Tag: scientists

  • سائنسدانوں نے پھول سے خوبصورت ہیرا بنا لیا ‌: حیرت انگیز ایجاد

    سائنسدانوں نے پھول سے خوبصورت ہیرا بنا لیا ‌: حیرت انگیز ایجاد

    بیجنگ : چینی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مخصوص پھول کی مدد سے دنیا کا پہلا مصنوعی ہیرا تیار کرلیا ہے۔

    مصنوعی ہیروں میں مہارت رکھنے والی کمپنی کی جانب سے گزشتہ روز ہینان صوبے کے شہر لیونگ یانگ میں اس ہیرے خوبصورت کی نقاب کشائی کی گئی۔

    Diamond

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ دنیا کا پہلا مصنوعی ہیرا ہے جو پیونی پھول سے حاصل ہونے والے کاربن عناصر سے بنایا گیا ہے۔

    چین میں مصنوعی ہیرے کی تیاری میں مہارت رکھنے والی لویانگ ٹائم پرومس کمپنی کو اس ہیرے کی تیاری کے لیے لویانگ نیشنل پیونی گارڈن نے یہ پیونی پھول گزشتہ ماہ فراہم کیے جس میں 50 سال پرانے پھول بھی شامل تھے۔

    3قیراط کا یہ ہیرا لوئیانگ کے نیشنل فلاور گارڈن کے سرخ پیونی سے حاصل کیا گیا تھا اور اسے لوئیانگ نیشنل پیونی گارڈن کو عطیہ کردیا گیا ہے۔

    Scientists

    چینی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کاربن مختلف عناصر سے حاصل کیا جا سکتا ہے جس میں بال، ہڈیاں اور یہاں تک کہ پھول بھی شامل ہیں۔

    ان عناصر کو مخصوص ڈیوائس میں ڈالا جاتا ہے جہاں ان کے درمیان موجود کیمیکل بانڈنگ ٹوٹ جاتی ہے پھر ان عناصر کو ہیرے کے ڈھانچے میں ڈھالا جاتا ہے بعد ازاں ہائیڈرو کاربن کو ایک طاقتور ری ایکٹر میں ڈال کر زیادہ گرمی اور دباؤ ڈالا جاتا ہے، اس طرح وہ عناصر ہیرے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

    یاد رہے کہ پیونی ایک خوبصورت پھول ہے جو کسی حد تک گلاب کے پھول سے مشابہت رکھتا ہے اسی وجہ سے اسے گلاب کا متبادل بھی کہا جاتا ہے، اس پھول کو چین اور جاپان میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔

    دیگر سرخ پھولوں کی طرح پیونی بھی محبت کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ چینی ثقافت میں، سرخ رنگ خوشی اور قسمت کی علامت سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے چین کے سائنسدانوں نے اس پھول کو خشک کرکے اس کے کاربن سے یہ شاہکار تخلیق کیا ہے۔

  • ڈائنو سار سے مشابہت رکھنے والا خوفناک پرندہ دریافت

    ڈائنو سار سے مشابہت رکھنے والا خوفناک پرندہ دریافت

    ماہرین آثار قدیمہ نے یہ انکشاف کرکے سب کو حیران کردیا ہے کہ انہوں نے چین میں تحقیق کے دوران ایک ایسا پرندہ دریافت کیا ہے جو دیکھنے میں ڈائنوسار سے کافی مشابہت رکھتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جنوب مشرقی چین میں 148 سے 150 ملین سال قبل ایک عجیب و غریب مرغ کے سائز کا لمبی ٹانگوں اور بازوؤں والا پرندوں جیسا ڈائنوسار بھی تھا۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس مخلوق میں ایک حیران کن اناٹومی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یا تو تیز بھاگنے والا تھا یا جدید لمبی ٹانگوں والے پرندوں جیسا طرز زندگی رکھتا تھا۔

    پرندہ

    سائنس دانوں نے کہا کہ انہوں نے صوبہ فوجیان میں جراسک دور کے ایک ڈائنوسار کا فوسل دریافت کیا ہے، جسے انہوں نے ’فوجیانوینیٹر پروڈیگیوسس‘ کا نام دیا ہے۔ سائنس دانوں یہ اہم دریافت پرندوں کی ابتدائی تاریخ کے اہم ارتقائی مراحل کا اشارہ دیتی ہے۔

    چائنیز اکیڈمی کے انسٹی ٹیوٹ آف ورٹیبریٹ پیلیونٹولوجی اینڈ پیلیو اینتھروپولوجی کے مطالعہ کے رہنما من وانگ جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی نے وضاحت کی کہ فوزیانوینیٹر کی درجہ بندی اس کے عجیب و غریب ڈھانچے کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم پرندوں کی تعریف کیا کرتے ہیں۔

    جب فوزیانوینیٹر کو بیان کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو وانگ نے جواب دیا کہ میں اسے عجیب کہوں گا کیونکہ یہ کسی بھی پرندے سے ملتا جلتا نہیں ہے۔

    فوسل جو گذشتہ اکتوبر میں دریافت ہوا تھا، کافی حد تک مکمل ہے لیکن اس میں جانور کی کھوپڑی اور اس کے پاؤں کے کچھ حصے نہیں ہیں، جس کی وجہ سے اس کی خوراک اور طرز زندگی کی تشریح کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

    اس کی لمبی ٹانگوں والی اناٹومی کی بنیاد پر محققین نے دو ممکنہ طرز زندگی کا اندازہ لگایا ہے۔ یہ یا تو دوڑتا تھا یا پھر جدید بگلوں کی طرح دلدلی ماحول میں گھومتا تھا، وانگ نے مزید کہا کہ میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بھاگنے والا پرندہ تھا۔

    ڈائنوسار کے ارتقاء میں ایک قابل ذکر واقعہ اس وقت پیش آیا جب تھیروپوڈس کے نام سے جانے جانے والے نسب سے چھوٹے پنکھوں والے دو ٹانگوں والے ڈائنوسار نے جراسک کے آخر میں پرندوں کو جنم دیا، جس میں قدیم ترین پرندہ – آرکیوپٹریکس – تقریباً 150 ملین سال پہلے جرمنی میں موجود تھا۔

    سائنس دان پرندوں اور غیر ایویئن ڈائنوسار کی اصلیت کے بارے میں بہتر تفہیم کے خواہاں ہیں جن میں پرندوں جیسی خصوصیات تھیں، جبکہ پرندوں کی تاریخ کے ابتدائی باب اب بھی فوسلز کی کمی کی وجہ سے مبہم ہیں۔

    یاد رہے کہ آرکیوپیٹرکس کے بعد ایک کوّے کے سائز کے پرندے کے فوسل پہلی بار 19ویں صدی میں ملے تھے جس کے دانت، لمبی ہڈی کی دم اور کوئی چونچ نہیں ہے۔ اس کے بعد کے پرندوں کے فوسل ریکارڈ میں ظاہر ہونے سے پہلے تقریباً 20 ملین سال کا وقفہ ہے۔

  • اہرام مصر کا ایک اور راز دریافت!

    اہرام مصر کا ایک اور راز دریافت!

    دنیا کے عجائبات میں شامل اہرام مصر کے سب سے بڑے ہرم گیزہ میں نئی دریافت ہوئی ہے جس سے اس ہرم کے بارے میں مزید جاننے کا راستہ کھل گیا۔

    صدیوں پرانے اہرام مصر ہمیشہ سے لوگوں اور سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے، ہزاروں سال پرانے اہرام مصر کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے اور اس کو جاننے کے لیے مسلسل تحقیقی کام ہوتا رہتا ہے۔

    گیزہ کا عظیم ہرم عرصے سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے اور دہائیوں سے ماہرین اس کے اندر کھوج کرتے رہے ہیں۔

    اب مصر کے محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے گیزہ کے عظیم ہرم میں ایک حیرت انگیز دریافت کا اعلان کیا گیا ہے، حکام کے مطابق ہرم کے مرکزی داخلی راستے کے پیچھے چھپی 9 میٹر طویل راہداری کو دریافت کیا گیا ہے۔

    مصری حکام نے بتایا کہ اس دریافت سے گیزہ کے عظیم ہرم کے بارے میں مزید جاننے کا راستہ کھل جائے گا۔

    یہ دریافت سکین پیرامڈز نامی سائنسی پراجیکٹ کے دوران ہوئی جس کے لیے 2015 سے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے ہرم کے اندرونی حصوں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔

    مصری حکام نے بتایا کہ یہ نامکمل راہداری ممکنہ طور پر مرکزی داخلی راستے پر ہرم کے اسٹرکچر کے وزن کا دباؤ کم کرنے کے لیے تعمیر ہوئی یا یہ کسی ایسے چیمبر کی جانب جاتی ہوگی جو اب تک دریافت نہیں ہوسکا۔

    خیال رہے کہ گیزہ کا عظیم ہرم زمانہ قدیم کے 7 عجائبات میں شامل واحد عجوبہ ہے جو اب بھی دنیا میں موجود ہے اور اسے نئے 7 عجائبات عالم کا حصہ بھی بنایا گیا ہے۔

    اسے 2560 قبل میسح میں فرعون خوفو کے عہد میں تعمیر کیا گیا تھا۔

  • جاپانی سائنسدانوں کا کارنامہ : خشک خلیوں سے کلون شدہ چوہے تیار

    جاپانی سائنسدانوں کا کارنامہ : خشک خلیوں سے کلون شدہ چوہے تیار

    ٹوکیو : جاپانی سائنسدانوں نے حیرت انگیز طور پر منجمد خشک خلیوں کا استعمال کرتے ہوئے کلون شدہ چوہوں کو تیار کیا ہے۔

    یہ نمونے عام طور پر مائع نائٹروجن کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی کم درجہ حرارت پر رکھے جاتے ہیں، کلون شدہ چوہوں کے مقابلے میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والے چوہوں نے زیادہ تعداد میں بچوں کو جنم دیا۔

    اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں معدومیت میں تیزی آرہی ہے اور موسمیاتی تبدیلی اور انسانی اثرات کی وجہ سے کم از کم دس لاکھ انواع ختم ہوسکتی ہیں۔

    اس تناظر کے پیش نظر مستقبل میں ان کو معدومیت سے بچانے کیلئے کلوننگ کے ذریعے ان کی حفاظت کی جائے گی اور خطرے سے دوچار ان جانوروں کی نسلوں کو محفوظ کرنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جارہی ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سائنس دانوں نے منجمد خشک جلد کے خلیات سے چوہوں کا کلون بنانے کا طریقہ دریافت کیا جس سے دنیا کو خطرے سے دوچار جانوروں کی آبادی کو بحال کرنے میں مدد کے لیے ایک نیا آپشن پیش کیا گیا ہے۔

    جاپان کی یاماناشی یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کیے جانے والے تجربے میں چوہے کی دم سے جلد کے خلیات حاصل کرکے اس کو منجمد کرکے خشک کیا گیا جسے نو ماہ تک محفوظ کیا گیا تھا۔

    منجمد خشک چوہے: کس طرح ایک نئی تکنیک تحفظ میں مدد کر سکتی ہے۔ - Urdu Medium

    انہوں نے دو قسم کے چوہوں کے خلیات کا تجربہ کیا جس سے یہ معلوم ہوا کہ منجمد خلیہ خشک کرنے سے وہ ہلاک ہوجاتے ہیں اور ڈی این اے کو خاصا نقصان پہنچتا ہے۔

    سائنسدانوں نے اسٹیم سیل لائنیں نکالیں جن کا استعمال وہ 75 کلون شدہ چوہوں کو بنانے کے لیے کرتے تھے، ان چوہوں میں سے پہلا ایک سال اور دسرا چوہا نو ماہ تک زندہ رہا۔ پہلے کلون شدہ چوہے کا نام ڈوریمون کے نام پر رکھا گیا تھا۔

    پہلا کلون شدہ چوہا جس کا نام ڈوریمون ہے (بچوں کے مشہور کارٹون شو ڈوریمون کے نام پر رکھا گیا ہے) اس کے بعد 74 مزید چوہے پیدا ہوئے۔

    اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا کلون شدہ چوہوں میں بچے پیدا کرنے کی کتنی صلاحیت ہے، نو مادہ اور تین نرعام چوہوں کے ساتھ پالے گئے تھے۔

  • بھارت اور چین پر وبائی امراض کے حملے کا خطرہ

    بھارت اور چین پر وبائی امراض کے حملے کا خطرہ

    گرم موسم کی وجہ سے پگھلتے گلیشیئرز جہاں بہت سے نقصانات کا سبب بن رہے ہیں، وہیں ماہرین نے ایک اور بڑے خطرے کی طرف اشارہ کردیا ہے جو بھارت اور چین کو لاحق ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے گلوبل وارمنگ کے باعث تیزی سے گلیشیئرز پگھلنے کے نتیجے میں بھارت اور چین کو لاحق خطرات سے خبردار کردیا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ تبت کے گلیشیئرز پر وبائی امراض کی صلاحیت رکھنے والے 968 نامعلوم جرثومے دریافت ہوئے ہیں جو امراض پھیلانے کا مؤجب بن سکتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر خطرناک بیکٹیریا کا اخراج چین اور بھارت کو متاثر کرسکتا ہے اور ان جرثوموں میں نئی ​​وبائی بیماریاں پیدا کرنے کی بھی صلاحیت موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: پگھلتی برف سے وائرسز اور بیماریوں کا پنڈورا بکس کھل جائے گا

    ایک تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر جرثوموں کی 968 اقسام کی شناخت کی گئی ہیں جن میں سے کچھ سائنس کے علم میں تھیں تاہم، 98 فیصد اقسام نامعلوم ہیں۔

    سائنسدانوں کو تشویش ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں گلیشیئرز پگھلنے سے خطرناک جرثومے خارج ہو سکتے ہیں اور تبت کے گلیشیئر سے آنے والا پانی وبائی امراض کو جنم دے سکتا ہے کیونکہ یہ چین اور بھارت میں بالترتیب دریائے زرد، یانگسی اور گنگا کو پانی فراہم کرتا ہے۔

    گزشتہ سال کے سیٹلائٹ تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً تمام گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے دنیا بھر میں خطرناک پیتھوجینز کے اخراج کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔

  • ہوا میں موجود ڈی این اے کو کیسے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ سائنسدانوں نے بتا دیا

    ہوا میں موجود ڈی این اے کو کیسے ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ سائنسدانوں نے بتا دیا

    لندن : سائنسدانوں نے ہوا میں موجود ڈی این اے کو ٹریس کرنے کا طریقہ معلوم کر لیا، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے جرائم کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق برطانوی اور ڈینیش سائنسدانوں نے ایک ایسا طریقہ ایجاد کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کی مدد سے ہوا میں موجود ڈی این اے کے نمونے کو ٹریس کیا جا سکے گا۔

    رپورٹ کے مطابق پروفیسر الزبتھ کلیئر نے ایک چڑیا گھر میں اس نئے طریقے سے جانوروں کے ہوا مین موجود ڈی این کے نمونے حاصل کیے۔

    پروفیسر الزبتھ اور ان کی ٹیم نے ویکیوم پمپ سے منسلک حساس فلٹرز ایک چڑیا گھر میں بیس مختلف مقامات پر رکھے، سائنسدانوں کی ٹیم کو اس طریقے سے ڈی این اے کے سترسے زائد نمونے حاصل ہوئے۔

    سائنسدانوں نے فلٹرز سے حاصل کیے گئے ڈی این اے کے نمونے میں پی سی آر ٹیسٹ کے زریعے بڑھا دیا۔ اس طریقے سے الزبتھ اور ان کی ٹیم کو سترہ مختلف جانوروں کا ڈی این اے حاصل ہوا۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہوا میں ڈی این اے کے زرات حاصل کرنے کا طریقہ ایجاد ہونے سے جنگلی حیات کا زیادہ بہتر طریقے سے مطالعہ کیا جا سکے گا، اور جانوروں کو تنگ کیے بغیر ان کا ڈی این اے حاصل کیا جا سکے گا۔

    سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طریقے سے جرائم کی روک تھام میں بھی مدد ملے گی اور فضاء میں موجود مجرموں کے ڈی این اے حاصل کرکے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے گا۔

  • ڈریگن مین : ڈیڑھ لاکھ سال قدیم مخلوق سے متعلق نئے انکشافات

    ڈریگن مین : ڈیڑھ لاکھ سال قدیم مخلوق سے متعلق نئے انکشافات

    آپ نے ڈریگن کا نام تو سنا یا اس کا تصوراتی چہرہ فلموں میں دیکھا ہوگا، لیکن اب ماہرین نے ڈیڑھ لاکھ سال قدیم انسان سے متعلق نئے انکشافات کر دیے ہیں۔ جسے سن کر آپ حیرت کے سمندر میں ڈؤب جائیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی یونیورسٹی کے ماہرین نے 1930 میں چین سے ملنے والی انسانی کھوپڑی پر مزید تحقیق کی تھی۔ زمانہ قدیم کے ڈریگن مین کی آنکھیں مربع شکل اور منہ بڑا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ڈریگن مین نامی اس دور کے انسان کا دماغ آج کے انسان سے ملتا جلتا ہے تاہم اس کے آئی سوکٹ مربع شکل کے تھے، اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ سال پہلے زمین پر موجود اس انسان کے دانت بھی بڑے تھے۔

    یاد رہے کہ چند ماہ قبل مشرقی کینیا کی ایک غار میں چھوٹے بچے کی ہڈیاں ملی تھیں جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ یہ افریقہ میں سب سے قدیم تدفین ہے۔

    نیچر نامی جریدے میں بدھ کو شائع ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق اس بچے کی عمرڈھائی سے 3 سال کے درمیان تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی باقیات تقریباً 8ہزار سال پرانی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دستیاب شواہد بتاتے ہیں کہ اس بچے کی تدفین منظم انداز میں کی گئی تھی اور شاید اس کے جنازے میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوئی تھی۔

    باقی رہ جانے والی ہڈیوں سے معلوم ہوتا ہے۔ بچے کو دائیں طرف رخ کرکے لٹایا گیا تھا، ٹانگیں جوڑ کر سینے کی طرف اکٹھی کی گئی تھیں۔ محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ جسم کو کفن(شاید پتے یا جانوروں کی کھال) میں مضبوطی سے لپیٹا گیا تھا۔

  • پلاسٹک کی بوتلوں کا حیرت انگیز اور ذائقہ دار استعمال

    پلاسٹک کی بوتلوں کا حیرت انگیز اور ذائقہ دار استعمال

    لندن : برطانوی سائنسدانوں نے استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ونیلا کے ذائقہ میں تبدیل کرنے کیلئے تحقیق پر کام شروع کردیا ہے، اس تجربے کے نتیجے میں کاسمیٹکس دواسازی ، صفائی ستھرائی کے سامان میں استعمال کیا جاسکےگا۔

    پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتلوں کی وجہ سے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر آلودگی پھیل رہی ہے اس نے نہ صرف انسانوں بلکہ اب جانوروں کی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔

    برطانوی جریدے گرین کیمسٹری میں تحقیق کے شائع ہونے والے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں کو ونیلا کے ذائقہ میں تبدیل کرنے کیلئے ویلین نامی کیمیکل استعمال کیا جائے گا۔

    پلاسٹک کی لعنت سے نمٹنے کی کوشش میں سائنس دانوں نے پہلے سے ہی ٹیلیفیلک ایسڈ (ٹی اے) اتپریٹک انزائم تیارکرلئے تھے جو بوتلوں کے لئے بنیادی اکائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے

    محققین نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے ٹیلیفیلک ایسڈ (ٹی اے) کو وینلن میں تبدیل کرنے کے لئے بیکٹیریا استعمال کیے ہیں۔وینلن ایک ایسا کیمیکل ہے جو کھانے اور کاسمیٹکس کی صنعت میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے اسے دواسازی ، صفائی ستھرائی کے سامان اور جڑی بوٹیوں سے دوچار ایک اہم کیمیکل بھی سمجھا جاتا ہے۔

    وینلن کی طلب میں گذشتہ کچھ سالوں میں اضافہ ہوا ہے، اعدادوشمار کے مطابق اس کی طلب سال 2018 میں 37،000 ٹن تک پہنچ گئی ہے۔ اس تحقیق کی اہمیت یونیورسٹی آف ایڈنبرا کی جوانا سڈلر نے بھی بیان کی ہے۔

    جوانا سڈلر نے کا کہنا ہےکہ پلاسٹک کے فضلے کو قیمتی صنعتی کیمیائی شکل میں استعمال کرنے کے لئے حیاتیاتی نظام کو استعمال کرنے کی یہ پہلی مثال ہے اور اس کے معیشت پر بہت موثر اور دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق کے نتائج پلاسٹک کے استحکام کے میدان میں بڑے اثرات مرتب کرتے ہیں اور مصنوعی حیاتیات کی طاقت کو حقیقی دنیا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ظاہر کرتے ہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج اب جریدے گرین کیمسٹری میں شائع ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں اگلے مرحلے میں سائنس دان اس کی شرح کو مزید بڑھانےکے لئے بیکٹیریا کو مزید موافقت دینے کی کوشش کریں گے۔

  • کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس شوگر کا مریض بھی بنا سکتا ہے؟

    کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف جسمانی مسائل سامنے آچکے ہیں، اب حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کا شکار افراد ذیابیطس یا شوگر کے مریض بھی بن سکتے ہیں۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کووڈ 19 نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کے لیے جان لیوا ثابت ہونے والے والا مرض ہے بلکہ یہ متعدد مریضوں میں اس میٹابولک بیماری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔

    ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایسے افراد کو ذیابیطس کا شکار بنارہا ہے جو اس سے پہلے اس بیماری کے شکار نہیں تھے۔

    یہ واضح نہیں کہ کووڈ سے لوگوں میں ذیابیطس کا عارضہ کیوں ہوسکتا ہے مگر کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ سارس کووڈ 2 وائرس ممکنہ طور لبلبے کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    لبلبہ ایک ہارمون انسولین کو بناتا ہے جو خون میں موجود شکر کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے اور اس میں مسائل سے ذیابیطس کا مرض ہوسکتا ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 46 کروڑ سے زائد ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ کووڈ کی اس غیرمعمولی پیچیدگی سے اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے محکمہ ویٹرنز افیئرز کے نیشنل ہیلتھ کیئر ڈیٹابیس سے شواہد اکٹھے کیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں آئندہ 6 ماہ کے دوران ذیابیطس کی تشخیص کا امکان 39 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق کووڈ سے معمولی بیمار رہنے والے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا، ان میں سے ہر ایک ہزار میں سے 6.5 میں ذیابیطس کا خطرہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح اسپتال میں زیرعلاج رہنے والے ہر ایک ہزار میں سے 37 مریض ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں اور یہ شرح ان مریضوں میں زیادہ ہوسکتی ہے جن کو آئی سی یو میں زیر علاج رہنا پڑا ہو۔

    کووڈ کے مریضوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ شرح معمولی نہیں کیونکہ دنیا بھر میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد 15 کروڑ سے زیادہ ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ کے مریضوں میں ذیابیطس کی ممکنہ وجہ لبلبے کے انسولین بنانے والے خلیات کا تباہ ہونا ہے جو یا تو کرونا وائرس کا اثر ہے یا کووڈ کے خلاف جسمانی ردعمل اس کا باعث بنتا ہے۔

    ابھی یہ واضح طور پر کہنا مشکل ہے کہ کووڈ 19 ہی ذیابیطس کا باعث بنتا ہے، تاہم اس حوالے سے ڈیٹا سے کرونا کی وبا کے اس اثر کو جانچنے میں مدد مل سکے گی۔

  • دانتوں سے محروم افراد کے لیے علاج دریافت

    دانتوں سے محروم افراد کے لیے علاج دریافت

    دنیا بھر میں لاکھوں لوگ دانتوں کی تکلیف کا شکار ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو نقلی دانت استعمال کرتے ہیں جنہیں ڈینچرز یا بتیسی کہا جاتا ہے، تاہم اب ماہرین نے ممکنہ طور پر دانتوں سے محرومی کا علاج دریافت کرلیا ہے۔

    جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی کے ماہرین نے ایسی ٹریٹ منٹ ایجاد کی ہے جس سے دانت دوبارہ نکل سکتے ہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج سائنس ایڈوانس نامی جریدے میں شائع ہوئے، تحقیق کے مطابق ماہرین نے ایک ایسے جین پر کام کیا ہے جو دانتوں کی نشونما کا ذمہ دار ہے۔

    اس جین کو فعال کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی دی جاتی ہے جس کے بعد دانت دوبارہ سے نکلنے لگتے ہیں۔

    ماہرین نے اس ٹریٹ منٹ کی آزمائش چوہوں پر کی جن کے ٹوٹے ہوئے دانت دوبارہ سے نکل آئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہوں کے دانتوں کی ساخت انسانی دانتوں کی ساخت سے ملتی جلتی ہے۔ اب اگلے مرحلے میں وہ اس کا تجربہ کتوں اور سؤر پر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔