Tag: Science

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

     ( پہلی قسط )

    میں نے اِس چھوٹی سی دنیا میں رہ کر یہ جانا کہ لوگ روحانی اذیت میں ہیں اور بہت دل گرفتہ بھی لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ میں نے جانا کہ ایک دن سب نے مرنا ہے۔

    لیکن جو اوروں کے لئے جیتے ہیں وہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں میں نے جانا کہ جنت بھی کچھ ایسی جگہ ہوگی جہاں کچھ نئے اصول ہوں گے لیکن اِس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟؟؟۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    اور انسان طبعاٌ بڑا ہی نا شکرا ہے جب اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ پورے قلبی جھکاؤ کیساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے ، لیکن جب اِس”۔“کے بعد اُسے آ سائش میسر آتی ہے تو وہ اپنی ساری گریہ و زاری کو بھول کر کہنے لگتا ہے کہ میرا مسیحا تو کوئی اور بنا (سورۃ الزمر ۔ القرآن) قرآن کی آیت کیا تھی ایک برچھی تھی جو سیدھی منتہیٰ دستگیر کے سینے میں عین وسط پر پیوست ہوئی تھی ۔ "وہ آسمان کی بلندیوں سے پاتال کی کھا ئیوں میں گری تھی ۔یقیناٌ وہ اُس کا رب ہی تھا جس نے اُس کے نصیب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کی شمعیں فروزاں کی تھیں ۔” "اور ارمان یوسف اس کی آزمائش تھا یا صبر کا انعام یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی تھا ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    اُس کے بکھرے کمرے میں اپنے اصل مقام پر موجودواحد شے وال کلا ک تھی شاید اِس لیئے کہ جب سے سیل فون ہماری زندگیوں کا حصہ بنے ہیں وال کلاک سے سب کا سلوک سوتن جیسا ہو گیا ہے ۔ اُسکا عقیدہ تھا کہ” ممی کی ڈانٹ پھٹکار کا اثر جن لڑکوں پر ہونے لگے اُن میں ضرور قبلِ مسیح کی کوئی روح حلول کر جاتی ہے "۔

    لیکن پاپا کے لیے یہ سب عقائد دھرے کے دھرے رہ جاتے تھے ۔ اللہ سے ہمیشہ ایک ہی شکوہ کیا کرتا تھا کہ یا "تو اس کے پاپا سینئر پروفیسر نہ ہوتے یا وہ اُنکی اکلوتی اولاد نہ ہوتا، اُس کے نزدیک پروفیسرکی اولاد ہونا دنیا کی سب سے بڑی بد نصیبی تھی”۔ جن کی سوئی سٹڈیز ، رولز اور شیڈول پر ہی اٹکی رہتی تھی اور چار و ناچار ارمان کوبھی کئی بنکس ، مکس گیدرنگز اور میوزک کنسرٹس چھوڑ کر صرف اُن کتابوں میں سر کھپانا پڑتا تھا جو اسے اپنی جانی دشمن لگا کرتی تھیں۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    عموماً سٹوڈنٹس میتھ میٹکس اور فزکس سے سب سے زیادہ خار کھاتے ہیں ، "کوانٹم فزکس کے متعلق تو اُس کی کلاس کی متفقہ رائے تھی کہ یہ دنیا کا ذلیل ترین سبجیکٹ ہے "،جس کے پیریڈ سے سب ہی کی جان جاتی تھی ، لیکن پوری کلاس میں اگر کوئی سٹوڈنٹ مکمل دلچسپی اور دلجمعی سے لیکچر اٹینڈ کرتا تھا تو وہ "منتہیٰ "تھی ۔کہنے والے کہتے ہیں کہ’’ کوانٹم فزکس انسانی خواص سے ماوراء کسی اور سیارے کسی اور دنیا کا مضمون ہے‘‘۔ لیکن منتہیٰ کو اشیاء ہی نہیں اپنے اِرد گرد کی دنیا اور رویئے بھی کوانٹم فزکس کے اُصولوں کی مدد سے سمجھ میں آنے لگے تھے اُس کے پاس ذہانت تھی، کچھ کر دکھا نے کا جنون اور ٹیلنٹ تھا جس کے بل بوتے پر وہ آگےبڑھتی چلی گئی ۔۔ ‘‘وہ منتہیٰ دستگیر جو ہر شے کو کامیابی کے پیمانے پر پرکھنے لگی تھی ،نہیں جانتی تھی کہ وقت کی تلوار بہت بے رحم ہے اور دنیا میں ہر عروج کو زوال ہے ۔’’

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    ابے خبیث توضرور کسی دن مجھے پاپاکے ہاتھوں پٹوائے گا ،”دس ہزار دفعہ منع کیاہے کہ پی ٹی سی ایل پر وقت بے وقت کال مت کیا کر” ۔۔ "پر تیرے کان پر جوں نہیں رینگتی "۔

    ارمان اپنے یارِ غار ارحم پر بری طرح برحم تھا ، لیکن وہ ارحم ہی کیا جو کسی کی سنتا ہو ۔ ابے۔ "یہ گندی اشیاء تیرے اپنے سر میں پائی جاتی ہوں گی میرے نہیں "۔۔ ہونہہ ! تیرا سیل دو گھنٹے سے بزی تھا ۔۔ "اب بتا کس حسینہ سے گفتگو میں مصروف تھا میرا شہزادہ ۔۔؟؟” ابے بھوتنی کے۔ "پاپا گھر میں تھے میری مجال کے میں سٹڈیز چھوڑ کر سیل اٹھاتا "۔۔ "ویسے اپنے نصیب میں کو ئی حسینہ ہے بھی نہیں ایک سرد آہ کے ساتھ جواب حاضر تھا ۔۔” ٹھیک ہے چھپا لے بیٹا ۔۔ "تیرے سارے راز پوری کلاس کے سامنے نہ کھولے تو میرا نام بھی اَرحم تنویر نہیں ۔۔” اس سے پہلے کہ ارمان اسے ایکُ مکا جڑتا اَرحم رفو چکر ہو چکا تھا ۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "زندگی اتفاقات ، واقعات اور حادثات کا مجموعہ ہے ، کوئی نہیں جانتا کہ کب کونسا واقعہ یا حادثہ اُسے ایک بند گلی کے موڑ پر لیجا کر چھوڑ دیگا جہاں اسے ایک بے مقصد اور بے مصرف زندگی گزارنا پڑیگی "۔ "ایک کامیاب ترین زندگی سے ایک بے مصرف وجود تک پہنچ جانے میں انسان پرکیا کچھ بیت جاتی ہے یہ وہی جان سکتا ہے ۔جوِ ان حالات سے گزرے ، تب زندگی گزارنے اور اِسے بیتنے کا اصل مفہوم سمجھ میں آتا ہے "۔

    "ایک پُر امید کبھی مایوس نہ ہونے والا شخص کیونکر صرف موت کا انتظار کرنے لگتا ہے، وہ کیسے دکھ ہوتے ہیں جو ہر حال میں خوش رہنے والے کو موت کی چوکھٹ پر شب و روز دستک کے لیئے لا بٹھا تے ہیں ۔ "دنیا نے نا کبھی سمجھا ہے نا کبھی سمجھ پائیگی کیونکہ دنیا صرف چڑھتے سورج کی پوجا کیا کرتی ہے ۔۔ ڈوبتا سورج یا ٹوٹتے تارے دنیا والوں کے لئے بے معنی ہوا کرتے ہیں "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "سائنس میں جو ماڈلز ہم بناتے ہیں اُن کا اطلاق صرف سائنسی نمونوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اِن ماڈلز پر بھی یکساں طور پر ہوتا ہے جو ہم سب نے زندگی کو سمجھنے اور روزمرہ کے واقعات کی تشریح کے لیے اپنے اپنے تحت الشعور میں بنائے ہوئے ہیں "۔اور یہی ہمیں دنیا سے باخبر رکھتے ہیں ۔ "آج تک کوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں ہو سکا جس کے ذریعے دنیا کے متعلق ہمارے نظریات میں سے آبزرور یعنی انسان کو منہا کیا جا سکے کیونکہ تصورات ہمارے اعصابی نظام کی تخلیق ہوتے ہیں "۔

    "اشیاء کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے کسی شخص کی مناظری حِس کے نیچے لگاتار سگنلز موصول ہوتے ہیں ، لیکن یہ ڈیٹا ایک خراب کھینچی ہوئی تصویر کی طرح ہوتا ہے اور انسانی دماغ اُس کو کامیابی کے ساتھ پروسس کر کے ایک مکمل تصویر پیش کرتا ہے ۔ جس کے مطابق ہم کائنات کی ہر شے کے بارے میں اپنی اپنی ذہنی سطح تک تصوارات تشکیل دیتے ہیں ۔” منتہیٰ سمیت پوری کلاس جیسے سحر زدہ تھی اور پروفیسر یوسف اپنے لیکچر کا فسوں بکھیر کر جا چکے تھے ۔۔ "پروفیسر ڈاکٹر یوسف رضا کا شمار پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فزکس کے مایہ ناز اساتذہ میں ہوتا تھا ، اپنے پیشے سے ان کی جذباتی وابستگی ، لگن اور ان تھک محنت کا ثمر تھا کہ جلد ہی وہ ڈیپارٹمنٹ ہیڈ کے عہدے پر فائز ہونے والے تھے” ۔ فزکس عموماٌ خشک مضمون سمجھا جاتا ہے لیکن اِس کے برعکس پروفیسر یوسف انتہائی ہنس مکھ اور ملنسار واقع ہوئے تھے ۔۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "ہمارے معاشرے میں اَنا کا حق صرف مرد رکھتا ہے عورت کو ماں ، بہن، بیٹی یا بیوی ہر روپ میں ، زندگی کے ہر نئے موڑ پر ، ہر رشتے کو نبھانے کے لیئے اپنی اَنا اور خود داری کی قربانی دینا پڑتی ہے ۔اپنے اندر کی عورت، اُس کی اُمنگوں اور جذبوں کو دبا کر صرف مرد کی خواہش کے مطابق جینا ہی عورت کی اصل زندگی ہے "۔”لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے ہر مرد عورت کو مٹی کی مورتی یا پلاسٹک کا کھلونا نہیں سمجھتا "۔”بے نظیر ، حنا ربانی ، نرگس ماول والا اور فضا فرحان جیسی خواتین بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں "، فرق صرف اتنا ہے کہِ "انھیں خوش قسمتی سے ایسے مرد حضرات کا ساتھ میسر آیا جنھوں نے اُن کی صلاحیتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اُن کا بھرپور ساتھ دیا” ۔ آج جب نرگس کالیگوپراجیکٹ سارے عالم میں دھوم مچاتا ہے ، شرمین آسکرایوارڈ جیتتی ہے یا فضا اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل میں شامل کی جاتی ہے "تو گویا دنیا اس عورت کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتی ہے جسے عموماٌ ہانڈی، روٹی اور ڈائیپرز کا ایکسپرٹ سمجھا جاتا تھا "۔ "بلا شبہ کسی معاشرے میں عورت کا ایک با عزت مقام ہی اس قوم کی عظمت کا نشان ہے ۔

    عالمی یومِ خواتین کے موقع پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا آڈیٹوریم سٹوڈنٹس سے کچھا کچھ بھرا تھا اور منتہیٰ کا جوشِ خطا بت دیدنی تھا ۔ اُس کے اکثر اساتذہ کے ریمارکس تھے کہ "اس جیسے ملٹی ٹیلنٹڈ سٹوڈنٹس باعثِ فخر ہوتے ہیں اور اگر انھیں سازگار ماحول میسر آئے تو وہ ضرور بین الاقوامی سطح پر اپنی قوم کی پہچان بنتے ہیں ۔” بی ایس فزکس میں یہ منتہیٰ کا آخری سیمسٹر تھا اور یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے کا خواب جلد ہی شرمندۂ تعبیر ہونے والا تھا ، اور پھر اس کی اگلی منزل پنجاب یونیورسٹی تھی، "اس کا بے پناہ ٹیلنٹ اسے کسی کل چین سے نا بیٹھنے دیتا تھا ، یقیناٌ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی ، وہ کچھ غیر معمولی کر دکھانے کے لیے ہی پیدا کی گئی تھی۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "یار تو دن بدن پکا بک وارم بنتا جا رہا ہے مجھے تو تیرے ساتھ بیٹھتے ہوئے ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں کوئی چھوٹا موٹا سا تیرا سایہ مجھ پر نہ پڑ جائے ۔” اَرحم اسے ہر جگہ تلاش کرتے ہوئے لا ئبریری تک آیا تھا اور ارمان کے سامنے پھیلی موٹی موٹی کتابوں کو دیکھ کر کہے بنا نہیں رہ سکا ۔۔۔ "لیکن جواب ندارد "۔۔ "ارمان پوری توجہ اور دلجمعی کے ساتھ اپنے نوٹس مکمل کرنے میں مصروف تھا ۔” کچھ دیر تک منہ بسورے ارمان کو گھورتے رہنے کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی اَرحم کی توجہ سامنے کھلی بکس پر چلی گئی ۔ "بی ، پی لیتھی کمیونیکیشن سسٹمز "کے انتہائی اہم ٹاپکس سامنے کھلے پڑے تھے جو لیکچرز میں اُن کے سر کے اوپر سے گزر گئے تھے ۔ ایک تو پیریڈ بھی پہلا جس میں آدھی کلاس عموماٌ اونگھ رہی ہوتی ہے اوپر سے افضال سر جیسے سخت مزاج ٹیچر ، کسی کے کچھ بمشکل ہی پلے پڑتا تھا ۔ اللہ بھلا کرے سمارٹ فونز بنانے والی تمام کمپنیوں کا جن کی بدولت اب سٹوڈنٹس کے کئی مسائل چٹکی بجاتے میں حل ہو جاتے ہیں ۔ سو اَرحم بھی اپنا آئی فون سیون نکال کر تندہی سے نوٹس کی پکچرز بنانے لگا ۔۔ ارمان نے دو تین دفعہ اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا "مگر اَرحم جیسے ڈھیٹ پیس دنیا میں کم ہی پائے جاتے تھے "۔ البتہ اندر وہ بمشکل اپنی ہنسی دبائے ہوئے تھا ۔ "تھوڑی دیر پہلے اُس کے سائے سے بچنے کی باتیں کرنے والا اَرحم پکا نہیں تو نو زائیدہ بک ورم بن ہی گیا تھا ۔”

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    بی ایس کے لاسٹ سیمسٹر کاآخری پیپر دیکر آتے ہی منتہیٰ یوں گھوڑے ،گدھے، ہاتھی ببر شیر بیچ کر سوئی کہ پھر رات کو ہی شدید بھوک سے آنکھ کھلی ۔۔ وہ بھی شدید  بھوک پیٹ میں چوہے نہ دوڑ رہے ہوتے تو اس کا پکا ارادہ اگلی صبح جاگنے کا ہی تھا۔

    دادی کی ڈانٹ پھٹکارکچن تک اُس کا پیچھا کرتی رہی ۔۔ "اے لو "یہ کوئی وقت ہے جاگنے کا "دنیا جب سونے لیٹی تو یہ نواب زادی جاگی ہیں ، نا سونے جاگنے کا سلیقہ نا نماز کی قضا کا ہوش "۔ ارے دادی آپ کو کیا معلوم کہ "یہ امتحان کیا بلا ہوتے ہیں ، مہینوں کی تیاری جیسے اپنا آپ بھلا دیتی ہے” ۔ کچن سے دو پلیٹوں میں کھانا لے کر وہ دادی پاس ہی تخت پر آبیٹھی کہ” دادی کی میٹھی میٹھی ڈانٹ ہی تو تھی جو اس کا ہاضمہ درست رکھتی تھی”۔ اے ہے ۔”یہ اپنی موٹی موٹی کتابوں کے فلسفے اپنے پاس ہی رکھو ۔ ہم نے ساری زندگی امتحان سمجھ کے کاٹی ہے "۔کیسے کیسے دکھ جھیل کے تیرے باپ اور اس کے بہن بھائیوں کو پالا ، "تم آج کل کی لڑکیاں کیا جانو کہ ماں اپنی راتوں کی نیندیں حرام کرکے اولاد کو پالتی ہے اور پھر فجر سے اُسے شوہر اور سسرال کے لیے کولہو کے بیل کی طرح جتنا پڑتا ہے "۔ ” میری بچی زندگی کو ہر لمحہ امتحان سمجھوگی تو تمہیں زیادہ تیاریاں نہیں کرنی پڑیں گی ۔ جب اپنی ناؤ اللہ پاک کے ہاتھ میں دیدو تو پھر ہرآزمائش سہل ہو جاتی ہے "۔۔ "وہ جو قادر بھی ہے اور قدیر بھی وہ اپنے پیاروں کو آگ کے دریا بھی پار کرا دیتا ہے اس لیے کہ اُس کے پیارے امتحانوں سے گزرنے کی تیاریاں نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی حیاتی خدا اور اُس کے قوانینِ فطرت کے حوالے کر کے خود ہر فکر سے آزاد ہو جاتے ہیں "۔سر جھکائے چھوٹے چھوٹے نوالے ٹھونگتی دادی کی نصیحتیں سنتی رہی ، "مگر اس کا دھیان کہیں اورتھا "، ایسا نہ تھا کہ وہ اپنے بڑوں کی نا فرمان بچی تھی مگر” اس کی حد سے بڑھی ہوئی ذہانت ہر شے کو اپنے پیمانوں پر پرکھنے پر اکساتی تھی "۔ اس کے چند دن گھر میں خالی بیٹھ کر گزارنا دوبھر تھا ،بی ایس کے رزلٹ میں کچھ ٹائم تھا سو اس کا سارا وقت اب لیپ ٹاپ پر سرچنگ اور سرفنگ پر گزرتا تھا ، "گھر بار کے بکھیڑوں سے اسے کبھی بھی کوئی دلچسپی نہ رہی تھی "۔ چند روز بعد منتہیٰ پنجاب یونیورسٹی ایڈمیشن فارم ڈاؤن لوڈ کر رہی تھی کہِ ارسہ سر پر نازل ہوئی ۔وہ کچھ جز بز تو ہوئی لیکن اپنی دونوں چھوٹی بہنیں اُسے جان سے زیادہ عزیز تھیں ۔ "ملک غلام فاروق دستگیر کا چھ افراد پر مشتمل یہ کنبہ فیصل آباد سول لائنز ایریا میں برسو ں سے آباد تھا ۔ ملک صاحب پنجاب حکومت کےایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں سترہ گریڈ کے آ فیسر اور پیشے کے لحاظ سے کیمیکل انجینئر تھے”۔ اُن کی وفا شعار بیوی عاصمہ ، بوڑھی والدہ اور تین بیٹیاں منتہیٰ، اِرسہ اور رامین ہی ان کی کل کائنات تھیں ۔ "وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھلی ذہنیت والے انسان تھے، سو انہوں نے اپنی بیٹیوں کی تربیت بھی بیٹوں کی طرح کی تھی "، خصو صاٌ سب سے بڑی منتہیٰ سے انھیں بے شمار توقعات وا بستہ تھیں ۔” سکول سے یونیورسٹی تک ٹاپ پوزیشن کے ساتھ وہ ایک بہترین مقررہ ، رائٹر اور پینٹر تھی "۔

    ان کی باقی دونوں بیٹیاں بھی ما شاء اللہ بہت با صلا حیت تھیں ۔۔ "اِرسہ کمپیوٹر انجینئرنگ میں اور رامین ابھی پری میڈیکل میں تھی” وہ ان باپوں میں سےہرگز  نہ تھے "جو بیٹیوں سے جلد از جلد جان چھڑانے کے چکر میں انھیں غلط ہاتھوں میں سونپ دیتے ہیں اور یہ معصوم کلیاں کھلنے سے پہلی ہی مرجھا جاتی ہیں "۔ اسی لیے بی ایس سے فارغ ہوتے ہی جب ان کی اکلوتی بہن اپنے بیٹے کا رشتہ منتہیٰ کے لیے لائی تو انہوں نے بیٹی کی مرضی معلوم کرنے کا کہہ کر کچھ وقت مانگا تھا۔

    ” ذاتی طور پر وہ چھوٹی عمر کی شادی کی حق میں بلکل نہیں تھے ، اس لیے انہیں کوئی خاص جلدی نہیں تھی ، مگر ان کی والدہ اور بیوی عاصمہ کو تین بیٹیاں پہاڑ جیسا بوجھ نظر آتی تھیں "۔ "جن کے خیال میں لڑکیاں تو بس کولہو کا بیل ہوتی ہیں ، جدھر ہانک دو چل دیں گی ، جس کھونٹے سے باندھ دو ساری عمر وہیں بتا دیں گی مگر حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائیں گی”۔ "اور اب یہی مژدۂ لے کر ارسہ منتہیٰ کے سر پر سوار تھی "۔ اپنے مستقبل کی پلاننگ میں اس غیر متوقع آپشن کی آمد پر منتہیٰ کا سر چکرایا ۔ امی اور دادی سے بات کرنے کا مطلب آ بیل مجھے مار تھا "سو دونوں بہنیں سر جوڑ کے بیٹھ گئیں کہ اِس بلائے  نا گہانی سے کس طرح جان چھڑائی جائے "۔

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

    "ارمان یوسف سے اُس کا پہلا تعارف سوشل میڈیا کے توسط سے ہوا "۔ فیس بک پر منتہیٰ نے کئی جرنل نالج گروپس، کوئز اور معلوماتی تقاریر کی وجہ سے جوائن کیے ہوئے تھے اِنہی میں سے ایک گروپ میں "انسان کا چاند پر پہلا قدم اور نیل آرم سٹرونگ کی صداقت "پر ایک دھواں دھار ڈیبیٹ جاری تھی ۔

    اِس طویل ترین پوسٹ پرکمنٹس کی تعداد ہزاروں میں جا چکی تھی لیکن منتہیٰ سمیت کوئی بھی اپنے مؤ قف سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھا ۔ منتہیٰ کا اِستدلال یہ تھا "کہ اپالو ۱۱ کی جو نشریات براہِ راست دکھائی گئی تھیں وہ فیک یا پکچرائز ہر گز نہیں تھیں”۔ جبکہ مخالف پارٹی سے ارمان یوسف اپنی بات پر اڑا ہوا تھا،کہ” ناسا جو دنیا بھر میں خلا سے متعلق مستند ادارہ سمجھا جاتا ہے ، امریکی فیڈرل بجٹ اور مختلف سپانسر کی مد میں تقریباٌ ۲۰ بلین ڈالرکی خطیر رقم اس مشن پر جھونک چکا تھا "۔ "اگر یہ چاند پر لینڈنگ کی یہ ویڈیو یوں ٹیلی کاسٹ نہ کی جاتی تو ناسا کے سارے سپانسرز بند ہو جاتے "۔ جبکہ انہیں فوری طور پر "مارس مشن کے لیے اس سے بڑی رقم درکار تھی "۔”اس کے علاوہ سوویت یونین خلائی دوڑ میں امریکہ سے برتری حاصل کر چکا تھا ، ناصرف خلا میں پہلا قدم رکھنے والے انسان کا اعزاز روس کے پاس تھا ، بلکہ جلد ہی وہ چاند پر بھی کمندیں ڈالنے والے تھے”۔ "سو اپنے سب سے بڑے حریف کو مات دینے کا یہ ایک بہترین طریقہ تھا جو ناسا کے تھنک ٹینکس نے یوں مؤثر طور پر ڈیزائن کیا کہ اس پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا” ۔ مگر بہرحال یہ سب کچھ اب تک قیاسات ہی ہیں ۔

    ” ہفتوں جاری رہنے والی یہ ڈبیٹ منتہیٰ کے ارمان سے تعارف کا سبب بنی "۔”کو ئی نہیں جانتا تھا کہ انسان کا چاند پر پہلا قدم سے شروع ہونے والا یہ تعارف وفا اور ایثار کی ایک لازوال داستان کو جنم دینے والا ہے”۔

    مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

  • اعضاء کی پیوند کاری۔ انسان اورجانورکے جینز کا خلطہ تیار

    اعضاء کی پیوند کاری۔ انسان اورجانورکے جینز کا خلطہ تیار

    آج کے دور میں انسان کو جتنی زیادہ طبعی سہولیات دستیاب ہیں اس سے پہلے نہ تھیں ، اس کے باوجود دنیا کے ہر خطے میں لوگ نت نئی بیماریوں کا شکار ہیں۔ کہیں ویکسین افاقہ دے جاتی ہے تو کہیں اینٹی بایوٹکس۔ ان سے بھی آرام نہ آئے تو آپریشن کی سختی سے گزرنا ناگزیر سمجھا جاتا ہے، پیچیدہ ترین امراض کے لیے ڈونیٹڈ یا عطیہ شدہ اعضاء کی پیوند کاری بھی دنیا بھر میں ایک عام طریقۂ علاج ہے جس کے لیے بڑے پیمانے پر باقاعدہ ادارے سر گرمِ عمل ہیں اور بین الاقوامی سطح پر مریضوں کی انرولمنٹ کی جاتی ہے جس میں ہر دس منٹ کے بعد ایک نام کا اضافہ ہو رہا ہے ۔مگر عطیہ شدہ اعضاء کی قلت کا یہ عالم ہے کہ ہر روز اس فہرست میں شامل بائیس افراد انتظار کی سولی پر لٹکے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔

    اعضاء کی پیوند کاری میں درپیش ایک اور بڑا مسئلہ ٹشوز اوربلڈ گروپ کی میچنگ کا بھی ہے ، بعض اوقات کسی مریض کو بروقت کسی دوسرے شخص کا عضو لگا دیا جاتا ہے مگر وہ اس کے جسمانی نظام کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں ہو پاتا اور پیچیدگیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔


    چینی سائنسدانوں کا انسانوں کی کلوننگ کی صلاحیت حاصل کرنے کا دعویٰ


     سائنسدان ایک طویل عرصے سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں دن رات ایک کیئے ہوئے تھے تاکہ مصنوعی اعضاء کی تخلیق کو ممکن بنایا جاسکے، اس حوالے سے حال ہی میں ایک بریک تھرو سامنے آیا ہےاور سالک انسٹی ٹیوٹ کی سیل جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سائنسدان خنزیر (پگ) کا ایک ایمبریو بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس میں خنزیر کے سیلز میں انسانی خلیات کو انفاذ یا انجیکٹ کیا گیا ہے ، جنوری میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کی ریلیز کے وقت یہ ایمبریو چار ہفتے کا ہوچکا تھا۔

    humain-post

    اس تحقیق کو دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر سراہا گیا اور امید ہوچلی ہے کہ انسانی خلیات خنزیر کی طرح دیگر جانوروں کے جسم میں بھی با آسانی نشونما پا سکیں گے جس سے پیوند کاری کے لیئے دستیاب اعضاء کی قلت پرکسی حد تک قابو پانا ممکن ہوگا ۔ مگر دوسری طرف اس بریک تھرو نے ایک تنازعہ بھی کھڑا کر دیا ہے، لوگ نفسیاتی طور پر ایسے اعضاء کی پیوند کاری کے حق میں ہرگز نہیں ہیں جن کی تخلیق کا عمل کسی جانور کے جسم میں ہوا ہو۔

    اس کے علاوہ اس طرح کی بایو میڈیکل تکنیک سے جو عجیب الخلقت جانور جنم لیں گے وہ زمین پر کسی نئے فساد کا بھی سبب بن سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پراجیکٹ کو اب تک گورنمنٹ کی سر پرستی حاصل نہیں ہو سکی اور سالک انسٹیٹیوٹ کے سائنسدان پرائیوٹ ذرائع سے امداد حاصل کر کے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں ۔کیونکہ اس کے متعلق عمومی عوامی رائے یہ ہے کہ آلو ، پیاز اور ہری مرچ کی طرح انسانی اعضاء کو بھی حسبِ خواہش اگایا جا سکے گا جس میں انسان اور جانور دونوں کے مخلوط سیل شامل ہوں گے۔


    ڈی این اے میں تبدیلی کے ذریعے’ڈیزائنربچے‘پیدا کریں


    سالک انسٹی ٹیوٹ کے لیڈ سٹڈی رائٹر کے مطابق اس بریک تھرو سےہم جلد ہی اینجل ( فرشتوں) جیسی مخلوق بنانے کے قابل ہوجائیں گے۔ اس مقصد کے لیے کسی پرندے کے انڈے میں انسانی خلیات کو انجیکٹ کیا جائیگا ۔ مگر اس طرح کے بے سرو پا تصورات نے اس جدید تحقیق کو ایک بڑے تنازعے میں تبدیل کردیا ہے، کیونکہ سائنسدانوں کا اصل مقصد کسی منفی رخ پر جا کر عجیب الخلقت جانوروں کی تخلیق کے بجائے صرف اور صرف پیوند کاری کے لیئے اعضاء کی قلت پر قابو پانا تھا ۔ جس کے لیے وہ ابھی امبریو لیول پر خنزیر میں انسانی سیلز کی نشونما پر دھیان دیئے ہوئے ہیں اور فی الوقت جینوم ایڈیٹنگ ٹول استعمال کر رہے ہیں ، تاکہ حسبِ خواہش ایک مخلوط بنایا جا سکے۔

    اگرچہ سائنسدان اب تک اپنی اس تحقیق سے پوری طرح مطمئن ہیں اور انہیں قوی امید ہے کہ یہ تکنیک ناصرف پیوند کاری میں معاون ثابت ہوگی بلکہ اس کے ذریعے انسانی جسم میں ایمبریو کی تشکیل اور پیدائشی امراض کو مزید بہتر طور پر سمجھا جا سکے گا۔ مگر مستقبل قریب میں یہ تکنیک کون سے گل کھلانے والی ہے اس کے بارے میں سوشل میڈیا پر طرح طرح کی پیشن گوئیاں کی جا رہی ہیں۔

  • موبائل فون کی چارجنگ کے لیے سولر کوٹ تیار

    موبائل فون کی چارجنگ کے لیے سولر کوٹ تیار

    ٹوکیو: جاپان کے سائنس دان نے ایسا کوٹ تیار کیا ہے جو شمسی توانائی سے بجلی بنا کر اسمارٹ فون، ٹیبلٹ سمیت دیگر آلات کو  بیٹری ختم ہونے کے باوجود کبھی بند نہیں ہونے دے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سائنسی دنیا میں نت نئی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے، جس تیزی کے ساتھ دنیا کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اُسی تیزی کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی نئی نئی ایجادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    انسانی زندگی کو آسان کرنے اور ہروقت رابطہ رکھنے کے لیے پہلے پہل موبائل فون ایجاد کیا گیا تاہم ٹیکنالوجی کی دنیا نے ترقی کرتے ہوئے اسے جدید سے جدید ترین سہولیات سے آراستہ کیا یہی وجہ ہے کہ اب اسمارٹ فون صارف صرف ایک کلک پر دنیا بھر میں رہنے والے کسی بھی شخص سے انٹرنیٹ کے ذریعے باآسانی رابطہ کرسکتا ہے۔

    charging-1

    اسمارٹ فونز کی ایجادات کے ساتھ ہی صارفین کو اس کی چارجنگ جلد ہونے کی شکایات کا سامنا ہے، اس ضمن میں دنیا بھر کے سائنس دان مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کوشاں ہیں جس کے لیے وہ نت نئے تجربات بھی کرتے رہتے ہیں۔

    charging-2

    جاپان کے ایک سائنس دان نے ایسا کوٹ ایجاد کیا ہے جو سورج کی روشنی کو جذب کر کے  موبائل فون و دیگر برقی آلات چارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کوٹ میں 2 عدد سیل لگائے گئے ہیں جو سولر سسٹم کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

    charging-3

    شمسی توانائی سے برقی آلات کو چارج کرنے والے اس کوٹ کو جونیا وٹنا نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا ہے جو اچھوتے اور غیر معمولی لباس تیار کرنے کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں، اس کوٹ کو ایف ڈبلیو 16 کا نام دیا گیا ہے۔

    کوٹ میں خصوصی طور پر ایک مائیکرو یو ایس بی پورٹ نصب کی گئی ہے جو موبائل فون کی چارجنگ کے لیے کارآمد ہے جب کے اس کی قیمت پاکستانی روپے کے حساب سے 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔

  • انسانوں جیسا روبوٹ جسے پہچاننا مشکل

    انسانوں جیسا روبوٹ جسے پہچاننا مشکل

    بیجنگ: چین میں منعقدہ عالمی روبوٹ کانفرنس میں خاتون سے مماثلت رکھنے والا ایسا حیرت انگیز روبوٹ متعارف کرایا گیا جسے دیکھ کر خاتون اور روبوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہے جسے خاتون روبوٹ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بیجنگ میں منعقدہ ’’ورلڈ روبوٹ کانفرنس 2016ء‘‘ میں لوگوں کی توجہ حاصل کرنے والا یہ روبوٹ ایک ادارے  نے تیار کیا ہےجسے ’’جیا جیا‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو آپ سے بات کرسکتا ہے اور آپ کے چہرے کو پہچاننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

    جیا جیا نامی روبوٹ خاتون سے منسوب ہے ، یہ خاتونی روبوٹ چہرے کی پہچان ، جنس کی امتیاز اور لوگوں کی عمر کے ساتھ ساتھ چہرے کے تاثرات بھی شناخت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس میں ایسی ٹیکنالوجی شامل کی گئی ہے جو انسانی زبان اور چہرے کے تاثرات کو سمجھنے میں کافی حد تک مدد دیتی ہے۔

    robot-2

    ورلڈ روبوٹ کانفرنس میں پیش کیے جانے والے جیا جیا نے لوگوں کے سوالات کے جواب دیے اور ان کے تاثرات سمجھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے باقاعدہ بات چیت بھی کی۔

    روبوٹ بنانے والی ٹیم کے سربراہ لوڈونگ چی نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے اپنی کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ  یہ رواں سال کے ابتداء میں مکمل ہوگیا تھا تاہم ابھی بھی ہمیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔

    robot-4

    انہوں نے کہا کہ جیا جیا کو جب نمائش میں پیش کیا گیا تو اُس وقت کئی مسائل درپیش آئے جن میں چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر قدرتی ردعمل دیکھنے میں مشکلات پیش آئیں چونکہ یہ تاثرات انسان کی خامیوں یا خوبیوں کو بیان کرتے ہیں۔

    پڑھیں: چین میں روبوٹس کی سالانہ کانفرنس کا تصویری احوال

     نمائش میں متعدد انسانی روبوٹس پیش کیے گئے تھے جو مختلف اہمیت کے حامل تھے، جس میں ایک بیٹ منٹ تھا جو انسانوں کے ساتھ مختلف کھیل کھیلنے میں مصروف تھا جبکہ بائیونک پرندوں اور تتلیوں کو بھی کانفرنس کا حصہ رکھا گیا تھا۔

    robot-5

    اس موقع پر ایک ایسا روبوٹ بھی پیش کیا گیا جو خطاطی کی صلاحیتوں سے لوگوں کو حیران کررہا ہے، اسے تیار کرنے والی ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، اگلے مرحلے میں یہ انسانوں کی نقل اتارنے اور آخری مرحلے پر یہ اُن کے متبادل کی صورت اختیار کرجائے گا۔

    robot-3

    یاد رہے کہ گزشتہ  برس بھی نمائش میں ایک خاتون روبوٹ کو پیش کیا گیا تھا جو اب ایک فلم میں مرکزی کردار بھی ادا کررہی ہے۔

  • زیر آب پہاڑوں کی موجودگی کا انکشاف، روبوٹس تصاویر لے کر واپس پہنچ گئے

    زیر آب پہاڑوں کی موجودگی کا انکشاف، روبوٹس تصاویر لے کر واپس پہنچ گئے

    لندن: برطانوی سائنس دانوں کی جانب سے زیر آب بسنے والی دنیا کےحوالے سے  بھیجے گئے روبوٹس کی واپسی گئی جس سے حاصل کردہ تصاویر اور شواہد پر مزید تحقیق کا عمل شروع کردیا گیا جن سے معلوم ہواکہ گہرے سمندر میں پہاڑ بھی موجود ہیں.

    تفصیلات کے مطابق برطانوی سائنس دانوں کی جانب سے بھیجے گئے آبدوزی روبوٹس کو ایک کشتی کے ذریعے کنٹرول کیا گیا، یہ روبوٹس سطح سمندر میں جاتے ہیں اور کشتی میں بیٹھے سائنس دان مشاہدے کے لیے اسکرین پر آنے والی تصاویر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

    BBC-3
    زیر آب کائنات کی تصاویر

    اس ریسرچ کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ مشرقی اسکاٹ لینڈ کے ساحل پر واقع بلند و بالا پہاڑ موجود ہیں، جن پر مونگا اگتا ہے جو سمندری مخلوق کا اہم مسکن ہے، اس مقام پر ریسرچ کرنے میں 6 ہفتوں کا وقت لگا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ’’روبوٹس کو سطح سمندر میں 2 ہزار میٹر تک بھیج کر مشاہدہ کیا گیا، اس دوراں حیران کُن طور پر معلوم ہوا کہ سمندر کے اندر بڑے پہاڑ موجود ہیں اور یہاں رہنے والی مخلوق اپنی زندگی بسر کررہی ہے۔ مھحققین کا کہنا ہے کہ یہاں انواع و اقسام کی آبی مخلوقات موجود ہیں.

    BBC-2
    زیر آب پہاڑ

    ریسرچ کے دوران زیر زمین کئی پہاڑوں کی تصاویر لی گئیں جس میں سب سے بلند پہاڑ کی لمبائی 1 ہزار 7 سو میٹر تک ریکارڈ کی گئی مگر یہ سب زیر آب ہیں۔6 ہفتے کی تحقیقات کے بعد ماہرین کی یہ کشتی اب واپس برطانیہ آگئی ہے جو اب وہاں سے موصول ہونے والی تصاویر اور شواہد کا تفصیلی مشاہدہ کیا جائے گا۔

    BBC-4

    آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی مشیل ٹیلر کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ریسرچ بہت اچھی ہوتی ہیں، آپ نہیں جانتے کہ سمندر کی اندھیری سطح میں جاکر آپ کیا کریں گے،اس زیر آب پہاڑ کو پہلی بار کسی نے دیکھا ہے، اس جگہ بسنے والے جانوروں کی زندگی بہت دلچسپ ہے۔

    آبی حیات کی ماہر کیری ہاول کا کہنا ہے کہ ’’اکثر لوگوں کا سوچنا ہے کہ سمندر مٹی کا ایک صحرا ہے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے  کیونکہ ان پہاڑوں پر جانور ہیں اور ایک علیحدہ زندگی ہے۔

  • تھری ڈی فلموں کے ناظرین کے لئے  خصوصی ہیلمٹ تیار

    تھری ڈی فلموں کے ناظرین کے لئے خصوصی ہیلمٹ تیار

    ٹوکیو : جاپان نے تھری ڈی فلموں کے دیکھنے کے لئے دوربین کی شکل کا نیا ہیلمٹ متعارف کرادیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق  سونی کمپنی نے ایچ ایم زیڈ ٹی ون نامی ہیلمٹ متعارف کروادیا ہے۔ یہ تھری ڈی فلموں کو صرف ایک شخص کی آنکھوں تک محدود رکھنے کے کام آئے گا۔ ایل ای ڈی ٹیکنالوجی کے استعمال سے تیار ہونے والے اس الیکٹرونک آلے میں ساؤنڈ سسٹم بھی موجود ہے۔

    تھرڈی دیکھنے کے شوقین افراد کی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے جاپان کےانجینئرزسر توڑ کوششوں کے بعد بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اب ناظرین گھر بیٹھے سینما کا لطف اٹھاتے ہوئے من پسند فلمیں باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ یہ ڈیوائس پلے اسٹیشن اوراس طرح کی دیگر ڈیوائسسز  کے ساتھ بھی منسلک کی جاسکتی ہے۔ اس ہیلمٹ کی قیمت  763 ڈالر مقرر کی گئی ہے اورمارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کیا جاچکا ہے۔