Tag: SCIENTIST

  • آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    آفاقی عشق کی لازوال داستاں – دوام

    بہت سارے دلوں کو توڑتا
    بہت سے اَشکوں کو بہاتا
    لاکھوں گھروں کو تباہ کرتا ۔۔
    ہزاورں جانوں سے کھیلنے کے بعد۔۔
    طوفان تھم چکا ہے ۔۔
    خدا نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا۔۔
    کہ اُس مقام پر جا ؤ۔۔
    اور۔۔
    مصیبت میں گھرے لوگوں کو
    اپنے مضبوط پروں کی پناہ میں لے لو
    تاکہ آفت سے لڑتے لڑتے
    وہ تنہا نہ رہ جائیں ۔۔
    ****************


    اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں


    نیا سمسٹر ، نئے سبجیکٹ ،نئے چیلنجز! منتہیٰ اِن سب سے نمٹنے کے لئے بھرپور توانائی کے ساتھ تیار تھی ۔۔ ۔جس کی ابتداریسرچ سینٹر کے ڈسکشن پارٹ ٹو سے ہوئی تھی۔
    ایک دفعہ پھر وہ سب کیل کانٹوں سے لیس ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے ۔سپار کو سینئرز نے بات کا آغاز کرتے ہوئے بال ارمان کے کورٹ میں ڈالی۔ مسٹر ارمان آپ لوگوں کے سمسٹر امتحانات کے باعث یہ عرصہ کچھ طویل ہو گیا ۔ "میرا خیال ہےکہ اب تک اپنے پراجیکٹ کے متعلق آپ کوئی حتمی فیصلہ کر چکے ہوں گے۔۔؟؟؟۔”
    ارمان نے کھنکار کر گلا صاف کیا ، جی سر ہم نے دو ماہ میں ہر زاویئے سے پراجیکٹ کا مکمل جائزہ لیا ہے اور اُس کے بعد ہم اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ارمان نے ایک لمحے کو رک کر سب کے چہروں کو باری باری دیکھا ۔
    "اگر ہم واقعی قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے طور پر ایک کیمپئین کا آغاز کرنا ہوگا ”
    "جہاں حکومتیں نا اہل ہوں وہاں پھر عوام ہی میں سے کچھ لوگ اٹھ کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔ ہم کوئی نئی این جی او بنانے نہیں جا رہے بلکہ ہم ایک ایسی تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں جو آج بہت سوں کو ایک دیوانے کی بَڑ معلوم ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری لگن سچی ہے۔ توہم بہت کچھ نہ سہی اپنے عوام کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر لیں گے ‘ ارمان کا لہجہ دھیما مگرپُر عزم تھا ۔
    ڈسکشن روم کے پن ڈراپ سائیلنس کو ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر حیدر خان کی مدہم سی تالیوں کی آواز نے توڑا ۔
    "ویل ڈن بوائے! مجھے آپ سے یہی توقع تھی، آج کا ہر نوجوان اگر انفرادی طور پر اِسی جذبے سے سرشار ہو تو کوئی شک نہیں کہ ہم گورنمنٹ کے تعاون کے بغیر اپنے ہم وطنوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں "۔ ڈاکٹر عبدالحق کے لہجے میں ارمان کے لئے ستائش تھی
    شہریار نے گردن اُونچی کر کے منتہیٰ کو دیکھا ۔۔جو بدستور سپاٹ چہرے کے ساتھ ہاتھ کی انگلیوں میں ڈیٹا ٹر یولر گھما رہی تھی ۔
    "مس دستگیر ۔اب تو آ پ کو ہمارے پراجیکٹ پر کوئی خاص اعتراض نہیں رہا ہوگا ؟؟ "۔۔وہ پو چھے بنا نہ رہ سکا
    "یو نو واٹ مسٹر ، کہ اِس دنیا میں پرفیکٹ صرف خدا کی ذات ہے۔۔ باقی ہر شے میں خامیاں بھی ہیں اور نقائص بھی، پہلے بھی میرا مقصد آپ کے پراجیکٹ میں کیڑے نکالنا یا رخنے ڈالنا ہر گز نہیں تھا ۔میں صرف یہ چاہتی تھی کہ ایک مکمل ریموٹ سینسنگ سسٹم اِس طرز پر تیار کیا گیا ہے تو اِ س سے عوام کو ریلیف بھی ملے "۔۔ منتہیٰ کا لہجہ سخت تھا
    "سر میں نے ایک پریزینٹیشن تیار کی ہے میں آ پ لوگوں کو دکھانا چاہوں گی۔۔ اُس نے اجازت طلب کی
    سیکنڈ سمسٹر کے امتحانات کے بعد منتہیٰ کا سارا ٹائم اسی ریسرچ میں گزر ا تھا ۔ کپمین کے لئے کئی ہفتوں کی محنت سے تیار کی گئی اس کی پریزینٹیشن کا پہلا بنیادی نکتہ تھا ‘ سسٹم کے ذریعے سائنٹیفک بنیادوں پر قدرتی آفات کی زد پر رہنےوالے علاقوں کا مکمل سروے ۔
    نمبردو۔ اِن علاقوں کو لاحق خطرات کی بروقت تشخیص ۔
    نمبر تین ۔ایک ایسی باقاعدہ مہم جس کے ذریعے اِن علاقوں کی عوام کو خطرات سے آگاہ کر کے ڈیسازٹر سے اَزخود نمٹنے کی ٹریننگ دی جائے ۔
    نمبر چار۔ ریسکیو سینٹر ز کا قیام اور ان میں ٹریننگ کے لئے مقامی افراد کی بھرتی۔ جس سے انہیں بڑے پیمانے پر روزگار کی سہولیات دستیاب ہوں گی۔
    نمبر پانچ۔ اِن علاقوں خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں بڑ ھتی ہوئی انتہا پسندی پر قابو۔ کیونکہ ڈیسازسٹر سے نفسیاتی طور پر متاثربے روزگار نوجوانوں کو پاکستانی اور افغان طالبان گروپ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔
    تقریباٌ آدھے گھنٹے کی پریزینٹیشن نے کانفرنس روم میں موجود ہر شخص کو متاثر کیا تھا ۔۔ حتیٰ کے تھوڑی دیر پہلے اُس سے چڑےبیٹھے شہریار نے بھی تالیاں بجا کر بھرپور داد دی تھی ۔
    ویل مس دستگیر۔میں چاہوں گا کہ آپ اِس پریزینٹیشن کی ایک کاپی مجھے اور سپارکو آفیسرز کو بھی دیں ،ارمان نے بات کرنے میں پہل کی ۔
    جی ضرور !مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔ منتہیٰ نے بنا پس و پیش ڈیٹا ٹریولر ارمان کی طرف بڑھایا ۔
    ۔۔۔Guys you are playing well
    ایک ہفتے بعد پھر میٹنگ رکھتے ہیں ۔۔ آفیسرز کو کسی کام سے جانا تھا ۔۔سو وہ تیزی سے الوداعی کلمات کہتے ہوئے جا چکے
    تھے۔۔ ان کے پیچھے منتہیٰ بھی ۔۔اور فاریہ اور ارحم کی توقع کے بر خلاف ۔
    ’’ وہ آج بھی فاتح لوٹی تھی ۔۔۔‘‘
    ****************

    مکمل تیاریوں کے ساتھ ٹھیک دو ہفتے بعد وہ سپارکو کے ریسرچ سینٹر کے پلیٹ فارم سے زمین کو بچاؤ تحریک (Save the earth) کا آ غاز کر رہے تھے جس کا ایجنڈہ اور مقاصد ارمان یوسف نے منتہیٰ کی پریزینٹیشن کی مدد سے خود تحریر کئے تھے ۔
    ابتدائی طور پر اس کمپین میں شمولیت اختیار کرنے والوں میں ریسرچ سینٹر کے آفیسرز اور عملہ ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اور پنجاب یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس اور ٹیچرز شامل تھے ۔۔
    کمپین ہیڈ ارمان یوسف کی ابتدائی تقریر مختصر لیکن مدلل تھی ۔ بے شک وہ ایک اچھا مقرر تھا ۔
    ’’لگ بھگ چھ ماہ پہلے جب ہم نے ریموٹ سینسنگ پر اپنے پرا جیکٹ کا آغاز کیا تھا ۔۔تو ہمارا مقصد صرف اور صرف سمیسٹر کاپراجیکٹ پورا کرنا تھا ۔۔ ۔لیکن اس دوران اکتوبر میں آنے والے ایک خوفناک زلزلے نے ہماری توجہ ڈیسازسٹر مینجمنٹ کے طرف مبذول کروائی ۔”
    "کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ کی نیت صاف ہو تو پھر راستے کے پتھر کچھ معنی نہیں رکھتے "۔ اللہ پاک کی بھر پور مدد ہمارے ساتھ تھی سو چند ہی ماہ میں ہمارے پراجیکٹ کو لمس سے سپارکو تک بوسٹ ملا ۔۔میں سپارکو کے سینئر آفیسرزاور مس منتہیٰ دستگیر کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ایک رفاحی تحریک کی جانب ہماری راہنمائی کی ۔
    "ہمیں بخوبی علم ہے کہ جو کام ہم شروع کرنے جا رہے ہیں وہ قطعاٌ آسان نہیں ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور مسائل بے پناہ ۔۔
    "لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آج تک وہی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جن کی ابتداء چھوٹے پیمانے پر بہت کم وسائل کے ساتھ کی گئی ۔۔فائیوسٹار ہوٹلوں میں سیاستدانوں اور بزنس مینز کے آشیرواد سے جنم لینے والی این جی اوز صرف فائلوں یا بینک اکاؤنٹس تک محدود رہتی ہیں۔۔ جن کے اکاؤنٹس میں جمع کی جانے والی چیریٹی دراصل وہ کالا دھن ہے جو ہمارے سیا ستدان عوام کا خون چوس کر حا صل کرتے ہیں۔ ان این جی اوز کے سائے تلے جو گھناؤنے کھیل ۔۔کھیلے جارہے ہیں وہ اب عوام کی نظروںسے پوشیدہ نہیں رہے ۔”
    "کسی بھی ڈیساسٹر سے نمٹنے کے لئے اپنی شرائط پر امریکہ اور یورپ سے ملنے والی گرانٹ دراصل بھیک کے وہ ٹکڑے ہیں جو عیاش اپنی من مانیاں جاری رکھنے کے لیے انہیں مہیا کی جاتی ہیں ۔ اور ہمارے بے ضمیر ، ننگِ انسانیت حکمران اسے من و سلویٰ سمجھ کے قبول کرتے ہیں۔”
    ارمان کی تقریر کے بعد ریسرچ سینٹر کے سینئر آفیسر ڈاکٹر عبدالحق نے اپنی مختصر تقریر میں پچھلے دو تین ماہ میں ان سب، خاص کر ارمان اور منتہیٰ کی کارکردگی کو بھرپور سراہتے ہوئے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
    "ہمیں یقین ہے کہ آپ نوجوان نیک نیتی سے جو بیج بو رہے ہیں وہ چند برس یا ایک عشرے بعد تناور درخت بن چکے ہونگے، جن کی گھنی ، میٹھی چھاؤں سے آنے والی نسل مستفید ہوگی”۔
    میں سیو دی ارتھ کے بورڈ آف گورنرز کے لیے ڈاکٹر حیدر اور ڈاکٹر عقیل احمدکے نام تجویز کرہا ہوں۔ جبکہ باقی عہدیداروں کے انتخاب کے لیے آپ سٹوڈنٹس آزاد ہیں ۔ مگر کچھ پوائنٹس میں یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
    رفاحی کاموں کو تیزی سے زیادہ نیک نیتی ، ان تھک محنت اور استقامت کامیاب بناتی ہے۔بے شک آپ کو آگے بڑھنے کے لیئے ایک کثیر سرمائے کی ضرورت ہوگی، مگر خدمتِ خلق سے وابستہ افراد تب ہی آپ کی مالی مدد کریں گے جب آپ شب و روز محنت سے اپنا ایک معیار بنائیں گے۔ انشاء اللہ آہستہ آہستہ یوتھ آپ کے ساتھ شامل ہوتی جائے گی ۔بلاشبہ کسی بھی قوم کی اصل قوت اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے۔ ہماری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں ۔”

    جاری ہے
    ****************

  • کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب زمین چھٹی معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن یہ عمل جس تیزی سے واقع ہورہا ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے کہیں آگے ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے نتائج کے مطابق زمین کی 30 فیصد ریڑھ کی ہڈی والے جاندار جن میں مچھلیاں، پرندے، دیگر آبی حیات، رینگنے والے جانور اور کچھ ممالیہ جاندار شامل ہیں، کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں پیش کی گئی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دہائی تک کہا جارہا تھا کہ زمین پر جانوروں کے خاتمے کا عمل رونما ہونے والا ہے۔ اب خیال کیا جارہا ہے کہ یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور حالیہ تحقیق سے علم ہورہا ہے کہ اس عمل میں تیزی آچکی ہے اور اسے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    تحقیق میں بتایا گیا کہ معدومی کے خطرے کی طرف بڑھتے ان جانداروں میں گوریلا، چیتے، بندر اور گینڈے وغیرہ شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ معدومی کا یہ عمل شروع ہوچکا ہے تو ایک اوسط اندازے کے مطابق ہر سال ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 2 جانداروں کی اقسام معدوم ہوجاتی ہے۔

    پناہ گاہوں کی تباہی

    ماہرین نے اس عظیم معدومی کی سب سے بڑی وجہ جانداروں کی پناہ گاہوں یا ان کے گھروں کی تباہی کو قرار دیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں جاری کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت گرم علاقے کے جانداروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی رہائش کو چھوڑ کر نئی رہائش اختیار کریں۔

    ہجرت کا یہ عمل جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور نئے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باعث تیزی سے ان کی اموات واقع ہوتی ہیں۔

    پناہ گاہوں کی تباہی کی ایک اور وجہ دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی بھی ہے جس سے جنگلوں میں رہنے والے جانور بے گھر ہوتے جارہے ہیں۔

    گوریلا سمیت دیگر افریقی جانور مختلف افریقی ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کی وجہ سے بھی خطرات کا شکار ہیں جس کے باعث ان کے غذائی ذخائر میں بھی کمی آرہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • موبائل فون کی چارجنگ کے لیے سولر کوٹ تیار

    موبائل فون کی چارجنگ کے لیے سولر کوٹ تیار

    ٹوکیو: جاپان کے سائنس دان نے ایسا کوٹ تیار کیا ہے جو شمسی توانائی سے بجلی بنا کر اسمارٹ فون، ٹیبلٹ سمیت دیگر آلات کو  بیٹری ختم ہونے کے باوجود کبھی بند نہیں ہونے دے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سائنسی دنیا میں نت نئی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے، جس تیزی کے ساتھ دنیا کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اُسی تیزی کے ساتھ ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی نئی نئی ایجادات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    انسانی زندگی کو آسان کرنے اور ہروقت رابطہ رکھنے کے لیے پہلے پہل موبائل فون ایجاد کیا گیا تاہم ٹیکنالوجی کی دنیا نے ترقی کرتے ہوئے اسے جدید سے جدید ترین سہولیات سے آراستہ کیا یہی وجہ ہے کہ اب اسمارٹ فون صارف صرف ایک کلک پر دنیا بھر میں رہنے والے کسی بھی شخص سے انٹرنیٹ کے ذریعے باآسانی رابطہ کرسکتا ہے۔

    charging-1

    اسمارٹ فونز کی ایجادات کے ساتھ ہی صارفین کو اس کی چارجنگ جلد ہونے کی شکایات کا سامنا ہے، اس ضمن میں دنیا بھر کے سائنس دان مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کوشاں ہیں جس کے لیے وہ نت نئے تجربات بھی کرتے رہتے ہیں۔

    charging-2

    جاپان کے ایک سائنس دان نے ایسا کوٹ ایجاد کیا ہے جو سورج کی روشنی کو جذب کر کے  موبائل فون و دیگر برقی آلات چارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کوٹ میں 2 عدد سیل لگائے گئے ہیں جو سولر سسٹم کا کام سرانجام دیتے ہیں۔

    charging-3

    شمسی توانائی سے برقی آلات کو چارج کرنے والے اس کوٹ کو جونیا وٹنا نے خصوصی طور پر ڈیزائن کیا ہے جو اچھوتے اور غیر معمولی لباس تیار کرنے کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں، اس کوٹ کو ایف ڈبلیو 16 کا نام دیا گیا ہے۔

    کوٹ میں خصوصی طور پر ایک مائیکرو یو ایس بی پورٹ نصب کی گئی ہے جو موبائل فون کی چارجنگ کے لیے کارآمد ہے جب کے اس کی قیمت پاکستانی روپے کے حساب سے 25 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔

  • چین سے 83 لاکھ سال پرانے ٹائیگر کی کھوپڑی دریافت

    چین سے 83 لاکھ سال پرانے ٹائیگر کی کھوپڑی دریافت

    شنگھائی: چین میں معدوم ہوجانے والے خمیدہ دانتوں کے 83 لاکھ سال پرانے ٹائیگر ( سیبر ٹوتھڈ) کی بڑی کھوپڑی دریافت ہوئی ہے جس کی لمبائی 40 سینٹی میٹر کے برابر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چین میں معدوم ہوجانے والے خمیدہ دانتوں کے لاکھوں سال پرانے ٹائیگر کی کھوپڑی دریافت ہوئی جو 40 سینٹی میٹر لمبی ہے۔ ماہرین کے مطابق کھوپڑی کے حساب سے ٹائیگر کا وزن 892 پونڈ اور لمبائی 3 سے میٹر سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

    2

    اس دریافت پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ ٹائیگر موجودہ دور کے برفانی علاقوں میں پائے جانے والے سفید ریچھ کے جتنا لمبا ہوسکتا ہے تاہم چیتے کے نوکیلے دانت جبڑے سے باہر تھے۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائیگر کے منہ کا دہانہ چھوٹا ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جسکتا ہے کہ یہ صرف چھوٹے جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ ڈھانچہ 83 لاکھ سال پرانا ہے تاہم اس کا سر اب تک کے پائے جانے والے سیبرٹوتھڈ ٹائیگر میں سب سے بڑا ہے بلکہ سب سے بڑے جانور برفانی ریچھ کے معاملے میں بھی یہ نمایاں ہے۔

    3

    سائنسی ماہرین نے کہاکہ ٹائیگر کے شانے 1.3 میٹر اونچے اور سر سے دم تک کی لمبائی میٹر سے زائد تھی جو ایک بالغ برفانی ریچھ کے برابر ہے تاہم یہ اپنے دانتوں کی وجہ سے دیگر تیندوؤں سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے مگر یہ آج کے شیروں کے مقابلے میں صرف 70 درجے تک ہی کھول سکتا ہے۔

    1

    انہوں نے اس دریافت ہو تحقیق کے لیے اہم دریافت قرار دیتے ہوئےٹائیگر کو ’’میکروؤڈس ہوریبلس‘‘ کا نام دیا ہے۔

  • مستقبل میں تھری ڈی اور فور ڈی پرنٹر کا کردار غیر معمولی ہو گا

    مستقبل میں تھری ڈی اور فور ڈی پرنٹر کا کردار غیر معمولی ہو گا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل کی ٹیکنالوجی میں تھری ڈی اور فور ڈی پرنٹر کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگا۔

    میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے اب فور ڈی پرنٹنگ تک ایجاد کر لی ہے، جس کے تحت کسی مادے کو پانی کے ساتھ تعامل کی صورت میں مختلف اور نئے مواد میں تبدیل کیا جا سکے گا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک دن ان پرنٹروں کے ذریعے ایسے یونیفارم تیار کیے جا سکیں گے، جن کے رنگ ان کے ماحول کے مطابق تبدیل ہو سکیں گے۔ ان ماہرین کے مطابق اس سلسلے میں ابتدائی قدم اٹھائے جا چکے ہیں۔

    برطانوی دفاعی کمپنی بی اے ای سسٹمز نے حال ہی میں ایک اینیمیٹڈ ویڈیو جاری کی ہے، جس میں تھری ڈی اور فور ڈی پرنٹرز کے ذریعے مستقبل کے امکانات دکھائے گئے ہیں، اس ویڈیو میں ایک جہاز کو ایک اور جہاز پرنٹ کرتے دکھایا گیا ہے، جو اس کے سامان کے خانے سے اچانک بیدار ہوتا ہے اور اڑنے لگتا ہے۔

    بی اے ای کے تھری ڈی پرنٹنگ ڈویژن کے سربراہ میٹ سٹیوینز کے مطابق ’یہ ایک طویل المدتی عمل ہے، مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ایک دن ہم ان پرنٹروں کی مدد سے پورے کے پورے طیارے بھی بنانے لگیں گے۔

  • چاند پر چہرہ نما گڑھا لاوے سے بنا ہے، سائنسدان کا انکشاف

    چاند پر چہرہ نما گڑھا لاوے سے بنا ہے، سائنسدان کا انکشاف

    نیویارک: سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ چاند کی سطح پر انسانی چہرے کی مانند نظر آنے والا گڑھا دراصل وہاں آتش فشاں کے لاوے سے بنا تھا نہ کہ کسی ایسٹر ائڈیا سیارچے کے گرنے سے بنا۔

    چاندکی سطح پر ایک ”بیسن“ یعنی گہرا گڑھا ہے، جسے اگر سطح زمین سے دیکھا جائے تو وہ کسی انسانی چہرے کی طرح دکھائی دیتا ہے، پہلے سے لگائے جانے والے اندازوں کے برعکس آتش فشاں کے لاوے سے بنا ہے۔

    نیچر نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے نتائج میں سامنے آئی ہے، یہ گڑھا قریب 3000 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

    اب سے پہلے تک سائنسدانوں کی طرف سے لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ چاند کی سطح پر یہ منفرد خصوصیت کسی بہت بڑے سیارچے کے گرنے کے نتیجے میں نمودار ہوئی تھی اور یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا، جب چاند قدرے نیا تھا۔

  • فرانس: بجلی پیدا کرنے کے لیے مصنوعی درخت کی ایجاد

    فرانس: بجلی پیدا کرنے کے لیے مصنوعی درخت کی ایجاد

    فرانس: فرانسیسی ماہرین نے بجلی پیدا کرنے کیلئے مصنوعی درخت تیار کر لیا ہے۔

    لوڈشیڈنگ سے پریشان افراد کیلئے خوشخبری ہے کہ اب وہ بجلی مصنوعی درخت کی مدد سے پیدا کرسکیں گے، فرانسیسی ماہرین نے بجلی پیدا کرنے کیلئے ایسا مصنوعی درخت تیار کر لیا جو ہوا کے ذریعے بجلی بنا سکتا ہے، درخت میں لگے مصنوعی پتے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

    مصنوعی درخت سے پیدا ہونے والی بجلی عمارتوں ، اسٹریٹ لائٹس، گاڑی کی بیٹری چارجنگ اور دیگر کئی اشیاء کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے، ماہرین کے مطابق لوگوں کی سہولت کیلئے تیار کیا گیا یہ مصنوعی درخت اگلے سال فروخت کیلئے پیش کیا جائے گا، جس کی قیمت تئیس ہزار پاونڈز ہوگی۔

  • یونانی سائنسدانوں نے تیرنے والا روبوٹ آکٹوپس تیارکرلیا

    یونانی سائنسدانوں نے تیرنے والا روبوٹ آکٹوپس تیارکرلیا

    یونان: یونانی سائنسدانوں نے تیرنے والا روبوٹ آکٹوپس تیارکرلیا ہے۔

    یونانی سائنسدانوں نے ایسا روبوٹ آکٹوپس تیار کیا ہے،جو پانی میں تیرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، فاﺅنڈیشن فارریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی نامی ادارے کے تحت بنایا جانے والا یہ روبوٹ آکٹوپس آٹھ مصنوعی بازوﺅں پرمشتمل ہے، جو صرف ایک سیکنڈ میں سات انچ تک پھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹک آکٹوپس سمندر میں موجود مچھلیوں کی اقسام اور آبی ماحولیات کو جانچنےکیلئے تخلیق کیا گیا ہے۔

  • تھری ڈی ٹیکنالوجی مصنوعی اعضاء کی تیاری میں معاون ثابت ہوگی

    تھری ڈی ٹیکنالوجی مصنوعی اعضاء کی تیاری میں معاون ثابت ہوگی

    تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سےخودساختہانسانی اعضا کی تیاری میں سائنسدانوں کواہم پیش رفت میں ہوئی ہے،مستقبل میں اس سےانسانی مدافعتی نظام کےمطابق اعضاء تیار کیےجاسکیں گے۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں امریکی وچینی سائنسدانوں کی مشترکہ ٹیم تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سےخودساختہ انسانی کی اعضاء کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہےکہ اگر بائیوفیبریکشن کا تجربہ کامیاب رہا تو بائیلوجیکل انک کو نوزل سے تھری ڈی پرنٹر میں استعمال کرکے خود ساختہ انسانی اعضاء تشکیل دیئے جاسکیں گے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسان کا مدافعتی نظام کسی ڈونرکےعطا کردہ اعضا کو مسترد کرسکتا ہے،لیکن تھری ڈی پرنٹنگ سے تیارکردہ خودساختہ اعضا انسان کےمدافعتی نظام کےعین مطابق ہوگا۔