میں وہ سب چھوڑ آئی ہوں ۔۔ کبھی نا پلٹنے کے لیے ۔۔اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔
    یار منتہی ٰ ! جذباتی نہ بنو ۔۔کٹھن وقت گزر گیا۔۔ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلا۔
    ارمان !بس میں خود بدل گئی ہوں۔۔ میں یہاں رہنا چاہتی ہوں ۔۔اپنے وطن میں ، اپنے لوگوں کے ساتھ ۔۔آپ کےپاس ۔۔اُس نے ارمان نے کندھے پر سر رکھا ۔
    "اوہ آئی سی ‘‘۔ارمان نے سیٹی بجائی ۔وہ خاصہ محفوظ ہوا تھا ۔۔
    ایسا ہے مسز ارمان کے میں چند ماہ کے لیے کچھ نہ کچھ کر کے آپ پاس آجاؤں گا ۔۔ ڈونٹ یو وری ۔۔ ارمان نے اسے راہ دکھائی
    اور جو میں سپیس سے واپس ہی نہ لوٹی تو ۔۔؟؟ منتہیٰ نے خدشہ ظاہر کیا
    تب آپ کا یہ مجنوں ‘ یہ قیس‘ یہ رانجھا ۔آ جائے گا ۔انٹرنیشنل سپیس سٹیشن بھی ۔۔ارمان نے اُس کے گرد اپنے بازو پھیلائے۔
    ناسا کے سارے ٹیسٹ پاس کرنے ہوں گے آپ کو ۔۔ منتہیٰ نے برا سا منہ بنایا
    منتہیٰ بی بی! جو عشق کے امتحان پاس کر لیں ۔اُن کے سامنے یہ ٹیسٹ کیا چیز ہیں ۔۔ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔۔
    ویسے آپ فکر مت کریں ۔۔ابھی خلائی مخلوق کا ذوق اتنا برا نہیں ہوا ۔۔ کہ آپ جیسی ضدی ، سر پھری اور بد لحاظ لڑکی کو غائب کرنے
    لگیں۔۔کوئی لے بھی گیا تو ۔۔شکریہ کے ساتھ مجھے واپس کرکے جائے گا ۔۔اپنا فضول مال اپنے پاس رکھیں ۔۔ارمان نے
    شرارت سے اسے چھیڑا ۔
    مگر منتہیٰ اپنے سپید ہاتھوں کو گھورتے ہوئے کہیں اور گم تھی۔۔ منتہیٰ ڈونٹ وری ۔۔مجھے یقین ہے وہ ایک ٹرائل کا موقع ضرور
    دیں گے ۔۔ یہ صرف تمہارا ہی نہیں ہم سب کا خواب تھا ۔۔یہ پاکستان کے لیے ایک اعزاز تھا ۔
    مگر دوسری طرف بدستور گہری خاموشی رہی۔۔’’ وہ اسے کیا بتاتی کہ بعض خوابوں کی تعبیر کتنی بھیانک ہوا کرتی ہے۔‘‘
    ویسے یار میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ۔۔ شاعروں ادیبوں کو اِس بھدے سے چاند میں پتا نہیں کیا رومانس نظر آتا ہے ۔۔اصل
    چارم تو یہ ہے کہ کوئی آپ سے ہزاروں میل کے فاصلے پر انٹر نیشنل سپیس سٹیشن میں بیٹھ کے دن رات آپ کو یاد کرے۔
    ارمان نے منتہیٰ کا موڈ بدلنے کی ایک سعی کی ۔
    جسٹ شٹ اَپ ارمان ۔۔ بے اختیار ہنستے ہوئے منتہیٰ نے اُسے ایک مکا مارا ۔
    آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میرا ایسا کوئی ارادہ ہرگز نہیں ۔
    کیا مطلب ۔۔؟؟ تم مجھے مِس نہیں کروگی ۔۔ارمان نے منہ بسورا ۔
    نہیں ۔۔میرا ناسا مشن پر واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔۔ میں وہ سب چھوڑ آئی تھی ۔
    اُف۔۔ منتہیٰ۔۔ خیر ۔ ابھی بہت ٹائم ہے ۔۔ تمہارے پوری طرح صحت یاب ہونے میں ۔۔آئی ایم شیور کے تم میری بات
    مانو گی ۔۔ آؤ چلیں ۔۔ ارمان نے اس کا ہاتھ تھام کر ریسٹ ہاؤس کے طرف قدم بڑھائے۔
    لیکن منتہیٰ اُس روز رات سونے تک اِسی طرح گم صم تھی ۔۔ ارمان نے خود کو ۔کوسا ۔۔ وہ قبل از وقت ایک موضوع چھیڑنے کی
    غلطی کر چکا تھا۔۔۔وہ آتشدان کے پاس گھنٹوں میں سر دیئے کسی گہری سوچ میں غرق تھی ۔۔ارمان لیپ ٹاپ لیکر اُس کے
    پاس جا کر بیٹھا اور فلیش ڈرائیو لگا کر اسے سیو دی ارتھ کے کچھ نئے پراجیکٹس دکھانے لگا ۔۔مگر دوسری طرف ہنوز لاتعلقی
    سی تھی ۔
    ارمان کے صبر کا پیمانہ چھلکا ۔۔ یار منتہیٰ کچھ تو بولو ۔۔ ٹھیک ہے اگر تم نہیں جانا چاہتیں تو مجھ سمیت ۔۔کوئی بھی فورس نہیں کرے گا
    منتہیٰ نے کچھ جواب دیئے بغیر لیپ ٹاپ اُس کے ہاتھ سے لے کر سکرین فولڈ کر کے پیچھے رکھا ۔۔پھر وہ اٹھ کر اپنے ساتھ لائے
    سامان تک گئی ۔۔ارمان دم سادھے اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا ۔۔اُس کی چھٹی حس خبردارکر رہی تھی ۔۔کہ کچھ انہونی
    ہونے والی تھی ۔
    منتہیٰ پلٹی ۔اُس کے ہاتھ میں لکڑی کا منقش باکس تھا ۔۔پھر واپس آتشدان تک آکر وہ ارمان کو تھمایا ۔
    یہ کیا ہے ۔۔؟؟ وہ حیران ہوا
    یہ باکس میں نے جانسن سپیس سینٹر جانے سے پہلے نینسی کو دیا تھا ۔۔کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ۔۔وہ آپ کو دیدے
    کیا مطلب۔۔؟؟ کیا تمہیں پتا تھا کہ تمہیں کچھ ہو جائے گا ۔۔؟؟
    نہیں۔ احتیاطً رکھوایا تھا ۔۔ اچھا ۔۔لیکن اِس میں ہے کیا ۔۔ارمان اُسے کھولنے ہی لگا تھا کہ منتہیٰ نے اُس کے ہاتھ روکے۔
    اِس میں ایک پزل ہے جو آپ کو خود حل کرنا تھا ۔۔ اور اب بھی آپ ہی حل کریں گے۔۔ بہت خشکی سے جواب دیکر وہ اٹھی
    کمبل اوڑھتے ہوئے ۔۔اُس نے ایک نظر ارمان پر ڈالی وہ باکس ہاتھ میں لیے کسی گہری سوچ میں غرق تھا ۔

    ***********

    ارمان یوسف کو منتہیٰ پر پہلا شک اُس وقت ہوا تھا جب وہ ہارورڈ کی سمر ویکیشنز میں اپنی ڈورم میٹ کیلی کے ساتھ الاسکا گئی تھی ۔۔بظاہر وہ کافی عرصے سے سیو دی ارتھ سے لا تعلق تھی ۔۔لیکن الاسکا یونیورسٹی اور ہارپ میں جتنی دلچسپی منتہیٰ کورہی تھی وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی ۔۔ وہ اُس کے لیے فکر مند تھا ۔
    اور آج اِس لکڑی کے باکس کو کھولتے ہوئے ارمان کے سب خدشات نے ایک دفعہ پھر سر ابھارا تھا۔۔۔ دھڑکتے دل کےاس نے باکس کھولا ۔۔اُس میں کچھ گفٹس تھے ۔۔ایک رنگ کیس ۔۔ایک برانڈڈ پرفیوم ۔۔کچھ فلیش ڈرائیوز ۔۔اور۔۔
    ارمان کا منتہیٰ کو دیا ہوا واحد تحفہ بریسلٹ کیس ۔۔وہ ہر شے کو کارپٹ پر انڈیلتا گیا ۔
    پھر اُس نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ فلیش ڈرائیو ز ۔۔ایک ایک کر کے لگائیں ۔۔ان میں ایس ٹی ای کے کچھ پرانےپراجیکٹس کی تفصیلات تھیں ۔۔لیکن ارما ن کو اِس جگ سا پزل کا پہلا ٹکڑا مل چکا تھا ۔۔’’ سیو دی ارتھ‘‘۔
    اب اسے مزید ٹکڑے ڈھونڈ کر اس پزل کو مکمل کرنا تھا ۔۔وہ ہر چیز کو ایک دفعہ پھر کھنگالتا گیا ۔۔ یقیناًمنتہیٰ نے اس گفٹ باکس
    کا پزل اس لیے بنایا تھاکہ نینسی کو شک نہ ہو ۔اور اِس کے ذریعے وہ کچھ ا س تک پہنچانا چاہتی تھی ۔۔ محفوظ طریقے سے۔ لیکن کیا ۔۔؟؟
    یکدم اس کی آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا ۔۔ ڈیٹا پہچانے کا بہترین سورس ۔۔فلیش ڈرا ئیوز ۔۔وہ سیکرٹ کسی فلیش ڈرائیو میں تھا ۔۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ۔۔ارمان نے مڑ کر منتہیٰ کو دیکھا ۔۔ اس کے چہرے پر بے انتہا سکون تھا ۔۔ جیسےصدیوں کی جاگی ۔آج سوئی ہو ۔۔ ارمان نے اٹھ کر غٹا غٹ پانی کے دو گلاس چڑھائے ۔۔ اسے کافی شدید طلب تھی ۔
    وہ ہمیشہ ایک چھوٹا کافی میکر اپنے ساتھ رکھتا تھا ۔۔ گرما گرم کافی کے گھونٹ لیتا ہوا وہ کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہلتا رہا ۔
    باکس کا سارا سامان اُسی طرح کارپٹ پر بکھرا پڑا تھا ۔۔
    کچھ سوچتے ہوئے جھک کر اس نے بریسلٹ کیس اٹھایا جو اس تمام سامان میں وہ واحد گفٹ تھا جو ارمان نے منتہیٰ کو دیا تھا ۔
    جب یہ منتہیٰ نے نینسی کو دیا ۔۔تو اس میں بریسلٹ موجود ہوگا ۔۔ جو اَب ہمہ وقت ۔۔اس کی نازک سی کلائی کی زینت بنا رہتاتھا ۔۔وہ سوچتا گیا ۔۔
    کسی خیال کے تحت اُس نے کیس کے فومی کور کو دبایا ۔۔ وہ دبتا چلا گیا ۔۔ ارمان کا دورانِ خون تیز ہوا ۔۔اُس نے چٹکی سے پکڑ کر فوم کھینچا ۔۔وہ اکھڑتا چلا گیا ۔۔ کور کی دوسری جانب کچھ لکھا تھا ۔۔ وہ اِس ہینڈرائٹنگ سے بخوبی آشنا تھا ۔
    A riddle wrapped in an engima …..
    پزل کا تیسرا ٹکڑا اُسے مل چکا تھا ۔۔ ارمان نے تیزی سے لیپ ٹاپ اٹھا کر یہ الفاظ گوگل کیے ۔۔ یہ ونسٹن چرچل کی ایک ریڈیو سپیچ سے ماخوذ الفاظ تھے ۔جب وہ دوران جنگ رشینز کو سیکیورٹی سے متعلق کوئی خفیہ پیغام دینا چاہتا تھا۔
    ارمان یوسف نے کڑی سے کڑی ملا ئی ۔۔ سیو دی ارتھ ۔۔، فلیش ڈرائیوز ۔۔،سیکرٹ میسج ۔۔ اگرچہ پزل کا چوتھا ٹکڑا باکس میں نہیں تھا ۔۔ مگر اُس کے ذہن میں ضرور تھا ۔۔ ہارپ ۔۔ اینٹی ہارپ ٹیکنالوجی ۔۔ اور ایسی دوسری تمام ٹیکنالوجیز کا توڑجو ہماری اِس پیاری زمین کو تیزی کے ساتھ تباہی کے دہانے پر لے کر جا رہی ہیں ۔۔ وہ جانتا تھا ۔ منتہیٰ اِن کی تلاش میں آخری حدتک گئی ہوگی ۔۔ ایک سو بیس آئی کیو رکھنے والی منتہیٰ کے لیے کسی بھی ٹیکنالوجی کی جڑتک پہنچنا بائیں ہاتھ کا کام تھا ۔
    اور پزل تقریباًمکمل ہو چکا تھا ۔۔یکدم بہت سارے خدشات نے سرا بھارا ۔۔ فلیش ڈرائیو اُس کے ذہن سے محو ہوچکی تھی۔

    جاری ہے
    ***********

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    یورپ ، امریکہ ، فرانس، دبئی ۔۔ ایک عالم نئے سال کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر امڈا ہوا تھا ۔۔ کہیں آتش بازی کی تیاریاں تھیں توکہیں رات بھر کی ہلڑ بازی ، جشنِ عیش و نشاط کی ۔
    انسان بھی عجیب مخلوق ہے ۔۔ خود فریبی کے نجانے کیسے کیسے طریقے ایجاد کر لیے گئے ہیں ۔۔ ایک ایسے سال کا جشن منایا جا رہا تھا ۔۔ جس کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا ۔۔ کہ وہ اُن سب کے لیے کیسے دکھ ، کیسی آزمائشیں ۔۔ کیسے خطراتاور کون کون سی آفات اپنے جلو میں لیے وارد ہونے والا ہے۔
    وہ جو آج جشن سالِ نو کی بد مستی میں سب سے آگے تھے۔۔کل اِسی سال کو رخصت کرتے ہوئے۔۔ کوسنے دینے میں بھی سب سے بڑھ کر ہوں گے ۔۔انسان جب اپنی زندگی سے اعلیٰ مقاصد کو نکال کر صرف اپنے لیے جینا شروع کر دے۔


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    تو پھر ہیپی نیو ایئر اور ہیپی ویلنٹائن ڈے جیسی اصطلا حیں وجود میں آتی ہیں ، جن کا سرے سے کوئی سر پیر ہی نہیں ہوتا۔دبئی کےبرج خلیفہ پر دنیا کے سب سے بڑے اور بے مثال آتش بای کے مظاہرے کا انتظام تھا ۔
    کیا دنیا کے اِن کھرب پتیوں کوبھوک اور امراض سے مرتے افریقی قبائل نظر نہیں آتے ۔۔؟؟ کیا ایشیا میں غربت کی سطح سے کہیں نیچے بسنے والے کروڑوں افراد اِن کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔۔؟؟؟آنکھوں پر پٹی تو کسی کے بھی نہیں بندھی ہوئی ۔۔۔ ہاںاگر انسان خود ہی نہ دیکھنا چاہے تو الگ بات ہے۔
    اور ان سب ہنگاموں سے لا تعلق اس چھوٹے سے فلیٹ میں دیوار سے لگی بیٹھی منتہیٰ کی دنیا اِس وقت شدید طوفانی جھکڑوں کی زد پر تھی۔۔۔ وہ کیوں رو رہی تھی ۔۔؟؟ اُسے کیا حق تھا ۔اُس شخص پر جسے وہ خود چھوڑ چکی تھی ۔ اپنے روشن مستقبل اور اپنے خوابوںکی تعبیر پانے کے لیے ۔۔۔؟؟
    وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی کھائیوں میں گری تھی ۔۔۔۔ اور وہ یقیناًخداکی ذاتِ پاک ہی تھی۔۔ جس نے اُس کے  نصیب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمعیں فروزاں کی تھیں ۔
    غم کی طویل رات ختم ہو چکی تھی اور سپیدۂ سحر نمودار ہونے کو تھا ۔ منتہیٰ نے فجر کی نما زکے بعد قرآنِ پاک کھولا ۔


    اور انسان طبعاًانتہائی نا شکرا واقع ہوا ہے۔۔جب اس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پورے قلبی جھکاؤ کے ساتھ اپنے اللہ کو پکارتاہے ۔۔

    لیکن اس کے بعد جب اُسے آسائش میسر آتی ہے تو وہ اپنی ساری گریہ و زاری کو بھول کر کہنے لگتا ہے کہ اس کا مسیحا تو کوئی اور بنا ۔۔ 

    سورۂ الازمر


    آیت کیا تھی‘ ایک برچھی تھی جو سیدھی منتہی ٰ دستگیر کے سینے پر عین وسط میں پیوست ہوئی تھی ۔۔ ’’ اور ارمان یوسف اُس کے صبر کا
    انعام نہیں تھا ۔۔۔ یہ فیصلہ ہو چکا تھا ۔”
    اسی شہر میں کچھ فاصلے پر ارمان فجر کی نماز پڑھ کر کھڑکی میں کھڑا تھا ۔۔ اور موسم کی تمام پیشن گو ئیوں کے بر خلاف ۔۔نئے سال کا
    پہلا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تھا ۔ کل شام سے گرتی کچی بر ف، سورج کی کرنیں پڑتے ہی ۔۔ چاندی کی طرح
    جگمگانے لگی تھی۔
    رات بھر ۔۔سالِ نو کا جشن منانے والے ۔۔ نشے میں دھت اپنے اپنے بستروں میں مدہوش پڑے تھے ۔
    "اور یہ طلوع ہوتا سورج ، یہ گرتی برف ، ۔یہ پربتوں پر روئی کے گالوں جیسے اُڑتے بادل۔۔، یہ سونا مٹی ۔۔ اور اِس سے
    پھوٹتی ہریالی ۔۔ انسان سے شکوہ کنا ں تھی ۔۔کیا خدا نے یہ سب نعمتیں اِس لیے اتاری تھیں کہ انسان کی زندگی کا مرکز و محور
    صرف اور صرف اُس کی اپنی ذات ٹھہرے ۔۔وہ عیش و مستی میں دن رات خدا کی اِن سب نعمتوں کی نا قدری کرتا ہے ۔۔ انسانیت کی
    تذلیل کرتا ہے ۔۔ او ر وہ قطعاًبھول بیٹھا ہے کہ اگر کسی روز سورج نے طلوع ہونا بند کر دیا ۔۔ چاند نے سمندروں پر اپنا فسوں بکھیرنا چھوڑ
    دیا ۔۔ یایہ ہر دم رواں رہنے والی ہوا ۔۔ کسی دن ہمیشہ کے لیئے اُس سے روٹھ گئی ۔۔ تو پھر وہ کہاں جا ئے گا ۔۔۔؟؟؟

    ***********

    تین دن بعد کی فلائٹ ہے ۔۔ آپ پیکنگ کر لیں ۔۔ رات ارمان نے منتہیٰ کو آگاہ کیا ۔
    مگر دوسری طرف ہنوز گمبھیر خاموشی رہی ۔
    میری کسی مدد کی ضرور تو نہیں ۔۔؟؟؟ اُس نے بات کرنے کی ایک اور سعی کی
    نہیں۔۔ مختصر جواب آیا ۔
    میں ذرا امی ابو کو بتا دوں ۔۔ اُس دشمنِ جاں کا سامنا پتا نہیں آج اتنا دشوار کیوں تھا ۔ منتہیٰ نے پہلو بچایا ۔
    ارمان کچن میں کافی بناتے ہوئے گاہے بگاہے ایک نظر اِس لڑکی پر ڈال لیتا تھا جو ایک ہی رات میں مزید کئی ماہ کی
    بیمار لگنے لگی تھی ۔۔۔لیکن وہ کیا کر سکتا تھا ،، فی الحال تو کچھ بھی نہیں ۔
    منتہیٰ میری جان ۔۔مجھے تمہارے اِس فیصلے سے جتنی خوشی ہوئی ہے میں بتا نہیں سکتا ۔۔ فاروق صاحب کی آواز شدتِ
    جذبات سے بوجھل تھی ۔۔ ہم نے تاریخ رکھ دی ہے آج ہی ۔
    تاریخ۔۔؟؟؟۔۔ اوہ اچھا ابو ‘ رامین کی شادی کی تاریخ کی بات کر رہے ہوں گے ۔۔ اُس نے غائب دماغی سے سوچا
    جی ابو ۔۔ میں بھی بہت خوش ہوں ۔۔ صبح کا بھولا دیر ہی سے صحیح ۔۔ مگر گھر لوٹنے کو تھا ۔
    کال بند کر کے منتہیٰ بہت دیر تک سیل ہاتھ میں لیے روتی رہی ۔اور سامنے صوفے پر بیٹھے ارمان نے اُسے چپ کرانے کی کوئی
    بھی کوشش نہیں کی تھی ۔۔ وہ مزے سے کافی کی چسکیاں لیتا رہا ۔ اور پھر جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
    فلیٹ سے باہرنکلتے ہی سیڑھیوں پر اس کی مڈ بھیڑ نینسی سے ہوئی ۔ جس نے اُسے دیکھتے ہی پہلے دیدے گول گول گھمائےپھر سیٹی بجائی ۔
    so finally you came … I said her..just wait and have faith
    اور جواب دینے کے بجائے ارمان اُسے سیڑھیوں سے نیچے دھکیلتا گیا تھا ۔۔۔
    رات سات بجے کی فلائٹ تھی ۔
    کلیئرنس وغیرہ سے فارغ ہوکر جب وہ ڈیپارچر لاؤنج پہنچے ۔۔تو ارد گرد کوئی سہارا نہ ہونے کے باعث منتہیٰ ڈگمگائی ۔ارمان
    اُسے سہارا دینے کے لیے بڑھا ۔ دونوں کی نظریں ملیں ‘ کچھ لمحے بیتے‘ کچھ سا عتیں گزریں اورپھر منتہیٰ نے تیزی
    سے خود کو سنبھال کر اپنا ہاتھ چھڑایا ۔ ارمان !منتہیٰ سہارے نہیں لیا کرتی ۔
    ارمان نے بمشکل خون کے گھونٹ پیے۔یہ لڑکی بھی نہ ۔’’ خیر منتہیٰ بی بی” ارمان یوسف بھی کم نہیں ۔۔یاد رکھو گی ۔
    ایئرپورٹ پر بہت سارے لوگ اُن کے منتظر تھے ۔۔ امی‘ ابو‘ رامین‘ جبران ۔۔ ارحم ، شہریار ۔۔ وہ آج بھی اُن سب کے
    لیے پہلے جیسی اہم تھی ۔۔۔اور معتبر بھی ۔
    دنیا کی ٹھوکریں کھا کر بالاخر اولاد واپس وہیں پلٹتی ہے ۔ جو ماں باپ بچپن سے سکھا اور سمجھا رہے ہوتے ہیں لیکن عقل تبھی آتی ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے ۔۔ذلت ، تنہائی اور زمانے کی ٹھوکریں مقدر میں لکھ دی گئی ہوں ۔ تو کیا کیجیے ۔۔ وہ لوٹ تو آئی تھی ۔ ۔ مگر آگے بڑھ کر گلے لگنے کی ہمت نہیں تھی ۔
    اولاد نکمی ہو یا ہونہار ۔۔کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر لوٹی ہو۔۔ یا ٹھوکریں کھا کر ۔۔ والدین کے لیے وہ صرف اُن کی
    اولاد اُن کے وجود کا ایک بچھڑا حصہ ہوتی ہے ۔اپنی آخری سانس تک وہ بازو وا کیے ۔ منتظر رہتے ہیں کہ طویل مسافتوں سے تھک کر مسافر اُن کی آغوش میں دم لینے کو ضرور پلٹے گا ۔۔ منتہی ٰ کے لیے بھی بازو و اکیے ماں بھی منتظر تھی اور باپ بھی ۔
    اور پھر آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔ ارحم اور شہریار نے بہت دکھ اور حیرت سے ارمان کو
    دیکھا ۔۔ یہ ٹوٹی پھوٹی آنسو بہاتی لڑکی ۔۔ یہ کون تھی ۔۔؟؟۔
    یہ منتہیٰ دستگیر تو نہ تھی ۔۔ جسے ارحم آئرن لیڈی کہا کرتاتھا ۔
    اگرچہ طویل فلائٹ میں منتہیٰ نے صرف آرام ہی کیا تھا ۔۔ جس سے ارمان خاصہ بور ہوا تھا ۔۔ پھر بھی دادی کی گود میں سر رکھتے ہی وہ یوں بے فکر ہو کے سوئی کہ مغرب پر رامین نے اُسے جھنجوڑ کر اٹھایا۔
    آپی اٹھیے ۔۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ ۔۔؟؟
    ہاں میں ٹھیک ہوں ۔۔ ویسے ہی تھکن ہو رہی تھی ۔۔منتہیٰ نے کیچر میں اپنے لمبے بال سمیٹے ۔
    مینا !اب اٹھ بھی جاؤ ۔ امی کمرے میں چائے کا کپ لے کر داخل ہوئیں ۔۔شادی کا گھر ہے ۔۔ پہلی ہی دسیوں کام ادھورے
    پڑے تھے ۔ اوپر سے تمہارے یہ جلد بازی کے فیصلے ۔۔ امی نے اُسے پیار بھری ڈانٹ سنائی ۔ عا صمہ بہت خوش تھیں
    جی امی! آپ فکر مت کریں میں رامین کے ساتھ سب کروا لوں گی ۔۔ اُس نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔
    اچھا ۔۔ رامین کی شادی کے کارڈ تو چھپ کر آگئے ہیں ۔ اب تمہارے ابو اور دے آئے ہیں ۔تین چار دن میں مل جائیں
    گے ۔۔ امی نے اُسے مطلع کیا ۔
    اور کارڈ کیوں امی ۔۔؟؟؟ منتہیٰ چونکی
    ارے امی ۔۔آپ چولہے پر کچھ رکھ کر آئی ہیں ۔۔ دیکھیں جلنے کی بو آرہی ہے ۔۔ رامین کو تو جیسے پتنگے لگ گئے تھے
    مجھے تو نہیں آ رہی ۔۔۔۔ امی نے برا سا منہ بنا یا ۔
    ارے امی جا کر تو دیکھیں ۔۔میں آپی کو شادی کے کپڑے دکھا تی ہوں ۔۔ رامین نے ماں کو راہ دکھائی ۔
    رامین یہ امی کون سے کارڈز کی با ت کر رہی تھیں ۔۔؟؟ ۔۔منتہیٰ کی سوئی وہیں اٹکی رہ گئی تھی ۔
    وہ آپی ۔۔ رامین نے سر کجھایا ۔۔ ہاں وہ ۔۔ کارڈز کم پڑ گئے ہیں نہ۔۔ اب آ پ بھی تو اپنے فرینڈز کو انوائٹ کریں گی ۔
    تو ابو اور کارڈ چھپنے دے آئے ہیں ۔
    میں کس کو انوا ئٹ کروں گی ۔۔؟؟۔۔ منتہیٰ نے غائب دماغی سے سوچا ۔
    آپی میں ذرا ایک کال کر آؤں پھر آکر آپ کو ڈریسز دکھاتی ہوں ۔۔ رامین باہر لان تک آئی اور ارمان کا نمبر پنج کرنے لگی
    امی نے ڈنر پر خاصہ تکلف کیا ہوا تھا ۔ ڈنر سے فارغ ہوکر وہ بیٹھے ہی تھے کہ ڈور بیل بجی ۔ منتہیٰ چونکی اِس وقت ۔۔کون؟؟۔
    پھر آنے والوں کو دیکھ کر ایک لمحے کو اپنی جگہ ساکت ہوئی ۔۔ پتھرائی ۔۔ ڈاکٹر یوسف کاسامنا کرنے کا حوصلہ اب تک اُس
    میں نہیں تھا۔۔ اُن کے ساتھ مریم اور ارمان بھی تھے ۔
    منتہیٰ نے بمشکل خود کو سنبھال کر سلام کیا ۔۔۔ مریم ہی نہیں ڈاکٹر یوسف نے بھی ایک بہت گہری نظر منتہیٰ کی حالت پر ڈالی۔
    اور پھر اپنے دیوانے بیٹے پر ۔
    تھوڑی سی دیر بیٹھ کر وہ اٹھ آئی ۔۔ اور اُس کے پیچھے رامین بھی ۔۔ آپی پھر کل میرے ساتھ چل رہی ہیں نہ شاپنگ پر ۔۔ رامین
    کی اپنی تیاریاں ہی کیا کم تھی کہ اب اُسے بہن کی مدد بھی کرنی تھی ۔

    ***********

    منتہیٰ کے جواب دینے سے پہلے دستک ہوئی۔۔ دروازے کے عین وسط میں ارمان سینے پر ہاتھ باندھے ایستادہ تھا ۔
    رامین لپک کر اُس کے سر پر پہنچی ۔۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔؟؟ شرارت سے کمر پر ہاتھ رکھ کر اُس نے ارمان کا راستہ
    روکا ۔
    میں آنٹی اور انکل سے اجازت لے کر آیا ہوں رامین بی بی ۔۔ ارمان اُسے پرے دھکیلتا ۔۔اندر آیا
    منتہیٰ میں یہ اپنی شادی کا کارڈ آپکو دینے آیا تھا ۔۔ اُس نے قریب آکر ایک گولڈن اور میرون امتزاج کا خوبصورت سا
    کارڈا س کی طرف بڑھایا ۔
    ایک لمحے کو منتہیٰ کے ہاتھ کانپے تھے ۔۔ صرف ایک لمحہ۔ تھینک یو ۔۔ کب ہے آپکی شادی ۔۔؟ پھر وہ خود کو سنبھال چکی تھی ۔
    وہ آپ خود پڑھ لیں ۔۔ ارمان نے ناک سے مکھی اڑائی ۔
    ہاں آپی دیکھیں نہ کیسا ہے جناب کی شادی کا کارڈ ۔۔ رامین نے دوبارہ کارڈ اُسے تھمایا ۔۔ جو اَب سائڈ ٹیبل پر دھرا تھا ۔
    کیسا ہونا ہے۔۔؟؟ جیسے ویڈنگ کارڈ ہوتے ہیں ویسا ہی ہو گا ۔۔ انہوں نے کیا اپنا انسائکلو پیڈیا پبلش کروا یا ہوگا ۔؟؟
    منتہیٰ نے برا سا منہ بنا کر کارڈ دوبارہ تھاما۔
    ہاں میں نے سوچا کہ ۔۔ بندہ زندگی میں ایک ہی دفعہ شادی کرتا ہے تو کوئی یونیک سا کارڈ‘ کوئی منفرد ساآئیڈیا ہونا
    چاہیے۔۔ارمان کے لبوں بہت دلکش مسکراہٹ سجی تھی ۔
    اِس دشمنِ جاں کے منہ سے اُس کی شادی کا ذکر اور پھر ۔۔ یہ گہری مسکراہٹیں۔۔ منتہیٰ نے بہت سے آنسو اندر اتار کرکارڈ کھولا ۔
    اور پھر زمین گھومی تھی ۔۔ یا آسمان ۔۔ وہ خواب میں تھی ۔۔ یا جاگتے میں خواب دیکھنے لگی تھی ۔۔ اُس نے ایک دفعہ آنکھیں مسل
    کر بغور کارڈ کو اور پھر حیرت سے ساتھ بیٹھی رامین کو دیکھا ۔
    بہت بہت مبارک ہو آپی ۔ ارمان بھائی آپ کے تھے اور آپ کے ہی رہیں گے ۔ رامین نے اُس کے گال چومے۔۔ کمرے
    سے رفو چکر ہوتے وقت وہ اپنے پیچھے دروازہ بند کرتی گئی تھی ۔
    ارمان آہستہ آہستہ کارپٹ پر قدم دھرتا اُس کے پاس بیڈ تک آیا ۔۔لیکن منتہیٰ ابھی تک گنگ بیٹھی تھی ۔
    کیا واقعی اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا تھا ۔۔ ارمان سمیت اُن تمام نعمتوں کی نا شکری پر جو وہ آج تک کرتی چلی آئی تھی ۔
    نیک مرد نیک عورتوں کے لیے اور نیک عورتیں ، نیک مردوں کے لیے بنائی گئی ہیں وہ نیک نہیں تھی پھر بھی نوازی جارہی تھی ۔
    "منتہیٰ”۔ ارمان نے بہت نرمی سے اُس کے ہاتھ تھام کر اسے پکارا ۔۔۔ اور منتہیٰ کو لگا تھا کہ اُ سے ارمان نے نہیں ۔۔ زندگی
    نے پکارا تھا ۔۔ وہ اُس کے روٹھے نصیب کی پکار تھی ۔۔آنسو کا ایک سیلاب تھا جو اُس کی کجراری آنکھوں سے نکل کر ارمان کے
    شرٹ کو بھگوتا چلا گیا ۔
    دروازے پر ہوتی مدھم سی دستک ۔۔ جیسے دونوں کو حال میں واپس لائی ۔۔منتہیٰ، ارمان کے بازوؤں سے تیزی سے نکل کر
    پیچھے ہٹی ۔۔ اورارمان بھی جیسے کسی خواب سے جاگا ۔
    رامین ہاتھ میں کافی کی ٹرے لیے اندر آئی ۔۔ تب تک وہ دونوں خودکو سنبھال چکے تھے ۔
    شکر کریں ۔۔ عین وقت پر میں نے امی کو روک لیا ۔۔ وہ کافی لے کر آرہی تھیں ۔۔ رامین نے ساری سچویشن سمجھتے ہوئے دونوں
    کو چھیڑا ۔۔منتہیٰ کے گال شہابی ہوئے۔
    شکر کیوں کریں۔۔ ہمیں پتا تھا باڈی گارڈ باہر ہی ہوگا ۔۔ ارمان کچھ کم ڈھیٹ نہیں تھا،
    اچھا زیادہ باتیں مت بنائیں ۔۔ جلدی سے کافی ختم کر کے یہاں سے نکلیں ۔۔ دادی ناراض ہو رہی ہیں آپ کے آنے پر ۔۔
    شادی میں دن ہی کتنے رہ گئے ہیں ۔۔؟؟
    رامین بی بی۔میں سب بڑوں کو بتا کر آیا تھا کہ منتہیٰ سے بک کے فائل لینی ہے ۔۔ تاکہ پبلشر سے بات کر سکوں ۔
    وہ تو ٹھیک ہے ۔۔ لیکن اگر اُن کو پتا لگ جائے نہ کہ آپ نے اُن کی لاڈلی کو کیسے ستایا ہے ۔۔ تو آپ کی خیر نہیں۔
    اُن کی لاڈلی نے بھی دوسروں کو کچھ کم دکھ نہیں دیئے سو تھوڑا حق میرا بھی بنتا تھا ۔ارمان نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ مگ
    کے کناروں کو گھورا ۔۔کمرے میں یکدم گمبھیر خاموشی چھا گئی۔
    ارمان نے تیزی سے کافی ختم کر کے مگ رامین کو تھمایا ۔۔پھر چند قدم چل کر منتہیٰ کے بیڈ تک آیا ۔ جس کا سر ندامت سے جھکا
    ہوا تھا ۔۔ ارمان نے اُس کی تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر چہرہ اوپر اٹھایا۔
    تو پھر آپ آ رہی ہیں نہ میری شادی پر ۔۔؟؟ اس کی آوا زہی نہیں ۔۔ نگاہوں میں بھی بے پناہ شرارت تھی ۔
    کمرے میں رامین کا اونچا قہقہہ گونجا ۔۔ بہت سی آزمائشوں ، کٹھن اور طویل انتظار کے بعد وہ ایک ہونے کو تھے۔۔’’کیونکہ
    وہ ایک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے تھے ۔”

    جاری ہے
    ***********