Tag: SCIENTIST

  • کیوبا کی کورونا ویکسین مؤثر ہے، سائنسدانوں نے بڑا دعویٰ کردیا

    کیوبا کی کورونا ویکسین مؤثر ہے، سائنسدانوں نے بڑا دعویٰ کردیا

    ہوانا : کیوبا کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی تیار کردہ کورونا ویکسین انتہائی موثر اور محفوظ ہے، مذکورہ ویکیسن عالمی ادارہ صحت کے معیار پر بھی پورا اترتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کیوبا کی کوویڈ-19 ویکسین ابدالا کے 92.28 فیصد موثر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اس ویکسین کو تیار کرنے والے سینٹر برائے جینیٹک انجینئرنگ اینڈ بائیوٹیکنالوجی (سی آئی جی بی) نے یہ دعویٰ کیا ہے۔

    اس حوالے سے ترجمان سی آئی جی بی نے کہا ہے کہ ابدالا 92.28 فیصد موثر پائی گئی ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے معیار پر پورا اترنے والی یہ دوسری ویکسین ہے۔”

    اس سے قبل کیوبا کی بائیوٹیک کمپنیوں کے ایک گروپ بائیوکابا فارما نے فنلے انسٹی ٹیوٹ کے تیار کردہ سوبرانا 01 سوبرانا 02 ویکسین کو 62 فیصد موثر پایا تھا۔

    اب تک کیوبا کے ماہرین نے کورونا وائرس کے خلاف پانچ ویکسین تیار کی ہیں۔ سوبرانا 01 ، سوبرانا 02 ، سوبرانا پلس ، ابدالہ اور ممبیسہ۔ سوبرانہ 02 اور ابدالہ کو صنعتی طور پر تیار کیا جارہا ہے۔

  • یونیورسٹی نے داخلہ نہ دیا، امریکی ادارے نے پاکستانی نوجوان کو سائنسدان بنادیا

    یونیورسٹی نے داخلہ نہ دیا، امریکی ادارے نے پاکستانی نوجوان کو سائنسدان بنادیا

    کراچی : امتحانات میں نمبروں کی دوڑ طلبا کی زندگیوں کو مشکل میں ڈال رہی ہے، کم نمبروں پر ایک نوجوان کو ملک کی کسی بھی یونیورسٹی نے داخلہ نہ دیا لیکن امریکی ادارے نے اسے سائنسدان بنادیا، عمیر مسعود نے بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستانی کی نمائندگی بھی کی۔

    میٹرک اور ایف ایس سی میں کم نمبروں کی وجہ سے پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ایک سال تک داخلے سے محروم  رہنے والے ایبٹ آباد کے نوجوان طالب علم 21سالہ عمیر مسعود کو بین الاقوامی امریکی ادارے لیب روٹ نے ینگ سائنٹسٹ کا ایوارڈ دیا ہے۔

    عمیر مسعود کو لیب روٹ نے یہ اعزاز دو الگ الگ سائنسی تحقیقات کرنے پر دیا ہے۔ یہ دو تحقیقاتی مقالے انہوں نے انٹرنیشنل کانفرنس آف مالیکیولر بیالوجی اینڈ بائیو کمیسٹری آسٹریلیا اور 13 ویں انٹرنشینل کانفرنس آف ٹشو اینڈ ری جنریٹو میڈیسن امریکہ میں پیش کیے تھے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اس 21سال کے ہونہار طالب علم عمیر مسعود نے اپنی بے انتہا محنت اور لگن کے حوالے سے ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ کم نمبر ہونے کے باعث یہاں پر کسی یونیورسٹی نے داخلہ نہیں دیا تو میں نے ایک امریکی ادارے سے آن لائن کلاسز لینا شرع کردیں۔

    عمیر مسعود نے کہا کہ میں مسلسل ساڑھے تین سال تک کوششوں میں لگا ہوا تھا تحقیقی مقالوں میں کئی بار فیل بھی ہوا مالی طور پر بھی پریشانی تھی لیکن کبھی ہمت نہیں ہاری۔

    اس موقع پر ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ بہت خوشی کی بات ہے کہ پاکستان کے ایک بچے نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی جو قابل تحسین ہے، اور مجھے عمیر کو داخلہ نہ ملنے کا بھی افسوس ہے۔

    تعلیمی نظام کے حوالے سے ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ جب لاکھوں طلباء داخلے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو سب کو انفرادی طور پر دیکھنا ناممکن ہوتا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں کونسلنگ کا نظام ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے یہاں نہیں۔

    مستقبل کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں عمیر مسعود نے کہا کہ میری خواہش اور کوشش ہے کہ دنیا میں جتنے لوگ جنیاتی بیماری کا شکار ہیں ان کا آسان اور سستا علاج ہو۔

    انہوں نے کہا کہ میری سب سے پہلی ترجیح پاکستان ہے اور میں جس بیماری پر ریسرچ کررہا ہوں اگر مجھے حکومت سہولیات فراہم کرے تو میں یہاں رہ کر اپنی خدمات انجام دینا چاہتا ہوں۔

  • کورونا ویکسین کی تیاری اب تک کہاں پہنچی؟ جانئے مفصل رپورٹ

    کورونا ویکسین کی تیاری اب تک کہاں پہنچی؟ جانئے مفصل رپورٹ

    دنیا بھر میں کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور اتنی ہی تیز رفتاری سے سائنسدان اس کے خلاف ویکسین کی تیاری میں بھی مصروف ہیں، اس سلسلے میں اب تک متعدد ویکیسنز تجرباتی مراحل میں ہیں۔

    دنیا بھر میں دوا ساز کمپنیاں اور تحقیقاتی ادارے کورونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں اور عالمی سطح پر ہزاروں افراد پر کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں جو مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں۔

    عالمی وبا نے اب تک دنیا میں پانچ کروڑ 87 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے جبکہ 13 لاکھ 90 ہزار لوگ اپنی جان کی بازی ہارچکے ہیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت مجموعی طور پر انسانوں پر54 ویکسینز کے ٹرائلز جاری ہیں، ہم پہلے جائزہ لیتے ہیں کہ ویکسین کے ٹرائلز کن مراحل سے گزرتے ہیں اور اب تک دنیا میں اس کی تیاری کس سطح پر ہے۔

    برطانوی خبر رساں ادارے اور معتبر امریکی اخبار سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ویکسین کے ٹرائلز کا آغاز رواں برس مارچ میں ہوا اور اب تک 13 ویکسینز ٹیسٹنگ کے فائنل مراحل تک پہنچ چکی ہیں۔

    خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ ویکسینز جسم میں بیماری کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر کے کورونا کی وبا کو مزید پھیلنے سے تو روک سکتی ہیں لیکن یہ بیماری کا مکمل علاج نہیں کرسکتیں۔

    ویکسین ٹرائل کے مراحل

    پہلا مرحلہ پری کلینکل ٹیسٹنگ کا ہے جس میں سائنسدان نئی ویکسین کا خلیوں پر تجربہ کرتے ہیں اور جانوروں پر پھر اس کا تجربہ کر کے دیکھا جاتا ہے کہ اس کا کیا ردعمل ہے؟ اس وقت دنیا بھر میں87 ویکسینز پہلے مرحلے میں ہیں۔

    فیز ون سیفٹی ٹرائلز

    دوسرے مرحلے میں ماہرین محدود تعداد میں لوگوں کو ویکسین کی آزمائشی خوراک دے کر کے دیکھتے ہیں کہ یہ محفوظ ہے یا نہیں اور کیا اس کا نظام مدافعت پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔

    فیزٹوٹرائلز

    اس مرحلے میں یہ ویکسین سینکڑوں افراد کو ان کی عمر کے حساب سے گروپس بنا کر دی جاتی ہے۔ اس مرحلے سے ویکسین کے محفوظ ہونے اور اس کے نظام مدافعت پر موثر یا غیر موثر ہونے کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

    فیزتھری ٹرائلز

    اس مرحلے میں دیکھا جاتا ہے کہ ویکسین کتنی مؤثر ہے؟ سائنسدان ہزاروں افراد پر ویکسین کا تجربہ کرتے ہیں یہ ٹرائلز اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ویکسین کورونا وائرس سے بچاتی ہے یا نہیں۔

    ویکسین کی منظوری

    یہ ویکسین کو استعمال کرنے کے لیے آخری مرحلہ ہے جس میں کسی ملک کے ریگولیٹرز ٹرائلز کے نتائج کا جائزہ لیتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ ویکسین کو منظور کیا جائے یا نہیں۔ تاہم وبا کے دوران کسی ویکسین کو باقاعدہ منظوری سے پہلے ایمرجنسی استعمال کی اجازت مل سکتی ہے۔

    کون سی ویکسین کتنی موثر اور کب مہیا ہو گی؟

    فائزر اور بائیو این ٹیک

    ذرائع کے مطابق امریکی دوا ساز کمپنی فائزر اور اس کی شراکت دار کمپنی بائیو این ٹیک نے 18 نومبر کو فائنل اسٹیج ٹرائلز کا ڈیٹا شیئر کیا جس کے مطابق یہ ویکسین کورونا وائرس کو روکنے میں95 فیصد مؤثر ہے۔

    یہ پہلی کمپنیاں ہیں جنہوں نے فیز تھری کا ڈیٹا شائع کیا ہے اور امریکہ میں اس ویکسین کا ایمرجنسی استعمال چند دنوں میں شروع ہو جائے گا۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی اور آیسٹرا زینیکا

    پیر کو برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینیکا کی طرف سے تیار کی گئی ویکسین 70.4 فیصد افراد کو کورونا وائرس کا شکار ہونے سے بچاسکتی ہے۔

    ڈیٹا میں دیکھا گیا ہے کہ اس کی کم خوراک کے استعمال سے 90 فیصد افراد کو کورونا سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ آسٹرا زینیکا نے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر دنیا بھر میں ریگولیٹرز کو منظوری کے لیے ڈیٹا مہیا کرے گی۔

    موڈرنا

    امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی موڈرنا نے 16 نومبر کو عبوری ڈیٹا جاری کیا اور کہا کہ اس کی ویکسین 94.5 فیصد مؤثر ہے۔ موڈرنا جلد منظوری کے لیے ویکسین کا ڈیٹا مہیا کرے گی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا فیصلہ دسمبر میں متوقع ہے۔

    سپوتنک فائیو ویکسین

    روس میں بنائی جانے والی سپوتنک فائیو ویکسین کی جانب سے11 نومبر کو جاری کیے گئے فائنل اسٹیج ڈیٹا کے مطابق یہ ویکسین 92فیصد موثر ہے۔ روس میں یہ ویکسین 10 ہزار افراد کو دی جا چکی ہے۔

    چائنیز ویکسینز

    چین نے جولائی میں ویکسین کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت دی تھی جن میں چائینہ نیشنل بائیو ٹیک گروپ، کین سینو بائیو لاجیکس اور سینو ویک بائیو ٹیک کی ویکسینز شامل ہیں۔

    سینو ویک نے18 نومبر کو کہا تھا کہ درمیانی اسٹیج کے ٹرائلز سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی کورونا ویک ویکسین نے تیزی سے مدافعتی تعاون کیا لیکن کورونا سے صحتیاب ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز پیدا کرنے میں اس کا رسپانس بہت کم تھا۔

    ویکسین کی اسٹوریج

    فائزر اور بائیو این ٹیک کی طرف سے متعارف کروائی گئی ویکسین کو چھ ماہ تک اسٹور کیا جاسکے گا اور اس کے لیے منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت چاہیے ہوگا جبکہ موڈرنا کی ویکسین منفی 20 ڈگری درجہ حرات میں اسٹور کی جا سکے گی جو عام طور پر فریزر کا درجہ حرارت ہوتا ہے اور اسے بھی چھ ماہ تک اسٹور کیا جا سکے گا۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی اور آیسٹرا زینیکا کی ویکسین کو عام فریج کے درجہ حرارت پر اسٹور کیا جا سکے گا۔ اسی طرح روس کی سپوتنک فائیو ویکسین بھی فریج کے درجہ حرارت میں رکھی جا سکے گی یعنی ان ویکسینز کو دنیا کی کسی بھی کونے میں پہنچانا آسان ہوگا۔

    ویکسین کی قیمت

    برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق موسم گرما میں موڈرنا نے ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 37 امریکی ڈالرز بتائی تھی. جانسن اینڈ جانسن نے ویکسین کی ایک خوراک کی قیمت 10 ڈالرز رکھی ہے، فائزر نے 20 ڈالر جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی اور آیسٹرا زینیکا نے اس کی قیمت تقریباً چار ڈالر بتائی ہے۔

    ترقی پذیر ممالک کو ویکسین کی فراہمی

    سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ غریب ممالک تک ویکسین کی رسائی کس طرح ممکن ہو گی۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فارماسوٹیکل کمپنیوں کی جانب سے ویکسین بنانے کے بعد امیر ممالک ویکسین کی تقسیم کو محدود کر دیں گے۔

    روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے جی 20 سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین سے متعلق ریاض سربراہ کانفرنس پراجیکٹ کے حامی ہیں۔ کورونا ویکسین کی فراہمی سب کے لیے ضروری ہے۔ روس غریب ملکوں کو ویکسین مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔

    اس سے قبل چین نے مستقبل میں ترقی پذیر ممالک کو کورونا ویکسین کی تقسیم کے حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ویکسین کی تیاری کے لیے بنائے گئے پلیٹ فارم کوویکس نے عہد کیا ہے کہ جیسے ہی کوئی ویکسین بنائی جاتی ہے اسے غریب تر ممالک تک پہنچایا جائے گا۔

    اس سے قبل چین کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ چین ویکسین کی تیاری کے لیے بنائے گئے پلیٹ فارم کوویکس میں شامل ہو گیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ چین کی ویکسین ترقی پذیر ممالک کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی۔

  • کورونا وائرس کب اور کیوں پھیلتا ہے، اس سے کیسے بچا جائے؟

    کورونا وائرس کب اور کیوں پھیلتا ہے، اس سے کیسے بچا جائے؟

    جان لیوا کرونا وائرس چین کے صوبے ہیوبے کے ووہان شہر سے پھیلتا ہوا دنیا بھر کے ممالک تک جاپہنچا ہے، جب سے ہی اس کے بارے میں جاننے کے لیے سائنسدان مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔

    ایسے افراد جو نئے نوول کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں، ان کی جانب سے کووڈ 19 کا شکار ہونے کے بعد اولین 7 دن میں اسے دیگر صحت مند افراد میں منتقل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے دو لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ 11ہزار سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔

    اگرچہ اب بھی اس وائرس کے بارے میں بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا مگر تحقیق سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس بہت تیزی سے پیش رفت کرتا ہے۔ اس وقت کرونا وائرس کے انسانوں پر حملے جاری ہیں جس سے دنیا بھر میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

    کرونا وائرس 1960ء میں پہلی بار متعارف ہوا۔ اب تک 13 اقسام دریافت ہوچکی ہیں جن میں سے 7 اقسام ایسی ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتی ہیں۔ کرونا وائرس دودھ دینے والے جانوروں اور پرندوں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔

    یہ انفلوائزا کی ایک قسم ہے جو ناک کے ذریعے پھیپھڑوں میں منتقل ہوتا ہے جس سے وائرس سے متاثر ہونے والے فرد کو سانس لینے میں تکلیف اور دشواری ہوتی ہے۔

    بنڈسوئیر انسٹیٹیوٹ آف مائیکرو بائیولوجی، Klinikum München-Schwabing، CharitéUniversitätsmedizin Berlin اور یونیورسٹی ہاسپٹل ایل ایم یو میونخ کی یہ تحقیق ابھی کسی جریدے میں شائع نہیں ہوئی، یعنی دیگر سائنسدانوں نے اب تک اس کے معیار اور مستند ہونے کا تجزیہ نہیں کیا۔

    تحقیق کے نتائج سے ممکنہ عندیہ ملتا ہے کہ آخر کیوں یہ وائرس بہت آسانی سے پھیل رہا ہے، کیونکہ بیشتر افراد اس وقت اسے پھیلا رہے ہوتے ہیں، جب اس کی علامات معمولی اور نزلہ زکام جیسی ہوتی ہیں۔

    تاہم محققین نے اس کو آن لائن شائع کیا ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ یہ وائرس مختلف مراحل میں کس طرح اور کن ذرائع سے پھیلتا ہے۔

    محققین نے کووڈ 19 کے شکار 9 افراد کے متعدد نمونوں کا تجزیہ کیا جن کا علاج میونخ کے ایک ہسپتال میں ہورہا تھا اور ان سب میں اس کی شدت معتدل تھی۔ یہ سب مریض جوان یا درمیانی عمر کے تھے اور کسی اور مرض کے شکار نہیں تھے۔

    محققین نے ان کے تھوک ، خون، پیشاب، بلغم اور فضلے کے نمونے انفیکشن کے مختلف مراحل میں اکٹھے کیے اور پھر ان کا تجزیہ کیا۔ مریضوں کے حلق سے لیے گئے نمونوں سے انکشاف ہوا کہ یہ وائرس جب کسی فرد کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو پہلے ہفتے میں سب سے زیادہ متعدی ہوتا ہے، جبکہ خون اور پیشاب کے نمونوں میں وائرس کے کسی قسم کے آثار دریافت نہیں ہوئے تاہم فضلے میں وائرل این اے موجود تھا۔

    ایسے افراد جو نئے نوول کورونا وائرس کے انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں، ان کی جانب سے کووڈ 19 کا شکار ہونے کے بعد اولین7دن میں اسے دیگر صحت مند افراد میں منتقل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    کرونا کی علامات 2 سے 14دنوں کے درمیان سامنے آنے لگتی ہیں جن میں نزلہ، زکام، کھانسی ، سر درد اور تیز بخار شامل ہیں ۔اس سےنمونیہ اور پھیپھڑوں میں سوجن پیدا ہوتی ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔

    کرونا وائرس سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ صابن سے بار بار ہاتھ اچھی طرح دھوتے رہیں، وضو کرتے رہنے سے یہ مرض آپ کے قریب بھی نہیں آئے گا۔ کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح سے دھوئیں۔ کھانا مکمل طور پر پکائیں ک کچا رہ جانے کا گمان نہ ہو۔ پانی کو ابال کر زیادہ سے زیادہ پیئں۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔

    پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کسی کی بھی آنکھ ، چہرے اور منہ کو مت چھوئیں۔ وائرس میں مبتلا افراد اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال سے گریز کریں۔ وائرس میں مبتلا افراد کی استعمال شدہ چیزوں کو استعمال سے بچنا بے حد ضروری ہے۔ فلو وائرس میں مبتلا افراد رومال اور ماسک کا استعمال ضرور کریں۔

  • ساڑھے 4 ہزار سال قدیم خمیر سے تیار کردہ مزیدار بریڈ

    ساڑھے 4 ہزار سال قدیم خمیر سے تیار کردہ مزیدار بریڈ

    قدیم آثار و کھنڈرات سے دریافت اشیا میں سے کھانے پینے کی چیزیں بھی نکل آتی ہیں اور انہیں احتیاط سے محفوظ کرلیا جاتا ہے، تاہم ان اشیا کو پکانے اور پھر سے استعمال کرنے کا خیال کم ہی آتا ہے۔

    تاہم معروف ویڈیو گیم ڈیزائنر سیمز بلیکلے نے ایسے ہی ایک قدیم خمیر کو بیک کرنے کا تجربہ کیا اور ان کا یہ تجربہ نہایت کامیاب رہا۔

    بلیکلے نے اپنے ایک ماہر آثار قدیمہ اور ایک مائیکرو بائیولوجسٹ دوست کی مدد سے 4 ہزار 5 سو سال قدیم خمیر حاصل کیا۔ یہ خمیر قدیم مصر کے کھنڈرات سے دریافت ہوا تھا۔

    یہ خمیر کھنڈرات سے دریافت کردہ برتنوں میں موجود تھا اور ماہرین کا خیال تھا کہ اس خمیر سے قدیم مصر میں بریڈ اور شراب بنائی جاتی تھی۔

    بلیکلے نے اس خمیر کو بیک کرنے سے قبل اس میں ایک قسم کا آٹا شامل کیا تاکہ خمیر کے بیکٹریا کو جگا سکے۔ ایک ہفتے بعد یہ خمیر بیک کرنے کے لیے تیار تھا۔

    بلیکلے نے زیتون کے تیل کی آمیزش سے نہایت احتیاط سے اسے بیک کیا، بیک ہونے کے بعد اس کے نہایت غیر متوقع نتائج ملے اور اوون سے ایک نہایت خوشبو دار مہکتی ہوئی بریڈ برآمد ہوئی۔

    ’اس کی خوشبو ویسی تو نہیں تھی جیسی آج کی بریڈ میں ہوتی ہے، یہ اس سے خاصی مختلف لیکن بہترین تھی‘، بلیکلے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹس میں کہا۔

    بلیکلے کا کہنا ہے کہ وہ بے حد خوش ہے کہ اس کا یہ تجربہ کامیاب ہوا، اب اس کی اگلی کوشش ہوگی کہ وہ اس خمیر سے شراب بھی تیار کرسکے۔

  • نیل آرمسٹرانگ کا چاند پر جانے کے لیے ہدایاتی مینوئل نیلامی کے لیے پیش

    نیل آرمسٹرانگ کا چاند پر جانے کے لیے ہدایاتی مینوئل نیلامی کے لیے پیش

    نیویارک: خلاباز نیل آرمسٹرانگ اور بزآلڈرین کی جانب سے چاند پر جانے کے لیے استعمال کیا گیا ہدایاتی مینوئل اس سال جولائی میں نیلام کے لیے پیش کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق 44 صفحات پر مشتمل خلائی جہاز اپولو 11 سے متعلقہ ہدایاتی مینوئل میں چاند پر جانے سے متعلق تمام تفصیلات درج ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ہدایاتی مینوئل میں بتایا گیا کہ خلاباز نیل آرم سٹرانگ اور آلڈرین چاند پر کیسے اتریں گے اور کیسے خلائی جہاز اپولوایگل کو اس کے کولمبیا میں موجود کمانڈ ماڈیول سے منسلک کریں گے۔

    نیویارک کے آکشن ہاس کرسٹی کا کہنا ہے کہ چاند پر سب سے پہلے قدم رکھنے والے انسانوں کی جانب سے استعمال کیے گئے مینوئل کی نیلامی 9 سو ملین ڈالر تک ہو سکتی ہے۔

    آکشن ہاس کرسٹی کے بک اینڈ مینوسکرپٹس سیکشن کی ہیڈ کرسٹینا گیگر کا کہنا تھا کہ اس مینوئل میں اپولو 11 ایگل فلائیٹ سے متعلق تمام ہدایات ترتیب واردرج ہیں۔

    اس کتاب میں تکنیکی ڈیٹا کے علاوہ تقریبا 150 ڈرائینگز، اور تشریحات بھی شامل ہیں جنہیں نیل آرم سٹرانگ اور آلڈرین نے لکھے تھے۔

    البتہ اپولو 11 ایگل کے کاک پٹ میں ہونے والے واقعات کی کوئی آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ نہیں ہے اس لیے اس مینوئل کو خلائی تاریخ کی ایک اہم شہادت تصور کیا جاتا ہے۔

  • چھپکلیوں کے خون کا رنگ ہرا کیوں ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے پتہ لگالیا

    چھپکلیوں کے خون کا رنگ ہرا کیوں ہوتا ہے؟ سائنسدانوں نے پتہ لگالیا

    چھپکلی رینگنے والے کیڑوں کے گروہ کا ایک بڑی تعداد میں پایا جانے والی رکن ہے، جس کی دنیا بھر میں تقریباً پانچ ہزار اقسام ہیں اور یہ براعظم انٹارکٹیکا کے علاوہ سارے براعظموں میں پائی جاتی ہیں۔

    چھپکلیاں ایسی مخلوق ہیں کہ دنیا کا کوئی کونہ ان کی دسترس سے باہر نہیں اوریہ حیرت انگیز طور پر ہر جگہ اور ہر عمارت میں پہنچ جاتی ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے معلوم کیا ہے کہ نیوگنی کے جزیرے پر پائی جانے والی چھپکلیوں کے خون کا رنگ سبز کیوں ہوتا ہے؟ یہ سوال سائنس دانوں کو پریشان کر رہا تھا کہ ان کے سبز خون کی وجوہات کیا ہیں؟ یعنی دنیا میں زیادہ تر جانوروں کا خون سرخ ہے، تو پھر ان چھپکلیوں کو لہو سبز کیوں ہے؟

    چھپکلیوں کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے کے بعد ان مختلف چھپکلیوں کے سبز خون کی وجوہات جاننے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں، سائنس دانوں نے اس تحقیق کے لیے سبز خون کی حامل چھ مختلف چھپکلیوں اور ان کی 45 قریبی انواع کے ڈی این اے کی جانچ کی۔

    ایسی چھپکلیوں کے ڈی این اے کی جانچ کے بعد سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خون کے سبز ہونے کی وجہ ان چھپکلیوں کے جسم میں ایک خاص زہریلے مادے بیلی وَیردِن کی زیادہ مقدار ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق اس عام سے سبز زہریلے مادے کی وجہ سے ممکنہ طور پر چھپکلیوں کا خون سبز ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق ان کا تعلق ممکنہ طور پر شِنکس نامی چھپکلی کی قسم سے ہے اور ان تمام نے نیو گنی کے اس جزیرے پر چار مختلف ادوار میں ارتقائی نمو پائی۔

    محققین کے مطابق اس چھپکلی کے جد امجد یقینی طور پر سرخ خون والے تھے، مگر ان سبز رنگ والی مختلف نوع کی چھپکلیوں کا آپس میں کوئی گہرا تعلق نہیں ہے۔

    امریکا کی لوئزیانا یونیورسٹی کے میوزیم آف نیچرل سائنس سے وابستہ ارتقائی حیاتیات کے ماہر ذخاری روڈریگیز کے مطابق ان چھپکلیوں کا تعلق سرخ خون والے جانوروں ہی کے اجداد سے ہے اور سبز خون ان مختلف چھپکلیوں میں آزادانہ اور علیحدہ ارتقائی عمل کے ذریعے پیدا ہوا،۔

    اس کا مطلب ہے کہ خون کی سبز رنگت ان چھپکلیوں کے لیے فائدہ مند خصوصیت کی حامل ہو گی، سائنسدانوں کے مطابق تحقیق کے نتائج کے بعد میں اسے انسانوں میں یرقان کے علاج کے لیے استعمال کیا جائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • سنہ 2017 میں ہونے والی اہم ترین ایجادات

    سنہ 2017 میں ہونے والی اہم ترین ایجادات

    زندگی کا ایک اور یادگار سال اپنے جلو میں بہت سی کامیابیاں اور ناکامیاں لیے اختتام پزیر ہونے کو ہے، اس برس سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کئی سنگِ میل عبور کیے گئے ، سائنس فکشن ناولز اور موویز ہر برس کی طرح 2017میںبھی دھوم مچاتی رہیں اور انہی آئیڈیاز سے متاثر ہو کر سائنسدان ، انجینئرز اور محققین نئی ایجادات پر کام کرتے رہے ۔ بہت سو ں کو اپنی کاوشوں میں ناکامی کا سامنا کر کے منہ کی کھانی پڑی جن میں سام سنگ اور ایپل کے آئی فونز قابلِ ذکرہیں ، تو دوسری طرف کچھ ایجادات کو توقع سے بڑھ کر پزیرائی حاصل ہوئی ۔زیر ِنظر تحریر کچھ ایسی ہی ایجادات سے آگاہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے جو اس وقت ساری دنیا میں بڑے پیمانے پر نا صرف زیرِ استعمال آچکی ہیں، بلکہ ان کواپ ڈیٹ کر کے ان کے نئے ورژنز بھی بنائے جا رہے ہیں اور انہی آئیڈیاز پر کام کرتے ہوئے آنے والے برس 2018 میں مزید حیرت انگیزاور تہلکہ خیز ایجادات کی آمد بھی جلد متوقع ہے۔

    انفارمیشن ٹیکنالوجی


    یہ برس بھی آئی ٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ موضوعِ بحث رہا ۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آج کی نوجوان نسل دراصل آئی ٹی ہی کی دنیا میں جیتی ہے ، سیل فونز ، ٹیبلٹ، آئی پیڈ، لیپ ٹاپس اور کمپیوٹر گیمزکے بغیر جیسے آج کا نوجوان ادھورا ہے ۔سو آئی ٹی ورلڈ میں سوفٹ ویئر کمپینیز آئے روز اپنی پراڈکٹس متعارف کرواتی رہیں ، جن میں سب سے زیادہ پذیرائی ورچوئل ریئلٹی اور آگمنٹڈ رئیلٹی کو حاصل ہوئی۔ ان دونوں میں بنیادی فرق تکنیک کا ہے ۔ آگمنٹڈ رئیلیٹی میں صارف سکرین پر چلتی فلم کو اس طرح بھی دیکھ سکتا ہے جس طرح وہ حقیقت میں ہے ۔اور اس کے لیئے روزمرہ میں استعمال کی جانے والی ڈیوائسز جیسے سمارٹ فون ہی استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ورچوئل ریئیلٹی کے لیے ایک ہیڈ سیٹ الگ سےاستعمال کرنا پڑتا ہے جو کافی مہنگے ہونے کے باعث ابھی تک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ۔

    ایپل کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ٹم کک کے مطابق اے آر میں وی آر کی نسبت زیادہ کشش ہے اور سمارٹ فونز کے ساتھ اس کے ہیڈ سیٹ با آسانی لگائے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے سماجی رابطہ بھی ممکن ہوگا ۔ جبکہ وی آر میں اس طرح کی سہولت ابھی تک ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس بھی کیمرہ فیچر میں اے آر متعارف کروا چکی ہیں ۔ گوگل نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سپیشل افیکٹس اور لینز فوکسنگ میں اس کےپراڈکٹس متعارف کروا نے کا پروگرام بنایا ہے ۔دوسری طرف ٹینگو اور پوکومین اے آر کو بڑے پیمانے پر گیمز میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں سو آنے والا برس بلاشبہ آگمنٹڈ ریئلٹی کا سال ہوگا۔

    سال2017 کی کچھ اہم آئی ٹی ایجادات یہ ہیں۔

    بیٹری فری موبائل فونز ‘ نیٹ ورک فری سمارٹ فونز ‘ گوگل وائس سرچ ان اردو ‘ سمارٹ سیکیورٹی کیمرہ‘ گوگل پیٹنٹ ٹاک ‘ موتھ آئی فار مور گلیئر ‘ مشین کرننگ ایوولیوشن اور فزیکل ڈیجیٹل انٹیگریشن ۔

    ایروسپیس


    بین الاقوامی خلائی مرکز میں طویل عرصے تک قیام کرنے والے خلابازوں کو سب سے زیادہ مسئلہ نیند کی کمی اور اعصابی دباؤ کا ہوتا ہے کیونکہ معلق حالت کی وجہ سے نیند کے دوران یا سپیس واک کے دوران ان کےگم ہوجانے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ رواں برس اس حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہوئی ۔کیمبرج میسا جوسسٹس میں واقع چارلس سٹارک لیبارٹری کے سپیس انجینئر کیون ڈیوڈ ا نے ایک سیلف ریٹرن سپیس سوٹ تیار کیا ہے جو خلا میں جی پی ایس کی کسی مخصوص جگہ غیر موجودگی اور خراب خلائی حالات میں بھی خلابازوں کی درست جگہ نشاندہی کر سکےگا۔ اس سپیشل سوٹ میں پہلے کی نسبت زیادہ آکسیجن اور دیگر سہولیت کا بھی انتطام کیا گیا ہے جس میں واپسی کے راستے کی درست معلو مات قابل ذکر ہیں ۔ فی الوقت خلا باز جو لباس استعمال کرتے ہیں وہ کافی حد تک مینول ہے اور خلا میں ان کی کسی جگہ موجودگی کے بارے میں سگنلز دینے سے قاصر ہے ۔ ناسا اور یورپین سپیس ایجنسی کے سائنسدان اس جدید خلائی لباس کو ایک انقلابی ایجاد قرار دے رہے ہیں جس کا سب سے زیادہ فائدہ مارس مشن پر جانے والے خلابازوں کو ہوگا۔

    سال 2017 کی کچھ اہم ایرو سپیس ایجادات یہ ہیں ۔

    اپولو سیلف ڈرائیون ٹیکنالوجی‘ بے بی وورن فار مارس سیٹلرز‘ ہوائی جہازوں کی چھت پر وائی فائی کی تنصیب‘ ڈرون بائک‘ اسٹیلتھ طیاروں کا نیا انجن اوربغیر پائلٹ کے اڑنے والےخود کار طیارے

    بایو ٹیکنالوجی


    ہر سال کی طرح 2017 میں بھی نامور کمپنیوں نے نئی بایو لوجی تکنیکس متعارف کروائیں مگر سب سے بڑی انقلابی ایجاد ’فنگر پرنٹس ‘ کی جدید تکنیک کو قرار دیا جا رہا ہے جس کے ذریعے محض انگلیوں کے نشانات سے کسی بھی شخص کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔مثلا ََ اس نے کس چیز کو ہاتھ لگایا تھا یا اس کی صنف ، خوراک ، منشیات و شراب نوشی کے بارے میں معلوم کیا جاسکے گا جس کے ذریعے عدالتوں میں مقدمات کے دوران انقلابی پیش رفت ممکن ہوگی اور دھوکا دینا یا جھوٹے ثبوت پیش کرنا ممکن نہیں رہیگا ۔ برطانیہ کی شیفلڈ ہالم یونیورسٹی کے سائنسدان برطانوی پولیس کی مدد سے اس طریقۂ کار پر تجربات میں مصروف ہیں اور اب تک کے نتائج بہت حوصلہ افزاء ہیں ۔ سائنسدان پر امید ہیں کہ فنگر پرنٹ کی نئی ٹیکنالوجی سے سنگین نوعیت کے جرائم جیسے ریپ یا قتل کے مجرموں کو پکڑنے میں بہت مدد ملے گی۔ اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر سیمونا اس امر پر بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ انگلیوں کے نشانات میں پسینہ ہوتا ہے اس سے بھی مجرم کے بارے میں اہم معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔

    سال2017 کی کچھ اہم بایو ٹیک ایجادات یہ ہیں ۔

    سمارٹ ایگزو سکیلی ٹن‘ بَگ ڈیلیوری ڈرونز( حشرات کو پکڑنے والے ڈرونز )، سمارٹ ٹیپ ریکارڈر اور انسانی جسم کے اندر دیکھنے والا کیمرہ

    ہارڈ ویئر


    دنیا کے مختلف خطوں میں آبادی اور تیز ذرائع رسل و رسائل کے ساتھ توانائی کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے جس میں پاکستان سر فہرست ہے۔ موجودہ حالات میں بایو فیول کو توانائی کا ایک اہم متبادل سمجھا جا رہا ہے ۔ 2017 اس حوالے سے یادگار رہے گا کہ اس برس این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے چند ہونہار طلبا و طالبات نے نیم اور جٹروفا کے بیجوں سے بایو ڈیزل بنانے کا میاب تجربہ کیا جس میں ان کے بیجوں سے تیل نکال کر اور کیمیائی عمل سے گزار کر میتھا نول اور کیٹالسٹ شامل کرکے ایک مخصوص درجۂ حرارت پر گرم کیا جاتا ہے جس سے یہ ڈیزل اور گلیسرین میں تحلیل ہوجاتا ہے انھیں بعد میں باآسانی الگ کر لیا جاتا ہے ۔فی الوقت یہ طلبا ء اسی یونیورسٹی کےآٹو موٹو انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے بایو ڈیزل کو گاڑیوں میں استعمال کرنے پر تجربات کر رہے ہیں اور پھر اسے بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ اس فیول کی ایک افادیت یہ ہے کہ خوردنی بیجوں سے حاصل کیے جانے کے باعث اس سے آلودگی زیادہ نہیں ہوگی اور یہ ماحول میں کم کاربن خارج کریگا ،اس کے علاوہ دیگر ذرائع کے برعکس اسکی لاگت بھی انتہائی کم ہے۔ اگر اس منصوبے کو حکومتی سر پرستی حاصل ہوجائے تو پاکستان میں توانائی اور آلودگی دونوں کے بحران سے با آسانی نمٹا جا سکتا ہے۔

    سنہ 2017 کی کچھ اہم ہارد ویئر ایجادات یہ ہیں ۔

    بیم آف ویزیبلیٹی ( پانی کے اندر چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت)‘ ڈزنی میجک بینچ ‘ سیلف ڈرائیونگ کا ر نوبز ‘ انڈکشن ہیٹنگ مشین‘ ہائیدروجن ٹرین (ہائیڈروجن سیل نظام پر چلنے والی ٹرین ) اور فولاد سے بھی زیادہ مضبوط ربر۔

    روبوٹس


    آرٹیفیشل انٹیلی جینس نے ہر شعبے میں اپنی اہمیت منوا کر انسان کو ایسے دور میں داخل کردیا ہے جہاں اے آئی کے بغیر اس کی زندگی نا مکمل اور ادھوری ہے۔ اگرچہ یہ ایک خطرناک صورتحال بھی ہےاور مغربی ممالک میں بڑے پیمانے پر اس کے حد سے زیادہ استعمال پروقتاََ فوقتا ََ آواز بھی اٹھائی جا تی رہی ہے مگر دوسری جانب اس کی افادیت سے بھی ہر گز انکار ممکن نہیں ۔ رواں برس ہمسایہ ملک چین کے کئی شہروںمیں ایسے ‘لیگل روبوٹس’ عدالتوں میں تعینات کیئے گئے ہیں جو مقدمات کی از خود جانچ پڑتال کر کے فیصلہ سنا سکیں گے ۔ اس سے فوری اور بروقت انصاف کے ساتھ مکمل شفاف فیصلہ ممکن ہوگا ۔ ستمبر میں اپنے کام کا آغاز کرنے والے یہ لیگل روبوٹس اب تک ہزاروں کی تعداد میں کیس نمٹا چکے ہیں ۔ اشیائی ممالک خصو صاً انڈیا اور پاکستان میں اس طرح کے روبوٹس کی شدید ضرورت ہے جہاں عدالتی کاروائیاں بعض اوقات عشروں پر محیط ہوجاتی ہیں اور تب بھی شفاف فیصلہ ممکن نہیں ہوتا ۔ان لیگل روبوٹس کو انسانی دھڑ کی طرح ڈیزائن کیا گیا ہے مگر ان کے ہاتھ نہیں بنائے گئے۔ ان کی چہرہ نما ڈیجیٹل سکرین پر آنکھیں اور منہ نما یاں دکھائی دیتے ہیں ۔

    سنہ 2017 کی کچھ اہم روبوٹکس ایجادات یہ ہیں ۔

    روبوٹ جیسا موبائل فون‘ بچوں کے جذبات سمجھنے والی روبوٹ گڑیا ‘ ڈرائیونگ اورفلائنگ کے ماہر روبوٹ‘ روبوٹس کے لیے آرٹیفیشل سکن‘ اور پولیس مین روبوٹس۔

    ہوم ایپلی کینس


    سمارٹ ہومز کا تیزی سے بڑھتا استعمال سائنسدانوں کو ایسی نئی ایجادات پر اکسا رہا ہے جن کے ذریعے سمارٹ ہومز کے تصور کو پوری طرح حقیقت کے روپ میں پیش کیا جا سکے۔ اس حوالے سے 2017 میں ایک بڑی پیش رفت معروف امریکی کمپنی’ٹیسلا ‘ نے کی اور ایسی ٹائلز متعارف کروائی جو سورج کی روشنی سے از خود بجلی پیدا کر سکتی ہیں ۔ ان ٹائلز سے بنی چھت کو ‘سولر روف ‘ کا نام دیا گیا ہے جنھیں مضبوط شیشے سے بنایا گیا ہے تقریبا ََ اکسٹھ لاکھ پاکستانی روپوں میں دستیاب اس سولر روف سے گھر کو ایک مکمل سٹالش انداز میں تعمیر کیا جاسکےگا جو توانائی میں خود کفیل ہوگا ،اس روف کی تیس برس کی گارنٹی بھی ساتھ دی جائےگی۔ فی الحال سمارٹ ہوم کی یہ سہولت صرف امریکہ میں دستیاب ہے۔

    دوسری جانب جرمنی کے انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے اسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ایسے عینک تیار کیے ہیں جو ایک موبائل فون کو چارج کرنے کے لیے بجلی پیدا کرتے ہیں ۔اس کے ذریعے کھڑکیوں کے ایسے شیشے بھی بنائے جا سکتے ہیں جو سولر سیل کے طور پر لگائے جائیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مارکیٹ میں اگلے برس تک اس طرح کے سیلز مختلف رنگوں اور سائز میں دستیاب ہونگے۔

    سال  2017میں سائنسدانوں نے شب و روز محنت سے صارفین کو بڑی مقدار میں گھریلو سہو لتیں فراہم کیں ، جن میں سے کچھ اہم یہ ہیں ۔

    سمارٹ سٹریٹس ‘ ڈیجیٹل تالا‘ سمارٹ الارم ‘ سمارٹ کلاتھ سٹینڈ‘ الیکٹرانک ہینگر‘ روبو فریج اور سمارٹ سیکیورٹی کیمرا


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سائنسدانوں نے خلا ئی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا

    سائنسدانوں نے خلا ئی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا

     

    سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا؟ خلا میں پراسرا طور پر رہنے والے بیکٹیریا کو بیرونی خلائی اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا۔

    خلائی مخلوق سے متعلق مختلف قسم کی داستانیں گردش کرتی رہتی ہیں اور ایسی مخلوق کو تلاش کرنے کیلئے سائنس دانوں کی جستجو آج بھی جاری ہے۔

    مستقبل کی اس تلاش کے حوالے سے بہت ساری تخیلاتی فلمیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں، تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندگی کی ایک اور شکل وہ بھی ہے جو زمین پر تو موجود نہیں ہے لیکن زمین سے باہر خلا میں اس کے وجود کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

    سائنسدانوں نے خلائی مخلوق کی زندگی کا ثبوت ڈھونڈ لیا؟ خلا میں پراسرا طور پر رہنے والے بیکٹیریا کو بیرونی خلائی اسٹیشن کے باہر دیکھا گیا، یہ بیکٹیریا خلائی اسٹیشن کی سطح پر پایا گیا تھا۔

    ایک روسی سائنسدان جو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اپنے تیسرے سفر کی منصوبہ بندی کررہے تھے، انہوں نے اسٹیشن کی سطح پرایک حیاتی بیکٹیریا پایا ۔

    روسی خلائی سائنسدان کے مطابق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی سطح پر زندگی کی حفاظت ممکن ہے، تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ خلائی اسٹیشن کے باہر پایا جانے والا یہ بیکٹیریاپہلے سے موجود ہے یا کسی اور طریقے سے لایا گیا۔

    خلائی مخلوق کی موجود گی پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق جس مقام پر زمین کا کرہ ہوائی ختم ہوتا ہے، وہاں مختلف نوعیت کی جراثیمی مخلوق کی موجودگی خارج ازامکان نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خلا میں موجود اکثر سیارچے ایسے بھی ہیں کہ جن میں جراثیمی زندگی موجود ہو سکتی ہے۔

    خلا میں گھومنے والا جب کوئی آوارہ سیارچہ زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوجاتا ہے تو ہوا کی رگڑ سے اس میں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور زمین پر پہنچنے سے پہلے وہ راکھ میں تبدیل ہوجاتا ہے، ایسے واقعات روزانہ ہزاروں کی تعداد میں رونما ہوتے ہیں۔

    خلائی سائنس دان زمین کے کرہ ہوائی سے باہر جراثیمی مخلوق کی زندگی پر تحقیق کے ایک منصوبے پر کام کا آغاز کررہے ہیں۔

    ان کا خیال ہے کہ زمینی حدود کے باہر کوئی ایسی مخلوق بھی موجود ہے جو ہوا، پانی، سورج کی روشنی کے بغیر بھی زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

    اگر سائنس دان کرہ ارض کے باہر سے اس طرح کی کوئی مخلوق پکڑ کرلانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ غالباً کرہ ارض پرآنے والی پہلی حقیقی خلائی مخلوق ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمونپسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سائنسدانوں کی چھیڑچھاڑ‘ تیسری آنکھ اگ آئی

    سائنسدانوں کی چھیڑچھاڑ‘ تیسری آنکھ اگ آئی

    جینیاتی سائنس کے میدان میں ایک اور کامیابی حاصل کرتے ہوئے سائنسدانوں نے بھونرے میں از خود نئے اعضا پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انڈیانا یونی ورسٹی کے ماہرینِ حیاتیات نے بھنورے کے ایک ایسے جین کو کام کرنے سے روک دیا جوکہ اس کے سرکی ساخت بنانے کا ذمہ دار تھا۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں بھونرے نے اپنے سر پر تیسری بڑی آنکھ از خود اگالی جو کہ پوری طرح کام کررہی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس جین کا نام اوتھوڈینٹیکل ہے جسے کام کرنے سے روکا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں بھنوروں نے تیسری بڑی آنکھ یا مزید دو آنکھیں از خود پید ا کی ہیں۔

    اسی یونی ورسٹی کے سائنسدانوں نے اسکیننگ الیکٹرون مائیکروسکوپس ا ستعمال کرکے اس نئی آنکھ کی ساخت پر تحقیق کی گئی ہے خصوصی طور پر وہ اعصابی نظام سے کس طرح منسلک ہے ‘ ان پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔

    ماہرین کے مطابق یہ آنکھیں نمائشی یا غیر ضروری نہیں بلکہ یہ پوری طرح کام کرتی ہیں اور بھونرے کی دیکھنے کی صلاحیت کو مزید بہتر بناتی ہیں۔

    Genetic

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پراجیکٹ بالکل حادثاتی طور پر شروع ہوا تھا‘ ہم یہ دیکھنا چاہ رہے تھے کہ بھونرے کے جینز میں رد و بدل کرنے سے کیا ہوتا ہے اور ہم نے بالکل اتفاقی طور پر اضافی آنکھ اگانے کا طریقہ دریافت کرلیا۔

    یاد رہے کہ سالہا سال سے سائنسدان جانوروں کی جینز میں چھیڑچھاڑ کرکے غیر متوقع جسمانی اعضا یا پورا نیا جانور تیار کررہے ہیں‘ جیا کہ کسی چوہے کی کمر پر انسانی کان اگانا وغیرہ اور اس سب کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان جو کسی حادثے کے نتیجے میں اپنے جسمانی اعضا سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے کسی دن اس قابل ہوجائے کہ ان اعضاء کو دوبارہ حاصل کرسکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔