Tag: scientists

  • کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    کیا زمین پر کسی آفت کی صورت میں یہاں موجود زندگی کو بچایا جاسکتا ہے؟

    اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہوئی تو کیا اس وقت زمین پر موجود تمام جاندار ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے؟ شاید ماہرین نے اب اس سوال کا جواب نفی میں دے دیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت دنیا بھر میں پائے جانے والے 67 لاکھ جانداروں کے ڈی این اے نمونے کشتی نوح کی طرح چاند پر محفوظ کیے جائیں گے۔

    سائنسدانوں نے اسے ماڈرن گلوبل انشورنس پالیسی قرار دیا ہے جس کے تحت تمام جانداروں کے بیج، اسپرمز اور بیضے چاند کی سطح کے نیچے ایک والٹ میں محفوظ کیے جائیں گے۔

    امریکا کی ایری زونا یونیورسٹی کے 6 سائنسدانوں نے یہ منصوبہ مارچ کے آغاز میں انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونکس انجنیئرز ایرو اسپیس کانفرنس کے دوران پیش کیا، جہاں ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے انسانوں کو معدوم ہونے سے بچانے مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کو لونر آرک کا نام دیا گیا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگر زمین پر کسی تباہ کن وبا، سپر آتش فشاں کے پھٹنے، بڑے پیمانے پر جوہری جنگ، عالمی قحط سالی یا سیارچے کے گرنے سے تباہی ہو تو یہ منصوبہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کو معدوم ہونے سے بچا سکے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ زمین کا ماحول قدرتی طور پر کمزور ہے، مگر چاند پر زمینی حیات کے ڈین این اے نمونوں کو محفوظ کرنے سے کسی بہت بڑے سانحے سے جانداروں کی اقسام معدوم ہونے پر بچایا جاسکے گا۔

    ویسے تو یہ خیال کسی سائنس فکشن ناول یا فلم کا لگتا ہے، مگر اسے پیش کرنے والے سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ 67 لاکھ جانداروں کے اسپرم، بیضے اور بیجوں کو چاند پر محفوظ کرنا قابل عمل آپریشن ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان نمونوں کو ڈھائی سو خلائی پروازوں کے ذریعے چاند پر پہنچایا جاسکے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن کی تعمیر کے لیے 40 پروازوں کی ضرورت ہوگی۔

    ان نمونوں کو چاند کی سطح کے نیچے منجمد ہونے یا ایک دوسرے سے جڑنے سے بچانے کے لیے سائنسدانوں نے اس والٹ کو سولر پینلز سے پاور فراہم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منصوبوں سے انسانیت کو خلائی تہذیب بنانے میں پیشرفت ہوگی اور مستقبل قریب میں چاند اور مریخ پر انسانوں کے بیسز ہوں گے۔

    اس طرح کے منصوبے کے لیے چاند پر مرکز بنانا بہت بڑا لاجسٹک چیلنج ہے مگر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے چاند پر بھیجے جانے والے مشنز سے اس طرح کے تعمیراتی منصوبوں کی بنیاد رکھنے میں مدد ملے گی۔

    اس منصوبے کے لیے کھربوں ڈالرز درکار ہوں گے مگر سائنسدانوں کے خیال میں اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی شراکت داری سے ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس منصوبے کو 10 سے 15 سال میں مکمل کیا جاسکتا ہے۔

  • کورونا وائرس پوری طرح کب ختم ہوگا؟ سائنسدانوں نے بتا دیا

    کورونا وائرس پوری طرح کب ختم ہوگا؟ سائنسدانوں نے بتا دیا

    کراچی : کورونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں اربوں لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے اپنے گھروں میں بند ہیں، معیشتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور کروڑوں افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ مگر کیا یہ وبا کبھی ختم ہوگی یا اس کے خاتمے میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے۔

    اس حوالے سے سائنسدانوں نے اپنی ایک اسٹڈی میں وہ تاریخ بتائی ہے جس کے بعد کچھ ممالک میں کورونا وائرس کی وبا پوری طرح سے ختم ہوجائےگی۔‌ سنگاپور کے کچھ محققین نے کہا ہے کہ 30 ستمبر کے بعد برطانیہ میں کورونا وائرس پوری طرح ختم ہوجائے گا۔

    سنگاپور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ ڈیزائن نے اپنے تجزیئے کے بعد تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگلے چار مہینے میں برطانیہ میں کوروناوائرس پوری طرح ختم ہوجائے گا۔

    سائنسدانوں کی ٹیم نے تاریخ کا اندازہ 7 مئی تک کا لگایا ہے۔ اس وقت تک برطانیہ میں کوروناوائرس کسے متاثرہ 30 ہزار لوگوں کی اموات ہو چکی ہے۔

    اس کے علاوہ سائنسدانوں نے کچھ اور ممالک میں بھی کورونا وائرس پوری طرح سے ختم ہونے سے متعلق پیشن گوئی کی ہے۔ 8 مئی کو کچھ دوسرے ملکوں لے حوالے سے بھی پیشن گوئی کی ہے۔

    سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ اٹلی میں 24 اکتوبر تک کورونا وائرس پوری طرح سے ختم ہوجائے گا۔ امریکہ میں 11 نومبر تک وائرس ختم ہوپائے گا۔

    اسی طرح سے سنگاپور میں 27 اکتوبر تک کووڈ 19 کا پھیلاؤ ختم ہوجائے گا۔ اس پیشن گوئی کے بعد سائنسدانوں نے لوگوں کو مکمل احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

    انہوں نے کہا ہے کہ کچھ معاملات میں کورونا وائرس کے خاتمے کی تاریخ بتانا خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ اس سے لوگ لاپرواہ ہوسکتے ہیں۔ وہ وائرس سے بچاؤ کیلئے جاری کی گئی ہدایات کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔

    جس کی وجہ سے صورتحال مشکلہوسکتی ہے جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماہ جون میں برطانیہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی اموات ختم ہوجائیں گی۔

  • کورونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے خوفناک پیش گوئی

    کورونا وائرس کی نئی قسم کے حوالے سے خوفناک پیش گوئی

    سان فرانسسکو : سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ کورونا کی ایک نئی قسم اس سے زیادہ خوفناک ہے، دنیا بھر میں اس کا اثر و رسوخ بڑھ سکتاہے۔

    اس حوالے سے لاس اینجلس ٹائمز نے بایو آرکسیو پر شائع ہونے والی 33 صفحات پر مشتمل ایک نئی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ یہ نئی لہر رواں سال فروری میں یورپ میں پہلی بار سامنے آئی، پھر یہ تیزی سے ہجرت کرکے مشرقی ساحل کی جانب چلی گئی۔

    سائنس دانوں نے کہنا ہے کہ یہ نئی کشیدہ صورتحال اب پوری دنیا میں غالب ہے اور مارچ کے وسط سے اسی طرح سے چل رہی ہے۔ لاس الاموس ریسرچ لیبارٹری کے سائنسدانوں کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ یہ نئی لہر تیزی سے پھیلتی ہے اور اس بیماری سے متاثر ہونے والے پہلے چکر کے بعد لوگوں کو دوسرے انفیکشن کا خطرہ بن سکتا ہے۔

    یہ وائرس ان لوگوں پر بہت تیزی سے اثر انداز ہورہا ہے جو اس سے قبل کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، خبر کے مطابق یہ مطالعہ حال ہی میں سائنس دانوں کے ساتھ اشتراک عمل کو تیز کرنے کی کوشش میں شائع کیا گیا ہے جو کوویڈ 19کے ویکسین یا علاج پر کام کر رہے ہیں۔

    سائنس دانوں کا مزید کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے لئے ایک ویکسین ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک تیار کرلی جائے گی۔

  • کرونا وائرس کا علاج: ایک اور دوا کے بارے میں ماہرین کا دعویٰ سامنے آگیا

    کرونا وائرس کا علاج: ایک اور دوا کے بارے میں ماہرین کا دعویٰ سامنے آگیا

    ملیریا کی دوا کلورو کوئن کے کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ہونے کے دعوؤں کے بعد، آسٹریلوی ماہرین نے ایک اور دوا کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جوڑوں کے درد کی دوا ہائیڈرو آکسی کلورو کوئن کرونا وائرس کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

    آسٹریلوی شہر میلبرن کے ماہرین طب کا کہنا ہے کہ قوت مدافعت کو متاثر کرنے والی بیماری لیوپس، اور جوڑوں کے درد آرتھرائٹس (گٹھیا) میں استعمال کی جانے والی دوا ہائیڈرو آکسی کلورو کوئن ممکنہ طور پر کرونا وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔

    ان کے مطابق لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات کے دوران اس دوا نے موذی وائرس کا مکمل خاتمہ کردیا۔

    اب وہ اس کی انسانی آزمائش پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، دوا کی آزمائش 22 سو 50 افراد پر کی جائے گی جن میں ڈاکٹر اور نرسز بھی شامل ہیں۔

    والٹر الیزا ہال انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ڈاؤگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ اس دوا کے نتائج 3 سے 4 ماہ میں سامنے آجائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ دوا اس وائرس کا علاج کر سکتی ہے تاہم یہ بطور ویکسین، یعنی وائرس کے حملہ آور ہونے سے قبل حفاظت کے لیے استعمال نہیں کی جاسکے گی۔

    ڈاکٹر ہلٹن کے مطابق اس دوا کے بہترین اثرات اس وقت سامنے آئیں گے جب مریض اسے روزانہ استعمال کرے گا۔

    خیال رہے کہ ملیریا کی دوا کلورو کوئن کے حوالے سے ایک امریکی سرمایہ کار جیمز ٹوڈرو نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دوا کرونا وائرس کا اہم علاج ثابت ہو رہی ہے تاہم گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ کلورو کوئن کے بارے میں ایسا کوئی ثبوت نہیں جو کرونا کے علاج سے متعلق ہو۔

    کلورو کوئن 85 سال پرانی دوا ہے جسے جنگ عظیم دوم کے وقت استعمال کیا گیا تھا، یہ سنکونا درخت کی چھال سے تیار کی جاتی ہے اور نہایت کم قیمت دوا ہے۔

  • چینی سائنسدانوں کا کارنامہ، جنیاتی سرجری میں استعمال کیلئے نیا آلہ ایجاد کرلیا

    چینی سائنسدانوں کا کارنامہ، جنیاتی سرجری میں استعمال کیلئے نیا آلہ ایجاد کرلیا

    شنگھائی : چینی سائنس دانوں نے جین کی درستگی اور ترمیم کے استعمال کے لیے نیا آلہ ایجاد کرلیا جسے جین ایڈیٹنگ ٹول قرار دیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چین کے سائنسدانوں کی ٹیم نے جین کی درستگی اور ترمیم کے استعمال کے لئے نیا آلہ ایجاد کیا ہے جسے پہلے سے موجود آلات سے زیادہ محفوظ اور بااعتماد ”جین ایڈیٹنگ ٹول“قرار دیا جا رہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس کی مدد سے جینیاتی سرجریز کے دورانیہ کو مزید کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ سائنسدان اس سے قبل جینوم انجینرنگ کے لئے جنیاتی قینچی یا جنیٹک سیزر استعمال کی جا رہی ہے لیکن پہلے سے استعمال ہونے والی قینچی سے جین کا رینونکل ایسڈ یا آر این اے کے متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق شنگھائی انسٹی ٹیوٹ فار بائیولوجیکل سائنسز کی تحقیقاتی ٹیم جو چائینز اکیڈمی آف سائنسز کے زیر انتظام کام کرتی ہیں کی نئی جنیاتی قینچی نما آلے جس کو اے بی اے (ایف 148۔اے) کا نام دیا گیا ہے،جینز کو زیادہ احتیاط سے کاٹ سکتی ہے اور اس سے آر این اے بھی متاثر نہیں ہوگا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ نیا ایجاد کیا جانے والا آلہ مخصوص جنیاتی بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال ہو سکے گا جیسے کہ تھلیسیمیا نیو کلئیر ڈی جنریشن اور بہرہ پن وغیرہ وغیرہ۔

  • امریکی وسط مدتی انتخابات میں 8 سائنس داں بھی کامیاب

    امریکی وسط مدتی انتخابات میں 8 سائنس داں بھی کامیاب

    واشنگٹن: گزشتہ روز امریکا میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں جہاں کئی ریکارڈ قائم ہوئے وہیں کئی سائنس داں بھی انتخاب جیت کر کانگریس کا حصہ بننے جارہے ہیں۔

    اگلے برس جنوری سے اپنی مدت کا آغاز کرنے والی 116 ویں امریکی کانگریس کو تاریخ کی متنوع ترین کانگریس قرار دیا جارہا ہے۔

    اس میں امریکی تاریخ کی سب سے زیادہ 123 خواتین نمائندگان شامل ہوں گی جن میں پہلی مسلمان خاتون، پہلی صومالی نژاد امریکی خاتون اور پہلی مقامی امریکی خاتون بھی شامل ہیں۔

    اس کے ساتھ ہی اس بار کانگریس میں 8 سائنسدان بھی شامل ہوں گے جن میں سے ایک سینیٹ اور 7 ایوان نمائندگان میں موجود ہوں گے۔

    اس سے قبل گزشتہ کانگریس میں ایک طبیعات داں، ایک مائیکرو بائیولوجسٹ، ایک کیمیا داں، 8 انجینیئرز، اور ایک ریاضی داں شامل تھے۔

    گزشتہ کانگریس میں زیادہ تعداد طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تھی جن میں 3 نرسز اور 15 ڈاکٹرز اس کا حصہ تھے۔

    رواں انتخابات میں گزشتہ کانگریس سے زیادہ سائنسدان کانگریس کا حصہ بننے جارہے ہیں جن کی تعداد 8 ہے۔ ان سائنسدانوں نے اپنی انتخابی مہم ایک غیر سیاسی تنظیم 314 ایکشن کے تعاون سے لڑی ہے۔

    سنہ 2016 میں شروع کی جانے والی یہ تنظیم سائنس کے فروغ کے لیے کوشاں ہے اور سائنس کے طالب علموں کی تعلیم، تربیت اور ان کے منصوبوں کے لیے فنڈنگ مہیا کرتی ہے۔

    314 ایکشن کمیٹی کی صدر شانزی ناٹن کا کہنا ہے کہ سائنسدان دراصل مسائل کو حل کرنے والے ہوتے ہیں لہٰذا زیادہ سے زیادہ سائنسدانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کرنا چاہیئے۔ ‘ان سے بہتر بھلا مشکل مسائل کا حل کون جان سکتا ہے‘؟

    رواں برس فاتح امیدواروں میں کمپیوٹر پروگرامر جیکی روزن، انڈسٹریل انجینیئر کرسی ہولن، اوشین سائنٹسٹ جو کنگھم، بائیو کیمیکل انجینیئر سین کیسٹن، نیوکلیئر انجینیئر ایلینا لوریا، ماہر امراض اطفال کم شائرر اور نرس لورین انڈر ووڈ شامل ہیں۔ مذکورہ بالا تمام امیدواروں کا تعلق ڈیمو کریٹ پارٹی سے ہے۔

    اس کمیٹی کے تعاون سے الیکشن لڑنے والے ری پبلکنز کے واحد سائنسدان کیون ہرن ہیں جو ایرو اسپیس انجینئر ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز کے وسط مدتی انتخابات میں سینیٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ری پبلکن کو برتری حاصل ہوئی جبکہ ایوان نمائندگان ان کی مخالف پارٹی ڈیمو کریٹس کے نام رہا۔

  • انسانی جسم کے اندر قدرتی گھڑی: تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کے نام نوبل انعام

    انسانی جسم کے اندر قدرتی گھڑی: تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کے نام نوبل انعام

    اسٹاک ہوم: دنیا کے معتبر ترین اعزاز نوبل کا طب کے شعبے میں فاتح قرار پانے والوں کے نام کا اعلان کردیا گیا جنہوں نے انسان سمیت تمام جانداروں کے اندر نصب قدرتی ’گھڑی‘ کے بارے میں تحقیق کی۔

    روایت کے مطابق نوبل انعام 2017 (طب اور حیاتیات) کا اعلان کرتے ہوئے مذکورہ سائنس دانوں کی تحقیق کے بارے میں بھی بتایا گیا۔

    طب کا نوبل انعام 3 امریکی سائنسدانوں جیفری سی ہال، مائیکل روز بیش اور مائیکل ینگ کو مشترکہ طور پر دیا جارہا ہے۔

    ان سائنسدانوں نے طب کے شعبے میں اہم سنگ میل قرار دی جانے والی مولیکیولر میکنزم پر تحقیق کی جس پر انہیں نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔


    مولیکیولر میکنزم کیا ہے؟

    طب کے شعبے میں فاتحین کا اعلان کرتے ہوئے مذکورہ سائنس دانوں کی تحقیق کے بارے میں بھی وضاحت کی گئی۔

    ماہرین کے مطابق زمین پر پایا جانے والا ہر جاندار چاہے وہ انسان ہو جانور یا کوئی نباتات، اپنے اندر ایک حیاتیاتی گھڑی رکھتا ہے جو زمین کی گردش کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

    جیسے رات کے وقت نیند آنا، دن کے وقت چاق و چوبند رہنا اسی حیاتیاتی گھڑی کے مطابق ہورہا ہے جو زمین پر موجود حیات کے اندر قدرتی طور پر نصب کی گئی ہے۔

    اس گھڑی کے مطابق ہمارے سونے کے اوقات کار، فشار خون کی سطح، جسمانی درجہ حرارت، اور ہارمونز وغیرہ مقررہ وقت پر مخصوص کام سرانجام دیتے ہیں۔

    ان سائنس دانوں نے اس تمام نظام کے ذمہ دار اس مخصوص جین کو دریافت کیا ہے جس میں دن اور رات میں مختلف تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔

    تینوں فاتحین کو نوبل انعام کی رقم 3 حصوں میں دی جائے گی جبکہ تینوں کو علیحدہ نوبل کا میڈل دیا جائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔